ہر فعل کے لئے ایک فاعل کا ہو نا ضروری ہے۔اب یہ فاعل کبھی مذکر ہوگا کبھی مؤنث  ہوگا۔مؤنث کبھی حقیقی ہوتا ہے کبھی غیر حقیقی۔اسی طرح فاعل کبھی واحد ہوگا کبھی کبھی تثنیہ اور جمع ہوگا۔ جب فاعل مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ہر فعل کو ایک فاعل چاہیےاب اس فعل کو کس طرح لایا جائے۔ آیافاعل مذکر اور مؤنث کے لئے ایک قسم کے فعل کو لانا چاہیے یا نہ ؟جیسا فاعل ہوگا فعل کو بھی اسی کے مطابق لانا چاہیے؟
فرماتے ہیں:"فإن كان الفاعل مظهراً وُحِّدَ الفعل أبداً"اگر فاعل اسم ظاہر ہوگا فعل کو ہمیشہ مفرد  لایاجائے گا۔فاعل چاہے مفرد ہو یا  تثنیہ یا جمع ہو ۔ہر حالت میں فعل کو مفرد لایا جائے گا۔ جیسے "ضَرَبَ زَيْدٌ"  زید مفرد ہے اور"ضَرَبَ الزَّيْدانِ"ضرب مفرد ہے اگر چہ فاعل تثنیہ ہے، اور"ضَرَبَ الزَّيْدُونَ"زیدون جمع ہے لیکن فعل کو مفرد لایا گیا چونکہ زیدون اسم ظاہر ہے۔
"وإن كان الفاعل مضمراً وُحِّدَ الفعل للفاعل الواحد" لیکن اگر اسم فاعل اسم ظاہر نہ ہو بلکہ ضمیر ہوگا تو اس صورت میں فاعل مفرد کو فعل مفرد لایا جائے گا ۔جیسے "زَيْدٌ ضَرَبَ" فاعل تثنیہ کے لیے فعل تثنیہ جیسے"الزَّيْدانِ ضَرَبا"اور فاعل جمع کے لیےفعل جمع لایا جائے گا۔ جیسے"الزَّيْدُونَ ضَرَبُوا"۔
اب اگر تذکیر و تانیث کے فاعل میں فرق ہوتو اس صورت میں فعل کو کس طرح لایا جائے گا؟
"وإن كان الفاعل مؤنّثاً حقيقيّاً ـ وهو ما يوجد بأزائه ذكر من الحيوانات ـ اُنِّثَ الفعل أبداً"
اگر فاعل مؤنث حقیقی ہو۔سوال کیا ایسا مؤنث بھی ہوتا جو حقیقت میں مؤنث حقیقی  ہو؟ فرماتے ہیں ہاں: جس مؤنث کے مقابل میں کوئی حیوان مذکر ہوگا وہ مؤنث مؤنث حقیقی کہلاتا ہے۔ اور جس مؤنث کے مقابل میں کوئی حیوان مذکر نہ ہو وہ مؤنث غیر حقیقی کہلائے گا۔
تو اس صورت میں"اُنِّثَ الفعل أبداً " فعل کو  ہمیشہ مؤنث لایا جائے گا۔لیکن شرط  یہ ہے کہ اس مؤنث حقیقی اور فعل کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔"إن لم تفصل بين الفعل والفاعل" جیسےقامَتْ هِنْدٌ ہند فاعل مؤنث حقیقی ہے۔
اور اگر ان دونوں میں فاصلہ ہو تو اس صورت میں آپ مخیر ہیں کہ فعل کو مذکر لائیں یا مؤنث لائیں۔"فإن فصّلت فلك الخيار في التذكير والتأنيث" جیسے ضَرَبَ الْيَوْمَ هِنْدٌ کہیں یا ضَرَبَتِ الْيَوْمَ هِنْدٌ کہیں آپ مخیر (آپ کو اختیار) ہیں۔
"وكذلك في المؤنّث الغير الحقيقيّ"اگر فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو تو اس صورت میں وہاں پر بھی آپ کو اختیار ہے کہ  فعل کو مذکر ذکر کریں یا مؤنث۔جیسے طَلَعَتِ الشَّمْسُ  یا آپ یوں پڑھیں طَلَعَ الشَّمْسُ۔"هذا إذا كان الفعل مقدّماً على الفاعل" یہ بات اس وقت جب  فعل   فاعل پر مقدم ہو۔"وأمّا إذا كان متأخّراً اُنّثَ الفعل" لیکن اگر فعل مؤخر ہو فاعل سے تو اس صورت میں فعل کو مؤنث لایا جائے گا۔ جیسے"الشَّمْسُ طَلَعَتْ"۔
" وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ" اگر فاعل جمع مکسر ہو تو اس کا حکم جمع مؤنث غیرحقیقی کی طرح ہے چاہیں اس کا فعل مذکر ذکر کریں اور چاہیں تو مؤنث ذکر کریں۔ جیسے "قامَ الرّجالُ" یا یوں کہیں"قامَتِْ الرّجالُ"۔ رجال جمع مکسر ہے اس لیےفعل دونوں صورت میں پڑھ سکتے ہیں۔
نکتہ:اور فاعل ضمیر ہو  جمع مکسر کے لیے تو اس صورت میں بھی آپ مخیر ہیں کہ فعل کو مذکر لائیں یا مؤنث۔
سوال: کہاں کہاں، پر فاعل کا مفعول پر مقدم کرنا واجب ہے اور کہاں یہ جائز ہے کہ ہم مفعول کو پہلے لائیں اور فاعل کو بعد میں؟
"ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس"فاعل کو مفعول پر مقدم کرنا واجب ہے اگر فاعل اور مفعول دونوں اسم مقصور ہوں اور آپ کو فاعل اور مفعول کو سمجھنے میں التباس(اشتباہ ہونے کا خوف ہو) تو ایسے مقام پر واجب ہے کہ فاعل کو مفعول پر مقدم کیاجائے۔ جیسے ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ۔
"ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين"لیکن اگر یہ دونوں اسم مقصور ہوں اور التباس کا بھی خوف نہ ہوکسی قرینہ کی وجہ سے تو اس صورت میں جایز ہے مفعول کو فاعل پر مقدم کیا جائے۔جیسے"أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ"یا یہ دونوں غیر مقصور ہو اورالتباس کا خوف بھی نہ ہو تو پھر بھی مفعول کو فاعل پر مقدم کرنا جایز ہے ۔جیسے "ضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ"عمرا کا نصب بتا  رہاہے کہ یہ مفعول ہے اور زید کا رفع بتا رہا ہے کہ یہ فاعل ہے۔
"ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة"  اگر کوئی قرینہ موجود ہو توجایز ہے فعل کو حذف کیا جائے ۔جیسے "زَيْدٌ"  کہیں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ  "مَنْ ضَرَبَ"؟
"وكذا حذف الفاعل والفعل معاً" کبھی کبھار فعل اور فاعل دونوں کو حذف کرنا جایز ہے۔ جیسے کوئی  کہے نَعَمْ،اس شخص کے جواب میں جو یہ سوال کرے،"أَقامَ زَيْدٌ" ؟
"وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً"بسا اوقات فاعل کو ذکر نہیں کیاجاتا اور مفعول کو فاعل کا قائم مقام بنایا جاتا ہے۔البتہ یہ وہاں ہوتا ہے جہاں فعل مجہول ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں "ضُربَ زیدُُ"۔