درس الهدایة في النحو

درس نمبر 44: اسم تفضیل

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم تفضیل کی تعرہف

فصل : "اِسْمُ التَّفْضِيل"

 "اِسْمٌ مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ لِيَدُلَّ عَلَى الْمَوْصُوفِ بِزِيَادَةٍ عَلَى غَيْرِهِ"

 آٹھویں فصل

خاتمہ کی بحث میں آٹھویں فصل: شاید یہ آخری فصل ہوگی اور اس پر "اِسْمٌ" کی بحث الحمدللہ مکمل ہو جائے گی۔ یہ آٹھویں فصل ہے۔

اسم تفضيل کی تعریف

"اِسْمِ تَفْضِيلُ" وہ "اِسْمٌ" ہے۔ جو مشتق ہوتا ہے فعل سے۔ اب یہاں لازم اور متعدی کا لفظ نہیں ہے۔ بہت توجہ! جو مشتق ہوتا ہے فعل سے  تاکہ وہ دلالت کرے کہ میرے موصوف میں یہ چیز اُس کے غیر سے زیادہ ہے۔ بہت توجہ! یعنی وہ چیز فقط اِسی میں نہیں ہوتی یعنی جو صفت یہ  بیان کر رہا ہے وہ دوسرے میں بھی ہے، لیکن اسمِ تفضیل بتاتا ہے کہ میں جس کی صفت بن کے آ رہا ہوں، یہ چیز میرے موصوف میں باقیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ یہ معنی میرے موصوف میں دوسروں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔

 اسم تفضيل کا صیغہ

آگے فرماتے ہیں اسمِ تفضیل کا صیغہ "أَفْعَلُ" کے وزن پر آتا ہے۔ "أَفْعَلُ"، "أَفْضَلُ"، "أَعْلَمُ" یعنی "أَفْعَلُ"۔ "اِسْمُ التَّفْضِيلُ" کا صیغہ "ثُلاَثِي مُجَرَّدٌ" سے بنایا جاتا ہے۔ لیکن اُس "ثُلاَثِي مُجَرَّدٌ" سے جو رنگ اور عیب کا معنی نہ دے رہا ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں، "عَلِيٌّ أَفْضَلُ النَّاسِ"۔ اب یہ "أَفْضَلُ" نہ رنگ، یہ نکلا ہے "فَاضِلٌ" سے۔ اب ظاہر ہے نہ اُس میں کوئی رنگ والا معنی ہے اور نہ ہی کوئی عیب والا۔ پس یہ "فَاضِلٌ ثُلاَثِي مُجَرَّدٌ" بھی ہے اور رنگ و عیب کے معنی میں بھی نہیں ہے۔ اگر یہ رنگ و عیب کے معنی میں ہوتا تو پھر اس سے "أَفْعَلُ" مشتق نہ ہوتا۔ ٹھیک ہو گیا آغا؟ پس "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" اس کا صیغہ "أَفْعَلُ" آتا ہے لیکن "أَفْعَلُ" ہوتا ہے مذکر کے لیے۔ اگر مؤنث ہوگا تو اس کے لیے صیغہ "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" "فُعْلَى" کے وزن پر آتا ہے۔ ان شاء اللہ آگے ہم پڑھیں گے. 

 اسمِ تفضیل کی تعریف 

"أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ"، "اِسْمُ التَّفْضِيلِ" "اِسْمٌ"۔ اسمِ تفضیل وہ اسم ہے۔ "مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ" جو فعل سے مشتق ہو۔ ممکن ہے مراد یہاں پر ہو کہ مصدر سے مشتق ہو۔ "لِيَدُلَّ عَلَى الْمَوْصُوفِ" تاکہ یہ دلالت کرے۔ کس پر؟ اپنے موصوف پر۔ "بِزِيَادَةٍ عَلَى غَيْرِهِ" کہ میرے موصوف میں یہ معنی یہ چیز باقیوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔

4

اسمِ تفضیل کا صیغہ اور اس کا استعمال

"وَ صِيغَتُهُ" اس میں تفضیل کا صیغہ ہے "أَفْعَلُ"۔ "أَفْعَلُ" کے وزن پر آتا ہے۔ "فَلَا يُبْنَى إِلَّا مِنَ الثُّلَاثِيِّ الْمُجَرَّدِ"۔ "أَفْعَلُ" "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" کے علاوہ کسی اور سے نہیں بنایا جاتا۔ کیا مطلب؟ یعنی "أَفْعَلُ" ہمیشہ "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" سے بنایا جاتا ہے "اَلَّذِي" اور وہ بھی ایسا "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" "لَيْسَ بِلَوْنٍ وَلَا عَيْبٍ" جو رنگ و عیب کے معنی میں نہ ہو۔ جیسے "زَیدٌ أَفْضَلُ النَّاسِ" "عَلِيٌّ أَفْضَلُ النَّاسِ"۔اسمِ تفضیل "أَفْعَلُ" مذکر کے لیے، "فُعْلَى" مؤنث کے لیے۔ اسمِ تفضیل "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" سے بنایا جاتا ہے، غیر "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" سے نہیں بنایا جاتا۔ رنگ و عیب کے معنی میں نہ ہو، رنگ و عیب ظاہری جیسے سرخ ہونا، سفید ہونا، یہ رنگ ہے۔ عیب، لولا لنگڑا ہونا، اندھا ہونا، ناک کاٹ، ہاتھ کٹا ہونا، یہ عیب ہے۔ اس مراد سے مراد عیوب ظاہری ہیں۔ کچھ عیوب ہوتے ہیں عیوب باطنی۔ جیسے جہالت، یہ عیوب باطنی ہے۔ احمق ہونا، یہ عیوب باطنی ہیں۔ تو اِن میں ہم "اَجْہَلُ" کہہ سکتے ہیں، "اَحْمَقُ" بھی کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کہا ہے جو عیوب ظاہری نہ ہو۔ پس "زَيْدٌ أَفْضَلُ النَّاسِ" یہ "أَفْضَلُ" صیغہ اسمِ تفضیل کا ہے۔ "أَفْعَلُ" کے وزن پر ہے۔ "فَاضِلُ" فضیلت سے مشتق ہے۔ "ثُلاَثِيِّ الْمُجَرَّدِ" سے ہے اور "فَاضِلُ" عیب یا رنگ ظاہری کے معنی بھی اس میں نہیں پایا جاتا۔ یہ پہلا پہرہ یہاں ختم۔

 اسمِ تفضیل کی بناوٹ جب زائد یا رنگ اورعیب ہو

آگے فرماتے ہیں:  "فإن كان زائداً على الثلاثة" لیکن اگر وہ ثلاثی سے زائد ہو۔ "أَوْكَانَ لَوْنًا أَوْ عَيْبًا" یا ہو تو ثلاثی لیکن وہ رنگ و عیب کے معنی میں ہو، "يَجِبُ أَنْ يُبْنَى أَفْعَلُ مِنْ ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدٍ" پھر بھی واجب ہے کہ صیغہ "أَفْعَلُ" کو یعنی اسمِ تفضیل کو پھر بھی کس سے بنایا جائے؟ اس کو اُسی "ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدِ" سے بنایا جائے۔ لیکن، اس کے بعد اُس فعل کے مصدر کو ذکر کیا جائے۔ جو اس کی تمییز ہونے کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ منصوب ہوگا۔ غورفرمائیں؟ "فَإِنْ كَانَ زَائِدًا عَلَى الثُّلَاثِيِّ أَوْ كَانَ لَوْنًا أَوْ عَيْبًا" یعنی اگر فعل "ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدِ" سے زائد ہے۔ یا ہے تو "ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدِ" لیکن وہ رنگ و عیب کا معنی دیتا ہے تو فرماتے ہیں واجب ہے کہ "أَفْعَلُ" کو "ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدِ" سے ہی لیں۔ ٹھیک ہے جی؟ اس کو اُسی "ثُلاَثِيِّ مُجَرَّدِ" سے ہی لیں۔ لیکن اس کے بعد اُس فعل کے مصدر کو، جس سے اسمِ تفضیل بنانا ممتنع تھا، اُس فعل کے مصدر کو بنا بر تمییز کے ذکر کر دیں۔ مثال، "هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ اسْتِخْرَاجًا"۔ اب یہ زائد عن ثلاثی کی مثال ہے۔ "هُوَ أَقْوَى مِنْهُ حُمْرَةً" یہ لون رنگ کی مثال ہے۔ "أَقْبَحُ مِنْهُ عَرَجًا" یہ عیب کی مثالیں ہیں۔ غیر عیب کی مثال جیسے  "زَیدٌ أَفْضَلُ النَّاسِ"اور "كَمَا تَقُولُ هُوَ أَشَدُّ اِسْتِخْرَاجًا وَ أَقْوَى حُمْرَةً وَ أَقْبَحُ عَرَجًا"۔ "أَشَدُّ اسْتِخْرَاجًا" مثال ہیں زائد عن ثلاثی کی۔ "أَقْوَى حُمْرَةً" یہ مثال ہے رنگ کی۔ اور "أَقْبَحُ عَرَجًا" یہ مثال ہو گی عیب کی۔ یہ "عَرَجًا" اور "حُمْرَةً" اور "اِسْتِخْرَاجًا" یہ اُن افعال کے مصدر ہیں۔ کہ جن سے ہم "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" نہیں بنا سکتے تھے۔ لیکن ان کے مصدر کو بعد میں بنا بر تمییز کے ذکر کیا گیا۔ جو ہم نے "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" بنایا ہے وہ ہے "أَقْوَى" اور "أَقْبَحُ" اور "أَشَدُّ"۔

