درس الهدایة في النحو

درس نمبر 51: افعال قلوب کے بارے میں

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

افعال قلوب کی تعریف،تعداد اور عمل

قسم ثانی:  اب فرماتے ہیں: کچھ افعال کو افعال القلوب کہا جاتا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہوگا کہ ان افعال کو افعال قلوب کہا کیوں جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہوگا چونکہ یہ اپنے فاعل سے صادر ہونے کے لئے ان اعضائے ظاہریہ کے محتاج نہیں ہوتے کہ ہاتھ کے، زبان کے، پاؤں کے، نہیں بلکہ چونکہ یہ قوائے باطنیہ یعنی ان کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے، دل اور  دماغ جس کو ہم کہتے ہیں جیسے ان کے معانی سے بھی ظاہر ہے، اس لئے ان کو افعال قلوب کہتے ہیں۔

 افعال قلوب کی تعداد اور ان کے نام

افعال قلوب کتنے ہیں؟  ۱۔"ظَنَنْتُ" ۲۔"حَسِبْتُ" ۳۔"عَلِمْتُ"۴۔ "رَأَيْتُ" ۵۔"وَجَدْتُ"۶۔ "خِلْتُ"۷۔ "زَعَمْتُ"

 صیغہ متکلم کے استعمال کی وجہ

یہاں ایک سوال بنتا ہے چھوٹا سا کہ یہ آپ نے "ظَنَنْتُ"، "حَسِبْتُ"، سب کو یہ آپ نے ماضی متکلم والا جو صیغہ استعمال کیا ہے، آپ نے "ظَنَّ"، "حَسِبَ"، "عَلِمَ"، "رَأَى" وہ کیوں نہیں کہا بلکہ کہا ہے "ظَنَنْتُ"، "حَسِبْتُ"، "عَلِمْتُ" وغیرہ۔ اب یہ تو سارے ماضی معلوم کے واحد متکلم کے صیغے ہیں تو ممکن ہے جواب میں یہی کہا جائے گا چونکہ یہ ہیں افعال قلوب اور ہر بندہ اپنے فعل قلبی سے خود خود زیادہ بہتر واقف ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا کیا ہے، تو اس لئے ہم نے اس کو متکلم کے ساتھ تعبیر کیا یعنی ماضی کے صیغہ ماضی متکلم کے ذکر کیے۔

 افعال قلوب کا عمل

 فرماتے ہیں: یہ افعال قلوب مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں اور یہ ان دونوں کو یعنی مبتدا اور خبر، اگر یہ نہ ہوتے تو وہ آپس میں مبتدا اور خبر ہونے تھے۔ اب جب یہ اس پر داخل ہوتے ہیں تو دونوں کو یہ نصب دیتے ہیں بنا بر مفعولیت کے۔ مثلاً جملہ ہے "زَيْدٌ عَالِمٌ"۔ "زَيْدٌ" مبتدا ہے، "عَالِمٌ" اس کی خبر ہے لیکن جب اس پر افعال قلوب سے کوئی آجائے گا تو اب ان کو پڑھنا پڑے گا "عَلِمْتُ زَيْدًا عَالِمًا"۔ اب "زَيْدًا" پر بھی نفع ہے، نصب ہے، "عَالِمًا" پر بھی نصب ہے، چونکہ یہ دونوں "عَلِمْتُ" کے مفعول ہو   گئے۔

4

خصوصیات افعال قلوب

آگے فرماتے ہیں: ان افعال قلوب کے کچھ خواص اور خصوصیات ہیں۔ خواص جمع ہوتا ہے خاصہ کا۔ خاصہ کہتے ہیں : "مَا يُوْجَدُ فِيْهِ وَلَا يُوْجَدُ فِيْ غَيْرِهِ"۔ خاصہ یعنی وہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو اس چیز میں پائی جاتی ہو، جو خصوصیت وہ کسی اور میں نہ پائی جاتی ہو۔ یعنی جب ہم یہ لفظ کہیں فلاں بندے کی یہ خصوصیت ہے، خاصہ ہے تو خاصے کا مطلب کیا ہوگا؟ کہ وہ فقط اسی میں پایا جاتا ہے کسی اور میں نہیں۔ خاصہ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جو اس میں پایا جائے اور غیر میں نہ پایا جائے، اس کو کہتے ہیں خاصہ اور پھر اس کی جمع ہوتی ہے خواص۔ اب یہاں پر انشاءاللہ کچھ ان افعال قلوب کے کچھ خواص ہیں، غالباً تین یا چار جن کو یہاں ذکر فرما رہے ہیں۔

 پہلا خاصہ:

افعال قلوب کے خواص میں سے ایک خاصہ، ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ایک مفعول پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے یعنی افعال قلوب کے ایک مفعول کو ذکر کریں اور دوسرے کو ذکر نہ کریں، یہ جائز نہیں ہے۔ حالانکہ باب "اَعْطیٰ" میں جائز تھا کہ ایک کو ذکر کریں، ایک کو ذکر نہ کریں لیکن افعال قلوب میں یہ جائز نہیں ہے۔ 

دوسرا خاصہ: 

 اگر یہ افعال قلوب اس مبتدا اور خبر کے درمیان میں آجائیں تو ان کا الغاء جائز ہے۔ الغاء کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کے عمل کو باطل کر دینا، لفظاً بھی اور معنىً بھی۔ کیا مطلب؟ یعنی ہم نہ اس کی مبتدا کو نصب دیں، نہ اس کی خبر کو۔ یہ الغاء جائز ہے۔  اسی طرح اگر یہ افعال قلوب مبتدا اور خبر کے بعد آجائیں یا تو بھی جائز ہے۔ یعنی کیا؟ یعنی اگر یہ افعال قلوب اپنے ان معمول دو اسموں کے یعنی مبتدا اور خبر کے درمیان میں آجائیں یا ان دونوں کے بعد آجائیں تو ان کو ملغیٰ کرنا یعنی ان کے عمل کو باطل کر دینا، ان کے عمل کو روک دینا، لفظاً یہ کوئی عمل نہ کریں، معنىً یہ جائز ہے، جائز ہے، واجب نہیں، جائز ہے۔

 تیسرا خاصہ: تعلیق

دو خصوصیات ہو گئیں،  تیسری کیا ہے؟ فرماتے ہیں تیسری یہ ہے کہ یہ افعال قلوب، توجہ کے ساتھ، اگر استفہام، نفی یا لام ابتداء سے پہلے آجائیں۔ کیا مطلب؟ یعنی افعال قلوب کے بعد کوئی حرف نفی آجائے یا حرف استفہام آجائے یا لام ابتداء آجائے، وہاں پر بھی ان کے عمل کو ملغیٰ کرنا جائز ہے، جائز ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ کیا مطلب؟ یعنی ان کو کوئی اعراب لفظاً اور جیسے "عَلِمْتُ مَا زَيْدٌ فِي الدَّارِ" یا "عَلِمْتُ أَزَيْدٌ" الی آخرہ۔

 چوتھا خاصہ: 

 چوتھی خصوصیت اس میں یہ ہے  یہ بھی جائز ہے کہ ان افعال قلوب کے ساتھ فاعل کی ضمیر متصل بھی ہو اور مفعول کی ضمیر متصل بھی ہو۔ خصوصیت کیا ہے آخری؟ وہ یہ ہے کہ اس کا فاعل اور مفعول دو ضمیریں ہوں ایک ہی شئ کے لئے۔  اب آگے ذرا وضاحت کرتا ہوں کہ فاعل اور مفعول دونوں ضمیر متصل ایک شئ کے لئے ہوں یعنی متکلم کے لئے یا مخاطب کے لئے یا غائب کے لئے یعنی کیا؟ کہ فاعل کی ضمیر بھی اسی کے لئے اور مفعول کی ضمیر بھی اسی کے لئے۔ مثال: "عَلِمْتُنِيْ مُنْطَلِقًا"۔ "عَلِمْتُ"، "تُ" فاعل کی ضمیر متصل، "نِيْ" مفعول کی ضمیر متصل اور یہ دونوں ضمیریں، ایک فاعل کی ضمیر متصل ہے، ایک مفعول کی ضمیر متصل ہے "تُ" اور "نِيْ" لیکن ہیں ایک ہی شئ کے لئے یعنی کیا؟ اسی متکلم کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ جبکہ دیگر افعال میں یہ خصوصیت نہیں ہے کہ وہاں فاعل اور مفعول کی ضمیر متصل ایک ہی شئ کے لئے ہو، یہ خاصہ فقط افعال قلوب کا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ 

