درس الهدایة في النحو

درس نمبر 6: اسم کے اعراب کی اقسام

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم معرب کی اقسام (اصناف)

اسم معرب کی تعریف ہم نے یہ پڑھی اسم معرب وہ ہوتا ہے کہ جس کا آخر عوامل کے اختلاف سے، مختلف ہوجاتا ہے تبدیل ہوجاتا ہے۔

آج ایک مشہور بحث ہے اعراب کی قسموں کے بارے میں ۔

فرماتے ہیں اسم کے اعراب کی نو قسمیں ہیں:

 کیا مطلب؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اسم معرب کا اعراب ایک جیسا نہیں ہوتا ہے، جتنے بھی اسماء معرب ہیں اسماء متمکن ہیں یہ معرب ہوتے ہیں ان کا آخر عوامل کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے لیکن سب کےآخر کا یہ اختلاف ایک جیسا نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ جو ہم  اعراب کی نو اقسام آج بیان کررہے ہیں ہر اسم معرب ان میں سے کسی ایک اعراب کا حامل ہوگا۔

نو اقسام ہیں اس کا مطلب یہ ہےکہ ہر اسم معرب کا اعراب ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔ جتنے بھی اسماء معرب ہیں اسماء متمکن ہیں یہ معرب ہوتے ہیں ان کا آخر عوامل کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے، لیکن سب کے آخر کا اختلاف ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ جو ہم  اعراب  کی نو اقسام آج  بیان کر رہے ہیں۔ ہر اسم معرب ان میں سے کسی ایک ایک اعراب کا حامل ہوگا۔

یعنی یا اس اسم معرب پر پہلی قسم اعرب کی آئےگی یا دوسری قسم یا تیسری قسم۔ایسا نہیں کہ جو بھی اسم معرب ہوگا اس کا اعراب ایک جیسا ہوگا۔بلکہ ہر اسم معرب کا اعراب اس کے اپنے حساب سے ہوتا ہے، کسی پر قسم اول کا اعراب اور کسی پر قسم دوم کا اعراب۔ مجموعا اعراب کی نو قسمں ہیں۔ اسم معرب کے اعراب کی نو قسمیں ہیں، اب کچھ اسماء ہوں گے جو قسم اول میں آئیں گے اور کچھ اسم دوم میں اور،۔۔۔

 مثلا قسم اول کیا ہے؟

عامل رافع ہوگا تو ہم اس کے آخر میں ضمہ پڑھیں گے، عامل ناصب ہوگا تو ہم اس کے آخر میں فتحہ پڑیں گے، عامل جار ہوگا تو ہم اس کے آخر میں کسرہ پڑھیں گے یعنی جیسا جیسا عامل ہوگا ویسا ویسا اعراب ہوں گے۔

یہ کس اسم معرب کا اعراب ہے؟

۱۔ وہ اسم جو مفرد ہو۔

۲۔منصرف ہو

۳۔صحیح ہو

مفرد سے مراد کیا ہے؟ یعنی جو تثنیہ اور جمع نہ ہو، منصرف ہو یعنی غیر منصرف نہ ہو،صحیح ہو ، ہم نے صّرف میں پڑھاتھا کہ صحیح اسے کہتے ہیں جس میں نہ حرف علت ہو، نہ ہمزہ ہو،اور  نہ  مضاعف(دو حرف ایک جنس ) ہو۔

لیکن نحو والے صحیح اسے کہتے ہیں  کہ جس کے آخر میں حرف علت نہ ہو بیشک اس سے پہلے حرف علت آجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔یا وہ جاری مجرای صحیح ہو یعنی صحیح کا قائم مقام ہو۔

جاری مجرای صحیح کسے کہتے ہیں؟

ہر وہ اسم جس کے آخر میں" واو "یا "یاء" ہو اور اس کا ما قبل ساکن ہو اس کو نحوی جاری مجرای صحیح کہتے ہیں۔

پس ہر وہ اسم جو صحیح ہو، مفرد بھی ہو منصرف بھی ہو یا قائم مقام صحیح ہو اس کے اعراب یہ ہیں ۔یعنی اعرب کی پہلی قسم اس پر رفعی حالت پر ضمہ ہوگا نصبی حالت میں فتحہ ہوگا اور جری حالت میں کسرہ ہوگا،جیسے جاءني زَيْدٌ۔رَأيْتُ زَيْداً،مَرَرْتُ بِزَيْدٍ۔

