درس الهدایة في النحو

درس نمبر 5: اسم معرب اور مبنی کی اقسام

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم معرب اور مبنی

ابتدای کتاب میں ، صاحب ہدایہ نے فرمایا تھا میں نے اپنی کتاب کو تقسیم کیا ہے اس انداز  میں کہ سب سے پہلے مقدمہ ہوگا ، مقدمہ کے بعد  تین اقسام ہوں گی اور اس کے بعد  ایک خاتمہ ہوگا۔

مقدمہ میں انہوں نے علم نحو کی تعریف کو بیان فرمایا علم نحو کی غرض و غایت اور موضوع کو بیان فرمایا، گزشتہ دروس میں گزارش کی تھی کہ  ابتداء میں ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جس سے یہ  پتہ چل جاتا ہے  کہ بعد میں اس کتاب میں کن چیزوں کے بارے میں بحث ہو گی۔

مثلا علم نحو کی تعریف یہ کی تھی ـ"علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض"

توجہ کریں اشارہ ہے کہ اعراب اور بنا تعریف میں بھی کہا تھا کہ معرب اور مبنی کے آخر  کے حالات کو جانا جائےگا۔ اس کا مطلب   یہ ہے کوئی معرب  اور مبنی نام کی چیز ہے جس کی علم نحو میں بحث کی جاتی ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے کہا تھا ہمارا موضوع کلمہ اور کلام   تو ظاہر ہے یہ بھی بتایا کہ کلمہ اور کلام کیا ہیں اور کلمہ و کلام کسے کہتے ہیں۔ کلمہ کی اقسام کتنی ہیں ۔

 اب یہ جو پہلی، دوسری اور تیسری قسم ہے کلمہ کی جو تین قسمیں بنی تھیں اسم ، فعل اور حرف  در حقیقت یہ ساری کی ساری تفصیلات اسی کے بارے میں بیان کی جائیں گی چونکہ موضوع کلمہ اور کلام  ہے  تو ساری جو اقسام بیان ہو ں گی  اسی موضوع کے متعلق ہی ہو ں گی۔

اقسام ثلاثة میں سے پہلی قسم  اسم  سوال اسم کی تعریف  کیا ہے؟ فرماتے ہیں"وقد مرَّ تعريفه" وہ  ہم پہلے بتا چکے ہیں۔

فرماتے ہیں اس اسم کی دو قسمیں  ہیں:

۱۔ اسم معرب ۲۔اسم مبنی (یا یوں کہیں ہر اسم یا معرب ہے یا مبنی )۔

پھر انہوں نے تقسیم کیا  دوبابوں اور ایک خاتمہ میں۔

"الباب الأوّل : في الاسم المعرب" اس میں بہت سارے احکام آئیں گے۔دوسرے باب میں احکام آئیں گے۔اور ایک خاتمہ ہوگا۔

آپ کویاد ہوگا پہلے دن میں ہم نے کہا تھا کہ میں نے اس کتاب کو باب باب اور فصل فصل کرکے لکھاہے، کیوں؟ اس لیے  تا پڑھنے والے کوسکون سے سمجھ میں آجائے کہ باب اول میں علیحدہ بحث ہوگی باب ثانی میں کوئی اور بحث ہوگی۔ اور پھر فصل فصل کرکے ، فصل کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اس کا مطلب ہے   کہ پچھلی بحث مکمل ہوگئی ہے، اب ایک نئی بحث شروع ہوگی ۔

باب اول : معرب کے بارے میں ہم نے کہا تھا اسم کی دو قسمیں ہیں۔

پہلا سوال: اسم معرب کسے کہتے ہیں؟

اسم معرب ہر وہ اسم ہے جو غیر کے ساتھ مرکب ہو، مطلب کیا؟ یعنی اگر ایک لفظ کہیں نظر آجائے جو کسی اور کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو  کسی جملے میں نہ ہو اس ایک لفظ کو ہم معرب نہیں کہتے ہیں معرب اس اسم کو کہتے ہیں  جو غیر کے ساتھ  مرکب ہو اور وہ مبنی الاصل (جس کی اصل مبنی ہو)کے مشابہ بھی نہ  ہو ۔ 