افعال قلوب کا تعارف اور ان کی تعداد

فرما تے ہیں "فَصْلٌ أَفْعَالُ الْقُلُوْبِ" افعال قلوب۔ "عَلِمْتُ"، "ظَنَنْتُ"، "حَسِبْتُ"، "خِلْتُ"، "رَأَيْتُ"، "وَجَدْتُ"، اور "زَعَمْتُ" یہ کتنے ہوگئے؟ سات۔ یعنی ہم کہیں گے افعال قلوب سات ہیں۔ ان افعال کو افعال قلوب کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بھی گزارش کر دی، ان افعال کو ماضی کے ساتھ کیوں تعبیر کیا ہے؟ "عَلِمْتُ"، میں نے جانا۔ "ظَنَنْتُ"، میں نے خیال کیا، یہ سارے ماضی، فعل ماضی واحد متکلم کے صیغے ہیں، اس کا جواب بھی دے دیا کیوں کہا گیا۔

 افعال قلوب کا عمل

"هِيَ أَفْعَالٌ تَدْخُلُ عَلَى الْمُبْتَدَأِ وَالْخَبَرِ فَتَنْصِبُهُمَا عَلَى الْمَفْعُوْلِيَّةِ"۔ اور مفعولیت کی بنیاد پر دونوں کو نصب دیتے ہیں۔ یعنی ان افعال کے داخل ہونے سے پہلے وہ دو اسم تھے۔ اب ذرا توجہ کرنا ہے، یعنی کیا؟ گویا یہ داخل ہوتے ہیں دو اسموں پر، وہ اسم آپس میں مبتدا اور خبر تھے، جب یہ افعال قلوب ان پر داخل ہو جائیں گے تو وہ دونوں اسم مبتدا اور خبر ان کے مفعول بن جائیں گے اور یہ ان کو نصب دیں گے، جیسے "زَيْدٌ عَالِمٌ"، "زَيْدٌ" مبتدا، "عَالِمٌ" خبر، "زَيْدٌ" بھی اسم، "عَالِمٌ" بھی اسم۔ لیکن جب اس پر افعال قلوب میں سے فعل آ گیا، اب یہ دونوں مفعول بن جائیں گے اور ان کو نصب دے گا وہی فعل قلبی یعنی "عَلِمْتُ زَيْدًا عَالِمًا"۔ "عَلِمْتُ" میں نے جانا کہ زید عالم ہے۔ پس پہلا مفعول ہوگیا زید اور دوسرا ہوگیا عالم۔ جو مبتدا خبر تھے اب دونوں ان کے مفعول ہو   گئے۔

5

الغا و تعلیق کی بحث اور تنبیہ

"وَاعْلَمْ أَنَّ لِهَذِهِ الْأَفْعَالِ خَوَاصٌّ" فرماتے ہیں: ان افعال قلوب کی کچھ خصوصیات ہیں، خواص جیسے میں نے گزارش کیا جمع ہے خاصۃٌ کی، خاصہ کہتے ہیں "مَا يُوْجَدُ فِيْهِ وَلَا يُوْجَدُ فِيْ غَيْرِهِ" کہ فلاں چیز فلاں شے کا خاصہ ہے یعنی اس شے کے علاوہ وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔ ان افعال کے خواص کیا ہیں؟ تقریباً چار پانچ ذکر کر رہے ہیں۔

 پہلا خاصہ،  فرماتے ہیں افعال قلوب کا پہلا خاصہ یہ ہے۔ "أَنْ لَا تُقْتَصَرَ عَلَى أَحَدِ مَفْعُوْلَيْهَا" کہ ان کو چاہیے ہوتے ہیں دو مفعول یعنی وہ مبتدا اور خبر جو ان کے مفعول بن رہے ہوتے ہیں۔ کسی ایک مفعول پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے۔ کیا؟ کہ ہم ایک مفعول کو ذکر کریں اور دوسرے کو نہ کریں، نہ، افعال قلوب کے دونوں مفعولوں کو ذکر کرنا لازم ہے فقط ایک پر اقتصار جائز نہیں ہے۔ "بِخِلَافِ بَابِ أَعْطَيْتُ" جبکہ اَعطَیتُ میں ہم نے کہا تھا کہ وہاں اَعطَیتُ کے دو مفعولوں میں سے ایک کو اگر حذف کر دیں اور ایک کو باقی رکھیں تو بھی جائز ہے لیکن افعال قلوب میں یہ جائز نہیں۔ حالانکہ اَعطَیتُ بھی دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے اور یہ بھی دو مفعولوں کی طرف متعدی ہیں لیکن وہاں اعطا، اس کے دو مفعولوں میں سے ایک پر اکتفا جائز تھا، باب افعال قلوب کے ایک مفعول پر اکتفا جائز نہیں ہے۔ لہذا "عَلِمْتُ زَيْدًا" یا "عَلِمْتُ فَاضِلًا" کہنا جائز نہیں ہے بلکہ پورا جملہ کہنا ہوگا "عَلِمْتُ زَيْدًا فَاضِلًا" دونوں مفعولوں کو ذکر کرنا ہوگا۔ 