4

تطبیق متن (اسم معرب کی اقسام)

 دوسری فصل  اسم کے اعراب کی اقسام کے بارے میں ہے۔ اسم کے اعراب نو قسمیں ہیں؛

پہلی قسم"الأوّل  أن يكون الرفع بالضمّة" رفعی حالت ضمہ کے ساتھ یعنی اگر اس اسم کا عامل رافع ہوگا تو ہم اس اسم کے آخر پر ضمہ  پڑھیں گے"والنصب بالفتحة "نصبی حالت میں فتحہ کے ساتھ یعنی عامل ناصب ہوگاتو ہم اس اسم  پر فتحہ پڑھیں گے "والجرّ بالكسرة" اور اگر عامل جار ہوگا تو ہم اس کے آخر پر  زیر(کسرہ )پڑھیں گے۔

یہ کس  اسم معرب کا اعراب ہیں؟

فرماتے ہیں" ويختصّ بالاسم المفرد المنصرف الصحيح" یہ اعراب اس اسم کے ساتھ مختص ہیں  جو مفرد منصرف اور صحیح ہو، مفرد کا مطلب ہے تثنیہ اور جمع نہ ہو اور منصرف سےمطلب ہے کہ وہ غیر منصرف یہ ہو، صحیح کیا ہے"وهو عند النّحاة ما لا يكون آخره حرف العلّة" جس کے آخر میں حرف علت نہ ہو  جیسے زید۔یہ نحویوں کے نزدیک صحیح ہے لیکن صرفیوں کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔

"وبالجاري مجرى الصحيح" یہ اعراب اسم جاری مجرای صحیح کے بھی  ہیں، یعنی وہ اسم جو صحیح کا قائم مقام ہو۔

جاری مجرای صحیح کیا ہوتا ہے؟ـ

"وهو ما يكون آخره واو أو ياء ما قبلها ساكن"کہ جس کے آخر میں "واو" یا "یاء" ماقبل ساکن ہوں، ان دونوں کے ماقبل ساکن ہیں۔ جیسے دَلْو و ظَبْي۔

" وبالجمع المكسّر المنصرف"اور یہ اعراب جمع مکسر  منصرف کا ہے۔

پس اعراب کی پہلی قسم،رفع کی صورت میں ضمہ اورنصب کی صورت میں فتحہ اور جر کی صوت میں کسرہ یہ تین قسم کے اسماء پر یہ اعراب ہوگا۔

1۔ وہ اسم جو مفرد منصرف صحیح ہو۔

2۔وہ اسم جو جاری مجرای صحیح ہو۔

3۔وہ اسم جو جمع مکسر منصرف ہو، جمع مکسر، جمع مذکر سالم کے مقابلہ میں ہوتی ہے۔جمع مکسر اس کو کہتے ہیں جس میں واحد والی صورت باقی نہ ہو، جیسے ہم رجل کی جمع بناتے ہیں رجال، اس کےمقابل میں ہوتی ہے، جمع سالم جیسے مسلم سے مسلمات ۔

"جاءني زَيْدٌ"یہ مثال اسم مفرد منصرف صحیح کی ہوگی۔جاءني و دَلْوٌ و ظَبْيٌ  یہ جاری مجرای صحیح کی ہوگی۔

"جاءني رجالٌ"  یہ مثال جمع مکسر  منصرف کی ہوگی۔

"ورَأيْتُ زَيْداً" یہ مثال اسم مفرد منصرف صحیح کی  ہوگی۔"ودَلْواً و ظَبْياً"یہ مثال جاری مجرای صحیح کی  ہوگی۔"رایت رجالا"یہ مثال جمع مکسر منصرف کی ہوگی۔

"مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" یہ مثال اسم مفرد منصرف صحیح کی ہوگی۔"ودَلْوٍ وظَبْيٍ" یہ مثال جاری مجرای صحیح کی  ہوگی۔مررت برجال یہ  جمع مکسر منصرف کی ہوگی۔

آپ نے دیکھا کہ  جاء عامل رافع تھا تو ہم نے "زیدٌ" پڑھا۔رایت عامل ناصب تھا تو ہم نے زیداً پڑھا مررت بزید میں "باء" عامل جار تھا تو ہم نے زیدِِ پڑھا۔

