درس الهدایة في النحو

درس نمبر 54: حروف جارہ1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف جار کے بارے میں

 "اَلْقِسْمُ الثَّالِثُ فِي الْحُرُوفِ"۔ "وَقَدْ مَضٰى تَعْرِيفُهُ، أَقْسَامُهُ سَبْعَةَ عَشَرَ حُرُوفٍ"۔ فرماتے ہیں قسم اول اسم کی بحث تھی، قسم ثانی فعل کی بحث تھی، آج قسم ثالث حروف کے بارے میں ہے اور آخر میں پھر ایک خاتمہ آئے گا۔ حروف جمع ہے حرف کی، حرف کسے کہتے ہیں؟ "حَرْفٌ كَلِمَةٌ لَا تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى فِي نَفْسِهَا بَلْ فِي غَيْرِهَا"۔ یہ اس کی تعریف تھی۔ 17 اقسام حروف صاحبِ ہدایہ مرحوم نے یہاں ذکر فرمائی ہیں اور پھر تمام حروف میں سے کوشش کی ہے کہ ہر ہر حرف کی بھی وضاحت فرمائیں کہ کون سا حرف کیا معنیٰ دیتا ہے۔  کیونکہ اس میں بحثیں نہیں ہیں مختصر مختصر ہے اِنْ شَاءَ اللّٰهُ جہاں ضرورت ہوگی وہاں ساتھ ساتھ بتاتے جائیں گے۔ "اَلْقِسْمُ الثَّالِثُ فِي الْحُرُوفِ"۔ تیسری قسم حروف کے بارے میں۔ "وَقَدْ مَضٰى تَعْرِيفُهُ"۔ حروف جمع ہے حرف کی، حرف کی تعریف گزری تھی۔ "وَهِيَ لَا تَدُلُّ عَلَىٰ مَعْنًى فِي نَفْسِهَا بَلْ فِي غَيْرِهَا"۔ "وَأَقْسَامُهُ سَبْعَةَ عَشَرَ" حروف کی 17 قسمیں ہیں۔ اب آپ ذرا ترتیب سے ایک ایک کر کے گنیں۔ "حُرُوفُ الْجَرِّ" حروف جارہ۔ ایک۔ "حُرُوفُ الْمُشَبَّهَةِ بِالْفِعْلِ" دو۔ "حُرُوفُ الْعَطْفِ" تین۔ "حُرُوفُ التَّنْبِيهِ" چار۔ "حُرُوفُ الْمَصْدَرِ" پانچ۔ "حُرُوفُ التَّحْضِيضِ" چھ۔ "حُرُوفُ التَّوَقُّعِ" سات۔ "حَرْفَا الِاسْتِفْهَامِ" "حَرْفَانِ" تھا نون تثنیہ گر گئی اضافت کی وجہ سے۔ اِستفہام کے دو حرف۔ آٹھ۔ "حُرُوفُ الشَّرْطِ" نو۔ "حُرُوفُ الرَّدْعِ" دس۔ "تَاءُ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ"۔ تنوین، "نُونُ التَّأْخِيرِ"۔ "حُرُوفُ النِّدَاءِ"۔ "حُرُوفُ الْعَطْفِ"۔ "حَرْفُ التَّفْسِيرِ"۔ "حُرُوفُ الزِّيَادَةِ"۔ "حُرُوفُ الْإِيجَابِ"۔ یہ تقریباً 17 اس ترتیب سے بن جاتے ہیں۔ خُوب۔ اب اس میں جو بحث ہے وہ یہاں سے ہے۔ وہ یہ ہے۔ پہلے شروع کر رہے ہیں حروف جارہ کو۔ حروف جارہ ایک لفظی عمل کرتے ہیں اور کچھ ان کے معنوی عمل ہوتے ہیں۔ لفظی عمل حروف جارہ کا یہ ہوتا ہے کہ یہ جس اسم پر داخل ہوتے ہیں اس کو جر دیتے ہیں، اس کو یہ ساری اسم میں آپ کو یاد ہوگا ہم نے جو پڑھا تھا کہ کچھ چیزیں ہیں جو اسم کی علامات ہیں تو ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس پر حروف جارہ داخل ہوتے ہیں۔ فعل پر حروف جارہ داخل نہیں ہوتے۔  حروف جر ان کا کام ہے۔ اس کو لفظی طور پر اس اسم کو جر دینا۔ اس لیے حروف جر کہتے ہیں چونکہ یہ جار ہوتے ہیں یا اس لیے کہتے ہیں چونکہ جر کا معنیٰ کھینچنا بھی ہوتا ہے۔ چونکہ یہ فعل کو اپنے معمول کی طرف کھینچ کے لے جاتے ہیں ان کو ملا دیتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی ان کو "حُرُوفُ الْجَرِّ" کہا جاتا ہو۔ 

حروف جار: معنی اور استعمال

اب تعریف حروف جر کی اورحروف جر کا کیا کام ہے؟ حروف جارہ کرتے کیا ہیں؟ ایک تو لفظی عمل ہے کہ جس اسم پر ہے اس کے آخر کو جر دے دیا۔ فرماتے ہیں "حُرُوفٌ" حروف جارہ وہ حروف ہیں یا حروف جر وہ حروف ہیں "وُضِعَتْ" جن کو وضع کیا گیا ہے، واضع نے ان حروف میں سے ہر ہر حرف کو باقاعدہ وضع کیا ہے ایک خاص معنیٰ کے لیے۔ لہذا اِن حروف جر کو وضع کیا گیا ہے کس لیے؟ "لِإِفْضَاءِ الْفِعْلِ" کہ اگر یہ فعل کے بعد ہیں "وَ شِبْهِهِ" یا شبہہ فعل، اسم فاعل ہو گیا، اسم مفعول ہو گیا، صفت مشبہ ہو گئی۔ "أَوْ مَعْنَى الْفِعْلِ" یا ان کے بعد جن میں معنیٰ فعل ہوتا ہے جیسے اَسماء اشارات ہو گیا، ظرف ہو گیا، موصول ہو گیا ان میں فعل کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔  اِن کو بنایا گیا ہے تاکہ فعل، شبہہ فعل یا معنیٰ فعل کو ملائیں، پہنچائیں کس تک؟ "إِلَى مَا" اس کی طرف "تَالِيْهِ" جو ان کے بعد ہوتا ہے، جو ان کے ساتھ ملا ہوتا ہے، جو ان کا تالی ہوتا ہے۔ مثال بالکل واضح: "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" "مَرَرْتُ" فعل ہے، "بَا" حرف جر ہے، یہ "مَرَرْتُ" کو اس نے "زَيْدٍ" جو اس کے بعد آیا اس کے ساتھ ملایا کہ میں گزرا زید کے ساتھ فعل کو اس زید کے ساتھ ملایا ہے انہوں نے یہ کام کیا ہے اس تک پہنچایا ہے۔ "أَنَا مَارٌّ بِزَيْدٍ" "مَارٌّ" اسم فاعل ہے۔ اس اسم فاعل کو پہنچا رہا ہے، ملا رہا ہے "بِزَيْدٍ" زید کے ساتھ کہ جو اس کے بعد آیا ہے۔ "بَا" نے یہ کام کیا ہے کہ میں گزرنے والا ہوں زید کے پاس۔ "هٰذَا فِي الدَّارِ أَبُوكَ" "هٰذَا" معنیٰ فعل جیسے میں نے گزارش کی کہ اشارات معنیٰ فعل کو متضمن ہوتے ہیں "هٰذَا" یعنی "أُشِيرُ إِلَيْهِ" "هٰذَا" معنیٰ "أُشِيرُ"۔ اب یہاں پر "فِي" نے اس "هٰذَا" جو معنیٰ فعل "أُشِيرُ" پر مشتمل تھا اس کو ملایا کس کے ساتھ؟ "فِي الدَّارِ أَبُوكَ" اس کے ساتھ۔ ٹھیک ہے جی۔ پس "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" یہ مثال ہو گئی کہ فعل کو ملایا اپنے ما بعد کے ساتھ۔ "مَارٌّ بِزَيْدٍ" یعنی "شِبْهِ الْفِعْلِ" کو ملایا اس کے لیے مثال ہو گئی اور "هٰذَا فِي الدَّارِ" ہو گئی معنیٰ فعل۔ خُوب یہ تو ہو گیا بالکل ہی آسان۔ "وَهِيَ تِسْعَةَ عَشَرَ حَرْفًا" حروف جارہ 19 انہوں نے ذکر فرمائے ہیں۔ بعض نے 17 لکھے ہیں انہوں نے 19 ذکر فرمائے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا شرح میں تو عامل میں بھی الْحَمْدُ لِلّٰهِ ان سب کو بڑا ایک ایک کر کے تفصیل کے ساتھ پڑھا تھا اس میں بہت ساری چیزیں تکراری ہوں گی لیکن کچھ تھوڑی تھوڑی اضافے بھی ہیں جو وہاں نہیں تھے۔

4

حرف جر من،الی اور حتی

19 حروف میں سب سے پہلا حرف شروع فرما رہے ہیں۔ پہلا ہے "مِنْ"۔ فرماتے ہیں "مِنْ" "هِيَ لِابْتِدَاءِ الْغَايَةِ" "مِنْ" آتا ہے ابتداء غایت کے لیے یعنی کسی انتہا کی ابتدا بتانے کے لیے کہ یہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟ اس کو بتانے کے لیے۔ "عَلَامَتُهُ" "مِنَ الِابْتِدَائِيَّةِ" کہ جو "مِنْ" ابتداء غایت کے لیے آتا ہے اس کی علامت کیا ہے؟ کیسے سمجھیں گے کہ یہاں "مِنْ" ابتداء غایت کو بیان فرما کر رہا ہے؟ جواب دیں گے اس کی علامت یہ ہے "أَنْ يَصِحَّ فِي مُقَابِلَةِ الِانْتِهَاءِ" کہ اس کو انتہا کے مقابل میں لانا، "مُقَابِلَةَ الِانْتِهَاءِ" کے مقابل لانا صحیح ہو یہ علامت ہے کہ یہاں یہ "مِنْ" ابتدا کے لیے ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ" اب یہ "مِنْ" "مِنَ الِابْتِدَائِيَّةِ" ہے کیوں؟ اس کے مقابل میں ہم نے جب انتہا کو لایا "إِلَى الْكُوفَةِ" تو اس کا لگانا صحیح تھا۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ ایک معنیٰ ہو گیا۔ پس "مِنْ" 19 حروف جارہ میں سے پہلا حرف آ گیا "مِنْ" اور "مِنْ" کا پہلا معنیٰ یہ ہے کہ یہ آتا ہے "اِبْتِدَاءِ الْغَايَةِ" کے لیے۔ ٹھیک۔ یہ اس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمبر دو "وَلِلتَّبْيِينِ" "مِنْ" استعمال ہوتا ہے "تَبْيِينِ" یعنی وضاحت کے لیے، بیان کرنا کس چیز کو کھول کے بیان کرنا، واضح کرنا۔ فرماتے ہیں "وَ عَلَامَتُهُ أَنْ يَصِحَّ وَضْعُ اللَّفْظِ الَّذِي مَكَانَهُ" "مِنَ الْبَيَانِيَّةِ" یعنی جو "مِنْ" "تَبْيِينِ" کا معنیٰ دے گا اس کی علامت کیا ہے؟ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر ہم اس "مِنْ" کی جگہ لفظ "اَلَّذِي" کو رکھ دیں تو وہ رکھنا صحیح ہو یعنی معنیٰ بالکل وہی بنتا ہو جو "مِنْ" کے ساتھ بن رہا تھا اس کا مطلب ہے کہ یہاں "مِنْ" "تَبْيِينِ" کے لیے ہے، واضح کرنے کے لیے ہے، "مِنَ الْبَيَانِيَّةِ" ہے جیسے "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ" اب ہم اگر "مِنْ" کی جگہ "اَلَّذِي" رکھ دیں اور ہم کہیں "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ اَلَّذِي هُوَ الْأَوْثَانُ" تو یہ بھی صحیح ہے اس کا مطلب ہے یہ "مِنْ بَيَانِيَّة" ہے، "تَبْيِينِ" کے لیے ہے، وضاحت کے لیے ہے۔ دو ہو گئے۔ نمبر تین "وَلِلتَّبْعِيضِ" کبھی "مِنْ" آتا ہے "تَبْعِيضِ" کے لیے، "تَبْعِيضِ" یعنی بعضیت کو بیان کرنے کے لیے۔ ٹھیک ہے جی۔ بعضیہ کچھ، جز اس کو بیان کرنے کے لیے۔ "وَ عَلَامَتُهُ" کیسے پتہ چلے گا کہ یہاں "مِنْ" "تَبْعِيضِ" کے لیے آیا ہے؟ جواب فرماتے ہیں اس کی علامت یہ ہے "أَنْ يَصِحَّ وَضْعُ لَفْظِ بَعْضٍ مَكَانَهُ" کہ اگر ہم لفظ "مِنْ" کی جگہ لفظ "بَعْضٍ" رکھ دیں اور اس "بَعْضٍ" کا رکھنا اس کی جگہ پر صحیح ہو، درست ہو تو فرماتے ہیں یہاں پر اس کا مطلب ہے کہ "مِنْ" "تَبْعِيضِيَّة" ہے۔ بعضی یعنی کچھ جیسے "أَخَذْتُ مِنَ الدَّرَاهِمِ" اب یہ "مِنْ" ہے نا اب ہم "مِنْ" کو ہٹا لیں ہم اگر لکھیں "أَخَذْتُ" میں نے لیے "بَعْضَ الدَّرَاهِمِ" کچھ دراہم تو یہاں "بَعْضَ" کا رکھنا بھی صحیح ہے اس کا مطلب ہے یہ "مِنْ" "مِنَ التَّبْعِيضِيَّةِ" ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ فرماتے ہیں "وَزَائِدَةٌ" اور کبھی یہ "مِنْ" "زَائِدَةٌ" بھی ہوتا ہے۔ "زَائِدَةٌ" کیا ہوتا ہے؟ کئی دفعہ گزارش کر چکا ہوں کہ اس کی علامت کیا ہوگی؟ "أَنْ لَا يَخْتَلَّ الْمَعْنَىٰ بِإِسْقَاطِهَا" کہ اگر اس "مِنْ" کو کلام سے ہٹا بھی لیا جائے، ساقط بھی کر دیا جائے تو کلام کا معنیٰ مختل نہیں ہوتا، کلام کے معنیٰ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے "مَا جَاءَنِي مِنْ أَحَدٍ" اب "مِنْ أَحَدٍ" کی بجائے اگر ہم اس کو کہیں کہ "مَا جَاءَنِي أَحَدٌ" تو بھی فرماتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، معنیٰ وہی ہے جو "مِنْ أَحَدٍ" کے ساتھ ہوتا ہے۔اگے فرماتے ہیں یہ ختم ہو گئی بات۔ آگے فرماتے ہیں:  "لَا تُزَادُ مِنْ فِي الْكَلَامِ الْمُوجَبِ" کہ یہ "مِنْ" ذرا توجہ رکھنی ہے۔ اس میں یہ فرماتے ہیں کہ "مِنْ" کلام موجب میں زائده نہیں ہوتا۔ موجب وہ ہوتی ہے جس میں نفی، نہی، استفہام نہ ہو اور اگر اس میں نفی، نہی، استفہام ہو تو اس میں زائده  ہوتا ہے۔ توجہ رکھنی ہے  کہ "مِنْ" یعنی پہلے تو یوں کر لیں کہ کلام کی دو قسمیں "مُوجَبُ" اور "غَيْرِ مُوجَبُ"۔ موجب وہ ہوگی جس میں نفی، نہی، استفہام کا استعمال ہو۔ غير موجب وہ ہے کہ جس میں نفی، نہی، استفہام کا۔ کہ موجب ہو گی جس میں نفی، نہی، استفہام کا استعمال نہ ہو۔ وہ موجب ہو گئی جس میں ان کا استعمال ہو وہ ہو گئی غير موجب۔ اب فرمانا یہ چاہتے ہیں کہ یہ "مِنْ" کسی کلام موجب میں زائده نہیں ہوتا۔ "خِلَافًا لِلْكُوفِيِّينَ" البتہ کوفی کہتے ہیں کہ نہیں جی ، بے شک کلام ہو بھی صحیح موجب یعنی اس میں نفی، نہی، استفہام نہ ہو تو بھی وہ کہتے ہیں کہ اس میں زائد ہو سکتا ہے۔ اب کوئی کہے کہ جناب ہم آپ کو دکھاتے ہیں کلام موجب ہے اور مِنْ زائد  ہے جیسے "قَدْ كَانَ مِنْ مَطَرٍ" اب "قَدْ كَانَ مِنْ مَطَرٍ" اب یہ عربی میں موجود ہے۔ اب اس میں تو مِنْ زائد ہے اور ہے بھی کلام "كلام موجب ہے۔ تو فرماتے ہیں اس کی تاویل کی گئی ہے۔ وہ تاویل کیا ہے؟ کہ یہاں  مِنْ تبعيض کے لیے ہے یعنی "قَدْ كَانَ مِنْ مَطَرٍ" ہے اصل میں "قَدْ كَانَ بَعْضُ مَطَرٍ" یہ تاویل کی گئی ہے۔ یہ ہو گیا "مِنْ"۔

 إلیٰ

اس کے بعد فرماتے ہیں حروف جارہ میں سے دوسرے نمبر پر جو انہوں نے تحریر فرمایا ہے وہ ہے "إِلٰی"۔ "إِلٰی" کس کے لیے آتا ہے؟ "لِانْتِہَاءِ الْغَایَۃِ" انتہاء غایت کے لیے، یعنی یہ بتاتا ہے کہ وہ غایت جو آخری حد تھی وہ کہاں تک تھی، اور جیسے ہم نے پیچھے پڑھا ہے "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَۃِ إِلَی الْکُوْفَۃِ"۔ "إِلٰی" بتا رہا ہے کہ غایت، مقصود کی انتہاء کہاں تھی؟ وہ کوفہ تھی۔ ایک معنی ہو گیا۔ "وَ بِمَعْنَیٰ مَعَ" یہ "إِلٰی" بمعنی "مَعَ" کے بھی استعمال ہوتا ہے، "مَعَ" یعنی ساتھ۔ آیت مجیدہ ہے "فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ أَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ"۔ تم دھوؤ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو "إِلَی الْمَرَافِقِ"۔ اب یہاں "إِلٰی" انتہاء کے لیے نہیں آئے گا کہ مرافق تک یعنی جہاں سے کہنی شروع ہو چھوڑ دو، نہ، بلکہ "إِلٰی" بمعنی "مَعَ" کے ہے "أَيْ مَعَ الْمَرَافِقِ" یعنی کہنیوں سمیت۔

حتّیٰ

اگلا حرف جار وہ ہے "حَتّٰی"۔ خوب۔ "حَتّٰی ھِیَ مِثْلُ إِلٰی" یہ "حَتّٰی" بھی مثل "إِلٰی" کے ہے یعنی انتہاء غایت کو بیان کرتا ہے جیسے "نِمْتُ الْبَارِحَۃَ حَتَّی الصَّبَاحِ" کہ میں سویا گزشتہ شب صبح تلک۔ صبح تک، جب صبح ہوئی نیند ختم۔ "وَ بِمَعْنَیٰ مَعَ کَثِیْرًا" یہ "حَتّٰی" بمعنی "مَعَ" کے بھی استعمال ہوتا ہے اور جیسے "إِلٰی" بمعنی "مَعَ" کے استعمال ہوتا تھا، یہ "حَتّٰی" بھی بمعنی "مَعَ" کے استعمال ہوتا ہے اور "حَتّٰی" کا "مَعَ" کے ساتھ معنی میں استعمال ہونا زیادہ ہے جیسے "قَدِمَ الْحَاجُّ حَتَّی الْمُشَاۃِ" یعنی آ گئے حاجی "حَتَّی الْمُشَاۃِ" یہاں "حَتّٰی" بمعنی "مَعَ" کے ہے، یعنی ان کے ساتھ جو پیدل چل رہے تھے، "مُشَاۃِ" کہتے ہیں پیدل چلنے والوں کو یعنی ان کے ساتھ۔ یہاں "حَتّٰی" بمعنی "مَعَ" کے ہے۔ جو سوار تھے سوار تھے، پیدل والوں کے ساتھ وہ بھی آ گئے۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ پس "حَتّٰی" ایک تو انتہاء غایت بیان کرتا ہے، دوسرا بمعنی "مَعَ" کے ہوتا ہے اور "مَعَ" کے ساتھ اس کا استعمال ہونا بہت زیادہ ہے۔ آگے فرماتے ہیں۔ "لَا تَدْخُلُ إِلَّا عَلَی الظَّاھِرِ" ایک جملہ یہ ہے کہ یہ "حَتّٰی" فقط اسم ظاہر پر داخل ہوتا ہے یعنی گویا "حَتّٰی" ضمیر پر داخل نہیں ہوتا۔ بہت توجہ۔ "حَتّٰی" کس پر داخل ہوتا ہے؟ اسم ظاہر پر اور "فَلَا یُقَالُ حَتَّاہُ"۔ یعنی "حَتَّاہُ"، یہ تو مثال دی ہے نا یعنی قانون یہ ہے کہ آپ یہ کہیں گے "حَتّٰی" کسی ضمیر پر داخل نہیں ہوتا، "حَتّٰی" کا مدخول ضمیر نہیں ہوتی اسی لیے "حَتَّاہُ" کہنا صحیح نہیں ہے۔ "خِلَافًا لِلْمُبَرَّدِ" البتہ مبرد نحوی جو کہ اپنے مقام پر ایک بہت بڑا نحوی ہے، مبرد نحوی یہ کہتا ہے: کہ نہیں نہیں کوئی حرج نہیں ہے، یہ ضمیر پر بھی داخل ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ایک شاعر کا یہ شعر بھی بطور شاہد موجود ہے۔ وہ شاعر کا شعر کیا ہے؟ وہ یہ ہے "فَلَا وَاللہِ لَا یَبْقٰی أُنَاسٌ فَتًی حَتَّاکَ یَا ابْنَ أَبِیْ زِیَادٍ" وہ کہتا ہے کہ شاعر نے "حَتّٰی" کو "کَ" ضمیر پر داخل کیا ہے "حَتَّاکَ"۔ فرماتے ہیں "فَلَا" نہیں "وَاللہِ" اللہ کی قسم "لَا یَبْقٰی أُنَاسٌ فَتًی" لوگ جوانی کی حالت میں نہیں رہیں گے۔ "لَا یَبْقٰی" باقی نہیں رہیں گے لوگ "فَتًی" یعنی جوانی کی حالت میں، "حَتَّاکَ" حتی کہ تو اے ابن زیاد۔ محل شاہد اس کا یہ تھا کہ یہ دیکھو "حَتّٰی" جو ہے وہ ضمیر پر داخل ہوا ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں "شَاذٌّ" اگر شاعر نے کہیں "حَتّٰی" کا مدخول ضمیر کو قرار دیا ہے تو یہ شاذ ہے اور "الشَّاذُّ کَالْمَعْدُوْمِ" وہ ہو سکتا ہے ضرورت شعری کے لیے اس نے کر دیا ہو، لہذا شاذ جو موارد ہوتے ہیں وہ قاعدہ کلیہ کو توڑتے نہیں ہیں، قانون یہی ہے کہ یہ ضمیر پر داخل نہیں ہوتا۔ 

5

حرف فی اور باء کے بارے میں

 فِی

حروف جارہ میں سے ایک اور حرف وہ ہے "فِی"۔ "فِی" آتا ہے ظرفیت کے لیے۔ اب وہ ظرف زمان ہو، ظرف مکان ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظرفیت یعنی یہ بتاتا ہے کہ میرا ماقبل ظرف ہے، میرا مابعد مظروف ہے جیسے "زَیْدٌ فِی الدَّارِ" زید گھر میں ہے۔ "الْمَاءُ فِی الْکُوْزِ" پانی کوز میں ہے، لوٹے میں یا جو بھی اس کا ترجمہ کریں گے اس میں ہے۔ "وَ بِمَعْنَیٰ عَلٰی" یہ "فِی" کبھی کبھی بمعنی "عَلٰی" کے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن کم، زیادہ نہیں۔ کم۔ بہت کم بمعنی "عَلٰی" کے ہوتا ہے جیسے آیت مجیدہ ہے "وَ لَأُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ" یہاں "فِی" بمعنی "عَلٰی" کے ہے، "فِی" بمعنی "عَلٰی" کے ہے یعنی "وَ لَأُصَلِّبَنَّکُمْ" کہ میں ضرور تمہیں سولی پر لٹکاؤں گا "عَلٰی جُذُوْعِ النَّخْلِ" یعنی کھجور کے تنوں پر، یہاں "فِی" بمعنی "عَلٰی" کے ہے۔ 

اَلبَاءُ

حروف جر میں سے ایک اور حرف وہ ہے "الْبَاءُ"۔ "باء" یہ بہت سارے معنی کے لیے استعمال ہوتی ہے،  یہ سارے آپ وہاں پر غالباً پڑھ بھی چکے ہیں شرح مائۃ عامل میں بڑی تفصیل کے ساتھ وہاں گزارش کی تھی ان کی ایک ایک کر کے۔  "باء" "ھِیَ لِلْإِلْصَاقِ"۔ "باء" آتی ہے الصاق کے لیے، ملانا، متصل کرنا۔ اب ہو سکتا ہے وہ الصاق،الصاق حقیقی ہو کہ دو چیزیں بالکل خارج میں واحد ہوں، علیحدہ علیحدہ نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ الصاق ،الصاق مجازی ہو۔  یہ ساری بات وہاں میں نے گزارش کی تھی۔ "مَرَرْتُ بِزَیْدٍ" "مَرَرْتُ بِزَیْدٍ" میں گزرا زید کے پاس سے۔ اب یہاں پر الصاق ہے لیکن یہ الصاق، الصاق مجازی ہے کیوں؟ "الْتَصَقَ مُرُوْرِیْ" اصل "مَرَرْتُ بِزَیْدٍ" کا مطلب ہے کہ میرا گزرنا ملا ہوا تھا ایسی موضع، ایسی جگہ سے "تَقْرُبُ مِنْہُ زَیْدٌ" کہ زید جس کے قریب تھا۔ یہ الصاق مجازی تھا۔ الصاق حقیقی کی مثال آپ نے شرح مائۃ عامل میں پڑھی تھی وہ "بِہِ دَاءٌ" اس کو بیماری ہے۔ کیوں؟ چونکہ بیماری ظاہر ہے اس کے پورے جسم کے اندر تھی، وہ اور بیماری گویا بالکل متصل تھے علیحدہ علیحدہ نہیں تھی جبکہ یہاں دو علیحدہ علیحدہ ہیں۔ "وَ لِلِاسْتِعَانَۃِ" اسی طرح "باء" استعانت کے لیے استعمال ہوتی ہے، استعانت کسے کہتے ہیں؟ یعنی مدد طلب کرنا، اعانت طلب کرنا جیسے "کَتَبْتُ بِالْقَلَمِ" میں نے لکھا قلم کی مدد سے یعنی "باء" یہاں استعانت کے لیے، قلم سے مدد حاصل کرنا۔ "قَدْ یَکُوْنُ لِلتَّعْلِیْلِ" کبھی کبھی "باء" تعلیل کے لیے بھی آتی ہے۔ تعلیل کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کسی حکم کی علت کو بیان کرتی ہے کہ یہ کام کیوں ہوا؟ اس علت کو بیان کرتی ہے جیسے قرآن مجید کی آیت ہے "إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَکُمْ" تم لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ جناب، اس ظلم کی علت کیا تھی؟ علت ظلم کیا ہے؟ کیوں کہہ رہے ہیں تم نے تم ظالم ہو اپنے آپ پر ظلم کیا ہے؟ "بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ"۔ ٹھیک ہے جی؟ تو اب یہاں "باء" تعلیل کو بیان کر رہی ہے۔ "باء" تعلیل کو بیان کر رہی ہے  کہ تم نے عجل وہ جو بچھڑے کو پکڑا تھا، وہ جو قصہ ہے سامری والا اس کی وجہ سے تم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔  آگے فرماتے ہیں۔ "وَ لِلْمُصَاحَبَۃِ" کبھی کبھی "باء" مصاحبت کا معنی بھی دیتی ہے، مصاحبت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مصاحبت کہتے ہیں ساتھ، "خَرَجَ زَیْدٌ بِعَشِیْرَتِہِ" زید نکلا اپنے قبیلے، کنبے کے ساتھ۔ "باء" مصاحبت کے لیے یعنی اکیلا نہیں "بِعَشِیْرَتِہِ" اپنے کنبے قبیلے کے ساتھ نکلا۔  "وَ لِلْمُقَابَلَۃِ" "باء" مقابلہ کے لیے استعمال ہوتی ہے یعنی "باء" مقابلہ کا معنی بھی دیتی ہے جیسے "بِعْتُ ہٰذَا بِذَاکَ" میں نے اس کو بیچا "بِذَاکَ" اس کے مقابل میں۔ "بِعْتُ الْکِتَابَ بِمِائَۃٍ" میں نے کتاب کو بیچا "بِمِائَۃٍ" سو کے مقابل میں، یہاں "باء" مقابلہ کو بیان کر رہی ہے کہ کتاب کے مقابل کیا تھا؟ "بِمِائَۃٍ" مثلاً سو تھا۔ اسی طرح فرماتے ہیں کہ یہ "باء" تعدیہ کا معنی بھی دیتی ہے یعنی یہ "باء" تعدیہ کے لیے استعمال ہوتی ہے، کسی لازم کو متعدی بنانا ہو تو وہاں بھی یہ "باء" استعمال ہوتی ہے جیسے "ذَہَبْتُ" میں گیا یہ لازم تھا لیکن اگر آپ کو متعدی کرنا ہے تو وہاں "باء" لگا دو یعنی "ذَہَبْتُ بِزَیْدٍ"۔ جب "باء" آ جائے گا تو یہ "ذَہَبْتُ" اب لازم نہیں بلکہ متعدی بن جائے گا۔ اس کا معنی ہوگا کہ میں زید کو لے گیا۔ خود نہیں گیا اس کو لے گیا۔ اسی طرح فرماتے ہیں "باء" ظرفیت کے لیے بھی آتی ہے۔ ظرف کا معنی وہی، ظرف زمان ہو یا ظرف مکان ہو، کسی مکان میں یا کسی زمانے کے اندر یا مکان کے اندر ہونا اس کو ظرف۔ "جَلَسْتُ بِالْمَسْجِدِ" "جَلَسْتُ" میں بیٹھا "بِالْمَسْجِدِ" یہاں "باء" ظرفیہ ہے یعنی آپ ترجمہ کریں گے مسجد میں، یعنی مسجد کے اندر۔ "باء" ظرفیت کے لیے ہے، یہ بتا رہی ہے کہ اس کا ظرف مکاں یعنی بیٹھنے کی جگہ کیا تھی؟ وہ مسجد تھی۔ "وَ زَائِدَۃً" کبھی کبھی یہ "باء" زائدہ بھی ہوتی ہے۔ کہاں پر؟ فرماتے ہیں بعض مقامات پر یہ "باء" قانون ہے، قیاساً یعنی قانون ہے کہ جہاں ایسا ہوگا وہاں "باء" زائدہ ہوگی اور بعض مقامات پر یہ سماعاً ہے کیا رب والے جہاں اس کو زیادہ پڑھتے ہیں ہم بھی وہاں زیادہ کر کے اس کو پڑھیں گے۔ قانون کہاں ہے؟ وہ یہ ہے۔ "فِیْ خَبَرِ النَّفْیِ" اگر نفی کی خبر واقع ہو رہی ہے یعنی مائے نافیہ کے بعد آ رہی ہے وہاں بھی "باء" زائدہ ہوگی ہمیشہ جیسے "مَا زَیْدٌ بِقَائِمٍ" یہاں "باء" زائدہ ہے چونکہ یہ "مَا" کی خبر بن کے آ رہا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ ماء نافیہ کی۔ اسی طرح استفہام میں ہوگی تو بھی "باء" زائدہ ہوگی، یہ بھی قانون ہے جیسے "ھَلْ زَیْدٌ بِقَائِمٍ" چونکہ یہاں "باء" استفہام میں استعمال ہوئی ہے، یہاں "باء" زائدہ ہے۔ یہ تو ہو گئے قیاسی، قانون ہو گئے۔ "وَ سَمَاعًا" البتہ کچھ موارد ہیں جو سماعی ہیں، وہاں قانون نہیں بلکہ وہاں ہم نے دیکھنا ہے کہ جیسے عرب والے پڑھیں گے ہم بھی اسی طرح پڑھیں گے۔ کونسے؟ جیسے مرفوع میں، مرفوع اس کی مثال کیا دی ہے؟ مثال اس کی یہ دی ہے۔ "بِحَسْبِکَ زَیْدٌ" اب یہ جملہ درحقیقت مرفوع ہے یعنی اصل میں ہے "حَسْبُکَ زَیْدٌ"۔ "بِحَسْبِکَ زَیْدٌ" جب پڑھیں گے تو یہاں "باء" زائدہ ہے۔ عرب والے ایسے پڑھتے ہیں ہم بھی ایسے پڑھیں گے۔ "کَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا" "کَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا" یعنی اصل میں تھا "کَفَی اللہُ شَھِیْدًا" اب "اللہُ" بھی مرفوع تھا، حالت رفعی تھی، اس پر بھی "باء" جو ہے یہ زائدہ ہے، اور جیسے "حَسْبُکَ زَیْدٌ" "حَسْبُکَ" مرفوع تھا اس پر "باء" زائدہ ہے۔ منصوب میں بھی فرماتے ہیں کہ منصوب میں بھی "باء" زائدہ ہوتی ہے جیسے "أَلْقٰی بِیَدِہِ"۔ "أَلْقٰی بِیَدِہِ" اصل میں ہے "أَلْقٰی یَدَہُ"۔ "یَدَہُ" یہ منصوب تھا جو "أَلْقٰی" کا مفعول تھا، اب اس پر بھی "باء" زائدہ ہوتی ہے۔ سماعاً، عرب والے یعنی ایسے ہی لگاتے ہیں "أَلْقٰی یَدَہُ" کی بجائے کہتے ہیں "أَلْقٰی بِیَدِہِ"۔  "لَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ"۔ اور بھی بہت ہیں ان شاءاللہ پڑھتے ہیں۔

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ مُحَمَّدٍ

ولا يبنيان إلّا ممّا يبنى منه أفعل التفضيل ، ويتوصّل في الممتنع بمثل ما أشَدَّ كما عرفت.

ولا يجوز التصريف فيه ولا التقديم ولا التأخير ولا الفصل. والمازني أجاز الفصل بالظرف نحو : ما أحْسَنَ الْيَوْمَ زَيْداً.

فصل : أفعال المدح والذمّ

ما وضع لإنشاء مدح أو ذمّ. أمّا المدح فله فعلان :

«نِعْمَ» ، وفاعله اسم معرّف باللام نحو : نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ ، أو مضاف إلى المعرّف باللام نحو : نِعْمَ غُلامُ الرَّجُلِ زَيْدٌ ، وقد يكون فاعله مضمراً يجب تمييزه بنكرة منصوبة نحو : نِعْمَ رَجُلاً زَيْدٌ ، أو بما نحو قوله تعالى : «فَنِعِمَّا هِيَ» (١) ، أي نِعْمَ ما هي ، وزيد يسمّى المخصوص بالمدح.

ومنها : «حَبَّذا» ، نحو : حَبَّذا رَجُلاً زَيْدٌ ، فَحَبّ فعل المدح وفاعله «ذا» والمخصوص زيدٌ ، ورجلاً تمييز ، ويجوز أن يقع قبل مخصوص حبّذا أو بعده تمييز نحو : حَبَّذا رَجُلاً زَيْدٌ ، وحَبَّذا زَيْدٌ رَجُلاً ، أو حال نحو : حَبَّذا راكِباً زَيْدٌ ، وحَبَّذا زَيْدٌ راكِباً.

أمّا الذمّ فله فعلان أيضاً وهو :

«بِئْسَ» ، نحو : بِئسَ الرَّجلُ زيْدٌ ، وَبِئسَ غُلامُ الرَّجُلِ زيْدٌ ، وَبِئسَ رَجُلاً زيْدٌ. «ساء» نحو : ساء الرَّجُلُ زَيْدٌ ، وساء غُلامُ الرَّجُلِ زَيْدٌ ، وساء رَجُلاً زَيْدٌ ، وساء مثل بئسَ.

القسم الثالث : في الحرف

وقد مضى تعريفه ، وأقسامه سبعة عشر :

____________________________

(١) البقرة : ٢٧١.

«حروف الجرّ ، والحروف المشبّهة بالفعل ، وحروف العطف ، وحروف التنبيه ، وحروف النداء ، وحروف الإيجاب ، وحروف الزيادة ، وحرفا التفسير ، وحروف المصدر ، وحروف التحضيض ، وحرف التوقيع ، وحرفا الاستفهام ، وحروف الشرط ، وحرف الردع ، وتاء التأنيث ، والتنوين ، ونون التأكيد».

فصل : حروف الجرّ

وضعت لإفضاء فعل أو شبهه أو معنى فعل إلى ما يليه نحو : مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، وأنا مَارٌّ بِزَيْدٍ ، وهذا في الدارِ أبُوكَ ، أي الّذي أُشير إليه فيها ، وهي تسعة عشر حرفاً :

مِن : وهي لابتداء الغاية وعلامته أن يصحّ في مقابله «إلى» لانتهاء الغاية. نحو : سِرْتُ مِن الْبَصْرَةِ إلَى الْكُوفَةِ.

وللتبيين ، وعلامتُه أن يصحّ وضع «الّذي» مكانه كقوله تعالى : «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ» (١) ، أي الرجس الذي هو الأوثان.

وللتبعيض ، وعلامته أن يصحّ وضع «البعض» مكانه نحو : أخَذْتُ مِن الدَّراهِمِ.

وزائدة ، وعلامته أن لا يختلّ المعنى بانتفائه نحو : ما جاءني مِن أحَدٍ ، ولا تزاد في الكلام الموجب خلافاً للكوفيّين ، وأمّا قولهم : قَدْ كانَ مِنْ مَطَرٍ ، وشبهه فمتأوّل.

وإلىٰ : وهي لانتهاء الغاية كما مرّ. وبمعنى «مَعَ» قليلاً كقوله تعالى : «فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ» (٢) ، أي مع المرافق.

____________________________

(١) الحجّ : ٣٠.

(٢) المائدة : ٦.

وحتّىٰ : وهي مثل «إلىٰ» نحو : نُمْتُ الْبارحَةَ حَتّىٰ الصباحِ. وبمعنى «مع» كثيراً نحو : قَدِمَ الْحَاجُّ حَتَّىٰ الْمُشاةِ. ولا تدخل على غير الظاهر فلا يقال : حَتّاهُ ، خلافاً للمبرّد. وأمّا قول الشاعر :

فلا واللهِ لا يبقىٰ اُناس

فتىً حَتّاكَ يابْنَ أبي زيادٍ (١)

فشاذّ.

وفي : للظرفيّة نحو : زَيْدٌ في الدارِ ، والْماءُ في الْكُوزِ. وبمعنى «عَلىٰ» قليلاً كقوله تعالى : «وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ» (٢).

والباء : وهي للإلصاق حقيقة نحو : بِهِ داءٌ ، أو مجازاً نحو : مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، أي التصق مروري بمكان يقرب منه زيد.

وللاستعانة نحو : كَتَبْتُ بِالْقَلَمِ.

وللتعدية ك‍ : ذَهَبَ بِزَيْدٍ.

وللظرفية ك‍ : جَلَسْتُ بِالْمَسْجِدِ.

وللمصاحبة نحو : اشْتَرَيْتُ الْفَرَسَ بِسَرْجِهِ.

وللمقابلة نحو : بِعْتُ هذا بِهذا.

وزائدة قياساً في الخبر المنفيّ نحو : ما زَيْدٌ بِقائِمٍ ، وفي الاستفهام نحو : هَلْ زَيْدٌ بقائِمٍ ؟ وسماعاً في المرفوع نحو : بِحَسْبِكَ دِرهمٌ ، «وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا» (٣). وفي المنصوب نحو : ألْقىٰ بِيَدِهِ.

واللّام : للاختصاص نحو : الْجُلُّ لِلْفَرَسِ ، والْمالُ لِزَيْدٍ ، وللتعليل

____________________________

(١) يعنى : پس قسم بخدا كه باقى نمى ماند مردمان جوان حتى تو اى پسر ابى زياد. يا آنكه يافت نمى شوند مردمان صاحب سخاوت سواى تو اى پسر ابى زياد. شاهد در دخول حتّى است بر ضمير مخاطب شذوذاً و مجرور بودن آن ضمير به حتى. جامع الشواهد.

(٢) طه : ٧١.

(٣) النساء : ٧٩.