درس الهدایة في النحو

درس نمبر 3: کلمہ کی اقسام اور ان کی وضاحت

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارت

3

اسم کی تعریف

"فَحَدُّ الِاسْمِ: کَلِمَةٌ تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى فِي نَفْسِهَا غَيْرَ مُقْتَرِنٍ بِأَحَدِ الْأَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ"

 کلمے کی اقسام

گزشتہ درس میں ہم نے کلمے کی تعریف اور اس کی اقسام کو بیان کیا تھا۔ آج ان "اقسام ثلاثہ" کے ہم نے کہا تھا کلمے کی تین قسمیں ہیں، ایک اسم ہوتا ہے، ایک فعل ہوتا ہے اور ایک حرف ہوتا ہے۔ ان "اقسام ثلاثہ" میں آج مختصر مختصر بحث فرما رہے ہیں کہ اسم کی تعریف اور اس کی علامات، فعل کی تعریف اور اس کی علامات، حرف کی تعریف اور اس کی علامات کو بیان کیا جانا ہے۔

4

علامات کی اہمیت

ہم اگر علامات کو جانتے ہوں گے تو قرآن و حدیث سے یہ جان سکیں گے کہ یہ اسم ہے یا یہ، ظاہر ہے، جس پر وہ علامات ہوں گی جو فقط اسم کے ساتھ مختص ہیں، تو ہم جان لیں گے چونکہ اسم میں یہ علامت پائی جاتی ہے لہٰذا یہ اسم ہوگا کچھ اور نہیں، اور جو علامت فعل کے ساتھ مختص ہے اگر وہ کسی لفظ میں پائی جائے گی قرآن یا حدیث میں تو ہم بہت آسانی سے جان لیں گے کہ یہ فعل ہے اسم یا حرف نہیں۔ بالکل آسان کوئی اس میں دقیق بات جیسے انہوں نے ابتداء میں کہا تھا کہ میں نے اپنی کتاب کی اس انداز میں تحریر کیا ہے کہ طالب علم کا ذہن پریشان نہ ہو، منتشر نہ ہو، واقعاً انہوں نے اسی انداز میں ہی اس کو لکھا ہے۔

 مثلاً پہلا سوال "اسم" کسے کہتے ہیں؟ اس کا جواب وہی جو گزشتہ درس میں تھا، جو ہم نے آخر میں کہا تھا کیا؟ "اسم" وہ لفظ ہے جو ایک معنی پر دلالت کرتا ہو "بنفسہ" یعنی اپنے معنی پر دلالت کرنے میں کسی کا محتاج نہ ہو، اور وہ کسی زمانے کے ساتھ ملا ہوا بھی نہ ہو۔

"فعل" کسے کہتے ہیں؟ "فعل" وہ لفظ ہے جو ایک معنی پر دلالت کرتا ہو "بذاتہ"، لیکن ساتھ وہ اس کا معنی کسی نہ کسی زمانے پر بھی، کے ساتھ بھی، یعنی جہاں یہ بتا رہا ہو کہ یہ معنی ہے، ساتھ یہ بھی بتا رہا ہو کہ یہ معنی کس زمانے میں ہوا یا ہوگا۔

"حرف" کسے کہتے ہیں؟ بہت آسان، فرماتے ہیں "حرف" کی مثال یہ ہے کہ جو کسی معنی پر دلالت کرنے میں "بذاتہ" مستقل نہ ہو، بلکہ کسی معنی پر دلالت کرنے میں کسی اور کا محتاج ہو، کسی اور کے ساتھ ملائیں گے تو وہ کوئی معنی دیتا ہو، جب تک کسی اور کے ساتھ نہ ملائیں تب تک وہ معنی نہ دے۔

5

اسم کی علامات اور ان کی وضاحت

اب ہے ان کی علامات۔ کہ اسم کی علامت کیا ہے؟ پہچانیں گے کیسے؟ عربی میں ایک لفظ لکھا ہے قرآن مجید میں تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ اسم ہے اور یہ حرف؟ صاحب ہدایہ نے بڑے پیارے انداز میں علامات اسم اور فعل کو بھی بیان فرما دیا ہے۔

کیا؟ کہ یہ علامات اگر ہوں گی تو وہ لفظ، وہ کلمہ اسم ہوگا، اور فلاں فلاں علامت اگر ہوگی تو وہ فعل ہوگا، اور یہ طے ہے کہ جو اسم ہوتا ہے وہ فعل نہیں، جو فعل ہوتا ہے وہ اسم نہیں یا حرف نہیں۔  اب میں اس کو آسان کرنے کے لیے ساتھ ساتھ ترجمہ کر کے سمجھاتا ہوں تاکہ آپ کو ہر ایک کی پھر ساتھ مثال بتاتا جاؤں گا تو آپ کے لیے سمجھنا اور زیادہ آسان ہو جائے گا۔

"ثم حَدُ الِاسْمِ" اب وہ پہلے بتایا نا کہ کلمہ کی تین قسمیں ہیں، اسم، فعل، حرف۔ اب ہر ایک کی تعریف۔ اسم کی تعریف، "حد" کہتے ہیں تعریف کو، اسم کی تعریف کیا ہے؟ "کَلِمَةٌ" اسم وہ کلمہ ہے۔ "تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى" جو دلالت کرتا ہے ایک معنی پر، "فِي نَفْسِهَا بذاتہ"، یعنی کسی معنی کو سمجھانے میں، دلالت کرنے میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہوتا۔ "غَيْرَ مُقْتَرِنٍ" اور وہ معنی "اَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ" میں سے، "اعنی الْمَاضِیْ وَالْحَالِ وَالِاسْتِقْبَالِ" یعنی وہ زمان، وہ معنی "اَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ"، تین زمانے یعنی ماضی، حال اور استقبال میں سے کسی ایک کے ساتھ ملا ہوا بھی نہیں ہوتا۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہو گیا، اب کیا کہیں گے؟ یعنی وہ لفظ یہ تو بتاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے، معنی کو بتاتا ہے، لیکن معنی کے ساتھ زمانے کو نہیں بتاتا۔

"کَالرَّجُلِ وَعِلْمٍ" بہت توجہ کے ساتھ آغا مزے دار۔ "رَجُلٌ" یہ بھی اسم کی مثال، "عِلْمٌ" اور یہ بھی اسم کی مثال۔

اب سوال یہ ہو گا کہ جناب دو مثالیں دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آپ جواب دیں گے، "رَجُلٌ" (مرد) یہ ہے "اسمِ ذات" کی مثال، اور "عِلْمٌ" یہ ہے "اسمِ صفت" کی مثال۔ علم ایک صفت ہے جو کسی ذات کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ "رَجُلٌ"، "رَجُلٌ" کہتے ہیں مرد کو، مرد ایک خود ذات ہوتی ہے جس کا اپنا خارج میں وجود پایا جاتا ہے۔ صفت ہمیشہ کسی اور کے ساتھ مل کے ہوتی ہے، صفت کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بہت آسان۔

اب اگلی بات۔ "وَعَلَامَتُهُ" اسم کی علامت کیا ہے؟ علامت اسم کیا ہے؟ بڑی  پیاری باتیں ہیں۔ اب آپ اس کو کاپی پر لکھ لیں ایک اور انداز میں تو آپ کو اور زیادہ آسان ہوگا وہ کیا؟ یعنی دو علامتیں اسم کی ایسی ہیں جن کا تعلق ہے ابتداء سے، یعنی وہ اسم کے ابتداء میں آتی ہیں۔ دو علامتیں ایسی ہیں جن کا تعلق ہے انتہا سے کہ وہ اسم کے آخر میں آتی ہیں۔ کتنی ہوگئیں؟ چار۔ آٹھ ہیں وہ کہ جن میں ہر ایک کے ابتداء میں میم آتی ہے۔ بہت پیارا ہے یہ کہ نئی چیز ہے آپ کو مزہ دے گا جب آپ لکھیں کاپی پر تو پھر آپ کو بہت لطف آئے گا۔اچھا وہ کیسے؟ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

 اسم کی علامات

"وَعَلَامَتُهُ" اسم کی علامات۔ اچھا پہلے وہ ترتیب جو میں نے بتائی ہے آپ کاپی میں لکھ لیں، کتاب میں ترتیب اس طرح نہیں ہے۔

۱۔ الف لام

مثلاً دو کا تعلق اسم کے ابتداء سے ہے جیسے الف لام ابتداء میں آ سکتا ہو۔ "رَجُلٌ" کو "اَلرَّجُلُ" پڑھنا۔

۲۔حرف جار

حرف جار ابتداء میں آ سکتا ہو جیسے "رَجُلٌ" کو "بِرَجُلٍ" پڑھنا، "زَيْدٌ" کو "بِزَيْدٍ" پڑھنا۔ ان دو کا تو ابتداء سے ہے۔

۳۔ تنوین

دو کا تعلق انتہا سے ہے۔ آخر میں تنوین کا آنا، "زَيْدٌ"، یہ جو تنوین ہے یہ اسم پر ہوتی ہے فعل پر نہیں ہوتی۔

۴۔تائے تانیث متحرکہ

اسی طرح فرماتے ہیں آخر میں "تائے تانیث متحرکہ" کا آنا۔ او جیسے ہم کہتے ہیں "ضَارِبَةٌ"، تو "ضَارِبَةٌ" یہ بھی اسم ہے فعل نہیں کیونکہ آخر میں "تائے متحرکہ" ہے۔

اچھا باقی رہ   گئے آٹھ جو میں نے گزارش کیے ہیں۔کہ جو یعنی ان کے ابتداء میں میم ہوتا ہے، بہت ترتیب سے۔اسم مسند الیہ ہوتا ہے، اسم منصوب ہوتا ہے، اسم مصغر ہوتا ہے، اسم مضاف ہوتا ہے، اسم موصوف ہوتا ہے، اسم منادی ہوتا ہے، اسم مثنی ہوتا ہے، اسم مجموع ہوتا ہے۔ اب دیکھو آٹھ گنیں، ہر ایک کے ابتداء میں میم ہے۔ خوب، یہ تو علیحدہ سے بات تھی اب آپ دیکھیں ان کی مثالیں بھی ان شاءاللہ دیتے ہیں۔

الف لام کی مثال میں نے دے دی "اَلرَّجُلُ"، ابتداء میں حرف جار ہے جیسے "بِزَيْدٍ"۔ تنوین کی مثال "زَيْدٌ" 

تائے تانیث متحرکہ  کی مثال "ضَارِبَةٌ"۔

اچھا آگے، مسند کی مثال، "زَيْدٌ قَائِمٌ" میں "زَيْدٌ"۔ "قَائِمٌ" مسند، "زَيْدٌ" مسند الیہ۔

"بَغْدَادِيٌّ"  منسوب  کی مثال یعنی جس کی او نسبت دینا، "بَغْدَادِيٌّ"، یعنی بغداد میں رہنے والا، جس کی نسبت بغداد کی طرف ہو، بغدادی ہو گیا۔ جیسے ہم کہتے ہیں فلاں لاہوری ہے۔ فلاں پشاوری ہے۔ فلاں پنجابی ہے۔ یہ جو آخر میں یا ہوتی ہے یہ نسبت والی ہوتی ہے نا اس کو منسوبی کہتے ہیں۔

مصغر کی مثال جیسے "رَجُلٌ" سے "رُجَيْلٌ"۔ اسم کوئی تصغیر ہو سکتی ہے، فعل کی نہیں ہو سکتی۔

اچھا مضاف، "غُلامُ زَيْدٍ"، "غُلام" اسم ہے یہ مضاف ہوا ہے "زَيْدٍ" کی طرف، جبکہ فعل یا حرف مضاف نہیں ہوتا۔

موصوف، "رَجُلٌ کَرِيْمٌ"، "رَجُلٌ" موصوف ہے، "کَرِيْمٌ" وہ اس کی صفت ہے، تو "رَجُلٌ" موصوف ہے یہ اسم ہے فعل کبھی موصوف نہیں ہوتا یا حرف۔

منادی، جیسے "یَا اللّٰهُ"۔ "اللّٰهُ" اسم ہے، "یَا اللّٰهُ" تو کہہ سکتے ہیں، "یَا ضَرَبَ" نہیں کہہ سکتے۔ فعل منادی واقع نہیں ہوتا۔

مثنی، "رَجُلَانِ"، "رَجُلٌ" کی تثنیہ "رَجُلَانِ"۔

مجموع یعنی جمع، جیسے "رَجُلٌ" کی جمع "رِجَالٌ"۔ تو یہ چیزیں ہیں جو ان کو کہا جاتا ہے علامات اسم، یعنی یہ فقط اسم میں، فعل یا حرف میں یہ نہیں ہیں۔

 اسم کی علامات (کتاب کی ترتیب)

اب کتاب کا ترجمہ۔ مثالیں ساری کاپی پر لکھ لیں گے تو آپ کے لیے پھر اور آسان ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں۔ "وَعَلَامَتُهُ" اسم کی علامت کیا ہے؟

۱۔إِخْبَارُ عَنْهُ

"أَنْ يَصِحَّ الْإِخْبَارُ عَنْهُ" اس سے خبر دینا صحیح ہے، یعنی وہ مسند الیہ بن سکتا ہے، جیسے جیسے میں نے مثال دی تھی "زَيْدٌ قَائِمٌ"، "زَيْدٌ" مبتدا تھا، "قَائِمٌ" خبر تھی، "زَيْدٌ" مسند الیہ ہے، "قَائِمٌ" مسند ہے، یعنی "زَيْدٌ" سے خبر دینا، یعنی "زَيْدٌ" مبتدا، یعنی آپ یوں کہیں گے کہ اسم مبتدا واقع ہو سکتا ہے۔

۲۔الْإِضَافَةُ

"وَالْإِضَافَةُ" اسی طرح دوسری علامت اب ترتیب سے لکھتے جائیں۔ اسم کی دوسری علامت یہ ہے کہ اس کو مضاف، اضافت صحیح ہے، "نَحْوَ غُلامُ زَيْدٍ"۔ "غُلام" اسم ہے جو مضاف ہو کر استعمال ہوا ہے۔

۳۔دُخُولُ لَامِ التَّعْرِيفِ

"وَدُخُولُ لَامِ التَّعْرِيفِ" تیسری علامت، اسم پر الف لام تعریف کا داخل ہو سکتا ہے، "کَالرَّجُلِ" جیسے "رَجُلٌ" پر "اَلرَّجُلُ"۔

۴۔الْجَرُّ

"وَالْجَرُّ" اسم پر حرف جار داخل ہو سکتا ہے، جیسے میں نے مثال دی تھی "بِزَيْدٍ"۔

۵۔التَّنْوِينُ

اسم پر تنوین آ سکتی ہے "وَالتَّنْوِينُ"، جیسے ہم نے کیا کہا تھا "زَيْدٍ"، دال پر تنوین ہے یا "زَيْدٌ" اس کو تنوین کہتے ہیں۔

۶۔التَّثْنِيَةُ

"وَالتَّثْنِيَةُ وَالْجَمْعُ" اسم تثنیہ ہوتا ہے جیسے "رَجُلٌ" سے "رَجُلَانِ"۔

۷۔الْجَمْعُ

"وَالْجَمْعُ" اسم جمع ہوتا ہے جیسے "رَجُلٌ" سے "رِجَالٌ"۔

۸۔النَّعْتُ

"وَالنَّعْتُ" اسم صفت واقع ہو سکتا ہے۔

۸۔التَّصْغِيْرُ

"وَالتَّصْغِيْرُ" اسم کی تصغیر ہو سکتی ہے، او جیسے "رَجُلٌ" سے "رُجَيْلٌ"۔

۹۔النِّدَاءُ

"وَالنِّدَاءُ" اسی طرح اس پر حرف ندا ہو، یعنی منادی واقع ہو سکتا ہے جیسے "یَا اللّٰهُ"۔ ٹھیک ہو گیا جی، یہ علامات ہو گئیں اس کی۔

آگے فرماتے ہیں۔ "فَإِنَّ كُلَّ هَذِهِ خَوَاصُ الِاسْمِ" یہ ساری کی ساری اسم کی خصوصیات ہیں، یعنی یہ چیزیں فقط اسم کے ساتھ خاص ہیں، فعل یا حرف کے ساتھ نہیں ہیں۔ ٹھیک ہو گیا آغا، یہ بات یہاں ختم۔

فرماتے ہیں "وَمَعْنَى الْإِخْبَارِ عَنْهُ" یہ جو ہم نے ابتداء میں کہا تھا کہ اسم سے خبر دینا صحیح ہے، کیا مطلب؟ وہ بتا رہے ہیں اس "اخبر عن" کا معنی کیا ہے؟ یعنی یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اسم سے بارے میں خبر دینا صحیح ہے، فرماتے ہیں اس کا مطلب ہے "أَنْ يَكُونَ مَحْكُومًا عَلَيْهِ" اس کا مطلب ہے یعنی اسم "محکوم علیہ" واقع ہو سکتا ہے، یعنی اسم پر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے، کیوں؟ "لِكَوْنِهِ فَاعِلًا" چونکہ یا یہ فاعل ہوگا، یا مفعول ہوگا، یا مبتدا ہوگا، تو یہ فاعل ہو، مفعول ہو یا مبتدا ہو یہ "محکوم علیہ" ہوتا ہے اور بعد میں ان پر خبر ہوتا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ قَائِمٌ"، اس میں "زَيْدٌ" مبتدا ہے۔ یہ ہم کہتے ہیں۔ "زَيْدٌ مَضْرُوبٌ"، "محکوم علیہ"، یعنی "زَيْدٌ" پر کیا ہے؟ خبر دی جا رہی ہے کس بات کی کہ "زَيْدٌ" کو مارا گیا ہے، یا ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ ضَارِبٌ"، یعنی خبر دی جا رہی ہے کہ "زَيْدٌ" فاعل ہے، کیا مطلب؟ یعنی کہ "زَيْدٌ" مارنے والا ہے۔

 اسم،اسم کیوں کہلاتا ہے؟

اب آخر میں فرماتے ہیں ایک جملہ۔ وہ جملہ یہ ہے کہ اسم کو اسم کیوں کہتے ہیں؟ بعض کہتے ہیں کہ اسم مشتق "سمو" سے ہے، "سمو" کہتے ہیں بلندی کو، برتری کو۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مشتق "وسم" سے ہے، "وسم" کہتے ہیں علامت کو، چونکہ یہ اپنے معنی پر علامت ہوتا ہے۔

صاحب ہدایہ کی رائےسمو سے اشتقاق

صاحب ہدایہ اپنا نظریہ بنا رہے ہیں، بتا رہے ہیں، فرماتے ہیں۔ "وَيُسَمَّى اسْمًا" میرے نزدیک اسم کو اسم کیوں کہا جاتا ہے؟ اسم کو اسم کیوں کہا جاتا ہے؟ "لِسُمُوِّهِ عَلَى قِسْمَيْهِ" اس لیے کہ یہ اپنی دونوں دونوں باقی قسمیں یعنی فعل اور حرف سے بلند ہوتا ہے، "لِسُمُوِّهِ" یعنی یہ بلند ہوتا ہے، ہول ہوتا ہے اس لیے۔ یعنی گویا ان کے نزدیک اسم "سم" یعنی بلندی سے مشتق ہے۔

وسم سے اشتقاق کی تردید

آگے فرماتے ہیں۔ "لَا لِكَوْنِهِ وِسْمًا عَلَى الْمَعْنَى" نہ اس لیے، نہ یہ کہ یہ چونکہ اپنے معنی پر علامت "وسم" کہتے ہیں علامت کو، وہ جو میں نے گزارش کی کہ بعض کہتے ہیں کہ اسم مشتق "وسم" سے ہے، یعنی اس اصل میں "وسم" تھا، "وسم" کہتے ہیں علامت کو، چونکہ یہاں اپنے معنی پر علامت ہے۔ صاحب ہدایہ کہتے ہیں میرے نزدیک یہ "وسم" سے مشتق نہیں، بلکہ یہ "سم" یعنی بلندی والے معنی سے ہے۔ ٹھیک ہو گیا؟

سمو اور وسم کی وضاحت

"سمو"، "سم" یعنی بلندی اور "وسم" یعنی علامت۔

6

فعل کی تعریف اور اس کی علامات

آگے، کلمہ کی دوسری قسم کون سی تھی  فعل، اب آ گیا فعل کی تعریف اور اقسام، فرماتے ہیں۔

فعل کی تعریف

"وَحَدُّ الْفِعْلِ" فعل کی تعریف کیا ہے؟ بالکل آسان۔ "تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى" کہ وہ دلالت کرے ایک ایسے معنی پر "فِي نَفْسِهَا" یعنی "بذاتہ" یعنی اپنے معنی اپنے معنی پر دلالت کرنے میں کسی غیر کا محتاج نہ ہو۔ "مُقْتَرِنٍ" جبکہ وہ معنی ملا ہوا ہو "بِأَحَدِ الْأَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ"، ازمنہ ثلاثہ میں سے کسی ایک، یعنی فقط معنی کو نہ بتا رہا ہو، بلکہ معنی کے ساتھ اس کے زمانے کو بھی بتا رہا ہو کہ آیا یہ ماضی میں تھا یا حال میں ہے یا استقبال میں۔

مثال، "ضَرَبَ" "ضَرَبَ" کیا بتا رہا ہے؟ "ضَرَبَ" بتا رہا ہے معنی ضرب کو، "ضَرَبَ" دو کام بتا رہا ہے ایک تو یہ بتاتا ہے کہ مارا، مارنا ایک معنی ہے، ایک حدث ہے۔ اور دوسرا یہ بھی بتا رہا ہے کہ مارا زمانہ ماضی میں، ساتھ زمانے کو بھی بتا رہا ہے۔

"یَضْرِبُ" فعل مضارع، "یَضْرِبُ" کیا بتا ہے؟ کہ وہ مارے گا، یعنی ایک معنی ضرب کو بیان کر رہا ہے مارنے کو اور ساتھ یہ بھی بیان کر رہا ہے کہ زمانہ استقبال میں مارے گا۔

"اِضْرِبْ" امر، یعنی جہاں طلب ضرب کیا جا رہا ہے، یعنی یہاں انشاء ہے۔ وہ ہو گئی خبر، "ضَرَبَ" اس نے مارا زمانہ گزشتہ میں، "یَضْرِبُ" یعنی وہ مارے گا یہ بھی خبر ہے زمانہ آئندہ میں، "اِضْرِبْ" یہ انشاء کی مثال ہے کہ یہاں طلب کے معنی میں ہے۔ تو پس یہ اس کے ساتھ ساتھ "اِضْرِبْ" انشاء ہے اور یہ زمانہ حال کے لیے مثال ہے۔

 فعل کی علامات

اب آ گیا علامات۔ کہ جیسے ہم نے پچھلے علامات اسم پڑھی ہیں، اسی طرح فعل کے بھی علامات ہیں کہ ہمیں یہ پتہ چلے کہ یہ فعل کی پہچان ہمیں کیسے ہوگی۔ فرماتے ہیں اس کی بھی آسان سی ہیں۔ بالکل آسان ذرا غور کرو۔

۱۔الإخبارُ بِه

پہلی علامت "أَنْ يَصِحَّ الْإِخْبَارُ بِه، لَا عَنْهُ"۔ یعنی فعل کے ساتھ کسی کی خبر دینا صحیح ہے اس سے۔ کیا مطلب؟ یعنی اب یوں اس کا ترجمہ کریں گے کہ فعل کی علامت یہ ہے کہ فعل "مخبر بہ" واقع ہو سکتا ہے، "مخبر عن" واقع نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟ چونکہ "مخبر عن" ہونا، او "إخبار عن" ہو، یہ اسم کی علامت تھی۔ تو جو علامت اسم کے ساتھ خاص ہے وہ پھر فعل میں نہیں آئے گی۔ پس یہ "مخبر بہ" ہے۔

دوسری علامت کدھر ہے؟ "وَدُخُولُ قَدْ وَالسِّينِ وَسَوْفَ وَالْجَازِمِ عَلَيْهِ"۔ فعل کی دوسری علامت یہ ہے کہ اس فعل پر "قد" داخل ہو سکتا ہے۔ "سین" ابتداء میں آ سکتی ہے۔ "سوف" داخل ہو سکتا ہے اور "جازم"۔ یعنی "قد ضَرَبَ" کہنا صحیح ہے۔ "سَیَضْرِبُ" کہنا صحیح ہے۔ "سوف یَضْرِبُ" کہنا صحیح ہے۔ "لم یَضْرِب" کہنا صحیح ہے۔ جبکہ "قد زیدٌ"، "لم زیدٌ"، "سَیَزیدٌ"، "سوف زیدٌ" وہ صحیح نہیں۔ کیوں؟ چونکہ "قد"، "سین"، "سوفا" اور "جازم" یہ کس پر داخل ہوتے ہیں آغا؟ فقط فعل پر، کسی اور پر داخل نہیں ہوتے۔ جیسے میں نے مثالیں دی ہیں۔ سین کی مثال، اچھا مثالیں کیا دی تھیں؟ جیسے "قد ضَرَبَ"، "سَیَنْصُرُ"، "سوف یَنْصُرُ"، "سَیَضْرِبُ"، "سوف یَضْرِبُ"، "لم یَنْصُر"، "لم یَضْرِب" وغیرہ۔

۲۔ تصریف

اور علامت اس کی کیا ہے؟ فرماتے ہیں اس کی اور علامت ہے۔ فعل کی علامت یہ ہے "وَالتَّصْرِيفِ إِلَى الْمَاضِي وَالْمُضَارِعِ وَكَوْنِهِ أَمْرًا أَوْ نَهْيًا"۔ ہم اس فعل کو ماضی کی گردانیں کر سکتے ہیں، تبدیل کر سکتے ہیں فعل کو ماضی میں۔ اس کی گردان مضارع اس سے بن سکتا ہے، امر اور اس سے بنا سکتے ہیں نہی۔ مثلاً فعل کو ماضی میں گردان کر سکتے ہیں "ضَرَبَ ضَرَبَا ضَرَبُوا، ضَرَبَتْ ضَرَبَتَا ضَرَبْنَ، ضَرَبْتَ ضَرَبْتُمَا ضَرَبْتُمْ، ضَرَبْتِ ضَرَبْتُمَا ضَرَبْتُنَّ، ضَرَبْتُ ضَرَبْنَا"۔ اس کی تصریف، یعنی اس کی گردان مضارع کی ہو سکتی ہے جیسے "یَضْرِبُ یَضْرِبَانِ یَضْرِبُونَ، تَضْرِبُ تَضْرِبَانِ یَضْرِبْنَ، تَضْرِبُ تَضْرِبَانِ تَضْرِبُونَ، تَضْرِبِينَ تَضْرِبَانِ تَضْرِبْنَ، اَضْرِبُ نَضْرِبُ"۔ فعل میں تو ایسا نہیں ہے۔ "وَكَوْنِهِ أَمْرًا"، "اِضْرِبْ اِضْرِبَا اِضْرِبُوا، اِضْرِبِي اِضْرِبَا اِضْرِبْنَ"۔ اسی طرح "أَوْ نَهْيًا"، جیسے نہی "لَا تَضْرِبْ لَا تَضْرِبَا لَا تَضْرِبُوا، لَا تَضْرِبِي لَا تَضْرِبَا لَا تَضْرِبْنَ" وغیرہ۔

۳۔ضمیر بارز مرفوع

خوب۔ یہ ہو گئی علامات۔ ماضی اور مضارع کی طرف تصریف گردانیں ہو سکتی ہیں اسم کی نہیں ہو سکتی، خوب۔ آگے فرماتے ہیں۔ "وَاتِّصَالُ الضَّمَائِرِ الْبَارِزَةِ الْمَرْفُوعَةِ"۔ فعل کی علامت یہ ہے کہ اس فعل کے ساتھ ضمیر بارز مرفوع لگ سکتی ہے۔ جیسے کتب سے ہم کہتے ہیں "کَتَبْتُ"۔ اب یہ جو "تُ" ہے، ضمیر واحد متکلم بارز یہ مرفوع کی ہے۔ "کَتَبْتُ"۔ بہت آسان ضمیر لگ گئی۔

۴۔ تائے تانیث ساکنہ

اچھا۔ "تائے تانیث ساکنہ" وہ بھی فعل کے آخر میں لگ سکتی ہے جبکہ اسم کے ساتھ یعنی زید کے ساتھ زیدت نہیں لگ سکتی۔ یعنی فعل کے ساتھ "تائے تانیث" جیسے "کتب" کو ہم کہتے ہیں "کَتَبَتْ"۔ یہ جو آخر میں تا ہے یہ "تائے تانیث" ہے اور "تائے تانیث" فقط فعل کے ساتھ لگ سکتی ہے اسم کے ساتھ نہیں۔

۵۔ نون تاکید

"وَنُونُ التَّأْكِيدِ"۔ اسی طرح فرماتے ہیں "نون تاکید" بھی فقط کس کے ساتھ لگ سکتی ہے آغا؟ فقط فعل۔ اب وہ "نون تاکید" چاہے ثقیلہ ہو چاہے خفیفہ ہو، جیسے "اِضْرِبَنَّ اِضْرِبُنَّ اِضْرِبِنَّ" یہ ہو گیا ثقیلہ۔ "اِضْرِبَنَ اِضْرِبَانَ اِضْرِبُنَ اِضْرِبِنَ" یہ ہو گئی خفیفہ۔ تو یہ بھی فقط فعل کے ساتھ لگ سکتی ہیں۔

فرماتے ہیں "فَإِنَّ كُلَّ هَذِهِ مِنْ خَوَاصِّ الْفِعْلِ"۔ یہ ساری کی ساری فعل کی خصوصیات ہیں، یعنی یہ ساری فعل کی خصوصیات ہیں۔ کیا مطلب "خَوَاصِّ الْفِعْلِ"؟ یعنی یہ چیزیں فعل کے ساتھ خاص ہیں۔ پس اب ذرا توجہ کرنا ہے۔ اگر کسی لفظ سے پہلے "قد" آ جائے تو سمجھ جاؤ کہ "قد" کے بعد فعل ہوگا اسم نہیں۔ اگر کہیں دیکھتے ہیں کہ ہم پہلے "سوف" آ گیا ہے تو اس کا مطلب ہے اس کے بعد پھر فعل ہوگا اسم۔ اگر کسی کے ساتھ "نون تاکید" ثقیلہ یا خفیفہ لگی ہے تو یہ علامت ہوگی کہ یہ فعل ہے اسم نہیں۔ ٹھیک ہو گیا آغا؟ خوب۔ "فَإِنَّ كُلَّ هَذِهِ خَوَاصِّ الْفِعْلِ" یہ ساری کی ساری علامات فعل ہیں اور اس کے خصوصیات ہیں۔

۶۔"وَمَعْنَى الْإِخْبَارِ بِه"

 یہ جو ہم نے کہا تھا،جیسے ہم نے وہاں تفصیل بیان کی تھی کہ اسم سے خبر دینا صحیح ہے پھر بتایا تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اب "إخبار بہ" کا معنی یہ ہے کہ "أَنْ يَكُونَ مَحْكُومًا بِه"۔ جیسے "إخبار عن" کا مطلب یہ تھا کہ وہ "محکوم علیہ" بن سکتا ہے۔ تو "إخبار بہ" کا معنی یہ ہے کہ یہ فعل "محکوم بہ" بن سکتا ہے۔ یعنی اس کے ساتھ کسی پر حکم لگایا جا سکتا ہے۔

 فعل، فعل کیوں کہلاتا ہے؟

"وَيُسَمَّى فِعْلًا"۔ فعل کو فعل کیوں کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں "بِاسْمِ أَصْلِهِ وَهُوَ الْمَصْدَرُ"۔ درحقیقت فعل کو اس کے اصل یعنی مصدر والا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بحث ہے۔ ہم نے وہاں بھی کی تھی شرح میں تو عامل میں کہ آیا فعل اصل ہے یا مصدر اصل ہے؟ تو ہم نے کہا تھا دو نظریے ہیں۔ بعض کہتے ہیں مصدر اصل ہے اور بعض کہتے ہیں فعل۔ شرح میں تو عامل والا وہ قائل ہے کہ نہیں فعل اصل ہے مصدر اصل نہیں ہے۔ لیکن اب یہاں دیکھتے ہیں ہدایة النحو والے سے کیا لگتا ہے؟ کہ یہ مصدر کو اصل قرار دے رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں "یُسَمَّى فِعْلًا"۔ یعنی فعل کا فعل نام کیوں رکھا گیا ہے؟ "بِاسْمِ أَصْلِهِ"۔ درحقیقت اس کے اصل والا نام دیا گیا ہے اور اصل کیا ہے؟ "وَهُوَ الْمَصْدَرُ" اور وہ ہے مصدر۔ یعنی ان کے نزدیک اصل فعل نہیں بلکہ مصدر ہے۔ "هُوَ فِعْلُ الْفَاعِلِ حَقِيقَةً"۔ حقیقت میں فاعل کا فعل مصدر ہوتا ہے۔ وہ جو ہم کہتے ہیں "ضَارِبٌ"۔ زید مارنے والا ہے تو مارنے والے کا فعل کیا ہوتا ہے؟ وہ ضرب۔ تو درحقیقت وہ فعل وہی ضرب ہوتی ہے لیکن ہم اس نے مصدر والا نام فعل کو دے دیا۔

7

حرف کے بارے میں

حرف

اب تیسری قسم اس کی رہ گئی اس کو بھی پڑھ لیتے ہیں تاکہ یہ بحث کلمے کی مکمل ہو جائے پھر ان شاءاللہ ہم چلے جائیں گے اگے کلام میں۔ "وَحَدُّ الْحَرْفِ"۔ حرف کسے کہتے ہیں؟ بالکل آسان۔ فرماتے ہیں۔ "کَلِمَةٌ"۔ حرف وہ کلمہ ہے "لَا تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى فِي نَفْسِهَا"۔ جو کسی بھی معنی پر بذاتہ مستقل دلالت نہیں کرتا۔ "بَلْ تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى فِي غَيْرِهَا"۔ بلکہ وہ دلالت کرتا ہے ایسے معنی پر جو کسی اور میں پایا جاتا ہے۔ نحو "مِنْ" جیسے "مِنْ" یہ حرف ہے، "با" ایک حرف ہے۔

اب "فَإِنَّ مَعْنَاهَا الِابْتِدَاءُ"۔ "مِنْ" کا معنی کیا ہوتا ہے؟ ابتداء۔ او ہم نے مثالیں کئی پڑھی ہیں "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ" میں چلا بصرہ سے، "سِرْتُ مِنَ الْلَاهُورِ" میں چلا لاہور سے۔ اب فرماتے ہیں یہ "مِنْ" "لَا تَدُلُّ عَلَيْهِ" یہ "مِنْ" ابتداء پر دلالت نہیں کرتا "إِلَّا بَعْدَ ذِكْرِ مَا مِنْهُ الِابْتِدَاءُ"۔ مگر جب تک اس کو ذکر نہ کیا جائے جس سے ابتداء۔ خال "مِنْ" لکھا ہو کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ابتداء کا معنی تب دے گا جب اس کو بھی ذکر کیا جائے جہاں سے ابتداء ہوئی ہے۔ او جیسے ہم نے کہا "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ"۔ قال "البصرةَ والکوفةَ" یا "سیُضْربُ مِنَ الدَّرْسِ"۔ "تقول" اب کہتے ہیں "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"۔ اب بصرہ، "مِنْ" آتا ابتداء کے لیے، "إِلَى" آتا انتہا کے لیے۔ نہ "مِنْ" ابتداء کو سمجھا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ بصرہ کو ذکر نہ کیا جائے، نہ "إِلَى" حرف انتہا کو سمجھا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ کوفہ کو ذکر نہ کیا جائے، پس یہ اپنے معنی میں مستقل نہیں ہے۔

 حرف کی علامات

اس کے بعد اگلی بحث فرماتے ہیں وہ یہ ہے۔ علامت کیا ہے؟  کہ جس لفظ میں اسم اور فعل کی علامات میں سے کوئی علامت نہ پائی جاتی ہو وہ حرف ہوگا۔ یہ آسان ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی علامت اسم میں سے ہوگی تو یقیناً وہ اسم بن جائے گا اور جس میں کوئی علامات فعل میں سے جس لفظ میں کوئی ہوگی تو وہ فعل کہلائے گا۔ فرماتے ہیں "وَعَلَامَتُهُ"۔ حرف کے پہچاننے کی علامت کیا ہے؟ فرماتے ہیں "أَنْ لَا يَصِحَّ الْإِخْبَارُ عَنْهُ وَلَا بِه"۔ نہ یہ "مخبر عن" بن سکتا ہے، نہ "مخبر بہ"۔ یعنی حرف نہ "محکوم علیہ" واقع ہو سکتا ہے، نہ "محکوم بہ" اور "وَأَنْ لَا يَقْبَلَ عَلَامَاتِ الْأَسْمَاءِ وَلَا عَلَامَاتِ الْأَفْعَالِ"۔ حرف وہ ہے کہ نہ وہ علامات اسماء یعنی اسم کی علامات میں سے کسی کو قبول کرے اور نہ ہی وہ علامات افعال، نہ ہی افعال کی علامات میں سے کسی کو قبول کرے۔ آپ کے لیے آسان کیا ہوگا؟ آپ یوں کہیں کہ جو لفظ اسم یا فعل کے لیے بیان کی گئی علامات میں سے کسی علامت کو قبول نہ کرے اسے حرف کہتے ہیں۔

 حرف کا فائدہ

اب یہاں سوال ہوگا، سوال یہ ہے کہ حرف کہ یہ حرف نہ بذاتہ کسی معنی پر دلالت کرتا ہے۔ نہ اس پر وہ نہ "محکوم علیہ" واقع ہو سکتا ہے، نہ "محکوم بہ" واقع ہو سکتا ہے، تو پھر اس حرف کا فائدہ کیا ہے؟ ایک سوال تو بنتا ہے نا کہ نہ یہ "محکوم علیہ" ہے، یعنی نہ اس پر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے، نہ اس کے ساتھ کسی پر حکم لگایا جا سکتا ہے۔ تو پھر اس کا کوئی فائدہ؟ بالکل آسان، بڑی پیاری بات سمجھائی آسانی سے فرماتے ہیں۔ فائدے ہیں۔ "وَلِلْحَرْفِ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ فَوَائِدُ"۔ اس حرف کے کلام عرب میں بہت سارے فوائد ہیں۔

 دو اسموں کو جوڑنا

مثلاً مثال دے رہے ہیں، مثلاً "کَالرَّبْطِ بَيْنَ الْاسْمَيْنِ"۔ دو اسموں کو اگر آپ نے جوڑنا ہو وہاں آپ کو حرف کام دے گا۔ آپ چاہتے ہیں یہ بتائیں کہ زید گھر میں ہے۔ اب ایک ہو گیا زید اور گھر کو عربی میں کہتے ہیں دار۔ اب ایک اسم ہے زید اور ایک ہے دار۔ اب آپ ان کو جوڑنے کیسے؟ آپ "زید دار" کہہ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں کہہ سکتے۔ تو اب ان دو اسموں کو جوڑنے کے لیے آپ کو حرف کی ضرورت ہوتی ہے آپ کہتے ہیں "زیدٌ فی الدارِ"۔ زید گھر میں ہے۔ اب "فی" نے زید اور دار دو اسموں کو آپس میں ربط دے دیا۔ یہ اس کا بہت بڑا فائدہ ہے۔

دو فعلوں کو جوڑنا

"وَالْفِعْلَيْنِ"۔ حتی کہ یہ حرف دو فعلوں کے درمیان بھی رابط کا کام کرتا ہے۔ کیسے؟ "اُرِیْدُ أَنْ تَضْرِبَ"۔ "اُرِیْدُ" بھی ایک فعل اور "تَضْرِبَ" بھی فعل۔ لیکن اس کو جوڑنے کے لیے درمیان میں "أَنْ" کو لانا پڑا۔ "اُرِیْدُ" میں چاہتا ہوں "أَنْ تَضْرِبَ" کہ تو مارے۔ اب یہ "أَنْ" آیا تو اس نے آ کر "اُرِیْدُ" اور "تَضْرِبَ" کو آپس میں ربط دے دیا۔

اسم اور فعل کو جوڑنا

"اَوِ اسْمٍ وَفِعْلٍ"۔ اور کبھی اس کا ایک بڑا فائدہ ہے کہ یہ ایک جہاں دو اسموں کو آپس میں ربط دیتا ہے۔ جہاں دو فعلوں کو آپس میں ربط دیتا ہے، یہ حرف کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر کہیں اسم اور فعل کو آپس میں ربط دینا ہو تو بھی یہ حرف یہی کام کرتا ہے۔ مثلاً "ضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ"۔ "خشبة" کہتے ہیں لکڑی کو۔ اب "ضَرَبْتُ" ایک فعل ہے "خشبة" اسم ہے۔ اب ایک بندہ بتانا چاہتا ہے کہ میں نے مارا ہے لکڑی کے ساتھ تو اب "ضَرَبْتُ خشبة" کہے تو سمجھ نہیں آئے گی۔ اب "ضَرَبْتُ" کے بعد اس نے "با" لگا دی "ضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ"۔ میں نے مارا لکڑی کے ساتھ، اس "با" نے "خشبة" اسم اور "ضَرَبْتُ" فعل کے درمیان ربط پیدا کر دیا۔

دو جملوں کو جوڑنا

"وَالْجُمْلَتَيْنِ"۔ حتی کہ یہ حرف کلام عرب میں دو جملوں کو بھی آپس میں ملانے کا کام کرتا ہے ربط دیتا ہے۔ اس کا بڑا فائدہ ہے۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ دو جملوں کو جیسے ہم کہتے ہیں "إِنْ جَاءَنِي زَيْدٌ أُكْرِمْهُ" یا "أَكْرَمْتُهُ" جو بھی ہے۔ "فَأُكْرِمْهُ"۔ خوب۔ اب کیا کہتے ہیں؟ "إِنْ جَاءَنِي"۔ اب "جَاءَنِي زیدٌ" یہ ایک علیحدہ اور مستقل جملہ ہے۔ "فَأُكْرِمْهُ" میں اس کا، یا "أُكْرِمْهُ" میں اس کا احترام کروں گا یہ دوسرا جملہ ہے۔ تو اب فرماتے ہیں یہ دیکھو یہاں پر اب کیا کیا اس نے؟ بالکل آسان۔ فرماتے ہیں حرف نے دو جملوں کو "جَاءَنِي زیدٌ" ایک جملہ تھا، اگے "أُكْرِمْهُ" علیحدہ جملہ تھا، "إِنْ" نے آ کر ان دو جملوں کو آپس میں ربط دے دیا۔

"وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنَ الْفَوَائِدِ"۔ یہ تو ہم نے دو تین بتائے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی حرف کے اور بھی بہت سارے فوائد ہیں۔ "الَّتِي تَعْرِفُهَا"۔ ان شاءاللہ جب ہم اگے جائیں گے نا اقسام میں او قسم اول، قسم ثانی، قسم ثالث، ہم اس قسم ثالث میں جب حرف کی بحث کریں گے ان شاءاللہ پھر مزید وہاں پر بتائیں گے۔

 حرف، حرف کیوں کہلاتا ہے؟

اب ایک سوال اور اس کا مختصر سا جواب۔ وہ سوال کیا ہے آغا جان؟ وہ سوال یہ ہے۔ کہ حرف کو حرف کیوں کہتے ہیں؟ حرف کو حرف کیوں کہتے ہیں؟ جواب، جواب یہ ہے۔ کہ حرف کا معنی ہوتا ہے طرف۔ طرف کہتے ہیں کس کو؟ ایک کنارے کو، سائیڈ کو۔ تو فرماتے ہیں چونکہ یہ حرف بیچارہ ڈائریکٹ نہ مسند ہوتا ہے نہ مسند الیہ۔ او جیسے مسند، مسند الیہ مقصود بذات ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم جب کہتے ہیں کہ "ضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ"۔ "ضَرَبْتُ" بھی میرا مقصود تھا، میں نے بتانا تھا کہ میں مارا۔ "خشبة" بھی میرا مقصود تھی کہ یہ بتانا تھا کہ لکڑی کے ساتھ۔ اصل مقصود تھا مارنا اور خشبة کی بات کرنا۔ یعنی یہ "با" فقط ربط کے لیے ہے، یعنی یہ خود کوئی مقصود نہیں تھا فقط ان کو ملانے کے لیے ضرورت تھی اس لیے اس کو لایا گیا۔ فرماتے ہیں اس لیے اس حرف کو۔ فرماتے ہیں "وَيُسَمَّى حَرْفًا"۔ حرف کو حرف کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا نام اس لیے کر رکھا گیا ہے حرف "لِوُقُوعِهِ فِي الْكَلَامِ طَرَفًا"۔چونکہ یہ کلام حرف، حرف کہتے ہیں طرف کو، چونکہ یہ کلام میں طرف واقع ہوتا ہے ایک سائیڈ میں ہوتا ہے۔ وجہ، وجہ یہ ہے کہ "لَيْسَ مَقْصُودًا بِالذَّاتِ"۔ اس لیے کہ یہ بیچارہ خود ڈائریکٹ مقصود بذات نہیں ہوتا، جیسا کہ مسند اور مسند الیہ ہمارا مقصود بذات ہوتے ہیں یہ اس طرح کا نہیں ہوتا بلکہ ان کو فقط ان مسند یا مسند الیہ کو ربط دینے کے لیے ان کو لایا جاتا ہے۔ تو اس لیے چونکہ یہ مقصود نہیں اس لیے ہم اس کو حرف کہتے ہیں۔

وصلى الله على محمد وآل محمد

الفصل الثاني : الكلمة

لفظ وضع لمعنى مفرد وهي منحصرة في ثلاثة أقسام : اسم ، وفعل ، وحرف ، لأنّها إمّا أن لا تدلّ على معنى في نفسها وهو الحرف ، أو تدلّ على معنى في نفسها واقترن معناها بأحد الأزمنة الثلاثة وهو الفعل ، أو على معنى في نفسها ولم يقترن معناها بأحد الأزمنة وهو الاسم.

ثم حدّ الاسم : إنّه كلمة تدلّ على معنى في نفسه غير مقترنة بأحد الأزمنة الثلاثة ، أعني الماضي والحال والاستقبال ، ك‍ : رَجُلٌ ، وعِلْمٌ. وعلامته أن يصحّ الإخبار عنه وبه ك : زَيْدٌ قائِمٌ ، والإضافة ك‍ : غُلامُ زَيْدٍ ، ودخول لام التعريف ك : الرَّجُل ، والجرّ والتنوين والتثنية والجمع والنعت والتصغير والنداء. فإنّ كلّ هذه من خواصّ الاسم. ومعنى الإخبار عنه أن يكون محكوماً عليه ، فاعلاً أو مفعولاً ، أو مبتدأً. ويُسمّى اسماً لِسُمُوِّهِ على قَسِيمَيْه ، لا لكونه وَسْماً على المعنى.

وحدّ الفعل : إنّه كلمة تدلّ على معنى في نفسه ، ومقترنة بأحد الأزمنة الثلاثة ك‍ : ضَرَبَ ، يَضْرِبُ ، اضْرِبْ. وعلامته أن يصحّ الإخبار به لا عنه ، ودخول : «قد» و «السين» و «سَوْفَ» ، و «الجزم» نحو : قَدْ ضَرَبَ وسَيَضْرِبُ ، وسَوْفَ يَضْرِبُ ، ولَمْ يَضْرِبْ ، والتّصريف إلى الماضي والمضارع ، وكونه أمراً ونهياً ، واتصال الضمائر البارزة المرفوعة نحو : ضَرَبْتُ ، وتاء التأنيث الساكنة نحو : ضَرَبَتْ ، ونون التّأكيد نحو : اضْرِبَنَّ. فإنّ كلّ هذا من خواص الفعل. ومعنى الإخبار به أن يكون محكوماً به كالخبر. ويسمّى فعلاً باسم أصله وهو المصدر ، لأنّ المصدر هو فعل للفاعل حقيقة.

وحدّ الحرف : إنّه كلمة لا تدلّ على معنى في نفسها بل في غيرها نحو :

مِنْ ، فإنّ معناه الابتداء وهي لا تدلّ عليه إلّا بعد ذكر ما يفهم منه الابتداء كالبصرة والكوفة كما تقول : سِرْتُ مِنْ الْبَصْرَةِ إلَى الْكُوفَةِ.

وعلامته أن لا يصحّ الإخبار عنه ولا به ، وأن لا يقبل علامات الأسماء ولا علامات الأفعال.

وللحرف في كلام العرب فوائد كثيرة ، كالرّبط بين الاسمين نحو : زَيْدٌ في الدار ، أو فعلين نحو : زيدٌ إنْ تَضْرِبْ أضْرِبْ ، أو اسم وفعل كضَرَبْتُ بِالْخَشَبَةِ ، أو جملتين نحو : إنْ جاءني زَيْدٌ فَاُكْرِمْهُ ، وغير ذلك من الفوائد التي سيأتي تعريفها في القسم الثالث إن شاء الله تعالى.

ويسمّى حرفاً لوقوعه في الكلام حرفاً ، أي طرفاً ، لأنّه ليس بمقصود بالذات مثل المسند والمسند إليه.

الفصل الثالث : الكلام

لفظ تضمّن الكلمتين بالإسناد. والإسناد نسبة إحدى الكلمتين إلى الأُخرى بحيث تفيد المخاطب فائدة تامة يصحّ السكوت عليها نحو : قامَ زَيْدٌ.

فعلم أنّ الكلام لا يحصل إلّا من اسمين نحو : زَيْدٌ قائِمٌ ، ويسمّى جملة اسميّة ، أو فعل واسم نحو : قامَ زَيْدٌ ، ويسمّى جملة فعليّة. إذ لا يوجد المسند والمسند إليه معاً في غيرهما ، فلا بدّ للكلام منهما.

فإن قيل : هذا ينتقض بالنداء نحو : يا زَيْدُ ، قلنا حرف النداء قائم مقام أدْعُو وأطْلُبُ ، وهو الفعل ، فلا ينتقض بالنداء. فإذا فرغنا من المقدّمة فلنشرع في الأقسام الثلاثة والله الموفّق المعين.

القسم الأوّل : في الاسم

وقد مرَّ تعريفه وهو ينقسم على قسمين معرب ومبنيّ ، فلنذكر أحكامه