5

اسم معرب کی دوسری قسم

الثاني : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالكسرة

اگر عامل رافع ہوگا تو  ہم اس اسم کے آخر پر ضمہ پڑھیں گے لیکن اگر عامل ناصب یا جار ہوگا تو ہم اس اسم کے آخر پر صرف کسرہ پڑھیں گے ۔

"الثاني : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالكسرة یہ اعراب  جمع مؤنث سالم کے ساتھ مختص ہے۔

 جمع مؤنث سالم ہروہ  اسم ہے   جس کی جمع الف اور تاء کے ساتھ آتی ہو ۔جیسے مُسْلِمات،سالم کیوں کہا؟  چونکہ اس میں واحد کی بناسالم ہے ، واحد کیا تھا مُسلم ۔جاءني مُسْلِماتٌ حالت رفع ضمہ کے ساتھ "ورَأَيْتُ مُسْلِماتٍ ومَرَرْتُ بِمُسْلِماتٍ"رایت کے بعدبھی مسلماتِِ کسرہ عامل ناصب ہیں اور مررت کے بعد بھی مسلماتِِ پڑھا چونکہ عامل جار ہے۔ کیو ں ؟اس    لیے کہ  جمع مؤنث سالم کے اعراب فقط رفع کی صورت میں ضمہ پڑھتے ہیں اور نصب و جر کی حالت میں کسرہ پڑھتے ہیں۔

"الثالث : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالفتحة " رفع کی حالت میں ضمہ نصب اور جر کی حالت میں فتحہ ہو گا۔

" ويختصّ بغير المنصرف" یہ اعراب اسم غیر منصرف کے ساتھ مختص ہیں۔ مثال جیسے عمر،

 جاءني عُمَرُ   پس جاء رافع تھالذا ہم نے ضمہ پڑھا" رَأيْتُ عُمَرَ"رایت ناصب تھا اس لیے ہم نے فتحہ پڑھا"مَرَرْتُ بِعُمَرَ  باء جار تھی  اس کےبا وجود ہم نے فتحہ پڑھا چونکہ عمر غیر منصرف ہے نصب اور جر کی حالت  فتحہ کے ساتھ ہو  گی۔یہ جو تین قسمیں اعراب کی ہم نے پڑھی ان تینوں قسموں کو اعراب بالحرکت کہتے ہیں، چونکہ اسم میں فقط  حرکت تبدیل ہوتی ہے اس اسم کے حروف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔

"الرابع : أن يكون الرفع بالواو والنصب بالألف والجرّ بالياء"

چوتھی قسم اس کواعراب بالحروف  کہتے ہیں یہاں حرف   کی تبدیلی کے ساتھ ہے۔یہاں  زبر، زیر  اور پیش کا مسلہ نہیں ہے یہاں حرف کا مسلہ ہے مثلا اگر عامل رافع ہوگا ہم اس اسم کے آخر میں واو پڑھیں گے،اگر عامل ناصب ہوگا تو ہم  الف پڑھیں گے اور اگر عامل جار ہوگا تو ہم اس کے آخر میں یاء پڑھیں گے۔ ظاہر ہے یہ واو ، الف اور یاء حروف ہیں  ان کو  اعراب بالحرف کہا جاتا ہے۔

 اعراب کس کا ہے؟

فرماتے ہیں : اسماء ستہ (چھ) اسم ہیں جب وہ مکبرہ ہوں یعنی ان کی تصغیر نہ کی گئی ہو، وہ یہ ہیں۔

۱۔أخُ ۲۔أبُ۳۔حَمُ( دیور)۴۔هَنُ ( گندی بات) ۵۔فُم(منہ) ۶۔ذُو مالٍ(مالدار).

