درس الهدایة في النحو

درس نمبر 46: فعل مضارع کا عامل

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل مضارع کے اعراب کی قسمیں

" فِیْ اَصْنَافِ اِعْرَابِ الْفِعْلِ وَھِیَ اَرْبَعَۃٌ" اِس فصل میں فعلِ مضارع کے اعراب کی اقسام بتائی جا رہی ہیں۔ گزشتہ درس کے آخر میں آپ کو یاد ہوگا یہ آیا تھا کہ اگرچہ فعل میں اصل یہ ہے کہ وہ مبنی ہوتا ہے لیکن چونکہ فعلِ مضارع اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے لفظاً اور معناً، اور اسم میں اصل ہے معرب ہونا ہے  اس لیے ہم فعلِ مضارع کو بھی معرب قرار دیتے ہیں۔ اس فعل مضارع کے اعراب کی چار قسمیں ہیں۔

 اعراب کی پہلی قسم

نمبر ایک: رفع کی صورت میں "ضَمَّہ"، نصب کی صورت میں "فَتْحَہ" اور جزم کی صورت میں "سُکُون"۔ یہ لفظ میں بار بار دہرا رہا ہوں گزشتہ درس میں بھی کہا تھا کہ فعل کبھی مجرور نہیں ہوتا کیونکہ جار کبھی فعل پر داخل ہی نہیں ہوتا، جار فقط اسم پر داخل ہوتا ہے۔ لہٰذا کہا تھا کہ یہ فعل مرفوع، منصوب اور مجزوم ہوتا ہے مجرور،  رفعی صورت میں "ضَمَّہ"، نصبی صورت میں "فَتْحَہ"، جزمی کی صورت میں "سُکُون"۔  یہ اعراب جزم کی صورت میں سکون، یہ اعراب کس کے ساتھ خاص ہے؟ فرماتے ہیں یہ اس فعل مضارع کے ساتھ ہے جو مفرد ہو، صحیح ہو اور مخاطبہ کا صیغہ نہ ہو۔ یعنی  یہ اعراب کی پہلی قسم فعل مضارع کے پانچ صیغوں میں آئے گی۔ نمبر ایک:"وَاحِدْ مُذَکَّرْ غَائِبْ"، "یَضْرِبُ"۔ "وَاحِدْ مُؤَنَّثْ غَائِبْ"، "تَضْرِبُ"۔ "وَاحِدْ مُذَکَّرْ حَاضِرْ" وہاں بھی "تَضْرِبُ"۔ "وَاحِدْ مُتَکَلِّمْ" "اَضْرِبُ"۔ "جَمْع مُتَکَلِّمْ" "نَضْرِبُ"۔ ٹھیک ہے جی؟ رفعی صورت میں "ضَمَّہ" آیا ہے۔ "یَضْرِبُ، تَضْرِبُ، تَضْرِبُ، اَضْرِبُ، نَضْرِبُ"۔ اگر کوئی ناصب آئے گا تو اسی پر فتحہ آ جائے گا جیسے "اَنْ یَّضْرِبَ"، "اَنْ تَضْرِبَ" وغیرہ۔ اگر کوئی جازم آئے گا تو سکون آ جائے گا، "لَمْ یَضْرِبْ" الوَاحِدْ مُذَکَّرْ غَائِبْ" الی آخرہ۔یہ ہو گیا یہ پانچ صیغوں کے ساتھ ہے۔، "وَاحِدْ مُؤَنَّثْ غَائِبْ"، "وَاحِدْ مُذَکَّرْ حَاضِرْ"، "وَاحِدْ مُتَکَلِّمْ" اور "جَمْع مُتَکَلِّمْ"۔ ٹھیک ہو گیا۔ 

