درس الهدایة في النحو

درس نمبر 21: منصوبات 6 (منصوبات مستثنی کی بحث)

 
1

خطبه

2

ابتدائی عبارتیں

3

المستثنی

"المستثنی وهو لفظ يذكر بعد إلّا وأخواتها ليعلم أنّه لا ينسب إليه ما ينسب إلى ما قبلها. وهو على قسمين"

اسماء منصوبہ میں سے آٹہواں اسم منصوب ہے "مستثنی"، مستثنی کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں، مستثنی وہ لفظ ہے جو ذکر کیا جائے، الا کے بعد یا جو الا کے ہم معنی ہیں،جیسے، حاشا، عدا ،خلا، سوا ان کے بعد، ذکر کیا جائے، کیوں؟ تاکہ یہ پتہ چل جائے، یا جاننے کے لیے، کہ جونسبت "الا" کی ماقبل کی طرف ہے وہ نسبت(الا) کی ما بعد کی طرف نہیں ہے۔

استثنی کسے کہتے ہیں؟ استثنی مصدر ہے۔ ایک چیز کو دوسرے چیز سے جدا کرنا، یہ جو کہا جا تا ہے، فلان شخص کو حاضری سے استثنی حاصل ہے، یا یہ حکم  استثنائی ہے یعنی جو سب کے لیے ہے یہ اس سے خا رج ہے،  جو حکم باقیوں کے لئے ہے یہ اس میں شامل نہیں ہے۔

استثنی، یعنی جدا کرنا، نکال دینا، مستثنی، یعنی جسے خارج کیا یا ہو، اور الا حرف استثنی ہے، یعنی الا کے ذریعہ باقاعدہ ایک چیز کو دوسرے چیز سے نکال دیاجاتا ہے، خارج کیا جاتا ہے، جدا کیا جاتا ہے۔

 جو الا کا ماقبل ہوگا اس کو کہتے ہیں، مستثنی منہ، مستثنی منہ کا مطلب ہے جس سے خارج کیا گیا ہو، اور الا کے ما بعد کو کہتے ہیں مستثنی، یعنی جس کو خارج کیا گیا ہو، اب خارج کس سے کس کو کرنا ہے؟ الا کے ذریعہ سے استثنی یہ کیا جاتا ہے، یعنی یہ بتایا جاتا ہے کہ جو نسبت "مستثنی منہ" میں تھی وہ اس مستثنی کی طرف نہیں ہے۔

مثلا، جائنی القوم الا زید۔ میرے پاس آئی قوم، قوم مستثنی منہ ہے، الا حرف استثنی، اور زید مستثنی ہے، اب زید کو کس بحث سے جدا کیا گیا ہے؟ فرماتے ہیں؛ اس بحث سے، ما قبل میں کہا گیا ہے، جائنی القوم، میرے پاس آئی قوم یعنی قوم کی طرف آنے کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ آگئی ہے،جب کہا "الا زید" تواب یہ زید میں بتایا جا رہا ہے کہ جو نسبت قوم میں کی طرف تھی وہ نسبت زید کی طرف نہیں ہے، گویا کہ زید آنے والوں میں نہیں ہے، یہ ہوگیا مستثنی۔

4

مستثنی متصل اور مستثنی منقطع

اقسام مستثنی

"وهو على قسمين :متّصل وهو ما اُخرج عن المتعدّد بِإلّا وأخواتها"

مستثنی کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ اگر مستثنی، "مستثنی منہ" کی جنس میں سے ہو، یعنی انہی میں سے ایک ہو لیکن اس کو اؑس سے نکالا گیا ہواس کو کہتے ہیں مستثنی متصل۔ مثال: جائنی القوم الا زید، زید، قوم میں شامل تھا، قوم کے افراد میں سے ایک فرد تھا، لیکن اس کو استثنی کیا گیاہے، یہ ہے مستثنی متصل۔

2۔ جو مستثنی  "مستثنی منہ" میں شامل ہی نہ ہو، مستثنی منہ کے افراد میں سے بھی نہ ہ، بلکہ خارجی چیز ہو، جیسے "جائنی القوم الا حمارا" اب یہ حمار سرے سے قوم کے افراد میں شامل ہی نہیں ہے، اس کو کہتے ہیں مستثنی منقطع۔

یعنی مستثنی کی دو قسمیں اس لحاظ سے بھی ہیں، کہ آیا مستثنی، مستثنی منہ میں شامل تھا یا نہیں تھا، اگر شامل تھا تو مستثنی متصل کہلا ئے گا اور اگر شامل نہیں تھا تو مستثنی منقطع کہلا ئے گا۔

5

کلام موجب اور غیر موجب۔

"واعلم أنّ إعراب المستثنى على أقسام : فإن كان بعد إلّا في كلام تامّ"

کلام موجب اور غیر موجب۔

اسی طرح فرماتے ہیں اسی مستثنی کی دو اور قسمیں بھی ہیں، وہ کونسی؟

۱۔ آیا "مستثنی منہ" کو ذکر بھی کیا گیا ہے یا ذکر نہیں کیا گیا ہے؟ اگر مستثنی منہ کو ذکر نہ کیا گیا ہو، فقط مستثنی کا ذکر ہو تو اس کو کہتے ہیں، مستثنی مفرّغ ، جیسے"ما جائنی الا زید

۲۔ اگر "مستثنی منہ" کو ذکر کیا گیا ہو، تو اس کو کہتے ہیں مستثنی غیر مفرٗغ۔ جیسے، جائنی القوم الا زید۔ یہاں قوم مستثنی منہ کوذکر کیا گیا ہے۔

پھر فرماتے ہیں یہ جو کلام اور جملہ ہے، کہ جس میں ایک مستثنی منہ ہے اور ایک مستثنی ہے، فرماتے ہیں، یہ کلام اور جملہ بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔۱۔ کلام موجب ۲۔ کلام غیر موجب۔

کلام موجب :جس میں کوئی حرف نفی ، نہی یا استفہام، کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ اس کو کلام موجب کہتے ہیں، جیسے، جائنی القوم الا زید۔ اس میں نہ حرف نفی ہے نہ حرف نہی ہے اور نہ ہی حرف استفہام۔

اور جس کلام میں حرف نفی، نہی، اوریا استفہام کواستعمال کیا گیا ہو اسےکلام  غیر  موجب کہتے ہیں۔

کلام غیر موجب کسے کہتے ہیں؟

جس میں، حرف نفی، نہی یا استفہام کا استعمال ہوا ہو، جیسے، ما جائنی القوم الا زید۔

اب آپ نے یہاں تک در حقیقت ساتھ سوالات کےجوابات پڑے ہیں۔

1۔ مستثنی کسے کہتے ہیں؟

2۔ مستثنی متصل کسے کہتے ہیں؟

3۔ مستثنی منقطع کسے کہتے ہیں؟

4۔ مستثنی مفرغ کسے کہتے ہیں؟

5۔ مستثنی غیرمفرغ کسے کہتے ہیں؟

6۔ کلام موجب کسے کہتے ہیں؟

7۔ کلام غیر موجب کسے کہتے ہیں؟

6

مستثنی کسے کہتے ہیں؟

المستثنی لفظ 

پہلے سوال کا جواب کہ مستثنی کسے کہتے ہیں؟

 فرماتے ہیں مستثنی وہ لفظ ہے يذكر بعد إلّا وأخواتها جس کو الا یا   الا کے  اخوات یعنی حاشا عدا خلا سوا  آگے آ رہا ہے ان کے بعد ذکر کیا جائے کیوں  ليعلم  تاکہ یہ جان لیا جائے اس بات کا علم ہو جائے  أنّه لا ينسب إليه ما ينسب إلى ما قبلها کہ اس مستثنی کی طرف اس لفظ کی طرف وہ نسبت نہیں دی گئی جو اس الا کے ماقبل کی طرف دی گئی تھی میں نے مثال آپ کو آسان سی سمجھا دی"جاءني الْقَوْمُ إلّا زَيْداً" یہ زید یہ جو لفظ ذکر ہے یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ جو نسبت قوم کی طرف ہے وہ زید کی طرف نہیں قوم کی طرف نسبت تھی آنے کی وہ آنے والی نسبت اس زید کی طرف نہیں ۔

 وهو على قسمين  یہ مستثنی دو قسموں پر ہے یعنی اس لحاظ سے کہ آیا مستثنی مستثنی منہ میں شامل تھا یا نہیں تھا اس کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔ متّصل:مستثنی متصل ،مستثنی متصل کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں،وهو ما اُخرج عن المتعدّد بِإلّا وأخواتها جس کو اپنی جنس سے نکالا گیا ہو الا اور اس کے اخوات کے ذریعے، جیسے، نحو : جاءني الْقَوْمُ إلّا زَيْداً۔ اب زید یقینا قوم کی جنس سے تھا اس کو اس سے نکالا گیا ہے۔

۲۔منقطع ہے، وہ کیا ہے؟ أو منقطع وهو المذكور بعد وہ  مستثنی جسے ذکر کیا ہو الا اور اس کے اخوات کے بعد اور وہ مستثنی منہ کے افراد میں سے نہ ہو، بلکہ ایک خارجی چیز ہو،اور وہ سرے سے ہی مستثنی منہ میں داخل نہ تھا، جیسے، جاءني الْقَوْمُ إلّا حِماراً إلّا غير مخرج عن متعدّد اور اس کو متعدد سے نہ نکالا گیا ہو  یعنی  مستثنی مستثنی منہ  کی جنس سے ہی نہ ہو اس کے افراد میں سے ہی نہ ہو۔

لعدم دخوله في المستثنى منه کیونکہ وہ تو مستثنی منہ میں شامل ہی نہیں تھا وہ تو اس کا فرد ہی نہیں تھا۔ نحو : جاءني الْقَوْمُ إلّا حِماراً.

اب حمار قوم کی جنس سے نہیں تھا اس سے  پہلے ہی جدا ہے اس کو مستثنی منقطع کہتے ہیں۔

7

اعراب مستثنی کیا ہے؟

اب چار لائنیں جو یہاں پر نہیں ہیں لیکن آگے پھر ان کا ذکر آئے گا اس لیے میں نے پہلے بتائی ۔

ایک مستثنی مفرغ ہوتا ہے کہ جس میں مستثنی منہ کو ذکر نہ کیا گیا ہو۔

ایک مستسنی غیر مفرغ ہے کہ  یعنی جس میں مستثنی میں ان کو ذکر کیا گیا ہو پھر وہ جو پوری کلام ہے جس میں مستثنی مستثنی  منہ  موجود ہے اس کلام کی دو قسمیں چونکہ آگے پھر ان کا ذکر آ رہا ہے کہ جی اپ گزارش کر رہا ہوں ایک کلام موجب اور ایک کلام کلام موجب کیا ہوتی ہے جس میں نفی نہی استفہام کا معنی نہ ہو جیسے جاءني الْقَوْمُ إلّا زَيْداً  اس میں نفی کا معنی ہے اور غیر موجب وہ ہوتی ہے کہ جس میں نفی نہی  یا استفہام کا معنی ہو جیسے ما جاءني الْقَوْمُ إلّا زَيْداً  ٹھیک ہے پس یہاں تک ہم نے خود مستثنی کی تعریف اور اس کی اقسام اور خود کلام کی اقسام کو پڑھ لیا۔

اگلی بحث علیحدہ ہے وہ بحث یہ ہے کہ اس مستثنی کا اعراب کیا ہوتا ہے مستثنی کا اعراب کیا ہوتا ہے اب ذرا توجہ کریں گے تو پھر مزہ آئے گا فرماتے ہیں مستثنی کے اعراب کی چار قسمیں ہیں بہت توجہ کیا مطلب کبھی مستثنی پر فقط نصب پڑھا جاتا ہے فقط نصب اس کی چار صورتیں ہیں ۔

"واعلم أنّ إعراب المستثنى على أقسام : فإن كان بعد إلّا في كلام تامّ۔۔۔"

پہلی قسم: کبھی مستثنی پر فقط اعراب نصب آجاتا ہے، اس کی چار قسمیں ہیں، یعنی چار حالتوں میں مستثنی پر فقط نصب پڑا جاتا ہے۔

دوسری قسم: اعراب کی یہ ہے، کہ  اس میں نصب پڑنا بھی جایز ہے، اس کو بدل بنایا جائے اور اعراب "مبدل من" پڑا جائے۔

تیسری قسم:مستثنی کی اعراب بحسب عوامل ہوگا، جیسے عامل ہوگا مستثی پر ویسا اعراب مستثنی  پر پڑا جائے گا۔

چوتھی قسم: مستثنی کو مجرور پڑا جائے گا۔

پہلی قسم:(مستثنی پر فقط نصب پڑا جاتا ہے) کی چار قسمیں ہیں۔

1۔ مستثنی متصل ہو کلام، کلام موجب ہو، مستثنی واقع ہو الا کے بعد یہاں پر نصب پڑنا ہے، جیسے جائنی القوم الا زید۔

2۔ کلام ،کلام موجب ہو، لیکن مستثنی منقطع ہو، اور واقع ہوا ہو، الا کے بعد یہاں بھی مستثنی منصوب ہوگا، جیسے جائنی القوم الا حمارا۔

3۔ کلام، کلام غیر موجب ہو اور مستثنی، مستثنی منہ پر مقدم ہو، یہاں پر بھی مستثنی منصوب ہوگا، جیسے، ما جائني إلّا أخاكَ أحَدٌ۔

4۔ جو، خلا اور عدا کے بعد واقع ہو،اکثر کہتے ہیں کہ وہاں منصوب ہوگا، ماخلا ماعدا لیس اور لایکون کے بعد بھی منصوب ہوگا۔ جیسے، جائني الْقَوْمُ ما خَلا زَيْداً۔

توجہ

ایک ہے، عند الاکثر، اور ایک ہے عند الجمیع، یعنی خلا اور عدا کے بعد اکثر نحات کہتے ہیں اس پر نصب پڑا جائے، لیکن، ما خلا، ماعدا، لیس اور لایکون کے بعد سارے کہتے ہیں اس پر نصب پڑا جائے گا۔

اس کے بعد تین قسمیں جو باقی ہیں وہ آسان ہیں۔

پہلی قسم: جہاں نصب اور بدل، دونوں جایز ہیں، اگر مستثنی ہو الا کے بعد، اور کلام غیر موجب ہو، مستثنی  غیر مفرغ ہو، دونوں جایز ہے۔ما جائني إلّا زید أحَدٌ بھی پڑھ سکتے ہیں ما جائني إلّا زید أحَدا  بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی  نصب اور بدل، دونوں جایز ہیں۔

دوسری قسم: مستثنی کے اعراب بحسب عوامل ہوگا، جیسے پیچھے عامل ہوگا، مستثنی کا اعراب بھی ویسا ہوگا۔

مستثنی، واقع ہوگا الا کے بعد کلام غیر موجب ہو، مستثنی منہ مذکور نہ ہو تو اس صورت میں، مستثنی کا اعراب وہی ہوگا جیسا پیچھے عامل ہوگا، جیسے ما جائنی الا زید۔ ما رایت الا زید، ما مررت الا بزید۔

تیسری قسم؛ جب مستثنی، غیر،سوا،سوی اورحاشا کے بعد ہو، تو مستثنی مجرور ہوگا،جیسے ماجائنی القوم غیر زید،سوا زید، حاشازید۔

8

إعراب المستثنى على اربعه أقسام

"واعلم أنّ إعراب المستثنى على اربعه أقسام"

مستثنی کی اعراب کی چارقسمیں ہیں:

۱۔  "فإن كان بعد إلّا في كلام تامّ موجب وهو كلّ كلام لا يكون في أوّله نفي ولا نهي ولا استفهام نحو : جاءني القومُ إلّا زيداًاگرمستثنی متصل ہو، واقع ہو الا کے بعد اور کلام  موجب ہو،أو منقطعاً كما مرّیا مستثنی منقطع ہو، اور الا کے بعد واقع ہو، أو متقدّماً على المستثنى منه نحو  ما جاءني إلّا أخاكَ أحَدٌ مستثنی، مستثنی منہ  پر مقدم ہو۔

۱۔ أو كان بعد عَدا ، وخَلا عند الأكثر یا  اکثر نحات کے نزدیک مستثنی واقع ہو عدا، خلا کے بعد، أو كان بعد ما خَلا ، وما عَدا ، ولَيْس ولا يَكُونَ نحو : جاءني الْقَوْمُ ما خَلا زَيْداً كان منصوباً یا مستثنی واقع ہو ما خلا، ماعدا، لیس ،لایکون کے بعد، جیسے، جائنی الْقَوْمُ ما خَلا زَيْداً  تو مستثنی منصوب ہوگا۔

۲۔وإن كان بعد إلّا في كلام غير موجب  کلام غیر موجب جس میں نفی ،نہی اور استفھام موجود ہو،

 والمستثنى منه مذكوراً  يجوز فيه الوجهان اورمستثنى منه  ذکر ہو  تو اس صورت میں دو وجہ جائز  ہیں۔ النصب ، والبدل عمّا قبلها نحو : ما جاءني أحَدٌ إلّا زَيْداً ، وإلّا زَيْدٌ۔اگر مستثنی الا کے بعد واقع ہو، کلام، کلام غیر موجب ہواور مستثنی منہ مذکور ہو تو اس صورت میں دو وجہ، نصب اور بدل، یعنی مستثنی منہ کا بدل بنادیں، جیسے، ما جاءني أحَدٌ إلّا زَيْداً ، وإلّا زَيْدٌ۔

۳۔"وإن كان مفرّغاً بأن يكون بعد إلّا في كلام غير موجب ، والمستثنى منه غير مذكور كان إعرابه بحسب العوامل تقول : ما جاءني إلّا زَيْدٌ ، وما رَأَيْتُ إلّا زيْداً ، وما مَرَرْتُ إلّا بِزَيْدٍ" اگر مستثنی مفرغ ہو، مستثنی الا کے بعد واقع ہو، اور کلام غیر موجب ہو، مستثنی منہ  مذکور نہ ہو، تو ایسے میں مستثنی کی اعراب بحسب عوامل ہوگا، جیسے عامل ہوگا مستثی پر ویسا اعراب پڑھا جائے گا۔"ما جاءني إلّا زَيْدٌ ، وما رَأَيْتُ إلّا زيْداً ، وما مَرَرْتُ إلّا بِزَيْدٍ"

۴۔"وإن كان بعد غَير ، وسِوىٰ ، وحاشا عند الأكثر كان مجروراً نحو : جاءني الْقَوْمُ غَيْرَ زَيْدٍ ، وسِوىٰ زَيْدٍ ، وحاشا زَيْدٍ" اگر مستثنی، غیر، سوی،سوا، حاشا  کے بعد واقع ہو، اکثر نحات کے نزدیک مستثنی مجرور ہوگا۔

ذرا توجہ رکھئیے یہ مستثنی کا اعراب مستثنی ہمیشہ منصوب نہیں ہوتا اعراب کے لحاظ سےمستثنی  کی چار قسمیں ہیں۔

۱۔ کبھی اس کا اعراب فقط نصب ہوتا ہے۔۔ 

۲۔بعض مقامات پرعامل کے حساب سے ہوتا ہے ۔

۳۔ بعض مقامات پر یہ مجرور ہوتا ہے۔

۴۔ بعض مقامات پر دو وجہ ظاہر ہوتی ہیں کہ نصب پڑھیں  آپ کی مرضی اور اس کو ماقبل کا بدل بناؤ آپ کی مرضی آخر میں ایک چھوٹی سی بات ہے کہ اس سے مربوط ہے اور یہاں پر مستثنی کی بات مکمل ہو جائے گی ۔

"واعلم أنّ لفظ «غَيْر» موضوع للصفة ، وقد يستعمل للاستثناء. كما أنّ لفظ «إلّا» موضوعة للاستثناء وقد تستعمل للصفة كما في قوله تعالى : «لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا»  أي غير الله ، وكذا قولك : «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ"

 یہ جو لفظ غیر ہے ، یہ اصل میں اس کو وضع کیا گیا ہے، صفت کے لیے لیکن کبھی کبھی استثناٰء کے   لیےبھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ الا اصل میں استثناء کے   لیے وضع کیا گیا ہے، لیکن کبھی کبھار،صفت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے "لَوْكَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا" لَوْكَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ غیراللَّـهُ لَفَسَدَتَا  اسی طرح "لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ غیر اللَّـهُ غیر لفظ اللہ کی صفت ہے۔

و صلی اللہ علی محمد و آل محمد

كان ذو الحال نكرة يجب تقديم الحال عليه نحو : جاءني راكِباً رَجُلٌ ، لئلّا يلتبس بالصفة في حالة النصب في قولك : رَأَيْتُ رَجُلاً راكِباً.

وقد يكون الحال جملة خبريّة نحو : جاءني زَيْدٌ وغُلامُهُ راكِبٌ ، أو يَرْكَبُ غُلامُهُ. ومثال ما كان عامله معنى الفعل نحو : هذا زَيْدٌ قائِماً ، فإنّ معناه اُنَبِّهُ واُشير إليه حالَ كون زيد قائماً. وقد يحذف العامل لقرينة كما تقول للمسافر : سالِماً غانِماً ، أي ترجع سالماً غانماً.

القسم السابع : التمييز

وهو اسم نكرة تذكر بعد مقدار أو عدد أو كيل أو وزن أو مساحة أو غير ذلك ممّا فيه إبهام ، ليرفع ذلك الإبهام نحو : عِنْدي عِشْرُونَ رَجُلاً ، وقَفيزان بُرّاً ومَنَوان سَمْناً ، وجَريبانِ قُطْناً ، وما في السَّماءِ قَدْرَ راحَةٍ سَحاباً ، وعَلَى التَّمْرَةِ مِثْلُها زَبَداً.

وقد يكون من غير مقدار نحو : عِنْدي سِوارٌ ذَهَباً ، وهذا خاتَمٌ حَديداً ، وفيه الخفض أكثر نحو : خاتَم حَديدٍ ، وقد يقع التمييز بعد الجملة ليرفع الإبهام عن نسبتها نحو : طابَ زَيْدٌ عِلْماً أو أباً أو خُلْقاً.

القسم الثامن : المستثنى

وهو لفظ يذكر بعد إلّا وأخواتها ليعلم أنّه لا ينسب إليه ما ينسب إلى ما قبلها. وهو على قسمين :

متّصل وهو ما اُخرج عن المتعدّد بِإلّا وأخواتها نحو : جاءني الْقَوْمُ إلّا زَيْداً ، أو منقطع وهو المذكور بعد إلّا غير مخرج عن متعدّد لعدم دخوله في المستثنى منه نحو : جاءني الْقَوْمُ إلّا حِماراً.

واعلم أنّ إعراب المستثنى على أقسام : فإن كان بعد إلّا في كلام تامّ

موجب وهو كلّ كلام لا يكون في أوّله نفي ولا نهي ولا استفهام نحو : جاءني القومُ إلّا زيداً ، أو منقطعاً كما مرّ ، أو متقدّماً على المستثنى منه نحو : ما جاءني إلّا أخاكَ أحَدٌ ، أو كان بعد عَدا ، وخَلا عند الأكثر ، أو كان بعد ما خَلا ، وما عَدا ، ولَيْس ولا يَكُونَ نحو : جاءني الْقَوْمُ ما خَلا زَيْداً كان منصوباً.

وإن كان بعد إلّا في كلام غير موجب ، والمستثنى منه مذكوراً يجوز فيه الوجهان : النصب ، والبدل عمّا قبلها نحو : ما جاءني أحَدٌ إلّا زَيْداً ، وإلّا زَيْدٌ.

وإن كان مفرّغاً بأن يكون بعد إلّا في كلام غير موجب ، والمستثنى منه غير مذكور كان إعرابه بحسب العوامل تقول : ما جاءني إلّا زَيْدٌ ، وما رَأَيْتُ إلّا زيْداً ، وما مَرَرْتُ إلّا بِزَيْدٍ.

وإن كان بعد غَير ، وسِوىٰ ، وحاشا عند الأكثر كان مجروراً نحو : جاءني الْقَوْمُ غَيْرَ زَيْدٍ ، وسِوىٰ زَيْدٍ ، وحاشا زَيْدٍ.

واعلم أنّ إعراب «غَيْر» كإعراب المستثنى بإلّا تقول : جاءني الْقَوْمُ غَيْرَ زَيْدٍ ، وغَيْرَ حِمارٍ ، وما جاءني أحَدٌ غَيْرُ زَيْدٍ ، وما رَأَيْتُ غَيْرَ زَيْدٍ ، وما مَرَرْتُ بِغَيْرِ زَيْدٍ.

واعلم أنّ لفظ «غَيْر» موضوع للصفة ، وقد يستعمل للاستثناء. كما أنّ لفظ «إلّا» موضوعة للاستثناء وقد تستعمل للصفة كما في قوله تعالى : «لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا» (١) أي غير الله ، وكذا قولك : «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ».

* * *

____________________________

(١) سورة الأنبياء : ٢٢.

القسم التاسع : خبر كان وأخواتها

وهو المسند بعد دخولها نحو : كانَ زَيْدٌ مُنْطَلِقاً. وحكمه كحكم خبر المبتدأ إلّا أنّه يجوز تقديمه على اسمها مع كونه معرفة بخلاف ثمّ نحو : كانَ الْقائِم زَيْدٌ.

القسم العاشر : اسم إنَّ وأخواتها

هو المسند إليه بعد دخولها نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ.

القسم الحادي عشر : المنصوب بلا التي لنفي الجنس

هو المسند إليه بعد دخولها وتليها نكرة مضافة نحو : لا غُلامَ رَجُلٍ في الدار. ومشابهاً به نحو : لا عِشْرينَ دِرْهَماً في الْكيس. وإن كان من بعد «لا» نكرة مفردة يبنى على الفتح نحو : لا رَجُلَ في الدار. وإن كان مفرداً معرفة أو نكرة مفصولاً بينه وبين «لا» كان مرفوعاً ، ويجب حينئذٍ تكرير «لا» مع الاسم الآخر ، تقول : لا زيْدٌ في الدار ولا عَمْروٌ ، ولا فيها رَجُلٌ وَلا امرأةٌ.

واعلم أنّه يجوز في مثل : لا حَوْلَ وَلا قُوَّة إلّا بِاللهِ ، خمسة أوجه ، فتحهما ورفعهما ، وفتح الأوّل ونصب الثاني ، وفتح الأوّل ورفع الثاني ، ورفع الأوّل وفتح الثاني.

وقد يحذف اسم «لا» للقرينة نحو : لا عَلَيْكَ ، أي لا بَأْسَ عَلَيْك.

القسم الثاني عشر : خبر «ما» و «لا» المشبّهتين بليس

هو المسند بعد دخولهما نحو : ما زَيْدٌ قائِماً ، ولا رَجُلٌ حاضراً. وإن وقع