یہ چھ اسماء  جب مکبرہ ہوں ، یعنی ان کی تصغیر نہ کی گئی ہو تو ان کا اعراب بالحرف ہوتا ہے۔ کیا مطلب یعنی اگر عامل رافع ہوگا تو  ان کے آخر میں واو پڑھیں گے اور اگر عام ناصب ہوگا تو  آخر میں الف پڑھیں گے اور اگر عامل جار ہوگا تو اس کے آخر میں یاء پڑھیں گے۔

"الرابع : أن يكون الرفع  بالواو "رفع واو کے ساتھ "والنصب بالألف" نصبی حالت میں الف "والجرّ بالياء" جر یاء کے ساتھ۔"ويختصّ بالأسماء الستة " یہ اعراب کی قسم  فقط   چھ اسماء کے ساتھ مختص ہے "مكبّرة " جب ان کی تصغیر  نہ کی گئی ہو"موحّدة " جب وہ موحد(واحد) ہو"مضافةً إلى غير ياء المتكلّم" اور  یاء متکلم کے علاوہ کسی اور  اسم کی طرف  مضاف ہو تو اس کا اعراب یہی ہوگا۔مثال" هي : أخُوكَ"  "ھی "مبتداء اخوک خبر  اخ  کاف کی طرف مضاف ہے  یاء متکلم کی طرف مضاف نہیں ہے "وأبُوكَ وحَمُوكَ وهَنُوكَ وفُوكَ وذُو مالٍ" ان سب کو  واو کے ساتھ پڑھیں گے۔

"ورَأيْتُ أخاكَ"اخا الف کے ساتھ پڑھیں گے۔"ومَرَرْتُ بأخيكَیہاں اخ کے بعد ہم نے یاء پڑھا ہے کیوں کہ  اس لئے کہ اخ سے پہلے باء جارہ  ہے ہم نے کہا ہے کہ اگر عامل جار  ہوتو ہم نے یاء کے ساتھ پڑھنا ہے۔ اور اگر عامل ناصب ہو تو الف کے ساتھ پڑھنا ہے لذا ہم نے اخاک پڑھا ہے۔ باقی مثالیں اسی طرح۔

"الخامس : أَن يكون الرفع بالألف والنصب والجرّ بالياء المفتوح ما قبلها"

اعراب کی پانچویں قسم  یہ ہے  کہ رفع الف کے ساتھ اور نصب اور جر  یاء کے ساتھ اور ماقبل  مفتوح ہوگا۔

اگر عامل رافع ہوگا تو  اس پر الف پڑھیں گے اور اگر عامل ناصب اور جار  ہوگا تو اس آخر میں یاء پڑھیں گے لیکن یاء کے ماقبل مفتوح ہوگا۔

"ويختصّ بالمثنّى" یہ قسم  تثنیہ کے ساتھ مختص ہے۔"وكِلا وكِلْتا مضافين إلى ضمير" جب  کلا اور کلتاضمیر   کی طرف مضاف ہوں، اور"واثنين واثنتين"کے ساتھ مخصوص ہے۔پس یہ اعراب مختص ہوگا۔

۱۔ تثنیہ کے ساتھ۔

۲۔جب کلا اور کلتا جبط ضمیر کی طرف مضاف ہو۔

۳۔اثنین اور اثنتین۔

لہذا ہم کہیں گے"جاءني الرَّجُلانِ كِلاهُما واثْنانِ" آپ نے دیکھا کہ رفعی حالت الف کے ساتھ. نصب کی صورت "ورَأيْتُ الرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ" یہاں آخر میں یاء ہے لیکن یاء کے ماقبل مفتوح ہے۔"ومَرَرْتُ بِالرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ" آپ نے دیکھا کہ رجلین آخر میں یاء ہے لیکن ماقبل یاء فتحہ ہے۔

"السادس : أن يكون الرفع بالواو المضموم ما قبلها والنصب والجرّ بالياء المكسور ما قبلها"

اب آپ نے دکھا کہ فقط پہلی تین قسمیں تھیں جن کا اعراب بالحرکت تھا۔ اور باقی کا اعراب بالحرف تھا۔

اپ چھٹی قسم کے اعراب کیا ہے؟

رفع واو کے ساتھ جس کا ماقبل مضموم ہوگا۔ نصب اور جر یاء کے ساتھ جس کا ماقبل مکسور ہوگا۔

یہ  کن اسماء کے ساتھ مختص ہے؟"ويختصّ بالجمع المذكّر السالم"

۱۔ یہ مختص ہے جمع مذکر سالم کے ساتھ۔

۲۔اُولُو کے ساتھ۔

۳۔ عِشْرُونَ، ثلاثون، اربعون، خمسون سے لیکر تسعون تک۔"وعِشْرينَ مع أخواتها "

