درس الهدایة في النحو

درس نمبر 45: فعل ماضی اور مضارع کی بحث

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل ماضی اور اس کی بحث

 "وَقَدْ سَبَقَ تَعْرِيفُهُ وَ أَقْسَامُهُ ثَلَاثَةٌ: مَاضٍ وَ مُضَارِعٍ وَ أَمْرٍ اَلْأَوَّلُ الْمَاضِي"

 کتاب کی ساخت اور فعل کی بحث کا آغاز

ابتداء کتاب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میری کتاب میں ایک مقدمہ ہے اور پھر تین اقسام ہوں گی، قسمِ اول اسم کے بارے میں، قسمِ ثانی فعل کے بارے میں، قسمِ ثالث حرف کے بارے میں، اور پھر ایک خاتمہ آئے گا۔ قسمِ اول میں دو باب تھے، ایک خاتمہ تھا، مقدمہ تھا، اسم کی بحث بحمداللہ مکمل ہو گئی. آج شروع فرما رہے ہیں "اَلْقِسْمُ الثَّانِي فِي الْفِعْلِ" یعنی دوسری قسم فعل کے بارے میں۔ 

 فعل کی تعریف

فعل کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں ہم بتا چکے ہیں "الْفِعْلُ كَلِمَةٌ تَدُلُّ عَلَى مَعْنًى فِي نَفْسِهَا مُقْتَرِنٌ بِأَحَدِ الْأَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ"۔ یہ فعل کی تعریف تھی۔

 فعل کی اقسام (زمانہ کے لحاظ سے)

فعل کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک فعل ماضی ہوتا ہے، ایک فعل مضارع ہوتا ہے اور ایک امر ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فعل نے کسی ایک زمانے کو بھی معنی کے ساتھ بیان کرنا ہے تو فرماتے ہیں یا وہ گزرے ہوئے زمانے کو بیان کر رہا ہو گا، یا حال کو بیان کر رہا ہو گا، یا آنے والے زمانے کو، استقبال کو بیان کر رہا ہو گا۔ خوب۔ لہٰذا اس لیے اس لحاظ سے تین ہی قسمیں بنتی ہیں زمانے کے لحاظ سے۔ گزرا زمانہ، موجودہ زمانہ یا آنے والا زمانہ۔ تو بہرحال فعل بھی ظاہر ہے اِن ہی تین میں سے کسی ایک کو بیان کر رہا ہو گا. اسی بنیاد پر فعل کی تین قسمیں: فعل ماضی، فعل مضارع اور فعل امر۔

 فعل ماضی کی بحث

 فرماتے ہیں: یہ وہ فعل ماضی وہ فعل ہے۔ ماضی ویسے "مُضِيِّ" سے ہے۔ ماضی یہ اسمِ فاعل کا صیغہ بنتا ہے۔ "فِعْلُ الْمَاضِي"۔ ماضی اُس فعل کو کہتے ہیں جو "دَلَّ عَلَى زَمَانٍ قَبْلَ زَمَانِ"۔ یعنی ماضی اُس زمانے پر دلالت کرتا ہے۔ اب یہ لفظی معنی کیا ہو گا؟ جو تیرے زمانے سے پہلے ہو موجود۔ مراد کیا ہے؟ یعنی آپ مراد یہ کہیں گے کہ یہ وہ اُس زمانے پر دلالت کرتا ہے جو تیرے زمانے سے یعنی ابھی اس وقت جس میں آپ موجود ہیں اِس سے گزرا ہوا، اِس سے جو گذشتہ ہے، جو پچھلا ہے، اُس زمانے پر دلالت کرتا ہے۔ 

فعل ماضی کا اعراب

فرماتے ہیں: فعل ماضی کا اعراب کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں یہ فعل ماضی کا اعراب تین قسم کا ہے۔ کیسے؟ اگر اس کے ساتھ کوئی ضمیرِ مرفوع نہ ہو، اس کے ساتھ واؤ نہ ہو تو یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ" ہو گا۔ اور اگر کوئی ضمیرِ مرفوع آ گئی جیسے "ضَرَبْتَ"، "ضَرَبْتُ"، "ضَرَبْتِ" تو اُس صورت میں یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہوتا ہے۔ یعنی آخری حرف پر سکون پڑھتے ہیں۔ "ضَرَبْتُ"، "ضَرَبْتِ"، "ضَرَبْتَ" با پر سکون پڑھتے ہیں۔ اور اگر اس کے آخر میں کوئی واؤ آ گئی، اس کے متعلق ہو گئی تو پھر یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الضَّمِّ" ہو گا۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں "ضَرَبُوا"، "نَصَرُوا"۔ یعنی آخری حرف پر ضمہ پڑھتے ہیں۔ پس اب آپ سے اگر سوال ہو کہ فعل ماضی کا اعراب کیا ہے؟ تو ہمارا جواب یہ ہو گا۔ اگر فعل ماضی کے ساتھ کوئی ضمیرِ مرفوعِ متحرک یا واؤ اس کے ساتھ نہ ہو گی تو پھر یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ" ہو گا۔ اگر ضمیرِ مرفوعِ متحرک ساتھ ہو گی تو "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہو گا اور اگر کوئی واؤ ہو گی تو پھر "مَبْنِيٌّ عَلَى الضَّمِّ" ہو گا۔ بس مختصر سی بحث ہے ختم ہو گئی۔

4

فعل مضارع کي تعريف اور اسم فاعل کے ساتھ شباهت

 فعل مضارع کی بحث کا آغاز

اس کے بعد فرماتے ہیں:  دوسرا فعل وہ فعل مضارع ہے ۔ فعل مضارع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرماتے ہیں فعل مضارع۔ اب ظاہر ہے مضارع بمعنی مشابہ۔ چونکہ یہ مضارع "زَرَعَ" سے نکلا ہے۔ "زَرَعَ" کہتے ہیں پستان کو۔ تو وہ کہتے ہیں گویا کہ یہ اس فعل نے اور اسمِ فاعل نے ایک ہی جگہ سے دودھ پیا ہے۔ بہرحال یہ ایک لغوی بحثیں ہیں۔

 فعل مضارع کی تعریف اور اس کی مشابہت

فرماتے ہیں:  یہ فعل مضارع وہ فعل ہے۔ جو مشابہ ہوتا ہے۔ کس کے؟ اسمِ فاعل کے۔ فعل مضارع اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ آگے بتا رہے ہیں کس میں؟ البتہ اس فعل مضارع کی ابتداء میں حروفِ آتین، الف، تا، یا، نون۔ یعنی اُن میں سے کوئی ایک ہوتا ہے۔ اسمِ فاعل میں تو نہیں ہوتا۔ پس یہ فعل مضارع جس کی ابتداء میں حروفِ اتین ہو جیسے "اَضْرِبُ"، "تَا" جیسے "تَضْرِبُ"، "یَا" جیسے "یَضْرِبُ"، "نَا" جیسے "نَضْرِبُ"۔ تو پس فعل مضارع کی ابتداء میں اِن چار حروف میں سے کوئی ایک ہوتا ہے اور یہ مشابہ اسم ہوتا ہے۔ اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ "لَفْظًا" دو چیزوں میں۔ کِن میں؟ ایک تو "حَرَكَاتٌ و سَكَنَاتٌ" میں۔ بہت توجہ! کیسے؟ یعنی اسمِ فاعل میں جس جس حرف پر حرکت ہوتی ہے، مضارع میں بھی اُسی اُسی حرف پر حرکت ہوتی ہے اور سکنات میں یعنی مشابہ، مضارع میں جو حرف ساکن ہوتا ہے، یہ بھی اسی طرح، جس میں بھی وہی حرف ساکن ہوتا ہے۔ اسی طرح عددِ حروف میں بھی یہ اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ کہ جتنے حروف اسمِ فاعل میں ہوتے ہیں، اُتنے ہی حروف اس فعل مضارع میں ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ اسی طرح فرماتے ہیں اور، اور یہ ہے۔ کہ  جس طرح اسمِ فاعل پر لامِ تاکید آتی ہے، اسی طرح فرماتے ہیں اس فعل مضارع پر بھی لامِ تاکید آ جاتی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں:  "اِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ" تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ "اِنَّ زَيْدًا لَيَقُومُ" جیسے "قَائِمٌ" پر لام آ گئی، اس پر بھی لام آ سکتی ہے۔  یہ تو ہو گئی اس کی مشابہت   لفظ میں پھر معنی میں بھی اس کی مشابہت ہوتی ہے کہ جیسے اسمِ فاعل حال اور استقبال دونوں میں مشترک ہوتا ہے، یہ فعل مضارع بھی حال اور استقبال دونوں میں مشترک ہوتا ہے۔

 فعل مضارع کے حروفِ اِعراب

اب اس کے بعد اگلی بحث وہ فصل سے پہلے ایک مختصر سی ہے۔ کہ یہ جو آپ نے کہا ہے کہ مضارع وہ ہوتا ہے جس کی ابتداء میں حروفِ اتین ہوتے ہیں جن کو ہم حروفِ مضارع کہتے ہیں۔ ان حروفِ مضارع کا اپنا اعراب کیا ہو گا؟ یہ جو الف، تا، یا، نون ہے، اب کیا اِن کو مضموم پڑھیں گے؟ یا  کیا اِن کو مفتوح پڑھیں گے یا مکسور پڑھیں گے؟ اِن پر پڑھنا کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہے: کہ یہ حروفِ مضارع رباعی میں مضموم ہوتے ہیں۔ رباعی کے علاوہ باقیوں میں مفتوح ہوتے ہیں۔ پس "دَحْرَجَ يُدَحْرِجُ" "أَخْرَجَ يُخْرِجُ" جو رباعی تھے وہاں تو یہ مضموم ہیں لیکن باقیوں میں "ضَرَبَ يَضْرِبُ" "نَصَرَ يَنْصُرُ" "اِسْتَخْرَجَ يَسْتَخْرِجُ" وغیرہ۔ پس یاد رکھنے والی یہی بات ہے۔ کہ رباعی کے فعل مضارع میں حروفِ مضارع مضموم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام میں مفتوح ہوتے ہیں۔

