الثاني : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالكسرة
اگر عامل رافع ہوگا تو  ہم اس اسم کے آخر پر ضمہ پڑھیں گے لیکن اگر عامل ناصب یا جار ہوگا تو ہم اس اسم کے آخر پر صرف کسرہ پڑھیں گے ۔
"الثاني : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالكسرة " یہ اعراب  جمع مؤنث سالم کے ساتھ مختص ہے۔
 جمع مؤنث سالم ہروہ  اسم ہے   جس کی جمع الف اور تاء کے ساتھ آتی ہو ۔جیسے مُسْلِمات،سالم کیوں کہا؟  چونکہ اس میں واحد کی بناسالم ہے ، واحد کیا تھا مُسلم ۔جاءني مُسْلِماتٌ حالت رفع ضمہ کے ساتھ "ورَأَيْتُ مُسْلِماتٍ ومَرَرْتُ بِمُسْلِماتٍ"رایت کے بعدبھی مسلماتِِ کسرہ عامل ناصب ہیں اور مررت کے بعد بھی مسلماتِِ پڑھا چونکہ عامل جار ہے۔ کیو ں ؟اس    لیے کہ  جمع مؤنث سالم کے اعراب فقط رفع کی صورت میں ضمہ پڑھتے ہیں اور نصب و جر کی حالت میں کسرہ پڑھتے ہیں۔
"الثالث : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالفتحة " رفع کی حالت میں ضمہ نصب اور جر کی حالت میں فتحہ ہو گا۔
" ويختصّ بغير المنصرف" یہ اعراب اسم غیر منصرف کے ساتھ مختص ہیں۔ مثال جیسے عمر،
 جاءني عُمَرُ   پس جاء رافع تھالذا ہم نے ضمہ پڑھا" رَأيْتُ عُمَرَ"رایت ناصب تھا اس لیے ہم نے فتحہ پڑھا"مَرَرْتُ بِعُمَرَ  باء جار تھی  اس کےبا وجود ہم نے فتحہ پڑھا چونکہ عمر غیر منصرف ہے نصب اور جر کی حالت  فتحہ کے ساتھ ہو  گی۔یہ جو تین قسمیں اعراب کی ہم نے پڑھی ان تینوں قسموں کو اعراب بالحرکت کہتے ہیں، چونکہ اسم میں فقط  حرکت تبدیل ہوتی ہے اس اسم کے حروف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔
"الرابع : أن يكون الرفع بالواو والنصب بالألف والجرّ بالياء"
چوتھی قسم اس کواعراب بالحروف  کہتے ہیں یہاں حرف   کی تبدیلی کے ساتھ ہے۔یہاں  زبر، زیر  اور پیش کا مسلہ نہیں ہے یہاں حرف کا مسلہ ہے مثلا اگر عامل رافع ہوگا ہم اس اسم کے آخر میں واو پڑھیں گے،اگر عامل ناصب ہوگا تو ہم  الف پڑھیں گے اور اگر عامل جار ہوگا تو ہم اس کے آخر میں یاء پڑھیں گے۔ ظاہر ہے یہ واو ، الف اور یاء حروف ہیں  ان کو  اعراب بالحرف کہا جاتا ہے۔
 اعراب کس کا ہے؟
فرماتے ہیں : اسماء ستہ (چھ) اسم ہیں جب وہ مکبرہ ہوں یعنی ان کی تصغیر نہ کی گئی ہو، وہ یہ ہیں۔
۱۔أخُ ۲۔أبُ۳۔حَمُ( دیور)۴۔هَنُ ( گندی بات) ۵۔فُم(منہ) ۶۔ذُو مالٍ(مالدار).
یہ چھ اسماء  جب مکبرہ ہوں ، یعنی ان کی تصغیر نہ کی گئی ہو تو ان کا اعراب بالحرف ہوتا ہے۔ کیا مطلب یعنی اگر عامل رافع ہوگا تو  ان کے آخر میں واو پڑھیں گے اور اگر عام ناصب ہوگا تو  آخر میں الف پڑھیں گے اور اگر عامل جار ہوگا تو اس کے آخر میں یاء پڑھیں گے۔
"الرابع : أن يكون الرفع  بالواو "رفع واو کے ساتھ "والنصب بالألف" نصبی حالت میں الف "والجرّ بالياء" جر یاء کے ساتھ۔"ويختصّ بالأسماء الستة " یہ اعراب کی قسم  فقط   چھ اسماء کے ساتھ مختص ہے "مكبّرة " جب ان کی تصغیر  نہ کی گئی ہو"موحّدة " جب وہ موحد(واحد) ہو"مضافةً إلى غير ياء المتكلّم" اور  یاء متکلم کے علاوہ کسی اور  اسم کی طرف  مضاف ہو تو اس کا اعراب یہی ہوگا۔مثال" هي : أخُوكَ"  "ھی "مبتداء اخوک خبر  اخ  کاف کی طرف مضاف ہے  یاء متکلم کی طرف مضاف نہیں ہے "وأبُوكَ وحَمُوكَ وهَنُوكَ وفُوكَ وذُو مالٍ" ان سب کو  واو کے ساتھ پڑھیں گے۔
"ورَأيْتُ أخاكَ"اخا الف کے ساتھ پڑھیں گے۔"ومَرَرْتُ بأخيكَ" یہاں اخ کے بعد ہم نے یاء پڑھا ہے کیوں کہ  اس لئے کہ اخ سے پہلے باء جارہ  ہے ہم نے کہا ہے کہ اگر عامل جار  ہوتو ہم نے یاء کے ساتھ پڑھنا ہے۔ اور اگر عامل ناصب ہو تو الف کے ساتھ پڑھنا ہے لذا ہم نے اخاک پڑھا ہے۔ باقی مثالیں اسی طرح۔
"الخامس : أَن يكون الرفع بالألف والنصب والجرّ بالياء المفتوح ما قبلها"
اعراب کی پانچویں قسم  یہ ہے  کہ رفع الف کے ساتھ اور نصب اور جر  یاء کے ساتھ اور ماقبل  مفتوح ہوگا۔
اگر عامل رافع ہوگا تو  اس پر الف پڑھیں گے اور اگر عامل ناصب اور جار  ہوگا تو اس آخر میں یاء پڑھیں گے لیکن یاء کے ماقبل مفتوح ہوگا۔
"ويختصّ بالمثنّى" یہ قسم  تثنیہ کے ساتھ مختص ہے۔"وكِلا وكِلْتا مضافين إلى ضمير" جب  کلا اور کلتاضمیر   کی طرف مضاف ہوں، اور"واثنين واثنتين"کے ساتھ مخصوص ہے۔پس یہ اعراب مختص ہوگا۔
۱۔ تثنیہ کے ساتھ۔
۲۔جب کلا اور کلتا جبط ضمیر کی طرف مضاف ہو۔
۳۔اثنین اور اثنتین۔
لہذا ہم کہیں گے"جاءني الرَّجُلانِ كِلاهُما واثْنانِ" آپ نے دیکھا کہ رفعی حالت الف کے ساتھ. نصب کی صورت "ورَأيْتُ الرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ" یہاں آخر میں یاء ہے لیکن یاء کے ماقبل مفتوح ہے۔"ومَرَرْتُ بِالرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ" آپ نے دیکھا کہ رجلین آخر میں یاء ہے لیکن ماقبل یاء فتحہ ہے۔
"السادس : أن يكون الرفع بالواو المضموم ما قبلها والنصب والجرّ بالياء المكسور ما قبلها"
اب آپ نے دکھا کہ فقط پہلی تین قسمیں تھیں جن کا اعراب بالحرکت تھا۔ اور باقی کا اعراب بالحرف تھا۔
اپ چھٹی قسم کے اعراب کیا ہے؟
رفع واو کے ساتھ جس کا ماقبل مضموم ہوگا۔ نصب اور جر یاء کے ساتھ جس کا ماقبل مکسور ہوگا۔
یہ  کن اسماء کے ساتھ مختص ہے؟"ويختصّ بالجمع المذكّر السالم"
۱۔ یہ مختص ہے جمع مذکر سالم کے ساتھ۔
۲۔اُولُو کے ساتھ۔
۳۔ عِشْرُونَ، ثلاثون، اربعون، خمسون سے لیکر تسعون تک۔"وعِشْرينَ مع أخواتها "
مثال"جاءني مُسْلِمُونَ "  مسلمون جاءنی کا فاعل ہے،لہذا رفعہ  واو کے ساتھ۔
"ورَأَيْتُ مُسْلِمينَ وعِشْرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ ، ومَرَرْتُ بِمُسْلِمينَ وعِشرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ"
مسلمین رایت کامفعول تھا ہم نے مسلمین پڑھا یاء  کے ساتھ جس  کا ماقبل مکسور ہے۔
"واعلم أنّ نون التثنية مكسورة أبداً ونون الجمع مفتوحة أبداً"
نون تثنیہ ہمیشہ مکسور ہوتی ہے( زیر ہوتی ہے)اور جمع سالم کی نون ہمیشہ مفتوح ہوتی ہے ۔