 اسمِ تفضیل کا استعمال فاعل اور مفعول کے لیے

"قِيَاسُهُ أَنْ يَكُونَ لِلْفَاعِلِ" یہ "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" قانون تو یہ ہے کہ یہ اسمِ تفضیل کا قیاسی استعمال یہ ہے کہ وہ فاعل کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی قانون یہ ہے کہ یہ "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" فاعل کے لیے آتا ہے۔ "وَقَدْ جَاءَ لِلْمَفْعُولِ قَلِيلًا" اور کبھی کبھی البتہ یہ کم البتہ بہت کم یہ مفعول کے لیے بھی آتا ہے،  مثال جیسے "آزَرْ"، اور "أَشْغَلُ" اور "أَشْہَرْ"، "أَفْضَلُ" یہ سارے کے سارے جو ہیں  اس کے لیےہیں، "آزَرْ" البتہ یہ مثال مفعول کے لیے ہے۔ "أَفْضَلُ" فاعل کے لیے ہے اور "آزَرْ" یعنی زیادہ معذور، "أَشْغَلُ" زیادہ مشغول، "أَشْہَرْ" زیادہ مشہور، چونکہ معذور، مشغول اور مشہور یہ مفعول ہوتے ہیں جبکہ "أَفْضَلُ" فاعل سے ہے۔

5

اسم تفضیل کے استعمال کا مکمل طریقہ

 اصل بحث اب یہاں آئے گی کہ اس "اِسْمِ التَّفْضِيلِ" کو استعمال کس طریقے پر کرنا ہے؟ ذرا توجہ رکھنی ہے۔ اسمِ تفضیل کے استعمال کا طریقہ کار کیا ہے؟ فرماتے ہیں۔ اسمِ تفضیل کو تین طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اضافت کے ساتھ یعنی اس کو مضاف کر کے۔ الف لام کے ساتھ یعنی اسمِ تفضیل پر الف لام داخل کریں۔ اور تیسرا استعمال کا طریقہ ہوتا ہے "مِنْ" کے ساتھ۔ ٹھیک ہے جی؟ تیسرا ہوتا ہے "مِنْ" کے ساتھ۔ اب آپ اضافت کے ساتھ استعمال کریں۔ یا اس پر الف لام لگا دیں۔ یا اس کو "مِنْ" کے ساتھ استعمال کریں۔ تو جس انداز میں اس کو استعمال کیا جائے گا۔ ہر استعمال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے  کہ یہ جس کے لیے واقع ہو رہا ہے اُس میں اور اس میں آیا مطابقت ضروری ہے یا مطابقت ضروری نہیں ہے۔ اب میں اس کو بیان کرتا ہوں آپ ذرا غور سے اس کو دیکھو۔ چونکہ اسمِ تفضیل اگر ظاہر ہے کسی کی صفت بن کے آنا ہے۔ اس نے کسی کی صفت بیان کرنا ہے۔ جو یہ بتانا ہے کہ میرے موصوف میں یہ معنی باقیوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے تو آیا اس کے اور موصوف کے درمیان مطابقت ضروری ہے؟  فرماتے ہیں : یہ استعمال پر ہے کہ ہم اسم کا، اسمِ تفضیل کا استعمال کیا  الف لام کے ساتھ کر رہے ہیں، کیا اضافت کے ساتھ کر رہے ہیں، یا "مِنْ" کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جیسا استعمال ہوگا ویسا حکم ہوگا کہ کیا  اس اسمِ تفضیل اور اس کے موصوف کے درمیان مطابقت ضروری ہے یا نہیں؟ اب اس کو ذرا غور سے سنو۔

 اسمِ تفضیل کا استعمال اور مطابقت

فرماتے ہیں۔ "وَ اِسْتِعْمَالُهُ عَلَى ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ"۔ اسمِ تفضیل کا استعمال تین طریقے پر ہوگا۔ کیسے؟ "إِمَّا مُضَافٌ" یا تو یہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے "زَيْدٌ أَفْضَلُ الْقَوْمِ"۔ اب یہاں "أَفْضَلُ" قوم کی طرف مضاف ہے۔ "أَوْ مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" یا اس کو استعمال کیا جاتا ہے، اس پر الف لام داخل کر کے جیسے "زَيْدٌ الْأَفْضَلُ" پڑھا جاتا ہے۔ "أَفْضَلُ" پر الف لام آ گیا۔ "أَوْ بِمِنْ" یا اس کو استعمال کیا جاتا ہے "مِنْ" کے ساتھ۔ "زَيْدٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمْرٍو"۔ اب ذرا توجہ رکھنی آغا۔ یا اس کا استعمال اضافت کے ساتھ، یا اس کا استعمال معرف باللام کر کے، یا اس کا استعمال ہوگا "مِنْ" کے ساتھ۔ چونکہ اس کا استعمال تین طریقوں پر ہے تو اب فرماتے ہیں اس کے موصوف کے بارے میں اگلا حکم آئے گا۔ "يَجُوزُ فِي الْأَوَّلِ الْإِفْرَادُ وَ مُطَابَقَةُ اسْمِ التَّفْضِيلِ الْمَوْصُوفِ"۔ بہت توجہ! اگر ہم اسمِ تفضیل کو مضاف کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پہلی صورت یہی تھی  کہ "إِمَّا مُضَافٌ" اگر ہم اس کو مضاف کر کے استعمال کرتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں۔ چاہے تو اسمِ تفضیل کو ہمیشہ مفرد ذکر کریں،  موصوف چاہے مفرد ہو، چاہے تثنیہ ہو، چاہے جمع ہو۔ اور چاہیں تو اس کو موصوف کے مطابق لائیں۔ یعنی اگر موصوف مفرد ہو تو اسمِ تفضیل کا صیغہ بھی مفرد کا لائیں۔ اگر موصوف تثنیہ ہو تو اسمِ تفضیل کا صیغہ بھی تثنیہ کا  لائیں۔ اور اگر موصوف جمع تو اس کا بھی جمع کا لائیں۔ لہٰذا جائز ہے۔ لہٰذا پس "زَيْدٌ أَفْضَلُ الْقَوْمِ"۔ چونکہ یہاں "زَيْدٌ" میں مفرد تو ظاہر ہے "أَفْضَلُ" مفرد آنا ہے۔ اس طرح "الزَّيْدَانِ أَفْضَلُ الْقَوْمِ" یعنی "أَفْضَلُ" کو مفرد ذکر کہیں تو بھی جائز ہے۔ یا "الزَّيْدَانِ أَفْضَلَا الْقَوْمِ" وہ لام جو نون تثنیہ والی تھی وہ گر جائے گی، یہ بھی جائز ہے۔ "الزَّيْدُونَ أَفْضَلُ الْقَوْمِ" یعنی "أَفْضَلُ" کو مفرد ذکر کریں بیشک "الزَّيْدُونَ" موصوف جمع ہے۔ موصوف کوئی حد نہیں۔ یا چاہیں تو اس "أَفْضَلُ" کو بھی یعنی اس "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" کو بھی اپنے موصوف کے مطابق لائیں۔ اور آپ کہیں "الزَّيْدُونَ أَفْضَلُ الْقَوْمِ"۔ "أَفْضَلُونَ" نون گر جائے گی اضافت کی وجہ سے۔ "وَ فِي الثَّانِي"۔ ثانی کیا تھا؟ جہاں پر کہ اگر آپ استعمال کرتے ہیں کہ "أَفْعَلُ التَّفْضِيلُ" پر الف لام کو داخل کرتے ہیں۔ پس دوسرا طریقہ استعمال جہاں "اِسْمِ التَّفْضِيلِ" پر الف لام ہے، یعنی جب "اِسْمِ التَّفْضِيلِ" معرف باللام ہوگا۔ "يَجِبُ الْمُطَابَقَةُ" وہاں اسمِ تفضیل اور اس کے موصوف کے درمیان مطابقت واجب ہوگی۔ کس لحاظ سے؟ کہ اگر موصوف مفرد ہو تو اسمِ تفضیل بھی مفرد ہو گااور اگر موصوف تثنیہ ہو تو اسمِ تفضیل بھی تثنیہ ہو گا۔ موصوف جمع ہو تو یہ بھی تثنیہ۔ لہٰذا ہم کہیں گے "زَيْدٌ الْأَفْضَلُ" "الزَّيْدَانِ الْأَفْضَلَانِ" "الزَّيْدُونَ الْأَفْضَلُونَ"۔  اگر اسمِ تفضیل مضاف ہو کر استعمال ہوگا تو پھر جائز ہے، چاہے تو آپ اس کو مستقل مفرد ذکر کریں۔ چاہے تو موصوف کے مطابق ذکر کریں۔ دوسری صورت میں کہ اگر اسمِ تفضیل پر الف لام آ جائے گا، یہ معرف باللام ہوگا تو پھر اس کے اور اس کی موصوف کے درمیان مطابقت واجب ہے۔ "مِنْ حَيْثُ الْإِفْرَادِ وَ التَّثْنِيَةِ وَ الْجَمْعِ"۔ اب آگے تیسری صورت۔ "وَ فِي الثَّالِثِ" لیکن اگر ہم اس کو "مِنْ" کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ "يَجِبُ كَوْنُهُ مُفْرَدًا مُذَكَّرًا"۔ اگر اسمِ تفضیل کا استعمال "مِنْ" کے ساتھ ہوگا تو پھر واجب ہے کہ ہمیشہ اس کو مفرد ذکر کریں۔ موصوف چاہے مفرد ہو، چاہے تثنیہ ہو، چاہے جمع ہو۔ اور ہمیشہ اس کو مذکر ذکر کریں۔ موصوف چاہے مؤنث بھی کیوں نہ ہو۔ "مُذَكَّرًا أَبَدًا"۔ لہٰذا ہم کہیں گے "هِنْدٌ أَفْضَلُ" "زَيْدٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمْرٍو"۔ یا "هِنْدٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمْرٍو"۔ یعنی ہند بھی اس کے لیے بھی "أَفْضَلُ" کہیں گے۔ "الزَّيْدَانِ أَفْضَلُ مِنْ فُلَانٍ" یا "الْهِنْدَانِ أَفْضَلُ مِنْ فُلَانٍ"۔ ٹھیک ہے جی؟ "الزَّيْدُونَ أَفْضَلُ" "الْهِنْدَاتُ أَفْضَلُ"۔ اب دیکھو  زید اور ہند مفرد ہیں ایک مذکر ایک مؤنث پھر بھی "أَفْضَلُ" آیا۔ "الزَّيْدَانِ" "الْهِنْدَانِ" یعنی ایک تثنیہ مذکر، ایک تثنیہ مؤنث لیکن "أَفْضَلُ" اسی طرح برقرار رہا۔ "الزَّيْدُونَ" جمع مذکر، "الْهِنْدَاتُ" جمع مؤنث لیکن پھر بھی "أَفْضَلُ" ہی رہا۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ جب "مِنْ" کے ساتھ استعمال کریں گے تو واجب ہے کہ اسمِ تفضیل مذکر کا صیغہ اور مفرد ہی رہے۔ اس میں کوئی تغیر نہیں کرنی۔ 

