درس الهدایة في النحو

درس نمبر 53: افعال مقاربہ،تعجب اور مدح و ذم

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

افعال مقاربہ کی تعریف اور ان کی تعداد

 افعال مقاربہ کا تعارف

 یہ وہ افعال ہیں جن کو وضع کیا گیا ہے اس بات پر دلالت کرنے کے لئے کہ ان کی خبر ان کے فاعل کے اسم ان اسم کے قریب ہے۔ اب ذرا توجہ رکھنی ہے، آگے بالکل آسان ہے جو آپ پڑھ چکے ہیں۔ فرماتے ہیں افعال المقاربہ ان کا کام کیا ہوتا ہے؟ ان کا کام یہ ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں کہ ان کی خبر ان کے اسم کے قریب، "دُنُوّ" یعنی قریب ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی خبر ان کے اسم کے قرب پر دلالت کرتے ہیں۔ ان ۳شاءاللہ آگے بتاتے ہیں۔

 افعال مقاربہ کی اقسام

افعال مقاربہ میں کچھ ہیں کہ جن میں باقاعدہ قرب کا معنی پایا جاتا ہے، مقاربت کا۔ بعض ہیں جن میں امید کا پانا پایا جاتا ہے، اور بعض ہیں جن میں شروع، آغاز، انشاء کا معنی پایا جاتا ہے۔ چونکہ بعض میں قرب کا معنی پایا جاتا ہے تو لہذا "تَسْمِيَةُ الْكُلِّ بِاسْمِ الْجُزْءِ"، کل کو جز والا نام، چونکہ بعض ایسے ہیں جو بمعنى "قَرُبَ" کے استعمال ہوتے ہیں، مقاربت کا معنی پایا جاتا ہے، ہم نے سب کو ہی یہی نام دے دیا اور سب کا نام رکھ دیا افعال المقاربہ۔ حالانکہ بعض مقاربت پر دلالت کرتے ہیں، بعض امید کے لئے امید کا معنی دیتے ہیں، اور بعض جو ہے وہ اخذ و شروع انشاء کا دیتے ہیں۔ یہ تین قسم کے ہیں، اب میں نے ذرا ان کو یوں بیان کرتا ہوں، 

افعال مقاربہ کی فہرست

کون کون سے ہیں؟ نمبر ایک "عَسَى"، نمبر دو "عَسَى" پھر "كَادَ" اور "طَفِقَ"، "جَعَلَ"، "كَرَبَ" اور "أَخَذَ"۔ اب ان کو ذرا یاد کر لیں گے، ان کو لکھ لیں کہ افعال المقاربہ "عَسَى"، "كَادَ" دو ہو  گئے جی۔ آگے فرماتے ہیں "طَفِقَ"، "جَعَلَ"، "كَرَبَ"، "أَخَذَ"، "أَوْشَكَ"۔ یہ ہو گئے۔ جن کو کہا جاتا ہے افعال المقاربہ۔ اب آپ کو پوچھا افعال المقاربہ کو افعال المقاربہ کیوں کہا جاتا ہے؟ آپ کہیں گے چونکہ اگرچہ یہ تین قسم میں ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جو قرب پر دلالت، قرب کا معنی دیتے ہیں، بعض امید کا معنی دیتے ہیں اور بعض ان میں سے اخذ و شروع کا معنی دیتے ہیں۔ تو چونکہ بعض قرب کا معنی دیتے تھے تو ہم نے سب کا نام ہی مقاربہ رکھ دیا۔ ان کا کام کیا ہوتا ہے؟ ان افعال المقاربہ کی دلالت کس چیز پر ہوتی ہے؟ آسان، آپ کہیں گے یہ دلالت کرتے ہیں اس بات پر کہ ان کی خبر ان کے اسموں کے قریب ہے۔ اب آگے ہم تفصیل یوں بیان کرتے ہیں۔

 افعال مقاربہ کی نحوی تعریف

فرماتے ہیں: "أَفْعَالُ الْمُقَارَبَةِ هِيَ أَفْعَالٌ"، افعال المقاربہ وہ افعال ہیں۔ "وُضِعَتْ" جن کو وضع کیا گیا ہے "لِلدَّلَالَةِ" اس دلالت کے لئے کہ وہ اس بات پر دلالت کریں، کس بات پر؟ "عَلَى دُنُوِّ الْخَبَرِ لِفَاعِلِهَا" کہ ان کی خبر ان کے فاعل کے قریب ہے۔ خبر کے فاعل سے مراد وہی اسم ہے۔ یعنی خبر کے فاعل کے قریب ہونے پر دلالت کرنے کے لئے ان افعال المقاربہ کو وضع کیا گیا ہے۔ "وَهِيَ ثَلَاثَةُ أَقْسَامٍ" ان افعال مقاربہ اگرچہ اس بات میں شریک ہیں "لِلدَّلَالَةِ عَلَى دُنُوِّ الْخَبَرِ لِفَاعِلِهَا" لیکن یہ تین قسم کے ہیں۔

4

افعال مقاربہ کی اقسام اور خصوصیات

پہلی قسم رجَاء

"اَلْأَوَّلُ"، ان میں سے کچھ ہیں جو آتے ہیں "لِلرَّجَاءِ" امید کا معنی دیتے ہیں، جیسے ہم کہتے ہیں "عَسَى"۔ "عَسَى" آتا ہے امید کے لئے، "عَسَى زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ"، امید ہے کہ زید کھڑا ہو۔ یہاں "لِلرَّجَاءِ" یعنی امید کا معنی دیتی ہے۔

