درس الهدایة في النحو

درس نمبر 47: فعل مضارع کو جزم دینے والے عوامل

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل مضارع کو جزم دینے والی چیزیں

 "اَلْمَجْزُوْمُ عَامِلُہُ"۔ بحث ہماری چل رہی تھی فعل مضارع کی۔ ہم نے کہا تھا فعل مضارع مرفوع بھی ہوتا ہے، منصوب بھی ہوتا ہے، مجزوم بھی ہوتا ہے۔ مرفوع میں عامل رفع کیا تھا؟ ہم نے کہا تھا ناصب اور جازم سے خالی ہونا۔ منصوب کب ہوتا ہے؟ جب ان پانچ حروف ناصبہ میں سے کوئی ایک آجائے۔ آج کا آغاز درس ہو رہا ہے کہ یہ فعل مضارع مجزوم ہوتا ہے تو اس کو جزم کیا چیز دیتی ہے؟ جواب: فعل مضارع کو جزم دینے والے عوامل پانچ ہیں: فعل مضارع کو جزم دینے والے جن کو عوامل جازمہ کہیں گے وہ پانچ ہیں: "لَمْ"، "لَمَّا"، "لَامِ اَمْر"، "لَاءِ نَہْی" اور "اَدَاتِ شَرْط" جن کو کلمہ مجازات کہہ رہے ہیں یعنی ادات شرط۔ ادات شرط کون سے ہیں؟ "اِنْ"، "مَھْمَا"، "اِذْمَا"، "حَیْثُمَا"، "اَیْنَ"، "مَتٰی"، "مَا"، "مَنْ"، "اَیٌّ"، "اَنَّی" اور "اِنْ مُقَدَّرَہ"۔ بسا اوقات "اِنْ" لفظاً موجود ہوتا ہے، بسا اوقات "اِنْ" مقدر ہوتا ہے ان شاءاللہ مثالوں میں پڑھیں گے۔ پس یہ پانچ چیزیں، لَم، لَمَّا، لام امر اور لائے نہی چار حروف اوراسماء ادات شرط  ہیں یہ جو ادات شرط یا کلمہ مجازات کہہ رہے ہیں چونکہ کچھ ہوتے ہیں حروف شرط اور کچھ ہوتے ہیں اسمائے شرط۔ مثلاً "اِنْ" اور "اِذْمَا"، "اِنْ" اور "اِذْمَا" یہ دو ہوتے ہیں ان کو کہتے ہیں حروف شرط۔ باقی مَہماَ، حَیثُمَا، اَینَ، مَتَی ان کو کہا جاتا ہے اسمائے شرط اور ان سب کو کہا جاتا ہے کلمہ، کلم المجازات یا ادات شرط وغیرہ۔اب فرماتے ہیں، پوری توجہ کے ساتھ آغا۔ کہ یہ جو عامل ہیں لم لما لام امر لای نہی، یہ ایک کام تو لفظی کرتے ہیں۔ ایک ان کا ہے اثر لفظی۔ اثر لفظی کیا ہے؟ کہ یہ فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں۔ اگر صحیح میں سے ہوگا تو آخر کو ساکن کر دیں گے اور اگر ناقص وغیرہ میں سے ہوگا تو اس کا لام الفعل گرا دیتے ہیں۔ اور کچھ معنی میں بھی یہ تبدیلیاں کرتے ہیں۔ معنی میں کیا؟ مثلاً فرماتے ہیں یہ لَم اور لَمَّا، مضارع کو ماضی منفی میں تبدیل کرتے ہیں۔ بہت توجہ۔ یعنی یضرب کا معنی ہوگا وہ مارتا ہے یا مارے گا لیکن جب اس پر آجائے گا "لَمْ یَضْرِبْ" یا "لَمَّا یَضْرِبْ" پھر یہ ماضی منفی میں تبدیل ہوتا ہے کہ اس نے نہیں مارا۔ یہ دونوں مضارع کو ماضی منفی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