افعال قلوب کا دوسرا خاصہ۔ "جَوَازُ الْإِلْغَاءِ" یعنی ان کو عمل سے ملغیٰ کر دینا، ان کو عمل سے روک دینا، نہ یہ لفظاً عمل کریں یعنی نہ ان اسماء کو مبتدا اور خبر کو نصب دیں اور نہ وہ معنىً ان کے مفعول بنیں۔ الغاء جائز ہے۔ کب جائز ہے؟ توجہ کے ساتھ۔ یہ ہو گیا پہلا الغاء جائز ہے۔ نمبر ایک "إِذَا تَوَسَّطَتْ" اگر افعال قلوب دو اسموں کے درمیان میں آجائیں تو بھی ان کو عمل سے باطل کر دینا، ان کو روک دینا جائز ہے۔ جیسے "زَيْدٌ ظَنَنْتُ قَائِمٌ"۔ یہاں ظننت نے کوئی عمل نہیں کیا، نہ زید کو نصب دیا، نہ قائم کو اور نہ اس کے مفعول بنے۔ کیوں؟ چونکہ یہ درمیان میں آ گیا۔ لہذا جائز ہے۔ اسی طرح "أَوْ تَأَخَّرَتْ" یا افعال قلوب دونوں اسموں کے بعد آئیں جیسے "زَيْدٌ قَائِمٌ ظَنَنْتُ" اب زید اور قائم یہ دونوں نہ اس کے مفعول ہیں اور نہ ظَنَنتُ نے ان کو نصب دیا ہے۔ یہ ہے جائز ہے کہ ہم نے یہاں ان کو عمل سے ملغیٰ کر دیا ہے، ان کے عمل کو باطل کر دیا ہے۔اسی طرح فرماتے ہیں۔ "وَمِنْهَا" ایک تیسری خصوصیت، وہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ وہ کیا ہے؟ کہ "أَنَّهَا تُعَلَّقُ إِذَا وَقَعَتْ قَبْلَ الْاِسْتِفْهَامِ"  کیا مطلب؟ کہ یہ افعال قلوب معلق کر دیے جاتے ہیں یعنی ان افعال قلوب کو اسی طرح افعال معلق، معلق کا معنی کیا ہے؟ کہ ان کا عمل لفظاً باطل ہوتا ہے، البتہ معنىً باطل نہیں ہوتا۔ بہت توجہ آغا۔ پس اوپر ہم نے ایک لفظ پڑھا الغاء۔ الغاء کا مطلب ہے کہ نہ یہ لفظاً عمل کریں گے نہ معنىً۔ اور یہاں ہم نے آیا کہ ان کو معلق کر دیا جاتا ہے۔ تو تعلیق کا معنی یہ ہوگا کہ لفظاً تو ان کا عمل باطل ہوگا لیکن معنىً باطل نہیں ہوگا۔ یہ فرق ہے۔ تو پس تیسری خصوصیت، تیسرا خاصہ ان باب، ان افعال قلوب کا یہ ہے کہ "أَنَّهَا تُعَلَّقُ" کہ ان کو معلق، اب ملغیٰ نہیں، معلق کر دیا جاتا ہے۔ کب؟ "إِذَا وَقَعَتْ قَبْلَ الْاِسْتِفْهَامِ" اگر یہ حرف استفہام سے پہلے آجائیں جیسے "عَلِمْتُ أَزَيْدٌ عِنْدَكَ" اب یہاں پر لفظاً عَلِمتُ نے کسی کو نصب نہیں دیا لیکن معنىً یہ جملہ بہرحال ان کا مفعول ہوگا، معنىً باطل نہیں ہے۔ "عَلِمْتُ أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو؟" معنىً یہ مفعول ہے لفظاً نہیں ہے۔"وَقَبْلَ النَّفْيِ" یا یہ افعال قلوب حرف نفی سے پہلے آجائیں۔ جیسے "عَلِمْتُ مَا زَيْدٌ فِي الدَّارِ" اب علمت نے لفظاً کوئی عمل نہیں کیا چونکہ ما سے پہلے آگیا ہے، البتہ معنىً یہ اب بھی اس کا مفعول رہے گا۔ "وَقَبْلَ لَامِ الْاِبْتِدَاءِ" اور لامِ ابتدا، اور یہ افعال اگر لامِ ابتدا سے پہلے آجائیں تو بھی یہ اپنے عمل سے کیا ہوتے ہیں؟ معلق ہو جاتے ہیں۔ جیسے "عَلِمْتُ لَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ اب یہاں پر علمت نے "زَيْدٌ مُنْطَلِقٌ" کو ظاہرًا، لفظًا کوئی عمل نہیں کیا، معلق ہیں لیکن بہرحال وہ ان کا مفعول معنىً رہے گا۔

