درس الهدایة في النحو

درس نمبر 10: بحث تنازع فعلان 1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

"إِذَا تَنَازَعَ الْفِعْلَانِ فِي اسْمٍ ظَاهِرٍ بَعْدَهُمَا أَيْ أَرَادَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الْفِعْلَيْنِ أَنْ يَعْمَلَا فِي ذَلِكَ الْاسْمِ"

3

تنازع فعلین کا مقدمہ

 تنازع کو سمجھنے کے     لیے تمہید

ایک چیز پہلے ذہن میں بٹھا لیں پھر اس درس جو آج یہاں سے شروع ہو رہا ہے یہ سمجھ آئے گی۔ نحو میں ایک مشہور بحث ہے، وہ بحث ہے تنازعِ فعلین کہ دو فعلوں کا آپس میں تنازع ہو۔ بحث شروع کرنے سے پہلے گزشتہ درس والی تین چار باتوں کو ذہن میں دہرا لیں پھر آج کی بات سمجھ میں آئے گی۔ اس میں یہ تھا، انہوں نے کہا تھا ہر فعل کے لیے فاعلِ مرفوع کا ہونا لازم ہے کہ ہر فعل کے لیے ایک فاعلِ مرفوع کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہم کیا نکالیں گے؟ یعنی جہاں بھی کوئی فعل موجود ہوگا اس کے بعد فاعل ضرور ہوگا۔ اب وہ فاعل اسمِ ظاہر ہو یا ضمیر ہو وہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن فاعل کے بغیر فعل ہوتا نہیں ہے۔ یہ بھی گزشتہ درس کی بات ہے۔ اسی میں ایک بات انہوں نے یہ فرمائی تھی کہ اگر فعل متعدی ہوگا تو اس کے لیے ایک مفعول بہ کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی فاعل کے لیے لازم متعدی فرق کوئی نہیں ہے، فعل لازم کو بھی فاعل کی ضرورت ہے، فعل متعدی کو بھی فاعل کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ فعل ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوں؟ چونکہ فعل کا قیام فاعل کے ذریعے، فاعل نہیں تو فعل بھی نہیں۔ اور اگر فعل متعدی ہے تو اس کو ایک مفعول بہ اس کے لیے ضروری ہے۔ اگر مفعول بہ نہیں تو پھر فعل متعدی کیسے ہو گیا؟ اب یہ دو باتیں بار بار ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں آج کا درس پھر سمجھ آئے گا آپ کو۔ کہ ہر فعل یہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے ایک فاعل ہو اور اگر وہ فعل متعدی ہوگا تو فاعل کے ساتھ ساتھ مفعول بہ بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لیں اچھی طرح۔ آج کا درس یہاں سے شروع ہوگا۔

