ہماری بحث تنازع فعلان کی ہے کہ جب دو فعل تنازع کریں ایک اسم ظاہر میں جو ان کے بعد ہو۔ گزشتہ درس کا اختتام جہاں ہوا تھا،
کہ اکثر نحات یہ کہتے ہیں کہ آپ چاہیں تو اس اسم ظاہر کا عامل پہلے فعل کو قرار دیں اور چاہیں تو دوسرے فعل کو قرار دیں۔ دونوں کو عامل بنانا یعنی جس کو آپ چاہیں اس کو عامل قرار دے سکتے ہیں، یہ جائز ہے۔ البتہ ان جواز والوں میں پھر نحات بصرہ  کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ دوسرے فعل کو عامل قرار دیا جائے اور بعد والا اسم ظاہر دوسرے فعل کا معمول بنے اس لیے کہ وہ اس کے قریب ہے، وہ اس کے پڑوس میں ہے لہذا "الْحَقُّ لِلْجَارِ" پڑوسی کا حق زیادہ ہوتا ہے۔
جبکہ نحات  کوفہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں چونکہ جو پہلا فعل ہے وہ پہلے آیا ہے تو "الْحَقُّ لِلْأَوَّلِ" وہ پہلے ہے تو لہذا اس کا حق بنتا ہے لہذا اس کواس اسم ظاہر میں عامل قرار دیا جائے اور اسم ظاہر کو اس پہلے فعل کا معمول بنانا زیادہ بہتر ہے۔ اب ذرا اس میں اشتباہ نہ کرنا یعنی یہ دونوں لوگ جواز کے قائل ہیں فقط ہے کہ بہتر کس میں ہے آیا دوسرے کو یا پہلے کو عامل قرار دیں؟ بس بصریین کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے کو عامل قرار دینا بہتر ہے، نحات کوفہ کہتے ہیں کہ نہیں، پہلے کو عامل قرار دینا زیادہ بہتر ہے۔
 بصریوں کا نظریہ
آج کا درس ہمارا یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ اگر ہم نحات بصرہ کے نظریے کو لیں اور ہم کہتے ہیں کہ جو بعد والا اسم ظاہر ہے وہ دوسرے فعل کا معمول واقع ہو گا اور اس کا عامل وہی دوسرا فعل ہو گا۔ تو اب پہلے فعل کے ساتھ کیا کریں؟اسم ظاہر تو فقط ایک ہے۔ جواب: اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے یعنی پہلا فعل یہ کہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے تو پھر ہم نے تو اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دینا ہے تو ایسی صورت میں پہلے فعل کو اس فاعل کی ضمیر دیں گے۔انشاء اللہ آگے مثال آ رہی ہے، ضمیر دیں گے۔اب فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ پہلا فعل اور دوسرا فعل دونوں، وہ جیسے ہم نے چار صورتیں پڑھی ہیں ممکن ہے کہ دونوں اس اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہوں۔ ممکن ہے متخالفین ہوں کہ  پہلا فعل تو چاہتا ہے کہ وہ اسم ظاہر میرا فاعل بنے لیکن دوسرا اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے۔ ہم اگر ان دونوں صورتوں میں ہم اگر دوسرے فعل کو عامل قرار دیتے ہیں اس اسم ظاہر میں اور اس کو معمول بناتے ہیں اس دوسرے کا تو پہلے فعل کو اس فاعل کی ضمیر دیں گے۔
 فرماتے ہیں: "فَإِنْ أَعْمَلْتَ الثَّانِيَ" یعنی اگر آپ نحات بصرہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے دوسرے فعل کو عمل دیتے ہیں یعنی بعد والے اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول بناتے ہیں تو اب پہلے کے لیے کیا کریں گے؟ فرماتے ہیں: "فَانْظُرْ" اب آپ ذرا دیکھیں "إِنْ كَانَ الْفِعْلُ الْأَوَّلُ يَقْتَضِي الْفَاعِلَ" اگر پہلا فعل اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے یعنی وہ مقتضی فاعل ہے وہ کہتا ہے کہ یہ اسم ظاہر میرا فاعل ہو اور میں اس کو جا کر رفع دوں اگر ایسا ہے"أَضْمَرْتَهُ فِي الْأَوَّلِ" تو آپ پہلے فعل میں فاعل کی ضمیر دیں گے۔ فاعل کی ضمیر دیں گے،جیسے "كَمَا تَقُولُ فِي الْمُتَوَافِقَيْنِ" مثلاً متوافقین میں آپ یہ کہیں گے، اب سوال ہو گا متوافقین سے مراد کیا ہے؟ آپ جواب دیں گے متوافقین سے مراد یہ ہے کہ دونوں فعل اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں کہ پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا فاعل ہو اور دوسرا چاہتا ہے میرا۔فرماتے ہیں: اب یہاں پر ہم اس کو معمول بنائیں گے دوسرے کا لیکن پہلے کو اس کی ضمیر دیں گے جیسے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ" یہاں زیدٌ اکرم کا فاعل ہے لیکن ضرب میں ھو کی ضمیر اس کا فاعل ہو گی۔"ضَرَبَانِي وَأَكْرَمَانِي الزَّيْدَانِ" اب الزیدان اکرما کا فاعل ہے لیکن ضربا میں او تثنیہ ھما کی ضمیر ہے۔
