درس الهدایة في النحو

درس نمبر 15: مرفوعات 3

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

خبر "اِنَّ" و "اَخواتِها"کی بحث

مرفوعات کی اقسام

بحث ہماری چل رہی ہے مرفوعات کی۔ مرفوعات کی اقسام ثمانیہ آٹھ قسموں میں پہلی قسم   فاعل۔ دوسری مفعول مالم یسم فاعلہ یعنی نائب فاعل۔ تیسری قسم مبتدا اور چوتھی قسم خبر۔

مرفوعات کی پانچویں قسم ہے "اِنَّ" اور اخوات کی خبر۔ جس کو ہم معروف ہے یہ کہتے ہیں کہ حروف مشبہ بالفعل جو کہ چھ ہیں "اِنَّ"، "اَنَّ"، "کَاَنَّ"، "لَیتَ"، "لَکِنَّ"، "لَعَلَّ"۔ ان کو کہا جاتا ہے حروف مشبہ بالفعل۔ یہ ان کی جو خبر ہوتی ہے وہ مرفوع ہوتی ہے۔ یعنی مطلب کیا؟ کہ یہ "اِنَّ" یا "اَنَّ" دو اسموں پر داخل ہوتے ہیں کہ ان کے داخل ہونے سے پہلے ویسے وہ مبتدا اور خبر تھے جب یہ اس پر داخل ہو جاتے ہیں تو پھر مبتدا کو نصب دیتے ہیں جو ان کا اسم کہلاتی ہے اور خبر کو رفع دیتے ہیں اب وہ خبر مبتدا کی خبر نہیں بلکہ ان حروف مشبہ بالفعل کی خبر ہوتی ہے۔ مثال لوں گا سارا کلیئر ہو جائے گا مثلاً۔ "زیدٌ قائمٌ"۔ زید مبتدا، قائم خبر، لیکن اسی پر اگر "اِنَّ" داخل ہو جائے تو اب کہیں گے "اِنَّ زیداً قائمٌ"۔ زید جو مبتدا تھی اب وہ "اِنَّ" کا اسم کہلائے گا اور قائم "اِنَّ" کی خبر ہے نہ کہ اس مبتدا کی۔

 فصل خبر "اِنَّ" و "اَخواتِها"

فرماتے ہیں فصل خبر "اِنَّ" و "اَخواتِها"۔ "اِنَّ" اور اس کے اخوات کی خبر یعنی "اِنَّ" اور جو اس کے ہم معنی دیگر حروف ہیں۔ "اَنَّ" و "کَاَنَّ" و "لَکِنَّ" و "لَیتَ" و "لَعَلَّ"۔ ان کو حروف مشبہ بالفعل کہا جاتا ہے۔ شرح مائۃ عامل میں آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ عوامل لفظیہ میں سے ہیں۔

 حروف مشبہ بالفعل کا عمل

"فَهٰذِهِ الحُروفُ" یہ چھ حروف "تَدخُلُ عَلَی المُبتَدَإِ وَالخَبَرِ" یہ مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں۔ "فَتَنصِبُ المُبتَدَأَ" مبتدا کو نصب دیتے ہیں "وَ یُسَمّٰی اسمُ اَنَّ" اور اس کا نام رکھا جاتا ہے "اَنَّ" کا اسم۔ یعنی جب یہ اس پر داخل ہو جائیں گے تو اب وہ مبتدا نہیں ہوگی بلکہ وہ ان کا اسم کہلائے گی۔ "وَ تَرفَعُ الخَبَرَ" اور یہ خبر کو رفع دیتے ہیں "وَ یُسَمّٰی خَبَرُ اِنَّ" اور وہ "اِنَّ" کی خبر کہلائے گی یعنی ان کی خبر کہلائے گی۔ میں نے آپ کو آسان سمجھایا جیسے تھا "زیدٌ کائے مُن"۔ جب اس پر "اِنَّ" آگیا اب پڑھیں گے "اِنَّ زیداً" وہ زید جو مبتدا تھا اس نے اس کو نصب دے دیا وہ اب "اِنَّ" کا اسم بن گیا "اِنَّ زیداً قائمٌ" اب قائم مبتدا کی خبر نہیں بلکہ ہم کہیں گے یہ اس "اِنَّ" کی خبر ہے۔

