درس الهدایة في النحو

درس نمبر 12: احکام تنازع فعلان 3

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

"فَإِنْ أَعْمَلْتَ الثَّانِيَ فَانْظُرْ إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الْأَوَّلُ يَقْتَضِي الْفَاعِلَ أَضْمَرْتَهُ فِي الْأَوَّلِ كَمَا تَقُولُ فِي الْمُتَوَافِقَيْنِ إِلَى آخِرِهِ"

3

باب تنازع کی اختلافی بحث

 ہماری بحث تنازع فعلان کی ہے کہ جب دو فعل تنازع کریں ایک اسم ظاہر میں جو ان کے بعد ہو۔ گزشتہ درس کا اختتام جہاں ہوا تھا،

کہ اکثر نحات یہ کہتے ہیں کہ آپ چاہیں تو اس اسم ظاہر کا عامل پہلے فعل کو قرار دیں اور چاہیں تو دوسرے فعل کو قرار دیں۔ دونوں کو عامل بنانا یعنی جس کو آپ چاہیں اس کو عامل قرار دے سکتے ہیں، یہ جائز ہے۔ البتہ ان جواز والوں میں پھر نحات بصرہ  کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ دوسرے فعل کو عامل قرار دیا جائے اور بعد والا اسم ظاہر دوسرے فعل کا معمول بنے اس لیے کہ وہ اس کے قریب ہے، وہ اس کے پڑوس میں ہے لہذا "الْحَقُّ لِلْجَارِ" پڑوسی کا حق زیادہ ہوتا ہے۔

جبکہ نحات  کوفہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں چونکہ جو پہلا فعل ہے وہ پہلے آیا ہے تو "الْحَقُّ لِلْأَوَّلِ" وہ پہلے ہے تو لہذا اس کا حق بنتا ہے لہذا اس کواس اسم ظاہر میں عامل قرار دیا جائے اور اسم ظاہر کو اس پہلے فعل کا معمول بنانا زیادہ بہتر ہے۔ اب ذرا اس میں اشتباہ نہ کرنا یعنی یہ دونوں لوگ جواز کے قائل ہیں فقط ہے کہ بہتر کس میں ہے آیا دوسرے کو یا پہلے کو عامل قرار دیں؟ بس بصریین کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے کو عامل قرار دینا بہتر ہے، نحات کوفہ کہتے ہیں کہ نہیں، پہلے کو عامل قرار دینا زیادہ بہتر ہے۔

 بصریوں کا نظریہ

آج کا درس ہمارا یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ اگر ہم نحات بصرہ کے نظریے کو لیں اور ہم کہتے ہیں کہ جو بعد والا اسم ظاہر ہے وہ دوسرے فعل کا معمول واقع ہو گا اور اس کا عامل وہی دوسرا فعل ہو گا۔ تو اب پہلے فعل کے ساتھ کیا کریں؟اسم ظاہر تو فقط ایک ہے۔ جواب: اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے یعنی پہلا فعل یہ کہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے تو پھر ہم نے تو اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دینا ہے تو ایسی صورت میں پہلے فعل کو اس فاعل کی ضمیر دیں گے۔انشاء اللہ آگے مثال آ رہی ہے، ضمیر دیں گے۔اب فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ پہلا فعل اور دوسرا فعل دونوں، وہ جیسے ہم نے چار صورتیں پڑھی ہیں ممکن ہے کہ دونوں اس اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہوں۔ ممکن ہے متخالفین ہوں کہ  پہلا فعل تو چاہتا ہے کہ وہ اسم ظاہر میرا فاعل بنے لیکن دوسرا اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے۔ ہم اگر ان دونوں صورتوں میں ہم اگر دوسرے فعل کو عامل قرار دیتے ہیں اس اسم ظاہر میں اور اس کو معمول بناتے ہیں اس دوسرے کا تو پہلے فعل کو اس فاعل کی ضمیر دیں گے۔

 فرماتے ہیں: "فَإِنْ أَعْمَلْتَ الثَّانِيَ" یعنی اگر آپ نحات بصرہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے دوسرے فعل کو عمل دیتے ہیں یعنی بعد والے اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول بناتے ہیں تو اب پہلے کے لیے کیا کریں گے؟ فرماتے ہیں: "فَانْظُرْ" اب آپ ذرا دیکھیں "إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الْأَوَّلُ يَقْتَضِي الْفَاعِلَ" اگر پہلا فعل اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے یعنی وہ مقتضی فاعل ہے وہ کہتا ہے کہ یہ اسم ظاہر میرا فاعل ہو اور میں اس کو جا کر رفع دوں اگر ایسا ہے"أَضْمَرْتَهُ فِي الْأَوَّلِ" تو آپ پہلے فعل میں فاعل کی ضمیر دیں گے۔ فاعل کی ضمیر دیں گے،جیسے "كَمَا تَقُولُ فِي الْمُتَوَافِقَيْنِ" مثلاً متوافقین میں آپ یہ کہیں گے، اب سوال ہو گا متوافقین سے مراد کیا ہے؟ آپ جواب دیں گے متوافقین سے مراد یہ ہے کہ دونوں فعل اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا فاعل ہو اور دوسرا چاہتا ہے میرا۔فرماتے ہیں: اب یہاں پر ہم اس کو معمول بنائیں گے دوسرے کا لیکن پہلے کو اس کی ضمیر دیں گے جیسے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ" یہاں زیدٌ اکرم کا فاعل ہے لیکن ضرب میں ھو کی ضمیر اس کا فاعل ہو گی۔"ضَرَبَانِي وَأَكْرَمَانِي الزَّيْدَانِ" اب الزیدان اکرما کا فاعل ہے لیکن ضربا میں او تثنیہ ھما کی ضمیر ہے۔

"ضَرَبُونِي وَأَكْرَمُونِي الزَّيْدُونَ" اب زیدون اکرموا کا فاعل قرار پائے گا لیکن ضربوا جو پہلا فعل ہے اس میں ھم کی ضمیر ہو گی۔

متوافق اور متخالف کی مثالیں

یہ تو وہاں تھا کہ جہاں دونوں فعل اس اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنا رہے تھے، متوافق تھے۔

"وَفِي الْمُتَخَالِفَيْنِ" لیکن اگر وہ متخالف ہوں، متخالفین کا مطلب کیا ہے؟ کہ پہلا فعل کہتا ہے بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے جبکہ دوسرا فعل کہتا ہے بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے اور ہم عمل دے رہے ہیں دوسرے فعل کو تو فرماتے ہیں یہاں پہلے کو ضمیر دیں گے۔

جیسے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا" زیدًا اکرمتُ کا مفعول قرار دیا ہے ہم نے لیکن ضربنی میں ھو کی ضمیر ہے۔"ضَرَبَانِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدَيْنِ" اب زیدین اکرمتُ کا مفعول قرار دیا ہے لیکن ضربانی میں ھما کی ضمیر ہے جو زیدین کی طرف جائے گی اس کا فاعل ہے۔

"ضَرَبُونِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدِينَ" اب الزیدین  یہ اکرمتُ کا مفعول ہے لیکن ضربونی میں ھم کی ضمیر ہے جو زیدین کی طرف جائے گی۔ بس ہم نے یہاں پر بصریوں کے نزدیک ہم نے اس دوسرے فعل کو عمل دیا یعنی اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دیا اور پہلے فعل کو اس کی ضمیر دی۔ یہ کہاں تھا؟ اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا تھا تو ہم نے یہ کیا۔

یہ ختم چیپٹر۔ اگلی بات علیحدہ ہے۔ وہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں: اگر فعل اول اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے یعنی وہ چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول ہو اور میں جا کر اس کو نصب دوں۔اب فرماتے ہیں:اب ہو سکتا ہے کہ جیسے پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا مفعول ہو، دوسرا فعل بھی اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہو تو اس میں متوافق ہو جائیں گے یا ہو سکتا ہے کہ متخالف ہوں، متخالف بمعنی کہ پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے۔ وہ جو چار صورتیں تھیں۔اب فرما رہے ہیں : اگر تو پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے۔تو اب یہاں پر پھر دو قسمیں ہو جائیں گی۔

پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ فعل جو اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے کیا یہ فعل افعال قلوب میں سے تو نہیں ہے؟ کیوں؟ چونکہ اگر وہ فعل افعال قلوب میں سے ہو گا تو حکم اور ہے اور اگر افعال قلوب میں سے نہ ہو گا تو حکم اور ہے۔

اب فرماتے ہیں : اگر پہلا فعل بعد والے اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور وہ فعل افعال قلوب میں سے بھی نہیں ہے تو وہاں پر اس فعل کے مفعول کو حذف کر دیں گے یعنی اس فعل کا مفعول، چونکہ مفعول فضلہ ہوتا ہے لہذا اس کو حذف بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ چاہے وہ متوافقین ہوں یعنی دونوں فعل ایسے ہی ہوں کہ جو افعال قلوب میں سے نہیں ہیں اور دونوں اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتے ہیں یا نہیں، پہلا مفعول بنانا چاہتا ہے دوسرا فاعل بنانا چاہتا ہے تو ہم عمل اسی دوسرے کو دیں گے پہلے کے مفعول کو حذف کریں گے۔ یہ کہاں ہے؟ یہ وہاں ہے کہ جہاں وہ پہلا فعل افعال قلوب میں سے نہ ہو گا۔

