درس الهدایة في النحو

درس نمبر 4: کلام کی تعریف

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تعریف کلام

گزارش کی تھی علم نحو کا موضوع کلمہ اور کلام ہے  ۔ گزشتہ جلسوں میں کلمہ کی تعریف اور اس کی اقسام مکمل ہوگئیں۔ آج اس فصل میں بیان فرماتے ہیں، کلام کسے کہتے ہیں؟

 کلام وہ لفظ ہے، جو دو کلموں پر مشتمل ہو "بالإسناد" اسناد سے کیا مطلب ہے؟ اسناد کا مطلب ایک لفظ یا شئ کو دوسرے شئ یا لفظ  کی طرف نسبت دینا، اس کو اسناد کہتےہیں۔

تو کلام میں کیا ہے؟ ایک کلمہ کو  دوسرے کلمہ کی طرف نسبت دی جاتی ہے  تو اس کا مطلب ہے جب تک دو  کلمیں نہ ہوں تب تک کلام وجود میں آہی نہیں سکتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ  اسناد دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے ایک چیز  کو دوسری کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو دو چیزیں ہوں گی ان کے درمیان نسبت دی جائے گی تب جاکر کلام وجود میں آئے گی۔

اب یہاں ایک سطر یاد کریں ، کون سی ؟

۱۔کلام دو کلموں کی نسبت کے بغیر  وجود میں آہی نہیں سکتی۔

۲۔ ایک  کلمے  کی نسبت دوسرے کلمے  کی طرف اس انداز  میں دی گئی ہو کہ مخاطب کو (سنے والے کو )اس متکلم کی اس اسناد سے  اس نسبت سے بات سمجھ میں آجائے مزید کوئی کمی کو تاہی نہ رہے جائے، کوئی انتظار میں نہ ہو  پھر کیا ہوا؟ نہ  اب اس سے ایک اور بات سمجھ میں آگئی کہ  ہر  قسم کی نسبت بھی کام کی نہیں ہوتی ۔ جیسے چاہیں  فقط ایک لفظ کو ددوسرے لفظ کی طرف نسبت دے دووہ کلام ہوگیا  نہ اس لیے کہ ہر قسم کی نسبت کا رآمد نہیں ہے  بلکہ  ایسی نسبت ہو جو مخاطب کو فائدہ  تام پہنچائے، یعنی جب متکلم  اس پر خاموش ہوجائے تو مخاطب کو اس کی پوری بات سمجھ آجائے۔

اسی کلام کا دوسرا نام  جملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کلام اور جملہ میں کیا فرق ہے؟

تو آپ کہہ سکتے ہیں کلام اسی جملہ کو کہتے ہیں اور جملے کا دوسرا نام کلام ہے۔

جملے  کی قسمیں ہوتی ہیں، ان شاء اللہ ہم پڑھیں گے ک

۱۔ جملہ انشائیہ ۲۔جملہ خبریہ ۔

 جملہ انشائیہ وہ ہوتا ہےجہاں کہنے والے کو  سچا یا جھوٹا نہ کہا جا سکے اس کو  جملہ انشائیہ کہتے ہیں اور اگر  کہنے والے کو سچا یا جھوٹاکہا سکے تو یہ جملہ خبریہ ہوگا۔

ہم نے کہا کہ کلام وہ ہے کہ جس میں دو  کلمے ہوں  ایک کلمے کو دوسرے کلمے  کی طرف نسبت دی گئی ہو ، تو اسکا مطلب ہے یا دونوں کلمے اسم ہو ں گے یاایک اسم ہوگا اور ایک فعل ۔وجہ؟ وجہ یہ ہے، اسم وہ کلمہ ہے جو مسند بھی بن سکتا ہے اور مسند الیہ بھی بن سکتا ہے، لہذا دونوں کلمے اسم ہوں جملہ تام  ہوجائے گا، لیکن فعل چونکہ مسند تو بن سکتا ہے لیکن مسند الیہ نہیں بن سکتا لہذا اس کا ایک کلمہ فعل ہو اور ایک اسم ہو  تو پھر بھی بات بن جائے گی، چونکہ ایک مسند اور ایک مسند الیہ ہوگا جملہ تام ہوگا۔

جہاں دونوں کلمے اسم ہو ں گے اس کو جملہ اسمیہ کہیں گے، جہاں ایک اسم اور ایک فعل ہوگا اس کو جملہ فعلیہ کہیں گے۔

ممکن ہے کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے آپ کہتے ہیں جملہ وہ ہوتا ہے، اس کے دونوں کلمے اسم ہوں یا ایک اسم اور ایک فعل ہو۔ ہم آپ کو دیکھاتے ہیں کہ جملہ بھی پورا ہے کلام بھی  تام ہے لیکن وہ حرف اور اسم پر مشتمل ہے، اس میں فعل بھی نہیں ہے اور دوسرااسم بھی نہیں ہیں۔

