درس الهدایة في النحو

درس نمبر 7: اسم معرب کی اقسام

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم معرب کی اقسام

جب ہم اعراب کی قسمیں پڑھ رہے تھے تو اعراب کی  ان اقسام میں بحث آئی تھی کہ یہ ایک اعراب اسم منصرف کا ہوتا ہے، اور ایک اعراب اسم غیر منصرف کا ہوتا ہے، وہاں تفصیل بیان نہیں ہوئی تھی کہ منصرف کسےکہتے ہیں اور غیر منصرف کسے کہتے ہیں،آج ان کی تفصیل بیان فرمارہے ہیں۔

اسم معرب کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ اسم معرب منصرف۲۔ اسم معرب غیر منصرف 

جب آپ نے اقسام اعراب پڑھا تھاتو وہاں اسم منصرف کا اعراب کسی اور طریقے  کا تھا جب کہ اسم غیر منصرف  کوئی اور طریقے کا۔

سوال: اسم معرب منصرف کسے کہتے ہیں؟

اسم معرب منصرف وہ ہوتا ہے: جس میں اسباب منع صرف میں سے دو سبب نہ پائیں جائیں یا ایک ایسا بھی موجود نہ ہو  جو دو کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اس کو منصرف  کہتے ہیں اور اسی کو اسم متمکن بھی کہتے ہیں۔

اسباب منع صرف کون  سے ہیں وہ بعد میں بیان کریں گے۔

اسم معرب منصرف کا کیا حکم ہے؟

یہ ضمہ فتحہ کسرہ کے ساتھ آسکتا ہے جیسے "جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، ومَرَرْتُ بِزَيْدٍ"  یعنی  تنوین کے ساتھ تینوں حرکات آسکتی ہیں۔

اسم غیر منصرف کونسا ہوتا ہے؟

اسم معرب غیر منصرف وہ ہوتا ہے جس میں اسباب منع صرف میں سے دو سبب پائے جائیں یا ایک ایسا سبب  پایا جائے  جو دو کا قائم مقام ہو۔ 

سوال: اسباب منع صرف کتنے ہیں؟

جواب نو(9) ہیں ۔

اسباب منع صرف کون کون سے ہیں؟

۱۔عدل۲۔ وصف۳۔ تانیث ۴۔معرفہ ۵۔عجمہ ۶۔ جمع۷۔ ترکیب۸۔وزن الفعل۹۔الف نون زائدتان۔

  اسباب منع صرف ان کو کہا جاتا ہے۔ یعنی ان میں سے بعض ایسے ہیں ان میں سے دو کسی اسم میں پائے جائیں گے تو وہ اسم غیر منصرف کہلائے گا۔ اور بعض ایسے ہیں ان میں سے فقط ایک بھی آجائے تو وہ ایک دو  کا قائم مقام ہوتا ہے وہ اسم کو غیر منصرف بنا دیتا ہے۔

جب یہ غیر منصرف بن جائے گا تو اس کا حکم کیا ہوگا؟

جب بھی کوئی اسم غیر منصرف ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اس پر تنوین نہیں آسکتی جیسے زیدٌ پر تنوین نہیں آتی ۔ اور اس پر کسرہ بھی نہیں آتا ہے، جری حالت میں بھی اس  پر کسرہ نہیں پڑھیں گے، بلکہ اس کے آخر میں فتحہ پڑھیں گے۔

4

تطبیق متن(اسم معرب کی دو قسمیں)

الفصل الثالث : الاسم المعرب على نوعين

اسم معرب کی دو قسمیں ہیں:۱۔منصرف۲۔غیر منصرف۔

منصرف کسے کہتے ہیں؟

"وهو ما ليس فيه سببان من الأسباب التسعة" جس میں دو سبب یا ایک ایساجو دو کا قائم مقام ہو نہ پائے جاتے ہوں، ان نو اسباب تسعہ میں سے کہ جن کو اسباب منع صرف کہاجاتا ہے۔

"ويسمّى متمكّناً"  اور اسی کو اسم متمکن بھی کہتے ہیں"وحكمه أن تدخله الحركات الثلاث مع التنوين"

اس اسم کا حکم کیا ہے؟

فرماتے ہیں : اس کے آخر پر ضمہ فتحہ کسرہ داخل ہوسکتے ہیں تنوین کے ساتھ۔مثال جاءني زَيْدٌ"  زید فاعل ہے تنوین کے ساتھ آیا ہے"رَأَيْتُ زَيْداً" زید مفعول تھا تنوین نصب کے ساتھ آیا ہے"ومَرَرْتُ بِزَيْدٍ" زید مجرور تھا باء کی وجہ سے اور تنوین جر کے ساتھ آیا ہے۔

