درس الهدایة في النحو

درس نمبر 52: افعال ناقصہ

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

افعال ناقصہ کی تعریف اور ان کا باقی افعال میں فرق

فَصْلٌ

"اَلْأَفْعَالُ النَّاقِصَةُ هِيَ أَفْعَالٌ وُضِعَتْ لِتَقْرِيْرِ الْفَاعِلِ عَلَى صِفَةٍ غَيْرِ صِفَةِ مَصْدَرِهَا"

افعال ناقصہ کی تعریف اور وجہ تسمیہ

قسم دوم فعل کی بحث میں ہم پہنچ گئے بحمداللہ افعال ناقصہ پر۔ افعال ناقصہ ان افعال کو کہا جاتا ہے کہ جن کو وضع کیا گیا ہو اس لئے کہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ میرا فاعل میرے مصدر والی صفت کے علاوہ کسی اور صفت پر ثابت ہے۔ یہ لفظی ترجمہ تھا لیکن بات کو سمجھنا ہے۔ سوال پہلا یہ ہے کہ ان افعال کو افعال ناقصہ کیوں کہتے ہیں؟ جواب: چونکہ یہ افعال فقط فاعل کے ساتھ مکمل نہیں ہوتے۔ جب تک یہ خبر کے محتاج ہوتے ہیں، خبر کو ملانے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ افعال، افعال ناقصہ ہیں۔ ان میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ بغیر خبر کے یہ مکمل نہیں ہوتے۔ 

 افعال ناقصہ کی نحوی تعریف

اس کے بعد اگلا جملہ جو ان کی تعریف ہے، اس کے بعد آگے سب آسان ہے، فقط اسی کو سمجھنا ہے۔ ایک تو یہ ہوگیا، دوسرا یہ لفظ ذرا پہلے سمجھیں تاکہ پھر تشریح آپ کی بات میں سمجھ آئے۔ لفظ کیا ہے؟ "هِيَ أَفْعَالٌ" یہ تو ٹھیک ہوگیا۔ "وُضِعَتْ" جن کو وضع کیا گیا، بالکل ٹھیک۔ "لِتَقْرِيْرِ الْفَاعِلِ" اس بتانے کے لئے کہ ان کا فاعل ثابت ہے، فاعل کو ثابت کرنے کے لئے، تقریر کے لئے۔ "عَلَى صِفَةٍ" ایسی صفت پر کہ "غَيْرِ صِفَةِ مَصْدَرِهَا" جو ان کے مصدر کی صفت کا غیر ہے۔ اس سطر کو سمجھنا ہے باقی آگے سارا وہی ہے جو آپ شرح مأة عامل میں پڑھ چکے ہیں۔ اب ذرا اس کو تبدیل سے، توجہ سے، غور سے سنیں گے تو پھر آپ کو لطف آئے گا۔ یعنی یہ افعال ناقصہ وہ افعال ہیں جو اپنے فاعل کو ان افعال کے مصدر والی صفت نہیں بلکہ مصدر کے غیر والی صفت کے ساتھ ربط کرتے ہیں، ثابت کرتے ہیں۔ تھوڑی سی اب توجہ کریں گے تو مزا آئے گا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا" "كَانَ" فعل  افعال ناقصہ سے، "زَيْدٌ" اس کا اسم، "قَائِمًا" اس کی خبر۔ اب یہاں "كَانَ" نے زید کو  "قَائِمًا" یعنی قیام کو زید کے ساتھ ربط دیا ہے۔ یعنی "كَانَ" نے زید کے لئے "قَائِمًا" یعنی صفتِ قیام کو ثابت کیا ہے کہ قیام والی صفت زید میں ہے، یہ کس نے ثابت کیا ہے؟ "كَانَ" نے۔ اب آپ ذرا غور کریں "كَانَ" کا مصدر تو ہے کون، جبکہ "قَائِمًا" میں صفت ہے قیام تو اب فرماتے ہیں صفتِ کون کے ربط کے لئے وضع نہیں ہوا "كَانَ" بلکہ یہ بتانے آیا ہے کہ میرے اس فاعل کے لئے، اس اسم کے لئے کوئی اور صفت ہے جو میرے اپنے مصدر کون والی نہیں ہے۔ اس لئے یہ جو مصنف نے کہا ہے نا کہ ایسی صفت کہ جو اس کے اپنے مصدر کی صفت کا غیر ہو، کیوں؟ اس لئے کہ ہر فعل اپنے مصدر والی صفت کے ساتھ تو ویسے ہی مربوط ہوتا ہے، جیسے "ضَرَبَ" یہ فعل ہے تو اب "ضَرَبَ زَيْدٌ" زید نے مارا، اب "ضَرَبَ" جو فعل ہے اب یہاں زید "ضَرَبَ" والے کی میں ضرب والی صفت تو ویسے ہی اس کے لئے ثابت ہے۔ لہذا یہاں پر جو موجود ہے وہ ہے کہ نہیں یہاں "كَانَ" میں کون والی صفت زید کے لئے نہیں بلکہ کوئی اور صفت ہے جو "كَانَ" کے مصدر کے علاوہ ہے۔  تو پس یہی فرق ہوگیا۔