 تنازع کا مفہوم اور اس کی شرائط

اگر کوئی ایسا موقع آ جائے کہ فعل دو ہوں اور ان کے بعد اسم ایک ہو۔ فعل دو ہیں لیکن بعد میں اسم ایک ہے، اگر کوئی ایسی صورتحال آ جائے اس بحث کا نام رکھا جاتا ہے تنازعِ فعلین یا فعلان کہ دو فعل اس اسم میں نزاع کریں گے، کیا؟ پہلا فعل کہے گا کہ اس اسم میں میں عمل کرتا ہوں۔ دوسرا فعل کہے گا کہ اس اسم میں میں عمل کرتا ہوں۔ چونکہ اسم تو بعد میں ایک ہے، اس لیے کہ دو جب فعل ہیں تو ہر فعل کو فاعل یا مفعول چاہیے، پہلے کو بھی، دوسرے کو بھی۔ جبکہ بعد میں اسم ہمارے پاس فقط ایک ہے۔ اب تنازع کس بات کا ہے کہ پہلا چاہے گا کہ میں اس میں جا کر عمل کروں اور دوسرا کہے گا کہ میں اس میں جا کر عمل کروں۔ یہ بڑی مشہور بحث ہے تنازعِ فعلان کی۔ اصل ہدایت النحو میں یہ ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جیسے میں پہلے بھی کہتا رہتا ہوں بعض لوگ شاید ناراض بھی ہو جائیں۔ کہ آج کل شارٹ کٹ کا دور آ گیا ہے۔ ایک یہی ہدایت النحو میں نے دیکھی کراچی سے چھپی ہے، ہمارے لوگوں نے چھاپی ہے۔ تو انہوں نے اصلا اس پوری فصل کو ہی اس سے اڑا دیا۔ اس بحث کو لکھا ہی نہیں ہے۔ چونکہ تھوڑی سی دقیق تھی، محنت طلب تھی۔ اب ان کے متخصصین نے بظاہر ہے وہ ماہر ہوں گے ہماری نسبت، انہوں نے جو بہتر سمجھا ہوگا انہوں نے سرے سے اس فصل کو ہی نکال دیا، اس بحث کو اس میں لکھا ہی نہیں ہے، کراچی سے چھپی ہے۔ البتہ میرا اپنا جو نظریہ ہے وہ یہ ہے نہیں کہ اگر مصنف نے ایک بات لکھی ہے تو آپ اس کو لکھیں ضرور، اس کو تحریر ضرور کریں، یہ طریقہ نہیں کہ جو جگہ تھوڑی سی دقیق جگہ ہے بندہ اس کو نکال کے دے دے اور باقی آسان آسان کو آگے لے کر چلتا رہے۔ بہرحال۔ لیکن چونکہ اصل کتاب میں ہے اور ہم نے الحمدللہ اپنے اساتذہ گرامی سے اس بحث کو پڑھا بھی ہے اور ہم اس کو کوشش کریں گے کہ اب دوبارہ پڑھیں بھی سہی اور حل بھی کریں۔ خوب۔ اب آپ کے ذہن میں تھوڑی سی یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی۔ کہ بحث کا موضوع کیا ہے۔ اب پچھلے اور اس کو ملائیں گے تو موضوع کلیئر ہو جائے گا۔ پچھلی بحث کون سی؟ ہر فعل کے لیے ایک فاعل چاہیے۔ ہر فعل متعدی کو ایک مفعول بہ چاہیے۔ یہ بات بھی پیچھے گزر چکی۔ یہ بات بھی پیچھے گزر چکی عوامل میں وہ پیچھے یاد ہوگا ہم نے کہا تھا کہ فعل، فاعل کو رفع دیتا ہے اور مفعول کو اور فعل متعدی مفعول کو، فاعل کے رفع کے ساتھ مفعول کو نصب بھی دیتا ہے۔ چونکہ فعل عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ اب اگر کوئی ایسی صورت آ جائے کہ جہاں فعل یکے بعد دیگرے دو آ جائیں لیکن بعد میں اسم فقط ایک ہو۔ تو اب ظاہر ہے پہلا فعل کہے گا کہ اس اسم میں میں جا کے عمل کروں چونکہ میں عامل ہوں اور دوسرا فعل کہے گا کہ نہیں اس اسم میں میں عمل کروں چونکہ میں بھی فعل ہوں میں بھی عامل ہوں۔ اس کو کہتے ہیں تنازعِ فعلان یعنی دو فعل کا آپس میں نزاع ہوگا، تنازع ہوگا کس بات میں؟ بعد والے ایک اسم میں کہ جس کو وہ جس میں اس نے عمل کرنا ہے۔ یعنی پہلا کہے گا میں کروں اور دوسرا کہے گا کہ میں عمل کروں۔ اب تھوڑی سی آغا جان اس میں مہربانی کرنا دو تین چیزیں یاد رکھنا۔ نمبر ایک: نزاع کب ہوگا؟ جب عامل کم از کم دو ہوں۔ چونکہ ظاہر ہے ایک عامل تو کسی سے جھگڑا کرے گا ہی نہیں۔ نمبر دو: جس میں نزاع کرنا ہے وہ اسمِ ظاہر ہو۔ کیوں؟ ضمیر نہ ہو بلکہ اسمِ ظاہر ہو۔ چونکہ اسمِ ظاہر کو انہوں نے جا کر اور رفع دینا ہے یا نصب دینا ہے نہ کہ ضمیر کو۔ تو اسمِ ظاہر ہو، دو باتیں ہوگئیں۔ نمبر تین: وہ اسمِ ظاہر ان تینوں کے، ان دونوں عاملوں کے بعد ہو۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس بحث میں تین شرائط ہیں کہ تنازعِ فعلان کب ہوگا؟ نمبر ایک عامل دو ہونے چاہیں۔ نمبر تین بعد میں بھی اسمِ ظاہر ہو، ضمیر نہ ہو۔ نمبر دو یہ ہوگیا اور نمبر تین وہ اسم ظاہر ہو بھی ان دونوں کے بعد ہو۔ تنازع کس بات میں ہوگا؟ کہ پہلا فعل کہے گا میں اس میں عمل کرتا ہوں، دوسرا کہے گا میں اس میں عمل کرتا ہوں۔ ٹھیک ہے جی؟ آسان۔ خوب۔ کوئی کہے کہ جناب تنازع تو ہوتا ہے ذی روح میں۔ دو انسان آپس میں تنازع کرتے ہیں یہ میری زمین ہے وہ کہتا ہے میری زمین ہے۔ یا تو وہ جانور جو دیگر ہیں غیر انسان وہ آپس میں جہادہ کرتے ہیں یہ فعل یہ تو لفظ ہیں انہوں نے کیا تنازع کرنا ہے؟ فرماتے ہیں ان کے تنازع سے مراد یہی ہے۔ ان کے تنازع کا مطلب یہ ہے کہ پہلا فعل کہے گا اس اسم میں جا کر میں عمل کروں، میں اپنے تقاضے کے مطابق اس کو جو اعراب دینا ہے وہ جا کر دوں اور دوسرا فعل کہتا ہے نہیں نہیں اس میں میں عمل کروں گا۔ اس تنازع سے مراد یہ ہے۔