مثال"جاءني مُسْلِمُونَ "  مسلمون جاءنی کا فاعل ہے،لہذا رفعہ  واو کے ساتھ۔

"ورَأَيْتُ مُسْلِمينَ وعِشْرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ ، ومَرَرْتُ بِمُسْلِمينَ وعِشرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ"

مسلمین رایت کامفعول تھا ہم نے مسلمین پڑھا یاء  کے ساتھ جس  کا ماقبل مکسور ہے۔

"واعلم أنّ نون التثنية مكسورة أبداً ونون الجمع مفتوحة أبداً"

نون تثنیہ ہمیشہ مکسور ہوتی ہے( زیر ہوتی ہے)اور جمع سالم کی نون ہمیشہ مفتوح ہوتی ہے ۔

"وهمايسقطان عند الإضافة" اگر تثنیہ یا جمع کو مضاف کیا جائے تو  اس وقت یہ دونوں کی  نون گرجاتی ہیں۔ جیسے جاءني غُلاما زَيْدٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ۔ غلامان میں نون تثنیہ گری ہے اور مسلمون میں نون جمع گری ہے۔

نون تثنیہ پر کسرہ کیوں ہوتا ہے؟

اس لئے کہ نون حرف ہے اور حروف مبنی علی السکون ہوتے ہیں جن پر کوئی حرکت نہیں ہوتی ہے، اب ہم  نےان کو حرکت دینی ہے تو نحو میں ایک قانون ہے ان الساکن اذا حرک حرک بالکسر ، اگر کسی ساکن کو حرکت دینا چاہتے ہیں تو  اس کو  کسرہ کے ساتھ حرکت دیں۔

جمع  کی نون کو فتحہ دیا تاکہ نون تثنیہ اور جمع میں  فرق ہوجائے۔

"السابع : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بتقدير الفتحة والجرّ بتقدير الكسرة"

اعراب کی ساتویں قسم اعراب تقدیری ہے رفع تقدیری ضمہ کے ساتھ نصب تقدیری فتحہ کے ساتھ اور جر تقدیری کسرہ کے ساتھ۔

یعنی اگر عامل رافع ہوگا تو ہم تقدیر ی ضمہ ہو گا، عامل ناصب ہوگا تو  فتحہ تقدیری ہوگا اور عامل جار ہوگا تو کسرہ تقدیری ہوگا۔

"ويختصّ بالمقصور ، وهو ما آخره ألف مقصورة " یہ تقدیری اعراب کس کا ہے،؟ یہ اسم مکسور کا ہے ، کہ جس میں رفع نصب جر  تینوں صورتوں میں اعراب تقدیری ہوگا۔

سوال اسم مقصور کسے کہتے ہیں؟

۱۔" وهو ما آخره ألف مقصورة " جس کے آخر میں الف مقصورہ ہو جیسے عصا،

۲۔"وبالمضاف إلى ياء المتكلّم غير التثنية والجمع المذكّر السالم"  یہ اعراب تقدیری اس اسم کا ہوگا، جو اسم مضاف ہو یاء متکلم کی طرف، لیکن وہ جمع مذکر سالم نہ ہو، جیسے "جاءني الْعَصا وغُلامي"  رفعی حالت ہے "ورَأَيْتُ الْعَصا وغُلامي، ومَرَرْتُ بِالعَصا وغُلامي"ان تینوں میں لفظا کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن پہلی میں ضمہ  ، دوسری میں فتحہ اور تیسری میں کسرہ تقدیر میں ہے۔

اسم مقصور کو اسم مقصور کیوں کہتے ہیں؟

قصر کا معنی منع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بھی مختلف قسم کے اعراب کو  اپنے اوپر منع کرتا ہے اس لئے اس کو اسم مقصور کہتے ہیں۔

"الثامن : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بالفتحة لفظاً والجرّ بتقدير الكسرة"

آٹھویں قسم، رفع تقدیری ضمہ کے ساتھ اور نصب لفظی فتحہ کے ساتھ اور جر تقدیری کسرہ کے ساتھ۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ عامل رافع ہوگا تو اس پر ضمہ تقدیری ہوگا،عامل جار ہوگا تو کسرہ بھی تقدیری ہوگا۔لیکن اگر عامل ناصب ہوگا تو فتحہ لفظا پڑھیں گے۔