افعال ناقصہ اور دیگر افعال میں فرق

لہذا فعل ناقص افعال ناقصہ اور دیگر افعال میں یہی فرق ہوتا ہے۔ دیگر افعال میں ہم کیا کہتے ہیں؟ وہاں فعل یہ بتاتا ہے کہ میرا فاعل میرے  مصدر والی صفت سے متصف ہے۔ "ضَرَبَ زَيْدٌ"، "ضَرَبَ" بتا رہا ہے کہ میرا فاعل زید میرے مصدر والی صفت ضرب سے متصف ہے۔ جبکہ افعال ناقصہ میں فعل ناقص یہ بتاتے ہیں کہ میرا فاعل میرے مصدر والی نہیں بلکہ کسی اور صفت کے ساتھ متصف ہے، کوئی اور صفت اس کے لئے ثابت ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ بس اس جملے کو سمجھنا ہے، اس کے بعد پھر باقی آسان ہے کہ یہ افعال ناقصہ کون کون سے ہیں؟ یہ ہم سارے پڑھ چکے ہیں۔ "كَانَ"، "صَارَ"، "ظَلَّ"، "بَاتَ"، "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى"، "أَضْحَى"، وہ تقریباً سترہ کے قریب افعال ناقصہ، کون سے تھے؟ چلو ان کو ایک بار پھر ذرا دہرا لیتے ہیں۔

4

افعال ناقصہ کی تعداد اور کان کی اقسام

فرماتے ہیں "كَانَ"، "صَارَ"، "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى"، "أَضْحَى"، "ظَلَّ"، "بَاتَ"، "مَازَالَ"، "مَابَرِحَ"، "مَافَتِئَ"، "مَانْفَكَّ"، "مَادَامَ" اور "لَيْسَ"۔ یہ    تھے افعال ناقصہ۔ فرماتے ہیں یہ افعال ناقصہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں، جملہ فعلیہ پر نہیں ہوتے اور یہ پہلے اسم کو رفع اور دوسرے کو نصب دیتے ہیں یعنی افعال ناقصہ اپنے اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں جیسے "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا"۔ 

 کَانَ کی اقسام

ان افعال ناقصہ میں سے ہر ایک کی تھوڑی علیحدہ وضاحت فرما رہے ہیں۔ بالکل آسان آسان سی بحثیں ہیں۔ فرماتے ہیں "كَانَ" تین قسم پر ہوتا ہے۔ "كَانَ" ناقصہ بھی ہوتا ہے، "كَانَ" تامہ بھی ہوتا ہے، "كَانَ" زائدہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی "كَانَ" ناقصہ ہوگا، کبھی "كَانَ" تامہ ہوگا، کبھی "كَانَ" زائدہ ہوگا، ہر ایک کی وضاحت۔ ناقصہ کب ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں اپنی خبر کو اپنے اسم کے لئے زمانہ ماضی میں ثابت کرتا ہے۔ کہ وہ ثبوت تمام ماضی اور غیر ماضی جیسے "كَانَ اللهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا"۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ اس "كَانَ" نے یہ بتایا ہے کہ یہ علیم اور حکیم والی صفت میرے اسم اللہ کے لئے ثابت ہے اور ثابت بایں معنی کہ وہ ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ اور منقطع یہ ہوتی ہے کہ یہ تو بتاتا ہے کہ یہ میری خبر میرے اسم کے لئے تھی لیکن ہمیشہ نہیں، بس تھی پھر ختم ہوگئی جیسے "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا"، زید قائم تھا پھر ختم ہوگیا۔  کبھی کبھی یہ "كَانَ" ناقصہ بمعنى سارا کے بھی ہوتا ہے۔ "كَانَ" تامہ، فرماتے ہیں "كَانَ" تامہ بمعنى ثبت اور حصل کے ہوتا ہے اور اس وقت یہ اپنے اسم پر تام ہوجاتا ہے، خبر کا محتاج نہیں ہوتا۔ جیسے ہم کہتے ہیں "كَانَ الْقِتَالُ" یعنی مطلب کیا ہے "حَصَلَ الْقِتَالُ" کہ قتال حاصل ہوگیا، شروع ہوگیا، ثابت ہوگیا۔ اب یہاں پر خبر کی ضرورت نہیں ہے۔ "كَانَ" زائدہ یہ وہ ہوتا ہے کہ جو زائد ہوتا ہے، زائد کا مراد یہ ہے کہ اگر اسے ساقط کر بھی دیا جائے تو عبارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی اگر وہ کلام میں نہ بھی ہو تو عبارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر آگے انشاءاللہ سارا ہے اور ایک ایک کی ذرا تفصیل ہے، یہ آسان بحث ہے اس لئے ہم اس میں زیادہ وقت نہیں، چونکہ یہ سارے آپ شرح مأة عامل میں تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ہیں، اس میں جو اضافی بات ہوگی فقط اسی کی وضاحت کرتے ہیں۔