 تنازع فعلان کا تعارف

دیتا ہے، چونکہ فعل عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ اب اگر کوئی ایسی صورت آ جائے کہ جہاں فعل یکے بعد دیگرے دو آ جائیں لیکن بعد میں اسم فقط ایک ہو۔ تو اب ظاہر ہے پہلا فعل کہے گا کہ اس اسم میں میں جا کے عمل کروں چونکہ میں عامل ہوں اور دوسرا فعل کہے گا کہ نہیں اس اسم میں میں عمل کروں چونکہ میں بھی فعل ہوں، میں بھی عامل ہوں۔ اس کو کہتے ہیں تنازع فعلان یعنی دو فعل کا آپس میں نزاع ہوگا، تنازع ہوگا کس بات میں؟ بعد والے ایک اسم میں کہ جس کو وہ جس میں اس نے عمل کرنا ہے یعنی پہلا   کہے گا میں کروں اور دوسرا کہے گا کہ میں عمل کروں۔ اب تھوڑی سی آغا جان اس میں مہربانی کرنا دو تین چیزیں یاد رکھنا۔

4

تنازع کی شرائط اور اس کی چار صورتیں

نمبر ایک نزاع کب ہوگا؟ جب عامل کم از کم دو ہوں۔ چونکہ ظاہر ہے ایک عامل تو کسی سے جھگڑا کرے گا ہی نہیں۔ نمبر دو جس میں نزاع کرنا ہے وہ اسم ظاہر ہو۔ کیوں؟ ضمیر نہ ہو بلکہ اسم ظاہر ہو، چونکہ اسم ظاہر کو انہوں نے جا کر اور رفع دینا ہے یا نصب دینا ہے نہ کہ ضمیر کو، تو اسم ظاہر ہو، دو باتیں ہو گئیں۔ نمبر تین وہ اسم ظاہر ان تینوں کے، ان دونوں عاملوں کے بعد ہو۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس بحث میں تین شرائط ہیں کہ تنازع فعلان کب ہوگا؟ نمبر ایک عامل دو ہونے چاہئیں۔ نمبر تین بعد میں بھی اسم ظاہر ہو ضمیر نہ ہو۔ نمبر دو یہ ہو گیا اور نمبر تین وہ اسم ظاہر ان دونوں کے بعد ہو۔ تنازع کس بات میں ہوگا؟ کہ پہلا فعل کہے گا میں اس میں عمل کرتا ہوں، دوسرا کہے گا میں اس میں عمل کرتا ہوں۔ ٹھیک ہے جی۔ آسان۔ خوب۔