 خبر "اِنَّ" کا حکم

فرماتے ہیں پس "فَخَبَرُ اِنَّ هُوَ المُسنَدُ بَعدَ دُخولِها"۔ جب "اِنَّ" داخل ہو جاتا ہے تو ان کی خبر مسند واقع ہوتی ہے۔ یعنی ان کی خبر "اِنَّ" کے داخل ہونے کے بعد ان کی خبر مسند ہوتی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "اِنَّ زیداً قائمٌ"۔ "اِنَّ" حرف از حروف مشبہ بالفعل، زیداً اس کا اسم ہے اور قائم اس کی خبر ہے۔ ٹھیک ہو گیا۔

4

خبر کا مفرد، جملہ، معرفہ یا نکرہ ہونا

"وَ حُكمُهُ فی كَونِهِ مُفرَداً اَو جُملَةً اَو مَعرِفَةً اَو نَكِرَةً كَحُكمِ خَبَرِ المُبتَدَإِ"۔ اب اس کو ذرا غور سے۔ فرماتے ہیں یہ خبر کہاں مفرد ہوگی؟ کہاں جملہ ہوگی؟ کہاں معرفہ ہوگی؟ کہاں نکرہ ہوگی؟ فرماتے ہیں جیسے مبتدا کی خبر میں تھا ویسے ہی۔ ہم نے کہا تھا مبتدا کی خبر مفرد بھی ہو سکتی ہے جملہ بھی ہو سکتی ہے، یہاں بھی ہو گی۔ ہم نے کہا تھا اگر دونوں اسم معرفہ ہوں تو ایک اسم کو خبر بنا دیں مبتدا، یہاں بھی یہی تھا۔ ہم نے کہا تھا اگر ایک معرفہ اور ایک نکرہ ہو تو جو نکرہ ہوگا فقط وہی خبر بنے گا، یہاں پر بھی سارے وہی احکام ہیں جو مبتدا والی خبر کے ہیں، ان حروف مشبہ بالفعل کی خبر کے حکم بھی وہی ہیں۔ "وَ حُكمُهُ فی كَونِهِ" اس حروف ان حروف مشبہ بالفعل کی خبر کا حکم، کس بات میں؟ "فی كَونِهِ مُفرَداً اَو جُملَةً" کہ آیا یہ فقط مفرد ہو گی یا جملہ بھی ہو سکتی ہے؟ "اَو مَعرِفَةً وَ نَكِرَةً" آیا یہ معرفہ ہوتی ہے یا نکرہ یا کب معرفہ اور کب نکرہ بن سکتی ہے؟ "كَحُكمِ خَبَرِ المُبتَدَإِ" اس کے سارے احکام وہی ہیں جو مبتدا کی خبر کے ہوتے ہیں۔ ہم نے وہاں کہا تھا کہ خبر جملہ ہو سکتی ہے، یہاں بھی ہو سکتی ہے۔ ہم نے وہاں کہا تھا دونوں اسم معرفہ ہوں تو ایک معرفہ کو خبر بنائیں گے ایک مبتدا، یہاں بھی یہ ہے۔ ہم نے کہا تھا وہاں ایک اگر اسم معرفہ اور ایک نکرہ ہو تو حتماً نکرہ کو خبر بنانا ہے اب کہ معرفہ کو اسم بنانا ہے، یہاں بھی وہی ہے۔

خبر کی تقدیم کا مسئلہ

"لا یَجوزُ تَقدیِمُ اَخبارِها عَلٰی اَسمائِها" بہت توجہ۔ حروف مشبہ بالفعل کی خبروں کو حروف مشبہ بالفعل کے اسم پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ یعنی یہ درست نہیں ہے کہ ہم خبر کو پہلے لے آئیں اور اسم کو بعد میں۔ یعنی "اِنَّ زیداً قائمٌ" کی بجائے ہم کہیں "اِنَّ قائمٌ زیداً"، نہ یہ جائز نہیں ہے۔ ہاں "اِلّا اِذا کانَ ظَرفاً" اگر خبر ظرف واقع ہو رہی ہو پھر اس خبر کو "اِنَّ" یعنی حروف مشبہ بالفعل کے اسماء پر مقدم کرنا جائز ہے۔ اب ذرا توجہ رکھیں یعنی کیا؟ آپ یوں لکھیں گے کہ حروف مشبہ بالفعل کی خبروں کو ان کے اسماء پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔

 ہاں ایک صورت ہے اگر حروف مشبہ بالفعل میں سے کسی حرف کی خبر ظرف واقع ہو رہا ہو تو اس خبر کو اس کے اسم پر مقدم کر سکتے ہیں۔ جیسے "اِنَّ فِی الدّارِ زیداً"۔ اب زیداً اسم ہے بعد میں ہے، "فِی الدّارِ" چونکہ یہ ظرف ہے، جار مجرور ہے، لہٰذا اس خبر کو زید پر مقدم کر سکتے ہیں۔ وجہ؟ "لِمَجالِ التَّوَسُّعِ فِی الظُّروفِ"۔ اس لیے کہ جتنی گنجائش اور جتنی وسعت ظروف میں ہے دیگر میں اتنی نہیں ہے۔ ٹھیک ہو گیا ۔

حروف مشبہ بالفعل کی وجہ تسمیہ

تھوڑا سا اشارہ کر دوں تاکہ آپ کو ویسے کچھ یاد ہو کہ ہیں تو حروف لیکن ہم ان کو کہتے ہیں حروف مشبہ بالفعل، یعنی یہ ہیں حروف لیکن مشابہ فعل ہیں۔ تو اب سوال خود ہی بنا لیں کہ ان حروف کو حروف مشبہ بالفعل کیوں کہا جاتا ہے؟

 تو آپ کہیں گے اس کی تین چار صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جیسے فعل ثلاثی رباعی ہوتا ہے یہ حروف بھی اسی طرح ہیں فعل ثلاثی ان کے بھی حرف جو ہیں وہ تین یا چار ہوتے ہیں۔ "کَاَنَّ" میں چار ہیں، "اِنَّ" میں تین ہیں، "اَنَّ" میں تین ہیں، "لَیتَ" میں تین ہیں، "لَکِنَّ" میں تین ہیں، "لَعَلَّ" میں تقریبا چار ہیں اگر لام مشدد ہے تو، "لَکِنَّ" میں بھی چار بن جائیں گے، "کَاَنَّ" میں بھی۔ اسی طرح ایک اور شباہت ہے۔ وہ جیسے فعل ماضی ہمیشہ مبنی بر فتح ہوتا ہے "ضَرَبَ"، "نَصَرَ"، "عَلِمَ"، "حَسِبَ" یہ حروف بھی مبنی بر فتح ہیں، آپ دیکھا ہے نا "اِنَّ"، "اَنَّ"، "کَاَنَّ"، "لَیتَ"، "لَکِنَّ"، "لَعَلَّ"۔ اس لحاظ سے بھی شباہت ہے۔ اسی طرح اور بھی ہیں مثلاً ان حروف کو وہ معنی فعل کے ساتھ مشابہت بھی ہوتی ہے کہ "اِنَّ" یا "اَنَّ" کا معنی ہوتا ہے "حَقَّقَ"۔ آخر یہ اور بھی ہیں زیادہ آپ کو تفصیل میں نہیں ڈا   لتے۔

5

افعال ناقصہ اور ان کے احکام

چھٹی قسم مرفوعات: اسم "کان" و "اَخواتِها"

چھٹی قسم مرفوعات کی اسم "کان" و "اَخواتِها"۔ ان کو کہا جاتا ہے افعال ناقصہ۔ "کان" اور اس کے اخوات یعنی افعال ناقصہ کا اسم مرفوع ہوتا ہے۔ افعال ناقصہ کون کون سے ہیں؟ بالکل آسان۔ "کانَ"، "صارَ"، "اَصبَحَ"، "اَمسٰی"، "اَضحٰی"، "ظَلَّ"، "باتَ"، "راحَ"، "آضَ"، "عادَ"، "غَدا"، "ما زالَ"، "ما بَرِحَ"، "ما فَتِئَ"، "ما انفَکَّ"، اور "ما دامَ" اور آخر میں ایک ہے "لَیسَ"۔ اب ذرا ان کو گن لیں:۱۔"کان" ۲۔ "صار" ۳۔ "اصبح" ۴۔ "امسیٰ" ۵۔ "اضحیٰ"۶۔"ظلّ" ۷۔ "بات" ۸۔"راح" ۹۔"آض"۱۰۔ "عاد" ۱۱۔ "غدا"۱۲۔"ما زال" ۱۳۔"ما برح"۱۴۔ "ما فتئ"۱۵۔ "ما انفک"۱۶۔"ما دام"۱۷۔ "لیس"  

گویا سترہ افعال، افعال ناقصہ ہیں اور ان افعال ناقصہ کا اسم مرفوع ہوتا ہے۔

افعال ناقصہ کا عمل

یہ افعال مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں، مبتدا کو رفع دیتے ہیں اور وہ ان کا اسم کہلاتا ہے اور خبر کو نصب جو پھر ان کی خبر بنتی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ اور وہ خبر ۔ ان کا اسم ان کے داخل ہونے کے بعد مسند الیہ ہوتا ہے۔ اور کچھ احکام بھی ہیں۔ آسان ہے بالکل آسان سی بات ہے۔ فرماتے ہیں فصل۔ اسم "کان" و "اَخواتِها"۔ مرفوعات کی آٹھ اقسام میں سے چھٹی قسم ہے "کان" اور اس کے اخوات کا اسم یعنی افعال ناقصہ کا اسم۔ "وَ هِیَ" اس "کان" کے اخوات کون سے ہیں یا یوں ہم کہہ لیں کہ افعال ناقصہ کون کون سے ہیں؟ پہلا ہو گیا "کان"، اس کے آگے ہے "صارَ"، "اَصبَحَ"، "اَمسٰی"، "اَضحٰی"، "ظَلَّ"، "باتَ"، "عادَ"، "غَدا"، "راحَ"، "ما زالَ"، "ما فَتِئَ"، "ما انفَکَّ"، "ما دامَ"، "لَیسَ" اور "ما بَرِحَ"۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ آسان۔

فرماتے ہیں "فَهٰذِهِ الاَفعالُ تَدخُلُ اَیضاً عَلَی المُبتَدَإِ وَالخَبَرِ"۔ وہ حروف مشبہ بالفعل کی طرح یہ افعال ناقصہ بھی مبتدا و خبر پر داخل ہوتے ہیں۔ "فَتَرفَعُ المُبتَدَأَ" یہ مبتدا کو رفع دیتے ہیں۔ "وَ یُسَمّٰی اسمُ کانَ" اور اس کا نام رکھا جاتا ہے "کان" کا اسم یعنی اس مبتدا کو کہتے ہیں کہ یہ اس فعل ناقص کا یعنی افعال ناقصہ جو بھی پیچھے فعل ہوگا یہ اس کا اسم ہے۔ "وَ تَنصِبُ الخَبَرَ" اور خبر کو نصب دیتے ہیں "وَ یُسَمّٰی خَبَرَ کانَ" اور اب وہ مبتدا کی خبر نہیں ہو گی بلکہ اب کہیں گے کہ یہ "کان" کی خبر ہے یعنی وہ ان افعال ناقصہ کی خبر کہلائے گی۔

اسم "کان" کا حکم

"فَاسمُ کانَ هُوَ المُسنَدُ اِلَیهِ بَعدَ دُخولِها"۔ پس "کان" کا اسم یعنی افعال ناقصہ کا اسم وہ مسند الیہ ہوتا ہے "بَعدَ دُخولِها" ان کے داخل ہونے جب اس پر داخل ہوتے ہیں تو یہ مسند الیہ ہوتا ہے۔ جیسے "کانَ زیدٌ قائماً"۔ زیدٌ قائمٌ تھا۔ "کان" جب داخل ہوا اس نے زید کو رفع دیا، اب یہ زید "کان" کا اسم ہے اور قائماً "کان" کی خبر ہے۔

افعال ناقصہ کی خبروں کو مقدم کرنا

افعالِ ناقصہ کے خبروں کو افعالِ ناقصہ کی خبروں کو افعالِ ناقصہ کے اسماء پر مقدم کرنا جائز ہے۔ یعنی یہ جائز ہے کہ کہ افعالِ ناقصہ میں سے کسی کی خبر پہلے آ جائے اور اسم بعد میں آ جائے، فرماتے ہیں کوئی حرج نہیں، یہ بھی یہ جائز ہے۔ ایک حکم ہو گیا، نمبر دو۔ حتیٰ کہ افعالِ ناقصہ میں سے وہ افعال کہ جن کے ابتداء میں "مَا" آتا ہے، جیسے "مَا زَالَ"، "مَا بَرِحَ"، "مَا فَتِئَ"، "مَا انْفَکَّ"، "مَا دَامَ"۔ ان کے علاوہ، جن کی ابتداء میں "مَا" ہے ان کو چھوڑ کر باقی جتنے بھی ہیں، ان کی خبروں کو خود ان افعال پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔

خبر کو اسم اور فعل پر مقدم کرنے کا حکم

اب ذرا توجہ دو باتیں ہو گئیں نا، کہ ان افعالِ ناقصہ کے خبروں کو ان کے اسماء پر، یعنی سترہ کے سترہ افعال کی خبروں کو ان کے اسماء پر مقدم کرنا جائز ہے۔ البتہ جن افعال کی ابتداء میں مائے نافیہ آتی ہے، ان پر ان کو چھوڑ کر باقیوں میں خود افعال پر بھی اگر خبر کو مقدم کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ فرماتے ہیں "وَيَجُوزُ فِي الْكُلِّ" یعنی سترہ کے سترہ افعالِ ناقصہ میں جائز ہے۔ کیا جائز ہے؟

۱۔  "تَقْدِيمُ أَخْبَارِهَا عَلَى أَسْمَائِهَا" کہ ان افعالِ ناقصہ کی خبروں کو ان کے اسموں پر مقدم کرنا کیا جائے جائز ہے۔ لہٰذا "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا" کی بجائے اگر "كَانَ قَائِمًا زَيْدٌ" پڑھیں تو بھی کوئی حرج نہیں، جائز ہے۔

۲۔ "وَعَلَى نَفْسِ الْأَفْعَالِ أَيْضًا فِي التِّسْعَةِ الْأُوَلِ" سترہ میں سے جو پہلے نو ہیں، جو پہلے نو ہیں، وہ "كَانَ"، "صَارَ"، "ظَلَّ"، "بَاتَ"، "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى" وغیرہ۔ ان پر کہ جن کی ابتداء میں "مَا" نہیں ہے، ان کی خبر کو خود ان افعالِ ناقصہ پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔ کہ خبر پہلے آ جائے اور وہ فعل ناقص بعد میں آئے، مثلاً "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا" کی بجائے اگر ہم کہیں "قَائِمًا كَانَ زَيْدٌ" کہ قائماً پہلے آ گیا، درمیان میں "كَانَ" فعل ناقص ہے، اسم بعد میں ہے، فرماتے ہیں کوئی حرج نہیں، پھر بھی جائز ہے۔ ہاں "لَا يَجُوزُ ذَلِكَ فِي مَا فِي أَوَّلِهِ مَا" البتہ وہ افعالِ ناقصہ کہ جن کے ابتداء میں "مَا" آتا ہے، "مَا زَالَ"، "مَا بَرِحَ"، "مَا فَتِئَ"، "مَا انْفَکَّ"، "مَا دَامَ"، ان پر ان کی خبروں کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔

"وَفِي لَيْسَ خِلَافٌ" آیا "لَيْسَ" کی خبر کو "لَيْسَ" پر مقدم کرنا جائز ہے یا نہیں ہے؟ فرماتے ہیں اس بارے میں اختلاف ہے۔ "وَبَاقِي الْكَلَامِ فِي هَذِهِ الْأَفْعَالِ" مزید ان کی بحث ان شاء الله قسمِ ثانی جب منصوبات میں جائیں گے تو ان شاء الله وہاں اس کو چھیڑیں گے اور اس کو مزید بحث بھی کریں گے۔ ٹھیک ہے جی؟ پس اب آپ کہہ سکتے ہیں وہ افعال جن کے ابتداء میں "مَا" ہو ان کی خبر کو ان پر مقدم کرنا جائز نہیں، جن کے ابتداء میں "مَا" نہ ہو ان کی خبروں کو ان پر مقدم کرنا جائز ہے۔ البتہ "لَيْسَ" کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا جائز ہے یا نہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی؟

6

اسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس اور خبر «لا» الّتي لنفي الجنس کی بحث

آٹھویں قسم مرفوعات کی وہ ہے "مَا" اور "لَا" جو مشابہِ "لَيْسَ" ہوتے ہیں۔ یعنی جیسے "لَيْسَ" نفی کے لیے آتا ہے، وہ "مَا" اور "لَا" جو نافیہ ہوتے ہیں، ان کا اسم بھی مرفوع ہوتا ہے اور ان کے داخل ہونے کے بعد وہ مسند الیہ ہوتا ہے۔ جیسے کہیں "مَا زَيْدٌ قَائِمًا"

ان شاء الله آگے ہم اس کی تھوڑی وضاحت بھی کریں گے۔

 مرفوعات کی ساتویں قسم وہ ہے "مَا" اور "لَا"۔ "الْمُشَبَّهَتَيْنِ بِلَيْسَ" جو عمل میں "لَيْسَ" کے مشابہ ہوتے ہیں کہ جیسے "لَيْسَ" نفی کے  لیے آتا ہے یہ بھی اسی طرح ان میں بھی نفی کا معنی پایا جاتا ہے۔ "وَهُوَ اسْمُهُمَا" یعنی "مَا" اور "لَا" جو مشابہِ "لَيْسَ" ہوتے ہیں ان کا اسم مرفوع ہوتا ہے۔ "هُوَ الْمُسْنَدُ إِلَيْهِ بَعْدَ دُخُولِهِمَا" "مَا" اور "لَا" کے داخل ہونے کے بعد وہ مسند الیہ ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "مَا زَيْدٌ قَائِمًا"۔ "مَا" مشابہِ "لَيْسَ" نافیہ ہے، "زَيْدٌ" اس کا اسم ہے اور "قَائِمًا" اس کی خبر ہے۔ "لَا رَجُلٌ أَفْضَلَ مِنْكَ" ٹھیک ہے جی؟ یہاں بھی وہی حکم ہے۔

"ما" اور "لا" میں فرق

آگے فرماتے ہیں "وَيَخْتَصُّ لَا بِالنَّكِرَةِ وَيَعُمُّ مَا بِالْمَعْرِفَةِ وَالنَّكِرَةِ" یہ درحقیقت سوالِ مقدر کا جواب ہے کہ "مَا" اور "لَا" جب دونوں مشابہِ "لَيْسَ" ہیں، جب کام ایک جیسا کرتے ہیں تو پھر ان دو کو لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آیا ان میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں ہے؟ فرماتے ہیں بڑا فرق ہے۔

۱۔انہوں نے یہ لکھا ہے کہ "لَا" مختص ہے نکرہ کے ساتھ یعنی "لَا" فقط نکرہ پر داخل ہوتا ہے جبکہ "مَا" عام ہے جو معرفہ اور نکرہ دونوں پر داخل ہوتا ہے۔

۲۔اسی طرح "لَا" مطلق نفی کے لیے آتا ہے جبکہ "مَا" حال میں نفی کے لیے آتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ اسی طرح اور بھی ایک دو فرق ہیں۔

لائے نفی جنس کی خبر

آٹھواں اور آخری مرفوعات میں سے وہ بالکل آسان، وہ ہے لائے نفیِ جنس کی خبر۔ یعنی ایسا "لَا" جو جنس کی نفی کر رہا ہو، پورے اسم کی نفی۔ فرماتے ہیں "خَبَرُ لَا لِنَفْيِ الْجِنْسِ" یعنی "لَا"، ایسا "لَا"، ایک "لَا" وہ پیچھے تھا جو مشابہِ "لَيْسَ" تھا وہ بھی نفی کرتا تھا لیکن یہ وہ "لَا" ہے جو جنس کی نفی کرتا ہے، جو مشابہِ "لَيْسَ" ہوتا ہے وہ جنس کی نفی نہیں کر رہا ہوتا۔ اب ذرا غور کرنا ہے، "مَا" یعنی "لَا" مشابہِ "لَيْسَ" اور "لَا رَجُلٌ أَفْضَلَ مِنْكَ" یہاں پر جنس کی نفی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں لیکن یہاں جو "لَا" ہم جس کی بات کریں یہ وہ "لَا" ہے جو جنس کی نفی کرتا ہے۔ "وَهُوَ الْمُسْنَدُ" اس کی خبر مرفوع ہوتی ہے۔ لائے نفیِ جنس کی خبر مرفوع ہوتی ہے اور وہ مسند ہوتی ہے ان کے داخل ہونے کے بعد۔ جیسے ہم کہیں "لَا رَجُلَ قَائِمٌ"۔ "لَا رَجُلَ قَائِمٌ"، "رَجُلَ" اس کا اسم ہے، "قَائِمٌ" اس کی خبر ہے اور یہ مرفوع ہے۔ یہاں "لَا" یہ بتا رہا ہے کہ اصلاً جنسِ رجل یعنی رجال، مردوں کی جنس میں سے کوئی بھی قائم نہیں ہے۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِه

القسم الخامس : خبر إنّ وأخواتها

وهي : «أنَّ ، وكَأَنَّ ، ولكِنَّ ، ولَيْتَ ، ولَعَلَّ» ، وهذه الحروف تدخل على المبتدأ والخبر ، تنصب المبتدأ ويسمّى اسم إِنَّ ، وترفع الخبر ويسمّى خبر إِنَّ ، فخبر إِنَّ هو المسند بعد دخولها نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ.

وحكمه في كونه مفرداً أو جملة معرفة أو نكرة كحكم خبر المبتدأ. ولا يجوز تقديمه على اسمها إلّا إذا كان ظرفاً نحو : إنَّ في الدارِ زَيْداً ، لمجال التوسّع في الظروف.

القسم السادس : اسم كان وأخواتها

وهي : «صارَ ، وأصْبَحَ ، وأمسْىٰ ، وأضْحىٰ ، وظَلَّ ، وباتَ ، وآضَ ، وعادَ ، وغَدا ، وراحَ ، وما زالَ ، وما فَتئَ ، وما انْفَكَّ ، وما دامَ ، ولَيْسَ ، وما بَرحَ».

وهذه الأفعال الناقصة تدخل أيضاً على المبتدأ والخبر ، ترفع المبتدأ ويسمّى اسم كان ، وتنصب الخبر ويسمّى خبر كانَ. واسم كانَ هو المسند إليه بعد دخولها نحو : كانَ زَيْدٌ قائِماً.

ويجوز في الكلّ تقديم أخبارها على [ أسمائها ] نحو : كانَ قائِماً زَيْدٌ. ويجوز تقديم أخبارها على نفس الأفعال أيضاً مِن كانَ إلى راحَ نحو : قائِماً كانَ زَيْدٌ ، ولا يجوز ذلك فيما أوّله «ما» ، فلا يقال : قائِماً ما زالَ زَيْدٌ ، وفي لَيْسَ خلاف. وباقي الكلام في هذه الأفعال يجيء في القسم الثاني إن شاء الله تعالى.

* * *

القسم السابع : اسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس

هو المسند إليه بعد دخولهما نحو : ما زَيْدٌ قائِماً ، ولا رَجُلٌ أفْضَلَ مِنْكَ. ويدخل «ما» على المعرفة والنكرة. ويختصّ «لا» بالنكرات خاصّة.

القسم الثامن : خبر «لا» الّتي لنفي الجنس.

هو المسند بعد دخولها نحو : لا رَجُلَ قائِمٌ.

المقصد الثاني : في الأسماء المنصوبات

وهي اثنا عشر قسماً : المفعول المطلق ، والمفعول به وفيه وله ومعه ، والحال والتمييز ، والمستثنى ، وخبر كان وأخواتها ، واسم إنّ وأخواتها ، والمنصوب بلا الّتي لنفي الجنس ، وخبر «ما» و «لا» المشبّهتين بليس.

القسم الأوّل : المفعول المطلق

وهو مصدر بمعنى فعل مذكور قبله. ويذكر للتأكيد ك‍ : ضربتُ ضَرْباً ، ولبيان النوع نحو : جَلَسْتُ جِلْسَةً عارياً ، ولبيان العدد ك‍ : جَلَسْتُ جلْسَةً أو جلْسَتَيْنِ أو جَلَسات. وقد يكون من غير لفظ الفعل نحو : قَعَدْتُ جُلُوساً.

وقد يحذف فعله لقيام قرينة جوازاً كقولك للقادم : خَيْرَ مَقْدَمٍ ، أي قَدِمْتَ قُدوماً ، فخير اسم تفضيل ومصدريّته باعتبار الموصوف أو المضاف إليه وهو مَقْدَم أو قُدوماً ، ووجوباً سماعاً نحو : شُكْراً وسَقْياً.

القسم الثاني : المفعول به

وهو اسم ما وقع عليه فعل الفاعل نحو : ضَرَبْتُ زَيْداً. وقد يتقدّم على