درس الهدایة في النحو

درس نمبر 9: مرفوعات 1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مرفوعات اور کی تعریف

المقصد الأوّل : في المرفوعات

"الأسماء المرفوعة وهي ثمانية أقسام : الفاعل ، والمفعول الّذي لم يُسَمَّ فاعله"
جب بحث شروع کی تھی تو وہاں انہوں نے فرمایا تھا کی اس کتاب میں ایک مقدمہ تین مقاصد اور ایک خاتمہ ہوگا۔مقدمہ میں انہوں نے کچھ چیزیں بیان فرمائی،اسم معرب کسے کہتے ہیں اور معرب کبھی منصرف ہوتاہے کبھی غیر منصرف، پھر اس کے علامات کیا ہیں الی آخرہ۔
اب اس اسم معرب کی بحث میں تین مقاصد ہیں۔ مقصد اول میں بحث ہوگئی ان اسماء کے بارے میں جو ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں مقصد ثانی میں بحث ہوگئی ان اسماء کے بارے میں جو ہمیشہ منصوب ہوتے ہیں، اور مقصد ثالث میں بحث ہوگئی ان اسماء کی جو ہمیشہ مجرو ہوتے ہیں۔
اور خاتمہ میں مشترکہ احکام ہوں گے۔
 مقصد اول: یعنی وہ اسماء جو ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں،ان کو اسماء مرفوعہ کہا جاتا ہے۔
نکتہ: مقصد اگر مصدر میمیی ہوگا تو اس کا معنی ہوگا قصد کرنا اور اگر  ظرف ہوگا تو اس کا  مقام قصد (یہاں مقصد) یعنی مقصود کے معنی  میں ہوگا ۔
مرفوعات کس کی جمع ہے؟ مرفوعات مرفوع کی جمع ہے، ممکن ہے کوئی کہے کہ جناب اگر یہ مرفوع کی جمع ہے تو  پھر اسماء مرفوع ہونا چاہئے  تو یہ مرفوعات کیوں آیا ہے؟
اس لیے کہ  مرفوع غیر ذوالعقول میں سے ہے اور جو چیز غیر ذو العقول میں سے ہو اس کی جمع الف اور تاء کے ساتھ آتی ہے۔ جیسے الایام الخالیات جب کہ مفرد تھا الیوم الخالی اور یہاں آیا ہے خالیات۔
آٹھ اسم ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں۔
۱۔ فاعل (ہمیشہ مرفوع ہوتاہے)۲۔ نائب فاعل۳۔ مبتداء ۴۔خبر۵۔خبر «إنَّ» وأخواتها ۶۔اسم «كان» اور اس کےأخوات ۷۔اسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس ۸۔خبر «لا» الّتي لنفي الجنس ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں۔
مرفوعات میں سب سے پہلا فاعل ہے۔فاعل کسے کہتے ہیں؟
ہر وہ اسم جس سے پہلے فعل یا شبہہ فعل ہو اور اس فعل یا شبہہ فعل کو اس اسم کی طرف نسبت دی گئی ہو اس انداز میں وہ فعل یا شبہہ فعل جس  کی وجہ سے قائم ہوا ہو اس پر واقع نہیں ہوا ہے۔ جیسے قامَ زَيْدٌ  قام فعل اس فعل کو نسبت دی گئی ہے زید کی طرف جو اسم ہے یہ بتا نے کے لئے کہ  قام صادق نہیں آتا اگر زید نہ ہوتا پس یہ فعل زید کی وجہ سے قائم ہے نہ کہ زید پر واقع ہوا ہو اور زَيْدٌ ضارِبٌ أبُوهُ ۔ضارب صفت ہے اور اس کو نسبت دی گئی ہے اس کی طرف اس انداز  میں کہ جو ضارب ہے اس کی نسبت ہے ابوہ کی طرف جو کہ صفت ہے۔

فعل لازم ہویا متعدی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا دونوں صورتوں میں فاعل ہوگا کیوں ؟ اس لیے  کہ ہر فعل کو ایک فاعل کی ضرورت ہوتی ہے اب وہ فاعل کبھی اسم ظاہر ہوتا ہے" ذَهَبَ زَيْدٌ" کبھی ضمیر ، یہ ضمیر یا ضمیر بارزہوتی ہے یا ضمیر مستتر"زَيْدٌ ذَهَبَ"اس میں فاعل محذوف ہے۔ 

اگر فعل متعدی ہوگا تو اس کو فاعل کے ساتھ ساتھ مفعول بہ کی بھی ضرورت ہوگی۔ 
4

مرفوعات کے بارے میں متن کی تطبیق

المقصد الأوّل : في المرفوعات

"الأسماء المرفوعة وهي ثمانية أقسام" اسماء مرفوعہ کی آٹھ قسمیں ہیں۔ 
الفاعل ، والمفعول الّذي لم يُسَمَّ فاعله ، والمبتدأ ، والخبر ، وخبر «إنَّ» وأخواتها ، واسم «كان» وأخواتها ، واسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس ، وخبر «لا» الّتي لنفي الجنس)
۱۔ فاعل (ہمیشہ مرفوع ہوتاہے)۲۔ نائب فاعل۳۔ مبتداء ۴۔خبر۵۔خبر «إنَّ» وأخواتها ۶۔اسم «كان» اور اس کےأخوات ۷۔اسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس ۸۔خبر «لا» الّتي لنفي الجنس ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں۔

القسم الأوّل:الفاعل

فاعل کسے کہتے ہیں؟"وهو كلّ اسم قبله فعل أو شبهه اُسند إليه على معنى أنّه قائم به لا واقع عليه"
ہر وہ اسم  جس سے پہلے فعل ہو یا شبہہ فعل(صفت) ہو، اس فعل یا صفت کو اس اسم کی طرف اسناد(نسبت)دی گئی ہو، اس انداز میں کہ وہ فعل یا صفت اس اسم کے ساتھ قائم ہیں ایسا نہیں کہ وہ فعل اور صفت اس پر واقع ہوئے ہیں بلکہ یہ اس سے قائم ہیں۔ جیسے قامَ زَيْدٌ ، وزَيْدٌ ضارِبٌ أبُوهُ۔
قام فعل ہے جو کہ زید کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ـ"ما ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً"۔ ما ضرب فعل ہے اس کو زید کی طرف نسبت دی گئی ہے۔
فرماتے ہیں:"وكلّ فعل لا بُدَّ له من فاعل مرفوع" ہر فعل کے لئے فاعل مرفوع کا ہونا ضروری ہے ۔ یہ فعل لازم ہو یا متعدی ہو۔اب یہ فاعل تین قسم کا ہوگا۔"مظهراً كان"یا وہ اسم ظاہر ہوگا۔جیسے ذَهَبَ زَيْدٌ یا وہ فاعل"أو مضمراً" ضمیر ہوگا۔ جیسے"زَيْدٌ ذَهَبَ" اب یہ ضمیر ظاہر ہوگی یا مستتر۔
"وإن كان متعدّياً كان له مفعول به أيضاً منصوب"اگر یہ فعل متعدی ہوگا تو  اس کے لئے ایک مفعول بہ بھی ہوگا جیسے زيدٌ ضَرَبَ عَمْراً۔
5

فاعل کے احکام

ہر فعل کے لئے ایک فاعل کا ہو نا ضروری ہے۔اب یہ فاعل کبھی مذکر ہوگا کبھی مؤنث  ہوگا۔مؤنث کبھی حقیقی ہوتا ہے کبھی غیر حقیقی۔اسی طرح فاعل کبھی واحد ہوگا کبھی کبھی تثنیہ اور جمع ہوگا۔ جب فاعل مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ہر فعل کو ایک فاعل چاہیےاب اس فعل کو کس طرح لایا جائے۔ آیافاعل مذکر اور مؤنث کے لئے ایک قسم کے فعل کو لانا چاہیے یا نہ ؟جیسا فاعل ہوگا فعل کو بھی اسی کے مطابق لانا چاہیے؟

فرماتے ہیں:"فإن كان الفاعل مظهراً وُحِّدَ الفعل أبداً"اگر فاعل اسم ظاہر ہوگا فعل کو ہمیشہ مفرد  لایاجائے گا۔فاعل چاہے مفرد ہو یا  تثنیہ یا جمع ہو ۔ہر حالت میں فعل کو مفرد لایا جائے گا۔ جیسے "ضَرَبَ زَيْدٌ"  زید مفرد ہے اور"ضَرَبَ الزَّيْدانِ"ضرب مفرد ہے اگر چہ فاعل تثنیہ ہے، اور"ضَرَبَ الزَّيْدُونَ"زیدون جمع ہے لیکن فعل کو مفرد لایا گیا چونکہ زیدون اسم ظاہر ہے۔

"وإن كان الفاعل مضمراً وُحِّدَ الفعل للفاعل الواحد" لیکن اگر اسم فاعل اسم ظاہر نہ ہو بلکہ ضمیر ہوگا تو اس صورت میں فاعل مفرد کو فعل مفرد لایا جائے گا ۔جیسے "زَيْدٌ ضَرَبَ" فاعل تثنیہ کے لیے فعل تثنیہ جیسے"الزَّيْدانِ ضَرَبا"اور فاعل جمع کے لیےفعل جمع لایا جائے گا۔ جیسے"الزَّيْدُونَ ضَرَبُوا"۔

اب اگر تذکیر و تانیث کے فاعل میں فرق ہوتو اس صورت میں فعل کو کس طرح لایا جائے گا؟

"وإن كان الفاعل مؤنّثاً حقيقيّاً ـ وهو ما يوجد بأزائه ذكر من الحيوانات ـ اُنِّثَ الفعل أبداً"

اگر فاعل مؤنث حقیقی ہو۔سوال کیا ایسا مؤنث بھی ہوتا جو حقیقت میں مؤنث حقیقی  ہو؟ فرماتے ہیں ہاں: جس مؤنث کے مقابل میں کوئی حیوان مذکر ہوگا وہ مؤنث مؤنث حقیقی کہلاتا ہے۔ اور جس مؤنث کے مقابل میں کوئی حیوان مذکر نہ ہو وہ مؤنث غیر حقیقی کہلائے گا۔

تو اس صورت میں"اُنِّثَ الفعل أبداً " فعل کو  ہمیشہ مؤنث لایا جائے گا۔لیکن شرط  یہ ہے کہ اس مؤنث حقیقی اور فعل کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔"إن لم تفصل بين الفعل والفاعل" جیسےقامَتْ هِنْدٌ ہند فاعل مؤنث حقیقی ہے۔

اور اگر ان دونوں میں فاصلہ ہو تو اس صورت میں آپ مخیر ہیں کہ فعل کو مذکر لائیں یا مؤنث لائیں۔"فإن فصّلت فلك الخيار في التذكير والتأنيث" جیسے ضَرَبَ الْيَوْمَ هِنْدٌ کہیں یا ضَرَبَتِ الْيَوْمَ هِنْدٌ کہیں آپ مخیر (آپ کو اختیار) ہیں۔

"وكذلك في المؤنّث الغير الحقيقيّ"اگر فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو تو اس صورت میں وہاں پر بھی آپ کو اختیار ہے کہ  فعل کو مذکر ذکر کریں یا مؤنث۔جیسے طَلَعَتِ الشَّمْسُ  یا آپ یوں پڑھیں طَلَعَ الشَّمْسُ۔"هذا إذا كان الفعل مقدّماً على الفاعل" یہ بات اس وقت جب  فعل   فاعل پر مقدم ہو۔"وأمّا إذا كان متأخّراً اُنّثَ الفعل" لیکن اگر فعل مؤخر ہو فاعل سے تو اس صورت میں فعل کو مؤنث لایا جائے گا۔ جیسے"الشَّمْسُ طَلَعَتْ"۔

" وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ" اگر فاعل جمع مکسر ہو تو اس کا حکم جمع مؤنث غیرحقیقی کی طرح ہے چاہیں اس کا فعل مذکر ذکر کریں اور چاہیں تو مؤنث ذکر کریں۔ جیسے "قامَ الرّجالُ" یا یوں کہیں"قامَتِْ الرّجالُ"۔ رجال جمع مکسر ہے اس لیےفعل دونوں صورت میں پڑھ سکتے ہیں۔

نکتہ:اور فاعل ضمیر ہو  جمع مکسر کے لیے تو اس صورت میں بھی آپ مخیر ہیں کہ فعل کو مذکر لائیں یا مؤنث۔

سوال: کہاں کہاں، پر فاعل کا مفعول پر مقدم کرنا واجب ہے اور کہاں یہ جائز ہے کہ ہم مفعول کو پہلے لائیں اور فاعل کو بعد میں؟

"ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس"فاعل کو مفعول پر مقدم کرنا واجب ہے اگر فاعل اور مفعول دونوں اسم مقصور ہوں اور آپ کو فاعل اور مفعول کو سمجھنے میں التباس(اشتباہ ہونے کا خوف ہو) تو ایسے مقام پر واجب ہے کہ فاعل کو مفعول پر مقدم کیاجائے۔ جیسے ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ۔

"ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين"لیکن اگر یہ دونوں اسم مقصور ہوں اور التباس کا بھی خوف نہ ہوکسی قرینہ کی وجہ سے تو اس صورت میں جایز ہے مفعول کو فاعل پر مقدم کیا جائے۔جیسے"أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ"یا یہ دونوں غیر مقصور ہو اورالتباس کا خوف بھی نہ ہو تو پھر بھی مفعول کو فاعل پر مقدم کرنا جایز ہے ۔جیسے "ضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ"عمرا کا نصب بتا  رہاہے کہ یہ مفعول ہے اور زید کا رفع بتا رہا ہے کہ یہ فاعل ہے۔

"ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة"  اگر کوئی قرینہ موجود ہو توجایز ہے فعل کو حذف کیا جائے ۔جیسے ​​​​​​​"زَيْدٌ​​​​​​​"  کہیں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ  ​​​​​​​"​​​​​​​مَنْ ضَرَبَ​​​​​​​"؟

"وكذا حذف الفاعل والفعل معاً" کبھی کبھار فعل اور فاعل دونوں کو حذف کرنا جایز ہے۔ جیسے کوئی  کہے نَعَمْ،اس شخص کے جواب میں جو یہ سوال کرے،​​​​​​​"أَقامَ زَيْدٌ​​​​​​​" ؟

"وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً"بسا اوقات فاعل کو ذکر نہیں کیاجاتا اور مفعول کو فاعل کا قائم مقام بنایا جاتا ہے۔البتہ یہ وہاں ہوتا ہے جہاں فعل مجہول ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں "ضُربَ زیدُُ"۔

 

المقصد الأوّل : في المرفوعات

الأسماء المرفوعة وهي ثمانية أقسام : الفاعل ، والمفعول الّذي لم يُسَمَّ فاعله ، والمبتدأ ، والخبر ، وخبر «إنَّ» وأخواتها ، واسم «كان» وأخواتها ، واسم «ما» و «لا» المشبّهتين بليس ، وخبر «لا» الّتي لنفي الجنس.

القسم الأوّل : الفاعل

وهو كلّ اسم قبله فعل أو شبهه اُسند إليه على معنى أنّه قائم به لا واقع عليه نحو : قامَ زَيْدٌ ، وزَيْدٌ ضارِبٌ أبُوهُ ، وما ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً.

وكلّ فعل لا بُدَّ له من فاعل مرفوع ، مظهراً كان ك‍ : ذَهَبَ زَيْدٌ ، أو مضمراً ك‍ : زَيْدٌ ذَهَبَ. وإن كان متعدّياً كان له مفعول به أيضاً منصوب نحو : زيدٌ ضَرَبَ عَمْراً.

فإن كان الفاعل مظهراً وُحِّدَ الفعل أبداً نحو : ضَرَبَ زَيْدٌ وضَرَبَ الزَّيْدانِ ، وضَرَبَ الزَّيْدُونَ ، وإن كان الفاعل مضمراً وُحِّدَ الفعل للفاعل الواحد نحو : زَيْدٌ ضَرَبَ ، ويثنّى للمثنّى نحو : الزَّيْدانِ ضَرَبا ، ويجمع للجمع نحو : الزَّيْدُونَ ضَرَبُوا.

وإن كان الفاعل مؤنّثاً حقيقيّاً ـ وهو ما يوجد بأزائه ذكر من الحيوانات ـ اُنِّثَ الفعل أبداً ، إن لم تفصل بين الفعل والفاعل ، نحو : قامَتْ هِنْدٌ ، فإن فصّلت فلك الخيار في التذكير والتأنيث نحو : ضَرَبَ الْيَوْمَ هِنْدٌ ، وإن شئت تقول ضَرَبَتِ الْيَوْمَ هِنْدٌ.

وكذلك في المؤنّث الغير الحقيقيّ نحو : طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وإن شئت قلت : طَلَعَ الشَّمْسُ. هذا إذا كان الفعل مقدّماً على الفاعل ، وأمّا إذا كان متأخّراً اُنّثَ الفعل نحو : الشَّمْسُ طَلَعَتْ.

وجمع التكسير كالمؤنّث الغير الحقيقيّ تقول : قامَ الرّجالُ ، قامَتِْ الرّجالُ. ويجب تقديم الفاعل على المفعول إذا كانا مقصورين وخفت اللّبس نحو : ضَرَبَ مُوسىٰ عيسىٰ.

ويجوز تقديم المفعول على الفاعل إذا كان قرينة مع كونهما مقصورين ، أو غير مقصورين إن لم تخف اللبس نحو : أكَلَ الْكُمَّثرىٰ يَحْيىٰ ، وضَرَبَ عَمْراً زَيْدٌ.

ويجوز حذف الفعل حيث كانت قرينة نحو : زَيْدٌ ، في جواب من قال : مَنْ ضَرَبَ ؟ وكذا حذف الفاعل والفعل معاً كنَعَمْ في جواب من قال : أَقامَ زَيْدٌ ؟ وقد يحذف الفاعل ويقام المفعول مقامه إذا كان الفعل مجهولاً وهو القسم الثاني من المرفوعات.

القسم الثاني : مفعول ما لم يسمّ فاعله

وهو كلّ مفعول حذف فاعله واُقيم المفعول مقامه نحو : ضُربَ زَيْدٌ ، وحكمه في توحيد فعله وتثنيته وجمعه ، وتذكيره وتأنيثه ، على قياس ما عرفت في الفاعل.

القسم الثالث والرابع : المبتدأ والخبر

وهما اسمان مجرّدان عن العوامل اللّفظية ، أحدهما : مسند إليه ويسمّى المبتدأ ، والثاني : مسند به ويسمّى الخبر نحو : زَيْدٌ قائِمٌ.

والعامل فيهما معنويّ هو الابتداء.

وأصل المبتدأ أن يكون معرفة ، وأصل الخبر أن يكون نكرة. والنكرة إذا وصفت جاز أن تقع مبتدأ نحو قوله تعالى : ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن