گزارش کی تھی علم نحو کا موضوع کلمہ اور کلام ہے  ۔ گزشتہ جلسوں میں کلمہ کی تعریف اور اس کی اقسام مکمل ہوگئیں۔ آج اس فصل میں بیان فرماتے ہیں، کلام کسے کہتے ہیں؟
 کلام وہ لفظ ہے، جو دو کلموں پر مشتمل ہو "بالإسناد" اسناد سے کیا مطلب ہے؟ اسناد کا مطلب ایک لفظ یا شئ کو دوسرے شئ یا لفظ  کی طرف نسبت دینا، اس کو اسناد کہتےہیں۔
تو کلام میں کیا ہے؟ ایک کلمہ کو  دوسرے کلمہ کی طرف نسبت دی جاتی ہے  تو اس کا مطلب ہے جب تک دو  کلمیں نہ ہوں تب تک کلام وجود میں آہی نہیں سکتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ  اسناد دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے ایک چیز  کو دوسری کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو دو چیزیں ہوں گی ان کے درمیان نسبت دی جائے گی تب جاکر کلام وجود میں آئے گی۔
اب یہاں ایک سطر یاد کریں ، کون سی ؟
۱۔کلام دو کلموں کی نسبت کے بغیر  وجود میں آہی نہیں سکتی۔
۲۔ ایک  کلمے  کی نسبت دوسرے کلمے  کی طرف اس انداز  میں دی گئی ہو کہ مخاطب کو (سنے والے کو )اس متکلم کی اس اسناد سے  اس نسبت سے بات سمجھ میں آجائے مزید کوئی کمی کو تاہی نہ رہے جائے، کوئی انتظار میں نہ ہو  پھر کیا ہوا؟ نہ  اب اس سے ایک اور بات سمجھ میں آگئی کہ  ہر  قسم کی نسبت بھی کام کی نہیں ہوتی ۔ جیسے چاہیں  فقط ایک لفظ کو ددوسرے لفظ کی طرف نسبت دے دووہ کلام ہوگیا  نہ اس لیے کہ ہر قسم کی نسبت کا رآمد نہیں ہے  بلکہ  ایسی نسبت ہو جو مخاطب کو فائدہ  تام پہنچائے، یعنی جب متکلم  اس پر خاموش ہوجائے تو مخاطب کو اس کی پوری بات سمجھ آجائے۔
اسی کلام کا دوسرا نام  جملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کلام اور جملہ میں کیا فرق ہے؟
تو آپ کہہ سکتے ہیں کلام اسی جملہ کو کہتے ہیں اور جملے کا دوسرا نام کلام ہے۔
جملے  کی قسمیں ہوتی ہیں، ان شاء اللہ ہم پڑھیں گے ک
۱۔ جملہ انشائیہ ۲۔جملہ خبریہ ۔
 جملہ انشائیہ وہ ہوتا ہےجہاں کہنے والے کو  سچا یا جھوٹا نہ کہا جا سکے اس کو  جملہ انشائیہ کہتے ہیں اور اگر  کہنے والے کو سچا یا جھوٹاکہا سکے تو یہ جملہ خبریہ ہوگا۔
ہم نے کہا کہ کلام وہ ہے کہ جس میں دو  کلمے ہوں  ایک کلمے کو دوسرے کلمے  کی طرف نسبت دی گئی ہو ، تو اسکا مطلب ہے یا دونوں کلمے اسم ہو ں گے یاایک اسم ہوگا اور ایک فعل ۔وجہ؟ وجہ یہ ہے، اسم وہ کلمہ ہے جو مسند بھی بن سکتا ہے اور مسند الیہ بھی بن سکتا ہے، لہذا دونوں کلمے اسم ہوں جملہ تام  ہوجائے گا، لیکن فعل چونکہ مسند تو بن سکتا ہے لیکن مسند الیہ نہیں بن سکتا لہذا اس کا ایک کلمہ فعل ہو اور ایک اسم ہو  تو پھر بھی بات بن جائے گی، چونکہ ایک مسند اور ایک مسند الیہ ہوگا جملہ تام ہوگا۔
جہاں دونوں کلمے اسم ہو ں گے اس کو جملہ اسمیہ کہیں گے، جہاں ایک اسم اور ایک فعل ہوگا اس کو جملہ فعلیہ کہیں گے۔
ممکن ہے کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے آپ کہتے ہیں جملہ وہ ہوتا ہے، اس کے دونوں کلمے اسم ہوں یا ایک اسم اور ایک فعل ہو۔ ہم آپ کو دیکھاتے ہیں کہ جملہ بھی پورا ہے کلام بھی  تام ہے لیکن وہ حرف اور اسم پر مشتمل ہے، اس میں فعل بھی نہیں ہے اور دوسرااسم بھی نہیں ہیں۔
جیسے، ندا میں کہتے ہیں، یازید، یا حرف ندا ہےاور زید اسم ہے اور یہ کلام تام ہے۔ تو آپ کیسے  کہتے ہیں  کہ دو اسم ہونے چاہییں یا ایک اسم اور ایک فعل۔
فرماتے ہیں نہ  "یا" اگر چہ حرف ندا ہے، لیکن یہ  یا قائم مقام  فعل ہے ، جو کہ اصل میں " ادعو" یا "اطلب" تھا۔ لہذا یہ قائم مقام فعل ہے اس کا حکم بھی فعل کا ہوگا۔ واقع میں یہاں اسم اور فعل ہیں۔