درس الهدایة في النحو

درس نمبر 19: منصوبات 4

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مفعول فیہ کی تعریف اس کی اقسام

مفعول فیہ کا تعارف اور تعریف

بات ہماری چل رہی تھی منصوبات کی کہ  پہلا منصوب مفعول مطلق ہوتا ہے، دوسرا منصوبات میں سے مفعول به ہوتا ہے۔

تیسرا منصوبات میں سے  ہے مفعول فیہ۔ چونکہ میں نے پہلے دن گزارش کی تھی کہ منصوبات میں سب سے پہلے ذکر ہوتا ہے مفاعیل خمسہ کا چونکہ مفعول کی پانچ قسمیں ہیں۔ تو اس ترتیب سے یہ مفعول کی بھی تیسری قسم ہو گئی اور ویسے اسم منصوب کی بھی یہ تیسری قسم ہوگئی۔ 

مفعول فیہ کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں:  مفعول فیہ وہ اسم زمان یا اسم مکان ہے جس میں فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے۔ مفعول بہ میں ہم نے کیا پڑھا تھا؟ وہ اسم ہے جس پر فاعل کا فعل واقع ہوگا۔ اب یہاں کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ جب بھی کوئی فاعل کسی فعل کو انجام دے گا تو یقیناً وہ کسی نہ کسی جگہ پر انجام دے گا، یا اوقات میں سے کسی نہ کسی وقت میں انجام دے گا تو جس وقت یا جس مکان میں وہ فاعل اس فعل کو انجام دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے مفعول فیہ کہ  فاعل کا یہ فعل اس وقت میں انجام پایا یا اس مکان میں انجام پایا اور اسی مفعول فیہ کو ظرف بھی کہتے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ ظرف کا معنی ہوتا ہے برتن۔ برتن میں کوئی چیز  لی جاتی ہے، برتن میں نیاز کے چاول   لیے جاتے ہیں، برتن میں دودھ لیا جاتا ہے۔  یہاں پر کیا ہے ظرف؟ یعنی چونکہ وہ فاعل کا فعل اسی زمانے میں یا اسی مکان میں واقع ہوا ہوتا ہے اس لحاظ سے اس کو پھر ظرف کہا جاتا ہے۔

 ظرف کی اقسام: مبہم اور محدود

ظرف چاہے زمان ہو، چاہے مکان ہو دونوں مبہم بھی ہوتے ہیں اور محدود بھی ہوتے ہیں۔ مبہم وہ ہوتا ہے جس کی کوئی حد نہ ہو اور محدود وہ ہوتا ہے جس کی کوئی نہ کوئی حد اور قید ہو، مثلاً زمان مبہم "دَهرٌ"۔ دہر کا معنی زمانہ ہے،وہ زمانہ کتنا لمبا، کتنا کم، اس کی کوئی حد نہیں۔ "يَومٌ"، یہ ظرف محدود ہے، کیوں؟ چونکہ ہمیں پتہ ہے کہ جو یوم ہے وہ کس وقت سے شروع ہوتا ہے اور کس وقت پر یوم ختم ہو جاتا ہے۔ چاہے ہم دن رات کے قائل ہوں یا فقط نہار کے قائل ہو جائیں یا 24 گھنٹے کو یوم کہیں تو بھی ایک اس کی حد معین ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں مکان بھی، ظرف مکان مبہم بھی ہوتا ہے محدود۔ جیسے "خَلْفَ"، پیچھے، "اَمَامَ"، آگے۔ اب یہ ظرف ہے لیکن یہ ظرف مکان مبہم ہے، کتنا پیچھے کوئی حد نہیں۔ کتنا آگے کوئی حد نہیں۔ اور ایک دفعہ ہوتا ہے کہ ظرف مکان کی محدودیت ہوتی ہے، اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں جیسے ہم کہتے ہیں مسجد، سجدے کی جگہ، بیٹھنے کی جگہ، مجلس۔ اب ان کی یقینا ایک خاص حد ہوتی ہے۔ جیسے  بیت، اب یہ ظرف مکان ہے لیکن ہمیں پتہ ہے کہ اس کی ایک حد ہے، اس کی ایک محدودیت ہے، یہ لامحدود نہیں ہے۔

