درس الهدایة في النحو

درس نمبر 48: فاء کا استعمال

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فاء کا لانا

 "وَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْجَزَاءُ أَحَدَ الْقِسْمَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ فَيَجِبُ الْفَاءُ فِيهِ"

گزشتہ درس کا اختتام یہ ہوا تھا کہ اگر جملہ جزا میں فعل ماضی استعمال ہو بغیر "قد"  تو جزا پر "فا" کا لگانا جائز ہی نہیں۔ اور دوسرا یہ تھا کہ اگر مضارع مثبت ہو یا  منفی بلا  ہو تو پھر جائز ہے۔ چاہیں تو "فا" لگا سکتے ہیں، چاہیں تو نہیں لگا سکتے۔

آج کا درس یہاں سے شروع ہو رہا ہے کہ اگر ان دو قسموں میں سے نہ ہو۔ تو پھر جزا پر "فا " کا لگانا واجب ہے۔

 چار صورتوں میں فا کا لگانا واجب ہے

جملہ جزا پر "فا" کا لگانا چار صورتوں میں واجب ہے۔ 

۱۔اگر جزا فعل ماضی قد کے ساتھ ہو۔

۲۔اگر فعل مضارع منفی ہو بغیر "لا" یعنی اس میں حرف نفی "لا" نہیں بلکہ کوئی اور استعمال ہوا ہو ۔ 

۳۔اگر جملہ جزائیہ فعلیہ نہ ہو بلکہ وہ جملہ اسمیہ ہو۔ 

۴۔اگر وہ جملہ جزا خبریہ نہ ہو بلکہ انشائیہ ہو۔ اب انشائیہ امر ہو یا نہی ہو فرق نہیں پڑتا۔ انشائیہ ہو تو ان چار مقامات پر ان چار سورتوں میں جزا پر "فا" کا لانا واجب ہے۔

 واجب کی صورتوں کی مثالیں

"ماضی قد کے ساتھ ہو" جیسے آیت ہے۔ "إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ"۔ چونکہ "سَرَقَ" سے پہلے "قد" آیا تھا لہذا "فا" کا لانا ضروری۔ مضارع منفی ہو بغیر "لا" کے، "وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ" چونکہ یہاں "لا" نہیں بلکہ "لن" استعمال ہوا ہے نفی کے لیے لہذا "فا" کا لانا واجب ہے۔ اگر جزا جملہ فعلیہ نہ ہو بلکہ اسمیہ ہو "مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا"۔ "فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا" چونکہ جملہ اسمیہ ہے لہذا "فا" کا لانا واجب ہے۔ اور اگر جملہ انشائیہ ہو اب انشاء  چاہے امر ہو چاہے نہی ہو۔ امر ہو "إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي"۔ اب چونکہ یہ امر ہے "فَاتَّبِعُونِي" لہذا "فا" کا لانا واجب ہے۔ اگر نہی ہو تو بھی یہی حکم ہے "فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ"۔ اب "فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ" نہی ہے جملہ انشائیہ ہے لہذا "فا" کا لگانا واجب ہے۔ 

 فاء کے احکامات کی درجہ بندی

اب اس کی ترتیب بنائیں گے تو پھر آپ کو زیادہ آسان ہو جائے گا۔ کاپی پر لکھ لیں۔

۱۔ ایک مقام وہ ہے کہ جس پر "فا" کا لگانا جائز ہی نہیں۔ وہ کون سا ہے؟ کہ اگر جزا فعل ماضی بغیر "قد" کے ہو۔ آگے ۲۔ایک مقام پر "فا" کا لانا جائز ہے۔ یعنی "و جہان" جائز ہیں۔ جی چاہے تو "فا" لگاؤ، جی چاہے تو "فا" نہ لگاؤ۔ وہ کون سا مقام ہے؟ کہ اگر جزاء  فعل مضارع مثبت" ہو یا منفی بلا ہو۔ اور چار مقامات ایسے ہیں جو ابھی ہم نے پڑھے ہیں یہ وہ ہیں کہ جہاں "فا" کا لانا واجب ہے۔ "لازم ہے یہاں "فا" کو ہر حال میں ذکر کیا جائے گا۔

4

جہاں جزا پر فاء کا لانا واجب ہے

فرماتے ہیں:  "وَإِنْ لَّمْ يَكُنِ الْجَزَاءُ أَحَدَ الْقِسْمَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ" اگر جزاء ان سابقہ دو قسموں میں سے نہ ہو۔ کون سی سابقہ دو قسمیں؟ یعنی اگر جزاء  ماضی بغیر قد  کے نہ ہو یا  مضارع مثبت  نہ ہو یا منفی ہو لیکن "لا" کے علاوہ کسی اور کے ساتھ"۔ لہذا  وہ دو قسمیں اگر نہ ہوں "فَيَجِبُ الْفَاءُ فِيهِ" تو وہاں پر جزا پر "فا" کا لانا واجب ہے۔ "فا" کا لانا  واجب ہے۔ پس پہلی صورت میں جائز ہی نہیں تھا۔ دوسری صورت میں لانا یا نہ لانا دونوں صورتیں جائز تھیں۔ تیسرا آگیا کہ "فا" کو لانا  واجب ہے۔ "وَذَلِكَ فِي أَرْبَعِ صُوَرٍ"۔ فرماتے ہیں چار مقامات ایسے ہیں جہاں پر جزا پر "فا" کو لانا  واجب ہے۔

 پہلی صورت: ماضی مع قد

"أَنْ يَكُونَ الْجَزَاءُ مَاضِيًا مَعَ قَدْ" اگر جزا فعل ماضی ہو لیکن قد کے ساتھ۔ جیسے آیت ہے۔ "إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ"۔ اب "سَرَقَ" سے پہلے "قد" تھا لہذا اب یہاں "فا" کو لانا  واجب ہے۔ یہ حضرت یوسف والے قصے میں ہے۔

 دوسری صورت: مضارع منفی بغیر لا

"وَالثَّانِيَةُ" دوسرا مقام "أَنْ يَكُونَ مُضَارِعًا مَنْفِيًّا بِغَيْرِ لَا"۔ "مضارع ہے، منفی ہے لیکن اس کی نفی میں حرف "لا" کو نہیں لایا گیا بلکہ حرف "لا" کے علاوہ کسی اور حرف کے ذریعے اگر اس کی نفی کی گئی ہے تو وہاں پر بھی "فا" کو لگانا واجب ہے۔ یہ بھی آیت مجیدہ ہے۔ "وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ"۔ اب یہاں "يُقْبَلُ" کی نفی "لا" کے ذریعے نہیں بلکہ "لن" کے ساتھ کی گئی ہے، یہ بھی نفی کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ لہذا یہاں "فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ" پڑھیں گے "فا" کو لانا واجب ہے۔

 تیسری صورت: جملہ اسمیہ

تیسری صورت "أَنْ يَكُونَ جُمْلَةً اسْمِيَّةً"۔ کہ اگر جزاء جملہ فعلیہ نہ ہو بلکہ جزاء جملہ اسمیہ ہو  پھر بھی "فا" کو لانا واجب ہے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے۔ "مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا"۔ چونکہ "لَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا" جملہ اسمیہ تھا، فعلیہ نہیں تھا لہذا "فا" کو لانا واجب ہے اس لیے پڑھا گیا ہے "فَلَهُ"۔

 چوتھی صورت: جملہ انشائیہ

چوتھا مقام جہاں جزا پر "فا" کو لانا واجب ہے وہ ہے "أَنْ يَكُونَ جُمْلَةً إِنْشَائِيَّةً"۔ کہ اگر جزاء جملہ انشائیہ ہو اب انشائیہ میں "إِمَّا أَمْرًا" چاہے وہ امر ہو جیسے "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي"۔ اب "فَاتَّبِعُونِي" چونکہ "امر" تھا، جملہ انشائیہ  ہے لہذا "فَاتَّبِعُونِي" "فا" کا لگانا واجب ہے "وَإِمَّا نَهْيًا" یا وہ "انشائیہ  امر نہ ہو بلکہ انشائیہ  نہی ہو۔ جیسے "فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ"۔ اب "فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ" نہی تھا تو فرماتے ہیں اب یہ انشائیہ تھا لہذا اس پر بھی "فا" کا لگانا واجب تھا اس لیے آیت مجیدہ ہے "فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ"۔

5

فاء کی جگہ پر اِذا کو لانا

آگے فرماتے ہیں:  "قَدْ يقع «إذا» مَعَ الْجُمْلَةِ الْاسْمِيَّةِ مَوْضِعَ الْفَاءِ"۔ "کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر جزا جملہ اسمیہ ہو تو وہاں "فا" کی بجائے "اذا" کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ یعنی بسا اوقات اگر جزاء جملہ اسمیہ ہو" تو وہاں پر "فا" کی بجائے "اذا" کا استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن مجید کی آیت ہے۔ "وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ"۔ یعنی "فَهُمْ يَقْنَطُونَ" نہیں بلکہ "إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ"۔ جہاں "فا" کی بجائے "اذا" آ گیا ہے۔ کیوں؟ چونکہ یہ جملہ اسمیہ ہے، خبریہ ہے۔

6

وہ مقامات جہاں اِنْ مقدر ہوتی ہے

 انہوں نے کہا تھا  کہ بسا اوقات ان مقدر بھی ہوتا ہے۔ پانچ افعال کے بعد  ان مقدر ہوتا ہے۔ پانچ افعال کے بعد ان مقدر ہوتا ہے۔ 

ان مقدر ہونے والے پانچ افعال

۱۔ "امر" کے بعد۔

۲۔ "نہی" کے بعد۔

۳۔"استفہام" کے بعد۔

۴۔ "تمنی" کے بعد۔

۵۔ "عرض" کے بعد۔

 آگے ان کی مثالیں دی گئی ہیں۔ فرماتے ہیں: "إِنَّمَا تُقَدَّرُ إِنْ بَعْدَ الْأَفْعَالِ الْخَمْسَةِ"۔ پانچ افعال کے بعد "ان" کو مقدر کیا جاتا ہے۔ یعنی ان کے بعد "ان" ہوتا ہے لیکن مقدر۔ وہ پانچ کون کون سے ہیں؟ "الَّتِي" یعنی وہ افعال خمسہ  ہیں نمبر ایک "هِيَ الْأَمْرُ" پہلا ہے  امر۔ جیسے "تَعلَم تَنجَح"۔  دوسرا ہے  نہی۔ "لا تَکذِب یَکُن لَک" "یَکُن خَیراً لَک"۔ اور استفہام کے بعد جیسے "هَل تَزُورُنا نُکرِمکَ"۔ تمنی کے بعد "لَیتَکَ عِندِی اُخدِمکَ"۔ اور "عرض" کے بعد "اَلَا تَنزِل بِنَا فَتُصِیبَ خَیراً"۔ 

 بعض اوقات نفی کے بعد ان مقدر ہوتا ہے

آگے فرماتے ہیں : "وَبَعْدَ النَّفْيِ فِي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ" اور بعض مقامات پر تو نفی کے بعد بھی "ان" مقدر ہوتا ہے۔ جیسے "لَا تَفعَل شَراً یَکُن خَیراً لَکَ"۔ یہ عبارت میں تھوڑا سا میری کتاب کے مطابق۔ "لَا تَفعَل شَراً یَکُن خَیرا ًلَکَ" 

 نفی کے بعد ان مقدر ہونے کی مزید تشریح

"نفی کے بعد بھی ان مقدر ہوتا ہے بعض مقامات پر جیسے "لَا تَفعَل شَراً یَکُن خَیراً لَکَ"۔ "لَا تَفعَل شَراً " شر کو انجام نہ دے "اِن لَم تَفعَل" اگر تو ایسا نہیں کرے گا "یَکُن خَیراً لَکَ" یہ تیرے لیے بہتر ہو گا۔ ٹھیک ہے جی؟ فرماتے ہیں یہ جو بحث ہے تھوڑی سی توجہ کرنی ہے اس میں۔ فرماتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ بعض اوقات نفی کے بعد بھی یہ مقدر ہوتا ہے جیسے "لَا تَفعَل شَرا ًیَکُن خَیراً لَکَ" فرماتے ہیں یہ اس وقت ہو گا کہ جب تیرا قصد  یہ ہو کہ پہلا سبب بنتا ہے دوسرے کے لیے۔ جیسے ہم نے کہا ہے "لَا تَفعَل شَراً" شر کو انجام نہ دے، غلط کام نہ کر "یَکُن خیَراً لَکَ" تیرے لیے بہتر ہو گا، خیر ہو گی۔ تو اب یہ شر نہ کرنا یہ سبب تھا خیر کے لیے، اچھائی کے لیے۔ یہ جیسے "تَعَلَّم" تعلیم حاصل کر "اَن تَتَعَلَم" اگر تو تعلیم حاصل کرے گا "تَنُجو" تو نجات پا جائے گا۔ ٹھیک ہے جی؟ پس یعنی اصل میں کیا ہے "تَعَلَّم اِن تَتَعَلَّم تَنجُو"۔ "لَا تَکذِب یَکُن خَیراً لَکَ" یعنی "لَا تَکذِب اِن لَم تَکذِب یَکُن خَیراً لَکَ"۔ اسی طرح "استفہام" میں "هَل تَزُورُنَا" اب اس کے بعد پھر آئے گا "اَن تَزُورَنَا نُکرَمکَ"۔ "تمنی" کے بعد "لَیتَکَ عِندِی اُخدِمکَ"  یعنی "لَیتَکَ اِن َلم تَکُن عنِدِی اُخدِمکَ"۔ ٹھیک ہے؟ "عرض" کے بعد "اَلَا تَنزِل بِنَا فَتُصِیبَ خَیراً " یعنی "اَلَا تَنزِل بِنَا اَن تَنزِل بِنَا فَتُصِیبَ خَیراً"۔ یہ تو ہو گئی ان کی مثالیں۔ دوسرا جو ہم نے کہا ہے کہ بعض اوقات یہ نفی کے بعد بھی یہی "ان مقدر" ہوتا ہے جیسے "لَا تَفعَل شَراً یَکُن خَیراً لَکَ"۔ البتہ فرماتے ہیں یہ ساری بات تب ہے "إِذَا قُصِدَ أَنَّ الْأَوَّلَ سَبَبٌ لِلثَّانِي"۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب "قصد" یہ کیا جائے کہ پہلی چیز دوسری کے لیے سبب ہے۔ یعنی اگر وہ نہ ہوتا تو یہ نہ ہوتا۔ "كَمَا رَأَيْتَ فِي الْأَمْثِلَةِ" مثالوں میں بھی یہی ہے۔ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ "تَعلَّم تَنُُجو" یعنی کیا مطلب؟ کہ تو تعلیم حاصل کر "اِن لَم تَتََعَلَم" اگر تو نہیں حاصل کرے گا "اَن تَتَعَلّّم" اگر تو حاصل کرے گا تو "تَنجُو" تو نجات پائے گا۔ اب اس کا مطلب ہے علم حاصل کرنا سبب نجات ہے۔ اسی طرح تیرا آنا وہ سبب بنے گا کہ میں تیرا اکرام کروں گا الا آخر۔

 سبب نہ     بننے کی صورت میں حکم

"فَلِذَلِكَ امْتَنَعَ قَوْلُكَ لا تَكْفُرْ تَدْخُلِ النَّارَ"۔ فرماتے ہیں اگر آپ کا قصد یہ ہو کہ یہ پہلی چیز دوسری کے لیے سبب بنتا ہے یعنی ان کا ماقبل بعد میں جو ہم اَن مقدر کر رہے ہیں کہ یہ دوسرے کے لیے سبب بنتا ہے تو پھر جائز ہے۔ جہاں سبب بننا جائز نہ ہو گا وہاں ایسا دشن ہو گا۔ فرماتے ہیں اب یہ ایک جملہ ہے ذرا غور کرنا۔ "لَا تَكفُر تَدخُلِ النَّارَ" کہنا صحیح نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہاں سبب ممتنع ہے یعنی یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ "اَن لَا تَكفُر تَدخُلِ النَارَ" کہ اگر تو کفر نہ کرتا تو نار میں نہ جاتا۔ ایسا نہیں ہے چونکہ یہ "اَن لَا تَكفُر" یعنی کافر نہ ہونا سبب نہیں بن سکتا دخول نار کے لیے تو اس لیے وجہ سے فرماتے ہیں کہ یہ تب ہو گا کہ جب سبب بنانا بھی صحیح ہو گا۔

  وصل الله على محمد واله محمد

على أنّ الاُولىٰ سبب للثانية ، وتسمّى الاُولى شرطاً ، والثانية جزاء ، ثمّ إن كان الشرط والجزاء مضارعين يجب الجزم فيهما نحو : إنْ تُكْرِمْني اُكْرِمْكَ ، وإن كانا ماضيين لم يعمل فيهما لفظاً نحو : إنْ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُ ، وإن كان الجزاء وحده ماضياً يجب الجزم في الشرط نحو : إنْ تَضْربْني ضَرَبْتُكَ ، وإن كان الشرط وحده ماضياً جاز فيه الوجهان نحو : إنْ جِئْتَني اُكْرِمْكَ ، وإنْ أكْرَمْتَني اُكْرِمُكَ.

واعلم أنّه إذا كان الجزاء ماضياً بغير قد لم يجز الفاء فيه نحو : إنْ أكْرَمْتَني أكْرَمْتُكَ ، قال الله تعالى : «وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا» (١).

وإن كان مضارعاً مثبتاً أو منفيّاً جاز الوجهان نحو : إنْ تَضْربْني أضْرِبْكَ أو فَأضْرِبْكَ ، وإن تَشْتِمْني لا أضْربْكَ أو فَلا أضْربْكَ.

وإن لم يكن الجزاء أحد القسمين المذكورين يجب الفاء ، وذلك في أربع صور : إحداها : أنْ يكون الجزاء ماضياً مع «قد» كقوله تعالى : «إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ» (٢).

الثانية : أنْ يكون الجزاء مضارعاً منفياً بغير لا نحو قوله تعالى : «وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ» (٣).

الثالثة : أنْ يكون جملة اسميّة كقوله تعالى : «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا» (٤).

الرابعة : أنْ يكون جملة انشائيّة إمّا امراً كقوله تعالى : «قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي» (٥) ، وإمّا نهياً كقوله تعالى : «فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ» (٦) ، أو استفهاماً كقولك : إنْ تَرَكْتَنا

____________________________

(١) آل عمران : ٩٧.

(٤) الانعام : ١٦٠.

(٢) يوسف : ٧٧.

(٥) آل عمران : ٣١.

(٣) آل عمران : ٨٥.

(٦) الممتحنة : ١٠.

فَمَنْ يَرْحَمْنا ، أو دعاء كقولك : إنْ أكْرَمْتَنا فَيَرْحَمْكَ اللهُ. وقد يقع «إذا» مع الجملة الاسميّة موضع الفاء كقوله تعالى : «وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ» (١).

وإنّما يقدّر «إنْ» بعد الأفعال الخمسة الّتي هي : الأمر نحو : تَعَلَّمْ تَنْجَحْ ، والنهي نحو : لا تكْذِبْ يَكُنْ خَيْراً ، والاستفهام نحو : هَلْ تَزُورُنا نُكْرِمْكَ ، والتمنّي نحو : لَيْتَكَ عِنْدي أخْدِمْكَ ، والعرض نحو : ألا تَنْزلُ بِنا تُصِبْ خَيْراً.

كلّ ذلك إذا قصد أنّ الأوّل سبب للثاني كما رأيت في الأمثلة ، فإنّ معنى قولك : تَعَلَّمْ تَنْجَحْ ، هو إنْ تتعلّمْ تنجحْ ، وكذلك البواقي ، فلذلك امتنع قولك : لا تكْفُرْ تَدْخُلِ النارَ لامتناع السببيّة إذ لا يصحّ أن يقال : إنْ لا تكفرْ تدخُلِ النارَ.

القسم الثالث : الأمر

وهو فعل يطلب به الفعل من الفاعل المخاطب ك‍ : اضْربْ ، واغْزُ ، وارْمِ ، بأن تحذف من المضارع حرف المضارعة ثمّ تنظر فإن كان ما بعد حرف المضارعة ساكناً زِدْتَ همزة الوصل مضمومة إن انضمّ ثالثه نحو : انْصُرْ ، ومكسورة إن انفتح ثالثه ك‍ : اعْلَمْ ، أو انكسر ثالثه كاضْرِبْ واسْتَخْرجْ ، وإن كان متحرّكاً فلا حاجة إلى الهمزة نحو : عِدْ ، وحاسِبْ ، وباب الإفعال من القسم الثاني. وهو مبني على علامة الجزم كما في المضارعة نحو : اِضْربْ ، واغْزُ ، وارْمِ ، واسْعَ ، واضْربا ، واضْربُوا ، ودَحْرِجْ.

____________________________

(١) الروم : ٣٠.