مبنی الاصل تین چیزیں ہیں:  حروف، امر حاضر اور فعل ماضی۔

 تو اگر سوال ہو کہ اسم معرب کسے کہتے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا۔ ہر وہ اسم جو اپنے غیر کے ساتھ مرکب ہو اور  مبنی الاصل کے مشابہ بھی نہ ہو اسے  اسم معرب کہتے ہیں۔ لہذا قامَ زَيْدٌ، ضَرَبَ زیدٌ، نَصَرَ عمرو ، میں یہ زید اور عمرو  اسم معرب ہوں گے، اور اگر کہیں فقط اسم زید لکھا ہوا ہے، جو کسی اور کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہے، مرکب نہیں ہے کسی جملے کا حصہ نہیں ہے اس کو ہم معرب نہیں کہتے ہیں۔چونکہ اسم معرب ہوتا ہی وہ ہے کہ  جو کسی غیر کے ساتھ مرکب ہوجائے۔

اب اسم معرب کا حکم کیا ہے؟

اسم معرب کا حکم یہ ہے :"أن يختلف آخره باختلاف العوامل ، اختلافاً لفظيّاً "

اسم معرب وہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عامل بدلتا جائے اس کا اعراب بھی بدلتا جائے ۔

اب یہاں تین اصطلاحات ہیں:عامل، اعرب اور محل اعراب۔

مثلا قام زیدٌ ، قام عامل ہے جس نے اپنے فاعل جو کہ زید ہے رفع دیا دو پیش اعراب  ہیں اور دال  محل اعراب  ہے۔

اب جیسا عامل ہوگا ویسا اعراب اگر عامل  را فع ہو تو اس کے آخر کو رفع دے گا  عامل ناصب ہوگا تو منصوب پڑھیں گے عامل جار ہوگا تو اس کے آخر کو   کسرہ  کے ساتھ  پڑھیں گے۔ بسا اوقات یہ اختلاف اعراب لفظی ہوتا ہے ، لفظی کا مطلب ہے کہ اعراب کی تبدیلی الفاظ میں نظر آتی ہے۔ اور کبھی یہ اعراب تقدیری ہوتا ہے، تقدیری کا مطلب یہ ہوگا کہ  اگر چہ ظاہری طور پر اس کے اعراب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، لیکن تقدیرا(حقیقت میں) اس میں تبدیلی ہوگی۔

مثال:جاءني زَيْدٌ  یہاں زید فاعل ہےجاءني  کا اس  لیے  مرفوع ہے  رَأَيْتُ زَيْداً  رَأَيْتُ فعل اور فاعل اور زید مفعول ہےاس لیےمنصوب ہے  یہاں مَرَرْتُ بِزَيْدٍ  زید پر با آیا ہےاس لیے  مجرور ہے۔ یہاں اعراب لفظی تبدیلی کے ساتھ آیا ہے۔

بسا اوقات لفظا تبدیلی نہیں آتی لیکن واقع میں ہوتی ہےجیسے؛ جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ پہلی صورت میں موسی فاعل ہے دوسری صورت میں مفعول اور تیسری صورت میں مجرور ہے۔ اگر چہ ظاہر میں ایک جیسا ہے۔

4

اسم معرب اور مبنی کی عبارت کی تطبیق

القسم الاول: في الاسم

"وقد مرَّ تعريفه" اقسام ثلاثہ میں سے پہلی قسم ہے۔ اسم کے بارے میں اسم کی تعریف پہلے بیان کرچکے ہیں"وهو ينقسم على قسمين معرب ومبنيّ ، فلنذكر أحكامه في بابين"

