درس الهدایة في النحو

درس نمبر 49: فعل امر، نائب فاعل اور فعل متعدی و لازم

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل امر کی تعریف اور اسکے بنانے کا طریقہ کار

القسم الثالث : الأمر

تیسری قسم: افعال میں سے تیسرا فعل ہے امر۔ امر کیا ہے؟ امر کی تعریف کیا ہے؟ فرماتے ہیں "أَمْرٌ هُوَ صِيغَةٌ يُطْلَبُ بِهِ الْفِعْلُ مِنَ الْفَاعِلِ لِمُخَاطَبٍ"۔ یعنی امر وہ صیغہ ہے کہ جس کے ذریعے ایک متکلم مخاطب سے فعل کو طلب کرتا ہے۔ متکلم چاہتا ہے مخاطب سے کہ وہ اس فعل کو انجام دے۔ یہ ہو گئی تعریف۔

فعل امر کہاں سے بنتا ہے؟ کیسے بنتا ہے؟ جواب: فعل امر فعل مضارع سے بنتا ہے۔ 

 فعل امر بنانے کا طریقہ کار

طریقہ کار کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں طریقہ کار اس کا یہ ہے کہ فعل مضارع سے حروف "أَتَيْنَ" میں سے، یعنی حرف مضارع کو ہٹا لو۔ ہٹا لیا۔ اب حرف مضارع کو ہٹانے کے بعد، حذف کرنے کے بعد اب دیکھنا ہے کہ کیا اس کے بعد والا حرف متحرک ہے یا ساکن ہے؟

اگرپہلا حرف ساکن ہو تو ہمیں ابتداء میں ایک همزة الوصل لانا ہوگا۔ کیوں؟ چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس پر کوئی حرکت نہ ہوگی تو ہم تب تک ابتداء کر نہیں سکتے، بول نہیں سکتے۔ تو اس لیے فرماتے ہیں اس ساکن حرف سے پہلے ہمیں ایک همزة الوصل لانا ہوگا۔ وہ لے آئیں گے اور آخر کو ساکن کر دیں گے وہ امر کی وجہ سے "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہوتا ہے اور اگر حرف مضارع کو حذف کرنے کے بعد، ہٹانے کے بعد بعد والا حرف اگر متحرک ہے، ہمیں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ 

اب ہمیں جہاں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہوگی پھر وہاں ایک بحث ہے۔ اب اس "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پر کون سی حرکت ہمیں پڑھنی چاہیے؟

 ہمزہ وصل کی حرکت کا طریقہ کار

فرماتے ہیں: اب اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر تیسرا حرف مضموم ہوگا تو ہم اس کو بھی مضموم پڑھیں گے،  یعنی یا یوں کہوں کہ تیسرے حرف کی بجائے کہ اگر اس کا عين الكلمة مضموم ہوگا تو پھر حرف تو پھر همزة الوصل بھی مضموم ہوگا۔ اگر عين الكلمة مفتوح ہوگا یا مقصور ہوگا تو پھر همزة الوصل بھی مقصور ہوگا۔

مثالیں:"تَنْصُرُ"اب اس سے امر کیسے بنے گا؟ فرماتے ہیں: "تَنْصُرُ" میں "تَا" کو ہٹا لیا۔ جب "تَا" کو ہٹایا تو دیکھا ہے کہ "نُونُ الْكَلِمَةِ" ساکن ہے۔ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی۔ مجبوراً ہمیں اس کے لیے ابتداء میں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" لانا ہوگا۔ ابتداء میں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" آ گیا۔ اب اس "هَمْزَة" پر کون سی حرکت پڑھیں؟ فرماتے ہیں: ہم نے دیکھا ہے کہ اس "هَمْزَة" کے بعد تیسرے نمبر پر جو حرف ہے، جو "عَيْنُ الْفِعْلِ" واقع ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ وہ تھا "تَنْصُرُ"۔ وہاں تو "صَاد" پر ضمہ تھا، "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کو بھی مضموم کریں گے اور پڑھیں گے "اُنْصُرْ"۔ "رَا" ساکن ہو جائے گی امر کی وجہ سے۔لیکن اگر "تَضْرِبُ" سے بنایا ہے، "تَعْلَمُ" سے بنایا ہے، یہاں پر اگر "تَا" کو ہٹائیں گے تو یہاں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پر کون سا اعراب ہوگا؟ فرماتے ہیں چونکہ "تَعْلَمُ" میں "لَام" پر فتحہ ہے، "تَضْرِبُ" میں "رَا" جو "عَيْنُ الْفِعْلِ" ہے اس پر کسرہ ہے، تو "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" یعنی دونوں کے لیے مقصور لایا جاتا ہے۔ لہٰذا "تَعْلَمُ" سے "اِعْلَمْ" بنے گا اور "تَضْرِبُ" سے "اِضْرِبْ" بنے گا۔

اب آگے ایک سوال اور اس کا جواب:  سوال کیا ہے؟ سوال یہ ہے: آپ نے کہا ہے کہ اگر تیسرا حرف مقصور ہوگا تو "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" مقصور ہوگا۔ ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ ایک جگہ پر "عَيْنُ الْفِعْلِ" تیسرا حرف، وہاں پر جو ہے ترتیب میں جو تیسرا بنتا ہے وہ مقصور ہے، لیکن "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" پھر بھی مفتوح ہے۔ 

"أَكْرَمَ يُكْرِمُ"۔ اب "تُكْرِمُ" میں "تَا" کو ہٹایا تو اب ہم اس کا امر پڑھتے ہیں "أَكْرِمْ"۔ جبکہ آپ کے قانون کے مطابق "إِكْرِمْ" پڑھنا چاہیے تھا۔ "إِكْرِمْ" چونکہ "رَا" پر کسرہ ہے تو اس همزہ پر بھی کسرہ ہوتا، لہٰذا اس کو "أَكْرِمْ" نہ پڑھتے بلکہ "إِكْرِمْ" پڑھتے جبکہ صحیح یہ ہے کہ ہم اس کو "أَكْرِمْ" پڑھتے ہیں۔

 سوال کا جواب

جواب بڑا  پیارا انہوں نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں نہ، آپ سمجھ نہیں سکے۔ یہ جو باب إفعال ہے یہ "تُكْرِمُ" اصل میں "تُؤَكْرِمُ" تھا۔ اس کا همزة الوصل نہیں ہوتا۔ اس باب إفعال میں جو "أَكْرِمْ" ہے، یہ همزہ اس کا اپنا ہے۔ جب آپ نے "تَا" کو ہٹایا تو همزہ  پہلے سے مفتوح کھڑا تھا، ہمیں همزہ الوصل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو "أَكْرِمْ" ہوتا، "تَا" کو ہٹا لیا، "مِيم" کو ساکن کر دیا تو یہ بن گیا "أَكْرِمْ"۔ یہ "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" نہیں تھا کہ ہم اس کو کوئی اپنی طرف سے اعراب دیں۔

 فعل امر کی خصوصیات کا خلاصہ

"ثَالِثُ الْأَفْعَالِ" میں سے تیسرا فعل وہ ہے "فِعْلُ الْأَمْرِ"۔ فرماتے ہیں امر کیا ہے؟ "أَمْرٌ هُوَ صِيغَةٌ" امر وہ صیغہ ہوتا ہے "يُطْلَبُ بِهِ الْفِعْلُ" کہ جس کے ذریعے فعل کو طلب کیا جاتا ہے فاعل سے "لِمُخَاطَبٍ" مخاطب سے۔ یعنی متکلم مخاطب سے اس صیغہ کے ذریعے فاعل سے فعل کو چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ یہ کام کرے۔ یہ ہو گئی تعریف۔

تطبیق

اچھا یہ فعل امر بنتا کیسے ہے؟ فرماتے ہیں اس فعل امر کو بنانے کا طریقہ یہ ہے۔ "بِأَنْ تُحْذَفَ مِنَ الْمُضَارِعِ حَرْفُ الْمُضَارَعَةِ"۔ اب  سوال یہ ہوگا: امر کہاں سے بنتا ہے؟ کس سے مشتق ہوتا ہے؟ جواب ایک سطر میں: امر "فِعْلِ الْمُضَارِعِ" سے بنتا ہے۔ فعل مضارع سے مشتق ہوتا ہے۔

اب اگلا سوال کہ امر بنانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ جواب یہاں سے ہے: فرماتے ہیں "بِأَنْ تُحْذَفَ مِنَ الْمُضَارِعِ حَرْفُ الْمُضَارَعَةِ" کہ مضارع سے حرف مضارع وہ جو حروف مضارع چار ہیں، حروف "آتَيْن" ان میں حرف مضارع کو ہٹا لو۔ "ثُمَّ تُنْظَرُ" پھر یہ دیکھیں گے۔ "فَإِنْ كَانَ" یہ دیکھا جائے گا: "إِنْ كَانَ مَا بَعْدَ حَرْفِ الْمُضَارَعَةِ سَاكِنًا" اگر حرف مضارع کے بعد والا حرف ساکن ہے، "زِدْتَ هَمْزَةَ الْوَصْلِ" پھر آپ اس میں زیادہ کریں ایک همزة الوصل کو۔ یعنی چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہو سکتی، جیسے "يَضْرِبُ" ہے، "ضَاد" ساکن ہے۔ "تَنْصُرُ" ہے، "نُون" ساکن ہے۔ "تَعْلَمُ" ہے، "عَيْن" ساکن ہے۔ ساکن سے ابتداء ہو نہیں سکتی، تو فرماتے ہیں چونکہ ساکن سے ابتداء نہیں ہوتی، لہٰذا اس کی ابتداء میں ایک همزة الوصل لائیں۔ همزة الوصل ٹھیک ہے جی همزة الوصل آ گیا۔خود همزة الوصل پر اعراب کیا پڑھیں؟ فرماتے ہیں "زِدْتَ هَمْزَةَ الْوَصْلِ مَضْمُومَةً" کہ اس کی ابتداء میں ایک همزة الوصل کا اضافہ کریں وہ مضموم ہوگا یعنی همزة الوصل پر ضمہ پڑھیں گے، پیش پڑھیں گے، "إِنِ انْضَمَّ ثَالِثُهُ" اگر اس کا تیسرا حرف مضموم ہوگا تو۔ جیسے "تَنْصُرُ" میں "هَمْزَة" جب آئے گا، پہلا حرف "هَمْزَة"، دوسرا "نُون"، تیسرا "صَاد"۔ چونکہ "صَاد" مضموم ہے، لہٰذا همزہ  پر ضمہ پڑھیں گے اور ہم پڑھیں گے "اُنْصُرْ"۔

"وَ مَقْصُورٌ إِنْ فُتِحَ أَوْ إِنْ كُسِرَ"۔ لیکن اگر وہ تیسرا حرف مفتوح یا مقصور ہوگا تو پھر یہ "هَمْزَة" بھی "زِدْتَ هَمْزَةً مَقْصُورَةً" یہ "هَمْزَة" بھی مقصور ہوگا۔ جیسے "يَعْلَمُ" سے "اِعْلَمْ" اور "يَضْرِبُ" سے "اِضْرِبْ" "يَسْتَخْرِجُ" سے "اِسْتَخْرِجْ"۔"وَإِنْ كَانَ مُتَحَرِّكًا" لیکن اگر ہم مضارع سے حرف مضارع کو ہٹا لیتے ہیں اور اس حرف مضارع کو ہٹانے کے باوجود اس کے بعد کا جو حرف اگر متحرک ہے تو فرماتے ہیں "فَلَا هَمْزَةٌ فَلَا حَاجَةَ إِلَى الْهَمْزَةِ" پھر ہمیں "هَمْزَةُ الْوَصْلِ" کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جیسے "عِدَّ" یعنی "تَعُدُّ" تھا۔ اب "تَعُدُّ" سے جب "تَا" حرف مضارع کو ہٹایا، "عَيْن" پر پہلے سے حرکت موجود ہے، فقط "دَال" کو ساکن کریں گے تو یہ بن جائے گا "عِدَّ" یہ مضارع ہے۔"تُحَاسِبُ" "تُحَاسِبُ" میں جب "تَا" حرف مضارع کو ہٹایا، "حَا" پہلے سے متحرک ہے، لہٰذا ہمیں همزة الوصل نہیں ہے، فقط "بَاء" کو آخر میں ساکن کریں گے تو "تُحَاسِبُ" سے بن جائے گا "حَاسِبْ"۔ 

"وَالْأَمْرُ مِنْ بَابِ الْإِفْعَالِ مِنَ الْقِسْمِ الثَّانِي"۔ یہ درحقیقت سوال مقدر کا جواب ہے۔ کوئی کہے جناب آپ کہتے ہیں تیسرا حرف اگر مقصور ہو تو "هَمْزَة" بھی مقصور ہوگا، لیکن "تُكْرِمُ" میں "رَا" مقصور ہے، لیکن امر اس کا "إِكْرِمْ" نہیں بلکہ "أَكْرِمْ" آتا ہے۔ یہ جواب ہے، فرماتے ہیں باب الإفعال میں سے جو همزة ہے وہ قسم ثانی میں سے ہے۔ قسم ثانی کیا تھی؟ ہم نے کہا تھا کہ حرف مضارع کو ہٹانے کے بعد اگر بعد بچا ہوا حرف ہے، اگر وہ متحرک ہے تو همزہ  کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہاں متحرک ہے کیوں؟ اس لیے کہ "تُكْرِمُ" اصل میں "تُؤَكْرِمُ" ہے۔ جب "تَا" کو ہٹایا تو همزہ  جو پہلے سے موجود تھا، اس باب الإفعال کا همزہ  قطعية ہوتا ہے، وہ پہلے سے موجود تھا، وہ متحرک تھا، فقط ہم نے "مِيم" کو ساکن کرنا ہے تو یہ بن جائے گا "أَكْرِمْ"۔

 فعل امر 

"وَهُوَ مَبْنِيٌّ عَلَى عَلَامَةِ الْجَزْمِ"۔ "فِعْلُ الْأَمْرِ" ہمیشہ "مَبْنِيٌّ عَلَى عَلَامَةِ الْجَزْمِ" ہوتا ہے۔ اب کہیں جزم میں فقط سکون ہوتا ہے اور کہیں جزم میں اس کا آخری حرف حذف ہو جاتا ہے، گر جاتا ہے۔ فرماتے ہیں جو بھی "عَلَامَةُ الْجَزْمِ" ہوگی، "فِعْلُ الْمُضَارِعِ"، "فِعْلُ الْأَمْرِ" "مَبْنِيٌّ عَلَى الْجَزْمِ" ہوتا ہے۔ جیسے "تَضْرِبُ" میں "اِضْرِبْ" پڑھیں گے "بَاء" کو فقط ساکن کر دیں گے۔

 مختلف فعل امر کی مثالیں 

"إِرْمِ"، "إِسْعَ"، "اِضْرِبَا"، "اِضْرِبُوا"، "اِضْرِبِي" "إِرْمِ" اور "إِسْعَ" میں اصلًا سرے سے "يَا" اور "وَاو" گر جائے گی۔ "اِضْرِبَا" میں "نُونُ التَّثْنِيَةِ" گر جائے گی، "اِضْرِبُوا" میں "نُونُ الْجَمْعِ" گر جائے گی، "اِضْرِبِينَ" میں بھی اسی طرح "نُون" گر جائے گی۔ کیونکہ یہ اس کے ہیں "اُغْزُ" بھائی "وَاو" گر گئی، "إِرْمِ" یہاں پر "يَا" گر گئی، "اِسْعَ" یہاں پر ظاہراً الف گر گئی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ "اِضْرِبَا، اِضْرِبُوا، اِضْرِبِي" میں یہاں پر او جو نون الإعرابية تھی یا نون التأنيث تھی وہ گر گئی۔

4

تعریف: فعل ما لم يسم فاعله

 فعل مجہول کا تعارف

اگلی فصل ہے، وہ ہے فعل مجهول کے بارے میں کہ یہ فعل مجهول کیا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں بالکل آسان سی بحث ہے اگر تھوڑی سی ہم توجہ کر لیں تو اتنی لمبی نہیں۔ "فِعْلٌ" "فِعْلٌ مَا لَمْ يُسَمَّ فَاعِلُهُ" جس کو ہم فعل مجهول کہتے ہیں۔ یعنی وہ فعل جس کے فاعل کا نام نہ لیا گیا ہو۔ جس کے فاعل کو ذکر نہ کیا گیا ہو۔

 فعل مجہول کی نوعیت

یہ فعل مجهول کون سا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں فعل مجهول جس کا فاعل معروف ہو اور اس کے مفعول کو اس کا قائم مقام بنایا جاتا ہے، مقام مقام بنایا گیا ہو۔

 فعل مجہول کا لازم اور متعدی سے تعلق

اب یہاں دو تین چیزیں ہیں ذرا ان کو غور سے، پھر انشاء اللہ آگے آسان ہے۔ چونکہ یہ وہ فعل ہوتا ہے جہاں اس کے مفعول کو فاعل کا قائم مقام بنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ مختص ہے پھر متعدي کے ساتھ چونکہ مفعول متعدي میں ہوتا ہے لازم میں نہیں ہوتا۔ اور اگر آپ کسی لازم کو مجہول بنانا چاہیں گے تو پھر اس کو پہلے کسی حرف جار کے ذریعے متعدي کریں گے، پھر وہ تب مجہول ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا۔

 فعل مجہول کی علامات

فعل مجهول کی علامات کیا ہیں؟ فرماتے ہیں اس کی ماضی میں اپنی علامات ہیں۔ مضارع میں اپنی علامات ہیں۔  پھر مجرد کی اپنی علامات ہیں، مزید فیہ کی اپنی علامات ہیں۔ اب ذرا غور کرو ایک ایک کر کے انشاء اللہ ہم اس کو دیکھتے ہیں۔

 فعل مجہول کا تعارف

فصل:  "فِعْلٌ مَا لَمْ يُسَمَّ فَاعِلُهُ" وہ فعل جس کے فاعل کا نام نہ لیا گیا ہو۔ جس کو ہم فعل مجهول کہتے ہیں۔ 

 فعل مجہول کی تعریف

فرماتے ہیں: "هُوَ فِعْلٌ" یہ وہ فعل ہے "حُذِفَ فَاعِلُهُ" جس کے فاعل کو حذف کر دیا جاتا ہے "وَأُقِيمَ الْمَفْعُولُ مَقَامَهُ" اور مفعول کو اس کا قائم مقام بنا دیا گیا ہو۔ مفعول اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ہو۔ 

فعل مجہول کا لازم اور متعدی سے تعلق

"وَيَخْتَصُّ بِالْمُتَعَدِّي" یہ مختص ہے "مُتَعَدِّي" کے ساتھ۔ کیوں؟ اس لیے کہ مفعول فعل متعدي میں ہوتا ہے۔ فعل لازم میں تو مفعول ہوتا ہی نہیں ہے۔ 

5

علامات فعل مجهول

کیسے پتہ چلے گا کہ یہ فعل مجہول ہے؟ یا معلوم ؟فرماتے ہیں ہم اس کی علامات بتاتے ہیں یا اس کو بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں وہ یہ ہے:

ماضی مجہول کی علامات

"وَعَلَامَتُهُ فِي الْمَاضِي"فعل ماض مجهول کی علامت یہ ہے کہ "أَنْ يَكُونَ أَوَّلُهُ مَضْمُومًا" کہ جس کا ابتداء مضموم ہو۔ "ضَرَبَ" سے "ضُرِبَ"۔ "نَصَرَ" سے "نُصِرَ"۔ "عَلِمَ" سے "عُلِمَ"۔ "حَسِبَ" سے "حُسِبَ"۔ یعنی "أَنْ يَكُونَ أَوَّلُهُ مَضْمُومًا فَقَطْ"۔ ماضی میں تو اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے ابتداء میں کیا ہوتا ہے؟ وہ مضموم ہوتا ہے۔ جیسے مثالیں۔ "أَنْ يَكُونَ أَوَّلُهُ مَضْمُومًا" کہ اس کا ابتداء یعنی اس کا پہلا حرف مضموم ہوتا ہے۔ "وَمَا قَبْلَ آخِرِهِ وَمَا قَبْلَ آخِرِهِ مَكْسُورًا" "فِي الْأَبْوَابِ الَّتِي لَيْسَتْ فِي أَوَائِلِهَا هَمْزَةُ وَصْلٍ وَلَا تَاءٌ زَائِدَةٌ"۔ بہت توجہ کے ساتھ آ گا۔ ماضی میں علامت کیا ہے؟ کہ جس کی ابتداء مضموم ہوتی ہے اور ما قبل آخر مقصور ہوتا ہے جیسے ہم نے مثالیں دی ہیں۔ "ضُرِبَ"، "نُصِرَ"، "عُلِمَ"، "حُسِبَ"، "شُرِّفَ"۔ البتہ شرط ہے۔ یہ اول مضموم اور ما قبل آخر مقصور ما قبل آخر مقصور یہ کہاں ہوگا؟ اول مضموم تو سب میں ہوتا ہے لیکن ما قبل آخر مقصور وہاں ہوگا ان ابواب میں کہ جن ابواب کی ابتداء میں همزہ وصل نہیں ہوتا اور تاء زائدہ  بھی نہیں ہوتی۔ جن میں همزہ  وصل ہوتا ہے یا تاء زائدہ  ہوتی ہے اس کا بتائیں گا کہ اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔ جیسے "ضُرِبَ" اب "ضَرَبَ" سے ہے نہ اس کی ابتداء میں کوئی همزہ وصل ہے اور نہ ہی کوئی تاء زائدہ ہے۔ "دُحْرِجَ" "دَحْرَجَ" سے "دُحْرِجَ" اب اس میں بھی نہ ہی کوئی همز وصل ہے اور نہ ہی کوئی تاء زائدہ ہے۔ "أُكْرِمَ" چونکہ پہلے گزارش کی ہے کہ "بَابُ إِفْعَالٍ" کا "هَمْزَةٌ قَطْعِيَّةٌ" ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ "أُكْرِمَ" پڑھیں گے تو اس کا "هَمْزَةٌ قَطْعِيَّةٌ" ہے لہٰذا یہاں پر بھی نہ "هَمْزَةُ وَصْلٍ" ہے نہ "تَاءٌ زَائِدَةٌ" ہے۔

ماضی مجہول کی علامات (با تفاعل)

آگے فرماتے ہیں۔ "وَأَنْ يَكُونَ أَوَّلُهُ وَثَانِيهِ مَضْمُومًا" "وَمَا قَبْلَ آخِرِهِ كَذَلِكَ فِيمَا فِي أَوَّلِهِ تَاءٌ زَائِدَةٌ"۔ اب فرماتے ہیں آگے کہ اگر اس کی اول میں یعنی پہلا حرف اور دوسرا حرف دونوں مضموم ہوں اور ما قبل آخر مقصور ہو یہ بھی علامت ہے کس کی فعل مجہول کی۔ ٹھیک ہے جی؟ کہ پہلا اور دوسرا حرف مضموم ہو اور ما قبل آخر اس کا اس طرح مقصور ہو۔

ماضی مجہول کی علامات (با استفعال)

البتہ یہ کہاں پر ہے جیسے مثال انہوں نے دی ہیں۔ "تُفُضِّلَ" سے "تُفُضِّلَ"۔ اب دیکھو نا جی "تُفُضِّلَ" "تَفَعَّلَ" سے "تُفُضِّلَ" اب "ت" پر بھی ضمہ ہے، "ف" پر بھی ضمہ ہے یعنی پہلا اور دوسرا دونوں کیا ہیں اس کے؟ مضموم ہیں۔ تو "تُفُضِّلَ" "ل" کا "م" پر "ض" جو ہے وہ مقصور ہے، یہ بن جائے گا "تُفُضِّلَ"۔ ٹھیک ہے جی؟ کہ پہلا اور دوسرا مضموم، ما قبل مقصور۔ کیوں؟ چونکہ اس کے آخر میں "تَاءٌ زَائِدَةٌ" ہے۔ "تَضَارَبَ" سے بن جائے گا "تُضُورِبَ" آگے بتائیں گے کہ یہ "تُضُورِبَ" کیسے بنا۔ ٹھیک ہے جی؟ خوب یہ بھی آسان ہو گیا۔ اچھا جی آگے یہ علامت اس کی ہو گئی آگے فرماتے ہیں۔ "وَأَنْ يَكُونَ أَوَّلُهُ وَثَالِثُهُ مَضْمُومًا وَمَا قَبْلَ آخِرِهِ كَذَلِكَ" جس کا پہلا اور تیسرا حرف وہاں تھا نا پہلا اور دوسرا۔ اب ہے کہ جس کا پہلا اور تیسرا حرف وہ مضموم ہو اور ما قبل آخر مقصور ہو۔ یہ کہاں ہوتا ہے؟ یہ وہاں ہوگا جس کی ابتداء میں "هَمْزَةُ وَصْلٍ" ہوگا۔ جیسے "اِسْتَخْرَجَ" سے بن جائے گا "أُسْتُخْرِجَ" "هَمْزَةُ" یہ بھی مضموم "أُسْتُخْرِجَ" "ت" جو تیسرا حرف ہے وہ بھی مضموم ہے۔ ما قبل مقصور ہے۔ کیوں؟ چونکہ یہاں پر ابتداء میں جو "هَمْزَةُ" ہے "هَمْزَةُ وَصْلٍ" ہے۔ لہٰذا "اِسْتَخْرَجَ" کا مجہول بنے گا "أُسْتُخْرِجَ" "اُقْتُدِرَ" کا بنے گا "أُقْتُدِرَ"۔ "وَالْهَمْزَةُ تَتْبَعُ الْمَضْمُومَ" "إِنْ لَمْ تُدْرَجْ" "هَمْزَةُ" تابع ہوگا حرف مضموم کے اگر وہ درج نہ ہو تو۔ اگر وہ ذکر نہ ہو تو۔ یعنی "هَمْزَةُ" حرف مضموم کے تابع ہو اگر درج میں یعنی ساکن نہ ہو اور حرف مقصور کے تابع نہیں ہوتا۔ خوب یہ تو آسان ہے۔ جیسے "أُسْتُخْرِجَ" "أُقْتُدِرَ"۔ یہ تو ہو گیا ماضی کا مجہول۔

 مضارع مجہول کی علامات

مضارع کا مجہول کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں یہ بھی اس طرح آسان ہے۔ مضارع کا مجہول کیا ہے؟ "أَنْ يَكُونَ حَرْفُ الْمُضَارَعَةِ مَضْمُومًا" کہ حرف مضارع مضموم ہوگا اور ما قبل آخر مفتوح ہوگا۔ جیسے "يَضْرِبُ" سے "يُضْرَبُ" "يَا" مضموم چونکہ حرف مضارع ہے اور "رَا" ما قبل آخر مفتوح ہے۔ "اِسْتَخْرَجَ" "يَسْتَخْرِجُ" "يَسْتَخْرِجُ" کو پڑھیں گے "يُسْتَخْرَجُ" "يُسْتَخْرَجُ" حرف مضارع مضموم اور ما قبل آخر مفتوح۔ ٹھیک ہو گیا جی؟

 باب مفاعلہ، افعال، تفعیل اور تفاعل میں مضارع مجہول

لیکن "بَابُ مُفَاعَلَةٍ" "بَابُ إِفْعَالٍ" "بَابُ فَعْلَلَةٍ" ٹھیک ہے جی؟ ان کا حکم کیا ہے؟ فرماتے ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ "إِنَّ الْعَلَامَةَ فِيهَا فَتْحُ مَا قَبْلَهَا" ما قبل کو فتح دینا۔ اب ذرا دیکھو نا "مُفَاعَلَةٍ" "ضَارَبَ يُضَارِبُ" وہاں حرف مضارع "يَا" پہلے سے ہی مضموم ہے تو یہاں فقط ما قبل آخر کو دیں گے "يُضَارَبُ" ما قبل کو فتح دیں گے تو وہ مجہول بن جائے گا "يُضَارَبُ"۔ "أَكْرَمَ يُكْرِمُ" "بَابُ إِفْعَالٍ" "يُكْرِمُ" مجہول بنائیں گے تو یہ بن جائے گا "يُكْرَمُ"۔ "بَابُ تَفْعِيلٍ" "صَرَّفَ يُصَرِّفُ" "يَا" پہلے سے ہی مضموم ہے فقط اس کے ما قبل آخر کو فتح دیں گے تو یہ بن جائے گا "يُصَرَّفُ"۔ "فَعْلَلَ" "دَحْرَجَ يُدَحْرِجُ" "يُدَحْرَجُ" پہلے سے ہی "يَا" مضموم ہے فقط ما قبل آخر کو فتح دیں گے تو یہ بن جائے گا "يُدَحْرَجُ" "يُدَحْرَجُ" یہ مجہول بن جائے گا یہ اس کی آسان۔

فعل اجوف میں مجہول

لیکن فرماتے ہیں اگر "فِي أَجْوَفَ" ماضی ہے "وَفِي أَجْوَفَ" ماضی "قِيلَ" و "بِيعَ" اگر اجوف کا ہے وہ جیسے "قَالَ يَقُولُ" "أَجْوَف" جس کا "عَيْنُ الْكَلِمَةِ" حرف علت ہو۔ ٹھیک ہے جی؟ وہ "أَجْوَفُ وَاوِيٌّ" ہوگا جس کا "عَيْنُ الْكَلِمَةِ" "يَا" ہو وہ "أَجْوَفُ يَائِيٌّ" ہوگا۔ فرماتے ہیں "أَجْوَف" میں ماضی کیا تھا "قَالَ قَالَا قَالُوا" "أَجْوَفُ وَاوِيٌّ" میں "أَجْوَفُ يَائِيٌّ" میں ماضی کیا تھا "بَاعَ بَاعَا بَاعُوا" اب اگر ہم ان کا بنائیں گے مجہول تو اس کا مجہول کیا ہوگا؟ "قَالَ" کا مجہول ہوگا "قِيلَ" ماضی مجہول اور "ي" جو واوی کا ہے اور "بَاعَ" "أَجْوَفُ يَائِيٌّ" کا ماضی مجہول بنے گا "بِيعَ"۔ یہ "بِيعَ" یہ اس طرح ہوگا۔

6

اشمام کیسے کہتے ہیں

"وَبِالْإِشْمَامِ" اس "قِيلَ" اور "بِيعَ" کو اشمام کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ "وَبِالْوَاوِ" اور "وَاو" کے ساتھ بھی۔ اب تھوڑی سی توجہ کرنی ہے تھوڑی سی نئی بات ہے۔ یہ ایک لفظ آیا ہے "إِشْمَام"۔ ٹھیک ہے جی؟ اب اس کو ذرا دیکھنا ہے کہ یہ "إِشْمَام" کیا ہے؟ "إِشْمَام" کسے کہتے ہیں؟ اب اس کو لکھ لو کتاب پر لکھا ہوا نہیں ہے۔ إشمام كسے كہتے ہيں؟ آپ جواب دیں گے۔ "كَسْرَةً بِضَمَّةٍ" کو ضمہ کی اور "يَاءً بِوَاوٍ بُوًّا" کی بو دینا۔ تھوڑا اس کا او دینا یہ "إِشْمَام" کہلاتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ کسرہ کو ضمہ کی اس لیے تاکہ یہ پتہ چلے کہ یہاں اصل میں ضمہ تھا۔ "يَا" کو "وَاو" کی بو اس لیے دینی ہے تاکہ یہ پتہ چلے کہ یہاں اصل میں "وَاو" تھی "يَا" نہیں تھی۔ تو پس گویا "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّدٌ أَجْوَفُ وَاوِيٌّ أَوْ يَائِيٌّ" گویا اس میں ہم تین لغات پڑھ سکتے ہیں۔ "يَا" کے ساتھ بھی، "إِشْمَام" کے ساتھ بھی اور "وَاو" کے ساتھ بھی۔ "بِيعَ" بھی پڑھ سکتے ہیں "بُوعَ" بھی پڑھ سکتے ہیں۔ "قِيلَ" بھی پڑھ سکتے ہیں "قُولَ" بھی پڑھ سکتے ہیں اور "إِشْمَام" کے ساتھ بھی اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ "قِيلَ" اور "بُوعَ" کیا پڑھیں گے؟

7

اُخْتيرَ اور اُنْقيدَ کا حکم

"وَكَذَلِكَ بَابُ افْتِعَالٍ"

فرماتے ہیں "بَابُ افْتِعَالٍ" "اِخْتَارَ يَخْتَارُ" "أُخْتِيرَ" "بَابُ افْتِعَالٍ" "وَانْقَادَ" "بَابُ اِنْفِعَالٍ" ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرماتے ہیں "اِخْتَارَ" کا مجہول "أُخْتِيرَ" اور "اِنْقَادَ" کا مفعول "أُنْقِيدَ" یہ پڑھیں گے۔ لیکن "دُونَ اُسْتُخِيرَ وَأُقِيمَ" کیوں؟ "لِفَقْدِ فُعِلَ فِيهِمَا" اب ذرا توجہ کرنی ہے۔ فرماتے ہیں "أُخْتِيرَ" اور "أُنْقِيدَ" یہ تو ہم پڑھتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ لیکن "اُسْتُخِيرَ" اور "أُقِيمَ" نہ۔ کیوں؟ وجہ اس کی وجہ یہ ہے۔ وجہ آگے ذکر کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں اس لیے فرماتے ہیں "بَابُ اسْتِفْعَالٍ" اور "إِفْعَالٍ" کی ماضی میں جب "مُعْتَلُّ الْعَيْنِ" ہو تو اس میں وجوہ ثلاثہ جائز نہ ہوں گی، کیوں؟ اس لیے کہ باعتبار اصل کے ما قبل حرف علت ان میں ساکن ہے، لہٰذا "قِيلَ" اور "بِيعَ" کی طرح ہوں گے۔ "أُسْتُخِيرَ" پڑھیں گے، اچھا اچھا۔

 مضارع اجوف میں مجہول

اب فرماتے ہیں یہ ہو گیا۔ آگے "وَفِي مُضَارِعِهِ" فرماتے ہیں مضارع میں کیا کریں گے؟ "تُقْلَبُ الْعَيْنُ أَلِفًا" "عَيْنُ الْكَلِمَةِ" الف میں تبدیل کر دیں گے۔ "يَقُولُ" سے بن جائے گا "يُقَالُ" "وَاو" الف میں تبدیل ہو گئی۔ "يَبِيعُ" سے ہو جائے گا "يُبَاعُ" یہ وہی "يَا" الف میں تبدیل ہو گئی۔ یہ بن گیا "فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَجْهُولٌ"۔ "كَمَا عَرَفْتَ فِي التَّصْرِيفِ الْمُسْتَذْكَرِ" یہ "تَصْرِيف" میں باتیں یہ اصل ساری "عِلْمُ الصَّرْفِ" کا موضوع ہے اور وہاں ہی یہی پڑھی جاتی ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ خوب۔ باقی ان شاء اللہ اگلا درس لازم متعدی کے بارے میں ہے اس کو علیحدہ پڑھیں گے۔ 

صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

فَمَنْ يَرْحَمْنا ، أو دعاء كقولك : إنْ أكْرَمْتَنا فَيَرْحَمْكَ اللهُ. وقد يقع «إذا» مع الجملة الاسميّة موضع الفاء كقوله تعالى : «وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ» (١).

وإنّما يقدّر «إنْ» بعد الأفعال الخمسة الّتي هي : الأمر نحو : تَعَلَّمْ تَنْجَحْ ، والنهي نحو : لا تكْذِبْ يَكُنْ خَيْراً ، والاستفهام نحو : هَلْ تَزُورُنا نُكْرِمْكَ ، والتمنّي نحو : لَيْتَكَ عِنْدي أخْدِمْكَ ، والعرض نحو : ألا تَنْزلُ بِنا تُصِبْ خَيْراً.

كلّ ذلك إذا قصد أنّ الأوّل سبب للثاني كما رأيت في الأمثلة ، فإنّ معنى قولك : تَعَلَّمْ تَنْجَحْ ، هو إنْ تتعلّمْ تنجحْ ، وكذلك البواقي ، فلذلك امتنع قولك : لا تكْفُرْ تَدْخُلِ النارَ لامتناع السببيّة إذ لا يصحّ أن يقال : إنْ لا تكفرْ تدخُلِ النارَ.

القسم الثالث : الأمر

وهو فعل يطلب به الفعل من الفاعل المخاطب ك‍ : اضْربْ ، واغْزُ ، وارْمِ ، بأن تحذف من المضارع حرف المضارعة ثمّ تنظر فإن كان ما بعد حرف المضارعة ساكناً زِدْتَ همزة الوصل مضمومة إن انضمّ ثالثه نحو : انْصُرْ ، ومكسورة إن انفتح ثالثه ك‍ : اعْلَمْ ، أو انكسر ثالثه كاضْرِبْ واسْتَخْرجْ ، وإن كان متحرّكاً فلا حاجة إلى الهمزة نحو : عِدْ ، وحاسِبْ ، وباب الإفعال من القسم الثاني. وهو مبني على علامة الجزم كما في المضارعة نحو : اِضْربْ ، واغْزُ ، وارْمِ ، واسْعَ ، واضْربا ، واضْربُوا ، ودَحْرِجْ.

____________________________

(١) الروم : ٣٠.

فصل : فعل ما لم يسمّ فاعله

هو فعل حذف فاعله واُقيم المفعول به مقامه ويختصّ بالمتعدّي.

وعلامته في الماضي أن يكون لفظ الأوّل مضموماً فقط ، وما قبل آخره مكسوراً ، وذلك في الأبواب الّتي ليس في أوائلها همزة وصل ، ولا تاء زائدة نحو : ضُرِبَ ودُحْرِجَ ، وأن يكون أوّله مضموماً وما قبل آخره مكسوراً وذلك فيما أوّله تاء زائدة نحو : تُفُضِّلَ وتُقُورِئ ، أو يكون أوّل حرف متحرّك منه مضموماً وما قبل آخره مكسوراً فيما أوّله همزة وصل نحو : اُسْتُخْرِجَ واقْتُدِرَ ، والهمزة تتبع المضموم إن لم تدرج.

وفي المضارع أن يكون حرف المضارع مضموماً وما قبل آخره مفتوحاً نحو : يُضْرَبُ ويُسْتَخْرَجُ ، إلّا في باب الإفعال والتّفعيل والمفاعلة والفعللة وملحقاتها ، فإنّ العلامة فيها فتح ما قبل الآخر نحو : يُحاسَبُ ويُدَحْرَجُ.

وفي الأجوف ماضيه مكسورة الفاء نحو : بيعَ وقِيلَ ، والإشمام نحو : قُيْلَ وبُيْعَ ، وبالواو نحو : قُولَ وبُوعَ.

وكذلك باب اُخْتيرَ وانْقيدَ ، دون اُسْتُخيرَ واُقيمَ لفقدان «فُعِلَ» فيهما. ومضارعه تقلب العين ألفاً نحو : يُقالُ ويُباعُ كما مرّت في التصريف مستقصىً.

فصل : [الفعل المتعدى و اللازم‏]

الفعل إمّا متعدٍّ وهو ما يتوقّف فهم معناه على متعلّق غير الفاعل ك‍ : ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً ، وإمّا لازم وهو ما بخلافه ك‍ : قَعَدَ زَيْدٌ.

والمتعدّي يكون إلى مفعول واحد ك‍ : ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْراً ، وإلى مفعولين ك‍ : أعْطىٰ زَيْدٌ عَمْراً دِرْهَماً ، ويجوز فيه الاقتصار على أحد