"وهمايسقطان عند الإضافة" اگر تثنیہ یا جمع کو مضاف کیا جائے تو  اس وقت یہ دونوں کی  نون گرجاتی ہیں۔ جیسے جاءني غُلاما زَيْدٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ۔ غلامان میں نون تثنیہ گری ہے اور مسلمون میں نون جمع گری ہے۔
نون تثنیہ پر کسرہ کیوں ہوتا ہے؟
اس لئے کہ نون حرف ہے اور حروف مبنی علی السکون ہوتے ہیں جن پر کوئی حرکت نہیں ہوتی ہے، اب ہم  نےان کو حرکت دینی ہے تو نحو میں ایک قانون ہے ان الساکن اذا حرک حرک بالکسر ، اگر کسی ساکن کو حرکت دینا چاہتے ہیں تو  اس کو  کسرہ کے ساتھ حرکت دیں۔
جمع  کی نون کو فتحہ دیا تاکہ نون تثنیہ اور جمع میں  فرق ہوجائے۔
"السابع : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بتقدير الفتحة والجرّ بتقدير الكسرة"
اعراب کی ساتویں قسم اعراب تقدیری ہے رفع تقدیری ضمہ کے ساتھ نصب تقدیری فتحہ کے ساتھ اور جر تقدیری کسرہ کے ساتھ۔
یعنی اگر عامل رافع ہوگا تو ہم تقدیر ی ضمہ ہو گا، عامل ناصب ہوگا تو  فتحہ تقدیری ہوگا اور عامل جار ہوگا تو کسرہ تقدیری ہوگا۔
"ويختصّ بالمقصور ، وهو ما آخره ألف مقصورة " یہ تقدیری اعراب کس کا ہے،؟ یہ اسم مکسور کا ہے ، کہ جس میں رفع نصب جر  تینوں صورتوں میں اعراب تقدیری ہوگا۔
سوال اسم مقصور کسے کہتے ہیں؟
۱۔" وهو ما آخره ألف مقصورة " جس کے آخر میں الف مقصورہ ہو جیسے عصا،
۲۔"وبالمضاف إلى ياء المتكلّم غير التثنية والجمع المذكّر السالم"  یہ اعراب تقدیری اس اسم کا ہوگا، جو اسم مضاف ہو یاء متکلم کی طرف، لیکن وہ جمع مذکر سالم نہ ہو، جیسے "جاءني الْعَصا وغُلامي"  رفعی حالت ہے "ورَأَيْتُ الْعَصا وغُلامي، ومَرَرْتُ بِالعَصا وغُلامي"ان تینوں میں لفظا کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن پہلی میں ضمہ  ، دوسری میں فتحہ اور تیسری میں کسرہ تقدیر میں ہے۔
اسم مقصور کو اسم مقصور کیوں کہتے ہیں؟
قصر کا معنی منع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بھی مختلف قسم کے اعراب کو  اپنے اوپر منع کرتا ہے اس لئے اس کو اسم مقصور کہتے ہیں۔
"الثامن : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بالفتحة لفظاً والجرّ بتقدير الكسرة"
آٹھویں قسم، رفع تقدیری ضمہ کے ساتھ اور نصب لفظی فتحہ کے ساتھ اور جر تقدیری کسرہ کے ساتھ۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ عامل رافع ہوگا تو اس پر ضمہ تقدیری ہوگا،عامل جار ہوگا تو کسرہ بھی تقدیری ہوگا۔لیکن اگر عامل ناصب ہوگا تو فتحہ لفظا پڑھیں گے۔
یہ اعراب  اسم منقوص  کا ہے ؟"ويختصّ بالمنقوص وهو ما آخره ياء مكسور ما قبلها"
اسم منقوص کسے کہتے ہیں؟ اسم منقوص ہر اس اسم کو کہتےہیں جس کے آخر میں یاء ہو اور یاء سے پہلے والا حرف مکسورہو۔ جیسے "جاءني الْقاضي ، ورَأَيْتُ الْقاضِيَ ، ومَرَرْتُ بِالْقاضي"۔
"التاسع : أن يكون الرفع بتقدير الواو والنصب والجرّ بالياء لفظاً"
نویں قسم کیاہے؟اگر عامل رافع ہوگا تو رفعہ تقدیر واو، اگر عامل ناصب اور جار ہوگا تویاء کو لفظا پڑھیں گے۔ 
یہ کس کا اعراب ہے؟"ويختصّ بالجمع المذكّر السالم مضافاً إلى ياء المتكلّم" یہ  اعراب جمع مذکر سالم کے ساتھ مختص ہے  جب وہ مضاف ہویاء متکلم کی طرف جیسے" جاءني مُسْلِمِيّ" اصل میں تھامُسْلِمُويَ، واو اور یاء  ایک کلمہ  میں جمع ہو    گئے واو کو  یاء میں تبدیل کیا اور یاء کو یاء میں ادغام کیا پھر ضمہ کو یا ء کی خاطر ، کسرہ میں تبدیل کیا پھر ہوگیا" مُسْلِمِيَّ"
 اعراب کے ساتھ یوں پڑھیں گے،  "ورَأَيْتُ مُسْلِمِيَّ ومَرَرْتُ بِمُسْلِمِيَّ"۔