 یہ اسم  دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے :۱۔ معرب ۲۔ مبنی

 ہم اس کے احکام  کو دوبابوں میں  بیان کرتے ہیں۔

"الباب الاوّل فی الاسم المعرب وفيه مقدّمة وثلاث مقاصد وخاتمة. أمّا المقدّمة ففيها ثلاثة فصول"

باب اول  میں  اسم معرب، تین مقاصد اور ایک مقدمہ ہے۔اور مقدمہ میں تین فصلیں ہیں۔

الفصل الأوّل : في تعريف الاسم المعرب

"وهو كلّ اسم" اسم معرب ہروہ اسم ہے جو : رُكِّبَ مع غيره"اپنے غیر کے ساتھ مرکب ہوا ہو، ملاہوا ہو"ولا يشبه مبنيّ الأصل" اور مبنی الاصل کے مشابہ بھی نہ ہو"اعني الحرف والفعل الماضي وأمر الحاضر"مبنی الاصل کیا ہے  تین چیزیں ہیں:حرف، فعل ماضی اور فعل امر

جو اسم  ان میں سے کسی ایک کا مشابہ ہوگا کسی چیز میں ہم اس کو معرب نہیں کہیں گے، مثال:زَيْدٌ ، في قامَ زَيْدٌ  جملہ اس طرح ہو قامَ زَيْدٌ  قام فعل زید اس کا فاعل یہاں زید اسم معرب ہے لا زَيْدٌ وحده اگر فقط زید کہیں لکھا ہے اور زید کسی اور سےملا نہ ہو، پھر وہ معرب نہیں ہوگا، معرب کب ہوگا؟ جب وہ کسی سے ملا ہوا ہو۔ فقط زید معرب کیوں نہیں ہے؟

فرماتے ہیں"لعدم التركيب"اس لیے  کہ اس میں ترکیب نہیں ہے ہم نے اسم معرب کی تعریف یہ کی ہے کہ اسم معرب ہوتا ہی وہی ہے جو کسی غیر کے ساتھ ملا ہو۔

پھر فرماتے ہیں اگر ایک جملہ یوں ہو"قام هٰؤُلاءِ"یہاں هٰؤُلاءِ معرب ہے یا نہیں؟ یہ مرکب تو ہے  چونکہ قام کا فاعل ہے فرماتے ہیں"ولا هٰؤُلاءِ في : قام هٰؤُلاءِ"اگرچہ هٰؤُلاءِ قام کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس کا فاعل ہے، لیکن یہ پھر بھی اسم معرب نہیں ہے۔ وجہ"لوجود الشبه"اس لئے کہ یہ حرف کے مشابہ ہے  جیسے حرف اپنا معنی دینے میں کسی غیر کا محتاج ہوتا ہے یہ بھی محتاج ہے اس لئے یہ هٰؤُلاءِ معرب نہیں ہے۔

"ويسمّى متمكّناً"اس اسم معرب کو اسم متمکن بھی کہتے ہیں تمکن یعنی جو کسی کو قدرت دے یہ قدرت کیا دیتا ہے چونکہ یہ ہر قسم کے اعراب کو قبول کرتا ہےاس لیےاس کو اسم متمکن کہتے ہیں۔

5

اسم معرب کا حکم

آگے فرماتے ہیں بات ہمیں سمجھ میں آگئی کہ اسم معرب کی تعریف کیا ہے؟ اور اسی اسم معرب کو اسم متمکن بھی کہتے ہیں۔

اب اس اسم معرب کا حکم کیا ہے؟ فرماتے ہیں"وحكمه أن يختلف آخره باختلاف العوامل"اسم معرب کا حکم  یہ ہے کہ اس کا آخر مختلف ہوجاتا ہے عوامل کے اختلاف سے  کیا مطلب یعنی جیسا پیچھے عامل ہوگا۔ اس کاآخر پر ویسے ہی حرکت ہوگی یعنی عامل رفع ہوگا تو اس کے آخر پر رفع آجائےگا عامل ناصب ہوگا تو اس کے آخر پر نصب ہوگا عامل جار ہوگا تو اس کے آخر پر جر آجائے گا۔

پس اسم معرب کا حکم یہ ہے کہ اس کا آخر  باختلاف عوامل مختلف ہوجاتا ہے۔

"اختلافاً لفظيّاً " یہ جو اسم معرب کا آخر تبدیل اورمختلف ہوتا ہے۔ یہ اختلاب کبھی لفظی ہوتا ہے لفظ سے اس کا واضح اختلاف نظر آئےگاجیسے"جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، مَرَرْتُ بِزَيْدٍ"

یہاں زید فاعل ہے جاءني  نے اس کو رفع دیا ہے  رَأَيْتُ زَيْداً یہاں نصب ہے  زید پر چون عامل رَأَيْتُ تھا اس نے نصب دیا، مرَرْتُ بِزَيْدٍ  یہاں زید مجرور ہے چونکہ عامل "با" جار تھی۔

"أو تقديريّاً "یا اس کا آخر مختلف تو ہوگا، لیکن لفظا کوئی تبدیلی اس میں نظر نہیں آتی، اختلاف تقدیری ہوگا(واقع میں ہوگا)لیکن ظاہری طور پر اس کا لفظ ایک جیسا ہوگا جیسے"جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ" اب ہم نے دیکھا کہ تینوں مقامات پر موسی لفظ کے لحاظ سے مختلف نہیں ہےلیکن واقع میں پہلی مثال میں، موسی فاعل دوسری میں مفعول ہے اور تیسری میں، مجرور ہے۔

آگے فرماتے ہیں تیں اصطلاحات ہیں:۱۔ اعراب۲۔ محل اعراب ۳۔عاملہم نے اوپرکیاکہا ہے کہ جس کا عامل  مختلف ہونے سے اعراب بدلتے رہیں۔

اب عامل، اعرب اور محل اعراب سے مراد کیا ہے؟

فرماتے ہیں"والإعراب ما به يختلف آخر المعرب" وہ  اسم  معرب جس کے آخر میں حرکت مختلف ہوتی ہے اس کو اعراب کہتے ہیں اعراب کیا ہیں؟

"كالضمّة والفتحة والكسرة والواو والياء والألف پیش،زبر  اور زیر  یہ اعراب بالحرکت  ہیں اور ایک اعراب بالحرف ہوتا ہے وہ: واو، یا اور الف۔ پس اعراب اس تبدیلی کو کہتے ہیں جو اسم معرب کے آخر میں ہوتی  وہ تبدیلی کبھی حرکت سے ہوتی ہے اور کبھی حرف کے ذریعے سے۔

" ومحلّ الإعراب من الاسم هو الحرف الآخر" محل اعراب کیا ہوتا ہے؟اسم معرب کا آخری حرف جس پر  زبر ،زیر اور پیش آتی ہے۔ یا اس میں جو واو، یا، اور الف تبدیل ہوتی ہیں۔

 مثلا: "قامَ زَيْدٌ"  قام عامل ہے جس نے اپنے فاعل جو کہ زید ہے رفع  دو پیش اعراب ہے۔ اور محل اعراب دال ہے ۔

"اعلم أنّه لا معرب في كلام العرب" کلام عرب میں معرب فقط اسم متمکن اور فعل مضارع ہوتا ہے  ان کے علاوہ کوئی اور معرب نہیں ہے۔ اور فعل مضارع کا حکم ہم بعد میں قسم ثانی میں بیان کریں گے، "إن شاء الله تعالى" بس یہ دو ہی  معرب ہوتے ہیں باقی مبنی سب  ہیں۔   

مِنْ ، فإنّ معناه الابتداء وهي لا تدلّ عليه إلّا بعد ذكر ما يفهم منه الابتداء كالبصرة والكوفة كما تقول : سِرْتُ مِنْ الْبَصْرَةِ إلَى الْكُوفَةِ.

وعلامته أن لا يصحّ الإخبار عنه ولا به ، وأن لا يقبل علامات الأسماء ولا علامات الأفعال.

وللحرف في كلام العرب فوائد كثيرة ، كالرّبط بين الاسمين نحو : زَيْدٌ في الدار ، أو فعلين نحو : زيدٌ إنْ تَضْرِبْ أضْرِبْ ، أو اسم وفعل كضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ ، أو جملتين نحو : إنْ جاءني زَيْدٌ فَاُكْرِمْهُ ، وغير ذلك من الفوائد التي سيأتي تعريفها في القسم الثالث إن شاء الله تعالى.

ويسمّى حرفاً لوقوعه في الكلام حرفاً ، أي طرفاً ، لأنّه ليس بمقصود بالذات مثل المسند والمسند إليه.

الفصل الثالث : الكلام

لفظ تضمّن الكلمتين بالإسناد. والإسناد نسبة إحدى الكلمتين إلى الأُخرى بحيث تفيد المخاطب فائدة تامة يصحّ السكوت عليها نحو : قامَ زَيْدٌ.

فعلم أنّ الكلام لا يحصل إلّا من اسمين نحو : زَيْدٌ قائِمٌ ، ويسمّى جملة اسميّة ، أو فعل واسم نحو : قامَ زَيْدٌ ، ويسمّى جملة فعليّة. إذ لا يوجد المسند والمسند إليه معاً في غيرهما ، فلا بدّ للكلام منهما.

فإن قيل : هذا ينتقض بالنداء نحو : يا زَيْدُ ، قلنا حرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ ، وهو الفعل ، فلا ينتقض بالنداء. فإذا فرغنا من المقدّمة فلنشرع في الأقسام الثلاثة والله الموفّق المعين.

القسم الأوّل : في الاسم

وقد مرَّ تعريفه وهو ينقسم على قسمين معرب ومبنيّ ، فلنذكر أحكامه

في بابين.

الباب الأوّل : في الاسم المعرب

وفيه مقدّمة وثلاث مقاصد وخاتمة. أمّا المقدّمة ففيها ثلاثة فصول.

الفصل الأوّل : في تعريف الاسم المعرب

وهو كلّ اسم رُكِّبَ مع غيره ولا يشبه مبنيّ الأصل ، أعني الحرف والفعل الماضي وأمر الحاضر نحو : زَيْدٌ ، في قامَ زَيْدٌ ، لا زَيْدٌ وحده لعدم التركيب ، ولا هٰؤُلاءِ في : قام هٰؤُلاءِ ، لوجود الشبه.

ويسمّى متمكّناً وحكمه أن يختلف آخره باختلاف العوامل ، اختلافاً لفظيّاً نحو : جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، أو تقديريّاً نحو : جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ.

والإعراب ما به يختلف آخر المعرب كالضمّة والفتحة والكسرة والواو والياء والألف.

وإعراب الاسم ثلاثة أنواع : رفع ونصب وجرّ. والعامل ما يحصل به رفع ونصب وجرّ. ومحلّ الإعراب من الاسم هو الحرف الآخر ، مثال الكلّ نحو : قامَ زَيْدٌ ، فـ «قامَ» عامل ، و «زَيْدٌ» معرب ، و «الضَّمَّة» إعراب ، «والدّالُ» محلّ الإعراب.

اعلم أنّه لا معرب في كلام العرب إلّا الاسم المتمكّن والفعل المضارع ، وسيجيء حكمه في القسم الثاني ، إن شاء الله تعالى.

الفصل الثانى : في أصناف إعراب الاسم وهي تسعة أصناف

الأوّل : أن يكون الرفع بالضمّة ، والنصب بالفتحة ، والجرّ بالكسرة.