خوب بات سمجھ آ گئی، پھر ہمیں گزارش کر دی کہ دو عامل، وہ تنازع فعلان کہ بعد میں اسم ظاہر فقط ایک ہے لیکن اس سے پہلے فعل دو ہیں۔ پہلا فعل کہتا ہے کہ میں جا کر اس میں عمل کروں اور دوسرا کہتا ہے کہ میں اس میں جا کر عمل کروں۔ بہت توجہ کے ساتھ، ٹھیک ہے جی۔چار صورتیں ہم نے بنائی تھیں۔
یا دونوں فعل اس بعد والے اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہوں گے۔ یا دونوں فعل بعد والے اسم ظاہر کو اپنا اپنا مفعول بنانا چاہتے ہوں گے۔ یا پہلا فعل اس کو فاعل اور دوسرا مفعول، یا پہلا مفعول اور دوسرا فاعل بنانا چاہتا ہو گا۔ ٹھیک ہے جی۔
 تنازع کی صورت میں فعل کو عمل دینے کا حکم
اب یہاں سے شروع فرما رہے ہیں بحث کو کہ جب ایسی صورت حال ہو تو کیا کرنا چا  ہیے؟ آپ ذرا غور فرمانا ہے۔
فرماتے ہیں :اس صورت میں یعنی چاروں کی چاروں صورتوں میں ہمارے نزدیک آپ چاہیں تو پہلے فعل کو اعمال کریں، یعنی وہ بعد والے کو پہلے فعل کا معمول قرار دیں اور چاہیں تو بعد والے اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دیں۔ ذرا توجہ رکھنی ہے آغا۔
مثلاً ضربنی واکرمنی زیدٌ میں، یہ فرماتے ہیں جائز ہے کہ زید کو ضرب کا فاعل بنائیں اور یہ بھی جائز ہے کہ زید کو اکرم کا فاعل بنائیں۔ یعنی ضرب کو اعمال دینے کا مطلب کیا ہے کہ وہ اس کے لیے فاعل ہو گا اور اکرم کا یہ ہے کہ اس کے لیے فاعل ہو گا۔
لیکن فراء نحوی وہ کہتا ہے نہیں یہ درست نہیں ہے۔وہ کہتا ہے نہ۔
پہلی صورت میں، او جہاں دونوں اس اسم ظاہر کو اپنا اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں۔ اور تیسری صورت میں جہاں پہلا کہتا ہے کہ وہ بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل بنے اور دوسرا کہتا ہے کہ نہیں وہ میرا مفعول بنے۔ وہ کہتا ہے کہ ان صورت میں دوسرے کو عمل دیں گے یعنی وہ بعد میں جو ایک اسم ظاہر ہو گا اس میں دوسرا فعل عمل کرے گا، پہلا نہیں کرے گا۔
 فراء نحوی کے اختلاف کی دلیل
اچھا، کیوں جی؟ مسئلہ کیا ہے؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے۔
 نمبر ایک  وہ یہ ہے کہ یا تو ہم اس کے فاعل کو حذف کر دیں۔ فاعل عمدۃ کلام ہوتا ہے۔ رکن کلام ہوتا ہے۔ فاعل کو حذف کرنا یہ درست نہیں۔ یا اگر آپ پہلے کو اس فاعل کی ضمیر دیتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ اس کو کہ وہ میرا فاعل بنے مثلاً میں اس میں عمل کروں تو پھر فرماتے ہیں کوئی پھر بھی یہی مسئلہ ہو گا۔ کہ  بلکہ اس کو اور تھوڑا آسان کرتے ہیں۔
کہ اگر آپ اس کو ضمیر دیتے ہیں تو لازم آئے گا اضمار قبل ذکر۔ اب تھوڑا سا دیکھو ناں آغا غور کرو۔ مثلاً ہم جو مثالیں دی ہیں پیچھے، "ضربنی واکرمنی زیدٌ" یعنی ضرب کہتا ہے کہ زید میرا فاعل ہو، اکرمنی کہتا ہے کہ میرا فاعل ہو۔
ٹھیک ہے جی۔ ضربت واکرمت زیداً، ضربت کہتا ہے زید میرا مفعول ہو، اکرمت کہتا ہے کہ وہ میرا مفعول ہو۔ 
ضربنی واکرمت زیداً، ضربنی  کہتا ہے میرا فاعل بنے، اکرمت کہتا ہے کہ میرا مفعول بنے۔ضربت واکرمنی، ضربت کہتا ہے کہ زید میرا مفعول بنے، اکرمنی کہتا ہے کہ میرا فاعل بنے۔ اب تنازع تو ہو گیا ناں یعنی ایک اس کو فاعل بنانا چاہتا ہے اسم ظاہر کو، دوسرا مفعول بنانا چاہتا ہے، الی آخرہ۔ یا پہلا چاہتا ہے دونوں وہ چاہتا ہے میرا فاعل ہو، اس سے مراد یہ ہے۔ ٹھیک ہے جی۔
اب فرماتے ہیں ان تمام صورتوں میں کیا کریں؟
یہ فرماتے ہیں ہمارے نزدیک جائز ہے۔ آپ چاہیں تو پہلے فعل کو عمل دیں یعنی جو کچھ پہلا فعل چاہتا ہے بعد والے اسم ظاہر کو اس کے مطابق آپ، اگر پہلا اسم چاہتا ہے کہ میرا وہ، پہلا فعل چاہتا ہے کہ میرا فاعل ہو تو آپ اس کو فاعل بنائیں اور اگر پہلا چاہتا ہے میرا مفعول ہو تو اس کو مفعول بنائیں۔
 اور یہ بھی جائز ہے کہ نہیں۔ آپ دوسرے فعل کو عمل دیں یعنی دوسرے فعل کے مطابق اس اسم کو کہ دوسرا فعل اگر اس کو اپنا فاعل بنانا چاہتا ہے تو آپ فاعل بنا دیں اور اگر مفعول بنانا چاہتا ہے تو مفعول۔ لیکن مسئلہ ہے ایک اور۔ فراء نحوی کہتا ہے کہ نہ۔
وہ کہتا ہے اگر دونوں فعل بعد والے اسم ظاہر میں تنازع کرتے ہیں، پہلا کہتا ہے کہ نہیں وہ میرا فاعل ہو، دوسرا کہتا ہے میرا فاعل ہو،
اس میں نمبر تین اور دوسرا کیا ہے؟
"وَالثَّالِثَةِ" تیسری صورت کہ پہلا کہتا ہے میرا فاعل بنے، دوسرا کہتا ہے وہ میرا مفعول بنے۔ پھر فرماتے ہیں فراء البتہ کہتا ہے کہ یہاں پر دوسرے کو کیا کریں؟ کہ دوسرے کو عمل دینے میں اس کا اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کیسے؟
کہ اگر ہم اس بعد والے اسم کو جو ان دو فعلوں کے بعد آیا ہے، اگر ہم اس کو دوسرے کا معمول بنائیں گے تو اس کا مطلب ہے پہلے کا فاعل حذف ہو گا۔ حذف عمدۃ کلام ہوتا ہے، فاعل عمدۃ کلام ہوتا ہے۔ اس کا حذف کرنا یہ درست نہیں آئے گا۔ اور اگر ہم اس کو اس فاعل کی ضمیر دیں گے تو نتیجہ آئے گا اضمار قبل ذکر۔ یعنی ضمیر تو وہاں ہوتی ہے جہاں چیز پہلے مذکور ہو، بعد میں ضمیر کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ جو چیز پہلے ذکر ہوئی ہے مراد یہ ہے۔ اب جب ایک چیز پہلے ذکر ہی نہیں ہوئی تو اس کو آپ ضمیر کیسے دیں گے؟ اضمار قبل ذکر یہ بھی درست نہیں ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ خوب یہ ہے ان کا نظریہ۔اور یہ دونوں درست نہیں۔
فرماتے ہیں،
"وَاعْلَمْ أَنَّ فِي جَمِيعِ هَذِهِ الْأَقْسَامِ" یہ جو چار قسمیں ہم نے پیچھے بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں کہ دونوں فعل بعد والے اسم کو اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں یا دونوں اس کو مفعول بنانا چاہتے ہیں یا پہلا چاہتا ہے میرا فاعل ہو، دوسرا چاہتا ہے میرا مفعول ہو یا پہلا چاہتا ہے میرا مفعول ہو، دوسرا چاہتا ہے اسم ہو، تنازع یہی ہو گا ناں دو فعل ہیں ان کا تنازع ہے بعد والے اسم ظاہر میں، پہلا فعل اور دوسرا فعل، ہر فعل چاہتا ہے کہ وہ میرا معمول ہو تاکہ میں اس کو اپنے حساب سے اس میں جو بھی عمل کرنا ہے وہ جا کر عمل کروں۔