 اسمِ تفضیل میں فاعل کی ضمیر

آخری پہرہ اس سے مربوط ہے کہ یہ جو ہم نے بتایا ہے کہ اسمِ تفضیل تین طریقوں سے استعمال ہوتا ہے یعنی کبھی اس کو اضافت کے ساتھ اور کبھی الف لام کے ساتھ اور کبھی "مِنْ" کے ساتھ۔ فرماتے ہیں "عَلَى الْأَوْجُهِ الثَّلَاثَةِ"۔ بہت توجہ! اسمِ تفضیل تینوں صورتوں میں، تینوں وجوہ میں، چاہے وہ مضاف ہو، چاہے اس پر الف لام ہو، چاہے وہ "مِنْ" کے ساتھ ہو۔ ایک بات یاد رکھنا کہ اسمِ تفضیل میں "يُضْمَرُ فِيهِ الْفَاعِلُ" ایک فاعل کی ضمیر ہوتی ہے۔ "وَ هُوَ ذَلِكَ" "وَ هُوَ فِي ذَلِكَ الْمُضْمَرِ" اور وہ اُسی ضمیر میں عمل کرتا ہے۔ "لَا يَعْمَلُ فِي الْمُظْهَرِ" یہ اسمِ تفضیل اسمِ ظاہر میں عمل نہیں کرتا  یعنی اسمِ تفضیل میں فاعل کی ضمیر ہوتی ہے۔ اور یہ اسمِ تفضیل اسی فاعل کی ضمیر کو رفع دیتا ہے۔ یہ اسمِ تفضیل اسمِ ظاہر کو رفع نہیں دیتا۔ ہاں! ایک صورت ہے۔ کون سی؟ انہوں نے لکھا ہے اس کی مثال جیسے "مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَحْسَنَ فِي عَيْنِهِ الْكُحْلُ مِنْهُ فِي عَيْنِ رَجُلٍ"۔ اس جیسی مثال میں اسمِ تفضیل نے اسمِ ظاہر کو رفع دیا ہے۔ لیکن کیوں؟ فرماتے ہیں: اسمِ تفضیل اسمِ ظاہر کو تب رفع دے گا جب اس میں تین شرائط پائی جائیں گی۔ اب کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے خالی مثال ذکر کی ہے۔ 

۱۔ اسمِ تفضیل ایک شئ کی صفت ہو اور باعتبار معنی اس شئ کے، یعنی لفظاً باعتبار لفظ اس کی صفت ہے لیکن باعتبار معنی اس کے متعلق کی صفت ہے۔ 

۲۔اس کا متعلق ایسا ہو جو اس شئ کے لحاظ سے مفضل ہو لیکن دوسری شئ کے لحاظ سے مفضل علیہ ہو۔

۳۔ یہ ہے کہ کلام بھی کلام منفی ہو۔  چونکہ انہوں نے جو مثال دی ہے  فقط وہ یہی دی ہے۔ "وَ لَا يَعْمَلُ فِي الْمُظْهَرِ" کہ یہ اسمِ ظاہر میں عمل نہیں کرتا بالکل۔ مگر اس قسم کی مثال میں جیسے "مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَحْسَنَ فِي عَيْنِهِ الْكُحْلُ مِنْهُ فِي عَيْنِ رَجُلٍ" "فَإِنَّ الْكُحْلَ فَاعِلٌ" یہاں "کُحْلُ" فاعل ہے "أَحْسَنُ" کا۔ لیکن اس میں بحث ہے کہ آیا یہ مثال درست ہے یا نہیں ہے۔ ان شاء اللہ پھر بڑی کتابوں میں۔

 و صلی اللہ علی محمد و آلہ

فصل : الصفة المشبّهة : اسم مشتقّ من فعل لازم ليدلّ على من قام به الفعل بمعنى الثبوت. وصيغتها على خلاف صيغة اسم الفاعل والمفعول ، وإنّما يعرف بالسماع ك‍ : حَسَنٍ وصَعْبٍ وشُجاعٍ وشَريفٍ وذَلُولٍ.

وهي تعمل عمل فعلها مطلقاً بشرط الاعتماد المذكور ، ومثالها ثَمانِيَةَ عَشَرَ ، لأنّ الصفة إمّا باللام أو مجرّدة عنها ومعمولها إمّا مضاف أو باللام أو مجرّد عنهما ، فهذه ستّة ، ومعمول كلّ واحد منهما إمّا مرفوع أو منصوب أو مجرور فلذلك كانت ثمانية عشر.

