درس الهدایة في النحو

درس نمبر 50: فعل لازم و متعدی کے بارے میں

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل لازم و متعدی با مثالیں

 "الفعل إمّا متعدٍّ  وإمّا لازم "

کتاب ہدایۃ النحو کی قسمِ ثانی چل رہی ہے اور وہ ہے فعل کے بارے میں۔ فعل کی بہت ساری باتیں ہو گئیں کہ فعل ماضی بھی ہوتا ہے، فعل مضارع بھی ہوتا ہے، فعل امر بھی ہوتا ہے، معلوم بھی ہوتا ہے، مجہول بھی ہوتا ہے۔ وہ ابحاث الحمدللہ مکمل ہو گئی۔ معلوم ہو، مجہول، ثلاثی مجرد میں ہو تو کیسے ہوگا؟ مزید فیہ وغیرہ میں ہو تو کیسے ہوگا؟ یہ بحثیں ہو گئیں۔

آج فعل کی ایک اور تقسیم فرما رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ جو فعل ہوتا ہے، کوئی بھی فعل ہو، وہ فعل یا لازم ہوگا یا متعدی۔ ان سے ہٹ کر کوئی تیسری قسم نہیں ہوگی۔ جو بھی فعل ہوگا عربی میں وہ یا لازم ہوگا یا متعدی۔

لازم اور متعدی کی تعریف

 فرماتے ہیں: لازم فعل، ظاہر ہے اس فعل قائم بالغیر ہوتا ہے، کسی نے اس فعل کو انجام دینا ہوتا ہے تب فعل کو وجود ملتا ہے۔ فرماتے ہیں فعل متعدی وہ ہے کہ جس کا سمجھنا فاعل کے علاوہ کسی اور پر موقوف ہو یعنی فقط فاعل کو ذکر کرنے سے یا فعل کے بعد فاعل کے آنے سے معنی تام نہیں ہوتا جب تک فاعل کے علاوہ کسی اور چیز کو ذکر نہ کیا جائے۔ جبکہ اس کے مقابل میں لازم، لازم وہ ہوتا ہے کہ نہ، جس کا جو فاعل پر تام ہوجاتا ہے۔ کہ اگر اس کے بعد فاعل کو ذکر کیا جائے تو بس اسی سے معنی سمجھ میں آجاتا ہے، اس کے لیے فاعل سے ہٹ کر مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

 لازم اور متعدی کی مثالیں

 مثلاً ایک فعل ہے "ضَرَبَ"، ایک فعل ہے "قَامَ"۔ ہم کہتے ہیں "ضَرَبَ" متعدی ہے، "قَامَ" لازم ہے۔ کیوں؟ وہ اس لیے کہ جب ہم کہتے ہیں اس نے مارا تو ہمیں ایک چاہیے کہ جو مارنے والا ہو اور ایک وہ چاہیے کہ آخر اس نے کس کو مارا؟ جب تک کس کو مارا کا?  کا پتہ نہ چلے تب تک اس "ضَرَبَ" کا معنی پورا نہیں ہوتا، ہم کہتے ہیں "ضَرَبَ زَيْدٌ"، زید نے مارا۔ اب اتنی بات کہہ کے خاموش ہو جائیں، بات مکمل نہیں ہوتی، معنی تام نہیں ہوتا جب تک ساتھ یہ نہ بتائیں کہ زید نے کس کو مارا؟ جبکہ آپ "قَالَ"، "قَامَ" کو دیکھیں، "قَعَدَ" کو دیکھیں، "قَامَ" کیا ہے؟ "قَامَ زَيْدٌ"، زید کھڑا ہوا۔ اب ہم اتنا کہہ دیں کہ زید کھڑا ہوا، اب اس کے آگے اس کے معنی کو سمجھنے کے لیے اس "قَامَ" کو مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً کہتے ہیں "قَعَدَ زَيْدٌ"، زید بیٹھ گیا، بھائی بیٹھ گیا، بس ختم ہوگیا۔ اب ہمیں اس کو معنی کو سمجھنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں چاہیے کہ وہ ہوگی تو اس کا معنی سمجھ میں آئے گا۔ ٹھیک ہوگیا؟ یہ فرق ہوتا ہے عربی کے فعل لازم اور فعل متعدی میں۔ 

4

لازم اور متعدی کی تعریف اور  فعل متعدی کی اقسام

 فعل متعدی کی اقسام

جو فعل بھی متعدی ہوگا اس متعدی کی آگے پھر تین قسمیں ہیں۔ کیسے؟ یا وہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوگا یا دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوگا یا تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوگا۔ اب یہ جملہ علیحدہ سے لکھ لیں کہ فعل متعدی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس اس کو ایک مفعول چاہیے، نہیں نہیں۔ کبھی اس کو ایک مفعول چاہیے ہوتا ہے، کبھی وہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے اور کبھی وہ تین کی طرف۔ چونکہ متعدی، آپ کو پتہ ہے "تَعَدِّيَة" سے ہے، "تَعَدِّيَة" کا معنی ہوتا ہے تجاوز کرنا، چونکہ یہ فاعل سے آگے مفعول کی طرف تجاوز کرتا ہے کہ یہ فعل فاعل کو رفع دینے کے بعد مفعول کو جا کر نصب بھی دیتا ہے، اس لیے اس کو فعل متعدی کہتے ہیں۔ اب یہ سطر لکھ لیں، باقی ترجمہ کتاب میں کریں گے۔

 دو یا تین مفعول والے افعال اور ان میں حذف کا مسئلہ

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ وہ افعال کہ جو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں یا تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ ایک سوال ہے، آگے اس کا جواب ہے۔ آیا ان، ہم اگر چاہیں تو اپنی مرضی سے ان میں سے کسی ایک مفعول کو حذف کر دیں اور ایک کو باقی رکھیں؟ مثلاً پہلے مفعول کو حذف کر لیں، باقی دو کو باقی رکھیں۔ یا اگلے دو کو حذف کر دیں، فقط پہلے کو باقی رکھیں۔ یا پہلا بھی ہو، تیسرا بھی ہو، درمیان میں دوسرے کو حذف کر دیں، آیا اس قسم کے حذف میں ہم با اختیار ہیں یا با اختیار نہیں ہیں؟ اس کا جواب اب ان شاءاللہ تر    جمے میں آپ کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

 کتاب کی عبارت کا ترجمہ اور تشریح (حصہ اول)

"فَصْلٌ، اَلْفِعْلُ إِمَّا مُتَعَدٍّ" یعنی فعل کی ایک اور تقسیم۔ کیا؟ہوتی ہے؟

 فعل یا تو متعدی ہوگا۔ متعدی کس کو کہتے ہیں؟ "مَا يَتَوَقَّفُ فَهْمُ مَعْنَاهُ عَلَى مُتَعَلِّقٍ غَيْرِ الْفَاعِلِ" فاعل کے علاوہ کسی اور متعلق پر یعنی فقط فعل سے بات نہ بنے، فقط فعل سے نہیں بلکہ ایک اور بھی چاہیے کہ وہ ساتھ ہوگا تب اس کا معنی صحیح سمجھ میں آئے گا، جیسے "ضَرَبَ"۔ ہم کہتے ہیں "ضَرَبَ"، اب اس کے بعد ایک فاعل لگا دیں، "ضَرَبَ زَيْدٌ"، زید نے مارا۔ تو یہاں پر بات مکمل نہیں ہوتی، معنی سمجھ میں نہیں آتا جب تک اس کو ذکر نہ کریں جس کو اس نے مارا ہے۔ مثلاً "ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا"، زید نے مارا عمرو کو۔ اب چونکہ اس کا معنی سمجھنا "عَمْرًا" پر موقوف تھا، اس لیے اس کو کہتے ہیں کہ یہ متعدی ہے۔

 فعل لازم کی تعریف اور مثالیں

"وَإِمَّا لَازِمٌ" یا وہ فعل لازم ہوگا، لازم کیا ہے؟ "وَهُوَ مَا بِخِلَافِهِ" یعنی جس کے معنی کا سمجھنا فاعل کے علاوہ کسی اور پر موقوف نہ ہو، فقط اس کے ساتھ فاعل کو ذکر کر دیں تو بس یہی کافی ہے، اس کا معنی تام ہے۔ جیسے "قَعَدَ"، یہ لازم ہے۔ اس کو فقط فاعل ذکر کر دیں "قَعَدَ زَيْدٌ"، زید بیٹھا، بس معنی سمجھ میں آگیا۔ "قَامَ" یعنی "قَامَ زَيْدٌ"، زید کھڑا ہوا، بس اتنا کافی ہے، مزید کسی فاعل کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

 متعدی کی اقسام (کتاب کے مطابق)

آگے فرماتے ہیں "وَالْمُتَعَدِّيْ"، یہ جو فعل متعدی ہوتا ہے، یہ آگے پھر، افعال متعدی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ کیسے؟ فعل متعدی "قَدْ يَكُوْنُ إِلَى مَفْعُوْلٍ وَاحِدٍ"، کبھی تو یہ فقط ایک مفعول کی طرف تعدی کرتا ہے یعنی اسی ایک مفعول کو ذکر کر دیں تو معنی تام ہوجاتا ہے۔ جیسے "ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا"۔ اب یہاں "ضَرَبَ" فقط "عَمْرًا" ایک مفعول کی طرف متعدی ہے۔  زید نے مارا عمرو کو، معنی تام ہو گیا۔

5

دو،سہ مفعول کی طرف متعدی ہونا اور حذف کا مسئلہ اور باب "عَلِمْتُ" کا استثناء

 متعدی بہ دو مفعول اور حذف کا مسئلہ

"وَإِلَى مَفْعُوْلَيْنِ" اور کبھی کبھی یہ متعدی دو مفعولوں کی طرف ہوتا ہے یعنی کبھی متعدی بہ دو مفعول۔ اس کو ایک مفعول نہیں چاہیے ہوتا بلکہ دو چاہیے ہوتے ہیں، جیسے "أَعْطَى يُعْطِيْ" عطا کرنا۔ "أَعْطَى زَيْدٌ عَمْرًا دِرْهَمًا"۔ توجہ کے ساتھ۔ "أَعْطَى" فعل، "زَيْدٌ" اس کا فاعل، "عَمْرًا" مفعول اول، "دِرْهَمًا" مفعول دوم۔ کیوں؟ یہاں پر "أَعْطَى" دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے، وجہ؟ اب ذرا ترجمے کو سمجھیں۔ "أَعْطَى زَيْدٌ"، زید تو ہوگیا فاعل۔ زید نے عطا کیا۔ "عَمْرًا"، عمرو کو۔ اب اگر یہاں خاموش ہو جائیں تو ابھی معنی تام نہیں ہوتا، سوال رہتا ہے کہ آخر زید نے عمرو کو کیا عطا کیا؟ تو معنی تام نہیں ہوا۔ اس لیے ہمیں ایک اور مفعول لانا پڑا، کیا؟ "دِرْهَمًا"، کہ زید نے عمرو کو درہم دیے۔ اب "أَعْطَى" کے جب تک دو مفعول ذکر نہ کیے جائیں اس کا معنی تام نہیں ہوتا۔ تو لہذا یہ "أَعْطَى" متعدی ہے دو مفعولوں کی طرف۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ خب۔ "وَيَجُوْزُ فِيْهِ الْاِقْتِصَارُ عَلَى أَحَدِ مَفْعُوْلَيْهِ" بہت توجہ۔ یہ "أَعْطَى" جو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے، اس میں یہ بھی جائز ہے، واجب نہیں یعنی جائز ہے کہ اگر ہم شارٹ کٹ کرنا چاہیں اور دو مفعولوں کی بجائے فقط ایک مفعول کو ذکر کریں تو بھی یہ جائز ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "أَعْطَيْتُ زَيْدًا" ٹھیک ہے جی؟ "أَعْطَيْتُ زَيْدًا"، اب "زَيْدًا" ایک مفعول کو ذکر کیا، آگے "دِرْهَمًا" کا ذکر نہیں کیا، یہ بھی جائز ہے۔ یا کہتے ہیں "أَعْطَيْتُ دِرْهَمًا" یعنی "زَيْدًا" جو مفعول تھا اس کو حذف کر کے فقط "دِرْهَمًا" کو ذکر کر دیں، میں نے اس کو عطا، میں نے عطا کیے درہم، فرماتے ہیں یہ جائز ہے۔ لیکن۔۔۔

باب "عَلِمْتُ" کا استثناء

"بِخِلَافِ بَابِ عَلِمْتُ" لیکن فرماتے ہیں یہ باب "عَلِمْتُ" کے خلاف ہے۔ باب "عَلِمْتُ" سے مراد کیا ہے؟ یعنی اس کا مطلب ہے کہ وہاں پر ایک مفعول پر اکتفاء کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا ہم کہیں گے "عَلِمْتُ زَيْدًا فَاضِلًا"۔ پس لہذا خالی "عَلِمْتُ زَيْدًا" یا "عَلِمْتُ فَاضِلًا" یہ درست نہیں ہے۔ 

 متعدی بہ سہ مفعول اور اس کے افعال

"وَإِلَى ثَلَاثَةِ مَفَاعِيْلَ" اور یہی متعدی یعنی فعل متعدی کبھی کبھار تین مفعولوں کی طرف بھی متعدی ہوتا ہے۔ کیا؟ یعنی آپ کہیں گے کہ متعدی کبھی اس کو ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے، کبھی دو کی طرف متعدی ہوتا ہے اور کبھی تین کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ اچھا۔ وہ متعدی بسہ مفعول، اس کا جیسے "أَعْلَمَ اللهُ" اللہ نے جنوایا، یہ فاعل ہو گیا اللہ، "زَيْدًا" مفعول اول، "عَمْرًا" مفعول دوم، "فَاضِلًا" مفعول سوم۔ اللہ نے جنوایا زید کو کیا کہ عمرو فاضل ہے۔ "زَيْدًا"، "عَمْرًا"، "فَاضِلًا"، یہ تین مفعول ہیں کس کے؟ "أَعْلَمَ" کے۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ خب۔ "أَعْلَمَ" کے علاوہ کچھ اور افعال بھی ہیں جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ وہ کون سے؟ "أَنْبَأَ" ایک، "نَبَّأَ" دو، "أَخْبَرَ" تین، "خَبَّرَ" چار، "حَدَّثَ" پانچ، "رَأَى" چھ۔ چھ یہ ہو گئے اور ایک ہو گیا "أَعْلَمَ"۔ تو پس آپ یوں کہیں گے کہ تین افعال ایسے ہیں، نہیں سوری، سات افعال ایسے ہیں جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ سات افعال ایسے ہیں جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ وہ سات افعال کون سے ہیں؟ اب ان کو علیحدہ لکھ لیں۔ "أَعْلَمَ" ایک، "أَنْبَأَ" دو، "نَبَّأَ" تین، "أَخْبَرَ" چار، "خَبَّرَ" پانچ، "حَدَّثَ" چھ، "رَأَى" سات۔ یہ سات افعال وہ ہیں جو متعدی بسہ مفعول یعنی تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔

متعدی بہ سہ مفعول میں حذف کا حکم

"وَمِنْهُ أَرَى وَأَنْبَأَ وَنَبَّأَ وَأَخْبَرَ وَخَبَّرَ وَحَدَّثَ" ٹھیک ہو گیا؟ "وَهَذِهِ السَّبْعَةُ" یہ جو سات افعال ہیں جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، یہ سات، اب ذرا آگے توجہ رکھنی ہے۔ "مَفْعُوْلُهَا الْأَوَّلُ مَعَ الْأَخِيْرَيْنِ كَمَفْعُوْلَيْ أَعْطَيْتُ فِيْ جَوَازِ الْاِقْتِصَارِ عَلَى أَحَدِهِمَا"۔ پوری توجہ بابا۔ ہم نے پیچھے کہا ہے کہ "أَعْطَى" دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ پھر ہم نے وہاں یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم فقط پہلے مفعول کو ذکر کر لیں یا دوسرے مفعول کو ذکر کر لیں۔ یہ ہم نے کہا تھا نا وہاں "أَعْطَى" میں؟  اب فرماتے ہیں:  یہ افعال جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، پوری توجہ کے ساتھ، ان میں مفعول اول ایک طرف، مفعول دوم اور سوم ایک طرف۔ یعنی پہلا مفعول اور اگلے دو مفعول، یہ ہیں باب "أَعْطَيْتُ" کے مفعولوں کی طرح۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر آپ ان کے بعد فقط پہلے مفعول کو ذکر کریں اور بعد والے دونوں کو نہ کریں، یہ بھی جائز ہے۔ یا بعد والے دونوں کو ذکر کریں اور پہلے کو ذکر نہ کریں، یہ بھی جائز ہے۔ لیکن جو دوسرا اور تیسرا ہے، وہ ہیں باب "عَلِمْتُ" کے مفعولوں کی طرح۔ کیا؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ فقط دوسرے کو ذکر کریں اور تیسرے کو نہ کریں یا تیسرے کو ذکر کریں اور دوسرے کو نہ کریں، نہ یہ جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ باب "عَلِمْتُ" کے دو مفعولوں میں ایک پر اکتفاء جائز نہیں تھی، یہاں بھی دوسرے اور تیسرے میں سے کسی ایک پر اکتفاء کرنا جائز نہیں ہے۔ 

 مثالوں کے ساتھ وضاحت

"وَهَذِهِ السَّبْعَةُ" یہ سات افعال "أَعْلَمَ"، "أَرَى"، "أَنْبَأَ"، "نَبَّأَ"، "خَبَّرَ"، "أَخْبَرَ"، "حَدَّثَ" اور "أَرَى"۔ یہ سات ہو گئے۔ فرماتے ہیں: یہ سات جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، "مَفْعُوْلُهَا الْأَوَّلُ مَعَ الْأَخِيْرَيْنِ" ان کا پہلا مفعول اپنے دوسرے اور تیسرے کے ساتھ یہ تو ہیں مثل "كَمَفْعُوْلَيْ أَعْطَيْتَ" مثل "أَعْطَيْتَ" کے دو مفعولوں کی طرح۔ کیا مطلب؟ یعنی "فِيْ جَوَازِ الْاِقْتِصَارِ عَلَى أَحَدِهِمَا" کہ جائز ہے کہ آپ فقط پہلے مفعول کو ذکر کریں، دوسرے اور تیسرے کو ذکر نہ کریں۔ یا دوسرے اور تیسرے کو ذکر کریں اور پہلے کو ذکر نہ کریں، جیسے باب "أَعْطَى" میں ہم نے یہی کہا تھا کہ ان میں سے ایک مفعول پر اکتفاء جائز ہے۔ لہذا آپ "أَعْلَمَ اللهُ زَيْدًا" کہہ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ "أَعْلَمَ اللهُ زَيْدًا فَاضِلًا" یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن "وَالثَّانِيْ مَعَ الثَّالِثِ"، لیکن جو دوسرے کا تیسرے سے تعلق ہے، وہ تعلق ہے "كَمَفْعُوْلَيْ عَلِمْتُ" یعنی باب عالمہ کے مفعولوں کی طرح، "عَلِمْتُ" کے دو مفعولوں کی طرح۔ کیسے؟ "فِيْ عَدَمِ جَوَازِ الْاِقْتِصَارِ عَلَى أَحَدِهِمَا" یہ جائز نہیں ہے کہ ہم دوسرے کو ذکر کریں اور تیسرے کو حذف کر دیں یا تیسرے کو ذکر کریں اور دوسرے کو نہ کریں،   یہ جائز نہیں ہے۔ پس دوسرا اور تیسرا مثل باب "عَلِمْتُ" کے مفعولوں کی طرح ہے کہ دونوں کو ذکر کرنا ہوگا۔ جبکہ پہلا اور اگلے دو کے درمیان ان کے درمیان وہی نسبت ہے جو "أَعْطَيْتُ" کے دو مفعولوں کی طرف تھی کہ ان میں سے فقط ایک کو رکھ کے اگلے دونوں کو حذف کریں یا دو کو رکھ کے پہلے کو حذف کریں، یہ جائز ہے۔ "لِهَذَا فَلَا تَقُوْلُ" لہذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے "أَعْلَمْتُ زَيْدًا خَيْرَ النَّاسِ" یعنی "خَيْرَ" سے پہلے وہ جو دوسرا مفعول تھا اس کو حذف کر دیں، یعنی "أَعْلَمْتُ زَيْدًا عَمْرًا خَيْرَ النَّاسِ" کی بجائے "أَعْلَمْتُ زَيْدًا خَيْرَ النَّاسِ" نہیں کہہ سکتے۔ کیوں؟ چونکہ "زَيْدًا" مفعول اول تھا، "عَمْرًا"، "خَيْرَ النَّاسِ" یہ مفعول دوم اور سوم تھا، ان دونوں کو ذکر کرنا ہوتا ہے۔ لہذا آپ کہیں گے "أَعْلَمْتُ زَيْدًا" میں نے زید کو جنوایا، کیا؟ "عَمْرًا خَيْرَ النَّاسِ" کہ عمرو لوگوں میں سے بہترین ہے۔ 

یہ ہو گیا لازم اور متعدی کا ذکر۔ اس کے بعد اگلا ہے افعال قلوب کے بارے میں۔ 

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَسَلَّم

فصل : فعل ما لم يسمّ فاعله

هو فعل حذف فاعله واُقيم المفعول به مقامه ويختصّ بالمتعدّي.

وعلامته في الماضي أن يكون لفظ الأوّل مضموماً فقط ، وما قبل آخره مكسوراً ، وذلك في الأبواب الّتي ليس في أوائلها همزة وصل ، ولا تاء زائدة نحو : ضُرِبَ ودُحْرِجَ ، وأن يكون أوّله مضموماً وما قبل آخره مكسوراً وذلك فيما أوّله تاء زائدة نحو : تُفُضِّلَ وتُقُورِئ ، أو يكون أوّل حرف متحرّك منه مضموماً وما قبل آخره مكسوراً فيما أوّله همزة وصل نحو : اُسْتُخْرِجَ واقْتُدِرَ ، والهمزة تتبع المضموم إن لم تدرج.

وفي المضارع أن يكون حرف المضارع مضموماً وما قبل آخره مفتوحاً نحو : يُضْرَبُ ويُسْتَخْرَجُ ، إلّا في باب الإفعال والتّفعيل والمفاعلة والفعللة وملحقاتها ، فإنّ العلامة فيها فتح ما قبل الآخر نحو : يُحاسَبُ ويُدَحْرَجُ.

وفي الأجوف ماضيه مكسورة الفاء نحو : بيعَ وقِيلَ ، والإشمام نحو : قُيْلَ وبُيْعَ ، وبالواو نحو : قُولَ وبُوعَ.

وكذلك باب اُخْتيرَ وانْقيدَ ، دون اُسْتُخيرَ واُقيمَ لفقدان «فُعِلَ» فيهما. ومضارعه تقلب العين ألفاً نحو : يُقالُ ويُباعُ كما مرّت في التصريف مستقصىً.

فصل : [الفعل المتعدى و اللازم‏]

الفعل إمّا متعدٍّ وهو ما يتوقّف فهم معناه على متعلّق غير الفاعل ك‍ : ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً ، وإمّا لازم وهو ما بخلافه ك‍ : قَعَدَ زَيْدٌ.

والمتعدّي يكون إلى مفعول واحد ك‍ : ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً ، وإلى مفعولين ك‍ : أعْطىٰ زَيْدٌ عَمْراً دِرْهَماً ، ويجوز فيه الاقتصار على أحد

مفعوليه ك‍ : أعْطَيْتُ زَيْداً ، وأعْطَيْتُ دِرْهَماً ، بخلاف باب عَلِمْتُ ؛ وإلى ثلاثة مفاعيل نحو : أعْلَمَ اللهُ زَيْداً عَمْراً فاضِلاً ، ومنه أرىٰ ، وأنْبَأَ ونَبَّأَ ، وأخْبَرَ ، وخَبَّرَ ، وحَدَّثَ. وهذه الأفعال السبعة مفعولها الأوّل مع الأخيرين كمفعولي أعْطَيْتُ في جواز الاقتصار على أحدهما نحو : أعْلَمَ اللهُ زَيْداً ، والثاني مع الثالث كمفعولي عَلِمْتُ في عدم جواز الاقتصار على أحدهما فلا يقال : أعْلَمْتُ زَيْداً خَيْرَ الناسِ ، بل يقال : أعْلَمْتُ زَيْداً عَمْراً خَيْرَ الناسِ.

فصل : افعال القلوب

وهي سبعة : «عَلِمْتُ ، وظَنَنْتُ ، وحَسِبْتُ ، وخِلْتُ ، ورَأَيْتُ ، وزَعَمْتُ ، ووَجَدْتُ» ، وهي تدخل على المبتدأ والخبر فتنصبهما على المفعوليّة نحو : عَلِمْتُ زَيْداً فاضِلاً ، وظَنَنْتُ عَمْراً عالِماً.

واعلم أنّ لهذه الأفعال خواصّ ، منها : أن لا يقتصر على أحد مفعوليها بخلاف باب أعْطَيْتُ ، فلا تقول : عَلِمْتُ زَيْداً ، ومنها : جواز إلغائها إذا توسّطت نحو : زَيْدٌ ظَنَنْتُ عالِمٌ ، أو تأخّرت نحو : زَيْدٌ قائِمٌ ظَنَنْتُ ، ومنها : إنّها تُعَلَّقُ إذا وقعت قبل الاستفهام نحو : عَلِمْتُ أزَيْدٌ عنْدَك أم عَمْروٌ ، وقبل النفي نحو : عَلِمْتُ ما زَيْدٌ فِي الدار ، وقبل لام الابتداء نحو : عَلِمْتُ لَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ ، فهي في هذه المواضع لا تعمل ، لفظاً وتعمل معنىً ولذلك سمّي تعليقاً.

ومنها : إنّه يجوز أن يكون فاعلها ومفعولها ضميرين متّصلين من الشيء الواحد نحو : عَلِمْتُني مُنْطَلِقاً ، وظَنَنْتكَ فاضِلاً.

واعلم أنّه قد يكون ظَنَنْتُ بمعنى اتَّهَمْتُ ، وعَلِمْتُ بمعنى عَرَفْتُ ، ورَأَيْتُ بمعنى أبْصَرْتُ ، ووَجَدْتُ بمعنى أصَبْتُ الضالَّة ، فتنصب مفعولاً