 تنازع کا مفہوم

کوئی کہے کہ جناب تنازع تو ہوتا ہے ذی روح میں، دو انسان آپس میں تنازع کرتے ہیں یہ میری زمین ہے وہ کہتا ہے میری زمین ہے یا تو اور جانور جو دیگر ہیں غیر انسان وہ آپس میں جھگڑا کرتے ہیں یہ فعل یہ تو لفظ ہیں انہوں نے کیا تنازع کرنا ہے؟ فرماتے ہیں ان کے تنازع سے مراد یہی ہے ان کے تنازع کا مطلب یہ ہے کہ پہلا فعل کہے گا اس اسم میں جا کر میں عمل کروں، میں اپنے تقاضے کے مطابق اس کو جو اعراب دینا ہے وہ جا کر دوں اور دوسرا فعل کہتا ہے نہیں نہیں اس میں میں عمل کروں گا۔ اس تنازع سے مراد یہ ہے۔

 تنازع کی چار صورتیں

خوب یہ بات یہاں ختم ہو گئی۔ اب ذرا توجہ کرنا اس کو پہلے سن لیں پھر اگلی بحث ہم انشاءاللہ اس کو حل بعد میں کریں گے۔ وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے۔ یہ جو دو فعل ہیں تنازع فعلان یہ دو فعل اس بعد والے ایک اسم میں کیسا تنازع کریں گے؟ یعنی ان کے درمیان جو تنازع ہے وہ کس بات پر ہوگا؟ نمبر ایک فرماتے ہیں چار صورتیں اس کی بنتی ہیں تنازع کی۔ بالکل آسان۔ مثلاً ایک صورت یہ بنتی ہے کہ پہلا فعل کہے گا کہ وہ بعد والا اسم میرا فاعل بنے، دوسرا فعل کہے گا نہ نہ وہ بعد والا اسم میرا فاعل بنے۔ مثال "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ"۔ بہت توجہ جو میں نے تین چیزیں بیان کی تھیں اب وہ تینوں اس میں موجود ہیں۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي"، "ضَرَبَ" اور "أَكْرَمَ" دو عامل ہیں۔ زید اسم ظاہر ہے۔ تیسری ہے بھی دونوں کے بعد۔ اب "ضَرَبَنِي" کہتا ہے کہ زید میرا فاعل ہے لہٰذا میں جا کر رفع دوں، "أَكْرَمَ" کہتا ہے کہ نہیں یہ میرا فاعل بنے تاکہ میں اس کو جا کر رفع دوں۔ پہلی قسم۔ نمبر دو۔ پہلا فعل کہتا ہے کہ نہیں وہ میرا مفعول ہے لہٰذا میں نصب دوں گا۔ دوسرا فعل کہتا ہے نہیں وہ میرا مفعول ہے تاکہ میں اس کو نصب دوں جیسے "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا"۔ "ضَرَبْتُ" کہتا ہے کہ زید میرا مفعول بنے تاکہ اس کو نصب میں دوں، "أَكْرَمْتُ" کہتا ہے کہ وہ میرا مفعول ہو تاکہ اس کو نصب میں دوں۔ تیسری قسم۔ پہلا فعل کہتا ہے کہ وہ بعد والا اسم میرا فاعل بنے تاکہ میں اس کو رفع دوں اور دوسرا فعل کہتا ہے نہیں وہ بعد والا اسم میرا مفعول ہے اور میں اس کو نصب دوں گا۔ مثلاً "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ" بعد میں ہے زید تو "ضَرَبَ" کہے گا کہ اس کو "زَيْدٌ" پڑھو تاکہ میرا فاعل ہو اور "أَكْرَمْتُ" کہے گا نہیں نہیں اس کو نصب پڑھنا ہے "زَيْدًا" یہ میرا مفعول ہے۔ اور چوتھی قسم اس کی الٹ ہو جائے گی کہ پہلا فعل کہے گا کہ بعد والا اسم میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو نصب دوں گا اور دوسرا کہے گا نہیں بعد والا میرا فاعل ہے میں اس کو رفع دوں گا جیسے "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَنِي"۔ اب "ضَرَبْتُ" کہے گا کہ زید میرا مفعول ہے لہٰذا اس کو "زَيْدًا" پڑھا جائے اور "أَكْرَمَنِي" میں "أَكْرَمَ" کہے گا نہیں نہیں وہ میرا فاعل ہے لہٰذا اس کو "زَيْدٌ" پڑھا جائے۔

