ابتدای کتاب میں ، صاحب ہدایہ نے فرمایا تھا میں نے اپنی کتاب کو تقسیم کیا ہے اس انداز  میں کہ سب سے پہلے مقدمہ ہوگا ، مقدمہ کے بعد  تین اقسام ہوں گی اور اس کے بعد  ایک خاتمہ ہوگا۔
مقدمہ میں انہوں نے علم نحو کی تعریف کو بیان فرمایا علم نحو کی غرض و غایت اور موضوع کو بیان فرمایا، گزشتہ دروس میں گزارش کی تھی کہ  ابتداء میں ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جس سے یہ  پتہ چل جاتا ہے  کہ بعد میں اس کتاب میں کن چیزوں کے بارے میں بحث ہو گی۔
مثلا علم نحو کی تعریف یہ کی تھی ـ"علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض"
توجہ کریں اشارہ ہے کہ اعراب اور بنا تعریف میں بھی کہا تھا کہ معرب اور مبنی کے آخر  کے حالات کو جانا جائےگا۔ اس کا مطلب   یہ ہے کوئی معرب  اور مبنی نام کی چیز ہے جس کی علم نحو میں بحث کی جاتی ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے کہا تھا ہمارا موضوع کلمہ اور کلام   تو ظاہر ہے یہ بھی بتایا کہ کلمہ اور کلام کیا ہیں اور کلمہ و کلام کسے کہتے ہیں۔ کلمہ کی اقسام کتنی ہیں ۔
 اب یہ جو پہلی، دوسری اور تیسری قسم ہے کلمہ کی جو تین قسمیں بنی تھیں اسم ، فعل اور حرف  در حقیقت یہ ساری کی ساری تفصیلات اسی کے بارے میں بیان کی جائیں گی چونکہ موضوع کلمہ اور کلام  ہے  تو ساری جو اقسام بیان ہو ں گی  اسی موضوع کے متعلق ہی ہو ں گی۔
اقسام ثلاثة میں سے پہلی قسم  اسم  سوال اسم کی تعریف  کیا ہے؟ فرماتے ہیں"وقد مرَّ تعريفه" وہ  ہم پہلے بتا چکے ہیں۔
فرماتے ہیں اس اسم کی دو قسمیں  ہیں:
۱۔ اسم معرب ۲۔اسم مبنی (یا یوں کہیں ہر اسم یا معرب ہے یا مبنی )۔
پھر انہوں نے تقسیم کیا  دوبابوں اور ایک خاتمہ میں۔
"الباب الأوّل : في الاسم المعرب" اس میں بہت سارے احکام آئیں گے۔دوسرے باب میں احکام آئیں گے۔اور ایک خاتمہ ہوگا۔
آپ کویاد ہوگا پہلے دن میں ہم نے کہا تھا کہ میں نے اس کتاب کو باب باب اور فصل فصل کرکے لکھاہے، کیوں؟ اس لیے  تا پڑھنے والے کوسکون سے سمجھ میں آجائے کہ باب اول میں علیحدہ بحث ہوگی باب ثانی میں کوئی اور بحث ہوگی۔ اور پھر فصل فصل کرکے ، فصل کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اس کا مطلب ہے   کہ پچھلی بحث مکمل ہوگئی ہے، اب ایک نئی بحث شروع ہوگی ۔
باب اول : معرب کے بارے میں ہم نے کہا تھا اسم کی دو قسمیں ہیں۔
پہلا سوال: اسم معرب کسے کہتے ہیں؟
اسم معرب ہر وہ اسم ہے جو غیر کے ساتھ مرکب ہو، مطلب کیا؟ یعنی اگر ایک لفظ کہیں نظر آجائے جو کسی اور کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو  کسی جملے میں نہ ہو اس ایک لفظ کو ہم معرب نہیں کہتے ہیں معرب اس اسم کو کہتے ہیں  جو غیر کے ساتھ  مرکب ہو اور وہ مبنی الاصل (جس کی اصل مبنی ہو)کے مشابہ بھی نہ  ہو ۔ 
مبنی الاصل تین چیزیں ہیں:  حروف، امر حاضر اور فعل ماضی۔
 تو اگر سوال ہو کہ اسم معرب کسے کہتے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا۔ ہر وہ اسم جو اپنے غیر کے ساتھ مرکب ہو اور  مبنی الاصل کے مشابہ بھی نہ ہو اسے  اسم معرب کہتے ہیں۔ لہذا قامَ زَيْدٌ، ضَرَبَ زیدٌ، نَصَرَ عمرو ، میں یہ زید اور عمرو  اسم معرب ہوں گے، اور اگر کہیں فقط اسم زید لکھا ہوا ہے، جو کسی اور کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہے، مرکب نہیں ہے کسی جملے کا حصہ نہیں ہے اس کو ہم معرب نہیں کہتے ہیں۔چونکہ اسم معرب ہوتا ہی وہ ہے کہ  جو کسی غیر کے ساتھ مرکب ہوجائے۔
اب اسم معرب کا حکم کیا ہے؟
اسم معرب کا حکم یہ ہے :"أن يختلف آخره باختلاف العوامل ، اختلافاً لفظيّاً "
اسم معرب وہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عامل بدلتا جائے اس کا اعراب بھی بدلتا جائے ۔
اب یہاں تین اصطلاحات ہیں:عامل، اعرب اور محل اعراب۔
مثلا قام زیدٌ ، قام عامل ہے جس نے اپنے فاعل جو کہ زید ہے رفع دیا دو پیش اعراب  ہیں اور دال  محل اعراب  ہے۔
اب جیسا عامل ہوگا ویسا اعراب اگر عامل  را فع ہو تو اس کے آخر کو رفع دے گا  عامل ناصب ہوگا تو منصوب پڑھیں گے عامل جار ہوگا تو اس کے آخر کو   کسرہ  کے ساتھ  پڑھیں گے۔ بسا اوقات یہ اختلاف اعراب لفظی ہوتا ہے ، لفظی کا مطلب ہے کہ اعراب کی تبدیلی الفاظ میں نظر آتی ہے۔ اور کبھی یہ اعراب تقدیری ہوتا ہے، تقدیری کا مطلب یہ ہوگا کہ  اگر چہ ظاہری طور پر اس کے اعراب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، لیکن تقدیرا(حقیقت میں) اس میں تبدیلی ہوگی۔
مثال:جاءني زَيْدٌ  یہاں زید فاعل ہےجاءني  کا اس  لیے  مرفوع ہے  رَأَيْتُ زَيْداً  رَأَيْتُ فعل اور فاعل اور زید مفعول ہےاس لیےمنصوب ہے  یہاں مَرَرْتُ بِزَيْدٍ  زید پر با آیا ہےاس لیے  مجرور ہے۔ یہاں اعراب لفظی تبدیلی کے ساتھ آیا ہے۔
بسا اوقات لفظا تبدیلی نہیں آتی لیکن واقع میں ہوتی ہےجیسے؛ جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ پہلی صورت میں موسی فاعل ہے دوسری صورت میں مفعول اور تیسری صورت میں مجرور ہے۔ اگر چہ ظاہر میں ایک جیسا ہے۔