اعراب کی دوسری قسم

فعل مضارع کے اعراب کی دوسری قسم۔ بہت توجہ کے ساتھ۔ دوسری قسم کیا ہے؟ کہ رفع کی صورت میں نون کے ثبوت کے ساتھ یعنی رفع کی صورت میں نون باقی رہے گا، نصب اور جزم کی صورت میں نون حذف ہو جائے گی۔ کہ رفع کی صورت میں نون باقی رہے گی لیکن ناصب اور جازم آجائے گا نصبی اور جزمی حالت میں وہ نون حذف ہو جائے گی۔ اچھا۔ یہ کس کے ساتھ خاص ہے؟ یعنی یہ ہو گیا تثنیہ مذکر ایک، جمع مذکر دو، واحد مؤنث حاضر تین۔ ان تین صیغوں کا اعراب یہ ہوتا ہے۔ کہ یہ مثال آگے بتاتا ہوں۔ رفع کی صورت میں نون موجود ہو گی، جیسے "ھُمَا یَفْعَلَانِ" یہاں "یَفْعَلَانِ" تثنیہ ہے رفعی حالت ہے چونکہ "ھما " پیچھے آیا ہے، نون باقی ہے۔ "ھُمْ یَفْعَلُوْنَ" لہٰذا یہاں بھی نون باقی ہے۔  "اَنْتُمْ تَفْعَلُوْنَ" بالکل باقی ہے۔ لیکن جب ناصب آئے گا وہاں پر نون حذف ہو جائے گی۔ "یَفْعَلَانِ" سے پہلے اگر آجائے ناصب "لَنْ یَفْعَلَا" پڑھیں گے "لَنْ یَفْعَلَانِ" نہیں پڑھیں گے۔ اسی طرح اگر لم آجائے جازم، پھر بھی "یَفْعَلَانِ" کی نون حذف ہو جائے گی۔ "یَفْعَلَانِ" سے پہلے اگر لم آ گیا تو "لَمْ یَفْعَلَا" پڑھیں گے "لَمْ یَفْعَلَانِ" نہیں پڑھیں گے۔ ٹھیک ہو گیا؟ اس کو آپ پھر دوبارہ سن لیں۔ کہ دوسری قسم فعل مضارع کے اعراب کی کیا ہے؟ کہ رفع یعنی یہ اعراب بالحرف ہو گیا۔ یعنی رفع کی صورت میں نون باقی ہوگی لیکن نصب اور جزم کی صورت میں نون حذف ہو جائے گی۔ یہ اعراب فعل مضارع کے تثنیہ مذکر، جمع مذکر اور واحد مؤنث حاضر کے ساتھ خاص ہے دیگر میں نہیں ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ مثالیں میں نے آپ کو ان کی گزارش کر دیں۔

 اعراب کی تیسری قسم

 تیسری قسم فعل مضارع کے اعراب کی، وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے۔ کہ رفع کی صورت میں تقدیری "ضَمَّہ" یعنی جب اس کی حالت رفعی ہوگی تو لفظاً "ضَمَّہ" نہ ہوگا بلکہ "ضَمَّہ" تقدیری ہوگا۔ اور نصب کی صورت میں "فَتْحَہ"، "فَتْحَہ" لفظی ہوگا۔ اور جزم کی صورت میں فرماتے ہیں حذف ہوگا یعنی آخری حرف حذف ہو جائے گا۔ توجہ آغا۔ فعل مضارع کے اعراب کی تیسری قسم کیا ہے؟ کہ رفع کی حالت میں "ضَمَّہ" لفظی نہیں بلکہ تقدیری ہوگا اور نصب کی صورت میں "فَتْحَہ" لفظی ہوگا اور جزم کی صورت میں حذف ہوگا یعنی آخری حرف اس کا گر جائے گا حذف ہو جائے گا۔ یہ کس کے ساتھ خاص ہے؟ فرماتے ہیں : یہ ہے ناقص واوی یعنی فعل مضارع جو ناقص واوی یا ناقص یائی سے ہو۔ البتہ تثنیہ، جمع اور واحد مؤنث مخاطب کے صیغوں میں یہ نہیں ہوگا باقی سارے صیغوں میں ہوگا اب ذرا دیکھو "ھُوَ یَدْعُوْ" یہاں "یَدْعُوْ" کی رفعی حالت ہے لیکن "ضَمَّہ" لفظاً موجود نہیں ہے تقدیراً ہے۔ "ھُوَ یَرْمِیْ" یعنی جہاں یرمی، یہ یدعو ہوگیا ناقص واوی کی مثال اور یرمی ہوگیا ناقص یائی کی مثال۔ لیکن اسی "یَدْعُوْ" پر اگر ناصب آجائے تو ہم نے کہا ہے نصبی صورت میں "فَتْحَہ" لفظاً موجود ہوگا۔ تو ہم پڑھیں گے اسی "یَدْعُوْ" پر اگر آگیا ناصب تو ہم پڑھیں گے "لَنْ یَدْعُوَ"، "لَنْ یَرْمِیَ" یعنی "فَتْحَہ" لفظاً موجود ہے۔ لیکن اگر اسی "یَدْعُوْ" اور "یَرْمِیْ" پر جازم آجائے اور اس کی جزمی حالت ہو تو سرے سے آخری حرف ہی حذف ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر "یَدْعُوْ" ہے اس پر لم آگیا تو یہ ہوگا "لَمْ یَدْعُ"، واو گر جائے گی۔ "لَمْ یَرْمِیْ" میں یہ بن جائے گا "لَمْ یَرْمِ" یاء گر جائے گی۔ یہ تھی تیسری قسم۔