4

تطبیق

فرماتے ہیں: "وَإِنْ كَانَ الْفِعْلُ الْأَوَّلُ يَقْتَضِي الْمَفْعُولَ" اگر پہلا فعل مفعول کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا مطلب؟ جو میں نے گزارشات کی ہیں یعنی پہلا فعل کہتا ہے کہ ہم دونوں کے بعد میں آنے والا اسم ظاہر، پہلا فعل کہتا ہے کہ وہ میرا مفعول بنے، وہ اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے،"وَلَمْ يَكُنِ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوبِ" دونوں فعل افعال قلوب میں سے بھی نہ ہوں،  فرماتے ہیں: "حَذَفْتَ الْمَفْعُولَ مِنَ الْفِعْلِ" تو اب یہاں پر یہ کہتے ہیں کہ آپ وہاں فعل کے اس مفعول کو حذف کر دیں گے یعنی اس کا ذکر ہی نہیں کریں گے، اس کو ضمیر بھی نہیں دیں گے۔محذوف ہو گا،"كَمَا تَقُولُ فِي الْمُتَوَافِقَيْنِ" کہ اگر دونوں فعل آپس میں متوافق ہوں، متوافق سے مراد کیا ہے؟ وہی جو پہلے گزارش کی ہے کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے اور دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول بنے تو یہاں پر ہم اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا مفعول بنائیں گے اور پہلے فعل کے مفعول کو حذف کریں گے، جیسے "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا" میں زیدًا اکرمتُ کا مفعول ہو گا جبکہ ضربتُ کا کا مفعول محذوف ہو گا۔"ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدَيْنِ" یہاں الزیدین اکرمتُ کا مفعول ہو گا جبکہ ضربتُ کا مفعول حذف ہو گا۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے اس کو ضمیر بھی نہیں دی۔"ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدِينَ" الزیدین اکرمتُ کا مفعول ہے جبکہ ضربتُ کا مفعول محذوف ہے۔

"وَفِي الْمُتَخَالِفَيْنِ" اور اگر یہ دونوں فعل متخالف ہوں، متخالف کا مطلب یہ ہے کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے اور دوسرا فعل چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے تو یہاں بھی ہم پہلے فعل کے مفعول کو حذف کریں گے۔ مثال:

"ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ" اب زیدٌ  یہ اکرمَنی کا فاعل ہے اور ضربتُ کا مفعول محذوف ہے۔

"ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَانِي الزَّيْدَانِ" الزیدان اکرما کا مفعول ہے جبکہ فاعل ہے جبکہ ضربتُ کا مفعول محذوف ہے۔

"ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَنِي الزَّيْدُونَ" الزیدون اکرمَنی کا فاعل ہے اور ضربتُ کا مفعول محذوف ہے۔

بہت توجہ آغا بڑی ترتیب سے چلنا ہے۔ یعنی پہلے میں کیا تھا؟ کہ اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے تو ہم نے کہا تھا کہ اس کو معمول بنائیں گے دوسرے فعل کا لیکن پہلے فعل کو اس کی ضمیر دیں گے۔ دوسرے پہرے میں ہم نے یہ کہا کہ اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور یہ فعل افعال قلوب میں سے بھی نہ ہوں تو وہاں ہم اس کے مفعول کو حذف کر دیں گے۔  یہ ختم دو پہرے، تیسرا پہرہ علیحدہ ہے۔

جب دونوں فعل افعال قلوب میں سے ہوں

"وَإِنْ كَانَ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوبِ"۔ اور اگر وہ فعل افعال قلوب میں سے ہوں، یعنی پہلا فعل بھی افعال قلوب میں سے ہے اور دوسرا فعل بھی افعال قلوب میں سے ہے تو فرماتے ہیں وہاں اس پہلے فعل کے مفعول کو ظاہر کرنا واجب ہے، کیوں واجب ہے؟ اس لیے کہ افعال قلوب کو حذف کرنا جائز نہیں ہے  کہ اگر یہ دونوں افعال جو آپس میں تنازع کر رہے ہیں یہ ہوں افعال قلوب میں سے تو پھر پہلے فعل کے لیے مفعول کا ظاہر کرنا واجب ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ افعال قلوب کے مفعول کو حذف کرنا اور اسی طرح قبل ذکر مفعول کی ضمیر دینا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک بحث تھی نحاتِ بصرہ کے نظریہ کے مطابق جو کہتے تھے  کہ دوسرے فعل کو ہم عمل دیں گے۔  اب اگلا نظریہ ان شاءاللہ  پڑھتے ہیں۔

