تمہیدی گفتگو 
یہ درس گزشتہ درس کے ساتھ مربوط ہے۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ جب دو فعل آپس میں تنازع کر رہے ہوں بعد والے ایک اسم ظاہر میں، پہلا فعل کہتا ہے کہ وہ اسم ظاہر میرا معمول بنے اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا معمول بنے۔ تو یہاں ہم نے کہا تھا کہ اکثر نحات جواز کے قائل ہیں کہ جی چاہے تو اس کو پہلے کا معمول بناؤ اور جی چاہے تو دوسرے کا معمول بناؤ۔ اب زیادہ بہتر کس میں ہے کہ کس کا معمول بنایا جائے؟ نحات بصرہ یہ کہتے تھے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس کو دوسرے فعل کا معمول قرار دیا جائے، اس لیے کہ وہ اس کے قریب ہے، وہ اس کا پڑوسی ہے، لہذا "الْحَقُّ لِلْجَارِ" کے تحت۔ نحات کوفہ کہتے ہیں کہ نہیں، پہلا فعل پہلے ہے تو ہمیشہ "الْحَقُّ لِلْأَوَّلِ" ہوتا ہے، لہذا اس اسم ظاہر کو پہلے فعل کا معمول قرار دیا جائے۔
کوفیوں کے مذہب کے مطابق پہلے فعل کو عمل دینا
آج کا درس ہم یہاں سے شروع کر رہے ہیں کہ اگر ہم نحات کوفہ کے نظریہ کو اختیار کرتے ہیں، جو کہتے تھے کہ اس اسم ظاہر کو پہلے فعل کا معمول قرار دیا جائے، تو اب فرماتے ہیں:  ہم دیکھتے ہیں کہ چلو وہ اسم ظاہر تو بن جائے گا پہلے فعل کا معمول، اب دیکھنا ہے کہ دوسرا فعل کیا چاہتا تھا۔ اگر دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا تھا تو وہاں پر ہم دوسرے فعل کو پھر اس کے فاعل کی ضمیر دیں گے اور اسم ظاہر کو پہلے فعل کا معمول قرار دیں گے۔ "وَ أَمَّا إِنْ أَعْمَلْتَ الْفِعْلَ الْأَوَّلَ"، اور اگر آپ فعل اول کو عمل دیتے ہیں "عَلَى مَذْهَبِ الْكُوفِيِّينَ" کوفیوں کے نظریے کے مطابقیعنی اگر آپ نحات کوفہ کی اتباع کرتے ہوئے اس اسم ظاہر کو پہلے فعل کا معمول قرار دیتے ہیں۔  تو اب، "فَانْظُرْ" اب آپ یہ دیکھیں کہ "إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الثَّانِي يَقْتَضِي الْفَاعِلَ" اگر دوسرا فعل فاعل کا تقاضا کرتا ہے، کیا مطلب؟ یعنی اگر دوسرا فعل یہ چاہتا ہے کہ بعد والا اسم میرا فاعل بنے جبکہ ہم اس کو معمول بنا رہے ہیں پہلے فعل کا، تو اب دوسرے کے لیے کیا کریں گے؟ فرماتے ہیں: اگر وہ فاعل کا تقاضا کرتا ہے، "أَضْمَرْتَ الْفَاعِلَ فِي الْفِعْلِ الثَّانِي" تو دوسرے فعل میں پھر فاعل کی ضمیر دیں گے یعنی دوسرے فعل میں فاعل کے لیے ضمیر لائیں گے۔ یہ بات پیچھے بھی گزری، بالکل اسی طرح ہے۔ "کَمَا تَقُولُ فِی المُتَوَافِقَینِ"، مثلاً متوافقین میں اس کی مثال آپ یوں بنائیں گے۔ متوافقین سے مراد کیا؟ یعنی پہلا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر  میرا فاعل بنے اور دوسرا چاہتا ہے کہ نہیں نہیں، میرا فاعل بنے۔ ہم اس اسم ظاہر کو پہلے فعل کا فاعل قرار دیں گے اور دوسرے فعل کو فاعل کی ضمیر دیں گے، جیسے "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمَنِي زَيْدٌ"۔ یہاں زیدٌ کو ضربنی کا فاعل بنائیں گے اور اکرمانی میں هُوَ کی ضمیر فاعل ہوگی۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمَا الزَّيْدَانِ"۔ اب الزیدان کو ضربنی کا فاعل قرار دیں گے اور أَكْرَمَا میں جو همَا کی ضمیر ہے تثنیہ کی، وہ اس کا فاعل بنے گی۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمُونِ الزَّيْدُونَ"۔ اب الزیدون ضربنی کا فاعل ہوگا اور "أَكْرَمُونِ" میں ضمیر جمع، هُمْ اس کا فاعل بنے گی۔ "وَ فِي الْمُتَخَالِفَيْنِ" متخالفین سے مراد کیا ہے؟ کہ دوسرا فعل تو چاہتا ہے کہ یہ اسم ظاہر میرا فاعل بنے لیکن پہلا اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے۔ تو اب کیا کریں گے؟ فرماتے ہیں اس کا حکم بھی یہی ہے۔ "وَ فِي الْمُتَخَالِفَيْنِ"۔ اگر وہ متخالف ہوں۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمَنِي زَيْدًا" یعنی زید کو ضربتُ کا مفعول بنائیں گے اور اکرمانی جو زید کو اپنا فاعل بنانا چاہتا تھا اس کو اس کی ضمیر دیں گے۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمَا الزَّيْدَيْنِ"۔ اب الزیدین ضربتُ کا مفعول بنائیں گے اور اکرمانی میں ہم نے  اس کو فاعل کی ضمیر دی ہے۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمُونِي الزَّيْدِينَ"۔ الزیدین ضربتُ کا مفعول ہے اور اکرمونی میں  فاعل کی ضمیر دی ہے۔ 
 لیکن "إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الثَّانِي يَقْتَضِي الْمَفْعُولَ"  اگر دوسرا فعل مفعول کا تقاضا کرتا ہے، یعنی کیا؟ یعنی اگر دوسرا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر، میرا مفعول بنے۔ پھر وہی صورت ہو گی، ہو سکتا ہے کہ دونوں فعل اسے اپنا اپنا مفعول بنانا چاہتے ہوں، ہو سکتا ہے کہ پہلا اس کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہو لیکن دوسرا اس کو اپنا مفعول۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ اگر دوسرا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا مفعول بنے تو پھر وہی بات ہو گی۔ اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ دونوں فعل کہیں افعال قلوب میں سے تو نہیں ہیں۔ اب، اگر یہ دونوں فعل جن کا آپس میں تنازع ہے وہ افعال قلوب میں سے نہ ہوں تو فرماتے ہیں: یہاں جائز ہے، چاہیں تو دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، چاہیں تو دوسرے فعل کو مفعول کی ضمیر دے دیں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ یہ ترجمہ ہو گیا۔ اب آپ کاپی پر لکھیں گے تو یوں لکھیں گے۔ اگر دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہیں ہیں تو ہمارے لیے جائز ہے، چاہیں تو اس دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، چاہیں تو اس دوسرے فعل کو مفعول کی ضمیر دے دیں، کوئی حرج، دونوں جائز ہیں۔ "وَ إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الثَّانِي" اگر دوسرا فعل "يَقْتَضِي الْمَفْعُولَ" وہ مفعول کا تقاضا کرتا ہے  یعنی اگر فعل ثانی چاہتا ہے کہ بعد والا اسم میرا مفعول بنے "وَ لَمْ يَكُنِ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوبِ" اور دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہ ہوں، "جَازَ فِيهِ الْوَجْهَانِ" تو پھر دو صورتیں جائز ہیں۔ کیا جائز ہے؟ "حَذْفُ الْمَفْعُولِ" چاہیں تو آپ اس دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، ذکر ہی نہ کریں، "وَ الْإِضْمَارُ" اور چاہیں تو اس کو یعنی دوسرے فعل کو اس مفعول کی ضمیر دے دیں،  إضمار کا معنی ضمیر دینا ہے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ لیکن صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:  "وَ الثَّانِي هُوَ الْمُخْتَارُ"  مطلب کیا ہے؟ یعنی دوسری صورت مختار ہے۔ مختار کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اس کو ضمیر دیں، کیوں؟ "لِيَكُونَ الْمَلْفُوظُ مُطَابِقًا لِلْمُرَادِ" تاکہ ہم جو بول رہے ہوں جو ملفوظ ہو وہ ہماری مراد کے مطابق ہو، اس لیے کہ ہماری مراد میں کیا ہے؟ کہ وہ ایک اس کا مفعول ہے اور اگر ضمیر دے دیں گے تو جو ملفوظ ہوگا، جو بول رہے ہوں گے، وہ ہماری اس مراد کے مطابق ہو جائے گا۔  اب آگے دونوں کی مثالیں بالکل آسان کر کے انہوں نے دی ہیں۔ "أَمَّا الْحَذْفُ" حذف کی صورت میں کہ دوسرا فعل تقاضا کرتا ہے اسم ظاہر میرا مفعول بنے، دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہیں ہیں، ہمارے نزدیک جائز ہے کہ ہم چاہیں تو مفعول کو حذف کریں اور چاہیں تو اس کو مفعول کو ضمیر دیں۔ انہوں نے کہا تھا  کہ ضمیر دینا افضل ہے۔ اب ذرا مثالیں۔ مثال کیا ہے؟ اگر ہم دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں تو اب فرماتے ہیں: اگر دونوں فعل متوافق ہوں، یعنی پہلا بھی اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دوسرا بھی، تو اس کی مثال یہ ہوگی: "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُ زَيْدًا"۔ زیدًا ضربتُ کا مفعول ہوگا، اکرمتُ کا مفعول محذوف ہوگا۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُ الزَّيْدَيْنِ"۔ الزیدین ضربتُ کا مفعول ہوگا جبکہ اکرمتُ کا مفعول محذوف ہوگا۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُ الزَّيْدِينَ"۔ الزیدین ضربتُ کا مفعول ہوگا جبکہ اکرمتُ کا مفعول محذوف ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس اسم ظاہر کو ضربتُ چاہتا تھا کہ یہ میرا مفعول بنے اور اکرمتُ چاہتا تھا کہ یہ میرا مفعول بنے۔ اور اگر متخالفین ہوں، یعنی کیا مطلب؟ کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ اسم ظاہر میرا فاعل بنے جبکہ دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول بنے اور ہم یہاں پر مفعول کو اگر حذف کرنا چاہیں تو اس کی مثال یہ ہوگی: "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُ زَيْدٌ"۔ اب زیدٌ کو ضربنی کا فاعل بنائیں گے جبکہ اکرمتُ کا مفعول محذوف ہوگا۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُ الزَّيْدَانِ"۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُ الزَّيْدُونَ"۔ یعنی یہ جو اسم ظاہر  ہے اسے پہلے فعل کا فاعل بنائیں گے جبکہ دوسرے فعل کا مفعول محذوف ہوگا، یہ جائز ہے۔ اور پھر ہم نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی جائز ہے کہ  آپ مفعول کو حذف نہ کریں بلکہ آپ دوسرے فعل کو اس مفعول کی ضمیر دے دیں۔ اگر ضمیر دینی ہے تو اس کی مثال پھر یوں ہوگی۔ متوافقین میں مثال کیا ہوگی؟ متوافقین، وہی مثالیں کہ پہلا چاہتا ہے میرا مفعول بنے، دوسرا چاہتا ہے میرا مفعول بنے "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُهُ زَيْدًا"۔ اب یہاں زیدًا ضربتُ کا مفعول ہوگا اور اکرمتُ کو ہم نے "هُ" کی ضمیر دے دی ہے۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُهُمَا الزَّيْدَيْنِ"۔ اب دیکھو زیدین جو ہے یہ ضربتُ کا مفعول ہوگا لیکن اکرمتُ کو ہم نے "هُمَا" کی ضمیر دی۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدِينَ"۔ یہاں بھی الزیدین ضربتُ کا مفعول ہوگا جبکہ اکرمتُ کو ہم نے "هُمْ" کی ضمیر دے دی۔ متخالفین میں، متخالفین سے مراد کیا؟ کہ مثلاً پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا فاعل بنے جبکہ دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول بنے اور ہم دوسرے فعل کو ضمیر دینا چاہتے ہیں، اس کی مثال بھی بڑی آسان۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُهُ زَيْدٌ"۔ یہ زیدٌ ضربنی کا فاعل ہے اور اکرمتُ کو ہم نے "هُ" کی ضمیر دی ہے۔ "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُهُمَا الزَّيْدَانِ"۔زیدان ضربنی کا فاعل ہے اور ہم نے اکرمتُ کو "هُمَا" کی ضمیر دی۔ "ضَرَبْتُ وَ أَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدِينَ"۔ الزیدین" زیدین  یہ ضربتُ کا مفعول ہوگا جبکہ اکرمتُ کو ہم نے اس کی ضمیر دی۔اگر زیدون پڑھیں گے تو پھر اس کی مثال ہوگی "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُهُ زَيْدٌ"، "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُهُمَا الزَّيْدَانِ"۔ آگے ہے "ضَرَبَنِي وَ أَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدُونَ"۔ یہاں ضربنی ہوگا تو پھر پڑھیں گے الزیدون یعنی یہ ضربنی کا فاعل ہوگا اور اکرمتُ کے لیے ہم "هُمْ" کی ضمیر اس کو مفعول کی دیں گے۔
"وَفِی الْمُتَخَالِفَیْنِ" اگر وہ متخالف ہوں۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَنِي زَيْداً" یعنی زید کو "ضَرَبْتُ" کا مفعول بنائیں گے اور "أَكْرَمَنِي" جو زید کو اپنا فاعل بنانا چاہتا تھا اس کو اس کی ضمیر دیں گے۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَانِ الزَّيْدَيْنِ"۔ "الزَّيْدَيْنِ" "ضَرَبْتُ" کا مفعول بنائیں گے اور "أَكْرَمَانِ" میں ہم نے اس کو فاعل کی ضمیر دی ہے۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمُوْنِي الزَّيْدِيْنَ"۔ الزيدين ضربت کا مفعول ہے اور "أَكْرَمُوْنِي" میں یہاں فاعل کی ہم نے اس کو ضمیر دی ہے۔
 یہ تو تھا کہ اگر دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے۔ اب وہی بات جو پیچھے گزری ہے بالکل اسی طرح ہے۔ لیکن "إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الثَّانِي يَقْتَضِي الْمَفْعُوْلَ" بالکل وہی بات جو پیچھے تھی۔ اگر دوسرا فعل مفعول کو تقاضا کرتا ہے، یعنی کیا؟ یعنی اگر دوسرا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے۔ پھر وہی صورت ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں فعل اسے اپنا اپنا مفعول بنانا چاہتے ہوں، ہو سکتا ہے کہ پہلا اس کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہو لیکن دوسرا اس کو اپنا مفعول۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ اگر دوسرا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا مفعول بنے۔ تو پھر وہی بات ہو گی۔ اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ دونوں فعل کہیں افعال قلوب میں سے تو نہیں ہیں۔
اب، اگر یہ دونوں فعل جن کا آپس میں تنازع ہے، وہ افعال قلوب میں سے نہ ہوں تو فرماتے ہیں: یہاں جائز ہے، چاہیں تو دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، چاہیں تو دوسرے فعل کو مفعول کی ضمیر دے دیں۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ یہ ترجمہ ہو گیا۔ اب آپ کاپی پر لکھیں گے تو یوں لکھیں گے۔ اگر دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دونوں فعل "أَفْعَالِ قُلُوْب" میں سے بھی نہیں ہیں، تو ہمارے لیے جائز ہے، چاہیں تو اس دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، چاہیں تو اس دوسرے فعل کو مفعول کی ضمیر دے دیں، کوئی حرج، دونوں جائز ہیں۔ 
"وَإِنْ كَانَ الْفِعْلُ الثَّانِي يَقْتَضِي الْمَفْعُوْلَ" اگر دوسرا فعل وہ مفعول کا تقاضا کرتا ہے، کیا مطلب؟ یعنی اگر فعل ثانی چاہتا ہے کہ بعد والا اسم میرا مفعول بنے۔ "وَلَمْ يَكُنِ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوْبِ" اور دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہ ہوں، "جَازَ فِيْهِ الْوَجْهَانِ" تو پھر جائز ہیں دو صورتیں جائز ہیں۔ کیا جائز ہے؟ "حَذْفُ الْمَفْعُوْلِ" چاہیں تو آپ اس دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں، ذکر ہی نہ کریں، "وَالْإِضْمَارُ" اور چاہیں تو اس کو یعنی دوسرے فعل کو اس مفعول کی ضمیر دے دیں، اضمار معنی ضمیر دینا۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ لیکن صاحب ہدایت فرماتے ہیں "وَالثَّانِي هُوَ الْمُخْتَارُ"۔ "وَالثَّانِي هُوَ الْمُخْتَارُ"۔ ثانی هو المختار کا مطلب کیا ہے؟ یعنی دوسری صورت مختار ہے۔ مختار کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اس کو ضمیر دیں۔ کیوں؟ "لِيَكُوْنَ الْمَلْفُوْظُ مُطَابِقاً لِلْمُرَادِ" تاکہ ہم جو بول رہے ہوں جو ملفوظ ہو وہ ہماری مراد کے مطابق ہو۔ اس لیے کہ ہماری مراد میں کیا ہے؟ کہ وہ ایک اس کا مفعول ہے اور اگر ضمیر دے دیں گے تو جو ملفوظ ہو گا جو بول رہے ہوں گے وہ ہماری اس مراد کے مطابق ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے جی؟ اب آگے دونوں کی مثالیں بالکل آسان کر کے انہوں نے دی ہیں۔
"أَمَّا الْحَذْفُ" اگر آپ حذف کرنا چاہتے ہیں تو  دوسرا فعل تقاضا کرتا ہے اسم ظاہر میرا مفعول بنے۔ دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک جائز ہے کہ ہم چاہیں تو مفعول کو حذف کریں اور چاہیں تو اس کو مفعول کی ضمیر دیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ضمیر دینا افضل ہے۔  مثال کیا ہے؟ اگر ہم دوسرے فعل کے مفعول کو حذف کر دیں  تو اب فرماتے ہیں: اگر دونوں فعل متوافق ہوں، یعنی پہلا بھی اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دوسرا بھی۔ تو اس کی مثال یہ ہو گی "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ زَيْداً"۔ "زَيْداً" "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا، "أَكْرَمْتُ" کا مفعول محذوف ہو گا۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدَيْنِ"۔ "الزَّيْدَيْنِ" "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا جبکہ "أَكْرَمْتُ" کا مفعول محذوف ہو گا۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدِيْنَ"۔ "الزَّيْدِيْنَ" "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا جبکہ "أَكْرَمْتُ" کا مفعول محذوف ہو گا۔  اب کیوں؟ اس لیے کہ اس اسم ظاہر زید میں "ضَرَبْتُ" چاہتا تھا کہ یہ میرا مفعول بنے اور "أَكْرَمْتُ" چاہتا تھا کہ یہ میرا مفعول بنے۔ اور اگر متخالفین ہوں، یعنی کیا مطلب؟ کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ اسم ظاہر میرا فاعل بنے جبکہ دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول بنے۔ اور ہم یہاں پر مفعول کو اگر حذف کرنا چاہیں تو اس کی مثال یہ ہو گی۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ زَيْدٌ"۔ اب "زَيْدٌ" کو "ضَرَبَنِي" کا فاعل بنائیں گے جبکہ "أَكْرَمْتُ" کا مفعول محذوف ہو گا۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدَانِ"، "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدُوْنَ" یعنی یہ جو اسم ظاہر ہیں یہ اس پہلے فعل کے فاعل بنائیں گے جبکہ دوسرے فعل کا مفعول محذوف ہو گا۔ 
اور پھر ہم نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی جائز ہے کہ نہیں، آپ مفعول کو حذف نہ کریں بلکہ آپ دوسرے فعل کو اس مفعول کی ضمیر دے دیں،اگر ضمیر دینی ہے تو اس کی مثال پھر یوں ہو گی۔ متوافقین میں مثال کیا ہو گی؟ متوافقین، وہی مثالیں کہ پہلا چاہتا ہے میرا مفعول، دوسرا چاہتا ہے میرا مفعول۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُهُ زَيْداً"۔ اب یہاں "زَيْداً" "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا اور "أَكْرَمْتُ" کو ہم نے "هُ" کی ضمیر دے دی ہے۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُهُمَا زَيْدَانِ" اب دیکھو "زَيْدَيْنِ" جو ہے یہ "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا لیکن "أَكْرَمْتُ" کو ہم نے "هُمَا" کی ضمیر دی۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدِيْنَ"۔ یہاں بھی "الزَّيْدِيْنَ" "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا جبکہ "أَكْرَمْتُ" کو ہم نے "هُمْ" کی ضمیر دے دی۔ متخالفین میں، متخالفین سے مراد کیا؟ کہ مثلاً پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا فاعل بنے، جبکہ دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول بنے اور ہم دوسرے فعل کو ضمیر دینا چاہتے ہیں، اس کی مثال بھی بڑی آسان۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُهُ زَيْدٌ"۔ یہ "زَيْدٌ" "ضَرَبَنِي" کا فاعل ہے اور "أَكْرَمْتُ" کو ہم نے "هُ" کی ضمیر دی ہے۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُهُمَا زَيْدَانِ"۔ "زَيْدَانِ" "ضَرَبَنِي" کا فاعل ہے اور ہم نے "أَكْرَمْتُ" کو "هُمَا" کی ضمیر دی۔ "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدُوْنَ"۔ "الزَّيْدُوْنَ"، "الزَّيْدِيْنَ"۔ "أَكْرَمْتُهُمُ" "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدِيْنَ"۔ یہ "زَيْدٌ" جو ہے یہ "ضَرَبَ" "زَيْدِيْنَ" یہ "ضَرَبْتُ" کا مفعول ہو گا جبکہ "أَكْرَمْتُ" کو ہم نے اس کی ضمیر دی۔  "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُهُ زَيْدٌ"۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُهُمَا الزَّيْدَانِ"۔ آگے ہے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُهُمُ الزَّيْدُوْنَ"۔ یہاں "ضَرَبَنِي" ہو گا تو پھر پڑھیں گے "الزَّيْدُوْنَ"۔ یعنی یہ "ضَرَبَنِي" کا فاعل ہو گا اور "أَكْرَمْتُ" کے لیے ہم "هُمْ" کی ضمیر اس کو مفعول کی دیں گے۔