"عسی" کی خصوصیات

"عَسَى هُوَ فِعْلٌ جَامِدٌ"  نمبر ایک:  "عَسَى" امید کے معنی میں آتا ہے۔ نمبر دو:  "عَسَى" فعل جامد ہے یعنی ماضی کے علاوہ اس سے مضارع یا امر کے صیغے نہیں ہیں۔ "فِعْلٌ جَامِدٌ"، فعل جامد سے مراد ہے اس کی مزید گردانیں دیگر افعال میں نہیں ہو سکتیں۔ جامد کے آگے خود لکھا ہے یعنی "لَا يُسْتَعْمَلُ مِنْهُ غَيْرُ الْمَاضِيْ" وہ ماضی کے علاوہ باقیوں میں استعمال نہیں ہوتا یعنی "عَسَى" سے کوئی مضارع نہیں بنا سکتے، پھر اس سے امر نہیں بنا سکتے، بس "عَسَى" یہی ماضی کا صیغہ اس کو فعل جامد کہتے ہیں کہ جس سے دیگر صیغے نہ بن سکیں۔ "عَسَى هُوَ فِي الْعَمَلِ مِثْلُ كَادَ"، "عَسَى" مثل "كَادَ" کے ہے۔  یہ "كَادَ" کس کے لئے آتا ہے؟ انشاءاللہ آگے وہ آ رہا ہے دوسرے نمبر پہ۔ یہ عمل میں مثل "كَادَ" کے ہے۔ فرق یہ ہے  کہ جو عمل "كَادَ" کرتا ہے، یہ بھی وہی کرتا ہے، فرق یہ ہے کہ اس "عَسَى" کی خبر فعل مضارع مع "أَنْ" ہوتی ہے۔ جبکہ "كَادَ" کی خبر فعل مضارع بغیر "أَنْ" کے ہوتی ہے۔ بہت توجہ آغا۔ "عَسَى" کی خبر فعل مضارع "أَنْ" کے ساتھ، "أَنْ يَقُوْمَ"، "أَنْ يَضْرِبَ"، "أَنْ يَنْصُرَ" اس طرح ہوتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی "أَنْ" حذف بھی ہوتا ہے لیکن قاعدہ یہ ہے کہ اس کی خبر فعل مضارع مع "أَنْ" ہو۔ اب ذرا ایک ایک کر کے آگے۔

 پہلی قسم کی مزید تفصیل

نمبر ایک۔ "عَسَى" یعنی افعال مقاربہ میں سے پہلا ہے "عَسَى"۔ "لِلرَّجَاءِ"، یہ آتا ہے امید، تین قسمیں تھیں، امید، رجاء یعنی امید کے لئے اور وہ کون سا ہے؟ وہ ہے "عَسَى"۔ "عَسَى فِعْلٌ جَامِدٌ" "لَا يُسْتَعْمَلُ مِنْهُ غَيْرُ الْمَاضِيْ"۔ "وَهُوَ فِي الْعَمَلِ مِثْلُ كَادَ"، یہ عمل میں "كَادَ" کی طرح ہے لیکن "عَسَى" میں ایک اور چیز ہے، وہ کیا ہے؟ "أَنَّ خَبَرَهُ فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَعَ أَنْ"، "عَسَى" کی خبر غالب طور پر فعل مضارع ہوتی ہے "أَنْ" کے ساتھ۔ جیسے "عَسَى زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ"۔ "عَسَى زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ"۔ ہاں "وَيَجُوْزُ تَقْدِيْمُ الْخَبَرِ عَلَى اسْمِهِ" بہت توجہ آغا۔ "عَسَى" فعل جامد ہے، ایک۔ "عَسَى" کی خبر فعل مضارع مع "أَنْ" ہوتی ہے، دو۔ نمبر تین، "عَسَى" کی خبر کو "عَسَى" کے اسم پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔ یعنی "يَجُوْزُ تَقْدِيْمُ الْخَبَرِ عَلَى اسْمِهِ" یعنی "عَسَى" کی خبر کو "عَسَى" کے اسم پر مقدم کرنا جائز ہے۔ لہذا "عَسَى زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ" کی بجائے "عَسَى أَنْ يَقُوْمَ زَيْدٌ" پڑھنا بھی جائز ہے۔ تین باتیں ہو گئیں۔ نمبر چار، "وَقَدْ يُحْذَفُ أَنْ"، کبھی کبھار، ہمیشہ نہ چونکہ میں نے اوپر کہا ہے نا غالباً اس کی خبر فعل مضارع ہوتی ہے "أَنْ" کے ساتھ لیکن کبھی کبھار اس کی خبر میں سے "أَنْ" کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے۔ لہذا "زَيْدٌ"، "عَسَى زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ" کی بجائے کہا جاتا ہے "عَسَى زَيْدٌ يَقُوْمُ"۔

 دوسری قسم: حصول

"اَلثَّانِيْ"، دوسری قسم افعال مقاربہ کی پہلی تو ہو گئی نا جو رجاء امید کا معنی دیتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے "لِلْحُصُوْلِ" جو حصول کا معنی دیتی ہے۔ حصول یعنی کیا؟ کہ یہ خبر اس اسم کے لئے حاصل ہو چکی ہے۔ وہ حصول کا معنی کون دیتا ہے؟ وہ ہے "كَادَ"۔  "وَخَبَرُهُ"، "كَادَ" کی خبر فعل مضارع ہوتی ہے بغیر "أَنْ" کے۔ یعنی غالباً، اکثراً "كَادَ" کی خبر فعل مضارع بغیر "أَنْ" کے ہوتی ہے جیسے "كَادَ زَيْدٌ يَقُوْمُ"۔ لیکن "قَدْ تَدْخُلُ أَنْ"، کبھی کبھار اس کی خبر پر فعل مضارع جو ہوتی ہے خبر، اس پر "أَنْ" داخل بھی ہو جاتا ہے۔ اب اس کا مطلب ہے ہم نے پیچھے جو کہا تھا کہ "عَسَى" کی خبر بھی فعل مضارع، "كَادَ" کی خبر بھی فعل مضارع لیکن "عَسَى" کی خبر پر غالباً "أَنْ" ہوتا ہے فعل مضارع کے ساتھ، کبھی کبھی نہیں ہوتا۔ لیکن "كَادَ" میں غالباً بغیر "أَنْ" کے ہوتی ہے لیکن "قَدْ تَدْخُلُ" کبھی "أَنْ" آ بھی جاتا ہے۔ جیسے "كَادَ زَيْدٌ يَقُوْمُ" کی بجائے کہتے ہیں "كَادَ زَيْدٌ أَنْ يَقُوْمَ"

 تیسری قسم: اخذ اور شروع

تیسری قسم "لِلْأَخْذِ وَالشُّرُوْعِ فِي الْفِعْلِ" یعنی کچھ ایسے افعال ہیں جو معنی دیتے ہیں اخذ اور شروع فی الفعل کا کہ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ "كَادَ" امید کے لئے، سوری "عَسَى" وہ امید کا معنی، امید ہے کہ ایسا ہو۔ "كَادَ" حصول کے لئے کہ ایسا ہو گیا ہے۔ اور تیسرا ہو گیا اخذ و شروع فی الفعل کہ یہ کام ایسا یعنی شروع ہو گیا ہے، کسی فعل کو شروع کرنا یعنی خبر کا فاعل کے لئے آغاز، ابتداء، انشاء ہو چکی ہے۔ وہ کون کون سے ہیں جو اخذ و شروع کا معنی دیتے ہیں؟ وہ ہیں "طَفِقَ"، "جَعَلَ"، "كَرَبَ" اور "أَخَذَ"۔ ان کا استعمال مثل "كَادَ" کے ہے یعنی ان کی خبر فعل مضارع بغیر "أَنْ" کے ہوتی ہے۔ جیسے "طَفِقَ زَيْدٌ يَكْتُبُ"۔

"اوشک" کی خصوصیت

"أَوْشَكَ" یہ علیحدہ ہے۔ "أَوْشَكَ" اس کا استعمال مثل "عَسَى" اور "كَادَ" کے ہے یعنی کیا مطلب؟ کہ اس "أَوْشَكَ" کی خبر فعل مضارع مع "أَنْ" بھی ہوتی ہے اور فعل مضارع بغیر "أَنْ" بھی ہوتی ہے

 خلاصہ:"كَادَ"، "كَرَبَ"، "أَخَذَ"، "أَوْشَكَ"، میں نے پہلے گزارش کیا کہ ان تین میں مقاربت کا معنی پایا جاتا ہے، باقی قسمیں امید اور کسی میں رجاء ہے اور چونکہ تین میں مقاربت کا معنی تھا آپ نے سب کا نام ہی فعل مضارع رکھ دیا۔

5

افعال مقاربہ کی تفصیل

اگلی فصل وہ ہے "فِعْلَا التَّعَجُّبِ"۔ درحقیقت فعلان ہے، نون تثنیہ اضافت کی وجہ سے گر گئی ہے۔ یعنی تعجب کے دو فعل۔ یہاں افعال نہیں کہا چونکہ افعال تب ہوتا کہ دو سے زائد ہوتے۔ یہ تو فقط ہیں ہی دو۔ "مَا أَفْعَلَ" اور ایک ہے "أَفْعِلْ بِهِ"۔ بس یہ دو ہیں جو تعجب کے لئے آتے ہیں کہ آپ نے خب۔ اب فرماتے ہیں ذرا غور کرنا ہے۔ "مَا أَفْعَلَ" اور "أَفْعِلْ بِهِ"، یہ دو صیغے ہیں تعجب کے لئے۔ تعجب کیا ہوتا ہے؟ تعجب کسی چیز کا مخفی ہونا یا پوشیدہ ہونا اور اس کے بعد پھر وہ چیز ظاہر ہو جائے۔ اور جب پتہ چلتا ہے تو پھر انسان پر جو ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے اسی کو تعجب کہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں مجھے بڑا تعجب ہوا کہ جب میں نے فلاں کو یہ کام کرتے دیکھا۔ کیوں؟ چونکہ پہلے اس پر یہ چیز مخفی تھی، اس کو پتہ نہیں تھا کہ وہ یہ کرتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ تو یہ بھی کرتا ہے پھر وہ کہتے ہیں مجھے فلاں بندے پر بڑا تعجب ہوا۔ تو یہ تعجب کا معنی یہ ہوتا ہے۔ اب ایک لفظ ہے ان شاء تعجب۔ انشاء تعجب کا معنی کیا ہے؟ یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ تعجب کو پیدا کرنا یعنی یہ صیغہ ایسا ہے کہ "مَا أَفْعَلَ"، "مَا أَفْعَلَ" کا معنی کیا ہے؟ یعنی اس سے انشاء تعجب یعنی انشاء تعجب کو پیدا کیا جا رہا ہے۔ سمجھ آ گئی بات کی؟ تعجب کو پیدا کرنا، جیسے ہم کہتے ہیں وہ نکاح کے صیغوں میں قصد انشاء ہونا چاہیے تو انشاء مراد یہ ہے نا کہ یہ پہلے نہیں ابھی کر رہا ہوں انشاء تو یہ مراد ہے انشاء تعجب کہ اس کے ذریعے تعجب کے معنی کو پیدا کرنا۔ 

آگے ہے "مَا وُضِعَا" جن کو انشاء تعجب کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ یہ وضع کی قید کیوں ہے؟ فرماتے ہیں اس لئے کہ مثلاً ایک فعل ہے "تَعَجَّبَ زَیْدٌ" زید متعجب ہوا۔ یہ "تَعَجَّبَ" افعال تعجب میں سے نہیں کیوں؟ جہاں انشاء کا معنی نہیں، "تَعَجَّبَ" خبر ہے کہ فلاں فلاں سے متعجب ہوا، وہ خبر ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں انشاء تعجب کی۔ ٹھیک ہے جی؟ خوب فرماتے ہیں، ان افعال تعجب کی طرح نہیں بلکہ اس کے فقط دو ہی صیغے ہیں اور ان کو ہم کہتے ہیں "مَا أَفْعَلَہُ" اور "أَفْعِلْ بِہِ"۔ باقی افعال کی طرح نہیں کہ جیسے اس کی گردانیں ہوتی ہیں بہت لمبی چوڑی اور چودہ چودہ صیغے ہیں اس طرح کا یہ سلسلہ نہیں ہے بلکہ مختصر سے ہیں اور دو ہیں۔

تطبیق

"فصلٌ فِعْلَا التَّعَجُّبِ" یعنی تعجب کے دو فعل۔ وہ "فِعْلَانِ" تھا نا، نون تثنیہ کی وجہ سے گر گئی۔ "مَا وُضِعَا لِاِنْشَاءِ التَّعَجُّبِ" جن کو انشاء تعجب کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ یعنی وہ صیغے جن کو بنایا گیا ہو انشاء تعجب، تعجب کا معنی پیدا کرنا، نہ کہ وہ خبریہ ہو، نہیں، انشاء کے لیے، خبر کے لیے نہیں۔ جن کی وضع اس کے لیے ہو کہ یہ انشاء تعجب کے معنی کو پیدا کریں۔ "وَلَہُ صِیْغَتَانِ" اس کے فقط دو ہی صیغے ہیں۔ ایک ہے "مَا أَفْعَلَہُ" یعنی "مَا أَحْسَنَ"، "مَا أَفْعَلَہُ" یعنی "مَا أَحْسَنَ زَیْدًا"۔ یہ فعل تعجب ہے۔ "أَيْ أَيُّ شَيْءٍ أَحْسَنَ بِزَیْدٍ" یعنی کون سی چیز زید سے احسن ہے۔ یعنی "مَا أَحْسَنَ زَیْدًا" کتنا احسن زید ہے، اور تعجب جیسے کہتے ہیں۔ "وَلَا یُبْنَیَانِ إِلَّا مِمَّا یُبْنٰی مِنْہُ أَفْعَلُ التَّفْضِیْلِ"  یہ تعجب کے دو صیغے، فعل تعجب کے دو صیغے فقط وہیں سے بنتے ہیں جس سے "أَفْعَلُ التَّفْضِیْلِ" بنتا ہے۔ جس سے افعل تفضیل نہیں بن سکتا اس سے یہ تعجب کے صیغے بھی نہیں بن سکتے۔  آگے فرماتے ہیں: "وَ یُتَوَسَّلُ فِی الْمُمْتَنِعِ بِمِثْلِ مَا أَشَدَّ اسْتِخْرَاجًا فِی الْأَوَّلِ وَ اشْدُدْ بِاسْتِخْرَاجِہِ فِی الثَّانِیْ كَمَا عَرَفْتَ فِی اسْمِ التَّفْضِیْلِ"۔ فرماتے ہیں، "وَ یُتَوَسَّلُ" یعنی ملایا جاتا ہے ممتنع میں کہ جہاں سے افعل تفضیل نہیں بن سکتا وہاں اس کو جیسے "مَا أَشَدَّ اسْتِخْرَاجًا" اس کو پہلے کے ساتھ اور "اشْدُدْ بِہِ" یعنی "بِاسْتِخْرَاجِہِ" دوسرے میں۔ اس لیے کہ ہم نے پیچھے بھی کہا تھا کہ "أَفْعَلُ التَّفْضِیْلِ" کی بحث میں بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ جس سے نہیں بن سکتا اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ اس کو اور باء کے ساتھ پھر ملایا جاتا ہے۔"مَا أَشَدَّ اسْتِخْرَاجًا"، "مَا أَشَدَّ" لکھ کے اس کے بعد فرماتے ہیں کیا ہوگا؟ اس کے مصدر کو ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے "مَا أَشَدَّ اسْتِخْرَاجًا" یا "اشْدُدْ بِاسْتِخْرَاجِہِ فِی الثَّانِیْ كَمَا فِی اسْمِ التَّفْضِیْلِ"۔ "لَا یَجُوْزُ التَّصَرُّفُ فِیْہِمَا بِتَقْدِیْمٍ وَلَا تَأْخِیْرٍ وَلَا فَصْلٍ وَلَا" فرماتے ہیں، اس ان دونوں میں تصرف جائز نہیں۔ کیا مطلب ہے؟ یعنی تقدیم اور نہ ہی تاخیر کا اور نہ ہی فصل کا۔ کیا مطلب؟ جیسے ہے "مَا أَحْسَنَ" وہ اب ذرا غور کرو "مَا أَحْسَنَ زَیْدًا"۔ اب آپ زید کو پہلے لے آئیں، "مَا أَحْسَنَ" کو بعد میں لے جائیں یا "أَحْسِنْ بِزَیْدٍ" میں اس کو پہلے لے آئیں اور احسن کو بعد میں لے جائیں فرماتے ہیں نہ، اس میں تقدم اور تاخر جائز نہیں ہے۔ حتی کہ "مَا أَحْسَنَ زَیْدًا" کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ قرار دینا یا "أَحْسِنْ بِزَیْدٍ" کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ قرار دینا یہ بھی جائز نہیں ہے۔ "وَالْمَازِنِیُّ" البتہ جو مازنی نحوی ہے وہ کہتا ہے کہ نہیں، اگر ان صیغوں اور اس کے درمیان، متعجب منہ کے درمیان ظرف کا فاصلہ آئے تو کوئی حرج نہیں، لہذا وہ کہتے ہیں "مَا أَحْسَنَ زَیْدًا" کی بجائے "مَا أَحْسَنَ الْیَوْمَ زَیْدًا" کہہ دیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یہ اس ایک شخص کی بات ہے ورنہ باقی اس کے قائل نہیں ہیں۔

6

فعل تعجب

فصل:فعل التعجّب یعنی تعجب کے دو فعل وہ فعلان تھا نا نون تثنیه کی وجہ سے گر گئی"ما وضع لإنشاء التعجب" جن کو انشاء تعجب کے لیے وضع کیا گیا ہو بہت توجہ یعنی وہ صیغے جن کو بنایا گیا ہو انشاء تعجب، تعجب کا معنی پیدا کرنا نہ کہ وہ خبریہ ہو نہیں انشاء کے لیے خبر کے لیے نھیں اسکی وضع اس لیے یہ انشاء تعجب کا معنی کو پیدا کرے.

7

فعل تعجب کے کتنے صیغہ ہیں

"وله صيغتان" اس کے فقط دو ہی صیغے ہیں ایک ہے"ما أفْعَلَهُ يعني" ما أحْسَنَ زَيْداً"یہ فعل تعجب ہے" أي أيّ شيء أحسنَ زيداً" یعنی کون سی چیز زید سے احسن ہے یعنی" ما أحْسَنَ زَيْداً" کتنا احسن زید أو تعجب جیسے کہتے ہیں.

8

فعل تعجب کس سے بنتا ہے؟

" ولا يبنيان إلّا ممّا يبنى منه أفعل التفضيل" یہ  فعل تعجب کے دو صیغے فقط وہیں سے بنتے ہیں جس سے افعل تفضیل بنتا ہے جس سے افضل تفضیل نہیں بن سکتا اسے یہ تعجب کے صیغے بھی نہیں بن سکتے ٹھیک ہے ختم. 
آگے فرماتے ہیں"ويتوصّل في الممتنع بمثل ما أشَدَّ  كما عرفت" کیا مطلب اس کا فرماتے ہیں و یتوصل یعنی ملایا جاتا ہے ممتنع میں کہ جہاں سے افعل تفضیل نہیں بن سکتا وہاں اسکو جیسےما أشَدَّ "اس کو پہلے کے ساتھ، دوسرے میں اس لیے کہ ہم نے پیچھے بھی کہا تھا افعل تفضیل کی بحث میں بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ جس سے نہیں بنتا اس کا طریقہ تو یہی ہے کہ اس کو اور باء کے ساتھ پھر ملایا جاتا ہے ٹھیک ہے جی لکھ کے اس کے بعد فرماتے ہیں کیا ہوگا اس کے مصدر کو ذکر کیا جاتا ہے.

9

فعل تعجب میں تقدم، تأخر اور فاصلہ جائز ہے؟

"ولا يجوز التصريف فيه ولا التقديم ولا التأخير ولا الفصل"فرماتے ہیں اس ان دونوں میں تصرف جائز نہیں کیا مطلب ہے یعنی تقدیم اور نہ ہی تاخیر کا اور نہ ہی فصل کا کیا مطلب جیسے ہے" ما أحسنه" اب ذرا غور کرو ما احسن زیدا اب آپ زید کو پہلے لے آئیں ما احسن کو بعد میں لے جائیں یا احسنْ بزید میں اس کو پہلے لے آئیں اور احسنْ کو بعد میں جائیں فرماتے ہیں نہ اس میں تقدم اور تاخر جائز نہیں ہے حتی کہ ما احسن زیدا درمیان کسی چیز کا فاصلہ قرار دینا یا احسن بزيد کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ قرار دینا یہ بھی جائز نہیں ہے.

10

مازنی کا نظریہ فعل تعجب میں

المازني" البتہ جو مازنی نحوی  ہے وہ کہتا ہے کہ نہیں اگر ان صیغوں اور اس کے درمیان کے  متعجب منہ درمیان ظرف کا فاصلہ ہے تو کوئی حرج نھیں لہذا وہ کہتے ہیں"ما احسن زیدا  کی بجائے" ما أحْسَنَ الْيَوْمَ زَيْداً."کہہ دیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ اس ایک شخص کی بات ہے ورنہ باقی اس کے قائل نہیں ہیں.

11

عین عبارت

 

 افعال مدح و ذم

فعل میں جو آخری بحث ہے وہ ہے افعال مدح و ذم کی اور اس کے بعد پھر انشاءاللہ بحث غالباً شروع ہو جائے گی حروف کی۔ افعال مدح و ذم کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے فقط چار ہیں۔ "نِعْمَ"، "حَبَّذَا" یہ آتے ہیں تعریف کے لیے، "سَاءَ" اور "بِئْسَ" یہ آتے ہیں مذمت کے لیے، ان کو کہا جاتا ہے افعال مدح، مدح تعریف کو کہتے ہیں اور ذم مذمت کو۔ "نِعْمَ" اور "حَبَّذَا" تعریف، "بِئْسَ" اور "سَاءَ" مذمت۔  "مَا وُضِعَ لِاِنْشَاءٍ" یہاں بھی وہی بات ہے جو پیچھے تھی، فرماتے ہیں کہ یہ وہ افعال ہیں جن کے لیے مدح اور ذم کی انشاء کی جاتی ہے، انشاء کی جاتی ہے۔ کیوں؟ جب ہم کہتے ہیں "کَرُمَ زَیْدٌ" زید کریم ہے، "شَرُفَ زَیْدٌ" یا "مَدَحَ" یا "حَمِدَ" تو وہاں پر فرماتے ہیں وہ افعال مدح شمار نہیں ہوتے کیوں؟ چونکہ وہ خبر ہیں، ہم انشاء کی بات کر رہے ہیں کہ یہ انشائیہ ہوتے ہیں خبر نہیں ہیں۔ 

تطبیق

افعال المدح و الذم، یعنی وہ افعال جو تعریف اور مذمت کے لیے آتے ہیں۔ "أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ مَا وُضِعَ لِاِنْشَاءِ مَدْحٍ أَوْ ذَمٍّ" یعنی جن کو وضع کیا گیا ہو، بنایا ہی گیا ہو انشاء مدح یا انشاء ذم کے لیے، یعنی معنی مدح اور ذم کی انشاء کے لیے، یہ انشائیہ ہوتے ہیں، خبریہ نہیں ہوتے۔ لہذا اگر کوئی فعل ہو جس میں تعریف یا مذمت کا معنی پایا جاتا ہو تو فرماتے ہیں اگر انشاء نہیں تو وہ خبریہ ہوگا، وہ افعال مدح نہیں ہے، افعال مدح و ذم وہ ہیں کہ جو مدح اور ذم کی انشاء، ابھی اسی وقت کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہوں۔ "أَمَّا الْمَدْحُ فَلَہُ فِعْلَانِ"۔ مدح، اس کے لیے دو فعل ہیں، ایک ہے "نِعْمَ" اور ایک ہے "حَبَّذَا"۔  "نِعْمَ"۔ فرماتے ہیں "نِعْمَ" کا فاعل، توجہ کے ساتھ آغا، "نِعْمَ" کا فاعل کبھی اسم معرف باللام ہوتا ہے، یعنی "نِعْمَ" کا اسم معرف باللام ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"۔ اب الرجل "نِعْمَ" کا اسم ہے، معرف باللام ہے۔ 

نِعمَ کا فاعل یا مضافٌ ہو گا  معرف باللام کی طرف  یا "نِعْمَ" کا فاعل ایسا اسم ہوگا جو خود معرف باللام نہیں لیکن ایک معرف باللام کی طرف مضاف ہوگا جیسے "نِعْمَ غُلَامُ الرَّجُلِ زَیْدٌ"۔ "نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"، "نِعْمَ" تعریف کے لیے ہے نا، بہترین مرد ہے زید۔ یا "نِعْمَ غُلَامُ الرَّجُلِ" بہترین غلام شخص ہے زید۔ نمبر تین، "وَ قَدْ یَکُوْنُ فَاعِلُہُ مُضْمَرًا" اور اس "نِعْمَ" کا فاعل کبھی کبھی ضمیر بھی ہوتی ہے۔ "نِعْمَ" کا فاعل کبھی ضمیر ہوتی ہے لیکن "یَجِبُ تَمْیِیْزُہُ بِنَکِرَۃٍ مَنْصُوْبَۃٍ" لہذا اگر "نِعْمَ" کا فاعل ضمیر ہوگی تو واجب ہے کہ اس کی تمیز ایک اسم نکرہ منصوبۃ کو ذکر کیا جائے۔ جیسے "نِعْمَ رَجُلًا زَیْدٌ" یہ "رَجُلًا" درحقیقت تمیز ہے اور "نِعْمَ" میں "ھُوَ" کی ضمیر ہے جو مخصوص بالمدح ہے اور اس کی فاعل ہے۔یا اگر اس کی ضمیر ہو تو فرماتے ہیں پھر اس کو حرف "مَا" کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے جیسے "فَنِعِمَّا ھِیَ"۔ "فَنِعِمَّا ھِیَ" کا معنی ہے یعنی "نِعْمَ شَیْئًا ھِیَ"۔ یہ "مَا" یعنی "شَیْئًا" کے معنی میں ہوگی اور یہ اس کی درحقیقت ضمیر ہوگی۔ "نِعِمَّا ھِیَ وَ زَیْدٌ" یعنی "نِعْمَ شَیْئًا ھِیَ وَ زَیْدٌ"۔ آگے فرماتے ہیں "حَبَّ" "فِعْلُ الْمَدْحِ"۔ پہلا فعل مدح ہے "نِعْمَ"، دوسرا فعل مدح ہے "حَبَّ"۔ "وَ فَاعِلُہُ" اس کا فاعل "ذَا" ہے۔ اسی لیے تو ہم دیکھتے ہیں نا چونکہ یہ بغیر "ذَا" کے استعمال نہیں ہوتا تو عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ "حَبَّذَا" یہ افعال مدح ہے۔ لیکن اس کا فاعل ہمیشہ "ذَا" ہوتا ہے۔ "وَالْمَخْصُوْصُ بِالْمَدْحِ" اور اس کے بعد والا اسم مخصوص بالمدح ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ" "حَبَّ" فعل مدح ہوتا ہے، "ذَا" اس کا فاعل ہوتا ہے اور زید مخصوص بالمدح ہوتا ہے۔ اب فرماتے ہیں اس "حَبَّ" کے لیے ایک خاص بات، "یَجُوْزُ أَنْ یَقَعَ قَبْلَ مَخْصُوْصٍ أَوْ بَعْدَہُ تَمْیِیْزٌ"۔ اس "حَبَّ" کے لیے یہ بھی جائز ہے۔ کیا؟ "أَنْ یَقَعَ قَبْلَ مَخْصُوْصٍ أَوْ بَعْدَہُ تَمْیِیْزٌ" کہ اس "حَبَّذَا" کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا اس کے مخصوص بالمدح کے بعد جائز ہے کہ ایک اسم نکرہ منصوبۃ تمیز آ جائے۔ مثلاً "حَبَّذَا زَیْدٌ" کی بجائے ہم پڑھیں "حَبَّذَا رَجُلًا زَیْدٌ"۔ یہاں پر "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ تمیز زید سے پہلے ہے۔ یا پڑھتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ رَجُلًا" اب "رَجُلًا" زید مخصوص بالمدح کے بعد ہے۔ یعنی جائز ہے کہ "حَبَّ" کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا مخصوص بالمدح کے بعد ایک تمیز، تمیز یعنی وہی اسم نکرہ منصوبۃ آ جائے، یہ جائز ہے۔ ایک۔ نمبر دو، "أَوْ حَالٌ"۔ "حَبَّذَا" میں یہ بھی جائز ہے کہ جو "حَبَّذَا" کے ذریعے مخصوص بالمدح ہوگا اس کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا مخصوص بالمدح کے بعد ایک حال واقع ہو جائے، حال آ جائے۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ" کی بجائے کہیں "حَبَّذَا رَاکِبًا زَیْدٌ"۔ یہاں "رَاکِبًا" حال ہے یا ہم پڑھیں "حَبَّذَا زَیْدٌ رَاکِبًا"۔ یہ تعریف ہے نا کہ بہترین مرد ہے زید درحالانکہ وہ سوار ہے۔ پس فعل مدح "نِعْمَ" اور "حَبَّ"۔ "حَبَّ" کا فاعل تو ہمیشہ "ذَا" ہوتا ہے، "نِعْمَ" کا فاعل کبھی اسم معرف باللام ہوتا ہے، کبھی معرف باللام کی طرف مضاف ہوتا ہے اور کبھی ضمیر ہوتی ہے۔

 افعال ذم: بِئْسَ اور سَاءَ

باقی رہ گئے افعال ذم، "فَلَہُ فِعْلَانِ" فرماتے ہیں افعال ذم یہ بھی دو فعل ہیں۔ ایک ہے "بِئْسَ" جیسے "بِئْسَ الرَّجُلُ عَمْرٌو"۔ اب "الرَّجُلُ" مخصوص بالذم ہے، معرف باللام ہے اور اسی "نِعْمَ" کی طرح۔ "بِئْسَ غُلَامُ الرَّجُلِ عَمْرٌو" یہاں بھی "غُلَامُ" معرف باللام کی طرف مضاف ہے اور "بِئْسَ" کا فاعل ہے۔ یا "بِئْسَ رَجُلًا عَمْرٌو"۔ "بِئْسَ" میں ضمیر اس کی فاعل ہے، "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ اس کی تمیز ہے۔ "وَ سَاءَ" اسی طرح "سَاءَ" بھی۔ "سَاءَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"۔ "الرَّجُلُ" معرف باللام، "سَاءَ" کا اسم ہے۔ "سَاءَ غُلَامُ الرَّجُلِ زَیْدٌ" اب "غُلَامُ" معرف باللام کی طرف مضاف ہے اور "سَاءَ" کا فاعل ہے۔ "سَاءَ رَجُلًا زَیْدٌ"۔ "سَاءَ" میں ضمیر اس کی فاعل ہے، "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ اس کی تمیز ہے۔ "سَاءَ مِثْلُ بِئْسَ" یعنی "سَاءَ" کے بھی تمام احکام اسی "بِئْسَ" والے احکام ہیں۔ یہ چیزیں تو تقریباً ساری آپ  نے پہلے پڑھی ہوئی  ہیں۔

  وَ صَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

12

افعال مدح و ذم کی تفصیل

افعال مدح و ذم

فعل میں جو آخری بحث ہے وہ ہے افعال مدح و ذم کی اور اس کے بعد پھر انشاءاللہ بحث غالباً شروع ہو جائے گی حروف کی۔ افعال مدح و ذم کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے فقط چار ہیں۔ "نِعْمَ"، "حَبَّذَا" یہ آتے ہیں تعریف کے لیے، "سَاءَ" اور "بِئْسَ" یہ آتے ہیں مذمت کے لیے، ان کو کہا جاتا ہے افعال مدح، مدح تعریف کو کہتے ہیں اور ذم مذمت کو۔ "نِعْمَ" اور "حَبَّذَا" تعریف، "بِئْسَ" اور "سَاءَ" مذمت۔  "مَا وُضِعَ لِاِنْشَاءٍ" یہاں بھی وہی بات ہے جو پیچھے تھی، فرماتے ہیں کہ یہ وہ افعال ہیں جن کے لیے مدح اور ذم کی انشاء کی جاتی ہے، انشاء کی جاتی ہے۔ کیوں؟ جب ہم کہتے ہیں "کَرُمَ زَیْدٌ" زید کریم ہے، "شَرُفَ زَیْدٌ" یا "مَدَحَ" یا "حَمِدَ" تو وہاں پر فرماتے ہیں وہ افعال مدح شمار نہیں ہوتے کیوں؟ چونکہ وہ خبر ہیں، ہم انشاء کی بات کر رہے ہیں کہ یہ انشائیہ ہوتے ہیں خبر نہیں ہیں۔ 

تطبیق

افعال المدح و الذم، یعنی وہ افعال جو تعریف اور مذمت کے لیے آتے ہیں۔ "أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ مَا وُضِعَ لِاِنْشَاءِ مَدْحٍ أَوْ ذَمٍّ" یعنی جن کو وضع کیا گیا ہو، بنایا ہی گیا ہو انشاء مدح یا انشاء ذم کے لیے، یعنی معنی مدح اور ذم کی انشاء کے لیے، یہ انشائیہ ہوتے ہیں، خبریہ نہیں ہوتے۔ لہذا اگر کوئی فعل ہو جس میں تعریف یا مذمت کا معنی پایا جاتا ہو تو فرماتے ہیں اگر انشاء نہیں تو وہ خبریہ ہوگا، وہ افعال مدح نہیں ہے، افعال مدح و ذم وہ ہیں کہ جو مدح اور ذم کی انشاء، ابھی اسی وقت کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہوں۔ "أَمَّا الْمَدْحُ فَلَہُ فِعْلَانِ"۔ مدح، اس کے لیے دو فعل ہیں، ایک ہے "نِعْمَ" اور ایک ہے "حَبَّذَا"۔  "نِعْمَ"۔ فرماتے ہیں "نِعْمَ" کا فاعل، توجہ کے ساتھ آغا، "نِعْمَ" کا فاعل کبھی اسم معرف باللام ہوتا ہے، یعنی "نِعْمَ" کا اسم معرف باللام ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"۔ اب الرجل "نِعْمَ" کا اسم ہے، معرف باللام ہے۔ 

نِعمَ کا فاعل یا مضافٌ ہو گا  معرف باللام کی طرف  یا "نِعْمَ" کا فاعل ایسا اسم ہوگا جو خود معرف باللام نہیں لیکن ایک معرف باللام کی طرف مضاف ہوگا جیسے "نِعْمَ غُلَامُ الرَّجُلِ زَیْدٌ"۔ "نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"، "نِعْمَ" تعریف کے لیے ہے نا، بہترین مرد ہے زید۔ یا "نِعْمَ غُلَامُ الرَّجُلِ" بہترین غلام شخص ہے زید۔ نمبر تین، "وَ قَدْ یَکُوْنُ فَاعِلُہُ مُضْمَرًا" اور اس "نِعْمَ" کا فاعل کبھی کبھی ضمیر بھی ہوتی ہے۔ "نِعْمَ" کا فاعل کبھی ضمیر ہوتی ہے لیکن "یَجِبُ تَمْیِیْزُہُ بِنَکِرَۃٍ مَنْصُوْبَۃٍ" لہذا اگر "نِعْمَ" کا فاعل ضمیر ہوگی تو واجب ہے کہ اس کی تمیز ایک اسم نکرہ منصوبۃ کو ذکر کیا جائے۔ جیسے "نِعْمَ رَجُلًا زَیْدٌ" یہ "رَجُلًا" درحقیقت تمیز ہے اور "نِعْمَ" میں "ھُوَ" کی ضمیر ہے جو مخصوص بالمدح ہے اور اس کی فاعل ہے۔یا اگر اس کی ضمیر ہو تو فرماتے ہیں پھر اس کو حرف "مَا" کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے جیسے "فَنِعِمَّا ھِیَ"۔ "فَنِعِمَّا ھِیَ" کا معنی ہے یعنی "نِعْمَ شَیْئًا ھِیَ"۔ یہ "مَا" یعنی "شَیْئًا" کے معنی میں ہوگی اور یہ اس کی درحقیقت ضمیر ہوگی۔ "نِعِمَّا ھِیَ وَ زَیْدٌ" یعنی "نِعْمَ شَیْئًا ھِیَ وَ زَیْدٌ"۔ آگے فرماتے ہیں "حَبَّ" "فِعْلُ الْمَدْحِ"۔ پہلا فعل مدح ہے "نِعْمَ"، دوسرا فعل مدح ہے "حَبَّ"۔ "وَ فَاعِلُہُ" اس کا فاعل "ذَا" ہے۔ اسی لیے تو ہم دیکھتے ہیں نا چونکہ یہ بغیر "ذَا" کے استعمال نہیں ہوتا تو عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ "حَبَّذَا" یہ افعال مدح ہے۔ لیکن اس کا فاعل ہمیشہ "ذَا" ہوتا ہے۔ "وَالْمَخْصُوْصُ بِالْمَدْحِ" اور اس کے بعد والا اسم مخصوص بالمدح ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ" "حَبَّ" فعل مدح ہوتا ہے، "ذَا" اس کا فاعل ہوتا ہے اور زید مخصوص بالمدح ہوتا ہے۔ اب فرماتے ہیں اس "حَبَّ" کے لیے ایک خاص بات، "یَجُوْزُ أَنْ یَقَعَ قَبْلَ مَخْصُوْصٍ أَوْ بَعْدَہُ تَمْیِیْزٌ"۔ اس "حَبَّ" کے لیے یہ بھی جائز ہے۔ کیا؟ "أَنْ یَقَعَ قَبْلَ مَخْصُوْصٍ أَوْ بَعْدَہُ تَمْیِیْزٌ" کہ اس "حَبَّذَا" کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا اس کے مخصوص بالمدح کے بعد جائز ہے کہ ایک اسم نکرہ منصوبۃ تمیز آ جائے۔ مثلاً "حَبَّذَا زَیْدٌ" کی بجائے ہم پڑھیں "حَبَّذَا رَجُلًا زَیْدٌ"۔ یہاں پر "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ تمیز زید سے پہلے ہے۔ یا پڑھتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ رَجُلًا" اب "رَجُلًا" زید مخصوص بالمدح کے بعد ہے۔ یعنی جائز ہے کہ "حَبَّ" کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا مخصوص بالمدح کے بعد ایک تمیز، تمیز یعنی وہی اسم نکرہ منصوبۃ آ جائے، یہ جائز ہے۔ ایک۔ نمبر دو، "أَوْ حَالٌ"۔ "حَبَّذَا" میں یہ بھی جائز ہے کہ جو "حَبَّذَا" کے ذریعے مخصوص بالمدح ہوگا اس کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا مخصوص بالمدح کے بعد ایک حال واقع ہو جائے، حال آ جائے۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں "حَبَّذَا زَیْدٌ" کی بجائے کہیں "حَبَّذَا رَاکِبًا زَیْدٌ"۔ یہاں "رَاکِبًا" حال ہے یا ہم پڑھیں "حَبَّذَا زَیْدٌ رَاکِبًا"۔ یہ تعریف ہے نا کہ بہترین مرد ہے زید درحالانکہ وہ سوار ہے۔ پس فعل مدح "نِعْمَ" اور "حَبَّ"۔ "حَبَّ" کا فاعل تو ہمیشہ "ذَا" ہوتا ہے، "نِعْمَ" کا فاعل کبھی اسم معرف باللام ہوتا ہے، کبھی معرف باللام کی طرف مضاف ہوتا ہے اور کبھی ضمیر ہوتی ہے۔

 افعال ذم: بِئْسَ اور سَاءَ

باقی رہ گئے افعال ذم، "فَلَہُ فِعْلَانِ" فرماتے ہیں افعال ذم یہ بھی دو فعل ہیں۔ ایک ہے "بِئْسَ" جیسے "بِئْسَ الرَّجُلُ عَمْرٌو"۔ اب "الرَّجُلُ" مخصوص بالذم ہے، معرف باللام ہے اور اسی "نِعْمَ" کی طرح۔ "بِئْسَ غُلَامُ الرَّجُلِ عَمْرٌو" یہاں بھی "غُلَامُ" معرف باللام کی طرف مضاف ہے اور "بِئْسَ" کا فاعل ہے۔ یا "بِئْسَ رَجُلًا عَمْرٌو"۔ "بِئْسَ" میں ضمیر اس کی فاعل ہے، "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ اس کی تمیز ہے۔ "وَ سَاءَ" اسی طرح "سَاءَ" بھی۔ "سَاءَ الرَّجُلُ زَیْدٌ"۔ "الرَّجُلُ" معرف باللام، "سَاءَ" کا اسم ہے۔ "سَاءَ غُلَامُ الرَّجُلِ زَیْدٌ" اب "غُلَامُ" معرف باللام کی طرف مضاف ہے اور "سَاءَ" کا فاعل ہے۔ "سَاءَ رَجُلًا زَیْدٌ"۔ "سَاءَ" میں ضمیر اس کی فاعل ہے، "رَجُلًا" اسم نکرہ منصوبۃ اس کی تمیز ہے۔ "سَاءَ مِثْلُ بِئْسَ" یعنی "سَاءَ" کے بھی تمام احکام اسی "بِئْسَ" والے احکام ہیں۔ یہ چیزیں تو تقریباً ساری آپ  نے پہلے پڑھی ہوئی  ہیں۔

  وَ صَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

و «ما زالَ» و «ما بَرَحَ» و «ما فَتئَ» و «ما انْفكَّ» تدلّ على ثبوت خبرها لفاعلها نحو : ما زالَ زَيْدٌ أميراً ، ويلزمها حرف النفي.

و «ما دام» تدلّ على توقيت أمر بمدّة ثبوت خبرها لفاعلها نحو : أقُومُ ما دامَ الأميرُ جالِساً ، و «لَيْسَ» تدلّ على نفي معنى الجملة حالاً ، وقيل مطلقاً نحو : لَيْسَ زَيْدٌ قائِماً. وقد عرفت بقيّة أحكامها في القسم الأوّل فلا نعيدها.

فصل : أفعال المقاربة

أفعال وضعت للدلالة على دنوّ الخبر لفاعلها. وهي على ثلاثة أقسام :

الأوّل : للرجاء وهو : «عَسىٰ» ، فعل جامد ولا يستعمل منه غير الماضي وهو في العمل مثل كان نحو : عَسىٰ زَيْدٌ أنْ يَقُومَ ، إلّا أنّ خبره فعل المضارع مع «أنْ» نحو : عَسىٰ زَيْدٌ أنْ يَخْرُجَ ، ويجوز تقديمه نحو : عَسىٰ أنْ يَخْرُجَ زَيْدٌ ، وقد يحذف أنْ نحو : عَسىٰ زَيْدٌ يَقُومُ.

والثاني : للحصول وهو : «كادَ» ، وخبره مضارع دون «أنْ» نحو : كادَ زَيْدٌ يَقُومُ. وقد تدخل «أنْ» نحو : كادَ زَيْدٌ أنْ يَخْرُجَ.

والثالث : للأخذ والشروع في الفعل وهو : «طَفِقَ» و «جَعَلَ» و «كَرَبَ» و «أخَذَ» ، واستعمالها مثل كادَ نحو : طَفِقَ زَيْدٌ يَكْتُبُ ، إلى آخره. و «أوْشَكَ» ، واستعماله نحو عَسىٰ وكاد.

فصل : فعل التعجّب

وهو ما وضع لإنشاء التعجّب وله صيغتان :

«ما أفْعَلَهُ» ، نحو : ما أحْسَنَ زَيْداً أي أيّ شيء أحسنَ زيداً ؟ وفي أحسَنَ ضمير وهو فاعله.

«وأفْعِلْ بِه» نحو : أحْسِنْ بِزَيْدٍ.

ولا يبنيان إلّا ممّا يبنى منه أفعل التفضيل ، ويتوصّل في الممتنع بمثل ما أشَدَّ كما عرفت.

ولا يجوز التصريف فيه ولا التقديم ولا التأخير ولا الفصل. والمازني أجاز الفصل بالظرف نحو : ما أحْسَنَ الْيَوْمَ زَيْداً.

فصل : أفعال المدح والذمّ

ما وضع لإنشاء مدح أو ذمّ. أمّا المدح فله فعلان :

«نِعْمَ» ، وفاعله اسم معرّف باللام نحو : نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ ، أو مضاف إلى المعرّف باللام نحو : نِعْمَ غُلامُ الرَّجُلِ زَيْدٌ ، وقد يكون فاعله مضمراً يجب تمييزه بنكرة منصوبة نحو : نِعْمَ رَجُلاً زَيْدٌ ، أو بما نحو قوله تعالى : «فَنِعِمَّا هِيَ» (١) ، أي نِعْمَ ما هي ، وزيد يسمّى المخصوص بالمدح.

ومنها : «حَبَّذا» ، نحو : حَبَّذا رَجُلاً زَيْدٌ ، فَحَبّ فعل المدح وفاعله «ذا» والمخصوص زيدٌ ، ورجلاً تمييز ، ويجوز أن يقع قبل مخصوص حبّذا أو بعده تمييز نحو : حَبَّذا رَجُلاً زَيْدٌ ، وحَبَّذا زَيْدٌ رَجُلاً ، أو حال نحو : حَبَّذا راكِباً زَيْدٌ ، وحَبَّذا زَيْدٌ راكِباً.

أمّا الذمّ فله فعلان أيضاً وهو :

«بِئْسَ» ، نحو : بِئسَ الرَّجلُ زيْدٌ ، وَبِئسَ غُلامُ الرَّجُلِ زيْدٌ ، وَبِئسَ رَجُلاً زيْدٌ. «ساء» نحو : ساء الرَّجُلُ زَيْدٌ ، وساء غُلامُ الرَّجُلِ زَيْدٌ ، وساء رَجُلاً زَيْدٌ ، وساء مثل بئسَ.

القسم الثالث : في الحرف

وقد مضى تعريفه ، وأقسامه سبعة عشر :

____________________________

(١) البقرة : ٢٧١.