یہ اعراب  اسم منقوص  کا ہے ؟"ويختصّ بالمنقوص وهو ما آخره ياء مكسور ما قبلها"

اسم منقوص کسے کہتے ہیں؟ اسم منقوص ہر اس اسم کو کہتےہیں جس کے آخر میں یاء ہو اور یاء سے پہلے والا حرف مکسورہو۔ جیسے "جاءني الْقاضي ، ورَأَيْتُ الْقاضِيَ ، ومَرَرْتُ بِالْقاضي

"التاسع : أن يكون الرفع بتقدير الواو والنصب والجرّ بالياء لفظاً"

نویں قسم کیاہے؟اگر عامل رافع ہوگا تو رفعہ تقدیر واو، اگر عامل ناصب اور جار ہوگا تویاء کو لفظا پڑھیں گے۔ 

یہ کس کا اعراب ہے؟"ويختصّ بالجمع المذكّر السالم مضافاً إلى ياء المتكلّم" یہ  اعراب جمع مذکر سالم کے ساتھ مختص ہے  جب وہ مضاف ہویاء متکلم کی طرف جیسے" جاءني مُسْلِمِيّ" اصل میں تھامُسْلِمُويَ، واو اور یاء  ایک کلمہ  میں جمع ہو    گئے واو کو  یاء میں تبدیل کیا اور یاء کو یاء میں ادغام کیا پھر ضمہ کو یا ء کی خاطر ، کسرہ میں تبدیل کیا پھر ہوگیا" مُسْلِمِيَّ"

 اعراب کے ساتھ یوں پڑھیں گے،  "ورَأَيْتُ مُسْلِمِيَّ ومَرَرْتُ بِمُسْلِمِيَّ

في بابين.

الباب الأوّل : في الاسم المعرب

وفيه مقدّمة وثلاث مقاصد وخاتمة. أمّا المقدّمة ففيها ثلاثة فصول.

الفصل الأوّل : في تعريف الاسم المعرب

وهو كلّ اسم رُكِّبَ مع غيره ولا يشبه مبنيّ الأصل ، أعني الحرف والفعل الماضي وأمر الحاضر نحو : زَيْدٌ ، في قامَ زَيْدٌ ، لا زَيْدٌ وحده لعدم التركيب ، ولا هٰؤُلاءِ في : قام هٰؤُلاءِ ، لوجود الشبه.

ويسمّى متمكّناً وحكمه أن يختلف آخره باختلاف العوامل ، اختلافاً لفظيّاً نحو : جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، أو تقديريّاً نحو : جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ.

والإعراب ما به يختلف آخر المعرب كالضمّة والفتحة والكسرة والواو والياء والألف.

وإعراب الاسم ثلاثة أنواع : رفع ونصب وجرّ. والعامل ما يحصل به رفع ونصب وجرّ. ومحلّ الإعراب من الاسم هو الحرف الآخر ، مثال الكلّ نحو : قامَ زَيْدٌ ، فـ «قامَ» عامل ، و «زَيْدٌ» معرب ، و «الضَّمَّة» إعراب ، «والدّالُ» محلّ الإعراب.

اعلم أنّه لا معرب في كلام العرب إلّا الاسم المتمكّن والفعل المضارع ، وسيجيء حكمه في القسم الثاني ، إن شاء الله تعالى.

الفصل الثانى : في أصناف إعراب الاسم وهي تسعة أصناف

الأوّل : أن يكون الرفع بالضمّة ، والنصب بالفتحة ، والجرّ بالكسرة.

ويختصّ بالاسم المفرد المنصرف الصحيح وهو عند النّحاة ما لا يكون آخره حرف العلّة كَزيْد ، وبالجاري مجرى الصحيح وهو ما يكون آخره واو أو ياء ما قبلها ساكن ك : دَلْو وظَبْي ، وبالجمع المكسّر المنصرف ك‍ : رجال ، تقول : جاءني زَيْدٌ ودَلْوٌ وظَبْيٌ ورجالٌ ، ورَأيْتُ زَيْداً ودَلْواً وظَبْياً ورجالاً ، ومَرَرْتُ بِزَيْدٍ ودَلْوٍ وظَبْيٍ ورجالٍ.

