درس الهدایة في النحو

درس نمبر 14: بحث مبتدا اور خبر(مرفوعات 2)

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مبتدا اور خبر کی بحث

فصل المبتدأ والخبر

مرفوعات میں پہلی قسم مرفوع کی تھی فاعل، دوسری تھی مفعول ما لم یسمی فاعلہ یعنی نائب فاعل، تیسری اور چوتھی قسم ہے مبتدا اور خبر۔ مبتدا اور خبر صاحب کتاب نے ان کو اکٹھا ذکر کیا ہے ورنہ جب قسمیں علیحدہ ہیں تو لکھتے تیسرے نمبر پر ہے مبتدا، اس کے احکام لکھتے پھر آگے لکھتے اور خبر لیکن فرماتے ہیں انہوں نے ان کو اکٹھا صرف اس    لیے لکھا ہے کہ ان دونوں کے درمیان تلازم ہے یعنی مبتدا وہاں ہوگی جہاں خبر ہوگی خبر وہاں ہوگی جہاں مبتدا ہوگی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ مبتدا ہو اور خبر نہ ہو یا خبر ہو مبتدا نہ ہو۔ ان کے احکام بھی تقریباً سارے اکثر ایک جیسے ہیں تو اس لیے انہوں نے ان کو اکٹھا ہی ذکر کیا۔ خوب۔

مبتدا اور خبر مرفوعات میں سے ہیں، تیسرا مرفوع ہے مبتدا ہمیشہ مرفوع ہوتی ہے، خبر مرفوع ہوتی ہے۔ مبتدا اور خبر کا عامل کیا ہے؟ آپ کہیں گے ان کا عامل معنوی ہے۔ شرح مایہ  عامل پڑھا ہوگا، او عوامل لفظیہ اور عوامل معنویہ۔ مبتدا اور خبر ان پر کوئی عامل لفظی نہیں ہوتا۔ جب ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ قَائِمٌ" زید مبتدا اور قائم خبر تو اب زید کو رفع دینے والا کوئی عامل لفظی موجود نہیں بلکہ عامل معنوی ہوتا ہے اس کو ابتدا  کہتے ہیں ۔

مبتدا اور خبر میں فرق

مبتدا اور خبر ایک وہ ہوتا ہے جس کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ ایک اسم وہ ہوتا ہے جس کو نسبت دی جاتی ہے۔ جس کی طرف نسبت دی جائے اس کو مسند الیہ اور مبتدا کہتے ہیں، جس کو نسبت دی جائے اس کو مسند بہ اور خبر کہتے ہیں۔ یہ آسان ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے احکام شروع ہو گئے۔ یہاں تک تو بات ہوگئی ختم۔ آگے پھر ان کے احکام ہیں۔

 مبتدا اور خبر کے احکام

فرماتے ہیں احکام میں شروع یہاں سے کرتے ہیں۔ مبتدا میں اصل یہ ہے کہ وہ معرفہ ہو۔ اور خبر میں اصل یہ ہے کہ وہ نکرہ ہو۔ یہ ہوگیا پہلا حکم کہ اصل کیا ہے؟ جیسے ہوتا ہے یعنی اصل قاعدہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ مبتدا کو معرفہ ہونا چاہیے اور خبر کو نکرہ۔ "زَيْدٌ قَائِمٌ" زید معرفہ ہے، قائم خبر ہے۔ "عَلِيٌّ عَالِمٌ" علی معرفہ ہے، عالم نکرہ ہے، ہر کسی کی صفت بن سکتا ہے۔

 نکرہ کا مبتدا واقع ہونا

آگے فرماتے ہیں اصل یہ ہے  کہ مبتدا معرفہ ہونی چاہیے اور خبر نکرہ۔ اگر کہیں کوئی نکرہ موصوف واقع ہو رہا ہو تو وہ نکرہ بھی مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ اور تھوڑا آسان کر دوں۔ یعنی اصل یہ ہے کہ مبتدا معرفہ ہو اور خبر نکرہ ہو۔ اگر کسی وجہ سے کسی نکرہ کی تخصیص کر دی گئی ہو، مثلاً اضافت کے ذریعے یا اس کی صفت کو ذکر کر کے یا اس سے پہلے نفی یا استفہام کو لا کر، آگے ان شاءاللہ ساری مثالیں دیتے ہیں، تو ایسی صورت میں بھی پھر وہ نکرہ مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ نکرہ کی تخصیص کس طرح کی جا سکتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ پانچ چھ طریقے ہیں سارے آگے میں ایک ایک کر کے مثال میں اس کی وضاحت کرتا ہوں تاکہ آپ کے لیے آسان ہو جائے۔

 متن کی تشریح

فصل "الْمُبْتَدَأُ وَالْخَبَرُ" مرفوعات میں سے تیسرا مرفوع ہے مبتدا، چوتھا مرفوع ہے خبر۔ "هُمَا اسْمَانِ" مبتدا اور خبر یہ دونوں اسم ہوتے ہیں یعنی یہ دو اسم ہیں۔ "مُجَرَّدَانِ عَنِ الْعَوَامِلِ اللَّفْظِيَّةِ" یہ دونوں اسم عوامل لفظیہ سے خالی ہوتے ہیں۔ یعنی ان پر کوئی عامل لفظی نہیں ہوتا۔ یعنی مبتدا کو رفع دینے والا عامل لفظی نہیں ہوتا، مبتدا خبر کو رفع دینے والا عامل لفظی نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا عامل معنوی ہوتا ہے آگے آ بھی رہا ہے۔ "أَحَدُهُمَا مُسْنَدٌ إِلَيْهِ" ان دو اسموں میں سے ایک مسند الیہ ہوتا ہے یعنی جس کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ "وَيُسَمَّى الْمُبْتَدَأُ" اس کا نام کیا ہوتا ہے؟ مبتدا۔ "وَالثَّانِي مُسْنَدٌ بِهِ" دوسرا اسم مسند بہ ہوتا ہے یعنی جس کو نسبت دی جاتی ہے۔ "وَيُسَمَّى الْخَبَرُ" اس کا نام رکھا جاتا ہے خبر۔ ٹھیک ہوگیا جی؟

عامل معنوی

جیسے "زَيْدٌ قَائِمٌ" بہت توجہ۔ زید بھی اسم ہے، قائم بھی اسم ہے۔ نہ زید پر کوئی عامل لفظی ہے نہ قائم پر کوئی عامل لفظی ہے۔ زید مسند الیہ اور مبتدا ہے، قائم مسند بہ خبر ہے۔ تو پھر سوال ہوگا پھر آخر اس زید کو "زَيْدٌ" اور قائم کو "قَائِمٌ" یہ رفع کس نے دیا ہے؟ فرماتے ہیں "وَالْعَامِلُ فِيهِمَا" اس مبتدا اور خبر دونوں کا عامل، عامل معنوی ہوتا ہے۔ شرح میں تو عامل میں آپ پڑھ چکے ہیں "وَهُوَ الِابْتِدَاءُ" اور وہ ابتدا ہے۔ ٹھیک ہے جی یعنی ان کا عامل، عامل معنوی ہے لفظی، ابتدا کیا ہے؟ یعنی وہی عوامل لفظیہ سے خالی ہونا۔

4

مبتدا کے بارے میں

مبتدا میں اصل اور اس کا استثناء

اب آگے ان کے کچھ احکام شروع کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں 

۱۔ پہلا حکم: "أَصْلُ الْمُبْتَدَأِ أَنْ يَكُونَ مَعْرِفَةً" مبتدا میں اصل یہ ہے کہ مبتدا ہمیشہ معرفہ ہو۔ "وَأَصْلُ الْخَبَرِ أَنْ يَكُونَ نَكِرَةً" اور خبر میں اصل یہ ہے کہ وہ نکرہ ہو۔ مبتدا ہمیشہ معرفہ ہوگی اور خبر نکرہ ہوگی۔ یہ ہوگئی اصل، ابتدا ختم، یعنی قاعدہ یہ ہے۔ ہاں "وَالنَّكِرَةُ إِذَا وُصِفَتْ" اگر کبھی کہیں کوئی نکرہ موصوف واقع ہو جائے یعنی نکرہ کے ساتھ کوئی صفت لگا دی جائے "جَازَ أَنْ تَقَعَ مُبْتَدَأً" تو پھر جائز ہے کہ ہم اس نکرہ کو مبتدا بنا سکتے ہیں۔ ایسے نکرہ کا جو موصوف واقع ہو رہا ہو مبتدا بن سکتا ہے۔ قرآن مجید کی آیت ہے "وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ"۔ عبد نکرہ تھا لیکن جب اس کے ساتھ مومن کی صفت لگ گئی تو عبد مومن یہ صفت موصوف یہ مبتدا ہو گیا خیر من مشرک اس کی خبر آگئی۔ ٹھیک۔