افعال قلوب کے مفعول کے اظہار کی بحث

اب فرماتے ہیں: "وَإِنْ كَانَ الْفِعْلَانِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوبِ" اگر وہ دونوں فعل افعال قلوب میں سے ہوں "يَجِبُ إِظْهَارُ الْمَفْعُولِ" تو فرماتے ہیں:فعل اول کے لیے  مفعول کو ظاہر کرنا واجب ہے۔ کیوں؟ "كَمَا تَقُولُ" یعنی آپ کہیں گے "حَسِبَنِي مُنْطَلِقاً وَ حَسِبْتُ زَيْداً مُنْطَلِقاً" یعنی حسبنی کا اپنا اور حسبت کا اپنا، دونوں کے مفعول کو ذکر کرنا واجب ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے اس کو اظہار کرنا واجب اس لیے ہے "إِذْ لَا يَجُوزُ حَذْفُ الْمَفْعُولِ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوبِ" اس لیے کہ افعال قلوب کا حذف کرنا جائز نہیں۔ "وَ إِضْمَارُ الْمَفْعُولِ قَبْلَ ذِكْرِ" اور مفعول کو ذکر کیے بغیر اس کی طرف کسی ضمیر کو پلٹا دینا یہ بھی جائز نہیں ہے۔ "هَذَا هُوَ مَذْهَبُ الْبَصْرِيِّينَ" یہ تو سارا نظریہ تھا  بصریوں کا۔ کہ بصری حضرات یہ کہتے تھے کہ بہتر ہے کہ ہم دوسرے فعل کو عمل دیں اور پہلے کو نہ دیں۔

کوفیوں کا نظریہ

 دوسرا نظریہ کیا ہے؟ مختصر سا ہے۔ اس کو بھی ساتھ پڑھ لیتے ہیں تاکہ یہ بات یہاں پر مکمل ہو جائے۔ فرماتے ہیں: "وَ أَمَّا إِنْ أَعْمَلْتَ الْفِعْلَ الْأَوَّلَ" وہ تو تھا  بصریوں کا نظریہ، اب اگر ہم کوفیوں کے نظریے کو دیکھیں جو کہتے تھے کہ "الْحَقُّ لِلْأَوَّلِ" جو پہلے آیا، اس کا حق  ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ان دو افعال کے بعد آنے والا اسم ظاہر بہتر ہے کہ اس کو پہلے فعل کا معمول بنایا جائے نہ کہ دوسرے کا۔ اس لیے کہ "الْحَقُّ لِلْأَوَّلِ"۔ بالکل آسان سی بات فرماتے ہیں۔ "وَ أَمَّا إِنْ أَعْمَلْتَ الْفِعْلَ الْأَوَّلَ عَلَى مَذْهَبِ الْكُوفِيِّينَ" اگر ہم نحاتِ کوفہ کے نظریے کو لیتے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ پہلے فعل کو عمل دیں گے یعنی بعد والا اسم ظاہر پہلے فعل کا معمول بنے گا۔ "فَانْظُرْ" یہ درس شاید لمبا ہو جائے تو بہتر ہے اس کو تھوڑا سا علیحدہ کر لیں۔ زیادہ مناسب ہوگا۔

وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ مُحَمَّدٍ

وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ تقول : قامَ الرّجالُ ، قامَتِْ الرّجالُ. ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس نحو : ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ.

ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين ، أو غير مقصورين إن لم تخف اللبس نحو : أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ ، وضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ.

ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة نحو : زَيْدٌ ، في جواب من قال : مَنْ ضَرَبَ ؟ وكذا حذف الفاعل والفعل معاً كنَعَمْ في جواب من قال : أَقامَ زَيْدٌ ؟ وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً وهو القسم الثاني من المرفوعات.

القسم الثاني : مفعول ما لم يسمّ فاعله

وهو كلّ مفعول حذف فاعله واُقيم المفعول مقامه نحو : ضُربَ زَيْدٌ ، وحكمه في توحيد فعله وتثنيته وجمعه ، وتذكيره وتأنيثه ، على قياس ما عرفت في الفاعل.

القسم الثالث والرابع : المبتدأ والخبر

وهما اسمان مجرّدان عن العوامل اللّفظية ، أحدهما : مسند إليه ويسمّى المبتدأ ، والثاني : مسند به ويسمّى الخبر نحو : زَيْدٌ قائِمٌ.

والعامل فيهما معنويّ هو الابتداء.

وأصل المبتدأ أن يكون معرفة ، وأصل الخبر أن يكون نكرة. والنكرة إذا وصفت جاز أن تقع مبتدأ نحو قوله تعالى : ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن