درس الهدایة في النحو

درس نمبر 8: عجمہ اور جمع کی بحث

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

عجمہ کے میں بارے بحث

بحث ہماری چل رہی تھی اسباب منع صرف کی کہ ان نو اسباب میں سے جب دوکوئی بھی اسم معرب میں پائے جائیں گے وہ اسم معرب غیر منصرف کہلائے گا۔

ان نو اسباب میں سے ایک "العجمہ"ہےعجمہ کا  کیا مطلب  ہے؟

۱۔وہ غیر عربی میں یعنی عجم میں ایک علم ہو ۔

۲۔ تین حروف سے زائد والا ہو۔

۳۔ اور اگر تین حروف والا ہو تو اس کا وسط کا حرف متحرک ہو ۔

4

عُجمةاور جمع کی بحث

"وأمّا العُجمة :فشرطها أن تكون عَلَماً في العجميّة"

اسباب منع صرف میں سے ایک سبب  عجمہ ہے ۔لیکن اس کی اسباب منع صرف  بننے کی شرط یہ ہے کہ وہ غیر عربی میں عجمی میں علم ہو ۔"وزائدةً على ثلاثة أحرف" تین حروف سے زائد ہو۔ جیسے ابراھیم عجمی بھی ہے اور تین حروف سے زائد بھی ہے۔"أو ثلاثيّاً متحرّك الوسط" یا اگر تین حروف پر مشتمل ہو ثلاثی ہو اس کا درمیان والا حرف متحرک ہونا چاہیے۔ جیسے سَقَر  "فَلِجام منصرف" لجام منصرف ہے کیونکہ یہ علم نہیں ہے۔ "ونوح ولوط منصرف ، لسكون الأوسط" نوح بھی منصرف ہے کیوں کہ اس کا درمیانی حرف (واو) ساکن ہے ۔

اسباب منع صرف میں سے چھٹا  جمع ہے"أمّا الجمع" جمع بھی اسباب منع صرف میں سے ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ "فشرطه أن يكون على صيغة منتهى الجموع" کہ وہ  منتھی الجموع کے صیغہ کے وزن پر ہومنتھی الجموع کا مطلب یہ  ہے  کہ اس کے بعد پھر دوبارہ اور جمع نہ ہوسکتی ہو۔

اس کی کوئی علامت؟ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ منتھی الجموع کا صیغہ ہے؟ فرماتے ہیں علامات یہ ہیں۔

1۔اگر الف جمع کےبعد دو حرف آجائیں جیسے مساجد۔

۲۔یا الف جمع کے بعد ایک حرف ہو لیکن مشدد ہو۔جیسےدَوابّ۔

۳۔ الف جمع کے بعد تین حرف ہوں لیکن تین حروف میں سے جو درمیان والا حرف ساکن ہو  اور اس کے آخر میں تاء بھی نہ آئے۔

اس کی علامات یہ ہیں۔"وهو أن يكونبعد ألف الجمع حرفان متحرّكان" الف جمع کے بعد دو حرف متحرک ہوں جیسے مساجد۔

یا الف جمع کے بعد ایک حرف مشدد ہ۔جیسے دَوابّ "أو ثلاثة أحرف أوسطها ساكن غير قابل للتاء" یا اس میں تین حرف ہیں لیکن درمیانی حرف ساکن ہو اور تاء کو بھی قبول نہ کرے۔ جیسےمَصابيح۔"فصَياقِلَة وفَرازنَة منصرفان لقبولهما التاء" فصَياقِلَة اور فرازنۃ  اگر چہ الف جمع کے بعد دو حرف ہیں لیکن یہ پھر بھی منصرف ہیں کیوں کہ یہ دونوں نے تاء کو قبول کیا ہے۔ 

آگے فرماتے ہیں"وهو أيضاً قائم مقام السببين"  یہ جمع منتھی جموع بھی( الف ممدودہ اور الف مقصورہ کی طرح) قائم مقام دو سبب ہے جمع اور لزوم جمع ۔ لزوم جمع کا مطلب کیا؟

یعنی"وامتناعه أن يجمع مرّة اُخرى جمع التكسير" کہ ممتنع ہے کہ ہم اس جمع کی پھر ایک اور جمع تکسیر کرسکیں یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ایساہے۔"فكأنَّه جمع مرّتين"  گویا کہ دو دفعہ جمع کیا جاچکا ہو۔

پس جمع میں کون کون سے سبب ہیں ایک جمع اور دوسرا لزوم جمع۔

5

الترکیب اور الف نون زائدتان

اسباب منع صرف میں سے ساتواں، الترکیب ہے لیکن اس کی شرط کیا ہے۔

اسکی شرایط:

۱۔ہر ترکیب سبب منع صرف نہیں بنتی بلکہ شرط ہے کہ علم ہو۔

۲۔ اضافہ نہ ہو اور ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف نسبت بھی نہ ہو۔

"أمّا التّركيب : فشرطه أن يكون عَلَماً" غیر منصرف بننے کی شرط یہ کہ وہ علم ہو کیسے علم"علم بلا إضافة" اس علم میں ترکیب اضافی نہ ہو۔"ولا إسناد" اور اس میں ترکیب اسنادی بھی نہ ہو جیسےبَعلبَك اس میں نہ اضافت ہے اور نہ اسناد ہے لہذا ہم اس کو غیر منصرف پڑھتے ہیں۔

"فعَبْد اللهِ منصرف للإضافة" اگر چہ یہ مرکب ہے اور علم بھی ہے۔ اس کے با وجود ہم عبد اللہ کو منصرف پڑھتے ہیں چونکہ یہاں عبد اللہ کی طرف اضافہ ہوا ہے۔"وشابَ قَرْناها مبنيّ للإسناد" یہ غیر منصرف ہے کیوں؟ اس لئے کہ یہ مبنی ہے۔

 آٹھواں سبب الف اور نون زائدتان ہیں ان کے بھی شرایط ہیں۔

۱۔ یہ اسم میں ہو ۔

۲۔ وہ اسم علم ہو جس میں الف و نون آتے ہیں۔

۳۔ اگر یہ دونوں صفت میں ہوں تو اس کی شرط یہ ہے کہ  ان کی مؤنث فعلان کے وزن پر نہ آتی ہو۔

"أمّا الألف والنون الزائدتان" الف اور نون زائدتان اگر کسی اسم میں ہوں تو شرط یہ ہے کہ وہ اسم علم ہو۔ "فشرطهما إن كانتا في اسم أن يكون عَلَماً"  جیسے عِمْران وعُثْمان۔ یہ دونوں غیر منصرف ہیں۔"فسعْدان ـ اسم نبت ـ منصرف " سعدان چونکہ علم نہیں ہے اس لئے یہ منصرف ہے۔"وإن كانتا في الصفة فشرطهما أن لا يكون مؤنّثها فَعْلانَة" اگر یہ الف اور نون کسی صفت میں ہوں تو اس صفت کی شرط یہ ہے کہ اس کی مؤنث فعلانۃ کی وزن پر نہ آتی ہو.۔ جیسے ہم کہتے ہیں سَكْران وعَطْشان  یہ دونوں غیر منصرف ہیں۔ لیکن "فنَدْمان منصرف لوجود نَدْمانَة" منصرف ہیں کیونکہ فعلانۃ کی وزن پر آتی ہے لذایہ منصرف ہے۔

اسباب منع صرف میں سے آخری سبب ہے وزن الفعل، وزن فعل اسباب منع صرف میں سے ایک سبب ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ  وہ فعل کے ساتھ خاص ہو اور وہ اسم میں نہ ہو، ہاں اگر کسی اسم میں ہے تو وہ بھی  فعل سے نقل ہوکر آیا ہو، پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن اگر وہ فعل کے ساتھ مختص نہ ہو تو ضروری ہے کہ اول میں حروف مضارع میں سے کوئی ایک حرف ہو اور ہاء اس پر داخل نہ ہوسکتی ہو۔جیسے احمد،يَشْكُر وتَغْلِب ونَرْجس یہ غیر منصرف ہیں لیکن یعمل منصرف ہے۔ کیوں کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ حرف مضارع ہو تو ایسا نہ ہو کہ وہ آخر میں ہاء کو قبول کرے؛لیکن یعمل تانیث کی صورت میں یعملۃ ہوتا ہے اور تاء کو قبول کرتا ہے لذا منصرف ہے۔"أمّا وزن الفعل فشرطه أن يختصّ بالفعل" وزن الفعل کا غیر منصرف بننے کےلئے شرط یہ ہے کہ وہ وزن فعل کے ساتھ مختص ہو، جیسے  ضَرَبَ وشَمَّر۔

"وإن لم يختصّ به فيجب أن يكون في أوّله إحدى حروف المضارع " اور اگر وہ وزن فعل کے ساتھ مختص نہ ہو تو واجب ہے اس کی ابتداء میں حروف مضارع میں سے ایک ہو۔"ولا يدخله الهاء" اور اس پر ہاء بھی نہ آسکتی ہو۔جیسے" أَحْمَد ويَشْكُر وتَغْلِب ونَرْجس" لیکن"فيَعْمل منصرف لقبوله التاء"  یعمل منصرف ہے کیوں کہ ہاء کو قبول کیا ہے"ناقَة يَعْملَة

ان اسباب منع صرف میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے ساتھ علمیت شرط ہے۔"واعلم أنّ كلّ ما يشترط فيه العَلَميّة" یعنی ان اسباب تسعہ میں سے ہو وہ کہ جن میں علمیت کو شرط قرار دیا ہے وہ یہ ہیں۔"وهو التأنيث بالتاء والمعنويّ والعُجمة والتّركيب" جہاں تانیث لفظی ہو یا تانیث معنوی ہو،عجمعہ میں بھی علمیت شرط تھی، ترکیب اور جس اسم میں الف ونون زائدان تھی اس میں بھی علمیت شرط تھی۔"وما لم يشترط فيه ذلك لكن اجتمع مع سبب آخر فقط وهو" یا اس میں علمیت شرط نہیں تھی لیکن وہ ایک سبب کے ساتھ جمع ہو سکتے تھ وزن الفعل  عدل ہے وہ ہیں۔

اب ان سب میں سے جن میں علمیت شرط تھی اور وہ جن میں علمیت شرط نہیں تھی لیکن اگر کوئی اور سبب جمع ہوجائے تو وہ غیر منصرف بن جاتے تھے۔ " إذا نكّرته انصرف" اب ان کو جب بھی نکرہ کریں گے تو یہ منصرف ہوجائیں گے۔کیوں وہ اس   لیے کہ جن کے    لیے اسباب منع صرف بننےکے   لیے علمیت شرط تھی اب وہ نکرہ بن جائیں گے تو  علمیت ختم ہوجائے گی۔ تو اس صورت میں کوئی سبب باقی رہاہی نہیں۔اور جہاں پر ایک سبب علمیت اور دوسرا کوئی اور تھاوہاں پر بھی اس کو نکرہ کردیں گے۔ علمیت ختم ہوجائے گی تو ایک سبب باقی رہ جائے گا تو ایک سبب سے کوئی اسم غیر منصرف نہیں بنتا ہے۔

"أمّا في القسم الأوّل " پہلی صورت میں اس  لیے اسم منصرف ہوجائے گااس کے سبب بننے کی شرط تھی اس کا علم ہونااور جب اس میں علمیت ختم ہوگئی۔" فلبقاء الاسم بلا سبب" تو اب اسم باقی رہ جائے گا بلاسبب تو اس صورت میں اسم منصرف ہوجائے گا۔

"وأمّا في القسم الثاني"  جہاں سببیت کے لئے علمیت ہونا تو شرط نہیں تھالیکن اگر سبب علم اور دوسرا سبب کوئی اور تھا تو اب جب نکرہ بنائیں گے تو علمیت ختم ہوجائے گی تو ایک سبب باقی رہ جائے گا تو ایک سبب سے کوئی اسم غیر منصرف نہیں بنتا ہے۔ جیسے"جاءَ طَلْحَةُ وطَلْحَةٌ آخَر ، وقامَ عُمَرُ وعُمَرٌ آخر ، وقامَ أَحْمَدُ وأَحْمَدٌ آخر

"وكلّ ما لا ينصرف " ہر وہ اسم  جو غیر منصرف ہوگا۔"إذا اُضيف أو دخله اللام"  جب وہ اضافہ ہوجائے یا اس اسم معرب غیر منصرف پر لام داخل ہوجائے گی۔"دخله الكسرة في حالة الجرّ"  تو اس صورت میں حالت جر میں کسرہ داخل ہوجائے گا۔جیسے مَرَرْتُ بِأَحْمَدِكُمْ وبِالْأحْمَرِ۔

تمّت المقدّمة.

والعُجمة ، والجمع ، والتركيب ، ووزن الفعل ، والألف والنون الزائدتان. وحكمه أن لا تدخله الكسرة والتنوين ، ويكون في موضع الجرّ مفتوحاً كما مرّ.

أمّا العدل : فهو تغيير اللفظ من صيغته الأصليّة إلى صيغة اُخرى ، وهو على قسمين :

تحقيقاً وتقديراً ، فلا يجتمع مع وزن الفعل أصلاً ، ويجتمع مع العَلَمِيّة كعُمَر وزُفَر. ويجتمع مع الوصف ثُلٰث ومَثْلَث واُخَر وجُمَع.

أمّا الوصف : فلا يجتمع مع العَلَمِيّة أصلاً ، وشرطه أن يكون وصفاً في أصل الوضع ، فأسْوَد وأَرْقَم غير منصرف ، وإن صارا اسمين للحيّة لأصالتهما في الوصفيّة. وأَرْبَع في قولك : مَرَرْتُ بِنِسْوَةٍ أَرْبَعٍ ، منصرف مع أنّ فيه وصفيّة ووزن الفعل لعدم الأصليّة في الوصف.

أمّا التأنيث بالتاء : فشرطه أن يكون عَلَماً كطَلْحَة ، وكذا المعنويّ كزَيْنَب. ثمّ المؤنّث المعنويّ إن كان ثلاثيّاً ، ساكن الوسط ، غير أعجميّ يجوز صرفه مع وجود السببين كهِنْد ، لأجل الخِفّةِ ، وإلّا يجب منعه كزَيْنَب ، وسَقَر ، وماه ، وجُوْر.

والتأنيث بالألف المقصورة كحُبْلى ، والممدودة كَحْمراء ممتنع صرفه البتّة ، لأنّ الألف ، قائم مقام السببين ، التأنيث ولزومه.

وأمّا المعرفة : فلا يعتبر في منع الصرف بها إلّا العلميّة ، وتجتمع مع غير الوصف.

وأمّا العُجمة : فشرطها أن تكون عَلَماً في العجميّة وزائدةً على ثلاثة أحرف ك‍ : إبراهيم وإسماعيل ، أو ثلاثيّاً متحرّك الوسط ك‍ : سَقَر ، فَلِجام منصرف ، لعدم العَلَمِيّة في العجميّة ، ونوح ولوط منصرف ، لسكون الأوسط.

أمّا الجمع : فشرطه أن يكون على صيغة منتهى الجموع ، وهو أن يكون

بعد ألف الجمع حرفان متحرّكان كمَساجد ودَوابّ ، أو ثلاثة أحرف أوسطها ساكن غير قابل للتاء كمَصابيح. فصَياقِلَة وفَرازنَة منصرفان لقبولهما التاء. وهو أيضاً قائم مقام السببين ، الجمعيّة وامتناعه أن يجمع مرّة اُخرى جمع التكسير ، فكأنَّه جمع مرّتين.

أمّا التّركيب : فشرطه أن يكون عَلَماً بلا إضافة ولا إسناد كبَعلبَك ، فعَبْد اللهِ منصرف للإضافة ، وشابَ قَرْناها ، مبنيّ للإسناد.

أمّا الألف والنون الزائدتان : فشرطهما إن كانتا في اسم أن يكون عَلَماً كعِمْران وعُثْمان ، فسعْدان ـ اسم نبت ـ منصرف ، وإن كانتا في الصفة فشرطهما أن لا يكون مؤنّثها فَعْلانَة كسَكْران وعَطْشان ، فنَدْمان منصرف لوجود نَدْمانَة.

أمّا وزن الفعل : فشرطه أن يختصّ بالفعل نحو : ضَرَبَ وشَمَّرَ. وإن لم يختصّ به فيجب أن يكون في أوّله إحدى حروف المضارع ، ولا يدخله الهاء كأَحْمَد ويَشْكُر وتَغْلِب ونَرْجس ، فيَعْمل منصرف لقبوله التاء كقولهم ، ناقَة يَعْملَة.

واعلم أنّ كلّ ما يشترط فيه العَلَميّة وهو التأنيث بالتاء والمعنويّ والعُجمة والتّركيب والاسم الّذي فيه الألف والنون الزائدتان ، وما لم يشترط فيه ذلك لكن اجتمع مع سبب آخر فقط وهو العدل ووزن الفعل ، إذا نكّرته انصرف.

أمّا في القسم الأوّل فلبقاء الاسم بلا سبب ، وأمّا في القسم الثاني فلبقائه على سبب واحد. تقول : جاءَ طَلْحَةُ وطَلْحَةٌ آخَر ، وقامَ عُمَرُ وعُمَرٌ آخر ، وقامَ أَحْمَدُ وأَحْمَدٌ آخر.

وكلّ ما لا ينصرف إذا اُضيف أو دخله اللام ، دخله الكسرة في حالة الجرّ كمَرَرْتُ بِأَحْمَدِكُمْ وبِالْأحْمَرِ. تمّت المقدّمة.