 اعراب کی چوتھی قسم

چوتھی قسم فعل مضارع کے اعراب کی وہ یہ ہے: رفع کی صورت میں "ضَمَّہ" تقدیری ہوگا، نصب کی صورت میں "فَتْحَہ" بھی تقدیری ہوگا لیکن جزم کی صورت میں اس کا آخری حرف یعنی لام کلمہ، لام الفعل حذف ہو جائے گی۔ اب فرق آ گیا تیسری اور چوتھی میں؟ یعنی تیسری میں یہ تھا کہ رفع میں فقط "ضَمَّہ" تقدیری تھا لیکن "فَتْحَہ" لفظی تھا۔ چوتھی میں رفع بھی تقدیری ہے اور "فَتْحَہ"، نصب کی صورت میں "فَتْحَہ" بھی تقدیری ہے۔ البتہ تیسری میں بھی جزم کی صورت میں لام الفعل حذف تھا، یہاں چوتھی میں بھی جزمی صورت میں لام الفعل حذف ہوگا۔ یہ اعراب کس کا ہے؟ آپ کہیں گے یہ اعراب ہے ناقص الفی کا یعنی وہ معتل اللام، وہ ناقص جس کے آخر میں الف ہو البتہ تثنیہ، جمع اور واحد مؤنث مخاطب کے صیغوں کے علاوہ باقیوں میں آتا ہے جیسے آپ پڑھتے ہیں۔ "سَعٰی یَسْعٰی"، اب "ھُوَ یَسْعٰی"، اب ھُوَ کے بعد ہے "یَسْعٰی" جہاں رفعی حالت ہے لیکن پھر بھی "ضَمَّہ" تقدیری ہے لفظی نہیں۔ یا اس پر ناصب آجائے جیسے "لَنْ یَسْعٰی"، یہاں نصبی حالت ہے لیکن "فَتْحَہ" بھی تقدیری ہے آخر میں وہی الف ہے۔ اور جازم آجائے تو پھر آخری لام کلمہ حذف ہو جائے گا، "لَمْ یَسْعَ" پڑھیں گے یعنی آخر میں جو یاء کلمہ تھا اس کا یا الف تھی وہ ساقط ہو جائے گی۔ یہ تھی فعل مضارع کے اعراب کی چوتھی قسم۔ 

 فصل فی اصناف اعراب الفعل

اب اس کا ترجمہ۔ "فَصْلٌ"۔ "فِیْ اَصْنَافِ اِعْرَابِ الْفِعْلِ" یعنی فعل مضارع کے اعراب کی قسموں کے بارے میں، اصناف کے بارے میں۔ اصناف جمع صنف، صنف یعنی قسم۔ "وَھِیَ اَرْبَعَۃٌ" فعل مضارع کے اعراب کی چار قسمیں ہیں۔ "اَلْاَوَّلُ" پہلی قسم یہ ہے "اَنْ یَّکُوْنَ الرَّفْعُ بِالضَّمَّۃِ" کہ رفع ضمہ کے ساتھ، کیا مطلب؟ یعنی جب کوئی عامل رافع ہوگا تو رفع کی صورت میں اس پر باقاعدہ ضمہ پڑھیں گے لفظاً۔ "وَالنَّصْبُ بِالْفَتْحِ" نصب فتحہ کے ساتھ یعنی اگر عامل ناصب ہوگا تو لفظاً اس پر فتحہ پڑھیں گے۔ "وَالْجَزْمُ بِالسُّکُوْنِ" جزم سکون کے ساتھ یعنی اگر کوئی عامل جازم ہوگا تو اس کے آخر پہ ساکن ہو جائے گا۔ یہ پہلا اعراب کس کے ساتھ ہے؟ فرماتے ہیں "یَخْتَصُّ بِالْمُفْرَدِ الصَّحِیْحِ" یہ مختص ہے مفرد صحیح کے ساتھ۔ یعنی کیا؟ کہ اگر وہ تثنیہ اور جمع نہ ہو بلکہ مفرد ہو اور صحیح ہو یعنی معتل وغیرہ نہ ہو اور "غَیْرِ الْمُخَاطَبَۃِ" اور پھر مخاطبہ کا صیغہ بھی نہ ہو، جیسے میں نے آپ کو پہلے پڑھ کے سنا دیے، آپ نے لکھ بھی لیے ہوں گے۔ لہٰذا آپ کہیں گے "ھُوَ یَضْرِبُ" چونکہ یہ ھو کے بعد ہے، ھُوَ مبتدا تھا یَضرِبُ فعل ھُوَ فاعل اس میں یہ اس کی خبر تھی، جملہ فعلیہ تھا۔ لہٰذا "یَضْرِبُ" چونکہ رفعی حالت تھی لہٰذا "یَضْرِبُ" ضمہ پڑھیں گے۔ "لَنْ یَضْرِبَ" چونکہ اس سے پہلے ناصب آ گیا، لہٰذا نصبی حالت ہے تو اس پر فتحہ بھی لفظاً پڑھیں گے، "لَنْ یَضْرِبَ"۔ "لَمْ یَضْرِبْ" اب چونکہ اس پر جازم آ گیا تو آخر کو ہم جو ہے اس کا "اَوْ جَازِمٌ بِالسُّکُوْنِ" یعنی آخری حرف ساکن ہوگا، یضرب سے بن جائے گا "لَمْ یَضْرِبْ"۔ 

 اعراب کی دوسری قسم

"وَالثَّانِیْ" فعل مضارع کے اعراب کی دوسری قسم۔ "اَنْ یَّکُوْنَ الرَّفْعُ بِثُبُوْتِ النُّوْنِ" کہ رفعی حالت میں اس کی نون ثابت ہوگی یعنی باقی رکھیں گے "وَالنَّصْبُ وَالْجَزْمُ بِحَذْفِھَا" جبکہ نصبی اور جزمی حالت میں وہی نون حذف کر دیں گے۔ یعنی اگر اس کی حالت حالت رفع ہوگی تو نون کو باقی رکھیں گے لیکن اگر کوئی ناصب یا جازم آ گیا تو نون کو حذف کر دیں گے۔ یہ اعراب فعل مضارع کے کن صیغوں کا ہے؟ فرماتے ہیں: یہ مختص ہے "بِالتَّثْنِیَۃِ وَجَمْعِ الْمُذَکَّرِ" یعنی تثنیہ مذکر، جمع مذکر، دو، "وَلِلْمُفْرَدَۃِ الْمُخَاطَبَۃِ" اور مفرد مخاطبہ کے لیے۔ یعنی ان فعل مضارع کے ان صیغوں کے ساتھ خاص ہے "صَحِیْحًا کَانَ اَوْ غَیْرَہُ" اب چاہے وہ صحیح سے ہوں یا غیر صحیح سے ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا آپ رفعی حالت میں کہیں گے "ھُمَا یَفْعَلَانِ"، "ھُمْ یَفْعَلُوْنَ"۔ ٹھیک ہے جی؟ آسان ہو گیا نا جی؟ "اَنْتِ تَفْعَلِیْنَ" اب یفعلان تثنیہ مذکر ہوگیا، یفعلون جمع مذکر ہوگیا، تفعلین مفرد مخاطبہ ہوگیا۔ یہ ہوگئی رفعی حالت۔ خوب! ناصب اور جازم میں اس نون کو حذف کرنا ہے۔ تو فرماتے ہیں نصب میں اگر ناصب آ گیا تو آپ پڑھیں گے "لَنْ یَفْعَلَا" "لَنْ یَفْعَلَانِ" نہیں پڑھنا، "لَنْ یَفْعَلَا"۔ اسی طرح "یَفْعَلُوْنَ" سے بن جائے گا "لَنْ یَفْعَلُوْا"، "تَفْعَلِیْنَ" سے بن جائے گا "لَنْ تَفْعَلِیْ"۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ اور اگر جازم آ جائے گا پھر بھی یہ نون حذف ہو جائے گی جیسے "تَفْعَلَانِ" کو پڑھیں گے "لَمْ تَفْعَلَا"، "تَفْعَلُوْنَ" کو پڑھیں گے "لَمْ تَفْعَلُوْا"، "تَفْعَلِیْنَ" کو پڑھیں گے "لَمْ تَفْعَلِیْ" یعنی ان میں نون حذف ہو جائے گی۔

 اعراب کی تیسری قسم

"وَالثَّالِثُ" فعل مضارع کے اعراب کی تیسری قسم کیا ہے؟ "اَنْ یَّکُوْنَ الرَّفْعُ بِتَقْدِیْرِ الضَّمَّۃِ" کہ رفع کی صورت میں جب اس کی حالت حالت رفع ہوتی ہے تو اس پر "ضَمَّہ" تقدیری ہوگا یعنی لفظاً نہیں ہوگا۔ "وَالنَّصْبُ بِالْفَتْحَۃِ لَفْظًا" لیکن اگر نصبی حالت ہوگی، اس پر کوئی ناصب آجائے گا تو فتحہ لفظاً موجود ہوگا۔ "وَالْجَزْمُ بِحَذْفِ اللَّامِ" جبکہ جزم ہوگا لام کے حذف کے ساتھ۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر فعل مضارع پر کوئی جازم آجائے گا تو اس کا لام الفعل، اس کا جو آخری حرف اصلی تھا وہ حذف ہو جائے گا۔ یہ اعراب فعل مضارع کی کس قسم کے ساتھ ہے؟ فرماتے ہیں "یَخْتَصُّ بِالنَّاقِصِ الْیَائِیْ وَالْوَاوِیْ" اگر ناقص یائی، ناقص کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ جس کے آخر میں، جس کا لام الفعل حرف علت ہو۔ کہ اگر وہ یاء ہوگا تو ناقص یائی کہلائے گا، واو ہوگا تو ناقص واوی کہلائے گا۔ فرماتے ہیں یہ  تیسری قسم اعراب کی، یہ مخصوص ہے ناقص یائی اور ناقص واوی کے فعل مضارع کے ان صیغوں کے ساتھ جو تثنیہ، جمع اور مخاطبہ کے لیے نہ ہوں گے، چونکہ تثنیہ جمع مخاطبہ میں یہ حکم نہیں ہے۔ لہٰذا رفعی حالت میں آپ کہیں گے "ھُوَ یَرْمِیْ" ٹھیک ہے جی؟ "ھُوَ یَرْمِیْ"، "ھُوَ یَغْزُوْ"۔ نصبی حالت میں، "لَنْ یَرْمِیَ" پڑھیں گے "لَنْ یَرْمِیَ" اور "لَنْ یَغْزُوَ"۔ جزم کی حالت میں کیا پڑھیں گے؟ "لَمْ یَرْمِ" اور "لَمْ یَغْزِ"۔ کیوں؟ فرماتے ہیں: اس لیے کہ وہاں پر یاء گر جائے گی اور اس میں واو گر جائے گی چونکہ جزمی حالت میں ہم نے کہا ہے کہ لام کلمے کو حذف کر دینا ہے۔

اعراب کی چوتھی قسم

"اَلرَّابِعُ" چوتھی قسم فعل مضارع کے اعراب کی اور آخری قسم کیا ہے؟ "اَنْ یَّکُوْنَ الرَّفْعُ بِتَقْدِیْرِ الضَّمَّۃِ" کہ وہ رفعی حالت میں "ضَمَّہ" تقدیری ہوگا یعنی جب اس پر کوئی عامل رافع ہوگا تو رفع ہوگا تقدیری "ضَمَّہ" کے ساتھ یعنی "ضَمَّہ" لفظاً موجود نہیں ہوگا۔ "وَالنَّصْبُ بِتَقْدِیْرِ الْفَتْحَۃِ" نصب ہوگا تقدیری فتحہ کے ساتھ۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر کوئی ناصب ہوگا تو بھی فتحہ تقدیری ہوگا لفظی نہیں ہوگا۔ ہاں! "وَالْجَزْمُ بِحَذْفِ اللَّامِ" البتہ جزم کی صورت میں لام کلمہ حذف ہوگا یعنی اگر کوئی جازم ہوگا تو لام الفعل حذف ہو جائے گا۔  یہ کس کا اعراب ہے؟ فرماتے ہیں: یہ اعراب مختص ہے "نَاقِصِ اَلْفِیْ" کے ساتھ یعنی وہ ناقص کہ جس کے آخر میں الف ہو البتہ وہ صیغے کہ جو تثنیہ، جمع اور مخاطبہ کے نہ ہوں گے ان کے ساتھ۔ جیسے رفعی حالت میں پڑھیں گے "ھُوَ یَسْعٰی"، نصبی حالت میں پڑھیں گے "لَنْ یَسْعٰی" اور جزم کی حالت میں پڑھیں گے "لَمْ یَسْعَ" یعنی آخر میں یاء گر جائے گی۔ یہ ہیں اس کے اعراب اور اس کی ہوگئی چار قسمیں۔ 

4

مضارع کا عامل رفع

 عامل رفع فعل مضارع

اگلی فصلیں وہ یہ ہیں کہ آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ جناب اگر فعل مضارع مرفوع ہوگا تو اس کا "ضَمَّہ" لفظی ہوگا یا تقدیری ہوگا، اگر منصوب ہوگا تو پھر فتحہ لفظی ہوگا یا تقدیری ہوگا چونکہ تنوین تو اس پر آ نہیں سکتی، اگر مجزوم ہوگا تو پھر اس کی لام آیا باقی ہوگی یا حذف ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس فعل مضارع کا ناصب، رافع اور جازم کیا ہوتا ہے؟ یعنی کون سا عامل ہے جو فعل مضارع کو رفع دیتا ہے؟ کون سا عامل ہے جو فعل مضارع کو نصب دیتا ہے؟ کون سا عامل ہے جو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے؟ تاکہ ان مختلف حالتوں میں ہم اس اعراب کو اس پر جاری کر سکیں۔ ان میں سے ایک فصل آج پڑھتے ہیں، ایک فصل پھر ان شاء اللہ اگلے درس میں۔ فرماتے ہیں جہاں فعل مضارع مرفوع ہوتا ہے تو اس کا عامل رفع معنوی ہوتا ہے یعنی فعل مضارع کے مرفوع ہونے میں عامل رفع کیا ہوتا ہے؟ رفع دینے والا معنوی ہوتا ہے لفظی، وہ معنوی کیا ہوتا ہے؟ معنوی یہ ہے کہ فعل مضارع کا نہ عامل ناصب اور عامل جازم سے خالی ہونا بس یہی عامل رفع ہے۔ یعنی یہ کوئی اس کے لیے علیحدہ، چونکہ ان شاء اللہ ہم آگے دیکھیں گے کہ جو فعل مضارع کے عوامل ناصبہ ہیں وہ بھی لفظی ہیں، جو عوامل جازمہ ہیں وہ بھی لفظی ہیں۔ جس فعل مضارع پر کوئی ناصب یا جازم نہ ہوگا بس اس کا ناصب اور جازم سے خالی ہونا ہی یہی اس کے لیے عامل رفع بن جائے گا۔ ٹھیک ہے جی؟ "فَصْلٌ" فرماتے ہیں "اَلْمَرْفُوْعُ" یعنی جہاں فعل مضارع مرفوع ہوتا ہے، فعل مضارع مرفوع کا عامل، "عَامِلُہُ مَعْنَوِیٌّ" اس کا عامل، عامل معنوی ہوتا ہے۔ وہ عامل معنوی کیا ہے؟ یعنی "تَجَرُّدُہُ عَنِ النَّاصِبِ وَالْجَازِمِ" یعنی فعل مضارع کا عامل ناصب اور جازم سے خالی ہونا بس یہی اس کا خالی ہونا ناصب اور جازم سے یہی اس کا عامل رافع ہے اور وہ اس کو رفع دیتا ہے اور یہ عامل، عامل معنوی ہے "تَجَرُّدُہُ" خالی ہونا بس۔ جیسے "ھُوَ یَضْرِبُ"، "ھُوَ یَغْزُوْ"، "ھُوَ یَرْمِیْ"، "ھُوَ یَسْعٰی"۔ اب یہاں ساری صورتوں میں یہ جملہ فعلیہ پھر ھو مبتدا کی جا کے خبر بنتا ہے۔

وَصَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ مُحَمَّدٍ

الثاني : المضارع

وهو فعل يشبه الاسم بأحد حروف «أتَيْنَ» في أوّله لفظاً في اتّفاق حركاتهما وسكناتهما ك‍ : يَضْربُ ويَسْتَخْرجُ فهو كضارب ومُسْتَخْرج ، وفي دخول لام التأكيد في أوّلهما تقول : إنَّ زَيْداً لَيَقَومُ ، كما تقول : إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ ، وتساويهما في عدد الحروف ، ومعنى في أنّه مشترك بين الحال والاستقبال كاسم الفاعل ولذلك سمّوه مضارعاً ، والسين وسوف يخصّصه بالاستقبال نحو : سَيَضْربُ ، واللام المفتوحة بالحال نحو : لَيَضْربُ.

وحروف المضارعة مضمومة في الرباعيّ كيُدَحْرجُ ، أي فيما كان ماضيه على أربعة أحرف ، ومفتوحة فيما عداه كيَضْربُ ويَسْتَخْرجُ.

وإعرابه مع أنّ الأصل في الفعل البناء لمضارعته ، أي لمشابهته الاسم ، والأصل في الاسم الإعراب ، وذلك إذا لم يتّصل به نون التأكيد ، ولا نون الجمع المؤنّث ، وأنواع الإعراب فيه ثلاثة أيضاً ، رفع ، ونصب ، وجزم نحو : يَضْربُ وأنْ يَضْربَ ولَمْ يَضْربْ.

فصل : في أصناف الإعراب للفعل

وهو أربعة أصناف :

الأوّل : أن يكون الرفع بالضمة والنصب بالفتحة والجزم بالسكون. ويختصّ بالمفرد الصحيح الغير المخاطبة نحو : يَضْربُ وأنْ يَضْربَ ولَمْ يَضْربْ.

الثاني : أن يكون الرفع بثبوت النون والنصب والجزم بحذفها ويختصّ بالتثنية والجمع المذكّر والمفردة المخاطبة صحيحاً أو غيره ، تقول : هُما يَفْعَلانِ ، وهُمْ يَفْعَلُونَ ، وأنْتِ تَفْعَلينَ ، ولَنْ تَفْعَلا ، ولَنْ تَفْعَلُوا ، ولَنْ

تَفْعَلي ، ولَمْ تَفْعَلا ، ولَمْ تَفْعَلُوا ، ولَمْ تَفْعَلي.

الثالث : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة ، والنصب بالفتحة ، والجزم بحذف اللام ، ويختصّ بالناقص اليائيّ الواويّ غير التثنية ، والجمع ، والمخاطبة تقول : هُو يَرمي ويَغْزُو ، ولَنْ يَغْزُوَ ولَنْ يَرْمِيَ ، ولَمْ يَرْمِ ولَمْ يَغْزُ.

الرابع : أن يكون الرفع بتقدير الضمّة ، والنصب بتقدير الفتحة ، والجزم بحذف اللام ، ويختصّ بالناقص الألفيّ في غير التثنية ، والجمع ، والمخاطبة نحو : هُوَ يَسْعىٰ ، ولَنْ يَسْعىٰ ، ولَمْ يَسْعَ.

فصل : المضارع المرفوع عامله معنويّ وهو تجريده عن الناصب والجازم نحو : هُوَ يَضْربُ ، وهُوَ يَغْزُو ، وهُوَ يَرْمي ، وهُوَ يَسْعىٰ.

فصل : المضارع المنصوب عامله خمسة أحرف : «أنْ ، ولَنْ ، وكَيْ ، وإذَنْ ، وأنْ المقدّرة» ، نحو : اُريدُ أنْ تُحْسِنَ إلَيَّ ، وأنَا لَنْ أضْربَكَ ، وأسْلَمْتُ كَيْ أدْخُلَ الْجَنَّةَ ، وإذَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكْ.

وبتقدير أنْ في سبعة عشر موضعاً :

بعد حتّى نحو : أسْلَمْتُ حتّى أدْخُلَ الْجَنَّة.

ولام كَيْ نحو : قامَ زَيْدٌ لِيَضْربَ ، ولام الجحود نحو قوله تعالى : «وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ» (١).

والفاء الواقعة في جواب الأمر والنهي والاستفهام والنفي والتمنّي والعرض نحو : أسْلِمْ فَتَسْلِمَ ، ولا تَعْصِ فَتُعَذَّبَ ، وهَلْ تَعْلَمُ فَتَنْجُوَ ، وما تَزُورُنا فَنُكْرمَكَ ، وَلَيْتَ لي مالاً فَانْفِقَهُ وألا تَنْزلُ بِنا فَتُصيبَ خَيْراً.

____________________________

(١) الانفال : ٣٣.