القسم الثالث : الأمر
تیسری قسم: افعال میں سے تیسرا فعل ہے امر۔ امر کیا ہے؟ امر کی تعریف کیا ہے؟ فرماتے ہیں "أَمْرٌ هُوَ صِيغَةٌ يُطْلَبُ بِهِ الْفِعْلُ مِنَ الْفَاعِلِ لِمُخَاطَبٍ"۔ یعنی امر وہ صیغہ ہے کہ جس کے ذریعے ایک متکلم مخاطب سے فعل کو طلب کرتا ہے۔ متکلم چاہتا ہے مخاطب سے کہ وہ اس فعل کو انجام دے۔ یہ ہو گئی تعریف۔
فعل امر کہاں سے بنتا ہے؟ کیسے بنتا ہے؟ جواب: فعل امر فعل مضارع سے بنتا ہے۔ 
 فعل امر بنانے کا طریقہ کار
طریقہ کار کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں طریقہ کار اس کا یہ ہے کہ فعل مضارع سے حروف "أَتَيْنَ" میں سے، یعنی حرف مضارع کو ہٹا لو۔ ہٹا لیا۔ اب حرف مضارع کو ہٹانے کے بعد، حذف کرنے کے بعد اب دیکھنا ہے کہ کیا اس کے بعد والا حرف متحرک ہے یا ساکن ہے؟
اگرپہلا حرف ساکن ہو تو ہمیں ابتداء میں ایک همزة الوصل لانا ہوگا۔ کیوں؟ چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس پر کوئی حرکت نہ ہوگی تو ہم تب تک ابتداء کر نہیں سکتے، بول نہیں سکتے۔ تو اس لیے فرماتے ہیں اس ساکن حرف سے پہلے ہمیں ایک همزة الوصل لانا ہوگا۔ وہ لے آئیں گے اور آخر کو ساکن کر دیں گے وہ امر کی وجہ سے "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہوتا ہے اور اگر حرف مضارع کو حذف کرنے کے بعد، ہٹانے کے بعد بعد والا حرف اگر متحرک ہے، ہمیں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ 
اب ہمیں جہاں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہوگی پھر وہاں ایک بحث ہے۔ اب اس "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پر کون سی حرکت ہمیں پڑھنی چاہیے؟
 ہمزہ وصل کی حرکت کا طریقہ کار
فرماتے ہیں: اب اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر تیسرا حرف مضموم ہوگا تو ہم اس کو بھی مضموم پڑھیں گے،  یعنی یا یوں کہوں کہ تیسرے حرف کی بجائے کہ اگر اس کا عين الكلمة مضموم ہوگا تو پھر حرف تو پھر همزة الوصل بھی مضموم ہوگا۔ اگر عين الكلمة مفتوح ہوگا یا مقصور ہوگا تو پھر همزة الوصل بھی مقصور ہوگا۔
مثالیں:"تَنْصُرُ"اب اس سے امر کیسے بنے گا؟ فرماتے ہیں: "تَنْصُرُ" میں "تَا" کو ہٹا لیا۔ جب "تَا" کو ہٹایا تو دیکھا ہے کہ "نُونُ الْكَلِمَةِ" ساکن ہے۔ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی۔ مجبوراً ہمیں اس کے لیے ابتداء میں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" لانا ہوگا۔ ابتداء میں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" آ گیا۔ اب اس "هَمْزَة" پر کون سی حرکت پڑھیں؟ فرماتے ہیں: ہم نے دیکھا ہے کہ اس "هَمْزَة" کے بعد تیسرے نمبر پر جو حرف ہے، جو "عَيْنُ الْفِعْلِ" واقع ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ وہ تھا "تَنْصُرُ"۔ وہاں تو "صَاد" پر ضمہ تھا، "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کو بھی مضموم کریں گے اور پڑھیں گے "اُنْصُرْ"۔ "رَا" ساکن ہو جائے گی امر کی وجہ سے۔لیکن اگر "تَضْرِبُ" سے بنایا ہے، "تَعْلَمُ" سے بنایا ہے، یہاں پر اگر "تَا" کو ہٹائیں گے تو یہاں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پر کون سا اعراب ہوگا؟ فرماتے ہیں چونکہ "تَعْلَمُ" میں "لَام" پر فتحہ ہے، "تَضْرِبُ" میں "رَا" جو "عَيْنُ الْفِعْلِ" ہے اس پر کسرہ ہے، تو "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" یعنی دونوں کے لیے مقصور لایا جاتا ہے۔ لہٰذا "تَعْلَمُ" سے "اِعْلَمْ" بنے گا اور "تَضْرِبُ" سے "اِضْرِبْ" بنے گا۔
اب آگے ایک سوال اور اس کا جواب:  سوال کیا ہے؟ سوال یہ ہے: آپ نے کہا ہے کہ اگر تیسرا حرف مقصور ہوگا تو "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" مقصور ہوگا۔ ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ ایک جگہ پر "عَيْنُ الْفِعْلِ" تیسرا حرف، وہاں پر جو ہے ترتیب میں جو تیسرا بنتا ہے وہ مقصور ہے، لیکن "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پھر بھی مفتوح ہے۔ 
"أَكْرَمَ يُكْرِمُ"۔ اب "تُكْرِمُ" میں "تَا" کو ہٹایا تو اب ہم اس کا امر پڑھتے ہیں "أَكْرِمْ"۔ جبکہ آپ کے قانون کے مطابق "إِكْرِمْ" پڑھنا چاہیے تھا۔ "إِكْرِمْ" چونکہ "رَا" پر کسرہ ہے تو اس همزہ پر بھی کسرہ ہوتا، لہٰذا اس کو "أَكْرِمْ" نہ پڑھتے بلکہ "إِكْرِمْ" پڑھتے جبکہ صحیح یہ ہے کہ ہم اس کو "أَكْرِمْ" پڑھتے ہیں۔
 سوال کا جواب
جواب بڑا  پیارا انہوں نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں نہ، آپ سمجھ نہیں سکے۔ یہ جو باب إفعال ہے یہ "تُكْرِمُ" اصل میں "تُؤَكْرِمُ" تھا۔ اس کا همزة الوصل نہیں ہوتا۔ اس باب إفعال میں جو "أَكْرِمْ" ہے، یہ همزہ اس کا اپنا ہے۔ جب آپ نے "تَا" کو ہٹایا تو همزہ  پہلے سے مفتوح کھڑا تھا، ہمیں همزہ الوصل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو "أَكْرِمْ" ہوتا، "تَا" کو ہٹا لیا، "مِيم" کو ساکن کر دیا تو یہ بن گیا "أَكْرِمْ"۔ یہ "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" نہیں تھا کہ ہم اس کو کوئی اپنی طرف سے اعراب دیں۔
 فعل امر کی خصوصیات کا خلاصہ
"ثَالِثُ الْأَفْعَالِ" میں سے تیسرا فعل وہ ہے "فِعْلُ الْأَمْرِ"۔ فرماتے ہیں امر کیا ہے؟ "أَمْرٌ هُوَ صِيغَةٌ" امر وہ صیغہ ہوتا ہے "يُطْلَبُ بِهِ الْفِعْلُ" کہ جس کے ذریعے فعل کو طلب کیا جاتا ہے فاعل سے "لِمُخَاطَبٍ" مخاطب سے۔ یعنی متکلم مخاطب سے اس صیغہ کے ذریعے فاعل سے فعل کو چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ یہ کام کرے۔ یہ ہو گئی تعریف۔
تطبیق
اچھا یہ فعل امر بنتا کیسے ہے؟ فرماتے ہیں اس فعل امر کو بنانے کا طریقہ یہ ہے۔ "بِأَنْ تُحْذَفَ مِنَ الْمُضَارِعِ حَرْفُ الْمُضَارَعَةِ"۔ اب  سوال یہ ہوگا: امر کہاں سے بنتا ہے؟ کس سے مشتق ہوتا ہے؟ جواب ایک سطر میں: امر "فِعْلِ الْمُضَارِعِ" سے بنتا ہے۔ فعل مضارع سے مشتق ہوتا ہے۔
اب اگلا سوال کہ امر بنانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ جواب یہاں سے ہے: فرماتے ہیں "بِأَنْ تُحْذَفَ مِنَ الْمُضَارِعِ حَرْفُ الْمُضَارَعَةِ" کہ مضارع سے حرف مضارع وہ جو حروف مضارع چار ہیں، حروف "آتَيْن" ان میں حرف مضارع کو ہٹا لو۔ "ثُمَّ تُنْظَرُ" پھر یہ دیکھیں گے۔ "فَإِنْ كَانَ" یہ دیکھا جائے گا: "إِنْ كَانَ مَا بَعْدَ حَرْفِ الْمُضَارَعَةِ سَاكِنًا" اگر حرف مضارع کے بعد والا حرف ساکن ہے، "زِدْتَ هَمْزَةَ الْوَصْلِ" پھر آپ اس میں زیادہ کریں ایک همزة الوصل کو۔ یعنی چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی، جیسے "يَضْرِبُ" ہے، "ضَاد" ساکن ہے۔ "تَنْصُرُ" ہے، "نُون" ساکن ہے۔ "تَعْلَمُ" ہے، "عَيْن" ساکن ہے۔ ساکن سے ابتداء ہو نہیں سکتی، تو فرماتے ہیں چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہوتی، لہٰذا اس کی ابتداء میں ایک همزة الوصل لائیں۔ همزة الوصل ٹھیک ہے جی همزة الوصل آ گیا۔خود همزة الوصل پر اعراب کیا پڑھیں؟ فرماتے ہیں "زِدْتَ هَمْزَةَ الْوَصْلِ مَضْمُومَةً" کہ اس کی ابتداء میں ایک همزة الوصل کا اضافہ کریں وہ مضموم ہوگا یعنی همزة الوصل پر ضمہ پڑھیں گے، پیش پڑھیں گے، "إِنِ انْضَمَّ ثَالِثُهُ" اگر اس کا تیسرا حرف مضموم ہوگا تو۔ جیسے "تَنْصُرُ" میں "هَمْزَة" جب آئے گا، پہلا حرف "هَمْزَة"، دوسرا "نُون"، تیسرا "صَاد"۔ چونکہ "صَاد" مضموم ہے، لہٰذا همزہ  پر ضمہ پڑھیں گے اور ہم پڑھیں گے "اُنْصُرْ"۔
"وَ مَقْصُورٌ إِنْ فُتِحَ أَوْ إِنْ كُسِرَ"۔ لیکن اگر وہ تیسرا حرف مفتوح یا مقصور ہوگا تو پھر یہ "هَمْزَة" بھی "زِدْتَ هَمْزَةً مَقْصُورَةً" یہ "هَمْزَة" بھی مقصور ہوگا۔ جیسے "يَعْلَمُ" سے "اِعْلَمْ" اور "يَضْرِبُ" سے "اِضْرِبْ" "يَسْتَخْرِجُ" سے "اِسْتَخْرِجْ"۔"وَإِنْ كَانَ مُتَحَرِّكًا" لیکن اگر ہم مضارع سے حرف مضارع کو ہٹا لیتے ہیں اور اس حرف مضارع کو ہٹانے کے باوجود اس کے بعد کا جو حرف اگر متحرک ہے تو فرماتے ہیں "فَلَا هَمْزَةٌ فَلَا حَاجَةَ إِلَى الْهَمْزَةِ" پھر ہمیں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جیسے "عِدَّ" یعنی "تَعُدُّ" تھا۔ اب "تَعُدُّ" سے جب "تَا" حرف مضارع کو ہٹایا، "عَيْن" پر پہلے سے حرکت موجود ہے، فقط "دَال" کو ساکن کریں گے تو یہ بن جائے گا "عِدَّ" یہ مضارع ہے۔"تُحَاسِبُ" "تُحَاسِبُ" میں جب "تَا" حرف مضارع کو ہٹایا، "حَا" پہلے سے متحرک ہے، لہٰذا ہمیں همزة الوصل نہیں ہے، فقط "بَاء" کو آخر میں ساکن کریں گے تو "تُحَاسِبُ" سے بن جائے گا "حَاسِبْ"۔ 
"وَالْأَمْرُ مِنْ بَابِ الْإِفْعَالِ مِنَ الْقِسْمِ الثَّانِي"۔ یہ درحقیقت سوال مقدر کا جواب ہے۔ کوئی کہے جناب آپ کہتے ہیں تیسرا حرف اگر مقصور ہو تو "هَمْزَة" بھی مقصور ہوگا، لیکن "تُكْرِمُ" میں "رَا" مقصور ہے، لیکن امر اس کا "إِكْرِمْ" نہیں بلکہ "أَكْرِمْ" آتا ہے۔ یہ جواب ہے، فرماتے ہیں باب الإفعال میں سے جو همزة ہے وہ قسم ثانی میں سے ہے۔ قسم ثانی کیا تھی؟ ہم نے کہا تھا کہ حرف مضارع کو ہٹانے کے بعد اگر بعد بچا ہوا حرف ہے، اگر وہ متحرک ہے تو همزہ  کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہاں متحرک ہے کیوں؟ اس لیے کہ "تُكْرِمُ" اصل میں "تُؤَكْرِمُ" ہے۔ جب "تَا" کو ہٹایا تو همزہ  جو پہلے سے موجود تھا، اس باب الإفعال کا همزہ  قطعية ہوتا ہے، وہ پہلے سے موجود تھا، وہ متحرک تھا، فقط ہم نے "مِيم" کو ساکن کرنا ہے تو یہ بن جائے گا "أَكْرِمْ"۔
 فعل امر 
"وَهُوَ مَبْنِيٌّ عَلَى عَلَامَةِ الْجَزْمِ"۔ "فِعْلُ الْأَمْرِ" ہمیشہ "مَبْنِيٌّ عَلَى عَلَامَةِ الْجَزْمِ" ہوتا ہے۔ اب کہیں جزم میں فقط سکون ہوتا ہے اور کہیں جزم میں اس کا آخری حرف حذف ہو جاتا ہے، گر جاتا ہے۔ فرماتے ہیں جو بھی "عَلَامَةُ الْجَزْمِ" ہوگی، "فِعْلُ الْمُضَارِعِ"، "فِعْلُ الْأَمْرِ" "مَبْنِيٌّ عَلَى الْجَزْمِ" ہوتا ہے۔ جیسے "تَضْرِبُ" میں "اِضْرِبْ" پڑھیں گے "بَاء" کو فقط ساکن کر دیں گے۔
 مختلف فعل امر کی مثالیں 
"إِرْمِ"، "إِسْعَ"، "اِضْرِبَا"، "اِضْرِبُوا"، "اِضْرِبِي" "إِرْمِ" اور "إِسْعَ" میں اصلًا سرے سے "يَا" اور "وَاو" گر جائے گی۔ "اِضْرِبَا" میں "نُونُ التَّثْنِيَةِ" گر جائے گی، "اِضْرِبُوا" میں "نُونُ الْجَمْعِ" گر جائے گی، "اِضْرِبِينَ" میں بھی اسی طرح "نُون" گر جائے گی۔ کیونکہ یہ اس کے ہیں "اُغْزُ" بھائی "وَاو" گر گئی، "إِرْمِ" یہاں پر "يَا" گر گئی، "اِسْعَ" یہاں پر ظاہراً الف گر گئی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ "اِضْرِبَا، اِضْرِبُوا، اِضْرِبِي" میں یہاں پر او جو نون الإعرابية تھی یا نون التأنيث تھی وہ گر گئی۔