 فعل مضارع کے معرب ہونے کی وجہ

ایک سوال اور اس کا جواب۔ جناب آپ نے کہا تھا کہ مبنی اصل تین چیزیں ہیں جن میں فعل کا ذکر کاتھا  تو فعل میں اصل تو ہے مبنی ہونا۔ لیکن اس مضارع میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ کبھی "مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ" ہوتا ہے، کبھی "مَبْنِيٌّ عَلَى الضَّمِّ" ہوتا ہے، اور کبھی "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہوتا ہے۔ تو یہ جو حرکت کا بدلنا ہے یہ تو معرب میں ہوتا ہے۔ یہ مبنی میں تو ہوتا ہی نہیں اور آگے آپ بتائیں گے کہ یہ منصوب بھی ہو گا، پھر آپ یہ بتائیں گے کہ یہ مجزوم بھی ہو گا تو یہ ہے جب فعل تو فعل میں تو اصل ہے مبنی ہونا۔ پھر یہ مضارع کیسے بن گیا؟ جواب میں کہتے ہیں : کیونکہ یہ مشابہ ہے اسم کے۔ شباہت اسم کی بنیاد پر اس کو اعراب دیا جاتا ہے اور اسم میں اصل معرب ہونا ہے۔ 

 فعل کی بحث کا اعادہ اور فعل ماضی کی تفصیل

"اَلْقِسْمُ الثَّانِي فِي الْفِعْلِ" قسم اول تھی اسم اور قسمِ ثانی ہے فعل، ان شاء اللہ قسمِ ثالث آئے گی آگے. قسمِ ثانی ہے فعل۔ "وَ قَدْ سَبَقَ تَعْرِيفُهُ"۔ فعل کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں اس کی تعریف ہم بیان کر چکے ہیں۔ وہ پیچھے کیا تھی؟ یعنی فعل "کَلِمَةٌ تَدُلُّ عَلَى مَعْنًى فِي نَفْسِهَا مُقْتَرِنٌ بِأَحَدِ الْأَزْمِنَةِ الثَّلَاثَةِ"۔ یہ تعریف ہم نے پیچھے پڑھی ہے۔ "وَ اَقْسَامُهُ"۔ فعل کی اقسام تین ہیں یعنی فعل کی تین قسمیں ہیں چونکہ فعل نے جب زمانے کو بیان کرنا ہے تو زمانے کی صرف تین ہی حالتیں ہیں: یا گزرا ہوا زمانہ، یا موجودہ زمانہ یا آنے والا۔ تو اس لحاظ سے پھر فعل کی تین قسمیں ہو گئیں وہ: ماضی، مضارع اور امر۔ اب پہلے شروع فرما رہے ہیں ماضی کو۔ "اَلْأَمْرُ" اچھا "اَلْأَوَّلُ" پہلا ہے "اَلْمَاضِي" یعنی فعل ماضی، یہ لفظِ ماضی اسمِ فاعل ہے۔ "هُوَ فِعْلٌ مَاضِي"۔ یعنی فعلِ ماضی۔ ماضی وہ فعل ہے۔ "دَلَّ عَلَى زَمَانٍ قَبْلَ زَمَانِكَ" جو اس زمانے پر دلالت کرے جو تیرے زمانے سے پہلے ہو۔ مراد کیا ہے؟ یعنی موجودہ زمانے سے پہلے والے زمانے پر جو دلالت کرتا ہو اس فعل کو فعل ماضی کہتے ہیں۔ ختم۔ "وَ هُوَ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ"۔ یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ" ہوتا ہے بشرطیکہ "اِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ ضَمِيرٌ مَرْفُوعٌ مُتَحَرِّكٌ" اگر اس کے ساتھ کوئی ضمیرِ مرفوعِ متحرک ملی ہوئی نہ ہو تو جیسے "ضَرَبَ" "ضَرَبَا" "نَصَرَ" "نَصَرَا""عَلِمَ" "عَلِمَا" وغیرہ۔ "وَ لَا وَاوٌ" اور دوسرا یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ" ہو گا بشرطیکہ اس کے آخر میں واؤ بھی نہ ہو۔ ختم۔ جیسے "ضَرَبَ" "نَصَرَ" "عَلِمَ" "حَسِبَ" "شَرُفَ" وغیرہ۔ "وَ عَلَى الضَّمِّ مَعَ الْوَاوِ"۔ لیکن اگر اس کے آخر میں واؤ آ جائے گی تو پھر یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہو گا۔ جیسے "ضَرَبْتُ" "ضَرَبْتَ" "ضَرَبْتِ" اب تو، تے، تا یہ ضمیرِ مرفوع ہے متحرک ہے لہٰذا اسی لیے "ضَرَبْتُ" میں با یہاں پر "مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ" ہے۔ "نَصَرْتُ" ٹھیک ہے جی؟ "نَصَرْتَا" "عَلِمْتُ" "عَلِمْتَ" وغیرہ۔ "وَ عَلَى الضَّمِّ مَعَ الْوَاوِ"۔ لیکن اگر اس کے آخر میں واؤ آ جائے گی تو پھر یہ "مَبْنِيٌّ عَلَى الضَّمِّ" ہو گا۔ جیسے "ضَرَبُوا" "نَصَرُوا" "عَلِمُوا" وغیرہ۔ اب آپ نے دیکھا آخر میں واؤ تھی تو با پر ہم نے ضمہ پڑھا ہے۔ "نَصَرُوا" میں را پر ضمہ پڑھا ہے۔

فعل مضارع کی تعریف اور اس کی مشابہت

"وَ الثَّانِي" "فعل" کی دوسری قسم ہے "فعل مضارع"۔ فرماتے ہیں "هُوَ فِعْلٌ" یہ وہ "فعل" ہے "يُشْبِهُ الْإِسْمَ" جو مشابہ "اسم" ہوتا ہے۔ "بِأَحَدَى حُرُوفِ آتَيْنَ فِي أَوَّلِهِ" اپنی ابتداء میں "حُرُوفِ آتَيْنَ" میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ لفظی ترجمہ ہے، لیکن آپ جب سمجھیں گے تو کیا کریں گے؟ کہ "فعل مضارع" اگرچہ "اسم" کے مشابہ ہوتا ہے "لَفْظًا"۔ وہ آگے آ رہا ہے۔ یہ مشابہ "اسم" ہوتا ہے۔ "لَفْظًا" "فِي اِتِّفَاقِ الْحَرَكَاتِ وَالسَّكَنَاتِ" "حَرَكَاتٍ وَسَكَنَاتٍ" میں۔ لیکن اس "فعل مضارع" کی ابتدا میں، اول میں "حُرُوفِ آتَيْنَ" میں سے یعنی "أَلِف، تَاء، يَاء وَنُون" میں سے کوئی ایک پہلے ہوتا ہے۔ یا "حُرُوفِ آتَيْنَ" میں سے کوئی ایک ابتدا میں ہوگا، جیسے ہم کہتے ہیں "يَضْرِبُ"، ہم کہتے ہیں "نَضْرِبُ"، ہم کہتے ہیں "أَضْرِبُ"، ہم کہتے ہیں "تَضْرِبُ"۔ فعل مضارع اپنی ابتدا میں حروف اتين میں سے کسی ایک حرف کو رکھتا ہے اور اس کے یعنی حروف اتين میں سے کسی ایک حرف کے ساتھ یہ فعل مضارع مشابہ اسم فاعل ہوتا ہے۔ کس میں؟ لفظا مشابہ ہوتا ہے۔ حرکات اورسكنات کے اتفاق میں۔ کیا مطلب؟ یعنی اسم فاعل میں جو جس حرف پر حرکت ہوتی ہے مضارع میں بھی اسی پر حرکت ہوتی ہے۔ جہاں اسم فاعل میں جو حرف ساکن ہوتا ہے، اس فعل مضارع میں بھی وہی حرف ساکن ہوتا ہے۔ مثال دوں گا آسان۔ "يَضْرِبُ" یہ ہو گیا "مضارع"۔ "فاعل" ہے "ضَارِبٌ" اب ذرا غور کرو "ضَارِبٌ" اب یہ "ضَارِبٌ" میں بھی "الف" ساکن ہے، "یَضرَبُ" میں ضاد  ساکن ہے، "ضَارَبٌ" یہاں پر را پر حرکت ہے، "یَضرِبُ" میں بھی را  پر حرکت ہے، وہاں پر بھی باء پر حرکت ہے، اس میں بھی با پر حرکت ہے۔ اسی طرح "مُسْتَخْرِجٌ" "يَسْتَخْرِجُ" سے ہے۔ فرماتے ہیں "يَسْتَخْرِجُ" ٹھیک ہے جی؟ تو اب یہ ہو گیا مضارع  اسم فاعل  کے مشابہ ہے "لَفْظًا"۔ "مُسْتَخْرِجٌ" "اسم فاعل" میں "میم" کے بعد "سین"ساکن ہے، "خا "ساکن ہے، "را" پر حرکت ہے، "تا" پر حرکت ہے، "جیم" پر حرکت ہے۔ "فعل مضارع" "يَسْتَخْرِجُ" میں بھی "سین" بھی ساکن ہے، "خا" بھی ساکن ہے، "تا" پر بھی حرکت ہے، "را" پر بھی حرکت ہے اور "یا" پر بھی حرکت ہے۔ تو پس حركات اورسكنات کے اتفاق میں بھی یہ فعل مضارع اسم فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ ایک۔

5

فعل مضارع اور اس کی مکمل وضاحت

 فعل مضارع اور اسم فاعل میں لام تاکید کا داخل ہونا

"وَفِي دُخُولِ لَامِ التَّأْكِيدِ فِي أَوَّلِهِمَا" اور دوسرا اس فعل مضارع اور اسم فاعل کی دوسری مشابہت کس میں ہے؟ وہ ہے کہ ان دونوں کے ابتدا ءمیں  لام تأكيد داخل ہو سکتی ہے۔ جیسے فعل مضارع پر لَامِ التَّأْكِيدِ داخل ہوتی ہے، سوری جیسے اسم فاعل پر لَامِ تَّأْكِيدِ داخل ہوتی ہے اسی طرح فعل مضارع پر بھی لَامِ التَّأْكِيد  داخل ہوتی ہے۔ تو پس اس لحاظ سے بھی اسم فاعل کے مشابہ ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "إِنَّ زَيْدًا لَيَقُومُ" "إِنَّ زَيْدًا لَيَقُومُ" "يقوم" پر "لَامِ التَّأْكِيدِ" کا داخل ہونا صحیح ہے، "كَمَا تَقُولُ" جیسے کہ آپ اسم فاعل  پر کہتے ہیں کہ "إِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ" تو پس ایک مشابہت کی وجہ ہو گئی اسم فاعل اور اس کی یعنی حَرَكَات وَسَكَنَات کا  متفق ہونا۔ دوسری ہو گئی کہ دونوں پر لَامِ تَّأْكِيدِ داخل ہوتی ہے۔

 فعل مضارع اور اسم فاعل میں حروف کی تعداد

تیسری "وَفِي تَسَاوِيِهِمَا فِي عَدَدِ الْحُرُوفِ" "فعل مضارع" اور اسم فاعل"حروف کی تعداد میں مساوی ہیں یعنی جتنے حرف اسم فاعل میں ہوتے ہیں اتنے ہی حرف اس فعل مضارع میں ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کرو  اسم فاعل ہے "ضَارِبٌ" "ضاد" ایک، "الف" دو، "را" تین، "با" چار۔ چار حرف ہو گئے۔ اب دیکھیں اس کا مضارع "يَضْرِبُ" "یا" ایک، "ضاد" دو، "را" تین اور "با" چار۔ تو پس تیسری شباہت کیا ہے کہ یہ اسم فاعل اور مضارع  تعداد حروف میں بھی مشابہ ہوتے ہیں۔ یہ تو ہو گئی "شَبَاهَةٌ لَفْظِيَّةٌ"۔ اب لکھیں گے تو اور آسان کر دوں گا۔ فعل مضارع  اسم فاعل کا لَفْظًا تین چیزوں میں مشابہ ہوتا ہے۔ نمبر ایک حَرَكَات اور سَكَنَات میں، نمبر دو "لَامِ التَّأْكِيدِ" کے داخل ہونے میں اور نمبر دو "لَامِ التَّأْكِيدِ" کا داخل ہونا اور نمبر تین تعداد حروف میں۔ مثالیں میں نے آپ کو سمجھا دی ہیں۔

معنی کے لحاظ سے مشابہت

اسی طرح فرماتے ہیں "وَبِمَعْنَى" یہ فعل مضارع فقط "لَفْظًا" اسم فاعل کے مشابہ نہیں ہوتا بلکہ معنی کے لحاظ سے بھی یہ فعل مضارع"کے مشابہ ہوتا ہے۔ کس لحاظ سے؟ "فِي أَنَّهُ مُشْتَرِكٌ بَيْنَ الْحَالِ وَالْاسْتِقْبَالِ كَاسْمِ الْفَاعِلِ" وہ جیسے اسم فاعل حال اور استقبال دونوں میں مشترک ہوتا ہے یعنی کوئی ابھی مار رہا ہے تو بھی "ضَارِبٌ" کہیں گے، بعد میں مارے گا تو بھی "ضَارِبٌ"۔ اسی طرح یہ فعل مضارع بھی مشترک ہوتا ہے حال اور استقبال میں۔ "يَضْرِبُ" کا معنی ہم ہر جگہ یہی کرتے ہیں کہ وہ مارتا ہے یا مارے گا۔ تو لہٰذا معنًا بھی یہ اسم فاعل کے مشابہ ہے۔ ختم۔ پس "وَلِذَلِكَ سَمَّوْهُ مُضَارِعًا" چونکہ یہ "فعل مضارع  اسم فاعل کی لَفْظًا بھی مشابہ ہوتا ہے، معنًا بھی مشابہ ہوتا ہے، اسی لیے اس فعل کو مضارع کہتے ہیں۔ مضارع یعنی مشابہ اور یہ مشابہ ہوتا ہے اسم فاعل کے۔ 

 حروف تعیین (سین، سوف، لام مفتوحہ) اور فعل مضارع

آگے فرماتے ہیں۔ البتہ "اَلسِّينُ وَالسِّينُ وَالسَّوْفَاءُ" ان کو "حُرُوفِ تَعْيِين" بھی کہتے ہیں اور "حُرُوفِ تَنْفِيس" بھی کہتے ہیں۔ یہ صرف میں آپ نے پڑھا ہوگا۔ اگر کبھی فعل مضارع پر "سین" اور "سوف " داخل ہو جائے تو یہ اس مضارع کو زمانہ استقبال کے ساتھ خاص کر دیتے ہیں یعنی پھر اس میں حال والا معنی نہیں ہوتا۔ "وَالسِّينُ وَالسَّوْفَاءُ فَتُخَصِّصُ بِالْاسْتِقْبَالِ" یعنی اگر فعل مضارع پر "سین" اور سوف آ جائے تو یہ اس کو زمانہ استقبال کے ساتھ خاص کر دیتے ہیں۔ جیسے "يَضْرِبُ" اگر خالی "يَضْرِبُ" ہوگا تو اس کا معنی ہوگا وہ مارتا ہے یا مارے گا۔ دونوں تھے، لیکن جب کہیں گے "سَيَضْرِبُ" یا "سَوْفَ يَضْرِبُ" اب حال کا معنی ختم ہو جائے گا۔ یہاں فقط استقبال والا معنی ہوگا کہ وہ مارے گا۔ اسی طرح "وَاللَّامُ الْمَفْتُوحَةُ بِالْحَالِ" لیکن اگر "فعل مضارع" پر لام مفتوحہ داخل ہو جائے تو یہ لام مفتوحہ اس فعل مضارع کو  زمانہ حال کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔ پھر اس میں استقبال والا معنی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر "يَضْرِبُ" کی بجائے ہم پڑھیں گے "لَيَضْرِبُ" تو "لَيَضْرِبُ" کا فقط ایک معنی ہوگا کہ وہ مارتا ہے۔ اس "سین"، سوف اور لام مفتوحہ کو حُرُوفِ تَعْيِين کہتے ہیں  چونکہ یہ  مضارع  کو ایک خاص معنی کے ساتھ  مختص کر دیتے ہیں۔ 

حروف مضارع کا اعراب

اب فرماتے ہیں یہ جو خود حروف مضارع ہیں یعنی جو حُرُوفِ آتَيْنَ ہیں خود ان حروف کا اعراب کیا پڑھنا ہوگا؟ فرماتے ہیں "حُرُوفُ الْمُضَارَعَةِ مَضْمُومَةٌ فِي الرُّبَاعِي" یہ جو "حُرُوفِ مُضَارَعَت" ہوتے ہیں۔ اگر تو وہ ہے "فعل رباعی" تو اس میں تو حرف مضارع ہوگا "مضموم"۔ "حُرُوفُ الْمُضَارَعَةِ مَضْمُومَةٌ فِي الرُّبَاعِي" یعنی اگر "فعل رباعی" ہے یعنی ثلاثی نہیں ہے، خماسی نہیں ہے، رباعی ہے تو اس میں تو یہ حرف مضارع مضموم ہوں گے۔ جیسے "دَحْرَجَ يُدَحْرِجُ" "يُدَحْرِجُ" آپ نے دیکھا یا پر ضمہ ہے۔ "يُخْرِجُ" یعنی اصل میں "أَخْرَجَ يُخْرِجُ" "لِأَنَّ أَصْلَهُ" چونکہ اس کی اصل تھی "يُؤَخْرِجُ" تو "يُؤَخْرِجُ" سے ہم نے پڑھا ہے "يُخْرِجُ" لہٰذا یہاں پر بھی "یا" مضموم ہوگی چونکہ یہ رباعی  تھے۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ "مَفْتُوحَةٌ فِيمَا عَدَاهُ" لیکن اگر رباعی نہیں، ثلاثی ہے مثلاً یا رباعی مزید فیہ  وغیرہ۔ بس رباعی کے علاوہ جتنے بھی ہیں وہاں پر یہ فعل مضارع مفتوح ہوگا۔ جیسے "يَضْرِبُ"، "يَنْصُرُ"، "يَعْلَمُ"، "يَسْتَخْرِجُ"، "يَسْتَفْعِلُ"، "يَسْتَنْكِحُ" وغیرہ۔ ختم۔ یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔

 فعل مضارع کے معرب ہونے کی وجہ

آگے ایک اور بات ہے۔ وہ اور بات کیا ہے؟ کہ جناب فعل تو ہمیشہ معرب ہوتا ہے۔ سوری، فعل ہمیشہ مبنی ہوتا ہے یعنی فعل  میں اصل ہے مبنی ہونا۔ تو جب فعل میں اصل مبنی ہوتا ہے تو یہ مضارع  معرب کیوں ہے؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کبھی اس پر فتح آ رہا ہے، کبھی اس پر جو ہے وہ ضمہ آ رہا ہے، کبھی یہ ساکن ہو رہا ہے، کبھی انشاءاللہ آگے ہم پڑھیں گے تو اس میں کبھی نصب آ رہا ہے تو اس پر تو کئی قسم کے اعراب آتے ہیں۔ جب فعل میں اصل مبنی ہونا ہے تو پھر یہ فعل مضارع معرب کیوں ہے؟ یہ ہو گیا سوال۔ جواب یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ جواب یہ ہے "وَإِنَّمَا أَعْرَبُوهُ" علماء فعل مضارع کو معرب قرار دیتے ہیں "مَعَ أَنَّ أَصْلَ الْفِعْلِ الْبِنَاءُ" حالانکہ فعل میں اصل ہے مبنی ہونا۔ تو یہ بھی تو فعل ہے لہٰذا اس کو بھی مبنی ہونا چاہیے۔ فرماتے ہیں اس کو "أَعْرَبُوهُ" اس کو معرب اس لیے قرار دیتے ہیں "لِمُضَارَعَتِهِ" "مضارع" بمعنی "مشابہت" کے جو میں نے پہلے ہی بتایا۔ چونکہ یہ مشابہ ہوتا ہے اسم کے، لَفْظًا بھی اور معنًا بھی، ہم نے ابھی بیان کر دیا اور اسم میں اصل معرب ہونا ہے۔  کہ اگرچہ فعل میں اصل مبنی ہونا ہے لیکن ہم اس کے باوجود کہ مضارع فعل ہے ہم پھر بھی اس کو معرب قرار دے رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہوتا ہے مشابہ اسم کے لَفْظًا بھی اور معنًا بھی اور جو اسم ہوتا ہے یعنی اسم فاعل وہ معرب ہوتا ہے۔ تو لہٰذا اس لیے ہم اس کو معرب قرار دے رہے ہیں۔

 فعل مضارع کے معرب ہونے کی شرائط

آگے فرماتے ہیں۔ فعل مضارع  معرب ہوگا لیکن کب؟ "إِذَا لَمْ يَتَّصِلْ بِهِ نُونُ التَّأْكِيدِ وَلَا نُونُ جَمْعِ الْمُؤَنَّثِ" اگر فعل مضارع کے ساتھ "نون تاکید" یا "نون جمع مؤنث" نہ ہوگی تو۔ یعنی اگر "نون تاکید" آئے گی تو پھر "يَضْرِبَنَّ" پڑھیں گے، "يَضْرِبُنَّ" پڑھیں گے۔ ٹھیک ہے جی؟ اور نون جمع مؤنث آئے گی، جمع مؤنث "نون" کون سی ہوتی ہے؟ "يَضْرِبُ، يَضْرِبَانِ، يَضْرِبُونَ، تَضْرِبُ، تَضْرِبَانِ، يَضْرِبْنَا" تو وہاں پر بھی یہ پھر کیا ہوتا ہے؟ "مبنی" اور سکون ہوتا ہے۔ وہاں پھر معرب نہیں ہوتا۔ 

 فعل مضارع کے اعراب کی اقسام

اب آپ نے کہا ہے کہ ہم شباہت اسم کی بنیاد پر مضارع کو معرب قرار دے رہے ہیں تو پھر اس کا اعراب کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں "إِعْرَابُهُ ثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ" اس کے اعراب کی تینوں قسمیں ہیں، یہ مرفوع بھی ہوتا ہے، منصوب بھی ہوتا ہے، مجزوم بھی ہوتا ہے۔ اس پر رفع، نصب، جزم، جر نہ  جزم ، یہ تینوں ہوتے ہیں چونکہ "فعل پر  جر نہیں آتی۔ جیسے "هُوَ يَضْرِبُ" اب یہاں اس پر رفع آ گیا۔"لَنْ يَضْرِبَ" یہاں پر اس پر نصب آ گیا۔"لَمْ يَضْرِبْ "یہاں پر اس پر جزم آ گیا۔ پس اگر سوال یوں ہو کہ "فعل مضارع" کے "اعراب" کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب "فعل مضارع" کے "اعراب کی تین قسمیں ہیں۔ رفع، نصب اور جزم۔ جر نہیں جزم چونکہ فعل کبھی مجرور نہیں ہوتا چونکہ حرف جار اسم پر داخل ہوتے ہیں، فعل پر داخل نہیں ہوتے۔

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

مضافاً ك‍ : زَيْدٌ أفْضَلُ الْقَوْم ، أو معرّفاً باللام نحو : زَيْدٌ الْأفْضَلُ ، أو بمِنْ نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ.

ويجوز في الأوّل الإفراد ومطابقة اسم التفضيل للموصوف نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ الْقَوْمِ ، والزَّيْدانِ أفْضَلا الْقَوْمِ ، والزَّيْدُونَ أفْضَلُوا الْقَوْمِ واَفْضَلُ الْقَوْمِ ، والْهِنْدُ والهِنْدانِ فُضْلَى الْقَوْمِ وفُضْلَيَا الْقَوْمِ ، والْهِنْداتُ فُضْلَياتُ الْقَوْمِ.

وفي الثاني يجب المطابقة نحو : زَيْدٌ الأفْضَلُ ، والزَّيْدانِ الأفْضَلانِ ، والزَّيْدُونَ الأفْضَلُونَ وهند الفضلى والهندان الفضليان والهندات الفضليات.

وفي الثالث يجب كونه مفرداً مذكّراً أبداً نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ ، والزَّيْدانِ أفْضَلُ مِنْ عمروٍ ، والزَّيْدُونَ أفْضَلُ مِنْ عمروٍ ، والهِنْدُ والهِنْدانِ والهِنْدات أفضلُ من عمروٍ.

وعلى الأوجه الثلاثة يضمر فيه الفاعل وهو يعمل في ذلك المضمر ، ولا يعمل في مظهر أصلاً إلّا في مثل قولهم : ما رَأيْتُ رَجُلاً أحْسَنَ في عَيْنِهِ الْكُحْلُ مِنْهُ في عَيْنِ زَيْدٍ ، فإنّ الكحل فاعل لِأحْسَن وهاهنا بحث.

القسم الثاني : في الفعل

وقد سبق تعريفه ، وأقسامه ثلاثة : ماض ، ومضارع ، وأمر.

الأوّل : الماضي

وهو فعل دلّ على زمان قبل زمان الخبريّة ، وهو مبنيّ على الفتح إن لم يكن معه ضمير مرفوع متحرّك ، فهو مبنيّ على السكون كضَرَبْتُ ، وعلى الضمّ مع الواو كَضَربُوا.

الثاني : المضارع

وهو فعل يشبه الاسم بأحد حروف «أتَيْنَ» في أوّله لفظاً في اتّفاق حركاتهما وسكناتهما ك‍ : يَضْربُ ويَسْتَخْرجُ فهو كضارب ومُسْتَخْرج ، وفي دخول لام التأكيد في أوّلهما تقول : إنَّ زَيْداً لَيَقَومُ ، كما تقول : إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ ، وتساويهما في عدد الحروف ، ومعنى في أنّه مشترك بين الحال والاستقبال كاسم الفاعل ولذلك سمّوه مضارعاً ، والسين وسوف يخصّصه بالاستقبال نحو : سَيَضْربُ ، واللام المفتوحة بالحال نحو : لَيَضْربُ.

وحروف المضارعة مضمومة في الرباعيّ كيُدَحْرجُ ، أي فيما كان ماضيه على أربعة أحرف ، ومفتوحة فيما عداه كيَضْربُ ويَسْتَخْرجُ.

وإعرابه مع أنّ الأصل في الفعل البناء لمضارعته ، أي لمشابهته الاسم ، والأصل في الاسم الإعراب ، وذلك إذا لم يتّصل به نون التأكيد ، ولا نون الجمع المؤنّث ، وأنواع الإعراب فيه ثلاثة أيضاً ، رفع ، ونصب ، وجزم نحو : يَضْربُ وأنْ يَضْربَ ولَمْ يَضْربْ.

فصل : في أصناف الإعراب للفعل

وهو أربعة أصناف :

الأوّل : أن يكون الرفع بالضمة والنصب بالفتحة والجزم بالسكون. ويختصّ بالمفرد الصحيح الغير المخاطبة نحو : يَضْربُ وأنْ يَضْربَ ولَمْ يَضْربْ.

الثاني : أن يكون الرفع بثبوت النون والنصب والجزم بحذفها ويختصّ بالتثنية والجمع المذكّر والمفردة المخاطبة صحيحاً أو غيره ، تقول : هُما يَفْعَلانِ ، وهُمْ يَفْعَلُونَ ، وأنْتِ تَفْعَلينَ ، ولَنْ تَفْعَلا ، ولَنْ تَفْعَلُوا ، ولَنْ