نکرہ کے مبتدا ہونے کی دیگر صورتیں

فرماتے ہیں و کذا اسی طرح "إِذَا تُخُصِّصَتْ بِوَجْهٍ آخَرَ" اگر کسی نکرہ کو کسی اور طریقے سے اس کی تخصیص کی گئی ہو یعنی اس کا عموم اس طرح باقی نہ ہو تو پھر فرماتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں، وہ بھی مبتدا بن سکتا ہے۔ مثلاً: "أَرَجُلٌ فِي الدَّارِ أَمِ امْرَأَةٌ"۔ اب یہاں پر نکرہ تحت استفہام واقع ہوا ہے۔ کہ گھر میں مرد ہے یا عورت۔ کیوں؟ ٹھیک ہے رجل نکرہ تھا لیکن چونکہ اس شخص کو کچھ نہ کچھ علم تو ہو گیا نا کس بات کا کہ گھر میں کوئی ہے، اب وہ مرد ہے یا عورت ہے۔ تو بس تھوڑی بہت جو تخصیص آگئی ہے اور اس سے پہلے جو ہمزہ استفہام آگیا اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر نکرہ تحت استفہام ہو تو بھی وہ مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ دوسری مثال "مَا أَحَدٌ خَيْرٌ مِنْكَ"۔ یہ کیا ہے؟ یعنی آپ کہیں گے کہ اگر نکرہ تحت نفی ہو احد اگرچہ نکرہ تھا لیکن اس سے پہلے ما نافیہ آگئی۔ پس اگر آپ نکرہ سے پہلے ما نافیہ آجائے تو بھی اس کو کہتے ہیں نکرہ تحت نفی واقع ہو تو بھی وہ مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔

نکرہ کے مبتدا ہونے کی مزید مثالیں

آگے۔ "شَرٌّ أَهَرَّ ذَا نَابٍ" "شَرٌّ أَهَرَّ ذَا نَابٍ"۔ اب یہاں پر فرماتے ہیں کہ شر اگرچہ کیا تھا؟ نکرہ تھا، خود شر لیکن جب اس کے ساتھ صفت آگئی تو فرماتے ہیں اب یہ بھی مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ آگے "وَفِي الدَّارِ رَجُلٌ" "وَ فِي الدَّارِ رَجُلٌ" اب فرماتے ہیں یہاں پر رجل اگرچہ نکرہ ہے لیکن چونکہ اس کی خبر مقدم ہے لہذا اس وجہ سے خبر مقدم ہو تو بھی یہ نکرہ رجل مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ "سَلَامٌ عَلَيْكَ"۔ ٹھیک ہے جی یہاں کیا ہے؟ یا سلامی کدھر گیا؟ ہاں جی؟ دعا کے لیے آیا ہے۔ دعا کے لیے آیا ہے۔ یا اگر "سَلَامِي عَلَيْكَ" ہوگا، دعا ہوگا تو یہاں بھی تخصیص ہو گئی۔ مطلق سلامتی نہیں۔

 کیا مطلب؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ علی القاعدہ مبتدا کو معرفہ ہونا چاہیے اور خبر کو نکرہ لیکن اگر کہیں کسی مقام پر کسی نکرہ کی تخصیص ہو گئی ہو، کسی نکرہ کی تخصیص ہو گئی ہو تو فرماتے ہیں وہاں پر بھی وہ نکرہ مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔ اب تخصیص کیسے ہو؟ اس کی صفت آگئی ہو، اس سے پہلے حرف نفی آگیا ہو، اس سے پہلے فرض کرو حرف استفہام آگیا ہو یا وہ مضاف ہو کے استعمال ہوا ہو یا خبر اس کی مقدم ہو وغیرہ۔

ایک اسم معرفہ اور دوسرا نکرہ ہونے کا حکم

۲۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ اگر کہیں پر دونوں اسم معرفہ ہوں۔ ایک اسم معرفہ ہو اور ایک اسم نکرہ ہو یعنی دو اسم موجود ہیں ایک معرفہ اور ایک نکرہ۔ وہاں قانون یہ کہتا ہے کہ آپ معرفہ کو مبتدا بنائیں گے اور نکرہ کو خبر۔ وہاں آپ تبدیلی نہیں کر سکتے آپ کی مرضی نہیں ہے۔ بلکہ اگر ایک معرفہ اور ایک نکرہ ہے تو حتماً معرفہ کو مبتدا بنایا جائے گا اور نکرہ کو خبر۔ "وَإِنْ كَانَ أَحَدُ الِاسْمَيْنِ مَعْرِفَةً" اگر دو اسموں میں سے ایک معرفہ ہو "وَالْآخَرُ نَكِرَةً" اور دوسرا ہو نکرہ "فَاجْعَلِ الْمَعْرِفَةَ مُبْتَدَأً" تو تو معرفہ کو مبتدا بنائے گا "وَالنَّكِرَةَ خَبَرًا" اور نکرہ کو خبر البتہ یعنی حتماً اسی طرح ہی کرنا ہے لازم ہے۔ دو حکم ہو    گئے۔