الثاني : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالكسرة ويختصّ بالجمع المؤنّث السالم ك‍ : مُسْلِمات ، تقول : جاءني مُسْلِماتٌ ، ورَأَيْتُ مُسْلِماتٍ ، ومَرَرْتُ بِمُسْلِماتٍ.

الثالث : أن يكون الرفع بالضمّة والنصب والجرّ بالفتحة ، ويختصّ بغير المنصرف ك‍ : عُمَر ، تقول : جاءني عُمَرُ ، رَأيْتُ عُمَرَ ، مَرَرْتُ بِعُمَرَ.

الرابع : أن يكون الرفع بالواو والنصب بالألف والجرّ بالياء. ويختصّ بالأسماء الستة مكبّرة موحّدة مضافةً إلى غير ياء المتكلّم. وهي : أخُوكَ وأبُوكَ وحَمُوكَ وهَنُوكَ وفُوكَ وذُو مالٍ. تقول : جاءني أخُوكَ ، ورَأيْتُ أخاكَ ، ومَرَرْتُ بأخيكَ ، وكذا البواقي.

الخامس : أَن يكون الرفع بالألف والنصب والجرّ بالياء المفتوح ما قبلها. ويختصّ بالمثنّى وكِلا وكِلْتا مضافين إلى ضمير ، واثنين واثنتين تقول : جاءني الرَّجُلانِ كِلاهُما واثْنانِ. ورَأيْتُ الرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ ، ومَرَرْتُ بِالرَّجُليْنِ كِلَيْهِما واثْنَيْنِ.

السادس : أن يكون الرفع بالواو المضموم ما قبلها والنصب والجرّ بالياء المكسور ما قبلها. ويختصّ بالجمع المذكّر السالم ، واُولي وعِشْرينَ مع أخواتها تقول : جاءني مُسْلِمُونَ وعِشْرُونَ رَجُلاً واُولُو مالٍ ، ورَأَيْتُ مُسْلِمينَ وعِشْرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ ، ومَرَرْتُ بِمُسْلِمينَ وعِشرينَ رَجُلاً واُولي مالٍ.

واعلم أنّ نون التثنية مكسورة أبداً ونون الجمع مفتوحة أبداً. وهما

يسقطان عند الإضافة نحو : جاءني غُلاما زَيْدٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ.

السابع : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بتقدير الفتحة والجرّ بتقدير الكسرة. ويختصّ بالمقصور ، وهو ما آخره ألف مقصورة ك‍ : عصا ، وبالمضاف إلى ياء المتكلّم غير التثنية والجمع المذكّر السالم ك‍ : غُلامي ، تقول : جاءني الْعَصا وغُلامي ، ورَأَيْتُ الْعَصا وغُلامي ، ومَرَرْتُ بِالعَصا وغُلامي.

الثامن : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة والنصب بالفتحة لفظاً والجرّ بتقدير الكسرة ، ويختصّ بالمنقوص وهو ما آخره ياء مكسور ما قبلها كالقاضي ، تقول : جاءني الْقاضي ، ورَأَيْتُ الْقاضِيَ ، ومَرَرْتُ بِالْقاضي.

التاسع : أن يكون الرفع بتقدير الواو والنصب والجرّ بالياء لفظاً. ويختصّ بالجمع المذكّر السالم مضافاً إلى ياء المتكلّم. تقول : جاءني مُسْلِمِيّ ، أصله مُسْلِمُويَ اجتمعت الواو والياء في كلمة واحدة والاُولى منهما ساكنة فقلبت الواو ياء واُدغمت الياء في الياء ، واُبدلت الضمّة بالكسرة مناسبة للياء فصار : مُسْلِمِيَّ ، ورَأَيْتُ مُسْلِمِيَّ ومَرَرْتُ بِمُسْلِمِيَّ.

الفصل الثالث : الاسم المعرب على نوعين

منصرف ، وهو ما ليس فيه سببان من الأسباب التسعة كَزيْد ، ويسمّى متمكّناً ، وحكمه أن تدخله الحركات الثلاث مع التنوين مثل أن تقول : جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، ومَرَرْتُ بِزَيْدٍ.

وغير منصرف ، وهو ما فيه سببان من الأسباب التسعة ، أو واحدة منها تقوم مقامها.

والأسباب التسعة هي : العَدل ، والوصف ، والتّأنيث ، والمعرفة ،