جیسے، ندا میں کہتے ہیں، یازید، یا حرف ندا ہےاور زید اسم ہے اور یہ کلام تام ہے۔ تو آپ کیسے  کہتے ہیں  کہ دو اسم ہونے چاہییں یا ایک اسم اور ایک فعل۔

فرماتے ہیں نہ  "یا" اگر چہ حرف ندا ہے، لیکن یہ  یا قائم مقام  فعل ہے ، جو کہ اصل میں " ادعو" یا "اطلب" تھا۔ لہذا یہ قائم مقام فعل ہے اس کا حکم بھی فعل کا ہوگا۔ واقع میں یہاں اسم اور فعل ہیں۔

4

کلام کی تطبیق

الفصل الثالث : الكلام

 فرماتے ہیں کلام وہ لفظ ہے  "لفظ تضمّن الكلمتين بالإسناد" کلام وہ لفظ ہے جو دو کلموں پر مشتمل ہو، اسناد کے ذریعے سے اب سوال ہوگا چلو دوکلموں پر مشتمل ہو تو سمجھ میں آگئی ، یہ اسناد کسے کہتے ہیں؟ جواب"والإسناد"اسناد سے مراد یہ ہے کہ" نسبة إحدى الكلمتين إلى الأُخرى " دو کلموں میں سے ایک کلمے کو دوسرے کی طرف نسبت دی گئی ہو ، لیکن ہر قسم کی نسبت نہ"بحيث تفيد المخاطب فائدة تامة"کہ وہ نسبت  سننے والے کو فائدہ تامہ پہنچائے، 

فائدہ تامہ سے مراد کیا ہے؟

يصحّ السكوت عليها" متکلم کا اس پر خاموش ہوجانا صحیح ہو۔ یعنی اگر متکلم اس کلمہ کو دوسرے  کلمے کی طرف نسبت دے کرخاموش ہوجائے تو مخاطب کو بات پوری سمچھ میں آجائے مزید کسی چیز کی انتظار میں  نہ ہو اس  قسم کا جو اسناد ہوگا دو کلموں سے وہ کلام  بن جاتی ہے۔ جیسے قامَ زَيْدٌ  یہ فعلیہ کی مثال ہے اور زَيْدٌ قائِمٌ یہ جملہ اسمیہ کی مثال ہے۔زید اسم قائم اس کی خبر ہے۔

يسمّى جملة "  اسی کلام کا دوسرا نام ہے جملہ "فعلم أنّ الكلام لا يحصل إلّا من اسمين"اب وہ جو دو کلمے ہیں جن پر کلام نےمشتمل ہونا ہے ۔ تو اب فرماتے ہیں یا تو وہ دونوں اسم ہوں گے جیسے زَيْدٌ قائِمٌ ، زید بھی اسم ہے قائم بھی اسم ہے اگر دونوں اسم ہوں گے تو "يسمّى جملة اسميّة" اس جملے کا نام جملہ اسمیہ ہوگا "أو فعل واسم"  یا یہ   نہیں  ہے، ایک فعل ہوگا اور ایک اسم ہوگا جیسے، قامَ زَيْدٌ۔  قام  فعل ہے اور زید اسم ۔"ويسمّى جملة فعليّة" جو ایسا ہوگا وہ جملہ  فعلیہ ہوگا کیوں؟ " إذ لا يوجد المسند والمسند إليه معاً في غيرهما "اس سے مراد کیاہے؟ کہا  جب تک دونوں کلمے اسم نہ ہوں یا ایک کلمہ اسم اور ایک فعل نہ ہو، تب تک مسند اور مسند الیہ وجود میں آنہیں سکتا ۔

وہ جو ہم نے کہا کہ اسناد ایک شئ کو دوسر ی شئ کی طرف نسبت دینا، اس کا مظلب ہے ایک شئ کو  نسبت دی جارہی ہے اور دوسری شئ کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔جس کی طرف نسبت دی جائے وہ مسند الیہ ہوگا۔ اور جس کو  نسبت دی جاتی ہے وہ مسند ہوگا۔ اور جب تک دونوں اسم یا ایک اسم اور ایک فعل نہیں ہوں گے تب تک مسند اور مسند الیہ وجود میں نہیں آسکتا ہے۔"فلا بدّ للكلام منهما"  جب کہ کلام میں  مسند اورمسند الیہ کا ہوناضروری ہے یہ نہیں ہوں گے تو اسناد وجود میں نہیں آسکتا ۔

سوال: "فإن قيل : هذا ينتقض بالنداء" اگر  کوئی اشکال کرے یہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ کلام وہ ہوتا ہے کہ جس میں  دو اسم یا ایک اسم اور ایک فعل ہو  ۔آپ کی یہ بات نقض ہوجاتی ہے حرف ندا سے جیسے کہتے ہیں" يا زَيْدُ " اب یہ پورا جملہ ہے، "یا" حرف ہے اور  زید اسم یہاں جملہ اسم اور حرف سے بنا ہے ۔