وتفصيلها نحو : جاءني زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهَـِـُهِ ثلاثة ، كذلك الْحَسَنُ الْوَجْهَُِ ، والْحَسَنُ وَجْهًٌ ، وحَسَنٌ وَجْهَـِـُه ثلاثة وكذلك ، حَسَنُ الْوَجْهَُِ ، وَحَسَنٌ وَجْهًٌ وهي خمسة أقسام : الأوّل ممتنع الْحَسَنُ وَجْهِهِ ، والْحَسَنُ وَجْهٍ ، ومختلف فيه حَسَنٌ وَجْهِهِ ، والبواقي أحسن إن كان فيه ضمير واحد ، وحسن إن كان فيه ضميران ، وقبيح إن لم يكن فيه ضمير.

ومتى رفعت بها معمولها فلا ضمير في الصفة ومتى نصبتَ أو جررتَ ففيها ضمير الموصوف.

فصل : اسم التفضيل : اسم اشتقّ من فعل ليدلّ على الموصوف بزيادة على غيره ، وصيغته أفْعَلُ غالباً ، ولا يبنى إلّا من ثلاثيّ مجرّد ليس بلون ولا عيب نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ الناسِ ، فإن كان زائداً على الثلاثة ، أو كان لوناً أو عيباً يجب أن يبنى من الثلاثي المجرّد ما يدلّ على المبالغة أو الشدّة أو الكثرة ثمّ تذكر بعده مصدر ذلك الفعل منصوباً على التمييز كما تقول : هُوَ أشَّدُ اسْتِخْراجاً ، وأقْوىٰ حُمْرَةً ، وأقْبَحُ عَرَجاً ، وأكْثَرُ اضْطِراباً مِنْ زَيْدٍ.

وقياسه أن يكون للفاعل كما مرّ ، وقد جاء للمفعول نحو : أنْدَر وأشْغَل وأشْهَر. واستعماله على ثلاثة أوجه :

مضافاً ك‍ : زَيْدٌ أفْضَلُ الْقَوْم ، أو معرّفاً باللام نحو : زَيْدٌ الْأفْضَلُ ، أو بمِنْ نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ.

ويجوز في الأوّل الإفراد ومطابقة اسم التفضيل للموصوف نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ الْقَوْمِ ، والزَّيْدانِ أفْضَلا الْقَوْمِ ، والزَّيْدُونَ أفْضَلُوا الْقَوْمِ واَفْضَلُ الْقَوْمِ ، والْهِنْدُ والهِنْدانِ فُضْلَى الْقَوْمِ وفُضْلَيَا الْقَوْمِ ، والْهِنْداتُ فُضْلَياتُ الْقَوْمِ.

وفي الثاني يجب المطابقة نحو : زَيْدٌ الأفْضَلُ ، والزَّيْدانِ الأفْضَلانِ ، والزَّيْدُونَ الأفْضَلُونَ وهند الفضلى والهندان الفضليان والهندات الفضليات.

وفي الثالث يجب كونه مفرداً مذكّراً أبداً نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ ، والزَّيْدانِ أفْضَلُ مِنْ عمروٍ ، والزَّيْدُونَ أفْضَلُ مِنْ عمروٍ ، والهِنْدُ والهِنْدانِ والهِنْدات أفضلُ من عمروٍ.

وعلى الأوجه الثلاثة يضمر فيه الفاعل وهو يعمل في ذلك المضمر ، ولا يعمل في مظهر أصلاً إلّا في مثل قولهم : ما رَأيْتُ رَجُلاً أحْسَنَ في عَيْنِهِ الْكُحْلُ مِنْهُ في عَيْنِ زَيْدٍ ، فإنّ الكحل فاعل لِأحْسَن وهاهنا بحث.

القسم الثاني : في الفعل

وقد سبق تعريفه ، وأقسامه ثلاثة : ماض ، ومضارع ، وأمر.

الأوّل : الماضي

وهو فعل دلّ على زمان قبل زمان الخبريّة ، وهو مبنيّ على الفتح إن لم يكن معه ضمير مرفوع متحرّك ، فهو مبنيّ على السكون كضَرَبْتُ ، وعلى الضمّ مع الواو كَضَربُوا.