 یہ تو وہاں تھا کہ جہاں دونوں فعل افعال قلوب میں سے نہیں تھے۔ اب آ گیا اگلا حصہ۔ کہ اگر ہم عمل دینا چاہتے ہیں نحات کوفہ کے مطابق پہلے فعل کو اور دوسرا فعل وہ تقاضا کرتا ہے مفعول کا، دوسرا فعل چاہتا ہے کہ یہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے اور فعل بھی دونوں افعال قلوب میں سے ہیں۔ اب کیا کریں؟ ہم نے پیچھے پڑھا ہے، کیا؟ کہ  افعال قلوب کے مفعول کو حذف کرنا جائز نہیں، تو یہاں پر بھی پھر وہ جائز نہیں ہو گا۔ مثال بڑی  پیاری اور آسان۔
اگر دو فعل افعال قلوب میں سے ہوں:
"وَأَمَّا إِذَا كَانَ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوْبِ" اگر وہ دو فعل جو بعد والے اسم ظاہر میں تنازع کر رہے ہیں اگر وہ دونوں افعال قلوب میں سے ہیں تو پھر دوسرا فعل تقاضا کرتا ہے مفعول کا، فرماتے ہیں : بس "فَلَا بُدَّ مِنْ إِظْهَارِ الْمَفْعُوْلِ" یہاں مفعول کا اظہار کرنا واجب ہے۔  مثلا ہم کیا کہیں گے؟ "حَسِبَنِي وَحَسِبْتُهُمَا مُنْطَلِقَيْنِ الزَّيْدَانِ مُنْطَلِقاً"۔  فرماتے ہیں: "لِأَنَّ حَسِبَنِي وَحَسِبْتُهُمَا" چونکہ "حَسِبَنِي" اور "حَسِبْتُهُمَا" نے تنازع کیا ہے "مُنْطَلِقاً" میں۔ یعنی "حَسِبَنِي" چاہتا ہے کہ "مُنْطَلِقاً" میرا مفعول بنے اور "حَسِبْتُهُمَا" چاہتا ہے کہ وہ میرا مفعول بنے۔ "وَأَعْمَلْتَ الْأَوَّلَ" "وَهُوَ حَسِبَنِي" اور ہم نے عمل دیا ہے پہلے فعل کو یعنی "حَسِبَنِي" کو۔ گویا کہ "مُنْطَلِقاً" کو اس "حَسِبَنِي" کا مفعول قرار دیا ہے۔ تو بعد میں فرماتے ہیں: ہم نے جو کہا "مُنْطَلِقَيْنِ"، "وَأَظْهَرْتَ الْمَفْعُوْلَ فِي الثَّانِي" اور ہم نے "حَسِبْتُهُمَا" یعنی وہ دوسرے کے مفعول کو بھی ظاہر کیا ، ہم نے "حَسِبْتُهُمَا مُنْطَلِقَيْنِ" کہا ہے،  یہ لازم اور ضروری ہے، کیوں؟ وجہ یہ ہے،
"فَإِنْ حَذَفْتَ مُنْطَلِقَيْنِ" اگر آپ "حَسِبْتُهُمَا" کے بعد اس کے مفعول "مُنْطَلِقَيْنِ" کو حذف کر دیں اور آپ کہیں "حَسِبَنِي وَحَسِبْتُهُمَا الزَّيْدَانِ مُنْطَلِقاً"۔ آپ اگر یوں پڑھتے ہیں اور "مُنْطَلِقَيْنِ" کو ذکر نہیں کرتے تو "يَلْزَمُ الْاِقْتِصَارُ عَلَى أَحَدِ الْمَفْعُوْلَيْنِ فِي أَفْعَالِ الْقُلُوْبِ" لازم آئے گا کہ ہم افعال قلوب کے دو مفعولوں میں سے ایک مفعول پر اقتصار کریں۔ یہ بات ہم عوامل میں پڑھ چکے ہیں کہ افعال قلوب دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، دو مفعول چاہتے ہیں۔ ہم اگر ان میں سے فقط ایک کو ذکر کریں اور دوسرے کو نہ کریں "وَهُوَ غَيْرُ جَائِزٍ" یہ جائز نہیں۔ بس چونکہ افعال قلوب دو مفعول چاہتے ہیں اور دو مفعولوں میں سے ایک پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے، لہذا فرماتے ہیں: اگر یہ دونوں فعل افعال قلوب میں سے ہوں گے تو پھر ہمیں دوسرے فعل کے لیے بھی مفعول کو ظاہر کرنا ہو گا اور یہ ضروری ہے۔
اب کوئی کہے کہ جناب آپ مفعول کو ظاہر کیوں کرتے ہیں؟ آپ دوسرے فعل کو مفعول کی ضمیر دے دیں تو بھی بات بن جائے گی۔  فرماتے ہیں: "وَإِنْ أَضْمَرْتَ" اگر آپ دوسرے فعل کو جو افعال قلوب میں سے ہے، اس کے مفعول کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ آپ اس کو ضمیر دیتے ہیں تو اب سوال یہ ہوگا: "فَلَا يَخْلُو أَنْ تُضْمِرَ مُفْرَدًا" اب یا تو پھر اس کو ضمیر دیں گے کس کی؟ مفرد یعنی ضمیر مفرد کی اس کو دیں گے۔ آپ کہیں گے "حَسِبَنِي وَحَسِبْتُهُمَا إِيَّاهُ الزَّيْدَانِ مُنْطَلِقًا" اب "إِيَّاهُ" آپ نے ضمیر دے دی کہ اس کا ایک مفعول بن جائے گا "إِيَّاهُ" اور ایک بن جائے گا "الزَّيْدَانِ"۔ فرماتے ہیں: اگر آپ ایسا کریں گے "حِينَئِذٍ لَا يَكُونُ الْمَفْعُولُ الثَّانِي مُطَابِقًا لِلْمَفْعُولِ الْأَوَّلِ" تو پھر مفعول ثانی پہلے مفعول کے مطابق نہ ہوگا، وہ کیسے؟ اس لیے کہ آپ نے کہا ہے "حَسِبْتُهُمَا" تو پہلے میں تو آپ بنا رہے ہیں تثنیہ یعنی دو مفعول اور دوسرا مفعول اگر آپ ضمیر دیں "إِيَّاهُ" کی تو یہ بن جائے گی مفرد، تو پھر اس کا مطلب ہے ایک مفعول تثنیہ ہے اور ایک مفعول مفرد ہے، یہ درست نہیں ہے، "لَا يَكُونُ الْمَفْعُولُ الثَّانِي" دوسرا مفعول پہلے مفعول کے مطابق نہ ہوگا۔ کون سا پہلا؟ "وَهُوَ هُمَا" وہ جو آپ نے کہا ہے "حَسِبْتُهُمَا" تو پہلا مفعول "هُمَا" تھا اور دوسرا بن جائے گا "إِيَّاهُ" تو یہ درست نہیں ہے کہ ایک شئ کے دو مفعول ہوں اور ایک مفرد اور ایک تثنیہ۔ "وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ"  ایک فعل کے دو مفعول ہوں اور ایک مفعول واحد ہو، مفرد ہو اور ایک تثنیہ ہو، یہ جائز نہیں ہے۔ یا دونوں کو مفرد ذکر کریں یا دونوں کو تثنیہ ذکر کریں۔
"أَوْ أَنْ تُضْمِرَ مُثَنًّى" یا اگر آپ اس کو ضمیر دینا چاہتے ہیں تثنیہ کی،  آپ کہتے ہیں "حَسِبَنِي وَحَسِبْتُهُمَا إِيَّاهُمَا الزَّيْدَانِ مُنْطَلِقًا" یعنی پہلا مفعول "هُمَا" تھا تو ضمیر دوسرا مفعول آپ نے بنایا "إِيَّاهُمَا"، تثنیہ کی بنا دی۔ آپ یوں ذکر کریں، بہت مزیدار آگے فرماتے ہیں: یہ بھی درست نہیں ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ "إِيَّاهُمَا" کا مرجع کیا ہوگا؟ آپ کہیں گے "مُنْطَلِقًا"۔ جناب ضمیر تثنیہ کی ہو اور مرجع لفظ مفرد ہو یہ درست نہیں ہے۔ "وَحِينَئِذٍ" اس سے خرابی کیا لازم آئے گی؟ اس سے خرابی یہ آئے گی کہ "يَلْزَمُ عَوْدُ الضَّمِيرِ الْمُثَنَّى" کہ  ضمیر مثنیٰ پلٹ رہی ہو "إِلَى اللَّفْظِ الْمُفْرَدِ" ایک لفظ مفرد کی طرف۔ وہ لفظ مفرد کیا تھا؟ "وَهُوَ مُنْطَلِقًا" وہ لفظ مفرد تھا "مُنْطَلِقًا" کہ جس میں "حَسِبَنِي" اور "حَسِبْتُهُمَا" کا تنازعہ تھا "الَّذِي وَقَعَ فِيهِ التَّنَازُعُ"۔ بس اگرلفظ مفرد، مرجع ہو اور ضمیر اس کی طرف پلٹائیں تثنیہ کی، "هَذَا أَيْضًا لَا يَجُوزُ" یہ بھی جائز نہیں۔
 فرماتے ہیں: "وَإِذَا لَمْ يَجُزِ الْحَذْفُ" بس جب حذف بھی جائز نہ ہوا اس لیے کہ مفعول ہو افعال قلوب کے مفعول میں سے ایک کو حذف کرنا اور ایک کو باقی رکھنا یہ بھی جائز نہیں، "وَالْإِضْمَارُ" اور ضمیر دیتے ہیں تو وہ بھی جائز نہیں، اس لیے کہ ضمیر مفرد کی دیتے ہیں تو دو مفعولوں کے درمیان توافق نہیں رہتا، اگر ضمیر تثنیہ کی دیتے ہیں تو مرجع اس کا لفظ مفرد ہے، جب دونوں کام جائز نہ ہوئے "وَجَبَ الْإِظْهَارُ" تو ایسی صورت میں اس کے مفعول کو ظاہر کرنا واجب ہوگا۔ یہاں تک بحث مکمل ہوگئی الحمدللہ کس کی؟ یہ بحث تھی تنازع فعلین، بہت مشہور بحث۔