اسماء منصوبہ میں سے چھٹا اسم منصوب حال ہے۔ حال کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں: حال وہ لفظ ہے جو فاعل کی حالت کو  بیان کرتا ہے یا مفعول کی حالت کو بیان کرتا ہے یا فاعل اور مفعول دونوں کی حالت کو بیان کرتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی حال یہ بتاتا ہے کہ فاعل جب اس کام کو انجام دے، اس فعل کو انجام دے رہا تھا، اس وقت اس کی حالت اور هیئت کیا تھی؟ اسی طرح مفعول، حال یہ   بیان کرتا ہے کہ جب اس مفعول به پر فاعل کا  فعل واقع ہو رہا تھا اس مفعول به کی حالت کیا تھی؟ یا پھر دونوں کی حالت کو  بیان کرتا ہے۔ 
آگے فرماتے ہیں: کہ یہ جو فاعل ہوتا ہے، یہ فاعل کبھی کبھی لفظاً موجود ہوتا ہے باقاعدہ اور کبھی لفظی نہیں بلکہ وہ فاعل معنوی ہوتا ہے۔ یعنی فاعل لفظاً بھی ہوتا ہے اور معنیً بھی ہوتا ہے۔ آگے مثال سے واضح ہو جائے گا، اسی طرح مفعول کے بارے میں بھی تقریباً یہی حکم ہے۔ حال کا عامل کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں: حال میں عامل یا فعل ہوتا ہے جب لفظاً موجود ہو یا معنی فعل ہوتا ہے۔ 
 تطبیق
"اَلْحَالُ لَفْظٌ" حال وہ لفظ ہے۔ جو دلالت کرتا ہے "عَلَى بَيَانِ هَيْئَةِ الْفَاعِلِ" فاعل کی هیئت کے بیان پر یعنی حال وہ لفظ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ فاعل جب اس فعل کو انجام دے رہا تھا تو اس فاعل کی هیئت کیا تھی، اس کی حالت کیا تھی، "أَوِ الْمَفْعُولِ بِهِ" یا یہ حال مفعول به کی حالت کو، هیئت کو بیان کرتا ہے کہ جب فاعل کا فعل اس مفعول به پر واقع ہو رہا تھا اس وقت اس کی حالت کیا تھی "أَوْ كِلَيْهِمَا" یا بسا اوقات یہ حال فاعل اور مفعول به دونوں کی حالت کو هیئت کو بیان کرتا ہے۔ اب کچھ مثالیں ہر ایک کی۔
"جَاءَنِي زَيْدٌ رَاكِبًا" یہ پہلی مثال ہے۔ یہاں حال فقط فاعل کی حالت کو بیان کر رہا ہے۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ" میرے پاس آیا زید "رَاكِبًا" درحالانکہ زید سوار تھا یعنی "راکباً" بتاتا ہے کہ زید جو فاعل ہے جب وہ میرے پاس آیا اس کی هیئت کیا تھی؟ اس کی هیئت یہ تھی کہ "راکباً" وہ سوار تھا۔
دوسرے کی مثال جہاں حال مفعول به کی هیئت کو بیان کرتا ہے، فرماتے ہیں : "ضَرَبْتُ زَيْدًا" میں نے مارا زید کو، اب زید مفعول ہے "مَشْدُوْدًا" زید مفعول به کی حالت کو بیان کر رہا ہے کہ جب میں اس کو مار رہا تھا اس کی هیئت کیا تھی "مَشْدُوْدًا" یعنی وہ بندھا ہوا تھا۔
"أَوْ لَقِيْتُ عَمْرًا" اور  تیسری صورت کہ حال فاعل اور مفعول به دونوں کی حالت کو بیان کر رہا ہو۔ "لَقِيْتُ عَمْرًا رَاكِبَيْنِ"۔ "لَقِيْتُ" میں انا اور "عَمْرًا" یہ مفعول ہے۔ یعنی "لَقِيْتُ" میں انا فاعل اور "عَمْرًا" مفعول "رَاكِبَيْنِ" یہ دونوں کی حالت و هیئت کو بیان کر رہا ہے کہ میں نے ملاقات کی عمرو سے "رَاكِبَيْنِ" درحالانکہ ہم دونوں سوار تھے یعنی فاعل کی هیئت بھی یہ تھی کہ وہ سوار تھا اور مفعول کی هیئت یہ تھی کہ وہ بھی سوار تھا۔
اب تھوڑی سی آپ توجہ فرمائیں کہ جاءنی زیدٌ میں زید باقاعدہ لفظاً موجود ہے۔  لفظاً موجود ہے، "وَقَدْ يَكُوْنُ الْفَاعِلُ مَعْنَوِيًّا" کبھی کبھی فاعل لفظاً موجود نہیں ہوتا لیکن معنیً موجود ہوتا ہے لیکن پھر بھی حال اس فاعل کی هیئت کو بیان کر رہا ہوتا ہے۔ پھر بھی اس کی هیئت کو بیان کر رہا ہوتا ہے، مثال یہ ہے: "زَيْدٌ فِي الدَّارِ قَائِمًا" اب اصل میں یہاں یہ زید مبتدا ہے، فی الدار قائماً درحقیقت اصل میں جملہ بنتا ہے  "زیدٌ  اِسْتَقَرَّ فِي الدَّارِ قَائِمًا" اب استقر میں "ھو" کی ضمیر ہے وہ فاعل ہے اور یہ "قائماً" اس کی هیئت کو بیان کر رہا ہے۔ بس یہاں پر فاعل لفظاً نہیں بلکہ فاعل معنوی ہے جو استقر میں ھو کی ضمیر ہے۔ "لِأَنَّ مَعْنَاهُ" چونکہ زید فی الدار قائم کا مطلب ہے یعنی "زَيْدٌ اِسْتَقَرَّ فِي الدَّارِ قَائِمًا" اب استقر میں ھو کی ضمیر ہے وہ فاعل ہے معنیً اور یہ "قائماً" اس کی حالت کو بیان کر رہا ہے۔
"وَكَذَا الْمَفْعُولُ بِهِ" اسی طرح مفعول به میں بھی جیسے "هَذَا زَيْدٌ قَائِمًا" اب یہاں پر مفعول به کہاں پر ہے جو معنوی ہے لفظاً موجود نہیں ہے؟ فرماتے ہیں: "فَإِنَّ مَعْنَاهُ" اب اس کا معنی کیا ہے؟ یعنی "اُشِيْرُ وَاُنَبِّهُ زَيْدًا قَائِمًا"۔ اور  ھذا بمعنی اشیر او انبه ہو گیا، "اُنَبِّهُ زَيْدًا قَائِمًا" تو یہاں پر مفعول به زیداً یعنی جو ابھی ھذا زیدٌ ہے معنیً اصل میں ہے اشیر و زیداً "قَائِمًا"۔ یہاں "قائماً" مفعول به معنوی کی هیئت کو بیان کر رہا ہے۔"اَلْمُشَارُ اِلَيْهِ قَائِمًا هُوَ زَيْدٌ" کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا وہ زید ہے۔
"وَالْعَامِلُ فِي الْحَالِ فِعْلٌ أَوْ مَعْنَى فِعْلٍ" حال کا عامل یا فعل ہوتا ہے یا معنی فعل ہوتا ہے وہ جو ہم نے پیچھے کئی دفعہ پڑھا بھی ہے۔
حال اور ذوالحال کے قواعد
حال کا حکم یہ ہے کہ "وَالْحَالُ نَكِرَةٌ أَبَدًا" حال ہمیشہ اسم نکرہ ہو گا، "وَذُو الْحَالِ مَعْرِفَةٌ غَالِبًا" جبکہ ذوالحال غالب طور پر، عام طور پر  معرفہ ہوتا ہے، "وَالْحَالُ نَاكِرَةٌ أَبَدًا وَذُو الْحَالِ مَعْرِفَةٌ غَالِبًا" ان دو میں فرق ہے یعنی حال معرفہ ہو ہی نہیں سکتا وہ ہمیشہ نکرہ ہو گا لیکن فرماتے ہیں: کہ ذوالحال غالباً معرفہ ہوتا ہے یعنی ہو سکتا ہے کبھی کسی مقام پر ذوالحال نکرہ بھی ہو کسی وجہ سے لیکن غالب طور پر معرفہ ہے لیکن کبھی کبھار یہ نکرہ بھی واقع ہو سکتا ہے۔فرماتے ہیں: انہی مثالوں کو دیکھو؛ رایْتُ ،اچھا اب آپ نے دیکھا کہ جاءنی زیدٌ راکباً اب زید معرفہ ہے راکباً نکرہ ہے۔ ضربتُ زیداً مشدوداً زید معرفہ ہے مشدود نکرہ ہے۔
 ذوالحال کے نکرہ ہونے کا حکم
"فَإِنْ كَانَ ذُو الْحَالِ نَاكِرَةً" انہوں نے کہا ہے  کہ عام طور پر ذوالحال معرفہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار نکرہ بھی ہو سکتا ہے تو اب اگلی بات فرما رہے ہیں : اگر کبھی ذوالحال نکرہ ہو "يَجِبُ تَقْدِيْمُ الْحَالِ عَلَيْهِ" تو واجب ہے کہ حال کو ذوالحال پر مقدم کیا جائے یعنی اگر کبھی ذوالحال نکرہ واقع ہو جائے تو اس صورت میں حال کا ذوالحال پر مقدم کرنا واجب ہے، جیسے "جَاءَنِي رَاكِبًا رَجُلٌ" کہیں گے، کیوں؟ اس لیے کہ اگر ہم نے اس حال کو ذوالحال پر مقدم نہ کیا تو بسا اوقات  رفعی حالت تھی  فاعل کی اور بسا اوقات نصبی حالت میں ،سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا یہ حال ہے یا صفت ہے، "لِئَلَّا يَلْتَبِسَ بِالصِّفَةِ فِيْ حَالَةِ النَّصْبِ" تاکہ نصبی حالت میں یہ صفت سے ملتبس نہ ہو جائے، مثلاً "رَأَيْتُ رَجُلًا رَاكِبًا" میں التباس ہو گا کہ کیا یہ "راکباً" "رجلاً" کی صفت ہے یا یہ "راکباً" "رجلاً" کے لیے حال ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں کہا جائے "رَأَيْتُ رَاكِبًا رَجُلًا" تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ "راکباً" حال ہے اور رجل اس کے بعد ذوالحال ہے۔
حال کا جملہ خبریہ ہونا
اس حال کا ایک اور حکم ہے وہ یہ ہے "وَقَدْ يَكُوْنُ الْحَالُ جُمْلَةً خَبَرِيَّةً" ابھی ہم نے پیچھے مثالیں پڑھی ہیں راکباً، مشدوداً، وہ سارے حال مفرد   تھے یعنی جملہ نہیں تھے۔ فرماتے ہیں: بسا اوقات یہ حال جملہ خبریہ بھی واقع ہو سکتا ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک واو لگانی پڑتی ہے۔  جو واو حالیہ ہوتی ہے وہ بتاتی ہے کہ یہ بعد والا جملہ اس ماقبل کے لیے حال واقع ہو رہا ہے۔ جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ وَغُلَامُهُ رَاكِبٌ" میرے پاس آیا زید، واو حالیہ آ گئی یہ بتا رہی ہے کہ "غُلَامُهُ رَاكِبٌ" درحالانکہ اس کا غلام سوار تھا۔ اب "غلامه راکبٌ" یہ پورا جملہ، جملہ خبریہ ہے جو زید کے لیے حال واقع ہو رہا ہے۔ یا اسی طرح فرماتے ہیں:  یہ جملہ اسمیہ ہو گیا خبریہ "أَوْ يَرْكَبُ غُلَامُهُ" یعنی "جَاءَنِي زَيْدٌ وَيَرْكَبُ غُلَامُهُ" یہ جملہ خبریہ فعلیہ کی مثال ہو گئی،کوئی فرق نہیں پڑتا۔
"وَمِثَالُ مَا كَانَ عَامِلُهَا مَعْنَى الْفِعْلِ" اب فرماتے ہیں:  جب حال کا عامل فعل نہ ہو بلکہ معنی فعل ہو، یعنی لفظاً فعل نہ ہو بلکہ معنی فعل ہو اس کی مثال یہ ہے جیسے "هَذَا زَيْدٌ قَائِمًا" ھذا چونکہ یہ بمعنی انبه یا اشیر کے ہے تو جب انبه فعل ہے، اشیر بھی فعل ہے تو یہاں ھذا فعل کا معنی دیتا ہے لہٰذا یہ عامل ہے جس نے قائماً  کو نصب دی ہے۔
حال کے عامل کو حذف کرنا
"وَقَدْ يُحْذَفُ الْعَامِلُ" کبھی کبھار حال کے عامل کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے "لِقِيَامِ قَرِينَةٍ" جب کوئی قرینہ موجود ہو یعنی حال کے  عامل کوکبھی حذف کر دیا جاتا ہے چونکہ ایک قرینہ موجود ہے جو واضح بتا رہا ہے کہ یہاں عامل کیا ہے۔ مثلاً کما تقول لمسافر، مسافر باہر سے آیا آپ اسے کہتے ہیں "صَالِماً غَانِماً"۔ اب یہاں اصل میں ہے "تَرْجِعُ صَالِماً غَانِماً" تو آپ ترجع فعل یہاں  جو عامل تھا وہ حذف ہے آپ نے خالی "صَالِماً غَانِماً" کہا ہے جبکہ اس کے عامل ترجع کو ذکر نہیں فرمایا، کیوں؟ قرینہ موجود ہے کہ جب بندہ باہر سے آ رہا ہے  تو یقیناً ہم یہی کہیں گے کہ ان شاءاللہ آپ سلامتی کے ساتھ واپس آئے ہیں۔