 کتاب کی عبارت کا ترجمہ اور تشریح

فرماتے ہیں "فَصْلٌ، أَنَّ الْأَفْعَالَ النَّاقِصَةَ" فعل کی بحث میں اگلی فصل ہے افعال ناقصہ کے بارے میں۔ فرماتے ہیں افعال ناقصہ "هِيَ أَفْعَالٌ" یہ وہ افعال ہیں "وُضِعَتْ" جو وضع کیے گئے ہیں کس لئے؟ "لِتَقْرِيْرِ الْفَاعِلِ عَلَى صِفَةٍ" فاعل کی تقریر، تثبیت یعنی فاعل کو ایسی صفت پر ثابت کرنے کے لئے کہ "غَيْرِ صِفَةِ مَصْدَرِهَا" کہ وہ صفت اس کے اپنے مصدر والی صفت نہیں ہوتی۔ وضاحت پہلے میں نے ایک ایک کر دی ہے۔ "وَهِيَ كَانَ، صَارَ، ظَلَّ، بَاتَ، أَصْبَحَ، أَمْسَى، مَا زَالَ، مَا بَرِحَ" الی آخرہ۔ "تَدْخُلُ عَلَى الْجُمْلَةِ الْإِسْمِيَّةِ" یہ داخل ہوتے ہیں جملہ اسمیہ پر "لِإِفَادَةِ نِسْبَتِهَا حُكْمَ مَعْنَاهَا" فرماتے ہیں یہ داخل ہوتے ہیں اس کی نسبت کے فائدے کے لئے، اس کے معنی کے حکم کو یعنی یہ بتانے کے لئے کہ یہ جملہ اسمیہ پر چونکہ یہ اسی جملے کا یعنی اس کا فائدہ دیتے ہیں اور یہ اس کو سمجھاتے ہیں کہ کس لئے کہ یہ ثبوت کا حکم اور اثر اپنی خبر یعنی قیام کو دیتے ہیں۔اب ذرا توجہ کرو "لِإِفَادَةِ نِسْبَتِهَا" کیونکہ یہ فائدہ پہنچاتے ہیں اس نسبت کا "حُكْمَ مَعْنَاهَا" ان کے معنی کے حکم کا۔ پس "فَتَرْفَعُ الْأَوَّلَ وَتَنْصِبُ الثَّانِيَ" لہذا یہ پہلے اسم کو رفع دیتے ہیں، دوسرے کو نصب دیتے ہیں۔ لہذا آپ کہیں گے "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا"، "كَانَ" داخل ہوا ہے "زَيْدٌ قَائِمٌ" جملہ اسمیہ پر، "زَيْدٌ" "كَانَ" کا اسم ہے، "قَائِمًا" "كَانَ" کی خبر ہے۔  "قَائِمًا"

"کَانَ" کی تین اقسام

"كَانَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ" "كَانَ" کی تین قسمیں ہیں۔ کبھی "كَانَ" ناقصہ ہوتا ہے، کبھی "كَانَ" تامہ ہوتا ہے اور کبھی "كَانَ" زائدہ ہوتا ہے۔

"کَانَ" ناقصہ اور اس کی دو صورتیں

"كَانَ" ناقصہ کب ہوگا؟ توجہ کے ساتھ۔ "هِيَ تَدُلُّ عَلَى ثُبُوْتِ خَبَرِهَا لِفَاعِلِهَا" "كَانَ" ناقصہ یہ دلالت کرتا ہے کہ میری خبر میرے فاعل کے لئے، فاعل سے مراد وہی اسم ہے کہ میری خبر میرے فاعل کے لئے، میرے اسم کے لئے ثابت ہے "فِي الْمَاضِيْ" زمانہ ماضی میں۔  اب جو ماضی میں ثابت ہے "إِمَّا دَائِمًا" یا ہمیشہ سے ہے یعنی کبھی بھی وہ خبر اس اسم سے جدا نہیں ہوئی، نہ ابھی تک ہوئی ہے، نہ ہوگی۔ وہ جیسے "كَانَ اللهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا"، علیم یہ صفت ہے اللہ کے لئے، یہ "كَانَ" بتاتا ہے کہ "عَلِيْمًا" یہ خبر میرے اسم اللہ کے لئے ثابت ہے ماضی میں اور "دَائِمًا" ہمیشہ سے ہے۔ "أَوْ مُنْقَطِعًا" یا وہ خبر اس سے جدا ہونے والی ہے، منقطع ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "كَانَ زَيْدٌ شَابًّا"، زید جوان تھا۔ اب "شَابًّا" اگرچہ یہ خبر زید کے لئے ثابت ہے لیکن یہ منقطع ہے، ظاہر ہے کہ وہ جوانی ختم ہونے والی ہے۔ یہ ہوگیا "كَانَ" ناقصہ۔