دوسری قسم کیا ہے؟ غیر منصرف (وغير منصرف) وہ کیا ہوتی ہے"وهو ما فيه سببان من الأسباب التسعة ، أو واحدة منها تقوم مقامها" کہ ان نو  اسباب منع میں سے دو سبب یا ایک ایسا جو دو کاقائم مقام ہو جس اسم میں پایا جائے گا اس کو اسم معرب غیر منصرف کہتے ہیں۔

اب وہ اسباب منع صرف کون کون سے ہیں؟"والأسباب التسعة هي" وہ اسباب تسعہ یہ ہیں

"العَدل ، والوصف ، والتّأنيث ، والمعرفة ،والعُجمة ، والجمع ، والتركيب ، ووزن الفعل ، والألف والنون الزائدتان

عدل وصف، تانیث ،معرفہ ،عجمہ ،جمع، الف ونون زائدتان، اور وزن الفعل۔

ان نو کو  اسباب منع صرف کہا جاتا ہے ان میں سے دو جس اسم میں پایا جائیں گے وہ اسم غیر منصرف ہوگا۔

" وحكمه أن لا تدخله الكسرة والتنوين" تنوین بلکل بھی اس پر  داخل نہیں ہوسکتی ہے نہ ضمہ کے ساتھ نہ فتحہ کے ساتھ نہ کسرہ کے ساتھ۔اور خود کسرہ نھی اس پر داخل نہیں ہوسکتا" ويكون في موضع الجرّ مفتوحاً كما مرّ" بلکہ اگر اسم غیر منصرف پرعامل جار داخل ہوگا تو اس کے آخر میں فتحہ پڑھاجاتا ہے، نہ کسرہ۔ جیسے جائنی احمدُ، رایت احمدَ، مررت باحمدَ۔

5

اسباب تسعہ کے بارے میں

اسباب منع صرف کی  وضاحت۔

عدل کسے کہتے ہیں؟ عدل کی مثال کیا ہے؟ عدل سے مراد کیاہے؟

فرماتے ہیں اسباب منع صرف میں سے ایک ہے عدل ۔ عدل کا مطلب کیا ہے؟ عدل کا مطلب یہ ہے، کہ ایک لفظ کا، اپنے اصلی صیغہ سے دوسرے صیغہ میں، تبدیل ہوجانا۔

عدل کی دو قسم ہیں:۱۔ عدل تحقیقی۲۔ عدل تقدیری

عدل تحقیقی وہ ہوتا ہے اس اسم کو غیر منصرف ہونے کے علاوہ کوئی اور چیز بھی  اس پر دلالت کررہی ہو کہ یہ لفظ یہ صیغہ فلان صیغہ سے عدول کرکے اس حالت میں آیا ہے، یعنی ایک تو وہ غیر منصرف ہے اور  ساتھ میں اس بات پر بھی دلالت کرتاہے کہ  اصل میں یہ تھا اور اس سے عدول کرکے یہ بن گیا۔

اس کے مقابل میں ہوگا عدل تقدیری، عدل تقدیری کیا ہوگا؟

اس کے علاوہ کہ اس کو  غیر منصرف پڑھنے کے  لیے ہمارے پاس کوئی اور  دلیل موجود نہ ہو جو یہ بتا رہی ہو،  کہ اصل میں     صیغہ یہ تھا اور اس سے عدول کرکے اب یہ بنا ہے، بلکہ ہم فرض کرتے ہیں کہ گویا پہلے یہ تھا اور اب یہ ہوگیا ہے۔

عدل تحقیقی کی مثال ثُلٰث  اب یہ اصل میں تھا، ثلاثۃ  ثلاثہ دو دفعہ تھا یہ  تبدیل ہوکے ثُلٰث بنا ہے۔

عدل تقدیری جیسے، عُمَر وزُفَر ،اب ہمارے  پاس باہر سے کوئی اور دلیل نہیں ہے کہ  جو اس کو بتائے بلکہ ہم خود فرض کرتے ہیں، کہ (عمر) اصل میں گویا(عامر) تھا اور "زفر" زافر تھا۔

 ہم نے عرض کیا کہ غیر منصرف وہ ہوتا ہے، جس میں اسباب منع صرف میں سے دو سبب موجود ہوں گے، تو اسے غیر منصرف کہا جائےگا۔

تو اگر  ایک سبب عدل ہو  تو دوسرا سبب وزن الفعل نہیں ہوسکتا، وزن الفعل اور عدل جمع نہیں ہوسکتے ہیں البتہ ایک سبب عدل ہو اور دوسرا عّلم ہو یا ایک سبب عدل ہو دوسرا وصف ہو کوئی مسلہ نہیں۔

عدل اور وزن الفعل جمع کیوں نہیں ہوسکتے ہیں؟

وجہ یہ ہے کہ عدل کے تقریبا چھ اوزان ہیں  ۔اور فعل کا کوئی بھی وزن ان جیسا نہیں ہے یعنی وزن الفعل عدل کے ان چھ اوزان میں سے کسی ایک کےجیسا نہیں ہے۔

لہذا فعل کے اوزان مختلف ہیں جبکہ ان کے اوزان اور ہیں۔

مثلا عدل کے اوزان ہیں، فعال جیسے ثلاث، مفعل،مثلث۔ فعل جیسے عمر، ۔۔۔ اب آب غور کریں ان چھ میں سے کسی بھی ایک کے وزن پر  وزن الفعل نہیں آتا ہے۔لذا یہ دونوں جمع بھی نہیں ہوتےہیں۔

أمّا العدل فهو تغيير اللفظ من صيغته الأصليّة إلى صيغة اُخرى" اسباب منع صرف میں سے ایک عدل ہے، عدل یعنی  اپنے صیغہ اصلی سے کسی اور صیغہ میں  لفظ کاتبدیل ہوجانا۔

"وهو على قسمين :تحقيقاً وتقديراً" یہ عدل یا تحقیقی ہے یا تقدیری ہے۔"فلا يجتمع مع وزن الفعل أصلاً "عدل  کبھی بھی وزن الفعل کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ہے۔"ويجتمع مع العَلَمِيّة كعُمَر وزُفَر" ہاں البتہ عدل علمیت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے، جیسے عمر اور زفر۔

"ويجتمع مع الوصف"اسی طرح وصف کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے، جیسے(ثُلٰث یہ عدل اور وصف ہے) ثُلٰث ومَثْلَث واُخَر وجُمَع)۔

6

وصف اور باقی اسباب منع صرف کی بحث

أمّا الوصف

اسباب منع صرف میں سے ایک وصف ہے فرماتے ہیں  یہ بھی اسباب منع صرف میں سے ایک ہے لیکن یہ کبھی علم کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی اسم  میں ایک سبب وصف ہو  اور دوسرا علم ہو، ایسا نہیں ہوسکتا ہے، وصف  کے غیر منصرف ہونے  کی شرط   یہ  ہے کہ وہ اصل وضع میں وصف کے لئے وضع کیا گیا ہو۔

لیکن اگر وہ صفت واقع ہورہا ہو، لیکن اصل وضع میں وہ صفت کے لئے نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اسباب منع صرف میں سے نہیں ہوگا۔

یہ وصف اور علمیت کیوں جمع نہیں ہو سکتی ہیں؟

وصف میں عموم پایا جاتا ہے،جبکہ علم مخصوص ہوتا ہے،لہذا عام اور خاص ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں۔

فرماتے ہیں:"أمّا الوصف : (فلا يجتمع مع العَلَمِيّة أصلاً"کبھی بھی وصف علمیت کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ہے، "وشرطه" اس صورت میں یہ وصف اسباب منع صرف میں سے ہوگی"أن يكون وصفاً في أصل الوضع " کہ اصل وضع میں وہ صفت کے لئے ہو، بنایا ہی صفت کے لئے ہو، نہ کہ صفت واقع ہورہا ہو جیسے ہم کہتے ہیں"أسْوَد وأَرْقَم" یہ دونوں غیر منصرف ہیں اگر چہ یہ سانپوں کے نام بن گئے ہیں ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں؟" لأصالتهما في الوصفيّة" اس لیے کہ اصل میں تو یہ صفت کے لیے  تھے ۔ جیسے"مَرَرْتُ بِنِسْوَةٍ أَرْبَعٍ "اربع اگر چہ نسوہ کی صفت ہے پھر بھی ہم اس کو غیر منصرف نہیں پڑھیں گے با وجود اس کے کہ اس میں وصف اور وزن الفعل پایا جاتاہے"مع أنّ فيه وصفيّة ووزن الفعل" کیوں؟"لعدم الأصليّة في الوصف" اس لیے کہ یہ اربع اصل میں وصف کے لیے نہیں بنا ہے،لہذا یہ منصرف ہے۔

اسباب منع صرف میں سے تیسرا"أمّا التأنيث بالتاء"تانیث ہے، تانیث کبھی لفظی ہوتی ہے اور کبھی معنوی۔

تانیث کی دو قسمیں ہیں :۱۔لفظی۲۔ معنوی

 تانیث لفظی اسے کہتے ہیں جس میں علامت تانیث لفظوں میں موجود ہو، جیسے طالبۃ اور معنوی وہ ہوتی ہے کہ جس میں علامت تانیث لفظوں میں موجود نہ ہو، جیسے بشری۔

تاء تانیث سے مراد وہ تاء ہے کہ وہ اسم کے آخر میں آتی ہے اور وقف کی صورت میں ساقط ہوجاتی ہے، یعنی اگر  عامل ہوگا تو ہم طالبۃُُ پڑھیں گے، لیکن اگر کوئی عامل نہیں ہوگا تو ہم پڑھیں گے طالبہ۔

"أمّا التأنيث بالتاء"اسباب منع صرف میں سے تیسرا  تانیث ہے "فشرطه أن يكون عَلَماً"  اس کے غیر منصرف کے سبب بننے کی شرط یہ ہے کہ وہ علم ہو جیسے،طَلْحَة ، طلحہ میں دو سبب پائےجاتے ہیں ایک ہے علم اور دوسرا تاء تانیث ہے"وكذا المعنويّ" اسی طرح تانیث معنوی ہوتی ہے، ظاہرا اس میں علامت تانیث موجود نہیں ہوتی ہے" ثمّ المؤنّث المعنويّ"اب یہ مؤنث معنوی ہوگی"إن كان ثلاثيّاً" اگر  وہ اسم ثلاثی ہو"ساكن الوسط"درمیان والا حرف ساکن ہو"غير أعجميّ "اور وہ عجمی بھی نہ ہو"يجوز صرفه مع وجود السببين" آپ چاہیں تو اس کو منصرف بھی  پڑھ سکتے ہیں اور غیر منصرف بھی  کیوں؟"لأجل الخِفّةِ" اس لیے کہ وہ خفیف ہوتا ہے جیسے ہند "وإلّا يجب منعه" اگر وہ ثلاثی،ساکن اوسط اور اعجمی نہ ہو، پھر اس کو غیر منصرف پڑھناواجب ہے، جیسے زَيْنَب ( ثلاثی نہیں ہے)، وسَقَر(ساکن اوسط نہیں ہے)ماه ، وجُوْر۔

آگے فرماتے ہیں "والتأنيث بالألف المقصورة" کبھی کبھی تانیث کے لئے تاء نہیں ہوتی ہے بلکہ اسکے آخر میں الف مقصورہ ہوتی ہے جیسے حُبْلى "والممدودة" اور کبھی کبھی الف ممدودہ آتی ہے، جیسےحْمراء۔"ممتنع صرفه البتّة" اگر کوئی اسم مؤنث ہو اور اس میں علامت تانیث الف مقصورہ یا الف ممدودہ ہو تو اس کو غیر منصرف پڑھنا لازم ہے کیوں ؟

" لأنّ الألف ، قائم مقام السببين ، التأنيث ولزومه" وہ اس لیے کہ یہ الف مقصورہ اور الف ممدودہ قائم مقام دو سبب ہیں ، تانیث اور لزوم تانیث کے۔

"وأمّا المعرفة: فلا يعتبر في منع الصرف بها إلّا العلميّة" اور چوتھا  معرفہ  ہے ،معرفہ کو سبب منع صرف ہونے میں علمیت  شرط ہے۔"وتجتمع مع غير الوصف"  اور یہ جمع ہوجاتا ہے وصف کے علاوہ باقی تمام اسباب کے ساتھ ۔ کیونکہ وصف میں عموم پایاجاتا ہے، اور  معرفہ میں اختصاص پایا جاتا ہے، اور عموم ور خصوص یہ جمع نہیں ہوجاتے ہیں۔

يسقطان عند الإضافة نحو : جاءني غُلاما زَيْدٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ.

السابع : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بتقدير الفتحة والجرّ بتقدير الكسرة. ويختصّ بالمقصور ، وهو ما آخره ألف مقصورة ك‍ : عصا ، وبالمضاف إلى ياء المتكلّم غير التثنية والجمع المذكّر السالم ك‍ : غُلامي ، تقول : جاءني الْعَصا وغُلامي ، ورَأَيْتُ الْعَصا وغُلامي ، ومَرَرْتُ بِالعَصا وغُلامي.

الثامن : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بالفتحة لفظاً والجرّ بتقدير الكسرة ، ويختصّ بالمنقوص وهو ما آخره ياء مكسور ما قبلها كالقاضي ، تقول : جاءني الْقاضي ، ورَأَيْتُ الْقاضِيَ ، ومَرَرْتُ بِالْقاضي.

التاسع : أن يكون الرفع بتقدير الواو والنصب والجرّ بالياء لفظاً. ويختصّ بالجمع المذكّر السالم مضافاً إلى ياء المتكلّم. تقول : جاءني مُسْلِمِيّ ، أصله مُسْلِمُويَ اجتمعت الواو والياء في كلمة واحدة والاُولى منهما ساكنة فقلبت الواو ياء واُدغمت الياء في الياء ، واُبدلت الضمّة بالكسرة مناسبة للياء فصار : مُسْلِمِيَّ ، ورَأَيْتُ مُسْلِمِيَّ ومَرَرْتُ بِمُسْلِمِيَّ.

الفصل الثالث : الاسم المعرب على نوعين

منصرف ، وهو ما ليس فيه سببان من الأسباب التسعة كَزيْد ، ويسمّى متمكّناً ، وحكمه أن تدخله الحركات الثلاث مع التنوين مثل أن تقول : جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، ومَرَرْتُ بِزَيْدٍ.

وغير منصرف ، وهو ما فيه سببان من الأسباب التسعة ، أو واحدة منها تقوم مقامها.

والأسباب التسعة هي : العَدل ، والوصف ، والتّأنيث ، والمعرفة ،

والعُجمة ، والجمع ، والتركيب ، ووزن الفعل ، والألف والنون الزائدتان. وحكمه أن لا تدخله الكسرة والتنوين ، ويكون في موضع الجرّ مفتوحاً كما مرّ.

أمّا العدل : فهو تغيير اللفظ من صيغته الأصليّة إلى صيغة اُخرى ، وهو على قسمين :

تحقيقاً وتقديراً ، فلا يجتمع مع وزن الفعل أصلاً ، ويجتمع مع العَلَمِيّة كعُمَر وزُفَر. ويجتمع مع الوصف ثُلٰث ومَثْلَث واُخَر وجُمَع.

أمّا الوصف : فلا يجتمع مع العَلَمِيّة أصلاً ، وشرطه أن يكون وصفاً في أصل الوضع ، فأسْوَد وأَرْقَم غير منصرف ، وإن صارا اسمين للحيّة لأصالتهما في الوصفيّة. وأَرْبَع في قولك : مَرَرْتُ بِنِسْوَةٍ أَرْبَعٍ ، منصرف مع أنّ فيه وصفيّة ووزن الفعل لعدم الأصليّة في الوصف.

أمّا التأنيث بالتاء : فشرطه أن يكون عَلَماً كطَلْحَة ، وكذا المعنويّ كزَيْنَب. ثمّ المؤنّث المعنويّ إن كان ثلاثيّاً ، ساكن الوسط ، غير أعجميّ يجوز صرفه مع وجود السببين كهِنْد ، لأجل الخِفّةِ ، وإلّا يجب منعه كزَيْنَب ، وسَقَر ، وماه ، وجُوْر.

والتأنيث بالألف المقصورة كحُبْلى ، والممدودة كَحْمراء ممتنع صرفه البتّة ، لأنّ الألف ، قائم مقام السببين ، التأنيث ولزومه.

وأمّا المعرفة : فلا يعتبر في منع الصرف بها إلّا العلميّة ، وتجتمع مع غير الوصف.

وأمّا العُجمة : فشرطها أن تكون عَلَماً في العجميّة وزائدةً على ثلاثة أحرف ك‍ : إبراهيم وإسماعيل ، أو ثلاثيّاً متحرّك الوسط ك‍ : سَقَر ، فَلِجام منصرف ، لعدم العَلَمِيّة في العجميّة ، ونوح ولوط منصرف ، لسكون الأوسط.

أمّا الجمع : فشرطه أن يكون على صيغة منتهى الجموع ، وهو أن يكون