 چوتھی خاصیت یہ ہے کہ "يَجُوْزُ أَنْ يَكُوْنَ فَاعِلُهَا وَمَفْعُوْلُهَا ضَمِيْرَيْنِ لِشَيْءٍ وَاحِدٍ"۔ کہ ان افعال قلوب میں فاعل اور مفعول کی مفعول کی ضمیر ایک ہی شے کے لیے ہو۔ میں نے آپ کو اس کا آسان ترجمہ دوسرے انداز میں سمجھایا کہ یہ جائز ہے کہ افعال قلوب کے ساتھ فاعل کی ضمیر متصل بھی ہو، مفعول متصل کی ضمیر بھی ہو اور یہ دونوں ضمیر متصل جو فاعل اور مفعول کی ہیں یہ ہوں ایک ہی شئ کے لئے، وہ ممکن ہے متکلم کے لئے ہوں، ممکن ہے حاضر و خطاب کے لئے ہوں، ممکن ہے غائب کے لئے ہوں۔ جیسے "عَلِمْتُنِيْ مُنْطَلِقًا"۔ اب "عَلِمْتُ" میں "تُ" یہ بھی فاعل کی ضمیر متصل ہے اور "نِي" اور یہ بھی کیا ہے؟ مفعول کی ضمیر متصل ہے۔ لیکن یہ دونوں، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں کہاں جا رہی ہیں؟ دونوں ہیں کس کے لئے؟ یہ دونوں ہیں اسی متکلم کے لئے۔ ٹھیک ہے جی؟ اسی طرح فرماتے ہیں ایک اور ہے "ظَنَنْتُكَ فَاضِلًا"۔ خب۔ جبکہ "ضَرَبْتُنِيْ" یہ کہنا جائز نہیں ہے۔ "عَلِمْتُنِيْ مُنْطَلِقًا"، فاعل اور مفعول دونوں کی ضمیر متصل دونوں متکلم کی طرف جا رہی ہیں جبکہ "ضَرَبْتُنِيْ" کہنا جائز نہیں ہے۔  بلکہ اس کے لئے علیحدہ کرنا پڑتا ہے "ضَرَبْتُ نَفْسِيْ"۔ 

 تنبیہ: افعال قلوب کا ایک مفعول لینا

آگے فرماتے ہیں: ایک تنبیہ ہے جو ان افعال قلوب سے متعلق ہے اور اس کے بعد پھر اگلی فصل علیحدہ ہے۔  تنبیہ  یہ ہے کہ "قَدْ يَكُوْنُ ظَنَنْتُ بِمَعْنَى اِتَّهَمْتُ وَعَلِمْتُ بِمَعْنَى عَرَفْتُ وَرَأَيْتُ بِمَعْنَى أَبْصَرْتُ وَوَجَدْتُ بِمَعْنَى أَصَبْتُ"۔ یہ تو ہو گئی عبارت، اب اس کو سمجھنا یوں ہے یعنی کبھی کبھار یہی افعال، توجہ کے ساتھ، یہ جو افعال، افعال قلوب ہیں، یہ افعال کسی اور فعل کا معنی دیتے ہیں۔ جب اور فعل کا معنی دیتے ہیں تو اس وقت یہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتے ہیں، دو مفعولوں کی طرف متعدی نہیں ہوتے۔ ہوتا یہی فعل ہے یعنی لفظاً یہی ہوگا لیکن اس وقت معنی کسی اور فعل کا دے رہا ہوگا۔ جب یہ اور فعل کا معنی دے رہا ہوتا ہے تو اس وقت یہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ اور جب ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتے ہیں تو یہ بھی پھر یقینی بات ہے کہ اس وقت یہ افعال قلوب میں شمار نہیں ہوں گے، کیوں؟ اس لئے کہ افعال قلوب دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، افعال قلوب مبتدا اور خبر دو کو نصب دیتے ہیں بنا بر مفعولیت کے۔ لیکن اگر ان کے بعد فقط ایک آئے گا تو اس کا مطلب ہے کہ اب یہ یہاں افعال قلوب میں سے نہیں ہیں۔ ذرا غور فرمائیں۔ فرماتے ہیں نوٹ۔ "وَاعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ يَكُوْنُ ظَنَنْتُ بِمَعْنَى اِتَّهَمْتُ" کبھی "ظَنَنْتُ" بمعنى "اِتَّهَمْتُ" کے ہوتا ہے، "اِتَّهَمْتُ" یعنی تہمت لگانا۔ "عَلِمْتُ" بمعنى "عَرَفْتُ" کے ہوتا ہے، پہچاننا۔ "رَأَيْتُ" بمعنى "أَبْصَرْتُ" کے ہوتا ہے یعنی دیکھنا۔ "وَجَدْتُ" بمعنى "أَصَبْتُ" کے ہوتا ہے، "أَصَبْتُ" یعنی پانا، جیسے "أَصَبْتُ ضَالَّةً"۔ پس جب یہ افعال یعنی جب "ظَنَنْتُ" بمعنى "اِتَّهَمْتُ" کے، "عَلِمْتُ" بمعنى "عَرَفْتُ" کے، "رَأَيْتُ" بمعنى "أَبْصَرْتُ" کے، "وَجَدْتُ" بمعنى "أَصَبْتُ" کے ہوگا "فَتَنْصِبُ مَفْعُوْلًا وَاحِدًا" تو اس وقت یہ فقط ایک مفعول کو نصب دیں گے، دو کو نہیں۔ جب ایک مفعول کو یہ نصب دیں گے "فَلَا تَكُوْنُ حِيْنَئِذٍ مِنْ أَفْعَالِ الْقُلُوْبِ" اس وقت یہ افعال قلوب میں سے بھی شمار نہیں ہوں گے، کیوں؟ چونکہ اس وقت تو یہ متعدی بیک مفعول ہوں گے، فقط ایک مفعول کو نصب دے رہے ہوں گے جبکہ افعال قلوب ایک نہیں بلکہ وہ تو دو اسموں پر مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں اور مبتدا اور خبر پر داخل ہو کر دونوں کو اپنا مفعول بناتے ہیں اور پھر دونوں کو نصب دیتے ہیں۔ تو جب یہ ان الفاظ کے معنی میں آئیں گے، فرماتے ہیں جیسے "ظَنَنْتُ" بمعنى "اِتَّهَمْتُ"، "اِتَّهَمْتُ" کا معنی کیا ہوتا ہے؟ تہمت لگانا۔ تو اب میں کہہ سکتا ہوں "اِتَّهَمْتُ زَيْدًا"، میں نے زید پر تہمت لگائی۔ اب کسی دوسرے مفعول کی ضرورت نہیں ہے۔ "وَجَدْتُ" بمعنى "أَصَبْتُ"، مثلاً میں کہتا ہوں "أَصَبْتُ ضَالَّةً"، میں نے گم شدہ چیز کو پا لیا۔ اب یہاں پر "ضَالَّةً" ایک مفعول ہے۔ ٹھیک ہے۔ یہاں تک بحث تھی افعال قلوب کی، اگلی فصل ان شاءاللہ افعال ناقصہ کے بارے میں ہے۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

مفعوليه ك‍ : أعْطَيْتُ زَيْداً ، وأعْطَيْتُ دِرْهَماً ، بخلاف باب عَلِمْتُ ؛ وإلى ثلاثة مفاعيل نحو : أعْلَمَ اللهُ زَيْداً عَمْراً فاضِلاً ، ومنه أرىٰ ، وأنْبَأَ ونَبَّأَ ، وأخْبَرَ ، وخَبَّرَ ، وحَدَّثَ. وهذه الأفعال السبعة مفعولها الأوّل مع الأخيرين كمفعولي أعْطَيْتُ في جواز الاقتصار على أحدهما نحو : أعْلَمَ اللهُ زَيْداً ، والثاني مع الثالث كمفعولي عَلِمْتُ في عدم جواز الاقتصار على أحدهما فلا يقال : أعْلَمْتُ زَيْداً خَيْرَ الناسِ ، بل يقال : أعْلَمْتُ زَيْداً عَمْراً خَيْرَ الناسِ.

فصل : افعال القلوب

وهي سبعة : «عَلِمْتُ ، وظَنَنْتُ ، وحَسِبْتُ ، وخِلْتُ ، ورَأَيْتُ ، وزَعَمْتُ ، ووَجَدْتُ» ، وهي تدخل على المبتدأ والخبر فتنصبهما على المفعوليّة نحو : عَلِمْتُ زَيْداً فاضِلاً ، وظَنَنْتُ عَمْراً عالِماً.

واعلم أنّ لهذه الأفعال خواصّ ، منها : أن لا يقتصر على أحد مفعوليها بخلاف باب أعْطَيْتُ ، فلا تقول : عَلِمْتُ زَيْداً ، ومنها : جواز إلغائها إذا توسّطت نحو : زَيْدٌ ظَنَنْتُ عالِمٌ ، أو تأخّرت نحو : زَيْدٌ قائِمٌ ظَنَنْتُ ، ومنها : إنّها تُعَلَّقُ إذا وقعت قبل الاستفهام نحو : عَلِمْتُ أزَيْدٌ عنْدَك أم عَمْروٌ ، وقبل النفي نحو : عَلِمْتُ ما زَيْدٌ فِي الدار ، وقبل لام الابتداء نحو : عَلِمْتُ لَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ ، فهي في هذه المواضع لا تعمل ، لفظاً وتعمل معنىً ولذلك سمّي تعليقاً.

ومنها : إنّه يجوز أن يكون فاعلها ومفعولها ضميرين متّصلين من الشيء الواحد نحو : عَلِمْتُني مُنْطَلِقاً ، وظَنَنْتكَ فاضِلاً.

واعلم أنّه قد يكون ظَنَنْتُ بمعنى اتَّهَمْتُ ، وعَلِمْتُ بمعنى عَرَفْتُ ، ورَأَيْتُ بمعنى أبْصَرْتُ ، ووَجَدْتُ بمعنى أصَبْتُ الضالَّة ، فتنصب مفعولاً

واحداً فقط فلا تكون حينئذٍ من أفعال القلوب.

فصل : الأفعال الناقصة

أفعال وضعت لتقرير الفاعل على صفة غير صفة مصدرها وهي : «كانَ ، وصارَ ، وأصْبَحَ ، وأمْسىٰ» الى آخره ، وتدخل على الجملة الاسميّة لإفادة نسبتها حكم معناها ، ترفع الأوّل وتنصب الثاني فتقول : كانَ زَيْدٌ قائِماً.

و «كان» تكون على ثلاثة أقسام :

ناقصة : وهي تدلّ على ثبوت خبرها لفاعلها في الماضي إمّا دائماً نحو : «كَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا» (١) أو منقطعاً نحو : كانَ زَيْدٌ شابّاً.

وتامّة : وهي بمعنى ثَبَتَ وحَصَلَ نحو : كانَ الْقِتالُ ، أي حصل القتال.

وزائدة : وهي لا يتغير به المعنى كقول الشاعر :

جِيادُ بني أبي بَكْرٍ تَسامىٰ

عَلىٰ كانَ الْمُسَوَّمَةِ الْعِرابِ (٢)

أي على المسوّمة.

و «صار» للانتقال نحو : صارَ زَيْدٌ غَنِيّاً.

و «أصبح» و «أمْسىٰ» و «أضْحىٰ» تدلّ على اقتران معنى الجملة بتلك الأوقات نحو : أصْبَحَ زَيْدٌ ذاكِراً ، أي كان ذاكراً في وقت الصبح ، وبمعنى دخل في الصباح.

وكذلك «ظَلَّ» و «باتَ» يدلّان على اقتران معنى الجملة بوقتها ، وبمعنى صار.

____________________________

(١) فتح : ٤.

(٢) يعنى : اسبهاى نجيب پسران أبى بكر بلندى دارند بر اسبهاى داغدار عربى ، شاهد در وقوع «كان» است زايدة در ميان جار ومجرور كه «على المسوّمة» باشد بر سبيل ندرت. (جامع الشواهد).