"کَانَ" تامہ

تامہ، دوسری قسم ہے "كَانَ" تامہ۔ تامہ بمعنى "ثَبَتَ" یا بمعنى "حَصَلَ" کے ہوتا ہے۔ تو جب بمعنى "ثَبَتَ" یا "حَصَلَ" کے ہوگا، اس وقت یہ خبر کا محتاج نہیں ہوتا۔ جیسے ہم کہتے ہیں "كَانَ الْقِتَالُ" تو اس کا مطلب یہ ہے یعنی "حَصَلَ الْقِتَالُ" یعنی جنگ شروع ہوگئی،  اب اس کو کسی خبر کی  ضرورت نہیں ہے۔

"کَانَ" زائدہ

اور ایک ہوتا ہے "كَانَ" زائدہ۔ "كَانَ" زائدہ کیا ہے؟ کہ "لَا يَتَغَيَّرُ بِإِسْقَاطِهَا مَعْنَى الْجُمْلَةِ" کہ اگر اس "كَانَ" کو ہٹا بھی لیا جائے تو جملے کے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثال اس کی ایک شاعر کا یہ شعر ہے۔ شاعر کیا کہتا ہے؟ شاعر یہ کہتا ہے کہ "جِيَادُ ابْنِي أَبِي بَكْرٍ تَسَامَى عَلَى كَانَ الْمُسَوَّمَةِ الْعِرَابِ"۔ اب ذرا توجہ کرنا۔ آگے بتاتے ہیں کیا کہتا ہے؟ "جِيَاد" کہتے ہیں تیز گھوڑے کو، "تَسَامَى" یعنی بلند ہونا، فوقیت رکھنا۔ "مُسَوَّمَة"، "مُسَوَّمَة" کہتے ہیں جن پر علامتیں نشانیاں لگائی گئی ہوں۔ "عِرَاب" یعنی عربی گھوڑے۔ یہ تو ہو گیا لفظی ترجمہ۔ اب شاعر کہتا ہے "جِيَادُ ابْنِي أَبِي بَكْرٍ" میرے بیٹے ابوبکر کے تیز رفتار گھوڑے "تَسَامَى" فوقیت رکھنے والے ہیں کن پر؟ "عَلَى كَانَ الْمُسَوَّمَةِ" ان پر کہ "الْمُسَوَّمَةِ" جو نشان زدہ ہیں جن پر نشانیاں لگائی گئی ہیں "الْعِرَابِ" عربی گھوڑے یعنی ان عربی نشان زدہ گھوڑوں پر فوقیت رکھتے ہیں میرے بیٹے ابوبکر کے تیز رفتار گھوڑے۔ ہمارا محل شاہد ہے یہاں پر "كَانَ الْمُسَوَّمَةِ" کہ اگر یہاں سے "كَانَ" کو ہٹا بھی دیا جائے اور ہم پڑھیں "عَلَى الْمُسَوَّمَةِ الْعِرَابِ" پھر بھی جملے کے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو اس کا مطلب ہے یہ "كَانَ"، "كَانَ" زائدہ ہے، زائدہ بایں معنی کہ یہ نہ بھی ہو تو بھی اس سے جملے کا معنی مختل نہیں ہوتا، معنی خراب نہیں ہوتا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹھیک ہے جی؟ تو افعال ناقصہ میں سے پہلا آ گیا "كَانَ"۔

5

باقی افعال کے معانی اور استعمال

"صار" کا معنی اور استعمال

دوسرا فرماتے ہیں وہ ہے "صار"۔ "صار" آتا ہے انتقال کے لئے۔ انتقال کیا؟ کسی بھی چیز کا یا اس کے اسم کا ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہو جانا، یہ ہوتا ہے انتقال۔ ٹھیک ہے جی؟ جیسے ہم کہتے ہیں "صارَ زيدٌ غَنِيًّا"، زید غنی ہوگیا یعنی گویا صفت فقر سے صفت غنا کے ساتھ میں منتقل ہوگیا یعنی اس کی طرف چلا گیا، اب اس کی وہ صفت باقی نہیں رہی، ایک صفت سے دوسری طرف کی طرف منتقل ہوگیا۔ ٹھیک ہے جی؟ یہ ہوگیا "صارَ"۔ "صارَ زيدٌ عالِمًا"، زید عالم ہوگیا۔ کیا مطلب؟ یعنی وہ صفت علم کی میں منتقل ہوگیا یعنی جہالت سے علم کی طرف چلا گیا۔ الی آخرہ۔

"اصبح"، "امسی"، اور "اضحی" کا معنی و استعمال

اس کے بعد فرماتے ہیں: افعال ناقصہ میں سے ہے "اصبح"، "امسی" اور "اضحی"، یہ تین "تَدُلُّ عَلَى اقْتِرَانِ مَضْمُوْنِ الْجُمْلَةِ بِتِلْكَ الْأَوْقَاتِ"۔ یعنی یہ تین اپنے مضمون جملہ کو ان مختلف اوقات کے ساتھ ملانے پر دلالت کرتے ہیں یعنی کیا؟ یہ بتاتے ہیں کہ یہ کام کس وقت میں ہوا؟  جیسے جملہ کون سا؟ وہ افعال ناقصہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں نا تو جملہ اسمیہ پر جو افعال ناقصہ داخل ہوتے ہیں وہ جو ان کا اسم اور خبر ہوں گے، یہ بتاتے ہیں کہ یہ جملہ کس وقت میں یہ کام ہوا، کس وقت میں یہ خبر اس اسم کے لئے ثابت ہوئی؟ "تَدُلُّ" یہ دلالت کرتے ہیں "عَلَى اقْتِرَانِ مَضْمُوْنِ الْجُمْلَةِ" کہ ان کا مضمون جملہ، مضمون جملہ وہی وہ جو اسم اور خبر ہوں گے آپس میں۔ فرماتے ہیں یہ ملے ہوئے ہیں کس وقت کے ساتھ؟ مثال: "أَصْبَحَ زَيْدٌ ذَاكِرًا"۔ مضمون جملہ ہے "زيدٌ ذاكرٌ"۔ تو اب یہ "اصبح" کیا بتاتا ہے؟ یہ بتاتا ہے "كانَ ذَاكِرًا" کہ زید ذاکر تھا، زید ذکر کرنے والا تھا "فِيْ وَقْتِ الصُّبْحِ" صبح کے وقت میں۔ یعنی "اصبح" نے یہ بتایا کہ یہ جو زید ذاکر تھا یہ کس وقت ذاکر تھا؟ تو اس نے اس مضمون جملہ کو اس کے وقت کے ساتھ ملایا ہے۔ اگر ہوتا مثلاً "أَمْسَى زيدٌ ذاكرًا" تو اس کا مطلب ہے زید ذاکر تھا، ذکر کرنے والا تھا شام میں۔ اگر ہوتا "أَضْحَى" تو اس کا مطلب ہے زید ذکر کرنے والا ہے دوپہر کے وقت میں،

"اصبح" کا دوسرا معنی

فرماتے ہیں:  "وَبِمَعْنَى صَارَ" اور "أَصْبَحَ" بمعنى "صارَ" بھی ہوتا ہے یعنی وہ انتقال والا معنی جو "صارَ" دیتا تھا یہ "أَصْبَحَ" کبھی اس کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "أَصْبَحَ زَيْدٌ غَنِيًّا"، اب یہاں "أَصْبَحَ" بمعنى "صارَ" کے ہوگا کہ زید یعنی وہ صفت غنا کے ساتھ موصوف ہوگیا۔

"اصبح"، "امسی"، اور "اضحی" کا تامہ ہونا

فرماتے ہیں: کبھی کبھی یہی "أَصْبَحَ" "بِمَعْنَى"، یہ تامہ بھی ہوتا ہے یعنی "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى"، "أَضْحَى" کہ یہ ہمیشہ ناقصہ نہیں ہوتے۔ بسا اوقات یہ تامہ بھی ہوتے ہیں، تامہ بھی ہوتے ہیں۔ تامہ ہونے کا مطلب پھر کیا ہوگا؟ یعنی اس کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ یہ پھر خبر کے محتاج نہ رہیں گے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "أَصْبَحَ" یعنی "دَخَلَ فِي الصَّبَاحِ" کہ وہ صبح میں داخل ہوا یا "أَمْسَى" یعنی وہ مساء یعنی  شام میں داخل ہوا یا "أَضْحَى" وہ ضحیٰ میں داخل ہوا۔ جب یہ تامہ ہوں گے اس وقت ان کو خبر کی ضرورت نہیں ہوگی، 

"ظلّ" اور "بات" کا معنی و استعمال

افعال ناقصہ میں سے اور ہیں "ظلَّ" اور "باتَ"۔ "ظلَّ" اور "باتَ" بھی "يَدُلَّانِ"، یہ دلالت کرتے ہیں "عَلَى اقْتِرَانِ مَضْمُوْنِ الْجُمْلَةِ" یہ بھی مضمون جملہ کو ملاتے ہیں اپنے اپنے وقتوں کے ساتھ۔ "ظلَّ زيدٌ كاتبًا"  یا "ظلَّ زيدٌ"، "يا باتَ زيدٌ"، "ظلَّ" ہوتا ہے دن گزارنا، "باتَ" ہوتا ہے رات گزارنا۔ ٹھیک ہے جی؟ "ظلَّ زيدٌ غَنِيًّا" زید نے دن گزارا لکھنے میں۔ "باتَ زيدٌ نائِمًا"، زید نے رات گزاری نیند میں کہ یہ جو زید کاتب تھا یا زید نائم تھا، زید لکھنے والا تھا یا زید سونے والا تھا، "ظلَّ" اور "باتَ" نے بتایا ہے کہ یہ جو مضمون جملہ تھا یعنی زید کی لکھائی یا زید کی نیند، یہ کس وقت میں ہوئی؟ "ظلَّ" یہ بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ دن میں تھا، "باتَ" یہ بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ رات میں تھا۔ 

"ظلّ" اور "بات" کا دوسرا معنی

آگے فرماتے ہیں۔ "وَبِمَعْنَى صَارَ" یہ "ظلَّ" اور "باتَ" بھی بمعنى "صارَ" کے ہوتے ہیں یعنی کبھی کبھی یہ بھی بمعنى جیسے ہم کہتے ہیں "ظلَّ زيدٌ غنيًّا" اب اس کا معنی یہ نہیں کرنا کہ زید نے دن گزارا غنی میں بلکہ اس کا معنی کریں گے زید غنی مالدار ہو گیا۔ یا "باتَ زيدٌ فقيرًا" اب "باتَ" کا معنی یہ نہیں کہ زید نے رات گزاری فقر میں نہیں بلکہ اس کا ترجمہ کریں گے زید فقیر ہو گیا۔

"ما زال"، "ما فتئ"، "ما برح"، اور "منفک"

فرماتے ہیں انہی افعال ناقصہ میں سے "ما زال"، "ما فتئ"، "ما برح"، اور "منفک"، یعنی یہ وہ چار افعال کہ جن کے ابتداء میں "ما" آتی ہے۔ "ما زال"، "ما فتئ"، "ما برح"، "منفک"۔ اب یہ ہو گئے چار۔ یہ چار کیا معنی دیتے ہیں؟ بالکل آسان آغا۔ فرماتے ہیں "تَدُلُّ عَلَى اسْتِمْرَارِ ثُبُوْتِ خَبَرِهَا مُذْ قَبِلَهُ"۔ یہ دلالت کرتے ہیں کس پر؟ کہ ان کی خبر ان کے اسم کے لئے ثابت ہے یعنی اپنی خبر ان کے فاعل کے لئے اسم کے لئے ثابت ہے "مُذْ قَبِلَهُ"، "قَبِلَهُ" "قَبْلَهُ" نہیں "مُذْ قَبِلَهُ" جب سے اس نے اسے قبول کیا ہے۔ ذرا توجہ رکھنی ہے آغا۔ "ما زال"، "ما فتئ"، "ما برح"، اور "منفک"۔  یہ کیا بتاتے ہیں؟ کہ ان کی خبر، یہ دلالت کرتے ہیں کہ ان کی خبر ان کے فاعل کے لئے یعنی اسم کے لئے ثابت ہے، جب سے اس اسم نے اس خبر کو قبول کیا ہے یعنی جب سے بس وہ اس کے لئے آیا ہے، یہ تب سے اس کے لئے یہ استمرار ثبوت یعنی باقاعدہ، باقاعدگی سے یعنی وہ خبر اس کے لئے ثابت ہے، چل رہی ہے، کہیں ختم درمیان میں نہیں ہوئی۔ جیسے ہم کہتے ہیں "ما زالَ زيدٌ اميرًا" یعنی جب سے زید نے امارت کو قبول کیا ہے، بس امارت زید کے لئے ثابت ہے، استمرارًا اور مسلسل یہ اس کے ساتھ آ رہی ہے۔  یہ اس کے ساتھ ثابت ہے۔ جب سے اس نے اس کے فاعل نے اس کو قبول کیا ہے۔  پس جیسے ہم کہیں "ما زالَ زيدٌ غنيًّا" یعنی جب سے زید نے مالداری کو قبول کیا بس وہ مالداری زید کی صفت ہے اور استمرار یعنی ہمیشہ کبھی درمیان میں ختم نہیں ہوئی۔ اب آپ اردو میں لکھیں تو اور آسان ہو جائے گا۔ کہ "ما زالَ"، "ما فتئ"، "ما برح"، اور "منفک" یہ وضع کیے گئے ہیں تاکہ دلالت کریں کس بات پر؟ کہ ان کی خبر ان کے اسموں کے لئے ثابت ہے مستمرًا ہمیشہ، جب سے ان کے اسم نے اس خبر کو قبول کیا ہے، 

"ما زال" وغیرہ کے لئے "ما" کا لازمی ہونا

"يَلْزَمُهَا حَرْفُ النَّفْيِ" لیکن ان کو ہمیشہ حرف نفی لازم ہے یعنی خالی "زالَ" نہیں پڑھنا بلکہ "ما زالَ"، "فتئ" نہیں پڑھنا بلکہ "ما فتئ"، "برح" نہیں بلکہ "ما برح"، "انفک" نہیں بلکہ "منفک" یعنی حرف نفی ان کو لازم ہے اس کے بغیر یہ نہیں ہوں گے۔ 

"ما دام"

افعال ناقصہ میں سے ایک اور فعل وہ ہے "ما دام"۔ یہ "ما دام" کیا کرتا ہے؟ "ما دامَ يَدُلُّ عَلَى تَوْقِيْتِ أَمْرٍ بِمُدَّةِ ثُبُوْتِ خَبَرِهَا لِفَاعِلِهَا"۔ توجہ کے ساتھ آغا۔ اس کا آسان ترجمہ میں یہ کروں گا۔ "ما دام" وہ فعل ہے جو دلالت کرتا ہے کہ یہ کام اس وقت تک ہے جب تک اس کی خبر اس کے فاعل کے لئے ثابت ہے۔ جب اس کی خبر فاعل کے لئے ثابت نہیں ہوگی، اس کے بعد فرماتے ہیں یہ بھی نہیں ہوگا یعنی کسی کام کی توقیت یعنی اس کے وقت کو معین کرتا ہے کہ یہ چیز کتنے وقت کے لئے ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اتنے وقت کے لئے جتنا وقت یہ خبر اس فاعل کے لئے ثابت ہوگی۔  جیسے "أَقُوْمُ ما دامَ الْأَمِيْرُ جَالِسًا"۔ میں کھڑا ہوں جب تک امیر بیٹھا ہے۔ اب "ما دام" بتا رہا ہے کہ "أَقُوْمُ" یعنی میرے کھڑے ہونے کا وقت کتنا ہے؟ اس کی مدت کتنی ہے؟ اس کی مدت وہ ہے جب تک جلوس امیر کے لئے، سردار کے لئے ثابت ہے۔ یعنی جب جلوس اس کے لئے نہیں ہوگا، جب وہ جالس نہیں ہوگا، وہ نہیں بیٹھا ہوگا، وہ سو جائے گا، وہ چلا جائے گا تو پھر میرا قیام بھی نہیں ہوگا۔ "أَقُوْمُ" یعنی میرے قیام کی مدت، عرصہ کتنا ہے؟ یہ "ما دام" اس کو بیان کر رہا ہے۔ 

6

ليس کا معنی اور اسکے بارے میں اقوال

فرماتے ہیں افعال ناقصہ میں سے ایک فعل ہے "لیس"۔ "يَدُلُّ عَلَى مَعْنَى نَفْيِ الْجُمْلَةِ حَالًا" یہ "لیس" دلالت کرتا ہے کہ جملہ کے معنی کی نفی کرتا ہے "حالًا" کہ ابھی ایسا نہیں ہے، ابھی ایسا نہیں ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "مطلقًا" کہ نہیں، یہ حال کے ساتھ خاص نہیں، مطلقاً یہ معنی جملہ کی نفی کرتا ہے۔ "وَقَدْ عَرَفْتَ بَقِيَّةَ أَحْكَامِهَا فِي الْقِسْمِ الْأَوَّلِ فَلَا نُعِيْدُهُ"۔ چونکہ میں نے بھی گزارش کیا ہے کہ یہ ساری باتیں ہم پہلے کر چکے ہیں، یہ بھی کہتے ہیں کہ اب اس کو دوبارہ ہم نہیں دہراتے، بہرحال بس اتنا ہے کہ ناقصہ جو زمانہ حال میں مضمون جملہ کی نفی کرتا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں "لیسَ زيدٌ ضارِبًا" یعنی زید ابھی مارنے والا نہیں ہے، بعض کہتے ہیں نہیں نہیں کہ "لیسَ" مطلقاً جملہ کی نفی کرتا ہے کہ "لیسَ زيدٌ ضارِبًا" کا معنی زید مارنے والا نہیں ہے یعنی نہ سابقہ زمانہ میں، نہ حال میں، نہ ہی استقبال میں۔ 

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

واحداً فقط فلا تكون حينئذٍ من أفعال القلوب.

فصل : الأفعال الناقصة

أفعال وضعت لتقرير الفاعل على صفة غير صفة مصدرها وهي : «كانَ ، وصارَ ، وأصْبَحَ ، وأمْسىٰ» الى آخره ، وتدخل على الجملة الاسميّة لإفادة نسبتها حكم معناها ، ترفع الأوّل وتنصب الثاني فتقول : كانَ زَيْدٌ قائِماً.

و «كان» تكون على ثلاثة أقسام :

ناقصة : وهي تدلّ على ثبوت خبرها لفاعلها في الماضي إمّا دائماً نحو : «كَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا» (١) أو منقطعاً نحو : كانَ زَيْدٌ شابّاً.

وتامّة : وهي بمعنى ثَبَتَ وحَصَلَ نحو : كانَ الْقِتالُ ، أي حصل القتال.

وزائدة : وهي لا يتغير به المعنى كقول الشاعر :

جِيادُ بني أبي بَكْرٍ تَسامىٰ

عَلىٰ كانَ الْمُسَوَّمَةِ الْعِرابِ (٢)

أي على المسوّمة.

و «صار» للانتقال نحو : صارَ زَيْدٌ غَنِيّاً.

و «أصبح» و «أمْسىٰ» و «أضْحىٰ» تدلّ على اقتران معنى الجملة بتلك الأوقات نحو : أصْبَحَ زَيْدٌ ذاكِراً ، أي كان ذاكراً في وقت الصبح ، وبمعنى دخل في الصباح.

وكذلك «ظَلَّ» و «باتَ» يدلّان على اقتران معنى الجملة بوقتها ، وبمعنى صار.

____________________________

(١) فتح : ٤.

(٢) يعنى : اسبهاى نجيب پسران أبى بكر بلندى دارند بر اسبهاى داغدار عربى ، شاهد در وقوع «كان» است زايدة در ميان جار ومجرور كه «على المسوّمة» باشد بر سبيل ندرت. (جامع الشواهد).

و «ما زالَ» و «ما بَرَحَ» و «ما فَتئَ» و «ما انْفكَّ» تدلّ على ثبوت خبرها لفاعلها نحو : ما زالَ زَيْدٌ أميراً ، ويلزمها حرف النفي.

و «ما دام» تدلّ على توقيت أمر بمدّة ثبوت خبرها لفاعلها نحو : أقُومُ ما دامَ الأميرُ جالِساً ، و «لَيْسَ» تدلّ على نفي معنى الجملة حالاً ، وقيل مطلقاً نحو : لَيْسَ زَيْدٌ قائِماً. وقد عرفت بقيّة أحكامها في القسم الأوّل فلا نعيدها.

فصل : أفعال المقاربة

أفعال وضعت للدلالة على دنوّ الخبر لفاعلها. وهي على ثلاثة أقسام :

الأوّل : للرجاء وهو : «عَسىٰ» ، فعل جامد ولا يستعمل منه غير الماضي وهو في العمل مثل كان نحو : عَسىٰ زَيْدٌ أنْ يَقُومَ ، إلّا أنّ خبره فعل المضارع مع «أنْ» نحو : عَسىٰ زَيْدٌ أنْ يَخْرُجَ ، ويجوز تقديمه نحو : عَسىٰ أنْ يَخْرُجَ زَيْدٌ ، وقد يحذف أنْ نحو : عَسىٰ زَيْدٌ يَقُومُ.

والثاني : للحصول وهو : «كادَ» ، وخبره مضارع دون «أنْ» نحو : كادَ زَيْدٌ يَقُومُ. وقد تدخل «أنْ» نحو : كادَ زَيْدٌ أنْ يَخْرُجَ.

والثالث : للأخذ والشروع في الفعل وهو : «طَفِقَ» و «جَعَلَ» و «كَرَبَ» و «أخَذَ» ، واستعمالها مثل كادَ نحو : طَفِقَ زَيْدٌ يَكْتُبُ ، إلى آخره. و «أوْشَكَ» ، واستعماله نحو عَسىٰ وكاد.

فصل : فعل التعجّب

وهو ما وضع لإنشاء التعجّب وله صيغتان :

«ما أفْعَلَهُ» ، نحو : ما أحْسَنَ زَيْداً أي أيّ شيء أحسنَ زيداً ؟ وفي أحسَنَ ضمير وهو فاعله.

«وأفْعِلْ بِه» نحو : أحْسِنْ بِزَيْدٍ.