مفاعیلِ خمسہ میں سے پہلا ہے مفعولِ مطلق۔سوال: مفعولِ مطلق کسے کہتے ہیں؟ یا مفعولِ مطلق کیا چیز واقع ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں: مفعولِ مطلق یہ درحقیقت اسی فعل کا مصدر ہوتا ہے جو فعل پہلے موجود ہوتا ہے یعنی جو فعل پہلے موجود تھا، وہ جو عامل تھا جس نے فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دینا تھا، یہ مفعولِ مطلق اپنے سے پہلے موجود اسی فعل کا مصدر ہوتا ہے۔ اب یہاں ایک سوال اٹھے گا، جناب اگر یہ اسی فعل کا مصدر ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے، جیسے "ضَرَبْتُ ضَرْبًا"، اب ضرب مصدر اسی ضربتُ فعل کا ہے تو جب ضربتُ فعل والا مصدر ہے تو معنی تو ایک ہی ہے۔ معنی میں تو کوئی فرق نہیں ہے، چونکہ وہ فعل ہے یہ مصدر ہے اور ہے بھی اسی فعل کا مصدر جو اس سے پہلے موجود ہے۔ تو فرماتے ہیں جب پہلے سے یہ موجود ہے، پھر اس مفعولِ مطلق کو ذکر کرنے کا فائدہ کیا ہے؟
 ہم کہتے ہیں "ضَرَبْتُ ضَرْبًا"۔ اب "ضَرْبًا" مفعولِ مطلق ہے، مصدر ہے اسی ضربتُ فعل کا۔ تو جب جو معنی فعل میں آ چکا ہے اس کو دوبارہ ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اب اگلی چیزیں اس کے جواب ہیں۔ فرماتے ہیں اس کے بہت سارے فائدے ہوتے ہیں۔فرماتے ہیں: کبھی اس مفعولِ مطلق کو بیان کیا جاتا ہے تاکید کے لیے، اس فعل کی تاکید کرتا ہے۔ اور کبھی اس کو بیان کیا جاتا ہے نوع کو بیان کرنے کے لیے کہ وہ فعل جو واقع ہوا ہے اس کی نوع یعنی کس انداز میں واقع ہوا؟ اور کبھی یہ عدد کو بیان کرتا ہے ۔
فعل اور مفعول مطلق میں اختلاف
اگلی بات یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مفعولِ مطلق معنی کے لحاظ سے اپنے فعل جیسا ہوتا ہے لیکن مادے کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے یعنی فعل کا مادہ وہ جنس ہے جہاں سے مشتق ہے یعنی وہ اس کے حروفِ اصلی جو تین ہوتے ہیں وہ کوئی اور ہوتے ہیں اور اس مصدر کا جو مادہ ہوتا ہے، اس کے حروفِ اصلی کوئی اور ہوتے ہیں لیکن چونکہ معنی میں ایک جیسے ہوتے ہیں لہذا یہ اس کا مفعولِ مطلق واقع ہو سکتا ہے، ایک بات۔
 کبھی کبھی باب میں اختلاف ہوتا ہے، کیا مطلب؟ معنی ایک جیسا ہے، معنی میں فرق نہیں ہے  یعنی فعل کسی اور باب سے ہے جس کی مثال وہاں دی تھی،  پہلے کی مثال دی جاتی ہے مادے میں اختلاف ہو جیسے "قَعَدْتُّ جُلُوسًا"۔ اب دیکھو  قعد،  اس کا مادہ ہے قعدَ، جلوساً کا مادہ ہے جلسَ۔ مادے میں فرق ہے لیکن معنی ایک ہے لیکن اس کے باوجود جلوساً اس قعدتُ کا مفعولِ مطلق واقع ہو رہا ہے۔ بسا اوقات باب میں اختلاف ہوتا ہے یعنی فعل کسی اور باب سے ہے مثلاً مثال دی ہے "تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا"۔ "تَبَتَّلَ" بابِ تفعل ہے جبکہ "تَبْتِيلًا" بابِ تفعیل ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ تبتل کے لیے مفعولِ مطلق واقع ہو رہا ہے۔ اور بسا اوقات مادہ میں بھی فرق ہوتا ہے اور باب میں بھی فرق ہوتا ہے۔ نہ مادہ ایک جیسا ہے نہ باب ایک جیسا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس فعل کے، جو اس سے پہلے فعل ہوتا ہے، اس کے لیے مفعولِ مطلق واقع ہو رہا ہے، جیسے "فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً"۔ اب "أَوْجَسَ"، اب اس کا مادہ دیکھیں اور "خِيفَةً" اس کا مادہ دیکھیں۔ اسی طرح ان کے باب دیکھیں، "أَوْجَسَ" وہ اور ہے بابِ افعال میں سے ہے، "خِيفَةً"، وہ "خَافَ يَخَافُ خَوْفًا خِيفَةً" اس کا مجہول ہے، یہ اور ہے  لیکن اس کے باوجود بھی یہ اس کے لیے کیا واقع ہو رہا ہے؟ مفعولِ مطلق واقع ہو رہا ہے۔ دو باتیں ہو گئیں۔
مفعول مطلق کے فعل کا حذف
ایک تیسری بات بھی اس میں ہے۔ تیسری بات آقا جان یہ ہے کہ کبھی کبھی مفعولِ مطلق کو حذف کر دیا جاتا ہے جب کوئی قرینہ موجود ہو۔ یعنی مفعولِ مطلق موجود ہوتا ہے لیکن اس کا فعل وہ مذکور نہیں ہوتا، اس کا ذکر نہیں ہوتا ہے،  اس کو حذف کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: یہ حذف پھر دو طرح کا ہے: کبھی حذف جائز ہوتا ہے اور کبھی حذف واجب ہوتا ہے۔  جائز کہاں پر ہے؟ وہ جیسے ہم کہتے ہیں: "خَيْرَ مَقْدَمٍ"۔ اور واجب کہاں ہے؟ جہاں سماعی، سماعی کا مطلب کیا ہے؟ جہاں جہاں عرب والوں نے فقط مفعولِ مطلق کو ذکر کیا ہے اور فعل کو ذکر نہیں کیا، ہم بھی سماع کے طور پر یعنی ان کے تابع میں اس کو واجب قرار دیں گے۔ بس تیسری بات کون سی ہو گئی مفعولِ مطلق کے متعلق؟ کہ کبھی کبھی مفعولِ مطلق کا فعل حذف کر دیا جاتا ہے لیکن کبھی اس کا حذف جائز ہوتا ہے یعنی ذکر کریں بھی صحیح تو کوئی حرج نہیں اور کبھی اس کا حذف واجب ہوتا ہے۔
تطبیق
"الْمَفْعُولُ الْمُطْلَقُ"، مفعول مطلق۔ "هُوَ مَصْدَرٌ بِمَعْنَى فِعْلٍ" یہ مصدر ہوتا ہے بمعنی اسی فعل کے "مَذْكُورٍ" یہ مذکور فعل کی صفت ہے کہ جو فعل ذکر ہوتا ہے "قَبْلَهُ" اسی مصدر سے پہلے۔ آپ کہیں گے مفعول مطلق کیا ہے؟ جو اپنے ماقبل فعل مذکور کے معنی میں ہو۔ "بِمَعْنَى فِعْلٍ" یعنی اسی معنی میں ہو کہ جو فعل اس سے پہلے موجود ہے چونکہ میں نے آگے گزارشات کی تھیں کہ کبھی مختلف بھی ہوتے ہیں الفاظ لیکن چونکہ معنی ایک جیسے تھے ہم نے کیا کہنا ہے کہ مفعول مطلق وہ مصدر ہے جو اسی فعل کے معنی میں ہو جو فعل اس سے پہلے ذکر ہے۔  یہ ہو گئی مفعول مطلق کی تعریف کہ وہ مصدر ہوتا ہے اسی فعل کے معنی میں جو اس سے پہلے موجود ہے۔ سوال ہوگا کہ اگر یہ اسی فعل کے معنی میں ہے جو اس سے پہلے باقاعدہ ذکر ہے تو پھر اس کو دوبارہ لانے کا کوئی فائدہ؟ فرماتے ہیں:"يُذْكَرُ لِلتَّأْكِيدِ" کبھی مفعول مطلق کو ذکر کیا جاتا ہے تاکید کے لیے چونکہ اس فعل کی تاکید مقصود ہوتی ہے اسی لیے مفعول مطلق کو ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "ضَرَبْتُ ضَرْبًا"۔ ضربت فعل تھا، میں نے مارا، پھر جب کہتے ہیں: "ضَرَبْتُ ضَرْبًا" مارنا، یعنی یہ درحقیقت اسی ضربت کی تاکید کر رہا ہے۔"أَوْ لِبَيَانِ النَّوْعِ" یا مفعول مطلق کو ذکر کیا جاتا ہے نوع کو بیان کرنے کے لیے۔ نوع کا مطلب کیا ہے؟ یعنی وہ فعل جو واقع ہوا ہے اس کا انداز، اس کی نوع کیا تھی؟ یعنی کس طریقے پر وہ واقع ہوا ہے؟  جیسے "جَلَسْتُ جِلْسَةَ الْقَارِئِ" میں بیٹھا "جِلْسَةَ الْقَارِئِ" جیسے قاری بیٹھتا ہے۔ اب فرماتے ہیں: یہ جلسہ اس جلست کی نوع کو بیان کر رہا ہے کہ میرا بیٹھنا کس طرح کا بیٹھنا تھا۔
"وَلِبَيَانِ الْعَدَدِ" اسی طرح فرماتے ہیں: یا مفعول مطلق کو ذکر کیا جاتا ہے عدد کو بیان کرنے کے لیے کہ یہ فعل کتنی دفعہ انجام پایا۔ یہ فائدہ ہوتا ہے، جیسے "جَلَسْتُ جَلْسَةً" میں بیٹھا، "جَلْسَةً" مفعول مطلق ہے، یہ بتا رہا ہے "جَلْسَةً" یعنی ایک دفعہ بیٹھنا، عدد کو بیان کر رہا ہے۔ یا "جَلَسْتُ جَلْسَتَيْنِ" میں بیٹھا دو دفعہ بیٹھنا، یا "جَلَسْتُ جَلَسَاتٍ" میں بیٹھا کئی دفعہ۔ تو بس اس مفعول مطلق کو کیوں لایا جاتا ہے؟ تاکید کے لیے یا نوع کو بیان کرنے کے لیے یا عدد کو بیان کرنے کے لیے۔ ختم ہو گئی بات۔
اگلی بات علیحدہ ہے۔ فرماتے ہیں ضروری نہیں، ضروری نہیں کہ ہمیشہ مفعول مطلق بھی اسی اپنے پہلے والے فعل کے لفظ سے ہو، یعنی جو جیسے ہم نے پڑھا ہے "ضَرَبْتُ ضَرْبًا" یا "جَلَسْتُ جِلْسَةً"۔ ضروری نہیں ہمیشہ کہ جو لفظ پہلے فعل میں استعمال ہوا ہے مفعول مطلق میں بھی ہمیشہ وہی لفظ ہو یعنی ایک ہی مادہ سے ہوں فعل بھی اور مصدر، مفعول مطلق بھی، نہ یہ ضروری نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: "وَيَكُونُ مِنْ غَيْرِ لَفْظِ الْفِعْلِ الْمَذْكُورِ" بلکہ یہ مفعول مطلق کبھی لفظی لحاظ سے اپنے ماقبل فعل مذکور سے نہیں ہوتا۔ یعنی جو مادہ اس فعل کا تھا مفعول مطلق کا مادہ وہ نہیں ہوتا بلکہ ان مادہ میں فرق ہوتا ہے، ان کے الفاظ میں فرق ہوتا ہے جس کی مثال آگے دے رہے ہیں، فرماتے ہیں: "قَعَدْتُ جُلُوسًا" اب قعدت میں بیٹھا، "جُلُوسًا" مفعول مطلق ہے۔ اب یہ اگرچہ قعدت کے معنی میں ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ مادہ کے لحاظ سے فرق ہے۔ قعدت اس کا مادہ اور ہے، اس کے تین جو حرف اصلی ہیں وہ ہیں ق، ع، د۔ جبکہ جلوس اس کا مادہ اور ہے۔ ج، ل اور س، جلس۔ مادے میں فرق ہے لیکن اس کے باوجود بھی جو اس کا مفعول مطلق ہے۔ "أَنْبَتَ نَبَاتًا" فرماتے ہیں "أَنْبَتَ نَبَاتًا" کا حکم بھی یہی ہے کہ انبت اس کا مادہ اور ہے اور نباتا کا مادہ۔
"وَقَدْ يُحْذَفُ فِعْلُهُ" اور کبھی کبھی اس کے فعل کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ "لِقِيَامِ قَرِينَةٍ" چونکہ اس فعل پر کوئی نہ کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی آپ جب کاپی پر لکھیں گے تو یوں لکھیں گے کہ بعض اوقات مفعول مطلق کے فعل کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ حذف کر دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ چونکہ کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے اور اس قرینے کی بنیاد پر فعل کا پتہ چل جاتا ہے۔  کیسے؟ اب یہ جو حذف ہے دو قسم کا ہے، کبھی اس کا حذف جائز ہوتا ہے، وہ آگے لفظ آرہا ہے "جَوَازًا"۔ "وَقَدْ يُحْذَفُ فِعْلُهُ لِقِيَامِ قَرِينَةٍ جَوَازًا" یعنی کبھی اس کا حذف کرنا جائز ہوتا ہے اور کبھی اس کا حذف کرنا واجب ہوتا ہے۔ مثلاً انہوں نے ایک مثال بھی دی ہے بڑی آسان سی۔ "كَقَوْلِكَ لِلْقَادِمِ" جو شخص آپ کے پاس آرہا ہے یا آپ کا مہمان آرہا ہے آپ اس کو کہتے ہیں "خَيْرَ مَقْدَمٍ"۔ "خَيْرَ مَقْدَمٍ"۔ اب اس کا اصل میں فعل کیا تھا؟ وہ تھا "قَدِمْتَ قُدُومًا خَيْرَ مَقْدَمٍ"۔ اب ہم نے اس کے فعل کو حذف کر دیا اور فقط "خَيْرَ مَقْدَمٍ" کو ذکر کیا ہے۔
"وَوُجُوبًا" اور کبھی کبھی اس مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا واجب ہوتا ہے۔ واجب کہاں ہوتا ہے؟ "سَمَاعًا" جہاں پر عرب والوں نے اس کو حذف کیا ہو۔ پس جواز کی مثال ہو گئی "خَيْرَ مَقْدَمٍ" یعنی اصل میں تھا "قَدِمْتَ قُدُومًا خَيْرَ مَقْدَمٍ"۔ قدوما موصوف تھا، اس کو حذف کیا، خیر مقدم اس کی صفت تھی۔ بہرحال یہ اس کا مفعول مطلق ہے، قدمت معذوف ہے۔ وجوب کی مثالیں یہ ہیں۔ "سَقْيًا"، "شُكْرًا"، "حَمْدًا"، "رَعْيًا"۔ یعنی اصل میں کیا تھا؟ "سَقَاكَ اللَّهُ سَقْيًا"۔ اب یہاں سقیا کا جو فعل تھا وہ معذوف ہے وجوباً۔ "شُكْرًا" یعنی اصل میں تھا "شَكَرْتُ شُكْرًا"۔ "حَمْدًا" مفعول مطلق ہے، اس کا فعل کیا تھا؟ "حَمِدْتُ حَمْدًا"۔ "رَعْيًا"، "رَعْيًا" کا مفعول کیا تھا؟ یعنی "رَعَاكَ اللَّهُ رَعْيًا"  کہ بس مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا کبھی جائز ہوتا ہے اور کبھی واجب۔
و صلی الله علی محمد و آله محمد