 تنازع کی اقسام کا خلاصہ

ٹھیک ہے جی۔ یہ چار قسمیں ہیں کہ دو فعل آپس میں تنازع کرتے ہیں کس بات پر؟ کہ وہ بعد والا جو ایک اسم ظاہر ہے وہ اسم ظاہر کس کا معمول بنے۔ یعنی ان دونوں کا ہے کہ ہر ایک ان میں سے اس میں عمل کرنا چاہتا ہے چونکہ ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ فعل عامل ہوتا ہے جو فاعل کو رفع دیتا ہے اور مفعول بہ کو نصب دیتا ہے۔ بعد میں اسم ظاہر فقط ایک ہے، پہلا فعل کہتا ہے کہ میں اس میں عمل کروں اور دوسرا کہتا ہے اس میں میں عمل کروں۔ خوب۔ اب ہم نے کرنا کیا ہے؟ انشاءاللہ وہ اگلی بحث ہے۔

5

تنازع کی تعریف،شرائط اور اقسام

 "فَصْلٌ" فرماتے ہیں "إِذَا تَنَازَعَ الْفِعْلَانِ" جب دو فعل آپس میں تنازع کریں "فِي اسْمٍ ظَاهِرٍ" ایک اسم ظاہر میں "بَعْدَهُمَا" جو ان دونوں کے بعد ہو۔ توجہ میری جان اب یہاں پر اصل میں گویا کہ آپ کہیں گے تنازع کی، تنازع کی تین شرائط ہیں۔ نمبر ایک انہوں نے کہا ہے نا "فِعْلَانِ" کہ عامل دو ہونے چاہئیں۔ نمبر دو بعد میں بھی وہ اسم بھی جس میں تنازع ہے وہ اسم ظاہر ہو ضمیر نہ ہو۔ نمبر تین وہ اسم ظاہر ہو بھی ان دونوں عاملوں کے بعد۔ تنازع سے مراد کیا ہے؟ آپ کہیں گے تنازع تو ہوتا ہے جاندار میں کہ دو بندے آپس میں لڑ پڑتے ہیں جانور لڑ پڑتے ہیں ان کا تنازع ہے نزاع ہے۔ فرماتے ہیں "أَيْ أَرَادَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الْفِعْلَيْنِ" اس تنازع سے مراد کیا ہے؟ یعنی وہ جو دو فعل اکٹھے آئے ہیں ان میں سے ہر فعل یہ چاہتا ہے "أَنْ يَعْمَلَ فِي ذٰلِكَ الِاسْمِ" کہ وہ جا کر اس اسم میں عمل کرے۔ چونکہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ جو فعل ہوتا ہے وہ عامل ہوتا ہے تو ظاہر ہے پہلا بھی فعل ہے دوسرا بھی فعل ہے تو پہلا کہے گا میں چونکہ عامل ہوں میں اس کو جا کر جو حرکت دینی ہے دوں، دوسرا کہے گا کہ نہیں، مراد یہ ہے تنازع فعلین سے کہ دو اس میں عمل کرنے میں آپس میں جھگڑا کریں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔

 متن کی تشریح: تنازع کی چار اقسام

آگے فرماتے ہیں۔ "فَهٰذَا إِنَّمَا يَكُونُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَقْسَامٍ"۔ بہت غور کے ساتھ آغا۔ بہت غور کے ساتھ۔ یہ تنازع، یہ جو دو فعل آپس میں جھگڑا کریں گے، دو عامل جھگڑا کریں گے، ایک کہتا ہے کہ میں اس اسم ظاہر میں عمل کروں، دوسرا کہتا ہے میں، "يَكُونُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَقْسَامٍ" یہ تنازع چار اقسام پر ہے یعنی چار قسم کی، قسم میں اس کی بن سکتی ہیں تنازع کی، کیسے۔

 متن کی تشریح: پہلی قسم - فاعلیت میں تنازع

"الْأَوَّلُ" پہلی، بہت غور سے۔ "أَنْ يَتَنَازَعَا فِي الْفَاعِلِيَّةِ" کہ یہ دونوں فعل، یہ دونوں عامل اس میں اس کے اسم، اس اسم ظاہر میں فاعلیت میں تنازع کریں۔ فاعلیت سے مراد کیا ہے؟ یعنی پہلا کہتا ہے کہ وہ میرا فاعل ہے لہٰذا میں رفع دوں گا، دوسرا کہتا ہے کہ نہیں وہ میرا فاعل ہے اس کو میں رفع دوں گا۔ فقط فاعلیت میں تنازع ہے۔ جیسے "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ"۔ "ضَرَبَ" کہتا ہے کہ زید میرا فاعل ہے، لہٰذا میں اس کو عمل کروں گا جا کے رفع دوں گا۔ "أَكْرَمَ" کہتا ہے کہ نہیں زید میرا فاعل ہے لہٰذا میں اس کو جا کر رفع دوں گا۔ یعنی "ضَرَبَ" اور "أَكْرَمَ" کا نزاع ہے، جھگڑا ہے کس میں؟ اس اسم ظاہر زید میں کہ "ضَرَبَ" کہتا ہے کہ وہ میرا فاعل ہے، "أَكْرَمَ" کہتا ہے میرا فاعل ہے، "ضَرَبَ" کہتا ہے میں رفع دوں گا، "أَكْرَمَ" کہتا ہے میں رفع دوں گا۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ آسان۔ اب آگے۔

 متن کی تشریح: دوسری قسم - مفعولیت میں تنازع

"الثَّانِي" دوسری صورت وہ یہ ہے۔ "أَنْ يَتَنَازَعَا فِي الْمَفْعُولِيَّةِ فَقَطْ" کہ یہ دونوں فعل تنازع کریں اس اسم ظاہر کی مفعولیت میں۔ کیا مطلب؟ یعنی پہلا فعل یہ کہے، کہتا ہے کہ وہ میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو رفع، نصب دوں گا اور دوسرا فعل کہتا ہے کہ نہیں وہ میرا مفعول ہے لہٰذا میں عمل کروں گا اور میں اس کو جا کر نصب دوں گا۔ جیسے مثال "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا"۔ اب پڑھنا تو "زَيْدًا" ہے لیکن "ضَرَبْتُ" کہتا ہے کہ زید میرا مفعول ہے لہٰذا اس کو نصب میں نے دینا ہے، "أَكْرَمْتُ" کہتا ہے کہ نہیں زید میرا مفعول ہے لہٰذا اس کو نصب میں نے دینا ہے۔ نزاع ہے؟ دو ہو گئے۔