 حکمِ مبتدا اورخبر اگر دونوں معرفہ ہوں

۳۔تیسرا حکم "وَإِنْ كَانَا مَعْرِفَتَيْنِ" اگر دو اسم ہیں اور دونوں ہی معرفہ ہیں۔ دو اسم ہیں اور دونوں ہی معرفہ ہیں۔ "فَاجْعَلْ أَيَّهُمَا شِئْتَ مُبْتَدَأً وَالْآخَرَ خَبَراً" اب آپ کو اختیار ہے آپ ان میں سے جس کو چاہیں مبتدا بنا لیں اور جس کو چاہیں خبر بنا لیں۔ جیسے "اَللهُ إِلٰهُنَا"، "مُحَمَّدٌ نَبِيُّنَا"، "آدَمُ أَبُونَا"۔ اب یہاں پر اللہ، محمد اور آدم یہ بھی معرفہ ہیں۔ الہ  نا  کی طرف مضاف ہے یہ بھی معرفہ ہو گیا۔ نبی  نا  کی طرف  مضاف ہوا یہ بھی معرفہ ہو گیا۔ ابو  نا   کی طرف مضاف ہوا یہ بھی معرفہ ہو گیا۔ اب ان میں سے آپ جس کو چاہیں مبتدا بنائیں جس کو چاہیں خبر بنائیں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی اللہ الہنا اللہ مبتدا الہنا خبر یا الہنا مبتدا مؤخر اور لفظ اللہ خبر مقدم کوئی حرج نہیں ہے۔ اس   لیے کہ یہاں پر دونوں میں جائز ہے۔ ٹھیک ہے جی۔

5

خبر کی اقسام،اس کے اور مبتدا کے احکام

 خبر کا جملہ ہونا

آگے فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ خبر ایک اسم مفرد ہو۔ مفرد نہیں بلکہ ممکن ہے خبر کبھی جملہ بھی واقع ہو جائے۔ اب وہ جملہ کبھی جملہ اسمیہ ہوگا، کبھی جملہ جملہ فعلیہ ہوگا، کبھی جملہ جملہ شرطیہ ہوگا اور کبھی جملہ جملہ ظرفیہ ہوگا۔ بہت غور سے آ جائیں۔ یعنی کبھی کبھار ایک مبتدا کی خبر جملہ بھی واقع ہو سکتی ہے کہ مبتدا مفرد ہو لیکن اس کی خبر پورا جملہ ہو۔ اب وہ جملہ اسمیہ بھی ہو سکتا ہے، وہ جملہ فعلیہ بھی ہو سکتا ہے، وہ شرطیہ بھی ہو سکتا ہے، وہ ظرفیہ بھی ہو سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان سب کی مثالیں ہمارے پاس خارج میں موجود ہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ اچھا۔ اب فرماتے ہیں۔

خبر کی اقسام (جملہ اسمیہ، فعلیہ، شرطیہ و ظرفیہ)

"وَقَدْ يَكُونُ الْخَبَرُ جُمْلَةً اِسْمِيَّةً"۔ کبھی کبھار خبر یعنی مبتدا وہی مفرد ہوگی لیکن اس کی خبر جملہ ہوگی۔ کونسا جملہ؟ ممکن ہے وہ جملہ اسمیہ ہو جیسے "زَيْدٌ" مبتدا "أَبُوهُ قَائِمٌ" یہ جملہ اسمیہ زید کی خبر ہے۔ یا خبر جملہ فعلیہ ہو جیسے "زَيْدٌ" مبتدا "قَامَ أَبُوهُ" یہ پورا جملہ مل کر زید کی خبر بن رہا ہے جملہ فعلیہ ہے۔ "أَوْ شَرْطِيَّةً" ممکن ہے کہ وہ جملہ جملہ شرطیہ ہو جیسے "زَيْدٌ إِنْ جَاءَنِي فَأُكْرِمُهُ"۔ زید مبتدا "إِنْ جَاءَنِي" اگر وہ میرے پاس آئے گا "فَأُكْرِمُهُ" میں اس کا اکرام کروں گا۔ اب یہاں پر یہ اس کی "إِنْ جَاءَنِي فَأُكْرِمُهُ" یہ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ زید کی خبر واقع ہو رہا ہے۔ "أَوْ ظَرْفِيَّةً" اور ممکن ہے کہ اس کو جو خبر ہے وہ جملہ ہو لیکن جملہ ظرفیہ جیسے "زَيْدٌ خَلْفَكَ"۔ زید مبتدا "خَلْفَكَ" یہ ظرف ہے یہ اس کی خبر ہے۔ یا "أَمْرٌ فِي الدَّارِ"۔

 ظرف کا متعلق

فرماتے ہیں یہ جو ظرف ہوگا آیا یہ ظرف کسی کا متعلق بھی ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ ذرا غور سے اس بات کو ذرا سمجھنا ہے۔ کہ بعض اوقات جملہ جب ظرفیہ ہو گا جیسے ہم نے کہا ہے کہ "زَيْدٌ خَلْفَكَ" یا "أَمْرٌ فِي الدَّارِ"۔ ٹھیک ہے جی۔ تو اس ظرف کو ایک متعلق چاہیے۔ تو جب متعلق چاہیے تو یہاں سوال ہے آیا وہ متعلق فعل ہوگا یا وہ متعلق اسم ہوگا؟ اگرچہ اس میں دو آرا ہیں نحویوں کی کہ اس کا متعلق کیا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں "وَالظَّرْفُ مُتَعَلِّقٌ بِجُمْلَةٍ عِنْدَ الْأَكْثَرِ"۔ اکثر کہتے ہیں کہ ظرف متعلق ہوتا ہے جملہ کے۔ اور وہ کیا ہے؟ وہ ہے "اِسْتَقَرَّ"۔ یعنی یہ جو ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ فِي الدَّارِ" یعنی اصل میں ہوتا ہے "زَيْدٌ اِسْتَقَرَّ فِي الدَّارِ"۔ زید مبتدا ہے اور فی الدار جو ظرف ہے یہ اصل میں تھا "اِسْتَقَرَّ فِي الدَّارِ"۔ استقر فعل، جار مجرور جو ظرف ہے یہ اس استقر فعل، ھو فاعل یہ جا کر اس کا متعلق بنتا ہے۔ اس کی ترتیب یوں ہوگی۔ زید مبتدا، استقر فعل، ھو فاعل، فی جار، الدار مجرور، جار مجرور مل کر متعلق ہو استقر فعل کے، استقر فعل اپنے فاعل کے ساتھ اور متعلق کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر پھر یہ جملہ ظرفیہ ہو کر خبر بنے گی زید مبتدا کی۔ بالکل آسان۔

جملہ میں ضمیر عائد کا وجوب

اب ایک جملہ اور۔ "لَا بُدَّ فِي الْجُمْلَةِ مِنْ ضَمِيرٍ يَعُودُ إِلَى الْمُبْتَدَأِ كَالْهَا فِي مَا مَرَّ"۔ اب تھوڑی سی توجہ کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کہا ہے کہ کسی بھی مبتدا کی خبر جملہ واقع ہو سکتی ہے۔ اب ایک اور حکم ہے۔ جب کسی مبتدا کی خبر جملہ واقع ہوگی تو اس جملہ میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو اس مبتدا کی طرف پلٹ رہی ہو۔ جیسے ہم نے کہا تھا "زَيْدٌ أَبُوهُ قَائِمٌ"۔ ابوہ میں جو ہا کی ضمیر تھی اس کا مرجع وہی مبتدا زید تھی۔ بہت توجہ کے ساتھ۔ ایک حکم یہ آ گیا کہ جب مبتدا کی خبر جملہ واقع ہو رہی ہو اس جملہ میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے "يَعُودُ إِلَى الْمُبْتَدَأِ" جو مبتدا کی طرف پلٹ رہی ہو۔ "كَالْهَا فِي مَا مَرَّ"، اوہ! "زَيْدٌ أَبُوهُ قَائِمٌ" ابوہ میں جو ہا کی ضمیر ہے اس کا مرجع وہی زید ہے، زید مبتدا ہے اور جملے میں ضمیر ہے جو پلٹ رہی ہے اس کی طرف۔ ختم۔

 ضمیر عائد کا حذف

لیکن فرماتے ہیں "وَيَجُوزُ حَذْفُهُ عِنْدَ وُجُودِ قَرِينَةٍ" لیکن اگر کبھی کبھار کسی جگہ کوئی قرینہ موجود ہو جس سے مبتدا کی واضح سمجھ آ رہی ہو وہاں پر اگر ضمیر کو حذف بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بہت غور۔ یعنی اگر کہیں پر قرینہ موجود ہو جس قرینہ سے مبتدا واضح سمجھ آ رہی ہے کہ یہاں مبتدا کیا ہے تو وہاں پر اگر ضمیر کو حذف بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی یجوز، واجب نہیں، جائز ہے کہ ضمیر کو حذف کرنا "عِنْدَ وُجُودِ قَرِينَةٍ"۔ جیسے "اَلسَّمْنُ مَنَوَانِ بِدِرْهَمٍ"۔ اب السمن یہ ایک ہی بات آ گئی۔ منوان بدرھم۔ اب یہاں پر منوانہ بدرھم نہیں کہا کہ اس کا ایک منوان ایک درھم کے بدلے میں ہے۔ ہم نے کہا یا دو جو من ہیں وہ ایک درھم کے بدلے میں ہے بلکہ خالی منوانے کہا ہے یہاں ہو کی ضمیر نہیں لگائی۔ "وَالْبُرُّ الْكُرُّ بِسِتِّينَ دِرْهَمًا"۔ اب یہاں ستین درھما کہا ہے "وَالْبُرُّ الْكُرُّ بِسِتِّينَ دِرْهَمًا مِنْهُ" ہم نے نہیں کہا۔ یہ اس لیے ہے چونکہ 60 درھم میں کیا ہے؟ وہی بر ہے واضح سمجھ آ رہی ہے۔ ہمیں یہاں ضرورت ہی نہیں تھی۔ ٹھیک ہے جی۔ اب یہاں ان دو سطروں کا آپ یوں لکھیں گے: کہ جب مبتدا کی خبر جملہ واقع ہو رہی ہو تو اس جملہ میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو ضمیر پلٹ رہی ہو مبتدا کی طرف۔ ختم۔ دوسری سطر یہ ہو گی، ہاں اگر وہاں پر کوئی قرینہ موجود ہو جس سے مبتدا واضح سمجھ آ رہی ہو تو وہاں پر اس ضمیر کا حذف کرنا بھی جائز ہے۔ ختم۔

خبر کا مبتدا پر مقدم ہونا

ایک اور حکم۔ ہم نے کیا کہا ہے کہ مبتدا ہمیشہ پہلے ہوتی ہے، خبر بعد میں ہوتی ہے۔ زید قائم، زید مبتدا، قائم خبر، مسند الیہ پہلے، مسند بعد میں۔ آگے فرماتے ہیں ایک اور حکم کہ کبھی کبھار خبر مبتدا پر مقدم بھی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار خبر مبتدا پر مقدم بھی ہوتی ہے اگر وہ خبر ظرف ہو تو۔ اب یہ کتاب میں جملہ لفظ نہیں ہے لیکن مراد یہی ہے کہ اگر خبر ظرف ہو، اگر خبر ظرف ہو تو وہ خبر مبتدا پر مقدم ہوتی ہے۔ "وَقَدْ يَتَقَدَّمُ الْخَبَرُ عَلَى الْمُبْتَدَأِ"۔ خبر مبتدا پر مقدم، کیسے؟ جیسے "فِي الدَّارِ زَيْدٌ"۔ فی الدار یہ جار مجرور ظرف، خبر مقدم ہے جبکہ "زَيْدٌ" مبتدا مؤخر ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ ختم۔

مبتدا واحد کے      لیے اخبار کثیرہ کا جواز

ایک اور حکم۔ فرماتے ہیں اور حکم ہے وہ یہ ہے کہ، کہ "يَجُوزُ لِلْمُبْتَدَأِ الْوَاحِدِ أَخْبَارٌ كَثِيرَةٌ"۔ بالکل آسان۔ یعنی ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایک مبتدا کی ایک ہی خبر ہو، نہ، یہ لازم نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے کہ مبتدا تو ایک ہو، مسند الیہ تو ایک ہو لیکن خبریں بہت ساری ہوں۔ یعنی ایک چیز کی طرف بہت ساری چیزوں کی نسبت دی جا رہی ہو، مسند بہ زیادہ ہوں، فرماتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ جائز ہے۔ "وَيَجُوزُ لِلْمُبْتَدَأِ الْوَاحِدِ" ایک مبتدا کے لیے، مبتدا واحد کے لیے جائز ہے "أَخْبَارٌ كَثِيرَةٌ" یعنی جائز ہے کہ اس کی ایک سے زیادہ خبریں ہوں۔ مثال انہوں نے دی ہے بہت آسان سی۔ "زَيْدٌ" مبتدا، ایک مبتدا ہو گئی۔ "عَالِمٌ" پہلی خبر، "فَاضِلٌ" دوسری خبر، "عَاقِلٌ" تیسری خبر کہ زید کی طرف نسبت دی جا رہی ہے "عَالِمٌ" کہ اس میں علم ہے، "فَاضِلٌ" اس میں فضل ہے، "عَاقِلٌ" اس میں عقل ہے، یہ سارے مسند بہ ہیں اور ان سب کا اسناد کیا جا رہا ہے زید کی طرف۔ آسان ہے۔ خوب۔ سبحان اللہ۔ قرآن مجید کی ایک آیت بھی آئی۔ "وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ، ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدِ، فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ"۔ "هُوَ" مبتدا ہے، الغفور بھی اس کی خبر ہے، الودود بھی اس کی خبر ہے، ذو العرش المجید بھی اس کی خبر ہے، فعال لما یرید بھی اس کی خبر ہے۔ سبحان اللہ۔ ٹھیک ہے جی۔ آسان ہو گیا۔

 مبتدا اور خبر کا آخری حکم

مبتدا اور خبر کا کے بارے میں ایک آخری حکم وہ یہ ہے۔ وہ یہ ہے بہت آسان سی، فرماتے ہیں ہم نے پیچھے کیا کہا تھا کہ مبتدا کے دو اسم ہوتے ہیں، ایک مسند الیہ ہوتا ہے، ایک مسند بہ ہوتا ہے۔ جو مسند الیہ ہوگا وہ مبتدا کہلاتا ہے، جو مسند بہ ہوگا وہ خبر۔ یعنی ابھی تک ہم نے یہ پڑھا ہے کہ مبتدا مسند الیہ ہوتی ہے اور خبر مسند بہ ہوتی ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ اس پیرے میں ایک اور حکم بیان فرما رہے ہیں اس مبتدا اور خبر کا، فرماتے ہیں `"وَاعْلَمْ أَنَّ لَهَا قِسْمًا آخَرَ مِنَ الْمُبْتَدَأِ"`۔ مبتدا کی ایک اور قسم بھی ہے، وہ کونسی؟ `"لَيْسَ مُسْنَدًا إِلَيْهِ"` کہ جو مسند الیہ نہیں ہوتی۔ یعنی ہے مبتدا لیکن مسند الیہ نہیں ہے۔ بہت توجہ آغا، مسند الیہ نہیں ہے۔ اچھا جی، وہ کیسے؟ کہ جو مبتدا ہے، مسند الیہ نہیں ہے، بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسند ہوتی ہے۔

6

وہ مبتدا جو مسند الیہ نہیں ہوتی

وہ کونسی ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں وہ صیغہ صفت، یا ہر وہ صیغہ جس سے پہلے نفی ہو، حرف نفی ہو، یا استفہام ہو، یہی ہے نا؟ ہر وہ صفت کہ جس سے پہلے حرف نفی ہو یا استفہام ہو، وہ بھی آگے آئے گا۔ اور وہ صفت اپنے بعد ایک اسم ظاہر کو رفع دے رہی ہو۔ یہ عبارت دقیق ہے ذرا، مطلب آسان ہے اب تھوڑا سا توجہ فرمائیں تو مطلب واضح اور کلیئر ہو جائے گا۔

شرط اور مثال

مطلب کیا ہے؟ تھوڑا سا واپس جائیں اور درس جہاں مکمل ہو جائے گا۔ کہ مبتدا مسند الیہ ہوتی ہے، ہم نے پیچھے پڑھا ہے۔ یہاں فرما رہے ہیں کبھی کبھی مبتدا مسند الیہ نہیں ہوتی، بلکہ مسند ہوتی ہے۔ اچھا وہ کہاں؟ فرماتے ہیں وہ صفت جو حرف نفی کے بعد واقع ہو۔ اور وہ صفت اپنے بعد کسی اسم ظاہر کو رفع دے رہی ہو تو وہ صفت مبتدا ہوتی ہے لیکن وہ مسند ہوتی ہے، مسند الیہ نہیں ہوتی۔ بالکل آسان جیسے، فرماتے ہیں `"وَاعْلَمْ أَنَّ لَهُمْ قِسْمًا آخَرَ"`، علماء علم نحو مبتدا کی ایک اور قسم بھی بیان کرتے ہیں کہ `"لَيْسَ مُسْنَدًا إِلَيْهِ"` کہ جو مبتدا تو ہے لیکن مسند الیہ نہیں ہے۔ اچھا وہ کونسی ہے؟ `"هُوَ صِفَةٌ وَقَعَتْ بَعْدَ حَرْفِ النَّفْيِ"` یعنی وہ صیغہ صفت جو واقع ہو حرف نفی کے بعد جیسے `"مَا قَائِمٌ زَيْدٌ"`۔ یہاں قائم سے پہلے، قائم صیغہ صفت کا ہے، اس سے پہلے ایک ما نافیہ موجود ہے۔ فرماتے ہیں یہاں ما قائم، یہ مسند الیہ نہیں ہے لیکن مبتدا ہے۔ `"بِشَرْطِ أَنْ تَرْفَعَ تِلْكَ الصِّفَةُ"` بشرطیکہ وہ صفت اپنے بعد ایک اسم ظاہر کو رفع دے رہی ہو۔ یعنی اگر صفت کے بعد اسم ظاہر ہے لیکن وہ اسم ظاہر کو رفع نہیں دے رہی تو پھر وہ مبتدا نہیں ہوگی۔ صفت ہو، بہت توجہ، صیغہ صفت کا ہو، اس سے پہلے حرف نفی ہو، وہ صیغہ، وہ صیغہ صفت اپنے بعد ایک اسم ظاہر کو رفع بھی دے رہا ہو تو وہ مبتدا ہوگی لیکن مسند الیہ نہیں ہوگی۔ جیسے ہم کہتے ہیں `"مَا قَائِمٌ الزَّيْدَانِ"` یا `"إِنْ قَائِمٌ الزَّيْدَانِ"`۔ ٹھیک ہے جی۔ اب دیکھو ما نافیہ ہے اس قائم نے  زیدان کو رفع دیا ہے۔

لیکن `"مَا قَائِمَانِ الزَّيْدَانِ"` فرماتے ہیں نہ، `"مَا قَائِمَانِ الزَّيْدَانِ"` یہ نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اگر قائم رافع ہوتا تو پھر اس کو مفرد پڑھتے۔ پھر `"مَا قَائِمٌ"` ز... `"مَا قَائِمٌ الزَّيْدِ"` یہ، کدھر گیا؟ عبارت۔ جیسے ہم نے پیچھے پڑھا ہے `"مَا قَائِمٌ الزَّيْدَانِ"` یہاں پر تو قائم نے ہاں زیدان کو رفع دیا ہے لیکن جب `"مَا قَائِمَانِ الزَّيْدَانِ"` جب اس کو بھی تثنیہ پڑھیں گے اور زیدان کو تثنیہ، پھر یہاں پر یہ قائمان ہاں زیدان کے لیے رافع نہیں ہے بلکہ اس نے تو اپنی ضمیر کو رفع دیا ہے۔ یہاں پر اس لحاظ سے، لہٰذا پس، اب یہاں بات ختم کرو۔

ختم کیا ہوگیا؟ کہ اگر کہیں کوئی صفت ہو جس سے پہلے حرف نفی ہو، وہ حرف نفی اپنے بعد کسی اسم ظاہر کو رفع دے رہا ہو تو وہ صفت مبتدا واقع ہوگی لیکن اس کے باوجود کہ وہ مسند الیہ نہیں ہوگی۔

وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ مُحَمَّدٍ

وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ تقول : قامَ الرّجالُ ، قامَتِْ الرّجالُ. ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس نحو : ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ.

ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين ، أو غير مقصورين إن لم تخف اللبس نحو : أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ ، وضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ.

ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة نحو : زَيْدٌ ، في جواب من قال : مَنْ ضَرَبَ ؟ وكذا حذف الفاعل والفعل معاً كنَعَمْ في جواب من قال : أَقامَ زَيْدٌ ؟ وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً وهو القسم الثاني من المرفوعات.

القسم الثاني : مفعول ما لم يسمّ فاعله

وهو كلّ مفعول حذف فاعله واُقيم المفعول مقامه نحو : ضُربَ زَيْدٌ ، وحكمه في توحيد فعله وتثنيته وجمعه ، وتذكيره وتأنيثه ، على قياس ما عرفت في الفاعل.

القسم الثالث والرابع : المبتدأ والخبر

وهما اسمان مجرّدان عن العوامل اللّفظية ، أحدهما : مسند إليه ويسمّى المبتدأ ، والثاني : مسند به ويسمّى الخبر نحو : زَيْدٌ قائِمٌ.

والعامل فيهما معنويّ هو الابتداء.

وأصل المبتدأ أن يكون معرفة ، وأصل الخبر أن يكون نكرة. والنكرة إذا وصفت جاز أن تقع مبتدأ نحو قوله تعالى : ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن

مُّشْرِكٍ (١) وكذا إذا تخصّصت بوجه آخر نحو : أرجُلٌ في الدّارِ أمْ امرأةٌ ، وما أَحَدٌ خَيْراً مِنْكَ ، وشَرٌّ أَهَرّ ذا ناب ، وفي الدارِ رَجُلٌ ، وسَلامٌ عَلَيْكَ.

وإن كان أحد الاسمين معرفة والآخر نكرة ، فاجعل المبتدأ معرفة والخبر نكرة البتّة كما مرّ.

وإن كانا معرفتين فاجعل أيّهما شئت مبتدأ والآخر خبراً نحو : اللهُ إِلٰهُنا ، وآدمُ ( عَلَيْهِ السَّلامُ ) أَبُونا ، ومُحَمَّدٌ ( صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وسلّم ) نَبيُّنا.

وقد يكون الخبر جملة اسميّة نحو : زَيْدٌ أبُوهُ قائِمٌ ، أو فعليّة نحو : زَيْدٌ قامَ أبُوهُ ، أو شرطيّة نحو : زَيْدٌ إنْ جاءني فَأكْرمْهُ ، أو ظرفيّة نحو : زَيْدٌ خَلْفَكَ ، وعَمْروٌ فِي الدار ، والظرف متعلّق بجملة عند الأكثر وهي اسْتَقَرَّ ، لأنَّ المقدّر عامِلٌ في الظرف والأصل في العمل الفعل ، فقولك : زَيْدٌ في الدار ، تقديره : اسْتَقَرَّ في الدار.

ولا بدّ من ضمير في الجملة ليعود إلى المبتدأ ، كالهاء فيما مرّ ، ويجوز حذفه عند وجود قرينة نحو : السَّمْنُ مَنَوانِ بِدِرْهَمٍ ، والْبُرُّ اَلْكُرُّ بِسِتّينَ دِرْهَمَاً أي منه.

وقد يتقدّم الخبر على المبتدأ إن كان ظرفاً نحو : فِي الدارِ زَيْدٌ. ويجوز للمبتدأ الواحد أخبار كثيرة نحو : زَيْدٌ فاضِلٌ عالِمٌ عاقِلٌ.

واعلم أنّ لهم قسماً آخر من المبتدأ ليس بمسند إليه ، وهو صفة وقعت بعد حرف النفي نحو : ما قائِمٌ زَيْدٌ ، أو بعد حرف الاستفهام نحو : أَقائِمٌ زَيْدٌ ؟ وهَلْ قائِمٌ زَيْدٌ ؟ بشرط أن ترفع تلك الصفة اسماً ظاهراً بعدها نحو : ما قائِمُ الزَّيْدانِ ، وأقائِمُ الزَّيْدانِ ؟ بخلاف أقائِمانِ الزَّيْدانِ ؟

____________________________

(١) سورة البقرة : ٢٢١.