"ضَرَبُونِي وَأَكْرَمُونِي الزَّيْدُونَ" اب زیدون اکرموا کا فاعل قرار پائے گا لیکن ضربوا جو پہلا فعل ہے اس میں ھم کی ضمیر ہو گی۔
متوافق اور متخالف کی مثالیں
یہ تو وہاں تھا کہ جہاں دونوں فعل اس اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنا رہے تھے، متوافق تھے۔
"وَفِي الْمُتَخَالِفَيْنِ" لیکن اگر وہ متخالف ہوں، متخالفین کا مطلب کیا ہے؟ کہ پہلا فعل کہتا ہے بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے جبکہ دوسرا فعل کہتا ہے بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول بنے اور ہم عمل دے رہے ہیں دوسرے فعل کو تو فرماتے ہیں یہاں پہلے کو ضمیر دیں گے۔
جیسے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا" زیدًا اکرمتُ کا مفعول قرار دیا ہے ہم نے لیکن ضربنی میں ھو کی ضمیر ہے۔"ضَرَبَانِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدَيْنِ" اب زیدین اکرمتُ کا مفعول قرار دیا ہے لیکن ضربانی میں ھما کی ضمیر ہے جو زیدین کی طرف جائے گی اس کا فاعل ہے۔
"ضَرَبُونِي وَأَكْرَمْتُ الزَّيْدِينَ" اب الزیدین  یہ اکرمتُ کا مفعول ہے لیکن ضربونی میں ھم کی ضمیر ہے جو زیدین کی طرف جائے گی۔ بس ہم نے یہاں پر بصریوں کے نزدیک ہم نے اس دوسرے فعل کو عمل دیا یعنی اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دیا اور پہلے فعل کو اس کی ضمیر دی۔ یہ کہاں تھا؟ اگر پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا تھا تو ہم نے یہ کیا۔
یہ ختم چیپٹر۔ اگلی بات علیحدہ ہے۔ وہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں: اگر فعل اول اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے یعنی وہ چاہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول ہو اور میں جا کر اس کو نصب دوں۔اب فرماتے ہیں:اب ہو سکتا ہے کہ جیسے پہلا فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا مفعول ہو، دوسرا فعل بھی اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہو تو اس میں متوافق ہو جائیں گے یا ہو سکتا ہے کہ متخالف ہوں، متخالف بمعنی کہ پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور دوسرا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے۔ وہ جو چار صورتیں تھیں۔اب فرما رہے ہیں : اگر تو پہلا فعل اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے۔تو اب یہاں پر پھر دو قسمیں ہو جائیں گی۔
پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ فعل جو اس اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے کیا یہ فعل افعال قلوب میں سے تو نہیں ہے؟ کیوں؟ چونکہ اگر وہ فعل افعال قلوب میں سے ہو گا تو حکم اور ہے اور اگر افعال قلوب میں سے نہ ہو گا تو حکم اور ہے۔
اب فرماتے ہیں : اگر پہلا فعل بعد والے اسم ظاہر کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے اور وہ فعل افعال قلوب میں سے بھی نہیں ہے تو وہاں پر اس فعل کے مفعول کو حذف کر دیں گے یعنی اس فعل کا مفعول، چونکہ مفعول فضلہ ہوتا ہے لہذا اس کو حذف بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ چاہے وہ متوافقین ہوں یعنی دونوں فعل ایسے ہی ہوں کہ جو افعال قلوب میں سے نہیں ہیں اور دونوں اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتے ہیں یا نہیں، پہلا مفعول بنانا چاہتا ہے دوسرا فاعل بنانا چاہتا ہے تو ہم عمل اسی دوسرے کو دیں گے پہلے کے مفعول کو حذف کریں گے۔ یہ کہاں ہے؟ یہ وہاں ہے کہ جہاں وہ پہلا فعل افعال قلوب میں سے نہ ہو گا۔