 متن کی تشریح

"الْمَفْعُولُ فِيهِ" فرماتے ہیں: تیسرا اسماء منصوبہ میں سے ہے مفعول فیہ، "وَهُوَ اسْمٌ" مفعول فیہ وہ اسم ہے۔ "مَا وَقَعَ فِعْلُ الْفَاعِلِ فِيهِ" جس میں فاعل کا فعل واقع ہو، "مِنَ الزَّمَانِ" چاہے وہ اسم زمان ہو، "وَالْمَكَانِ" چاہے وہ مکان ہو۔ ظاہر ہے کہ فاعل نے جو فعل انجام دینا ہے وہ کسی نہ کسی وقت میں ہوگا اور کسی نہ کسی جگہ پر ہوگا۔ بس جس وقت میں یا جس جگہ میں وہ اپنے اس فعل کو انجام دے گا، اسے  کہتے ہیں مفعول فیہ یعنی فاعل کا فعل اس وقت میں یا اس جگہ میں انجام پایا۔ "وَيُسَمَّى ظَرْفًا" اور اس کا نام رکھا جاتا ہے ظرف۔ یعنی آپ کہیں گے مفعول فیہ کا دوسرا  نام ظرف ہے۔

4

ظروف زمان و مكان کا اعراب

ظروف زمان کا اعراب

فرماتے ہیں: "وَظُرُوفُ الزَّمَانِ عَلَى قِسْمَيْنِ" ظرف زمان دو قسم کا ہوتا ہے۔ صرف زمان نہیں بلکہ ظرف مکان بھی دو قسم پر ہے۔ یعنی اگر یوں کہتے کہ ظرف دو قسم کا ہوتا ہے، چاہے زمان ہو چاہے مکان بات ایک ہی ہے۔ بہرحال "ظُرُوفُ الزَّمَانِ عَلَى قِسْمَيْنِ" ظروف زمان کی دو قسمیں ہیں۔ ظرف زمان ایک وہ ہوتا ہے جو "مُبْهَمٌ" مبہم ہوتا ہے۔ مبہم کا مطلب کیا ہے؟ یعنی "مَا لَا يَكُونُ لَهُ حَدٌّ مُعَيَّنٌ" جس کی کوئی معین حد نہ ہو، جس کے لیے یہ نہ کہیں کہ کس وقت سے لے کر کس وقت تک۔ جس کی ایسی حد نہ ہو، اس کو کہتے ہیں زمان مبہم۔ جیسے لفظ ہے "دَهْرٌ"، "حِينٌ"۔ اب یہ زمانے کے لیے آتا ہے اب وہ کتنا ہے زمانہ، کب سے کہاں تک ہے، کچھ معلوم نہیں۔ "وَمَحْدُودٌ" اور ظرف زمان کی دوسری قسم ہے ظرف زمان محدود، محدود کیا ہوتا ہے؟ "مَا يَكُونُ لَهُ حَدٌّ مُعَيَّنٌ" جس کی ایک حد معین ہو، پتہ ہو کہ کہاں سے لے کر کہاں تک یہ ظرف ہے، جیسے "يَوْمٌ"، صبح سے شام تک، "لَيْلَةٌ"، شام سے صبح تک، "شَهْرٌ"، تیس دن، "سَنَةٌ"، ایک سال 365 دن۔ اب یہ سارے جو ہیں کہ جن کے آغاز کا بھی پتہ ہے اور انتہا کا بھی، ان کی حدود معین ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ظرف زمان محدود۔ "وَكُلُّهَا مَنْصُوبٌ"  چاہے ظرف زمان مبہم ہو، چاہے ظرف زمان محدود ہو۔ یہ ظروف زمان منصوب ہوتے ہیں "بِتَقْدِيرِ فِي" درحقیقت ان سے پہلے فی مقدر ہوتا ہے، جیسے میں کہتا ہوں "صُمْتُ دَهْرًا" میں نے روزے رکھے ایک زمانے میں۔ اصل میں ہے "صُمْتُ فِي دَهْرٍ" زمانے میں، چونکہ یہ وقت کے لیے آتا ہے۔ "سَافَرْتُ شَهْرًا" میں نے سفر کیا ایک مہینہ۔ اصل میں ہے "سَافَرْتُ فِي شَهْرٍ"، مہینے میں۔ اب دھر ظرف زمان مبہم ہے، شہر ظرف زمان محدود ہے لیکن یہ دونوں منصوب ہیں اور ان دونوں سے پہلے فی ظرفیت والا مقدر ہوتا ہے۔

ظروف مکان کا اعراب

"وَظُرُوفُ الْمَكَانِ كَذَلِكَ"۔ اسی طرح ظرف مکان کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ظرف مکان مبہم اور ظرف مکان محدود، مبہم یعنی جس کی کوئی حد معین نہ ہو اور محدود جس کی حد معین ہو۔ "وَهُوَ مَنْصُوبٌ أَيْضًا" ظرف زمان کی طرح ظرف مکان بھی منصوب ہوتا ہے "بِتَقْدِيرِ فِي" یعنی اس سے پہلے فی ظرفیت والا  مقدر ہوتا ہے، محذوف ہوتا ہے۔ اب وہ چاہے ظرف مکان محدود مبہم ہو تو بھی وہ منصوب ہوگا، محدود ہو تو بھی، "نَحوُ جَلَسْتُ خَلْفَكَ" یعنی اصل ہے "جَلَسْتُ فِي خَلْفِكَ"۔ "جَلَسْتُ اَمَامَكَ" میں بیٹھا تیرے آگے یعنی اصل میں "جَلَسْتُ فِي اَمَامِكَ"۔ "وَمَحْدُودٌ" اور ایک ہوتا ہے ظرف مکان محدود۔ ظرف مکان محدود کیا ہوتا ہے؟ "هُوَ مَا لَا يَكُونُ مَنْصُوبًا بِتَقْدِيرِ فِي" ظرف مکان محدود منصوب نہیں ہوتا یعنی اس میں ظرف مکان مبہم کی طرح حرف فی مقدر نہیں ہوتا۔ "بَلْ لَابُدَّ مِنْ ذِكْرِ فِي فِيهِ" بلکہ ظرف مکان محدود میں فی کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب ذرا پھر واپس جاؤ،  ظرف زمان چاہے مبہم ہو چاہے محدود دونوں کے لیے فی مقدر ہوتاہے اور وہ منصوب ہوتا ہے۔ ظرف مکان مبہم اس میں بھی فی مقدر ہوتا ہے اور وہ بھی منصوب ہوتا ہے۔ لیکن فقط ظرف مکان محدود ہے کہ جو لفظاً منصوب نہیں ہوتا، اس میں فی مقدر نہیں ہوتی بلکہ اس ظرف مکان محدود میں فی کا ذکر کرنا لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا "جَلَسْتُ فِي الدَّارِ"، "جَلَسْتُ فِي السُّوقِ"، سوق کہتے ہیں بازار کو، "جَلَسْتُ فِي الْمَسْجِدِ"۔ یوں کہیں گے "جَلَسْتُ دَارًا" نہیں کہیں گے۔

5

مفعول له كی بحث

اگلی فصل وہ ہے چوتھے اسم منصوب اور چوتھے مفعول، مفعول له کے بیان میں،مفعول له   کسے کہتے ہیں؟  مفعول له وہ اسم ہے کہ جس کے لیے فعل کو انجام دیا جاتا ہے کہ یہ کام جو ہوا ہے، مثلاً ضربتُ، میں نے مارا ہے تو اب سوال ہو گا آخر اس مارنے کی وجہ کیا تھی، کس لیے مارا ہے؟ تو جس لیے فعل کو انجام دیا جاتا ہے، جب اس کو بیان کریں گے تو وہ مفعول له ہوگا اور وہ منصوب ہوگا اور وہ درحقیقت  بیان کر رہا ہوگا کہ یہ جو فعل انجام پایا ہے وہ میری وجہ سے اور میرے لیے انجام پایا ہے کسی اور کے لیے نہیں یعنی یہ مفعول له درحقیقت اس فعل کے انجام پانے کی وجہ کو بیان کرتا ہے یا اس فعل کو اسی کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔

 تطبیق

"الْمَفْعُولُ لَهُ"، مفعول له فرماتے ہیں :"وَهُوَ اسْمٌ" مفعول له وہ اسم ہے "مَا لِأَجْلِهِ" کہ جس کی خاطر، جس کے لیے "يَقَعُ الْفِعْلُ" وہ فعل واقع ہوتا ہے "الْمَذْكُورُ قَبْلَهُ" جو اس مفعول سے پہلے ذکر ہوتا ہے۔  یعنی کسی اسم سے پہلے  فعل موجود ہو اور وہ فعل اسی اسم کے لیے انجام دیا جائے اس اسم کو اسم مفعول له کہتے ہیں۔ "وَيُنْصَبُ" مفعول له منصوب ہوتا ہے "بِتَقْدِيرِ اللَّامِ" لیکن اس میں لام مقدر ہوتی ہے۔ یعنی درحقیقت، وہ جیسے پچھلے میں فی مقدر تھی، اس میں لام مقدر ہوتی ہے، "ضَرَبْتُهُ تَأْدِيبًا"، تادیباً اسم ہے،  یہ تادیباً بتا رہا ہے کہ یہ جو ضربتُ فعل مجھ سے پہلے ہے، یہ ضربتُ فعل یعنی یہ مارنے والا عمل میرے لیے انجام دیا گیا ہے۔ "ضَرَبْتُهُ تَأْدِيبًا"، میں نے اس کو مارا، تادیب، اَیْ "لِلتَّأْدِيبِ"، تادیباً سے پہلے لام مقدرہے یعنی میں نے اس کو مارا، کیوں مارا؟ کس لیے مارا؟ "لِلتَّأْدِيبِ" یعنی ادب سکھانے کے لیے تو س یہ تادیب بتا رہا ہے کہ وہ جو مارنے کا کام ہوا ہے وہ کس کی خاطر تھا؟ میرے لیے تھا تادیب کے لیے۔ "وَقَعَدْتُ عَنِ الْحَرْبِ جُبْنًا"، میں جنگ سے بیٹھ گیا، کیوں؟  بزدلی، جبن کی وجہ سے۔

"وَعِنْدَ الزُّجَاجِ هُوَ مَصْدَرٌ"۔ البتہ زجاج، نحات میں ایک بڑا نام ہے، وہ تھوڑا سا اختلاف کرتا ہے، وہ کہتا ہے نہیں، یہ جو مفعول له ہے یہ مفعول له نہیں ہوتا، درحقیقت یہ مفعول مطلق ہوتا ہے اور یہ مصدر ہوتا ہے، اس سے پہلے اسی مصدر کا ایک فعل ہوتا ہے جو مقدر ہوتا ہے، جو اس میں چھپا ہوتا ہے۔ یعنی ہم نے تو کہا ہے نا "ضَرَبْتُهُ تَأْدِيبًا" میں یہ تادیباً مفعول ہے، مفعول له ہے، ضربتُ اس کو مفعول له ہونے کی بنا پر نصب دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، اصل میں ہے "ضَرَبْتُهُ"، یعنی تادیباً کا، اصل میں ہے "أَدَّبْتُهُ تَأْدِيبًا"، وہ کہتے ہیں مفعول له ہوتا ہی نہیں ہے، یہ تادیباً "أَدَّبْتُ" کا مفعول مطلق ہے اور "جَبَنْتُ جُبْنًا"، یہ جبناً بھی اس "جَبَنْتُ" کا مفعول مطلق ہے۔ یعنی وہ اس کی یوں تاویل کرتے ہیں۔

6

مفعول معه كی بحث

پانچواں اسماء منصوبه میں سے وہ ہے مفعول معه اور مفاعیل خمسہ میں سے آخری مفعول۔ مفعول معه کس کو کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں: مفعول معه وہ اسم ہے جو ایسی واو کے بعد ذکر ہو جو واو بمعنی "مَعَ" کے ہو، "مَعَ" ساتھ، "لِمُصَاحَبَةِ مَعمُولِ الْفِعْلِ"۔ یعنی کیا مطلب؟ کہ وہ مصاحب ہو اس فعل کے معمول کے۔ مفعول معه کسے کہتے ہیں؟ یعنی وہ مفعول ہے جو واو بمعنی "مَعَ" کے آتا ہے۔ یعنی ایسی واو کے بعد ہوتا ہے جو بمعنی "مَعَ" کے ہوتی ہے اور اس سے مصاحبت کا معنی ظاہر ہوتا ہے۔  مصاحبت کہتے ہیں ساتھ کو،  چونکہ وہ فعل کے معمول کے ساتھ ہوتی ہے، "لِمُصَاحَبَتِهِ مَعْمُولَ فِعْلِهِ" یعنی وہ فعل کے معمول کے ساتھ ہوتا ہے مصاحبت کا معنی یہ ہوتا ہے۔ اب ذرا ترجمہ کروں گا ، آسان ہو جائے گا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "جَاءَ الْبَرْدُ وَالْجُبَّاتِ" یہ الْجُبَّاتِ یہ کیا ہے واو کے بعد۔ یہاں واو بمعنی "مَعَ" کے ہے اور یہ الْجُبَّاتِ برد کا، وہ جو "جَاءَ" فعل تھا جس نے "الْبَرْدَ" کو رفع دیا جو معمول بنا ہے "جَاءَ" کا، بہت توجہ، "جَاءَ" کا جو معمول بنا ہے، یہ جبات اس معمول یعنی البرد کے مصاحب ہے، اس کے ساتھ ہے۔ بس یعنی فعل کے معمول جو البرد تھا یہ جبات اس کے ساتھ ہے، اس کا مصاحب ہے۔ اب اس کے آگے اعراب میں تھوڑی سی بحث ہے۔

 مفعول معه کا اعراب

"الْمَفْعُولُ مَعَهُ" مفعول معه کیا ہوتا ہے؟ "مَا يُذْكَرُ بَعْدَ الْوَاوِ" جس کو ذکر کیا جائے واو کے بعد "بِمَعْنَى مَعَ" اور وہ واو بمعنی "مَعَ" کے ہو۔ "مَعَ" کا معنی ہوتا ہے ساتھ۔ اچھا کیوں؟ اس کو اس واو بمعنی "مَعَ" کے بعد ذکر کیا جاتا ہے کیوں؟ "لِمُصَاحَبَتِهِ مَعْمُولَ الْفِعْلِ" چونکہ یہ فعل کے معمول کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب اور آگے فرماتے ہیں: "جَاءَ الْبَرْدُ وَالْجُبَّاتِ"، آئیں ہیں سردیاں کوٹوں کے جبوں سمیت۔ "جِئْتُ أَنَا وَزَيْدًا"۔ اصل میں ہے "جَاءَ الْبَرْدُ مَعَ الْجُبَّاتِ"، "جِئْتُ أَنَا مَعَ زَيْدٍ"۔ یعنی میں آیا زید کے ساتھ۔ اب اس پر اعراب کیسے پڑھنا ہے؟ اب اس کے اعراب میں تھوڑی سی وضاحت فرما رہے ہیں: اس کے اعراب میں یہ دیکھنا ہے "فَإِنْ كَانَ الْفِعْلُ لَفْظًا" اگر فعل لفظاً موجود ہو "وَجَازَ الْعَطْفُ" اور اس پر عطف کرنا بھی جائز ہو "يَجُوزُ الْوَجْهَانِ" تو آپ اس مفعول معه پر نصب بھی پڑھ سکتے ہیں اور رفع بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اب اس کو لکھنے میں ذرا آپ نے توجہ کرنی ہے۔ پہلی صورت کیا ہے؟ کہ اگر فعل لفظوں میں موجود ہو اور عطف بھی جائز ہو تو مفعول معه پر دو وجہیں جائز ہیں۔ یعنی آپ چاہیں تو اس پر نصب پڑھیں، چاہیں تو اس پر رفع پڑھیں، جیسے "جِئْتُ أَنَا وَزَيْدٌ" بھی پڑھ سکتے ہیں "جِئْتُ أَنَا وَزَيْدًا" زیدٌ پڑھیں گے تو انا ضمیر پر اس کا عطف ہوگا اور زیداً پڑھیں گے تو یہ اس کا مفعول معه ہوگا، مفعولیت کی بنیاد پر، ایک، نمبر دو۔ "وَإِنْ لَمْ يَجُزِ الْعَطْفُ" لیکن اگر عطف جائز نہ ہو تو پھر "تَعَيَّنَ النَّصْبُ" پھر ہر حال میں اس پر نصب پڑھنا لازم ہوگا۔ نصب پڑھنا معین ہوگا جیسے "جِئْتُ وَزَيْدًا" پڑھیں گے، "جِئْتُ وَزَيْدٌ" پڑھنا درست نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس زید کا عطف جائز نہیں ہے۔ عطف کس پر کریں گے؟ کیونکہ اوپر تو ہم انا پر عطف کر سکتے تھے لہذا اس کو زیدٌ پڑھ سکتے تھے لیکن یہاں تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر زید کا عطف کیا جائے، لہذا اس کو زیداً پڑھنا معین ہے یعنی لازم ہے۔ دو حکم ہو گئے۔ نمبر تین۔ "وَإِنْ كَانَ الْفِعْلُ مَعْنًى" اگر فعل ہے لیکن وہ فعل لفظاً موجود نہیں  بلکہ معنىً ہے، "وَجَازَ الْعَطْفُ" فعل لفظاً موجود نہیں اور عطف بھی جائز ہے "تَعَيَّنَ الْعَطْفُ" یہاں واجب ہے، یہاں لازم ہے کہ عطف ہی کیا جائے یعنی جو اعراب اس واو سے پہلے والے معطوف علیہ کا ہے اس پر بھی وہی پڑھا جائے جیسے "مَا لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو"۔ "مَا لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو"۔ "مَا لِزَيْدٍ" یعنی "مَا تَصْنَعُ لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو"۔ اب تصنعُ فعل لفظاً موجود نہیں ہے، معنىً ہے، اب چونکہ عمرو کا زید پر عطف کرنا جائز ہے لہذا لازم ہے کہ ہم اس کو پڑھیں گے "مَا لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو" چونکہ اس میں فعل لفظاً موجود نہیں جبکہ عمرو کا عطف بھی زید پر ہو سکتا ہے۔ لیکن "وَإِنْ لَمْ يَجُزِ الْعَطْفُ" اگر فعل بھی لفظاً موجود نہ ہو اور اس اسم کا کسی ما قبل پر عطف کرنا بھی جائز نہ ہو، پھر کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں:  پھر اس صورت میں "تَعَيَّنَ النَّصْبُ"، وہاں نصب پڑھنا معین ہے یعنی لازم ہے کہ وہاں نصب ہی پڑھا جائے جیسے "مَالَكَ وَزَيْدًا"۔ "مَا لَكَ وَزَيْدًا"، "مَا شَأْنُكَ وَعَمْرًا" کیوں؟ "لِأَنَّ الْمَعْنَى مَا تَصْنَعُ" اصل میں تھا "مَا تَصْنَعُ"۔ تصنعُ فعل یہاں پر کیا ہے؟ مقدر ہے۔بس فعل اگر لفظاً موجود ہو، عطف جائز ہو تو رفع بھی جائز ہے، نصب بھی جائز ہے۔ اگر عطف  جائز نہ ہو تو ہر حال میں نصب پڑھنا ہے جیسے "جِئْتُ وَزَيْدًا"۔ اگر فعل لفظوں میں نہیں ہے اور عطف جائز ہے تو پھر عطف متعین ہے جیسے "مَا لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو" اصل میں تھا "مَا تَصْنَعُ لِزَيْدٍ وَعَمْرٍو" اور اگر عطف جائز نہیں تو پھر ہر حال میں نصب پڑھنا لازم ہے جیسے "مَالَكَ وَزَيْدًا"، "مَا شَأْنُكَ وَزَيْدًا" ہی پڑھیں گے۔ یہاں تک مفاعیل خمسہ کی بحث مکمل ہوگئی اور اسماء منصوبه میں سے بھی پانچ کی بحث مکمل ہوگئی۔ اگلی بحث ان شاء اللہ علیحدہ۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ

وينصب إن كان مضافاً نحو : يا عَبْدَ اللهِ ، أو مشابهاً للمضاف نحو : يا طالِعاً جَبَلاً ، أو نكرة غير معيّنة نحو قول الأعمى : يا رَجُلاً خُذْ بِيَدي. وإن كان معرّفاً باللام قيل : يا أيُّهَا الرَّجُلُ ، ويا أيَّتُهَا المرأَةُ.

ويجوز ترخيم المنادى ، وهو حذف في آخره للتّخفيف كما تقول في يا مالِكُ : يا مالِ ، وفي يا مَنْصُورُ : يا مَنْصُ ، وفي يا عُثْمانُ : يا عُثْمُ. ويجوز في آخر المرخّم الضمّة والحركة الأصليّة كما تقول في يا حارِثُ : يا حارُِ.

واعلم أنّ «يا» من حروف النداء وقد تستعمل في المندوب أيضاً ، وهو المتفجّع عليه بـ : «يا» أو «وا» يقال : يا زَيْداه ، ووازَيْداه. «فوا» يختصّ بالمندوب ، و «يا» مشترك بين النداء والمندوب.

القسم الثالث : المفعول فيه

وهو اسم ما وقع الفعل فيه من الزمان والمكان ، ويسمّى ظرفاً. وظرف الزمان على قسمين :

مبهم : وهو ما لا يكون له حدّ معيّن ك‍ : دَهْر وحين.

ومحدود : وهو ما يكون له حدّ معيّن ك‍ : يَوْم ولَيْلَة وشَهْر وسَنَة.

وكلّها منصوب بتقدير «في» ، تقول : صُمْتُ دَهْراً ، وسافَرْتُ شَهْراً ، أي في دهر وفي شهر.

وظروف المكان كذلك : مبهم وهو منصوب أيضاً نحو : جَلَسْتُ خَلْفَكَ وأمامَكَ ، ومحدود وهو ما لا يكون منصوباً بتقدير «في» بل لا بدّ من ذكر «في» (١) نحو : جَلَسْتُ فِي الدارِ. وفِي السُّوقِ وفي المَسْجِدِ.

____________________________

(١) قوله : بل لا بد من ذكر في وقد اُشير الى ذلك في قول الشاعر بالفارسي :

ظرف زمان مبهم ومحدودى

قابل نصبند بتقدير في

ليك مكان آنچه معيّن بود

چاره در او نيست بجز ذكر في

القسم الرابع : المفعول له

وهو اسم ما لأجله يقع الفعل المذكور قبله ، ينصب بتقدير اللام نحو : ضَرَبْتُهُ تَأديباً ، أي للتّأديب ، وقَعَدْتُ عَنْ الْحَرْبِ جُبْناً ، أي للجبن. وعند الزجّاج هو مصدر تقديره : أدّبته تأديباً.

القسم الخامس : المفعول معه

وهو ما يذكر بعد الواو بمعنى «مَعَ» لمصاحبته معمول فعل نحو : جاءَ الْبَرْدُ وَالْجِلبابَ ، وجِئْتُ أنَا وَزَيْداً ، أي مع الجِلْباب ، ومع زيد. فإن كان الفعل لفظاً وجاز العطف يجوز فيه الوجهان نحو : جئتُ اَنَا وزيدٌ ، وَزَيداً ، وإن لم يجز العطف تعيّن النصب نحو : جئت وزيداً ، وإن كان الفعل معنىً وجاز العطف تعيّن العطف نحو : ما لزيدٍ وعمروٍ ، وإن لم يجز العطف تعيّن النصب نحو : ما لَكَ وَزَيْداً ، ومَا شَأْنُكَ وَعَمْراً ، لأنّ المعنى : ما تصنع؟

القسم السادس : الحال

وهي لفظ تدلّ على بيان هيئة الفاعل أو المفعول به ، أو كليهما نحو : جاءني زَيْدٌ راكِباً ، وضَرَبْتُ زَيْداً مَشْدُوداً ، ولَقيتُ عَمْراً راكِبَيْنِ. وقد يكون فعل الفاعل معنويّاً نحو : زَيْدٌ في الدّارِ قائِماً ، لأنّ معناه زيدٌ استقرّ في الدار قائماً ، وكذلك المفعول به نحو : هذا زيدٌ قائماً ، فإنّ معناه اُنَبِّهُ واُشير إليه قائماً. والعامل في الحال فعل ، لفظاً نحو : ضَرَبْتُ زَيْداً راكِباً ، أو معنىً نحو : زَيْدٌ في الدار قائِماً.

والحال نكرة أبداً وذو الحال معرفة غالباً كما رأيت في الأمثلة ، فإن