"قلنا حرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ"حرف ندا یہ  ــــ"یا" قائم مقام ادعو اور اطلب ہے،"وهو الفعل "اور  یہ فعل ہیں۔ـ" فلا ينتقض بالنداء" پس یہاں کوئی نقض نہیں ہے، یہاں پر بھی در حقیقت جملہ  فعل اور اسم  سے مل کر  بنا ہے۔

فرماتے ہیں"فإذا فرغنا من المقدّمة فلنشرع في الأقسام الثلاثة"  ہم نے گذارش کی تھی کہ مقدمہ میں تیں فصلیں ہیں ۔ پہلی فصل میں علم نحو کی تعریف موضوع اور غرض و غایت دوسری فصل میں کلمہ کی تعریف اور اس کی اقسام  تیسری فصل میں کلام اور اس کی تعریف ۔

ہم اس کے بعد ان کے اقسام میں بحث کریں گے۔(والله الموفّق المعين )۔

مِنْ ، فإنّ معناه الابتداء وهي لا تدلّ عليه إلّا بعد ذكر ما يفهم منه الابتداء كالبصرة والكوفة كما تقول : سِرْتُ مِنْ الْبَصْرَةِ إلَى الْكُوفَةِ.

وعلامته أن لا يصحّ الإخبار عنه ولا به ، وأن لا يقبل علامات الأسماء ولا علامات الأفعال.

وللحرف في كلام العرب فوائد كثيرة ، كالرّبط بين الاسمين نحو : زَيْدٌ في الدار ، أو فعلين نحو : زيدٌ إنْ تَضْرِبْ أضْرِبْ ، أو اسم وفعل كضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ ، أو جملتين نحو : إنْ جاءني زَيْدٌ فَاُكْرِمْهُ ، وغير ذلك من الفوائد التي سيأتي تعريفها في القسم الثالث إن شاء الله تعالى.

ويسمّى حرفاً لوقوعه في الكلام حرفاً ، أي طرفاً ، لأنّه ليس بمقصود بالذات مثل المسند والمسند إليه.

الفصل الثالث : الكلام

لفظ تضمّن الكلمتين بالإسناد. والإسناد نسبة إحدى الكلمتين إلى الأُخرى بحيث تفيد المخاطب فائدة تامة يصحّ السكوت عليها نحو : قامَ زَيْدٌ.

فعلم أنّ الكلام لا يحصل إلّا من اسمين نحو : زَيْدٌ قائِمٌ ، ويسمّى جملة اسميّة ، أو فعل واسم نحو : قامَ زَيْدٌ ، ويسمّى جملة فعليّة. إذ لا يوجد المسند والمسند إليه معاً في غيرهما ، فلا بدّ للكلام منهما.

فإن قيل : هذا ينتقض بالنداء نحو : يا زَيْدُ ، قلنا حرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ ، وهو الفعل ، فلا ينتقض بالنداء. فإذا فرغنا من المقدّمة فلنشرع في الأقسام الثلاثة والله الموفّق المعين.

القسم الأوّل : في الاسم

وقد مرَّ تعريفه وهو ينقسم على قسمين معرب ومبنيّ ، فلنذكر أحكامه

في بابين.

الباب الأوّل : في الاسم المعرب

وفيه مقدّمة وثلاث مقاصد وخاتمة. أمّا المقدّمة ففيها ثلاثة فصول.

الفصل الأوّل : في تعريف الاسم المعرب

وهو كلّ اسم رُكِّبَ مع غيره ولا يشبه مبنيّ الأصل ، أعني الحرف والفعل الماضي وأمر الحاضر نحو : زَيْدٌ ، في قامَ زَيْدٌ ، لا زَيْدٌ وحده لعدم التركيب ، ولا هٰؤُلاءِ في : قام هٰؤُلاءِ ، لوجود الشبه.

ويسمّى متمكّناً وحكمه أن يختلف آخره باختلاف العوامل ، اختلافاً لفظيّاً نحو : جاءني زَيْدٌ ، رَأَيْتُ زَيْداً ، مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، أو تقديريّاً نحو : جاءني مُوسىٰ ، ورَأَيْتُ مُوسىٰ ، ومَرَرْتُ بِمُوسىٰ.

والإعراب ما به يختلف آخر المعرب كالضمّة والفتحة والكسرة والواو والياء والألف.

وإعراب الاسم ثلاثة أنواع : رفع ونصب وجرّ. والعامل ما يحصل به رفع ونصب وجرّ. ومحلّ الإعراب من الاسم هو الحرف الآخر ، مثال الكلّ نحو : قامَ زَيْدٌ ، فـ «قامَ» عامل ، و «زَيْدٌ» معرب ، و «الضَّمَّة» إعراب ، «والدّالُ» محلّ الإعراب.

اعلم أنّه لا معرب في كلام العرب إلّا الاسم المتمكّن والفعل المضارع ، وسيجيء حكمه في القسم الثاني ، إن شاء الله تعالى.

الفصل الثانى : في أصناف إعراب الاسم وهي تسعة أصناف

الأوّل : أن يكون الرفع بالضمّة ، والنصب بالفتحة ، والجرّ بالكسرة.