فرماتے ہیں "أَنَّ فِي جَمِيعِ هَذِهِ الْأَقْسَامِ" ہمارے نزدیک ان چاروں کی چاروں صورتوں میں "يَجُوزُ إِعْمَالُ الْفِعْلِ الْأَوَّلِ" یہ بھی جائز ہے کہ آپ فعل اول کو عمل دیں یعنی بعد والے اسم کو پہلے فعل کا معمول بنائیں، ہمارے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔ "وَإِعْمَالُ فِعْلِ الثَّانِي" اور یہ بھی جائز ہے کہ دوسرے فعل کو عمل دیں، اعمال یعنی عمل کرنا۔ کیا مطلب؟ یعنی اس بعد والے اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول بنائیں۔
یعنی یہ جو ہم مثال دیتے ہیں "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ"، ضرب کہتا ہے کہ زید میرا فاعل ہو لہذا میں رفع دوں۔ اکرم کہتا ہے کہ نہیں زید میرا فاعل ہو لہذا میں دوں۔ وہ کہتے ہیں جائز ہے کہ آپ زید، ضرب کو اعمال دے کے زید کو اس کا فاعل بنائیں، لہذا اس زید کو رفع ضرب دے اور یہ بھی جائز ہے کہ زید کو اکرم کا فاعل بنائیں اور اس کو "أَكْرَمَنِي زَيْدٌ" لہذا یہ اس کو رفع دے۔
"خِلَافًا لِلْفَرَّاءِ" لیکن امام فراء وہ پہلی اور تیسری صورت میں اختلاف کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے نہ۔ کیا؟ پہلی کون سی تھی؟ کہ جب دونوں اس اسم ظاہر کو اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں۔ تیسری کون سی تھی کہ پہلا فاعل بنانا چاہتا ہے، دوسرا مفعول بنانا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے "خِلَافًا فِي الصُّورَةِ الْأُولَى وَالثَّالِثَةِ" کہ "أَنْ يُعْمَلَ الثَّانِي"۔
وہ اختلاف کرتے ہیں۔ کس بات میں اختلاف کرتے ہیں؟ ان کا اختلاف اس بات میں ہے وہ کہتے ہیں کہ
کہ دوسرا فعل اگر عمل کرے گا تو اس میں اختلاف ہے۔ اختلاف کیا ہے؟ اختلاف یہ ہے۔ اب ذرا توجہ کے ساتھ اس بات کو سمجھئیے۔
وہ یہ فرماتے ہیں۔کہ پہلی اور تیسری، یعنی پہلی میں دونوں فاعل چاہتے ہیں اور تیسری صورت کون سی تھی جو میں نے گزارش کی ہے۔ تیسری یہ تھی کہ پہلا چاہتا ہے میرا فاعل ہو اور دوسرا چاہتا ہے کہ میرا مفعول ہو۔ امام فراء اس میں اختلاف کرتے ہیں کہ دوسرے کو عمل دیا جائے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں۔
کہ اگر پہلی صورت میں اور تیسری صورت میں دوسرے فعل کو عمل دیں تو اس میں ایک خرابی لازم آئے گی بلکہ دو خرابیاں لازم آئیں گی۔ کون سی؟ اب ذرا خرابی غور سے سمجھنا۔ وہ کہتا ہے
فراء کہتا ہے کہ پہلی اور تیسری میں دوسری کو عمل دینے میں خرابی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ کیوں؟ وہ کہتے "وَدَلِيلُهُ لُزُومُ أَحَدِ الْأَمْرَيْنِ"۔
چونکہ اگر ہم پہلی اور تیسری میں، بہت یاد کرنا آرام سے۔ پہلی کون سی تھی کہ دونوں فعل اس کو اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں۔ تیسری کون سی تھی کہ پہلا فعل اس کو فاعل اور دوسرا اس کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے، عمل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے خرابی کیا ہے؟ کیونکہ اگر پہلا اور دوسرا دونوں فاعل بنانا چاہتے ہیں تو خرابی ذرا غور کرنا۔ "إِمَّا حَذْفُ الْفَاعِلِ" یا اس سے لازم آئے گا کہ ہم پہلے فعل کے فاعل کو حذف کریں۔
کہ پہلے فعل کے فاعل کو حذف کر دیں اور اس بعد والے اسم کو دوسرے کا فاعل بنا دیں۔ یا یہ ہو گا۔
"أَوْ إِضْمَارٌ قَبْلَ الذِّكْرِ" بہت توجہ، یا پھر ہم کیا کریں گے؟ کہ ہم، وہ جو بعد والا اسم ہے، اسم بعد میں ہے ہم اس کی اس پہلے فعل کے ساتھ ایک ضمیر کو لے آئیں جو ضمیر اس بعد والے اسم کی طرف پلٹ رہی ہو۔ اس کو کہتے ہیں اضمار قبل ذکر کہ چیز کو بیان نہ کیا گیا ہو، ضمیر پہلے دینا۔ علماء کہتے ہیں اضمار قبل ذکر جائز نہیں ہے۔
ضمیر وہاں دی جاتی ہے جس کا مرجع پہلے سے ذکر کیا جا چکا ہو اور جس کا مرجع ذکر نہ ہو ضمیر کس بات کی دیں گے؟
اور اگر، اب تھوڑی سی آپ توجہ فرمائیں یعنی وہ کیا کہتا ہے؟ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ" میں اگر ہم زید کو اکرم کا فاعل بناتے ہیں تو اب ضرب میں کیا کریں گے؟ یا کہیں گے ضرب کا جو فاعل ہے وہ محذوف ہے۔ ٹھیک ہے جی، فاعل محذوف ہے۔ یا پھر ہم اس میں فاعل کی ضمیر دیں گے۔ ضمیر دیں گے جبکہ ابھی تو اسم پیچھے گزرا نہیں وہ تو آ رہا ہے بعد میں، یہ ہوتا ہے اضمار قبل ذکر۔ "كِلَاهُمَا مَحْظُورَانِ" یہ دونوں درست نہیں ہیں۔ یعنی کیا مطلب؟ کہ چیز کا ذکر نہ ہوا ہو اور ضمیر اس کی پہلے آ جائے، یعنی مرجع ذکر نہیں ہے، ضمیر پہلے آ جائے اس کو کہتے ہیں اضمار قبل ذکر۔ یہ بھی درست نہیں ہے۔ اور فاعل کو حذف کر دیں، فاعل عمدۃ کلام ہے، عمدۃ کلام کو حذف کرنا یہ بھی درست نہیں ہے۔
ٹھیک ہے جی۔ لہذا ان کا نظریہ یہ ہے۔
فَرّاء اور دیگر نحات کا اختلاف
آگے فرماتے ہیں۔ "هَذَا فِي الْجَوَازِ"۔ کیا مطلب؟ یعنی یہ اختلاف ہے فَرّاء اور دیگر نحات کے درمیان۔ فَرّاء نحوی کہتا ہے کہ پہلی اور تیسری میں اگر دوسرے کو آپ عمل دیں گے تو دو خرابیاں لازم آتی ہیں۔ یا لازم آئے گا فاعل کا حذف کرنا، فاعل عمدہ ہے کلام ہے، اس کا حذف کرنا درست نہیں اور اگر آپ اس کو ضمیر دیں گے تو لازم آئے گا "اِضْمَارٌ قَبْلَ الذِّكْرِ" اور یہ بھی جائز نہیں۔ جبکہ دیگر نحات کہتے ہیں نہیں نہیں آپ کی مرضی چاہے تو اس اس کو پہلے فعل کا معمول بنائیں، چاہے تو اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا مفعول بنائیں۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ ختم۔ یہ بات یہاں پہ ختم ہو گئی۔
اختیار کی صورت میں بصریوں اور کوفیوں کا اختلاف
آگے فرماتے ہیں "وَ أَمَّا الِاخْتِيَارُ" اب واپس آ گئے۔ یعنی وہ نحات جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں آپ کو اختیار ہے۔ آپ چاہیں تو بعد والے اسم ظاہر کو پہلے فعل کا معمول قرار دیں، یعنی اس کا عامل پہلا ہو اور چاہیں تو بعد والے کو، اور دوسرے فعل کو عمل دیں اور وہ اسم ظاہر دوسرے فعل کا معمول ہو۔ اب جائز تو ہے لیکن جائز کے بعد اب بحث یہ آئے گی کہ بہتر کیا ہے؟ بہتر کیا ہے؟ جو جواز کے قائل ہیں ان میں پھر بصریوں اور کوفیوں کا اختلاف ہے۔ اچھا، کیسے؟ "أَمَّا الِاخْتِيَارُ" یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ چاہے بعد والے اسم کو پہلے فعل کا معمول بنائیں، چاہے دوسرے کا بنائیں، کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بہتر کیا ہے؟ اب اس میں پھر اختلاف ہے۔ "فَفِيهِ خِلَافٌ" یعنی اس جواز میں اختیار کیا کیا جائے، یعنی اولیٰ کیا ہے؟ بہتر کیا ہے؟ کہ ہم آیا اس بعد والے اسم کو پہلے فعل کا معمول بنائیں یا دوسرے کا؟ اب اس میں اختلاف ہے۔ "فَفِيهِ خِلَافُ الْبَصْرِيِّينَ" بصریوں کا اختلاف ہے۔ اچھا، وہ کیا کہتے ہیں؟ "فَإِنَّهُمْ يَخْتَارُونَ إِعْمَالَ الْفِعْلِ الثَّانِي اعْتِبَارًا لِلْقُرْبِ وَالْجِوَارِ" بصری کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے، اولیٰ یہ ہے کہ ہم اس میں دوسرے فعل کو عمل دیں، یعنی بعد والے اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول قرار دیں۔ کیوں جی؟ دلیل؟ دلیلیں ہیں ان کے پاس۔
 بصریوں کی دلیل
"اعْتِبَارًا لِلْقُرْبِ وَالْجِوَارِ" چونکہ وہ اسم اس دوسرے فعل کے قریب ہے۔ اس دوسرے فعل کے قریب ہے۔ ذرا غور کرنا آغا۔ مثال کیا تھی؟ ضربنی و اکرمنی زیدٌ۔ اب زید اکرمَ کے قریب ہے اور ہم کیا کہتے ہیں؟ کہ "الْحَقُّ لِلْقَرِيبِ" کہ پہلے جو قریب ہے، پہلے جوار، بعد میں پڑوسی پہلے ہوتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں چونکہ اس کے قریب ہے لہذا اس کو ہی دینا چاہیے۔ ٹھیک ہے جی۔ قرآن مجید میں بھی اس کی مثال ہے۔ آیت مجیدہ ہے "هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ"۔ ھاؤم اور اقرءوا کا نزاع ہے کتابیہ میں، تو کتابیہ کو اقرءوا کا مفعول قرار دیا گیا ہے۔ خب۔ بہرحال۔ وہ یہ کہتے ہیں۔
کوفیوں کا نظریہ اور ان کی دلیل
"وَالْكُوفِيُّونَ"۔ کوفی کیا کہتے ہیں؟ یعنی بصریوں کی دلیل کیا ہوگئی؟ وہ کہتے ہیں چونکہ یہ اسم دوسرے فعل کے قریب ہے، چونکہ اس کا پڑوسی ہے تو "الْحَقُّ لِلْقَرِيبِ"۔ جو قریبی ہوتا ہے اس کا پہلے حق ہے، بعد میں بعید والا ہوتا ہے لہذا اس کو دینا چاہیے۔ خب۔ قرآن مجید میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ اچھا۔ ایک اور دلیل بھی ان کی ہے کہ اگر ہم یہ کریں گے تو پھر پہلے کو اگر معمول، پہلا کا، پہلے فعل کا معمول بنائیں گے تو درمیان میں یہ دوسرا فعل آئے گا، وہ اجنبی کا فاصلہ آ جائے گا اور وہ درست نہیں ہے۔ خب۔ یہ ہو گیا ان کا نظریہ۔ "وَالْكُوفِيُّونَ"۔ کوفی کہتے ہیں کہ نہیں۔ "يَخْتَارُونَ إِعْمَالَ الْفِعْلِ الْأَوَّلِ"۔ کوفی اختیار کرتے ہیں فعل اول کے اعمال کو یعنی کوفی نحات کوفہ کا نظریہ یہ ہے کہ اگرچہ جائز ہے آپ اس اسم ظاہر کو دوسرے فعل کا معمول بنا سکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے، اولیٰ یہ ہے، ہمارے نزدیک، کیا؟ کہ اس کو پہلے فعل کا معمول بنائیں۔ وجہ؟ "مُرَاعَاةً لِلتَّقْدِيمِ وَالِاسْتِحْقَاقِ"۔ وہ کہتے ہیں جو پہلے آیا ہے اس کا حق، "الْحَقُّ لِلسَّابِقِ"۔ جو پہلے ہوتا ہے اس کا حق بھی... بھائی وہ پہلے آیا ہے، دوسرا بعد میں آیا ہے تو جو پہلے آیا ہے پہلے کا جو حق ہے وہ اس کو دے دو، بعد والے کے بارے میں دیکھا جائے گا۔ تو آپ فرماتے ہیں یہاں پر یہی ہے کہ ضربنی و اکرمنی۔ اب ضربنی میں ضربَ پہلے آیا ہے، اکرمَ بعد میں آیا ہے، پہلے آپ ضربَ کا کھاتا پورا کر لیں بعد میں اکرمَ کا کریں گے تو لہذا زید کو ضربَ کا فاعل بنایا جائے۔ یہ ہے ان کا نظریہ۔