درس الهدایة في النحو

درس نمبر 17: منصوبات۔2

 
1

خطبہ

2

ابتدایی عبارتیں

3

مفعول بہ اور حذف فعل کے مقامات

توضیح

گذشتہ درس میں ہم نے آغاز کیا تھا منصوبات کا کہ وہ اسماء جو اصالتاً منصوب ہوتے ہیں، ان میں سے فقط مفعولِ مطلق کی بحث ہم نے پڑھی تھی۔ان منصوب اسماء میں سے دوسرا اسم جو منصوب ہوتا ہے وہ ہے مفعول بہ۔

سوالِ مقدر: مفعول بہ کسے کہتے ہیں؟ جواب: وہ اسم جس پر فاعل کا فعل واقع ہو یعنی جس پر فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے اس کو مفعول بہ کہتے ہیں۔ بالکل آسان سی مثالیں دی ہیں انہوں نے: "ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا"۔ "ضَرَبَ" فعل ہے۔ "زَيْدٌ" فاعل ہے یعنی زید نے مارا ہے، زید نے ضرب والے کام کو، مارنے والے کام کو انجام دیا ہے۔ تو اب جب زید نے مارا ہے پھر کسی کو تو مارا ہو گا نا؟ وہ ضرب کسی پر واقع بھی تو ہوئی ہو گی۔ جس پر اس زید کے مارنے والا عمل واقع ہوا ہے اس کو مفعول کہتے ہیں اور یہ ہے "عَمْرًا" یعنی "ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا"، مارا زید نے عمرو کو، عمرو مفعول بہ ہے چونکہ زید کا جو فعل ہے یعنی جو مارنے والا ہے وہ اس زید پر واقع ہوا ہے، اس نے اس کو مارا ہے۔

یہ ہو گئی اس کی تعریف۔

اب اس کے آگے اس کے احکام شروع ہو رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کبھی کبھار یہ مفعول بہ فاعل پر مقدم بھی ہوتا ہے۔ یعنی گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس مفعول بہ کو اپنے فاعل پر بسا اوقات مقدم کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔ یہ جیسے "ضَرَبَ عَمْرًا زَيْدٌ" اگر کہا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

اگلا حکم: بسا اوقات اس مفعول بہ کے فعل کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے۔ یاد ہو گا ہم نے پیچھے عوامل میں پڑھا تھا کہ فعل عامل لفظی ہے جو فاعل کو رفع اور مفعول اگر متعدی ہو تو مفعول بہ کو نصب دیتا ہے۔ تو ظاہر ہے اس مفعول بہ کے لیے ناصب وہی فعل ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں بسا اوقات اسی فعل، اسی مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا جائز ہوتا ہے اور کبھی  حذف کرنا واجب ہوتا ہے۔  نمبر دو۔

جہاں فعل پر کوئی قرینہ موجود ہو گا کہ واضح  پتہ چل رہا ہو کہ اس مفعول بہ کا فاعل کون ہے وہاں تو اس کے فعل کو حذف کرنا جائز ہو گا۔ لیکن چار مقامات ایسے ہیں جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔یعنی جہاں قرینہ موجود ہو وہاں حذف کرنا جائز ہے اور چار مقامات ایسے ہیں جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔

حذف فعل کے موارد (مقامات)

پہلا مقام سماعی، کئی دفعہ سماعی کی گزارش کی ہے۔ سماعی کا مطلب ہے جس کے لیے کوئی قاعدہ قانون ہمارے پاس نہیں ہوتا، بس جہاں عرب اس کو حذف کرتے ہیں ہم بھی وہاں حذف کریں گے جہاں نہیں کرتے نہیں کریں گے۔ اور تین مقامات ایسے ہیں جو قاعدہ کلیہ کے تحت آتے ہیں۔ نمبر ایک اگر موضع موضع تحذیر ہو یعنی آپ کسی شخص کو کسی چیز سے ڈرانا چاہتے ہیں تو اس کو مقام تحذیر کہا جاتا ہے، مقام تحذیر۔

دوسرا  مقام  اگر اسم مفعول ایسا اسم ہو کہ اس کے بعد ایک فعل ہو، وہ فعل اس اسم کے فعل کی تفسیر کر رہا ہو اور وہ فعل جو بعد میں ہے وہ ایک ضمیر میں عمل کر رہا ہے جو ضمیر اس مفعول مطلق کی طرف پلٹ رہی ہے۔ اس کو کہتے ہیں: "مَا أُضْمِرَ عَامِلُهُ عَلَى شَرِيطَةِ التَّفْسِيرِ" یا "عَلَى شَرِيطَةِ التَّفْسِيرِ"۔ 

تیسرا مقام ہو گا وہ قیاسی میں سے تیسرا، ویسے چوتھا وہ ہے "اَلْمُنَادَى" کہ جب یہ منادیٰ واقع ہو رہا ہو مفعول بہ منادیٰ ہو وہاں بھی اس کے فعل کو حذف کیا جاتا ہے۔ اب ترجمہ کرتے ہیں اگلی باتیں پھر ترتیب سے ایک ایک کر کے واضح کرتے ہیں۔

 متن کی تطبیق

"اَلْمَفْعُولُ بِهِ"۔ منصوبات میں سے دوسرا اسم جو منصوب ہے وہ ہے مفعول بہ "وَهُوَ اسْمٌ" مفعول بہ وہ اسم ہے۔ "مَا وَقَعَ عَلَيْهِ فِعْلُ الْفَاعِلِ" جس پر فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے۔ جس پر فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے، جیسے "ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا"۔ "ضَرَبَ" فعل ہے۔ "زَيْدٌ" فاعل ہے۔ "عَمْرًا" مفعول بہ ہے۔ کیوں؟ چونکہ زید کا جو فعل تھا ضرب و مارنے والا وہ عمرو پر واقع ہوا ہے۔ یعنی زید نے مارا عمرو کو تو وہ فعل عمرو پر واقع ہوا ہے۔ لہذا یہ مفعول بہ ہے۔

"وَقَدْ يَتَقَدَّمُ عَلَى الْفَاعِلِ"۔ کبھی کبھار یہ مفعول بہ اپنے فاعل پر مقدم ہوتا ہے۔ یعنی کیا؟ کہ بعض صورتوں میں اس کو مقدم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے "ضَرَبَ عَمْرًا زَيْدٌ" اگر پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہم نے پیچھے پڑھا تھاکہ اگر وہ دونوں اسم مقصور ہوں تو وہاں پھر فاعل کو مقدم اور مفعول کو مؤخر کرنا واجب ہے۔  ایک حکم یہ ہو گیا کہ اس مفعول بہ کو کبھی کبھار یہ مفعول بہ اپنے فاعل پر مقدم بھی ہوتا ہے اگر کسی التباس کا خوف نہ ہو تو۔ جیسے "ضَرَبَ عَمْرًا زَيْدٌ" پڑھیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔

"وَقَدْ يُحْذَفُ فِعْلُهُ لِقِيَامِ قَرِينَةٍ جَوَازًا"۔  کبھی کبھار مفعول بہ کا فعل حذف کر دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ آگے بتا رہے ہیں۔ کہ کبھی اس کا حذف جائز ہوتا ہے اور آگے ایک لفظ آ رہا ہے "وَوُجُوبًا" اور کبھی اس کا حذف واجب ہوتا ہے۔ اب آپ کاپی میں یوں لکھیں گے، اگر مفعول بہ کے فعل پر کوئی قرینہ موجود ہو تو اس وقت مفعول بہ کے فعل کو اس قرینے کی وجہ سے حذف کرنا جائز ہے،جیسے ایک شخص کہتا ہے: "مَنْ أَضْرِبُ؟" اس نے آپ سے پوچھا "مَنْ أَضْرِبُ؟" میں کس کو ماروں؟ آپ جواب میں فقط اتنا کہہ دیں "زَيْدًا"۔ اب "زَيْدًا" کا جو فعل تھا "اِضْرِبْ" یہ محذوف ہے یعنی اس کا حذف کرنا جائز ہے۔ آپ بجائے "اِضْرِبْ زَيْدًا" کے آپ خالی "زَيْدًا" کہہ دیں۔ کیوں؟ چونکہ قرینہ موجود ہے جب وہ پیچھے پوچھ رہا ہے کہ "مَنْ أَضْرِبُ؟" کس کو ماروں؟ تو اب اس کا مطلب قرینہ ہے کہ بات مارنے کی ہے اور یہ اگر "زَيْدًا" کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ "اِضْرِبْ" فعل ہو گا کوئی اور نہیں ہو گا۔ 

 "وَوُجُوبًا فِي أَرْبَعَةِ مَوَاضِعَ"۔ اور چار مقامات ایسے ہیں جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔  چار مقامات ایسے ہیں جہاں پر مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔ کون کون سے؟ کاپی میں آپ یوں لکھیں گے۔

پہلا مقام :سماعی ہے۔ جہاں عرب والوں نے حذف کیا ہے، ہم بھی وہاں حذف کریں گے یعنی اس کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔ تین مقام قیاسی ہیں یعنی قانون ہے، قاعدہ ہے۔ مقام اول کو کہا جاتا ہے تحذیر، مقام ثانی کو نام دیا جاتا ہے اشتغال اور مقام ثالث کو منادیٰ۔ اب ذرا تفصیل انشاءاللہ سب کی بتاتا ہوں، آسان ہو جائے گا۔ 

"اَلْأَوَّلُ سَمَاعِيٌّ"پہلا مقام: جہاں فعل مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے، حذف واجب ہے وہ ہے سماعی۔ جیسے "اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" ایک، "وَانْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ" دو، "أَهْلًا وَسَهْلًا" تین۔ اب ان کی ذرا تفصیل سمجھ لیں۔ فرماتے ہیں یہ دیکھو۔ "اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" یہ مفعول بہ ہے۔ اصل میں ہے "اُتْرُكْ اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" یعنی اس آدمی کو اس کے حال پہ چھوڑ دے۔ اب یہاں عرب "اُتْرُكْ" فعل کو نہیں پڑھتے۔ فقط "اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" کہتے ہیں جب کسی کے بارے میں کہو فلاں کو اپنے حال پہ چھوڑ دے بس "اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" کہہ دیتے ہیں فعل کو حذف کرتے ہیں ہم بھی حذف کریں گے۔ اسی طرح "وَانْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ" اصل میں ہے "وَانْتَهُوا عَنِ التَّثْلِيثِ وَاقْصِدُوا خَيْرًا لَكُمْ" یہ آیت ہے، "وَانْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ" اصل میں تھا "وَانْتَهُوا عَنِ التَّثْلِيثِ وَاقْصِدُوا خَيْرًا لَكُمْ" یعنی "وَاقْصِدُوا" فعل یہاں پر محذوف ہے۔ جو قرآن میں آتا ہے کہ تم تین خدا نہ بناؤ بلکہ تم یعنی اختیار کرو ایک ہی خدا پر اکتفا کرو۔ اسی طرح "أَهْلًا وَسَهْلًا"۔ عرب والے ہمیشہ ایسا ہی کہتے ہیں کہ "أَهْلًا وَسَهْلًا" یہ مفعول بہ ہے اصل میں ہے "أَتَيْتَ أَهْلًا وَوَطِئْتَ سَهْلًا"۔ "أَتَيْتَ أَهْلًا" کے لیے فعل ہے وہ بھی محذوف ہے اور "وَوَطِئْتَ سَهْلًا"، "سَهْلًا" کے لیے "وَوَطِئْتَ" فعل ہے یہ بھی ہم نے دیکھا کہ عرب والے ہمیشہ ان کو محذوف کرتے ہیں۔ "أَتَيْتَ أَهْلًا" یعنی "أَتَيْتَ"، "أَتَيْتَ" کہتے ہیں آنے کو تو اپنے گھر میں آیا ہے۔ "وَوَطِئْتَ سَهْلًا"۔ "وَطِئْتَ" کا لفظی معنی ہوتا ہے زمین کو روندنا۔ مراد کیا ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں ہیں آپ چل کر آئیں۔ اس لیے کہتے ہیں "أَهْلًا وَسَهْلًا"۔  یہ تو ہو گیا سماعی چونکہ ہم نے دیکھا ان مقامات پر جو عرب ہیں وہ فعل کو نہیں پڑھتے لہذا "اِمْرَأً وَنَفْسَهُ" میں وہ "اُتْرُكْ" نہیں پڑھتے، ہم بھی نہیں پڑھیں گے۔ "وَانْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ" میں "وَاقْصِدُوا خَيْرًا لَكُمْ"، "وَاقْصِدُوا" نہیں پڑھتے، ہم بھی نہیں پڑھیں گے۔ "أَهْلًا وَسَهْلًا" میں "أَتَيْتَ" اور "وَطِئْتَ" نہیں پڑھتے، ہم بھی اس کو حذف کریں گے۔

دوسرا مقام: باقی جو تین مقامات ہیں وہ قیاسی ہیں۔ قیاسی کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قاعدہ قانون کے تحت ہیں، ان کے لیے ایک ضابطہ ہے۔ اب شروع کر رہے ہیں یہاں سے۔ دوسرا مقام کہ جہاں پر مفعول بہ کے فعل کو حذف کیا جاتا ہے، وہ ہے "التَّحْذِیْر"، مقام مقام تحذیر۔ تحذیر یعنی کسی کو ڈرانے کا مقام، تحذیر کا معنی ہوتا ہے ڈرانا، یعنی آپ کسی کو کسی چیز سے ڈرانا چاہتے ہیں اس مقام کو کہتے ہیں تحذیر۔  "هُوَ مَعْمُوْلٌ بِتَقْدِيْرِ اتَّقِ"۔ یہ درحقیقت معمول ہوتا ہے یعنی یہاں اسم عمل کرنے والا فعل ہوتا ہے "اتَّقِ"۔ "بِتَقْدِيْرِ اتَّقِ" یعنی اصل میں "اتَّقِ" ہوتا ہے۔ بچ کیوں؟ "تَحْذِيْراً مِمَّا بَعْدَهُ" اس سے ڈرانے کے لیے جو "اتَّقِ" کے بعد آتا ہے یعنی یہ جو کہہ رہا ہے کہ تو بچ کس سے بچ؟ اب اس کے بعد جو ہوتا ہے اس کو مفعول بہ ہوتا ہے وہ، اس کو ذکر کرتے ہیں لیکن اس کے فعل کو ذکر نہیں کرتے، مثلاً "إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ"۔ "إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ"۔ اب ذرا غور کرو، "إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ" اصل میں کیا تھا؟ "اِتَّقِ إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ" کہ تو بچا اپنے آپ کو شیر سے۔ یعنی درحقیقت "اتَّقِ" تھا اور یہ اس کو کہنا چاہتا کہ تو اپنے کو بچا کس سے؟ شیر سے اسد سے۔  ایک طریقہ یہ ہوگیا لیکن وہ کہتا کیا ہے؟ "إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ"، "إِيَّاكَ وَ الْأَسَدَ" یعنی وہ مفعول بہ کو ذکر کر رہا ہے لیکن "اتَّقِ" فعل کو ذکر نہیں کر رہا۔ یہ مقام تحذیر پر فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔ کیوں؟ آپ نے ڈرانا ہے، آپ اگر لمبے چوڑے جملے بناتے رہتے ہیں تب تک تو شیر اس کو کھا جائے گا۔ اسی لیے جملے کو کم، چھوٹے سے چھوٹا کرنا ہوتا ہے۔ لہذا فقط مفعول مطلق کو ذکر کرتے ہیں۔ "أَوْ ذُكِرَ الْمُحَذَّرُ مِنْهُ مُكَرَّراً" یا ایک طریقہ یہ ہے کہ نہیں جس سے ڈرایا جا رہا ہے جو محذر منہ ہے، جس سے ڈرانا ہے آپ بجائے اس کے فعل کو ذکر کرنے کے مکرراً آپ اسی محذر منہ کو تکراراً ذکر کر دیں یعنی جس سے ڈرانا ہے اس کو دو دفعہ تین دفعہ ذکر کر دیں۔ بس یہاں بھی اس پر یقیناً جو فعل ہوگا وہ محذوف ہوگا۔ جیسے اگر ایک شخص جا رہا ہے اور اس کو راستے میں کوئی خطرہ ہے تو آپ کیا کہیں؟ "الطَّرِیْقَ الطَّرِیْقَ" یا آپ کہیں اور راستہ راستہ یا آپ اس کو کہیں "الْأَسَدَ الْأَسَدَ" شیر شیر یعنی یہ کہہ دیں، یہ بھی ایک طریقہ یہی تحذیر ہے تو گویا تحذیر کے دو طریقے ہو گئے۔، ایک یہ ہے کہ آپ فعل "اتَّقِ" کو محذوف کر دیں، اس کو ذکر نہ کریں اور دوسرا یہ ہے کہ نہیں آپ اسی محذر منہ کو، اگر تکرار بار بار کہہ دیں تو بھی دونوں مقامات پر یہ ہیں مفعول مطلق لیکن ان کے افعال کو ذکر نہیں کرنا۔ تو بس خلاصہ کیا ہوگا؟ یعنی تحذیر کے مقام پر مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے۔ 

تیسرا مقام:  یعنی اس ترتیب میں تیسرا مقام جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے اور قیاسی میں سے دوسرا بن جائے گا لیکن اس ترتیب میں تیسرا بن جائے گا۔ اب اس کو ذرا غور سے سمجھنا ہے وہ یہ ہے۔ "اِسْمٌ مَا أُضْمِرَ عَامِلُهُ عَلَى شَرِيْطَةِ التَّفْسِيْرِ"۔ اس مقام کو کہتے ہیں مقام اشتغال۔ تیسرا مقام کیا ہے؟ اس کو لکھیں گے تیسرا مقام مقام اشتغال ہے۔ کیا مطلب اس کا؟ یعنی "مَا أُضْمِرَ عَامِلُهُ" جس کے عامل کو حذف کیا گیا ہو "عَلَى شَرِيْطَةِ التَّفْسِيْرِ" تفسیر کی شرط پر، آگے بتاتا ہوں یہ تو لفظی ترجمہ ہے کہ ہم نے اس اسم کے یعنی اس مفعول بہ کے فعل کو اس کا جو عامل فعل تھا اس کو حذف کیا ہے۔ کیوں؟ اس بنیاد پر کہ اس کے بعد ایک اور فعل آئے گا جو اس کے عامل فعل کی تفسیر کر رہا ہوگا یعنی جس کو حذف کیا ہے وہ مفسَّر ہوگا، جو بعد میں ذکر ہوگا وہ مفسِّر ہوگا۔ تو چونکہ مفسِّر اور مفسَّر کے درمیان جمع نہیں کرنی اس لیے ہم مفسَّر کو یعنی اس کے جو فعل ہوگا مفعول بہ کا اس کو حذف کر دیں گے۔ یہ تو ہو گیا ایک۔ جناب یہ کہاں ہوتا ہے؟ اس کی صورت حال کہاں ہوگی؟ کہاں ہوتا ہے کہ جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کر دیا جاتا ہے اس شرط پر کہ بعد میں ایک فعل اس کی تفسیر کر رہا ہوتا ہے؟  آپ کہیں گے مقام اشتغال، اشتغال کہاں ہوتا ہے؟ جواب: "هُوَ كُلُّ اسْمٍ" ہر وہ اسم "بَعْدَهُ فِعْلٌ" جس کے بعد فعل ہو یعنی اسم پہلے ہو اور بعد میں ایک فعل ہو۔ "أَوْ شِبْهُهُ" یا شبہ فعل ہو اور جیسے اسم فاعل مفعول وغیرہ ہوتے ہیں۔ "يَشْتَغِلُ ذَلِكَ الْفِعْلُ عَنْ ذَلِكَ الْإِسْمِ" وہ جو بعد میں فعل موجود ہے وہ فعل اس اسم سے کہ جو اسم اس سے پہلے موجود ہے وہ اس وہ فعل اس اسم سے اشتغال کر رہا ہو۔ اعراض کر رہا ہو۔ کیوں؟ "بِضَمِيْرِهِ" اسی کے لیے کہ اس فعل کے ساتھ ایک ضمیر موجود ہے جو اس کی طرف جا رہی ہے اس اسم کی طرف جا رہی ہے، اس کی ضمیر کی وجہ سے "أَوْ مُتَعَلِّقِهِ" یا اس کے متعلق کی طرف جا رہی ہے۔ تھوڑا ترجمہ سن لیں پھر دوبارہ اس کو واضح کرتا ہوں۔ "بِحَيْثُ" اس طرح یعنی اس انداز میں وہ فعل موجود ہو کہ "لَوْ سُلِّطَ عَلَيْهِ هُوَ" کہ اگر اس اسم پر اسی فعل کو مسلط کر دیا جائے یعنی اس کو اگر اس سے پہلے لے آئیں "أَوْ مُنَاسِبُهُ" یا اس فعل کا کوئی اور مناسب اس سے پر مسلط کر جائے اس سے پہلے لے آئیں "لَنَصَبَهُ" تو یہ فعل اس اسم کو نصب دے گا۔ مثال اس کی بڑی آسان سی ہے: "زَيْداً ضَرَبْتُهُ"۔ "زَيْداً ضَرَبْتُهُ"۔ اب ذرا غور کرو گا۔ "زَيْداً" اسم ہے جیسے ہم نے کہا "كُلُّ اسْمٍ"۔ ہم نے کہا تھا "بَعْدَهُ فِعْلٌ" اس زید کے بعد فعل ہے کونسا؟ "ضَرَبْتُ"۔ ہم نے کہا تھا کہ وہ فعل اس اسم کی ضمیر میں عمل کرنے کی وجہ سے اعراض کر رہا ہو۔ "ضَرَبْتُهُ"، "هُ" ایک ضمیر ہے جو جا رہی ہے اسی اسم کی طرف۔ساری تعریفیں پوری ہو گئیں کہ اسم ہے اس کے بعد ایک فعل ہے، فعل کے ساتھ ایک ضمیر ہے اور وہ ضمیر اسی اسم کی طرف جا رہی ہے۔ "فَإِنَّ زَيْداً مَنْصُوْبٌ" زید منصوب ہے۔ اب ہم کہہ رہے ہیں "زَيْداً ضَرَبْتُهُ"، یہاں زید جو منصوب ہے وہ بعد والے "ضَرَبْتُ" کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ "زَيْداً" منصوب ہے "بِفِعْلٍ مَحْذُوْفٍ مُضْمَرٍ" ایک فعل محذوف مضمر کی وجہ سے یعنی اس سے پہلے ایک فعل تھا جو محذوف ہے۔ اور وہ کونسا ہے؟ "وَ هُوَ ضَرَبْتُ" وہ تھا "ضَرَبْتُ"۔ یعنی اصل میں تھا "ضَرَبْتُ زَيْداً ضَرَبْتُهُ"۔ تو اب پہلا "ضَرَبْتُ" کیوں محذوف ہے؟ "يُفَسِّرُهُ فِعْلُ الْمَذْكُوْرِ بَعْدَهُ" چونکہ بعد میں جو زید کے بعد "ضَرَبْتُهُ" آیا ہے جو "ضَرَبْتُ" موجود ہے یہ درحقیقت اسی "ضَرَبْتُ" کی تفسیر کر رہا ہے کہ جو محذوف ، "وَ لِهَذَا الْبَابِ فُرُوْعٌ كَثِيْرَةٌ" اس کی اور بہت ساری مثالیں ہیں۔ تیسرا مقام لکھ لیا ہوگا آپ نے اس کو اشتغال کہتے ہیں الی آخره۔

 چوتھا مقام : جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے وہ کونسا ہے؟ وہ ہے "الْمُنَادَى" جب مفعول بہ کیا ہو؟ منادی ہو۔ اچھا جی یہ منادی کیا ہوتا ہے؟ تعریف: ہر وہ اسم جس کو حرف ندا کے ذریعے مدعو کیا گیا ہو، پکارا گیا ہو اس کو کہتے ہیں منادی۔ ہر وہ اسم "مَدْعُوٌّ" یعنی جس کو دعوت دی گئی ہو جس کو پکارا گیا ہو "بِحَرْفِ نِدَاءٍ" حرف ندا کے ذریعے۔  اب پھر بحث آئے گی کہ  حرف ندا کون سے ہوتے ہیں؟ آگے سب کی تفصیل بیان کر رہے ہیں ۔  بسا اوقات یہ حرف ندا لفظاً موجود ہوتا ہے جیسے بندہ    کہے "يَا زَيْدُ"۔ ایک بندہ جا رہا تھا آپ کہتے ہیں "يَا زَيْدُ"۔ "يَا" کو آپ نے لفظاً ذکر کیا اور اس کے ذریعے آپ نے زید کو پکارا ہے اور کبھی کبھی یہ حرف ندا لفظاً موجود نہیں ہوتا لیکن حکماً ہوتا ہے واقع میں ہوتا ہے جیسے قرآن مجید کی آیت ہے: "يُوْسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا" اصل میں ہے "يَا يُوْسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا"۔ حروف ندا کتنے ہیں؟ پانچ وہ انشاءاللہ آ رہے ہیں کہ "يَا"، "أَيَا"، "هَيَا"، "أَيْ" اور "هَمْزَةِ مَفْتُوْحَة" پھر انشاءاللہ شاید یہ بھی آگے بیان کریں گے کہ کون کس کے لیے آتا ہے۔ "الرَّابِعُ"  چوتھا مقام جہاں مفعول بہ کے فعل کو حذف کرنا واجب ہے وہ چوتھا مقام ہے "الْمُنَادَى" جب مفعول بہ منادی ہو، منادی کیا ہوتا ہے؟ "هُوَ اسْمٌ" یعنی یہ وہ اسم ہے "مَدْعُوٌّ" جسے پکارا جائے "بِحَرْفِ نِدَاءٍ" حرف ندا کے ذریعے۔ اب ممکن ہے وہ حرف ندا لفظاً موجود ہو جیسے "يَا عَبْدَ اللهِ"۔ اب "يَا" درحقیقت ہے "أَدْعُوْ عَبْدَ اللهِ"۔ یہ "عَبْدَ اللهِ" اس "أَدْعُوْ" کا مفعول بہ ہے۔ "وَ حَرْفُ النِّدَاءِ قَائِمٌ مَقَامَ أَدْعُوْ" اور یہ حرف ندا یہ جو "يَا" ہوتا ہے یہ قائم مقام ہوتا ہے "أَدْعُوْ" کے، "أَدْعُوْ" یا "أَطْلُبُ" کے۔ "وَ حُرُوْفُ النِّدَاءِ خَمْسَةٌ" شاید آخر میں یہ دوبارہ بھی آئیں گے اور حروف ندا پانچ ہیں یعنی پانچ حروف ایسے ہیں جن کے ذریعے کسی کو پکارا جاتا ہے "يَا"، "أَيَا"، "هَيَا"، "أَيْ" اور "هَمْزَةِ مَفْتُوْحَة" یعنی "أَ"۔ "وَ قَدْ يُحْذَفُ حَرْفُ النِّدَاءِ لَفْظاً" اور  ایسا بھی کبھی کبھار ہوتا ہے کہ لفظاً حرف ندا محذوف ہوتا ہے لیکن حکماً اور واقعاً وہ موجود ہوتا ہے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے: "يُوْسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا"۔ اصل میں ہے "يَا يُوْسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا"۔

وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ مُحَمَّدٍ

القسم السابع : اسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس

هو المسند إليه بعد دخولهما نحو : ما زَيْدٌ قائِماً ، ولا رَجُلٌ أفْضَلَ مِنْكَ. ويدخل «ما» على المعرفة والنكرة. ويختصّ «لا» بالنكرات خاصّة.

القسم الثامن : خبر «لا» الّتي لنفي الجنس.

هو المسند بعد دخولها نحو : لا رَجُلَ قائِمٌ.

المقصد الثاني : في الأسماء المنصوبات

وهي اثنا عشر قسماً : المفعول المطلق ، والمفعول به وفيه وله ومعه ، والحال والتمييز ، والمستثنى ، وخبر كان وأخواتها ، واسم إنّ وأخواتها ، والمنصوب بلا الّتي لنفي الجنس ، وخبر «ما» و «لا» المشبّهتين بليس.

القسم الأوّل : المفعول المطلق

وهو مصدر بمعنى فعل مذكور قبله. ويذكر للتأكيد ك‍ : ضربتُ ضَرْباً ، ولبيان النوع نحو : جَلَسْتُ جِلْسَةً عارياً ، ولبيان العدد ك‍ : جَلَسْتُ جلْسَةً أو جلْسَتَيْنِ أو جَلَسات. وقد يكون من غير لفظ الفعل نحو : قَعَدْتُ جُلُوساً.

وقد يحذف فعله لقيام قرينة جوازاً كقولك للقادم : خَيْرَ مَقْدَمٍ ، أي قَدِمْتَ قُدوماً ، فخير اسم تفضيل ومصدريّته باعتبار الموصوف أو المضاف إليه وهو مَقْدَم أو قُدوماً ، ووجوباً سماعاً نحو : شُكْراً وسَقْياً.

القسم الثاني : المفعول به

وهو اسم ما وقع عليه فعل الفاعل نحو : ضَرَبْتُ زَيْداً. وقد يتقدّم على

الفاعل ك‍ : ضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ. وقد يحذف فعله لقيام قرينة جوازاً نحو : زَيْداً ، في جواب من قال : مَنْ أضْرِبُ ؟ ، أو وجوباً في أربعة مواضع :

الأوّل : سماعيّ نحو : امرأ وَنَفْسَهُ ، أي دَعْهُ وَنَفْسه ، و «انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ» (١) أي انتهوا عن التّثليث واقصدوا خيراً لكم ؛ وأهْلاً وسَهْلاً ، أي أتيت مكاناً أهلاً وأتيت مكاناً سهلاً ، والبواقي قياسيّة.

الثاني : التحذير ، وهو معمول بتقدير اتَّقِ ، تحذيراً ممّا بعده ، نحو : إيّاك وَالْأسَدَ ، أصله اتّق نفسك من الأسد ، أو ذكر المحذّر منه مكرّراً نحو : الطَّريقَ الطَّريقَ.

الثالث : ما اُضمر عامله على شريطة التفسير ، وهو كلّ اسم بعده فعل أو شبه فعل يشتغل ذلك الفعل عن ذلك الاسم بضميره ، بحيث لو سلّط عليه هو ، أو مناسبه لنصبه نحو : زَيْداً ضَرَبْتُهُ ، فإنّ زيداً منصوب بفعل محذوف وهو : ضربت ، ويفسّره الفعل المذكور بعده وهو : ضربته. ولهذا الباب فروع كثيرة.

الرابع : المنادى ، وهو اسم مدعوّ بحرف النداء وهي : «يا» و «أيا» و «هَيا» و «أيْ» والهمزة المفتوحة لفظاً ، نحو : يا عَبْدَ اللهِ ، أي أدعو عبد الله ، وحرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ.

وقد يحذف حرف النداء لفظاً نحو قوله تعالى : «يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا» (٢).

واعلم أنّ المنادى أقسام ، فإن كان مفرداً معرفة يبنى على علامة الرفع كالضمّة نحو : يا زَيْدُ ، والألف نحو : يا زَيْدان ، والواو نحو : يا زَيْدُونَ ، ويخفض بلام الاستغاثة نحو : يا لَزَيْدٍ ، ويفتح بإلحاق ألفها نحو يا زَيْداه.

____________________________

(١) النساء : ١٧١.

(٢) يوسف : ٢٩.