درس الهدایة في النحو

درس نمبر 18: منصوبات 3(منادی)

 
1

خطبہ

2

ابتدایی عبارتیں

3

منادی كی تعریف اور اس كی مختلف اقسام کا اعرابی حکم

منادی

 "وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُنَادَى عَلَى أَقْسَامٍ" موضوع ہمارا یہ چل رہا تھا کہ چار مقامات پر مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔ ان میں سے چوتھے مقام پر ہم پہنچے تھے کہ چوتھا مقام جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہوتا ہے وہ ہے منادیٰ۔ ہم نے کہا تھا کہ منادیٰ یعنی جس کو حروف ندا میں سے کسی کے ساتھ پکارا جائے۔ اب چونکہ بات منادیٰ کی چل پڑی ہے تو یہ ایک ضمنی بحث آ گئی اور صاحب کتاب نے اس کو تحریر فرما دیا۔

منادیٰ کی اقسام

فرماتے ہیں:  منادیٰ تین قسم کا ہوتا ہے:

1۔کبھی منادیٰ مفرد معرفہ ہو گا یعنی اسم مفرد ہو گا یعنی مضاف یا شبہ مضاف نہ ہو گا اور معرفہ یعنی منادیٰ    بننے سے پہلے معرفہ ہو گا۔ 2۔کبھی منادیٰ مضاف یا شبہ مضاف ہو گا۔ شبہ مضاف کا معنیٰ آسان آپ کو بتاؤں اس کو لکھ لیں ،شبہ مضاف کا مطلب ہوتا ہے جیسے مضاف، مضاف الیہ سے ملے بغیر اس کا معنیٰ تام نہیں ہوتا، شبہ مضاف سے مراد یہ ہے کہ یعنی ایسا اسم کہ جو بغیر دوسرے اسم کے ملنے کے جس کا معنیٰ تام نہ ہو اس کو کہا جاتا ہے شبہ مضاف یعنی دوسرے اسم کے محتاج ہونے میں وہ مضاف کے مشابہ ہوتا ہے جیسے مضاف اپنے مضاف الیہ کا محتاج ہوتا ہے۔

3۔ یا منادیٰ مضاف ہو گا یا منادیٰ معرف باللام ہو گا۔ یعنی منادیٰ پر الف لام تعریف کا ہو گا۔

منادیٰ کی مختلف اقسام کا اعرابی حکم

اب فرماتے ہیں: چونکہ یہ منادیٰ تین قسم کا ہوتا ہے کبھی مفرد معرفہ ہوتا ہے، کبھی مضاف ہوتا ہے، کبھی معرف باللام ہوتا ہے تو ہر ایک کے اعراب کا حکم بھی جدا ہے۔ ہر ایک کے حکم یعنی اس کے جو اعراب کا حکم ہے وہ جدا ہے۔ اب شروع فرما رہے ہیں: اگر منادیٰ مفرد معرفہ ہو، میں نے گزارش کیا ہے مفرد مقابل ہے مضاف اور شبہ مضاف کے۔ اگر منادیٰ اسم مفرد ہے یعنی کسی کی طرف مضاف نہیں ہے اور معرفہ ہے تو اس کو مضموم پڑھیں گے جیسے "يَا زَيْدُ" لیکن اگر اسی مفرد معرفہ پر لام استغاثہ آ جائے تو پھر پڑھیں گے "يَا لَزَيْدٍ"۔ پھر اسی منادیٰ مفرد معرفہ کو مجرور پڑھیں گے کیونکہ اس پر لام استغاثہ آ گئی ہے۔ اور کبھی کبھی اس کو مفتوح بھی پڑھتے ہیں، کب؟ جب اس پر الف آ جائے یعنی اس کو کہتے ہیں الف ندبہ۔  بس اگر منادیٰ مفرد معرفہ ہو اس پر کوئی لام استغاثہ اور الف ندبہ نہ ہو تو وہ مضموم ہو گا۔ اگر منادیٰ مفرد بھی ہے، معرفہ بھی ہے لیکن اس پر لام استغاثہ آئی ہے تو اس کو مجرور پڑھیں گے جیسے "يَا لَزَيْدٍ"۔ اور اگر اس پر الف ندبہ داخل ہو جائے گی تو پھر وہ منصوب ہو گا جیسے "يَا زَيْدَاهُ" یہ تو ہو گیا حکم کہ اگر منادیٰ مفرد معرفہ ہو۔ لیکن اگر منادیٰ مضاف ہو یا شبہ مضاف پھر منادیٰ منصوب ہوتا ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں "يَا عَبْدَ اللهِ"، عبد پر ہم فتح پڑھتے ہیں۔ شبہ مضاف جیسے "يَا طَالِعًا جَبَلًا" اس لئے کہ یہ طالعًا جبلًا کا محتاج ہے طالعًا یعنی چڑھنے والا، تو کوئی چیز ہو گی جس پر چڑھنے والا ہو گا  چونکہ اپنا معنی دینے میں یہ محتاج ہے دوسرے اسم کا تو لہذا یہ بھی مضاف کے ساتھ شباہت رکھتا ہے محتاج ہونے میں۔ اسی طرح اگر منادیٰ نکرہ ہو غیر معین تو بھی وہ منصوب ہو گا۔

 منادی معرف باللام کا حکم

اگر منادیٰ معرف باللام ہو تو پھر حرف نداء اور منادیٰ کے درمیان "أَيُّهَا" یا "أَيَّتُهَا" کا فاصلہ لایا جاتا ہے۔ جیسے "يَا الرَّجُلُ" میں ہم کہیں گے "يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ"، یا مؤنث ہو تو کہیں گے "يَا أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ"۔بس منادیٰ کی تین قسمیں ہوتی ہیں، کبھی منادیٰ مفرد معرفہ ہوتا ہے، کبھی منادیٰ مضاف یا شبہ مضاف ہوتا ہے، کبھی منادیٰ معرف باللام ہوتا ہے، ہر ایک کے اعراب کا حکم دوسرے سے جدا ہے۔

تطبیق

فرماتے ہیں: "وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُنَادَى عَلَى أَقْسَامٍ" منادیٰ کی کئی قسمیں ہیں،  "فَإِنْ كَانَ مُفْرَدًا مَعْرِفَةً" اگر منادیٰ مفرد معرفہ ہے، اس پر کوئی لام استغاثہ بھی نہیں ہے، الف ندبہ بھی نہیں ہے۔ "يُبْنَى عَلَى عَلَامَةِ الرَّفْعِ" تو وہ مبنی ہو گا  علامت رفع پر  یعنی اس پر ہمیشہ رفع پڑھا جائے گا اور جیسے ضمہ  پڑھتے ہیں، جیسے "وَنَحْوِهَا" نحوھا سے مراد کیا ہے؟ یعنی ممکن ہے اگر اس کا اعراب بالحرکت ہو گا تو پھر الف کے ساتھ آ جائے گا، جیسے "يَا زَيْدُ" مفرد ہے "يَا زَيْ" "دُ"۔ "يَا" "زَيْ" "دُ"۔ "يَا" "رَجُلُ"۔ یہ "رَجُلُ" اس وقت میں ہو گا کہ جب نکرہ معین ہو، اگر غیر معین ہو گا تو پھر نہ، پھر وہ منصوب ہوتا ہے، "رَجُلُ"  یعنی اگر معین شخص کو کہہ رہا ہو تو پھر "يَا رَجُلُ" پڑھیں گے، معرفہ کرتا ہے۔ "يَا زَيْدَانِ" وغیرہ۔  "وَيُخْفَضُ بِلَامِ الْاِسْتِغَاثَةِ"۔ اگر منادیٰ پر لام استغاثہ داخل ہو جائے تو منادیٰ کو مجرور پڑھا جاتا ہے۔ جیسے "يَا زَيْدُ" کو پڑھیں گے "يَا لَزَيْدٍ"۔ چونکہ زید پر لام، لام استغاثہ ہے۔ "وَيُفْتَحُ بِإِلْحَاقِ أَلِفِهَا" اور اگر اسی منادیٰ میں الف استغاثہ ہو یعنی جس کو ہم کہتے ہیں الف ندبہ وہ اگر آ جائے تو پھر اس منادیٰ کے آخر میں فتح پڑھا جاتا ہے۔ جیسے ہم کہیں گے : "يَا زَيْدَاهُ"، "يَا زَيْدَاهُ" یہ الف، الف ندبہ کہلاتا ہے۔ "وَيُنْصَبُ إِنْ كَانَ مُضَافًا" اگر منادیٰ مضاف ہو کر استعمال ہو تو پھر منادیٰ کو منسوب پڑھا جاتا ہے۔ جیسے "يَا عَبْدَ اللهِ" عبد کی دال پر ہم نے فتح پڑھا چونکہ مضاف ہو رہا ہے لفظ اللہ کی طرف۔ "أَوْ مُشَابِهًا لِلْمُضَافِ" یا منادیٰ مشابہ مضاف ہو، مشابہ مضاف کی میں نے تفصیل بیان کر دی ہے۔ جیسے "يَا طَالِعًا جَبَلًا"، "أَوْ نَكِرَةً غَيْرَ مُعَيَّنَةٍ" یا نکرہ ہو لیکن غیر معینہ چونکہ معینہ ہو گا تو ہم نے اوپر کہا ہے پھر اس کو "يَا رَجُلُ" پڑھیں گے۔ لیکن اگر نکرہ غیر معین ہو "كَقَوْلِ الْأَعْمَى" ایک شخص ہے جو نابینا ہے جس کو کچھ نظر نہیں آ رہا وہ کہتا ہے "يَا رَجُلًا خُذْ بِيَدِيْ" اے مرد، اب اس کے لئے کوئی مرد معین نہیں ہے بلکہ وہ ایک وہ غیر معین ہے کوئی بھی ایسا مرد ہو جس کو کہتا ہے کہ میرا ہاتھ پکڑو۔ "وَإِنْ كَانَ مُعَرَّفًا بِاللَّامِ" اور اگر منادیٰ معرف باللام ہو گا تو پھر فرماتے ہیں: منادیٰ اور حرف نداء کے درمیان "أَيُّهَا" یا "أَيَّتُهَا" کا فاصلہ لایا جائے گا۔ جیسے ہم کہیں "يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ" مذکر کے لئے اور مؤنث کے لئے کہیں گے "يَا أَيَّتُهَا الرَّجُلُ"۔ اب ذرا اس کو تفصیل سے اگر لکھیں گے تو اور آسان ہو جائے گا۔ اگر منادیٰ مفرد معرفہ ہو تو اس پر رفع پڑھیں گے، اگر منادیٰ پر لام استغاثہ آ جائے تو منادیٰ مجرور ہو گا، اگر منادیٰ پر الف، الف ندبہ آ جائے تو وہ منصوب ہو گا، اگر منادیٰ مضاف ہو گا تو پھر بھی اس پر نصب ہو گا، اگر منادیٰ شبہ مضاف ہو گا تو بھی اس پر نصب ہو گا، اگر منادیٰ نکرہ غیر معین ہو گا تو بھی وہ منصوب ہو گا اور اگر منادیٰ معرف باللام ہو گا تو پھر حرف نداء اور منادیٰ کے درمیان "أَيُّهَا" یا "أَيَّتُهَا" کا فاصلہ لے آئیں گے۔ 

4

ترخیم منادیٰ

ترخیم منادیٰ

آگے فرماتے ہیں:  باب منادیٰ میں کہ ترخیم منادیٰ جائز ہے۔ ترخیم بمعنی تسہیل کے، یعنی منادیٰ کو ذرا آسان بنانا، اس کو چھوٹا کرنا۔  اچھا تسہیل کیا ہوتی ہے؟ ترخیم کا معنیٰ دم کاٹنا بھی ہوتا ہے۔ یہاں مراد یہ ہو گی اس کے آخری حرف کو ہٹائیں گے تو گویا کاٹ دیا، لیکن ترخیم بمعنی تسہیل کیا ہے، اس کو اور آسان پڑھنا۔ اچھا وہ کیسے ہوتی ہے ترخیم؟ کہ اس منادیٰ کے آخری حرف کو حذف کر دیا جائے کیوں؟ تخفیف کے لئے تاکہ اس کو نسبتاً چھوٹا کر دیا جائے، ذرا اس کو بلانا آسان ہو جائے، یہ ہے جائز ہے یعنی اگر آپ چاہیں تو اس اسم منادیٰ کے آخری حرف کو حذف بھی کر سکتے ہیں۔ اس آخری حرف کو حذف کرنے کا نام ہوتا ہے ترخیم یعنی ترخیم المنادیٰ۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ یہ ترخیم منادیٰ کیا ہوتی ہے؟ تو آپ کہیں گے اسم منادیٰ کے آخری حرف کو حذف کر دینا،ترخیم یعنی تسہیل۔ "وَيَجُوْزُ تَرْخِيْمُ الْمُنَادَى" اور منادیٰ کی ترخیم جائز ہے۔ میں نے گزارش کی ہے ترخیم بمعنی تسہیل کے لیں گے۔ وہ کیا ہے؟ یعنی "وَهُوَ حَذْفٌ فِيْ آخِرِهِ" ترخیم کیا ہے؟ یعنی منادیٰ کے آخری حرف کو حذف کر دینا، وجہ؟ "لِلتَّخْفِيْفِ" تخفیف کے لئے تاکہ تھوڑا آسان ہو جائے، سہولت ہو جائے، لفظ چھوٹا ہو جائے۔ "تَقُوْلُ فِيْ مَالِكٍ" اگر بندے کا نام ہے مالک، آپ اس کو کہیں "يَا مَالُ"۔ یا منصور کو کہیں "يَا مَنْصُ" واؤ تو ویسے ہی ساکن تھی وہ گر جائے گی۔ عثمان کو کہیں "يَا عُثْمُ"، "وَيَجُوْزُ فِيْ آخِرِ الْمُنَادَى الْمُرَخَّمِ الضَّمُّ وَالْحَرَكَةُ الْأَصْلِيَّةُ" یہ علیحدہ حکم ہے، جب بھی کسی اسم منادیٰ کی ترخیم کرتے ہوئے اس کے آخری حرف کو گرا دیں گے، حذف کر دیں گے تو اب آپ کے لئے جائز ہے کہ اب جو باقی بچا ہے چاہے تو اس کے آخر پر ضمہ پڑھیں،وہ جیسے منصور کو ہم پڑھیں "يَا مَنْصُ"،  مالک کو پڑھیں "يَا مَالُ"۔ "وَالْحَرَكَةُ الْأَصْلِيَّةُ" اور یہ بھی جائز ہے کہ  ہم اس کے آخر میں وہی حرکت پڑھیں جو ترخیم سے پہلے اس حرف کے آخر میں تھی  یعنی ہم اگر "يَا مَالُ" پڑھیں تو بھی ٹھیک اور اگر مالک تھا اصل میں لام پر زیر تھی تو اب اس کو "يَا مَالِ" پڑھیں تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں: اگر ایک اسم ہے حارث ہم نے اس کی کر دی ہے ترخیم، ثاء کو گرا دیا ہے "حَارِثْ" اب ہم اس کو "يَا حَارُ" پڑھیں تو بھی جائز ہے، "يَا حَارِ" پڑھیں تو بھی جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا عثمان کو "يَا عُثْمُ" پڑھیں تو بھی جائز ہے "يَا عُثْمَا" پڑھیں تو بھی جائز ہے۔

5

قواعد مندوب اور اعراب

 استعمال 'یا'  ندبہ کے     لیے

آخر میں ایک چھوٹی سی بات فرما رہے ہیں:  "أَنَّ يَا مِنْ حُرُوفِ النِّدَاءِ قَدْ يُسْتَعْمَلُ فِي الْمَنْدُوبِ أَيْضًا". مندوب اس کو کہتے ہیں کہ جس پر ندبہ کیا جاتا ہے، جس پر گریہ و زاری کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں: حرف ندا کہ یا اگرچہ حروف ندا میں سے ہے، اگرچہ یہ بلانے کے لیے آتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ مندوب میں استعمال ہوتا ہے۔ جب مندوب میں ہوتا ہے تو ہم اس وقت اس کو بلا نہیں رہے ہوتے، بلکہ درحقیقت ہم اس پر اس وقت ندبہ کر رہے ہوتے ہیں، رو  رہے ہوتے ہیں۔ 

قواعد مندوب اور اعراب 

"وَاعْلَمْ أَنَّ يَا"  یا حروف ندا میں سے ہے، "قَدْ تُسْتَعْمَلُ فِي الْمَنْدُوبِ أَيْضًا" اور کبھی کبھی یہ مندوب میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مندوب کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں: "هُوَ الْمُتَفَجَّعُ عَلَيْهِ". مندوب اسے کہتے ہیں کہ جس پر تفجع کیا جائے، جس پر دکھ درد کا اظہار کیا جائے، یا اور واو کے ساتھ اور جیسے ہم کہتے ہیں یا حسین، یا حسن، اس طرح فرماتے ہیں:  یہ جب گریہ کیا جائے، دکھ و درد کا اظہار کیا جائے تو یا اور واو کے ساتھ اس کو مندوب کہتے ہیں۔ بس جیسے ہم کہیں: "يَا زَيْدَاهُ"، یا "وَا زَيْدَاهُ". بس "فَوَا مُخْتَصَّةٌ بِالْمَنْدُوبِ" لہذا جو واو ہوگی یہ فقط ندبے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن جو یا ہے یہ کبھی ندا کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کبھی مندوب میں۔ "وَ حُكْمُهُ فِي الْإِعْرَابِ وَ الْبِنَاءِ فِي حُكْمِ الْمُنَادَى". مندوب کا حکم کب معرب ہوگا، کب مبنی ہوگا، مبنی ہوگا تو پھر کونسی حرکت پر مبنی ہوگا؟ فرماتے ہیں: اس مندوب کا حکم بھی سارا اسی منادی والا حکم ہے، جو حکم منادی کا ہوگا اس کا بھی وہی ہے۔ منادی کا مطلب کیا ہوگا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفرد معرفہ ہوگا تو مبنی علی الرفع ہوگا، اگر مضاف ہو کے استعمال ہوگا تو پھر منصوب ہوگا الی آخرہ۔

صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ

الفاعل ك‍ : ضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ. وقد يحذف فعله لقيام قرينة جوازاً نحو : زَيْداً ، في جواب من قال : مَنْ أضْرِبُ ؟ ، أو وجوباً في أربعة مواضع :

الأوّل : سماعيّ نحو : امرأ وَنَفْسَهُ ، أي دَعْهُ وَنَفْسه ، و «انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ» (١) أي انتهوا عن التّثليث واقصدوا خيراً لكم ؛ وأهْلاً وسَهْلاً ، أي أتيت مكاناً أهلاً وأتيت مكاناً سهلاً ، والبواقي قياسيّة.

الثاني : التحذير ، وهو معمول بتقدير اتَّقِ ، تحذيراً ممّا بعده ، نحو : إيّاك وَالْأسَدَ ، أصله اتّق نفسك من الأسد ، أو ذكر المحذّر منه مكرّراً نحو : الطَّريقَ الطَّريقَ.

الثالث : ما اُضمر عامله على شريطة التفسير ، وهو كلّ اسم بعده فعل أو شبه فعل يشتغل ذلك الفعل عن ذلك الاسم بضميره ، بحيث لو سلّط عليه هو ، أو مناسبه لنصبه نحو : زَيْداً ضَرَبْتُهُ ، فإنّ زيداً منصوب بفعل محذوف وهو : ضربت ، ويفسّره الفعل المذكور بعده وهو : ضربته. ولهذا الباب فروع كثيرة.

الرابع : المنادى ، وهو اسم مدعوّ بحرف النداء وهي : «يا» و «أيا» و «هَيا» و «أيْ» والهمزة المفتوحة لفظاً ، نحو : يا عَبْدَ اللهِ ، أي أدعو عبد الله ، وحرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ.

وقد يحذف حرف النداء لفظاً نحو قوله تعالى : «يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا» (٢).

واعلم أنّ المنادى أقسام ، فإن كان مفرداً معرفة يبنى على علامة الرفع كالضمّة نحو : يا زَيْدُ ، والألف نحو : يا زَيْدان ، والواو نحو : يا زَيْدُونَ ، ويخفض بلام الاستغاثة نحو : يا لَزَيْدٍ ، ويفتح بإلحاق ألفها نحو يا زَيْداه.

____________________________

(١) النساء : ١٧١.

(٢) يوسف : ٢٩.

وينصب إن كان مضافاً نحو : يا عَبْدَ اللهِ ، أو مشابهاً للمضاف نحو : يا طالِعاً جَبَلاً ، أو نكرة غير معيّنة نحو قول الأعمى : يا رَجُلاً خُذْ بِيَدي. وإن كان معرّفاً باللام قيل : يا أيُّهَا الرَّجُلُ ، ويا أيَّتُهَا المرأَةُ.

ويجوز ترخيم المنادى ، وهو حذف في آخره للتّخفيف كما تقول في يا مالِكُ : يا مالِ ، وفي يا مَنْصُورُ : يا مَنْصُ ، وفي يا عُثْمانُ : يا عُثْمُ. ويجوز في آخر المرخّم الضمّة والحركة الأصليّة كما تقول في يا حارِثُ : يا حارُِ.

واعلم أنّ «يا» من حروف النداء وقد تستعمل في المندوب أيضاً ، وهو المتفجّع عليه بـ : «يا» أو «وا» يقال : يا زَيْداه ، ووازَيْداه. «فوا» يختصّ بالمندوب ، و «يا» مشترك بين النداء والمندوب.

القسم الثالث : المفعول فيه

وهو اسم ما وقع الفعل فيه من الزمان والمكان ، ويسمّى ظرفاً. وظرف الزمان على قسمين :

مبهم : وهو ما لا يكون له حدّ معيّن ك‍ : دَهْر وحين.

ومحدود : وهو ما يكون له حدّ معيّن ك‍ : يَوْم ولَيْلَة وشَهْر وسَنَة.

وكلّها منصوب بتقدير «في» ، تقول : صُمْتُ دَهْراً ، وسافَرْتُ شَهْراً ، أي في دهر وفي شهر.

وظروف المكان كذلك : مبهم وهو منصوب أيضاً نحو : جَلَسْتُ خَلْفَكَ وأمامَكَ ، ومحدود وهو ما لا يكون منصوباً بتقدير «في» بل لا بدّ من ذكر «في» (١) نحو : جَلَسْتُ فِي الدارِ. وفِي السُّوقِ وفي المَسْجِدِ.

____________________________

(١) قوله : بل لا بد من ذكر في وقد اُشير الى ذلك في قول الشاعر بالفارسي :

ظرف زمان مبهم ومحدودى

قابل نصبند بتقدير في

ليك مكان آنچه معيّن بود

چاره در او نيست بجز ذكر في