4

لم اور لما میں فرق

کیالم اور لما کے درمیان کوئی فرق بھی ہے؟ تو ہمارا جواب ہوگا جناب اس لما اور لم کے درمیان کچھ فرق ہیں نمبر ایک: لما وہاں استعمال کیا جاتا ہے کہ جہاں بعد میں اس کام کے ہونے کی توقع بھی ہو۔ اور جہاں اس کام کے بعد میں ہونے کی توقع ہی نہ ہو وہاں لما کا استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی "لَمَّا یَضْرِبْ" وہاں کہیں گے جب بعد میں توقع ہو کہ وہ مارے گا اور جہاں توقع ہی نہ ہو وہاں لما کا استعمال نہیں ہوتا۔ یہ فرق ہو گیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ لما کے فعل مجزوم کو حذف کیا جا سکتا ہے لیکن لم کے فعل کو حذف کرنا جائز، یعنی ہم اگر لما کہیں اور اس کے بعد اس کا فعل مضارع مجزوم ذکر نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں، پھر بھی معنی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر لم ہے تو لم کے بعد اس کے فعل کو حذف کرنا اور اس کو ذکر نہ کرنا یہ جائز نہیں ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ یہ تو ہو گئی مختصر سی بات یہاں کی۔ اس کا ترجمہ کر لیتے ہیں پھر آگے کلمہ مجازات کو اور حروف شرط کی بحث کو آگے شروع کرتے ہیں تاکہ آپ کے لیے آسانی ہو جائے۔

 ترجمہ

"فَصْلٌ" فرماتے ہیں "اَلْمَجْزُوْمُ" کہ جو فعل مضارع مجزوم ہوتا ہے "عَامِلُہُ" اس فعل مضارع مجزوم کے عامل کتنے ہیں؟ جواب ہوگا پانچ۔ "لَمْ"، "لَمَّا"، "لَامِ اَمْر"، "لَافِ نَہْی" لائے نہی، چار ہو گئے "وَکَلِمُ الْمُجَازَاتِ" کلم المجازات یعنی وہی ادات شرط حروف شرط ان کو کہتے ہیں۔ کلمہ مجازات کون کون سے ہیں؟ چونکہ وہاں پر ظاہر ہے ایک شرط ہوتی ہے ایک جزا ہوتی ہے تو ان کو کہتے ہیں کلمہ مجازات۔ فرماتے ہیں: وہ یہ ہیں: "اِنْ"، "مَھْمَا"، "اِذْمَا"، "حَیْثُمَا"، "اَیْنَ"، "مَتٰی"، "مَا"، "مَنْ"، "اَیٌّ"، "اَنَّی" اور آخری ہے "وَاِنِ الْمُقَدَّرَۃِ" اور ان مقدرہ۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ یہ تو ہو گئے فعل مضارع کو جزم دینے والے، عوامل جازمہ۔ مثلاً یَضرِبُ کو ہم پڑھیں گے "لَمْ یَضْرِبْ" باء ساکن ہو جائے گی۔ یضرب پر لما آئے گا تو پڑھیں گے "لَمَّا یَضْرِبْ"۔ اگر لام امر آئے گا تو ہم پڑھیں گے "لِیَضْرِبْ"۔ لائے نہی ہوگی تو پڑھیں گے "لَا تَضْرِبْ"۔ اور اگر ان آجائے گا تو پڑھیں گے "اِنْ تَضْرِبْ اَضْرِبْ"۔ خوب۔ اس طرح آگے مثالیں جتنی آپ بناتے جائیں بہت موجود ہیں۔ اب فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ مجازات کی پوری بحث کو اس صاحب کتاب نے علیحدہ ذکر کیا ہے بعد میں "وَاَمَّا کَلِمُ الْمُجَازَاتِ" کہہ کے یہاں پر دو چیزیں ہیں لم اور لما سے متعلق ان کو کلیئر کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں "وَاعْلَمْ اَنَّ لَمْ تُقْلِبُ الْمُضَارِعَ مَاضِیًا مَنْفِیًّا وَلَمَّا کَذٰلِكَ"۔ لم اور لما جہاں فعل مضارع میں ایک لفظی اثر رکھتے ہیں اور اس کو جزم دیتے ہیں، معنوی اثر بھی ہے ان کا۔ معنوی اثر کیا ہے؟ کہ لم بھی اور لما بھی یہ فعل مضارع کو ماضی منفی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یعنی جب یضرب پر لم یا لما داخل ہو جائے گا پھر وہاں پر آپ مضارع والا معنی، حال و استقبال والا معنی نہیں کریں گے بلکہ وہاں پر ماضی منفی والا معنی ہوگا۔ ٹھیک ہے جی؟ یعنی لم یضرب کے معنی میں آپ یہ نہیں کہیں گے کہ وہ نہیں مارے گا، نہ۔ جب لم آگیا اب یہ ماضی منفی میں تبدیل ہو گیا۔ لَم یَضرِب یعنی اس نے نہیں مارا۔ یا لَمَّا یَضرِب۔ "اِلَّا" لیکن فرق ہے۔ لم اور لما کے اپنے اس استعمال میں ایک فرق ہے۔ فرق کیا ہے؟ "اَنَّ فِیْھَا تَوَقُّعًا بَعْدَہُ" کہ لما وہاں استعمال ہوتا ہے کہ جہاں اس فعل کے اس کے بعد واقع ہونے کی امید ہو کہ ابھی تک یہ کام نہیں ہوا لیکن بعد میں امید ہے کہ ہو جائے گا "وَدَوَامًا قَبْلَہُ" لیکن اس سے پہلے دوام ہو۔ دوام سے مراد کیا؟ یعنی ابھی تک تو مسلسل یہ کام نہیں ہوا تھا لیکن اس کے بعد امید ہے کہ یہ ہو جائے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "قَامَ الْاَمِیْرُ لَمَّا یَرْکَبْ"۔ اب لما یرکب کیا بتاتا ہے؟ کہ ابھی تک تو سردار، امیر، بادشاہ یا جو بھی ہے وہ ابھی تک تو سوار نہیں ہوا لیکن "لَمَّا یَرْکَبْ" میں یہ اشارہ ہے کہ بعد میں امید ہے کہ شاید وہ سوار ہو جائے جبکہ لم میں اس قسم کی امید کا معنی نہیں ہوتا کہ شاید بعد میں ہو جائے۔ بس وہ فقط ماضی منفی کے معنی میں کرتا ہے، بعد میں ہوگا یا نہیں اس کی توقع لم میں نہیں ہوتی لیکن لما میں ہوتی ہے۔

لَمْ اور لَمَّا میں فرق

اِسی طرح فرماتے ہیں ایک فرق ہوگیا۔ ایک اور فرق بھی ہے "لَمْ" اور "لَمَّا" کے درمیان۔ وہ فرق کیا ہے؟ "یَجُوْزُ حَذْفُ الْفِعْلِ بَعْدَ لَمَّا خَاصَۃً"۔ یعنی اگر "لَمَّا" کے بعد، "لَمَّا" کے فعل مضارع مجزوم کو ذکر نہ بھی کیا جائے، اُس کو حذف کردیا جائے تو بھی جائز ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "نَادِمَ زَیْدٌ وَلَمَّا"۔ لیکن آگے "وَلَمَّا یَنْفَعْهَا" اِس کو ذکر نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں۔ لیکن "لَمْ" میں ایسا نہیں ہے۔ "وَلَمَّا یَنْفَعْهَا النَّدَمُ" یعنی خالی اگر ہم کہیں "نَادِمَ زَیْدٌ"، زید پشیمان ہوا۔ "وَلَمَّا"، "لَمَّا" کہہ کے خاموش ہوجائیں، اِس کے بعد اِس کا فعل مضارع جو مضمون تھا "وَلَمَّا یَنْفَعْهَا النَّدَمُ" اُس کو ذکر نہ بھی کریں تو یہ جائز ہے۔ لیکن "نَادِمَ زَیْدٌ وَلَمْ" یہ کہنا درست نہیں ہے۔ بلکہ "لَمْ" کے بعد اُس کے فعل کو حتماً ذکر کرنا چاہیے۔ 

5

کلمہ مجازات، شرط اور جزا کے بارے میں

یہ بحث اِن سے مربوط تھی، یہاں پر ختم ہوگئی۔ اگلا سارا حصہ جو ہے وہ ہے اِن کلمہ مجازات کے بارے میں۔ کلمہ مجازات میں نے گزارش کی ہے کہ کلمہ مجازات اُنہیں اداتِ شرط کو کہتے ہیں۔ مجازات چونکہ اِس میں ایک شرط ہوتی ہے اور ایک جزا ہوتی ہے۔ اب یہ کلمہ مجازات جن کو اداتِ شرط کہتے ہیں، صرف بہائی میں بھی، صرف سادہ میں بھی غالباً آپ نے یہی پڑھا ہے کہ اداتِ شرط کہتے ہیں۔ یہ حرف بھی ہوتے ہیں اور اسم بھی ہوتے ہیں۔ میں نے شاید پہلے بھی گزارش کی ہے کہ اِن میں سے فقط "اِنْ" اور "اِذْمَا"، "اِذْمَا" اور "اِنْ"، یہ دو ہیں حروفِ شرط۔ باقی جتنے بھی ہیں، "مَهْمَا" ہو گیا، "حَیْثُمَا"، "مَتٰی"، "مَا"، "اَنّٰی" وہ سارے ہیں اسماءِ شرط۔ اب یہ فرما رہے ہیں کہ یہ اداتِ شرط چاہے حرف ہو چاہے اسم ہو، اِس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ داخل ہوتے ہیں دو جملوں پر۔ اور یہ دو جملوں پر داخل ہو کے دلالت کرتے ہیں کہ پہلا جملہ پہلا دوسرے کے لئے سبب ہے۔ اور پہلے کو شرط کہتے ہیں، دوسرے کو جزا۔ پہلا ہوگیا شرط، دوسرا ہے جزا۔

 شرط اور جزا کا اعراب

اب فرماتے ہیں:  یہ شرط اور  جزا، کیا جملۂ فعلیہ ہیں؟ پھر اگر فعلیہ ہیں تو کیا یہ فعلِ مضارع ہے یا فعلِ ماضی ہے؟ اِن کا حکم کیا ہے؟ بہت ترتیب کے ساتھ انہوں نے ذکر کیا، ہم بھی اِسی طرح پڑھتے ہیں۔ فرماتے ہیں: "اَمَّا کَلِمة الْمُجَازَاتِ"، جہاں تک بات ہے کلماتِ مجازات کی  یعنی اداتِ شرط کی،  "حَرْفًا کَانَتْ اَوْ اِسْمًا"، چاہے وہ حرف ہوں چاہے اسم۔ میں نے گزارش کی کہ اداتِ شرط میں سے فقط دو کو حرفِ شرط کہا جاتا ہے، ایک ہے "اِنْ" اور دوسرا ہے "اِذْمَا"۔ "اَوْ اِسْمًا"، باقی سب کو کہا جاتا ہے اسماءِ شرط۔ اور اِن سب کو پھر کہا جاتا ہے "کَلِمُ الْمُجَازَاتِ" یا اداتِ شرط۔ "فَهِیَ تَدْخُلُ عَلَی الْجُمْلَتَیْنِ"، یہ داخل ہوتے ہیں دو جملوں پر۔ کیوں؟ فرماتے ہیں: اِس لئے "لِتَدُلَّ عَلٰی اَنَّ الْاُوْلٰی سَبَبٌ لِّلثَّانِیَۃِ" تاکہ یہ دلالت کریں کہ پہلا دوسرے کے لئے سبب ہے۔ یعنی اگر پہلا نہ ہوتا تو یہ بعد والا بھی نہ ہوتا۔ چونکہ مسبَّب بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتا۔ "وَ تُسَمَّی الْاُوْلٰی"، جو پہلا ہوتا ہے، جو سبب ہوتا ہے، یہاں اُس کا نام رکھا جاتا ہے شرط اور دوسرے کا نام رکھا جاتا ہے جزا۔ پس دو جملے ہوں گے، ایک جملے کا نام شرط اور دوسرے جملے کا نام جزا۔ ٹھیک ہے جی۔ اب فرماتے ہیں:  یہ جو دو جملے ہیں، یا دونوں مضارع ہوں گے، یا دونوں ماضی ہوں گے، یا پہلا مضارع ہوگا دوسرا ماضی ہوگا، یا پہلا ماضی ہوگا دوسرا مضارع ہوگا۔ تو اب اِن کا اعراب کس طرح پڑھا جائے گا؟  اِس کو پہلے ذہن میں بٹھا لیں کہ یہ جو دو جملے ہیں، آیا دونوں جملے فعلیہ ہیں اور اُن میں فعلِ مضارع استعمال ہوا ہے، یا دونوں فعلیہ ہیں اُن میں فعلِ ماضی استعمال ہوا ہے، یا پہلے میں مضارع ہے دوسرے میں ماضی ہے، یا پہلے میں ماضی ہے دوسرا مضارع ہے، جس کے حساب سے اِن کے اعراب کا حکم بھی مختلف ہے۔  اب ہم ترتیب شروع کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

 پہلی صورت: شرط و جزا دونوں مضارع ہوں

"اِنْ کَانَ الشَّرْطُ وَ الْجَزَاءُ مُضَارِعَیْنِ" اگر جملہ اُولٰی، جو جملہ شرط ہے، اُس میں بھی فعلِ مضارع استعمال ہوا اور جو دوسرا جملہ تھا جزا والا، اُس میں بھی فعلِ مضارع ہے۔ یعنی شرط میں بھی فعلِ مضارع اور جزا میں بھی فعلِ مضارع۔ "وَجَبَ الْجَزْمُ فِیْهِمَا"۔ اِن دونوں میں جزم پڑھنا واجب ہے۔ "وَجَبَ الْجَزْمُ فِیْهِمَا"، اِن میں جزم پڑھنا واجب ہے۔ اور وہ بھی لفظاً۔ جیسے "اِنْ تُکْرِمْنِیْ اُکْرِمْکَ"۔ اب "تُکْرِمْ" اِس کو بھی اُسی "اِنْ" نے آ کر جزم دیا ہے، وہ جو "اِنْ" حرفِ شرط تھا۔ "اُکْرِمْکَ"، اِس "اُکْرِمْ" میں جو میم کو ہم جزم پڑھ رہے ہیں، یہ بھی اُسی "اِنْ"، وہ جو "اِنْ" شرطیہ تھا، جو حرفِ شرط تھا، چونکہ "تُکْرِمْ" اور "اُکْرِمْ" یہ دونوں فعلِ مضارع ہیں، لہٰذا "اِنْ" نے دونوں فعلوں کو جزم دیا ہے اور اِن پر جزم پڑھنا لفظاً واجب ہے۔ یہ ہوگئی پہلی صورت۔ یعنی آپ لکھیں گے تو آسان کہ اگر جملۂ شرط میں بھی، جملۂ شرط بھی فعلِ مضارع ہو اور جملۂ جزا میں بھی فعلِ مضارع ہو تو پھر دونوں پر جزم پڑھنا واجب ہے۔ پہلی صورت ختم۔

 دوسری صورت: شرط و جزا دونوں ماضی ہوں

نمبر دو:  "وَاِنْ کَانَا مَاضِیَیْنِ" اگر جملۂ شرط میں استعمال ہونے والا فعل بھی ماضی ہے اور جملۂ جزا میں استعمال ہونے والا فعل بھی ماضی ہے یعنی دونوں فعل شرط اور جزا میں جو استعمال ہوئے اگر وہ دونوں ماضی ہیں، "لَمْ تَعْمَلْ فِیْهِمَا لَفْظًا" تو اُس میں یہ حروفِ شرط اصلاً عمل نہیں کرتے چونکہ ظاہر ہے وہ مبنی ہوتا ہے، یہ اُس میں کوئی عمل نہیں کرتے۔ لہٰذا آپ کہیں گے "اِنْ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُ"۔ "اِنْ" نہ بھی ہوتا تو بھی "ضَرَبْتَ" تھا، "اِنْ" آ گیا تو بھی "ضَرَبْتَ" ہے۔ "اِنْ" نہ آتا تو بھی "ضَرَبْتُ" تھا، "اِنْ" موجود ہے تو بھی "ضَرَبْتُ" ہے۔ "اِنْ" نے اِن دونوں میں کوئی عمل نہیں کیا۔ یہ دو ہو گئے۔

 تیسری صورت: شرط مضارع اور جزا ماضی ہو

تیسری صورت۔ "وَاِنْ کَانَ الْجَزَاءُ وَحْدَهٗ مَاضِیًا وَجَبَ الْجَزْمُ فِی الشَّرْطِ" کہ اگر شرط میں استعمال ہونے والا فعل فعلِ مضارع ہے لیکن جزا میں استعمال ہونے والا فعل فعلِ ماضی ہے تو فرماتے ہیں شرط میں جزم پڑھنا واجب ہوگا جبکہ جزا، چونکہ وہ فعلِ ماضی ہے، یہ اُس کو جزم نہیں دے گا۔ پس ہم کہیں گے: "اِنْ تَضْرِبْنِیْ ضَرَبْتُکَ"۔ "تَضْرِبْ" کو "اِنْ" نے آ کر جزم دیا ہے لیکن "ضَرَبْتُ" اِس میں اُس نے کوئی عمل نہیں کیا چونکہ وہ ماضی ہے۔ تین ہو گئے۔

چوتھی صورت: شرط ماضی اور جزا مضارع ہو

نمبر چار۔ "وَاِنْ کَانَ الشَّرْطُ وَحْدَهٗ مَاضِیًا"، اور اگر شرط ماضی ہے اور جزا میں استعمال ہونا فعل مضارع ہے، "جَازَ فِی الْجَزَاءِ الْوَجْهَانِ" تو پھر جزا میں جو فعل مضارع استعمال ہوا ہے، اب آپ کے لئے جائز ہے آپ چاہیں تو اِس حرفِ شرط کو جزا میں عامل بنا کر اُس کو جزم دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ لہٰذا "اِنْ جِئْتَنِیْ"، اب "جِئْتَ" چونکہ یہ ماضی ہے، لہٰذا یہاں تو "اِنْ" کوئی عمل نہیں کرے گا۔ لیکن آگے ہے "اُکْرِمْکَ" پڑھیں، آپ کی مرضی۔ "اُکْرِمُکَ" پڑھیں، آپ کی مرضی۔ یعنی "جَازَ الْوَجْهَانِ" سے مراد یہ ہے کہ چونکہ وہ فعل مضارع ہے، چاہیں تو "اِنْ" کو عامل کر دیں "اُکْرِمْکَ" پڑھیں اور چاہیں تو "اُکْرِمُکَ" پڑھیں۔ 

6

جزا پر

 تنبیہ

اگلی بات بطور تنبیہ ہے۔ تنبیہ یہاں جناب یہ ہے، اِس میں سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو جزا ہوتی ہے، کبھی یہ "قَدْ" کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی بغیر "قَدْ" کے ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ کبھی مضارع مثبت ہوتی ہے اور کبھی مضارع منفی ہوتی ہے۔ توجہ آغا، یہ علیحدہ ہے، "وَ اعْلَمْ"، یعنی ایک نوٹ ہے۔ نوٹ میں کیا؟ فرماتے ہیں: "اِذَا کَانَ الْجَزَاءُ مَاضِیًا" اگر کسی شرط کی جزا میں استعمال ہونے والا فعل فعلِ ماضی ہو "بِغَیْرِ قَدْ" اور اُس ماضی کے ساتھ "قَدْ" کا استعمال بھی نہ کیا گیا ہو۔ اگر کسی شرط کی جزا میں فعل ماضی ہے اور ہے بھی بغیر "قَدْ" کے، "لَمْ یَجُزِ الْفَاءُ فِیْهِ"، اُس جزا پر "فَاء" کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، جائز نہیں ہے۔ "فَاء" کو آپ نہیں لا سکتے۔ جیسے: "اِنْ اَکْرَمْتَنِیْ اَکْرَمْتُکَ"۔ اب "اَکْرَمْتُ" فعلِ ماضی ہے، بغیر "قَدْ" کے ہے، لہٰذا اِس پر "فَاء" کا داخل کرنا جائز نہیں۔ "وَمَنْ دَخَلَهٗ کَانَ اٰمِنًا"۔ اب "کَانَ" ماضی ہے، بغیر "قَدْ" کے ہے، لہٰذا اِس پر "فَاء" کا داخل کرنا جائز نہیں۔ ٹھیک ہوگیا جی۔ یہ تو ہوگئی وہ صورت کہ کس جزا پر "فَاء" کو لانا جائز نہیں۔ دو ہوگئے۔ مثالیں ہیں۔ فرماتے ہیں لیکن "وَاِنْ کَانَ مُضَارِعًا" لیکن اگر جزا میں استعمال ہونے والا فعل ماضی نہیں بلکہ وہ مضارع ہے، "مُثْبَتًا اَوْ مَنْفِیًّا"، وہ چاہے مثبت ہو یعنی اُس میں کوئی حرفِ نفی نہ ہو، "اَوْ مَنْفِیًّا بِلَا" یا اُس پر "لَا" نفی داخل ہو، ہے وہ مضارع۔ اب اگر وہ مثبت ہے یا اُس کو "لَا" کے ذریعے اُس کی نفی کی گئی ہے، "جَازَ فِیْهِ الْوَجْهَانِ"۔ دو وجہ جائز ہیں، دو وجہ سے مراد کیا؟ آپ اُس جزا پر "فَاء" کو لانا چاہیں تو لا بھی سکتے ہیں، نہ لانا چاہیں تو نہ لائیں۔ پہلا تو یہ تھا نا کہ "فَاء" جائز ہی نہیں ہے جب ماضی تھا، یہاں یہ ہے کہ آپ کے لئے جائز ہے۔ مثلاً: "اِنْ تَضْرِبْنِیْ اَضْرِبْکَ" پڑھیں تو بھی جائز ہے۔ "اِنْ تَضْرِبْنِیْ فَاَضْرِبْکَ" پڑھیں تو بھی جائز ہے، یہاں پر "فَاء" آگیا۔ "اِنْ تَضْرِبْنِیْ اَضْرِبْکَ" یا "فَاَضْرِبْکَ"۔ "اِنْ تَشْتِمْنِیْ لَا اَضْرِبْکَ" پڑھیں تو بھی ٹھیک ہے۔ "اِنْ تَشْتِمْنِیْ فَلَا اَضْرِبْکَ" پڑھیں تو بھی جائز ہے کیوں؟ چونکہ ہم نے کہا ہے کہ دونوں وجہیں اِس میں جائز ہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ یہ تو ہو گیا یہاں پر۔ اب ذرا اگلا حصہ ہے، اب اُس کو ذرا توجہ فرمائیں، وہ حصہ، یہ درس ذرا لمبا ہو جائے گا، کوئی مشکل نہیں لیکن اِس کو ہم چاہتے ہیں کہ ختم کر لیں ایک ہی حصے میں۔ یا اِس کو علیحدہ کر لیں؟ تو پھر زیادہ بہتر ہے۔

صَلَّی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهِ مُحَمَّدٍ

وبعد الواو الواقعة كذلك في جواب هذه الأشياء نحو : أسْلِمْ وَتَسْلِمَ إلى آخر الأمثلة.

وبعد أو بمعنى إلى نحو : جِئْتُكَ أوْ تُعْطِيَني حَقّي.

وبعد واو العطف إذا كان المعطوف عليه اسماً صريحاً نحو : أعْجَبَني قِيامُكَ وَتَخْرُجَ.

ويجوز إظهار أنْ مع لام كَيْ نحو : أسلَمْتُ لأنْ أدْخُلَ الجنَّةَ ، ومع واو العطف نحو : أعجبنى قيامُك وَأنْ تَخْرُجَ.

ويجب إظهارها مع لا ولام كي نحو : لِئَلّا يَعْلَمَ.

واعلم أنّ الواقعة بعد العِلم ليست هي الناصبة للمضارع بل إنّما هي المخفّفة من المثقّلة نحو قوله تعالى : «عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ» (١) ، فالواقعة بعد الظنّ جاز فيه الوجهان : أن تنصب بها ، وأن تجعلها كالواقعة بعد العِلم.

فصل : [ المضارع ] المجزوم عامله : «لَمْ ، ولَمّا ، ولام الامر ، ولاء النهي ، وكلمة المجازاة وهي : إنْ ، ومَهْما ، واِذْما ومتىٰ ، وأيْنَ ، وحَيْثُما ، ومَنْ وما ، وأيّ ، وأنّى ، وإنْ المقدّرة نحو : لَمْ يَضْرِبْ ، ولَمّا يَضْرِبْ ، ولِيَضْرِبْ ، ولا يَضْرِبْ ، وإنْ تَضْربْ أضْربْ ، إلى آخرها.

واعلم أنّ «لَمْ» تقلب المضارع ماضياً منفيّاً ، و «لَمّا» كذلك إلّا أنّ فيها توقّعاً بعده ودواماً قبله ، وأيضاً يجوز حذف الفعل بعد لَمّا تقول : نَدِمَ زَيْدٌ ولَمّا ، أي لمّا ينفعه الندم ، ولا تقول : نَدِمَ زَيْدٌ وَلَمْ.

وأمّا كلمة المجازاة حرفاً كانت أو اسماً فهي تدخل على الجملتين لتدلّ

____________________________

(١) المزّمل : ٢٠.

على أنّ الاُولىٰ سبب للثانية ، وتسمّى الاُولى شرطاً ، والثانية جزاء ، ثمّ إن كان الشرط والجزاء مضارعين يجب الجزم فيهما نحو : إنْ تُكْرِمْني اُكْرِمْكَ ، وإن كانا ماضيين لم يعمل فيهما لفظاً نحو : إنْ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُ ، وإن كان الجزاء وحده ماضياً يجب الجزم في الشرط نحو : إنْ تَضْربْني ضَرَبْتُكَ ، وإن كان الشرط وحده ماضياً جاز فيه الوجهان نحو : إنْ جِئْتَني اُكْرِمْكَ ، وإنْ أكْرَمْتَني اُكْرِمُكَ.

واعلم أنّه إذا كان الجزاء ماضياً بغير قد لم يجز الفاء فيه نحو : إنْ أكْرَمْتَني أكْرَمْتُكَ ، قال الله تعالى : «وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا» (١).

وإن كان مضارعاً مثبتاً أو منفيّاً جاز الوجهان نحو : إنْ تَضْربْني أضْرِبْكَ أو فَأضْرِبْكَ ، وإن تَشْتِمْني لا أضْربْكَ أو فَلا أضْربْكَ.

وإن لم يكن الجزاء أحد القسمين المذكورين يجب الفاء ، وذلك في أربع صور : إحداها : أنْ يكون الجزاء ماضياً مع «قد» كقوله تعالى : «إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ» (٢).

الثانية : أنْ يكون الجزاء مضارعاً منفياً بغير لا نحو قوله تعالى : «وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ» (٣).

الثالثة : أنْ يكون جملة اسميّة كقوله تعالى : «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا» (٤).

الرابعة : أنْ يكون جملة انشائيّة إمّا امراً كقوله تعالى : «قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي» (٥) ، وإمّا نهياً كقوله تعالى : «فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ» (٦) ، أو استفهاماً كقولك : إنْ تَرَكْتَنا

____________________________

(١) آل عمران : ٩٧.

(٤) الانعام : ١٦٠.

(٢) يوسف : ٧٧.

(٥) آل عمران : ٣١.

(٣) آل عمران : ٨٥.

(٦) الممتحنة : ١٠.