 متن کی تشریح: تیسری قسم - فاعلیت اور مفعولیت میں تنازع

نمبر تین "الثَّالِثُ" تیسری صورت نزاع کی کیا ہے؟ "أَنْ يَتَنَازَعَا فِي الْفَاعِلِيَّةِ وَالْمَفْعُولِيَّةِ" کہ یہ دو فعل اس اسم ظاہر میں نزاع کریں فاعلیت اور مفعولیت میں۔ کیا مطلب؟ یعنی ایک فعل کہتا ہے کہ وہ میرا فاعل ہے لہٰذا میں اس کو رفع دوں گا۔ دوسرا فعل کہتا ہے نہیں وہ میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو نصب دوں گا۔ خوب۔ مثلاً "يَقْتَضِي الْأَوَّلُ الْفَاعِلَ وَالثَّانِي الْمَفْعُولَ"۔ یعنی فعل اول تقاضا کرتا ہے فاعل کو یعنی فعل اول کہتا ہے کہ بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل ہے لہٰذا میں اس کو رفع دوں گا، جبکہ دوسرا فعل وہ کہتا ہے "الْمَفْعُولَ" نہ، وہ بعد والا اسم ظاہر میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو نصب دوں گا۔ جیسے مثال یوں بن سکتی ہے۔ "ضَرَبَنِي وَأَكْرَمْتُ زَيْدًا"۔ اب یہاں پر "ضَرَبَنِي" میں "ضَرَبَ" کہتا ہے کہ زید میرا فاعل ہے لہٰذا اس کو "زَيْدٌ" پڑھا جائے میں اس کو رفع دوں گا اور "أَكْرَمْتُ" یہ کہتا ہے کہ نہیں یہ اسم ظاہر، اسم ظاہر زید میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو نصب دوں گا اور اس کو "زَيْدًا" پڑھیں گے۔

متن کی تشریح: چوتھی قسم اور اختتام

تین صورتیں ہو گئیں۔ "وَالرَّابِعُ عَكْسُهُ" اور چوتھی صورت اسی تیسری کا الٹ ہے۔ مثلاً پہلا فعل تقاضا کرتا ہے کہ بعد والا اسم میرا مفعول ہے لہٰذا میں اس کو نصب دوں گا اور دوسرا فعل کہتا ہے کہ نہیں بعد والا اسم ظاہر میرا فاعل ہے لہٰذا میں اس کو رفع دوں گا۔ جیسے مثال یہ ہے "ضَرَبْتُ وَأَكْرَمَنِي زَيْدٌ"۔ اب "ضَرَبْتُ" کہتا ہے کہ زید اسم ظاہر میرا مفعول ہے لہٰذا اس کو "زَيْدًا" پڑھیں گے اس لیے کہ میں نے اس کو نصب دینا ہے اور "أَكْرَمَنِي" کہتا ہے کہ نہیں یہ زید اسم ظاہر میرا فاعل ہے لہٰذا میں اس کو رفع دوں گا۔ تو پس تنازع فعلان جو مشہور بحث ہے میں نے گزارش کر دی کہ یہ تنازع فعلین چار قسموں پر ہے۔ اب ان چار قسموں کا حکم کیا ہے؟ اب تنازع تو ہمیں سمجھ میں آ گیا۔ اب کرنا کیا ہے؟ دونوں کو دینا ہے، کسی ایک کو دینا ہے، کیا کرنا ہے؟ اس کو ان شاءاللہ ا   گلے درس میں حل کرتے ہیں۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ تقول : قامَ الرّجالُ ، قامَتِْ الرّجالُ. ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس نحو : ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ.

ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين ، أو غير مقصورين إن لم تخف اللبس نحو : أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ ، وضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ.

ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة نحو : زَيْدٌ ، في جواب من قال : مَنْ ضَرَبَ ؟ وكذا حذف الفاعل والفعل معاً كنَعَمْ في جواب من قال : أَقامَ زَيْدٌ ؟ وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً وهو القسم الثاني من المرفوعات.

القسم الثاني : مفعول ما لم يسمّ فاعله

وهو كلّ مفعول حذف فاعله واُقيم المفعول مقامه نحو : ضُربَ زَيْدٌ ، وحكمه في توحيد فعله وتثنيته وجمعه ، وتذكيره وتأنيثه ، على قياس ما عرفت في الفاعل.

القسم الثالث والرابع : المبتدأ والخبر

وهما اسمان مجرّدان عن العوامل اللّفظية ، أحدهما : مسند إليه ويسمّى المبتدأ ، والثاني : مسند به ويسمّى الخبر نحو : زَيْدٌ قائِمٌ.

والعامل فيهما معنويّ هو الابتداء.

وأصل المبتدأ أن يكون معرفة ، وأصل الخبر أن يكون نكرة. والنكرة إذا وصفت جاز أن تقع مبتدأ نحو قوله تعالى : ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن