درس الهدایة في النحو

درس نمبر 43: صفت مشبہ

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

صفت مشبہ کی تعریف،اس میں اور اسم فاعل میں فرق

صفت مشبہ کی تعریف

"اِسْمٌ مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ لَازِمٍ لِيَدُلَّ عَلَى مَنْ قَامَ بِهِ الْفِعْلُ بِمَعْنَى الثُّبُوتِ" خاتمہ میں آٹھویں فصل ہے صفت مشبہ کے بارے میں۔ فرماتے ہیں صفت مشبہ وہ اسم ہے جو فعل لازم سے مشتق ہوتا ہے۔ میں نے گزارش کی تھی اسم فاعل میں کہ انشاءاللہ اس کے اور صفت مشبہ کے فرق کو بیان کروں گا آج ان شاءاللہ وہ وعدہ پورا ہو جائے گا۔ اسم فاعل میں یہ کہا تھا "اِسْمٌ مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ" وہاں پر "لَازِمٍ" کی قید نہیں تھی لیکن صفت مشبہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ اسم ہے جو مشتق ہوتا ہے فعل لازم سے۔ پوری توجہ میری جان! چونکہ یہ میرے حساب میں اس کتاب "هِدَايَةُ النَّحْوِ" کی مشہور بحث ہے صفت مشبہ کی اللہ پاک توفیق دے گا ان شاءاللہ جہاں ہم اس کو پڑھتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ اس کو کسی حد تک پہنچا سکیں۔ صفت مشبہ وہ اسم ہے جو فعل لازم سے وہ اسم ہے جو فعل لازم سے مشتق ہوتا ہے۔

 پہلا فرق اسم فاعل اور صفت مشبہ کا یہیں آ گیا۔ کہ صفت مشبہ فقط فعل لازم سے مشتق ہوتی ہے جبکہ اسم فاعل کے لیے یہ قید نہیں۔

اسم فاعل اور صفت مشبہ میں فرق

۲۔"لِيَدُلَّ عَلَى مَنْ قَامَ بِهِ الْفِعْلُ" اب اس میں کوئی فرق نہیں۔ اسم فاعل میں بھی یہی تھا تاکہ دلالت کرے اس پر کہ جس کے ساتھ فعل قائم ہے یہاں بھی وہی ہے کہ جس کے ساتھ فعل قائم ہے لیکن اور فرق ہے۔ وہاں تھا "بِمَعْنَى الْحُدُوثِ" صفت مشبہ میں یہ دلالت کرتا ہے جس کے ساتھ فعل قائم ہوتا ہے "بِمَعْنَى الثُّبُوتِ"۔ "حُدُوْث" اور "ثُبُوْت" میں فرق ہوتا ہے۔ "ثُبُوْت" میں دوام ہوتا ہے، "ثُبُوْت" یعنی استمرار ہوتا ہے، ہمیشگی ہوتی ہے کہ وہ چیز اس وہ فعل ہمیشہ اس کے ساتھ قائم رہتا ہے ہمیشہ جبکہ "حُدُوْث" میں "اِسْتِقْرَار" استمرار اور دوام نہیں ہوتا۔ ایک بندہ اگر ایک دفعہ کسی کو مار دیتا ہے ہم قاتل کہتے ہیں حالانکہ قاتل تو اس سے ایک دفعہ "صَدَرَ" ہوا تھا نا یہ تو نہیں کہ 24 گھنٹے وہ قتل کرتا رہتا ہے یا اسی طرح فرق کرتے ہیں ظاہر ہے۔

۳۔ صفت مشبہ کا صیغہ "فَاعِلٌ"، "مَفْعُولٌ"، "مُفْعِلٌ" یا "مُفَعَّلٌ" کے وزن پر نہیں آتا۔ کیا مطلب؟ یعنی جس اور جن اوزان پر اسم فاعل اور اسم مفعول کے جو اوزان تھے صفت مشبہ کے اوزان وہ نہیں ہیں۔ اور اسم فاعل اور مفعول کے اوزان "قِیَاسِی" تھے ہم نے قاعدہ قانون بتایا تھا کہ "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" ہوگا تو "فَاعِلٌ" اور "مَفْعُولٌ" کے وزن پر آئیں گے اور اگر اور ہوں گے تو پھر "مُفْعِلٌ" یا "مُفَعَلٌ" کے وزن پر آئیں گے لیکن صفت مشبہ میں یہ "قِیَاسِی" نہیں ہے کوئی قاعدہ نہیں ہے بلکہ ہم عربوں سے سنیں گے عرب والے جس کو صفت مشبہ جو پڑھیں گے ہم بھی وہی پڑھیں گے۔

4

صفت مشبہ کا عمل،وجہ تسمیہ اور اوزان

چوتھی چیز یہ ہے۔ صفت مشبہ اپنے فعل والا عمل کرتی ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ بمعنی "حَال" یا "اِسْتِقْبَال" کے ہو کیوں؟ چونکہ زمانے کی شرط وہاں ہوتی ہے جہاں "حُدُوْث" ہو۔ جہاں "ثُبُوْت" ہو جہاں استمرار اور دوام ہو وہاں زمانے کی شرائط نہیں ہوتی۔ البتہ اسم فاعل کے شرط میں عمل میں ہم نے کہا تھا کہ وہ پانچ چیزوں پر اعتماد کرتا ہو یہ صفت مشبہ بھی ان پانچ چیزوں میں البتہ اس کے ساتھ شریک ہے کہ اس سے پہلے یا مبتدا ہو یا "ذُو الْحَالِ" ہو یا موصوف ہو یا موصول ہو یا ہمزہ استفہام کا ہو یا ما نافیہ ہو۔

 صفت مشبہ کا وجہ تسمیہ

اچھا ایک تو خیر یہ لفظ یہاں آ گیا ہے چلو وہ بھی گزارش کرتا جاؤں کہ اس صفت کو صفت مشبہ کہتے کیوں ہیں؟ یہ بھی ایک سوال تو بن سکتا ہے کتاب میں نہیں ہے لیکن سوال بن سکتا ہے کہ صفت مشبہ کو صفت مشبہ کیوں کہتے ہیں؟ جواب: چونکہ یہ مذکر مؤنث، واحد تثنیہ جمع ہونے میں اسم فاعل کے ساتھ مشابہ ہوتی ہے۔ "تَذْكِيرٌ وَتَأْنِيثٌ" اور افراد و تثنیہ اور جمع میں چونکہ یہ اسم فاعل کے ساتھ "مُشَابَهَة" رکھتی ہے اس مشابہت کی وجہ سے اس صیغے کو کہا جاتا ہے صفت مشبہ۔ خوب! فرماتے ہیں صفت مشبہ وہ اسم ہے۔ "مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ لَازِمٍ" وہ اسم ہے جو فعل لازم سے مشتق ہوتا ہے۔ ہر لفظ پہ غور کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے صفت مشبہ کا صیغہ کسی فعل متعدی سے نہیں نکلتا۔ یہ صفت لازم سے مشتق ہوتا ہے۔ "لِيَدُلَّ" تاکہ یہ دلالت کرے "عَلَى مَنْ" اس پر "قَامَ بِهِ الْفِعْلُ" جس کے ساتھ فعل قائم ہے لیکن اس فعل کا قیام بمعنی "حُدُوْث" نہیں مثل اسم فاعل کے بلکہ بمعنی "ثُبُوْت" ہے یعنی اس میں دوام ہوتا ہے، استمرار ہوتا ہے، اس میں ہمیشگی ہوتی ہے۔ ہم جب کہتے ہیں "زَيْدٌ حَسَنٌ" تو اس "حَسَنٌ" کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دن وہ اچھا تھا خوبصورت تھا دوسرے دن بدصورت ہو گیا نہ اصل میں "حَسَنٌ" یعنی دوام ہے اس کے حسن کا استمرار ہے ہمیشگی ہے۔

صفت مشبہ کے اوزان

"وَصِيغَتُهَا عَلَى خِلَافِ صِيغَةِ اسْمِ الْفَاعِلِ وَالْمَفْعُولِ" صفت مشبہ اسم فاعل اور اسم مفعول کے صیغوں کے خلاف ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی جن جو اوزان اسم فاعل اور اسم مفعول کے صیغوں کے ہیں صفت مشبہ کے وہ اوزان نہیں ہیں۔ کیوں؟ جیسے ہم نے پیچھے کہا ہے کہ اسم فاعل "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" میں سے "فَاعِلٌ" کے وزن پر آتا ہے اور اسم مفعول "مَفْعُولٌ" کے وزن پر آتا ہے۔ جبکہ "غَيْرُ ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" میں اسم فاعل "مُفْعِلٌ" کے وزن پر اور اسم مفعول "مُفْعَلٌ" کے وزن پر آتا ہے صفت مشبہ ان میں سے کسی کے وزن پر بھی نہیں ہے یعنی یہ صفت مشبہ کے اوزان نہیں ہے۔ بلکہ "إِنَّمَا تُعْرَفُ بِالسَّمَاعِ" صفت مشبہ کے اوزان میں کوئی قاعدہ قانون ہے ہی نہیں۔ وہ "قِیَاسِی" ہے ہی نہیں بلکہ یہ جانے جاتے ہیں کس سے؟ "سَمَاع" سے یعنی یہ "سَمَاعِی" اوزان ہیں۔ جیسے عرب والے جہاں جس صیغے کو صفت مشبہ بنا کے پڑھتے ہیں ہم بھی وہاں پڑھیں گے۔ جیسے "حَسَنٌ" "وَصَعْبٌ" "وَ ظَرِيفٌ" یہ ہے نا "حَسَنٌ" کہتے ہیں خوبصورت کو، "صَعْبٌ" یعنی مشکل دشوار، "ظَرِيفٌ" یعنی خوش طبع عقلمند اس قسم کے بندے کہتے ہیں۔ خوب!

صفت مشبہ کا عمل

"هِيَ تَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهَا" بہت توجہ! یہ اپنے فعل والا عمل کرتی ہے۔ "هِيَ تَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهَا" اپنے فعل والا عمل کرتی ہے آگے ہے "مُطْلَقًا"۔ "مُطْلَقًا" کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ قید نہیں کہ اس کے عمل کے لیے اس کا زمانہ حال اور استمرار کے معنی میں ہونا شرط ہے نہ اس میں وہ شرط ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ زمانے کی قید وہاں ہوتی ہے جہاں "حُدُوْث" ہو۔ اس میں تو ہوتا ہے "ثُبُوْت" اور دوام لہذا یہ کسی زمانے کے ساتھ مقید ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ "بِشَرْطِ الْاِعْتِمَادِ الْمَذْكُورِ" وہ پانچ چیزیں جو اسم فاعل اور مفعول کے عمل میں ان پر اعتماد شرط تھا ان پر اعتماد صفت مشبہ کا بھی ہو گا کیا؟ کہ صفت مشبہ سے پہلے یا مبتدا ہو یا موصوف ہو یا موصول ہو یا "ذُو الْحَالِ" ہو یا ہمزہ استفہام یا حرف نفی ہو۔ ٹھیک ہو گیا ۔  یہ بحث، یہ جو اگلا پیرا ہے اگر آپ توجہ کریں گے تو آپ کو پڑھنے میں بھی اور سمجھنے میں بھی بڑا لطف آئے گا اور اگر نہیں کریں گے تو پھر آپ کی مرضی۔

5

صفت مشبہ کے 18 مسائل اور اس کی مکمل حالیتں

صفت مشبہ کے 18 مسائل

وہ یہ ہے یہ کہتے ہیں "وَمثالها ثَمَانِيَةَ عَشَرَ" صفت مشبہ کے 18 مسائل ہیں۔ ذرا توجہ کرنی ہے یہ درحقیقت 18 مسائل نہیں ہیں تو یہ 18 قسمیں لیکن ہر قسم کو مسئلہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اور 18 قسموں کو 18 مسائل کیوں بیان فرما رہے ہیں؟ فرماتے ہیں اس لیے چونکہ ہر قسم کے بارے میں اس کے حکم کا سوال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کا حکم کیا ہے؟ اس قسم کا حکم کیا ہے؟ اس قسم کا چونکہ ہر قسم کے حکم کا سوال کیا جاتا ہے اس لیے ان کو پھر 18 مسائل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اب وہ 18 کیسے بنیں گے؟ آغا توجہ کے ساتھ میری گزارش کو سننا بھی صحیح اور کاپی پر لکھنا بھی صحیح۔ ورنہ ایسے سمجھ نہیں آئے گی۔ اب ہم 18 قسمیں بناتے ہیں ابھی فی الحال کتاب کو آپ چھوڑیں میری گزارش سنیں اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں 18 قسمیں کیسے بنتی ہیں؟ جواب:

صفت مشبہ کی خود کی حالتیں

صفت مشبہ خود یا الف لام کے ساتھ ہوگی یعنی جیسے "الْحَسَنُ" یا الف لام کے بغیر ہوگی جیسے "حَسَنٌ"۔ پوری توجہ! صفت مشبہ کا صیغہ یا یوں کہیں اسم صفت مشبہ چونکہ یہ اسم ہے یا الف لام کے ساتھ ہوگا جیسے "الْحَسَنُ" یا الف لام کے بغیر ہوگا جیسے "حَسَنٌ"۔ دو قسمیں ہو گئیں۔

 صفت مشبہ کے معمول کی حالتیں

اب جو اس کا معمول ہے صفت مشبہ کا وہ معمول یا "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہوگا یا "مُضَافٌ" ہوگا یا نہ "مُضَافٌ" ہوگا نہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہوگا۔ جیسے "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" کیسے ہو؟ جیسے "الْوَجْهُ"۔ "مُضَافٌ" کیسے ہو؟ جیسے "وَجْهُهُ"۔ دونوں سے خالی ہو یعنی نہ "مُضَافٌ" ہو نہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہو جیسے "وَجْهٌ"۔ بہت توجہ! تو جب معلوم کی ہو گئی تین صورتیں "مَعْمُول" صفت مشبہ کا معمول ہو گیا تین قسم کا اور خود صفت مشبہ کا استعمال ہو گیا دو قسم کا تو تین کو جب دو سے ضرب دیں گے تو یہ کتنا ہو جائے گا؟ چھ۔ کہ خود صفت مشبہ کی دو حالتیں ہو گئیں یا الف لام کے ساتھ یا الف لام کے بغیر۔ دو ہو گئیں۔ اور اس کا جو معمول ہے وہ بھی یا الف لام کے ساتھ ہوگا یا "مُضَافٌ" ہو کر استعمال ہوگا یا نہ اس پر الف لام ہوگا اور نہ ہی "مُضَافٌ" ہوگا تین۔ تین کو دو سے ضرب دیں کتنی بن گئیں؟ چھ۔ ٹھیک ہو گیا۔ اب چھ قسمیں ہیں ان چھ قسموں میں سے ہر قسم میں یا اس کا معمول "مَرْفُوعٌ" ہوگا یا "مَنْصُوبٌ" ہوگا یا "مَجْرُورٌ" ہوگا۔ معمول یا "مَرْفُوعٌ" یا "مَنْصُوبٌ" یا "مَجْرُورٌ" جب چھ کو اس تین سے ضرب دیں گے تو یہ کتنی 18 بن جائیں گی ۔

 18 حالتوں کی تفصیلی وضاحت

اب پوری توجہ کے ساتھ میں سب کو پڑھ کے سناتا ہوں آپ ان کو کاپی پر لکھ لیں۔ مثلاً: نمبر ایک "الْحَسَنُ الْوَجْهُ"۔ صفت مشبہ بھی "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول بھی "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" اور معمول پر رفع۔ پہلی۔ "الْحَسَنُ الْوَجْهَ"۔ صفت مشبہ بھی "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول بھی "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" لیکن معمول "مَنْصُوبٌ"۔ "الْحَسَنُ الْوَجْهِ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول بھی "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" لیکن معمول "مَجْرُورٌ"۔ یہ ہو گئیں تین۔ اگلی تین۔ "الْحَسَنُ وَجْهُهُ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" لیکن معمول "مُضَافٌ" اور "مَرْفُوعٌ"۔ یعنی "الْحَسَنُ وَجْهُهُ"۔ "وَجْهُهُ" کی طرف "مُضَافٌ" بھی ہے اور "مَرْفُوعٌ" بھی ہے۔ چار۔ نمبر پانچ۔ "الْحَسَنُ وَجْهَهُ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" جبکہ اس کا معمول "مُضَافٌ" اور "مَنْصُوبٌ"۔ نمبر چھ۔ "الْحَسَنُ وَجْهَهُ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول "مُضَافٌ" اور "مَجْرُورٌ"۔ نمبر سات۔ "الْحَسَنُ وَجْهٌ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" جبکہ "وَجْهٌ" "مَرْفُوعٌ" نہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" نہ "مُضَافٌ"۔ "الْحَسَنُ وَجْهًا"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول نہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" اور نہ ہی "مُضَافٌ" حالت نصبی۔ "الْحَسَنُ وَجْهٍ"۔ "الْحَسَنُ وَجْهٍ"۔ صفت مشبہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" معمول نہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" نہ "مُضَافٌ" اور حالت جر۔ کتنی ہو گئیں یہ؟ نو قسمیں ہو گئیں نا غالباً۔ آ نو ہو گئیں۔ اچھا آگے: "حَسَنٌ الْوَجْهُ"۔ یعنی صفت مشبہ بغیر الف لام کے لیکن معمول پر الف لام بھی ہے اور "مَرْفُوعٌ" بھی ہے۔ "حَسَنٌ الْوَجْهَ"۔ "حَسَنٌ" صفت مشبہ بغیر الف لام کے اور معمول الف لام کے ساتھ اور "مَنْصُوبٌ"۔ "حَسَنٌ الْوَجْهِ"۔ "حَسَنٌ" بغیر الف لام کے لیکن معمول الف لام کے ساتھ اور مجرور۔ کتنے ہو گئے؟ 12 ہو گئے 12۔ "حَسَنٌ وَجْهُهُ" یہ ہو گئی 13ویں قسم۔ 13 نمبر پہ "حَسَنٌ وَجْهُهُ"۔ "حَسَنٌ" صفت مشبہ بغیر الف لام کے معمول "مُضَافٌ" ہو کر استعمال ہوا ہے اور "مَرْفُوعٌ" ہے۔ نمبر 14 "حَسَنٌ وَجْهَهُ"۔ صفت مشبہ بغیر الف لام کے معمول "مُضَافٌ" ہو کر استعمال ہوا ہے لیکن "مَنْصُوبٌ"۔ "حَسَنٌ وَجْهَهُ"۔ صفت مشبہ بغیر الف لام کے اور اس کا معمول "مُضَافٌ" ہو کر استعمال ہوا ہے اور "مَجْرُورٌ"۔ یہ کتنے ہو گئے؟ 15۔ 16۔ "حَسَنٌ وَجْهٌ"۔ "حَسَنٌ" صفت مشبہ بغیر الف لام کے اور معمول بھی بغیر الف لام کے اور اضافت کے اور ہے بھی "مَرْفُوعٌ"۔ 17۔ "حَسَنٌ وَجْهًا"۔ دونوں بغیر الف لام کے اور معمول "مَنْصُوبٌ"۔ "حَسَنٌ وَجْهٍ"۔ "حَسَنٌ" بغیر الف لام کے "وَجْهٌ" بغیر الف لام اور اضافت کے اور ہے بھی "مَجْرُورٌ"۔ یہ ٹوٹل ہو گئیں 18 قسمیں۔ 18 مسائل، 18 حالتیں ہیں اس صفت مشبہ کے استعمال کی۔

 18 حالتوں کی 5 اقسام

اب ان 18 کو علمائے علم نحو پانچ حصوں میں تقسیم پانچ قسمیں بناتے ہیں۔ پانچ قسمیں کیسی؟ فرماتے ہیں یہ والی قسم یعنی صفت مشبہ کا اس طرح کا استعمال "أَحْسَنٌ" ہے۔ کچھ قسمیں ہیں جن کو "حَسَنٌ" کہتے ہیں۔ کچھ کو کہتے ہیں "قَبِيحٌ" جائز تو ہے لیکن "قَبِيحٌ" ہے۔ کچھ کو کہتے ہیں کہ "مُمْتَنِعٌ" کہ نا اصلاً یہ درست ہی نہیں ہے۔ اور کچھ میں اختلاف۔ پس 18 میں سے بعض قسمیں "أَحْسَنٌ" بعض "حَسَنٌ" بعض "قَبِيحٌ" بعض "مُمْتَنِعٌ" اور بعض میں اختلاف ہے۔ اب میں آپ کو آسانی کے لیے یہ بھی چلو سمجھا دیتا ہوں کہ "أَحْسَنٌ" "حَسَنٌ" میں کیا کیا ہے۔ فرماتے ہیں توجہ آغا! جو قسمیں "أَحْسَنٌ" کہلاتی ہیں۔ ذرا توجہ کے ساتھ ایک ایک کر کے لکھنا ہے وہ ہیں یہ۔

 احسن اقسام (9 حالتیں)

"زَيْدٌ" یعنی "الْحَسَنُ الْوَجْهُ" ایک، "الْحَسَنُ الْوَجْهَ" دو، "الْحَسَنُ الْوَجْهَ" تین، "الْحَسَنُ الْوَجْهًا" چار، "حَسَنٌ وَجْهًا" پانچ، "حَسَنٌ وَجْهَهُ" چھ، "حَسَنٌ وَجْهَهُ" سات، "حَسَنٌ وَجْهًا" آٹھ، "حَسَنٌ وَجْهٍ" نو۔ 18 میں سے نو کو کہا جاتا ہے کہ یہ "أَحْسَنُ" صورتیں ہیں بہترین سب سے اچھا یعنی بہترین "أَحْسَنُ" یہی ہیں۔

حسن اقسام (2 حالتیں)

"حَسَنٌ" کون کون سی ہیں؟ یہ نو ہو گئیں اب آگے "حَسَنٌ"۔ "الْحَسَنُ وَجْهَهُ" "حَسَنٌ وَجْهَهُ" گویا دو صورتیں علماء کہتے ہیں کہ یہ "حَسَنٌ" ہیں۔ نو اور دو کتنی ہو گئیں؟ 11۔

 قبیح اقسام (4 حالتیں)

"الْحَسَنُ الْوَجْهُ" ایک، "الْحَسَنُ وَجْهٌ" دو، "حَسَنٌ الْوَجْهُ" تین، "حَسَنٌ وَجْهًا" چار۔ علماء کہتے ہیں کہ یہ چار صورتیں "قَبِيحٌ" ہیں۔ یہ ان کو استعمال کرنا "قَبِيحٌ" ہے۔ برا لگتا ہے وہ "حَسَنٌ" کے مقابلے میں "قَبِيحٌ" ناپسندیدہ ہیں۔

ممتنع اقسام (2 حالتیں)

11 اور چار کتنی ہو گئیں؟ 15۔ دو صورتیں علمائے علم نحو نے ممنوع قرار دیں کہ نا اس طرح کا استعمال اصلاً جائز ہی نہیں ہے۔ "الْحَسَنُ وَجْهَهُ" اور "الْحَسَنُ وَجْهَهُ" علماء کہتے ہیں کہ یہ "مُمْتَنِعٌ" ہے۔ یہ درست ہی نہیں ہے۔

اختلافی قسم (1 حالت)

15 اور دو 17۔ ایک صورت ہے کہ جس میں اختلاف ہے کہ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض نہیں ہیں۔ وہ ایک صورت کون سی ہے؟ وہ ہے "حَسَنٌ وَجْهَهُ" "حَسَنٌ وَجْهَهُ"۔ ٹھیک ہے جی بالکل آسان۔ اب ہم واپس کتاب میں جاتے ہیں۔

صفت مشبہ کے 18 مسائل

فرماتے ہیں "و مثا لھا ثَمَانِيَةَ عَشَرَ" اس صفت مشبہ کے مسائل 18 ہیں۔ میں نے گزارش کی ہے کہ درحقیقت اس کی 18 قسمیں ہیں یا اس کی استعمال کی 18 حالتیں ہیں۔ چونکہ ہر قسم کے بارے میں حالت کے بارے میں اس کے حکم کا سوال کیا جاتا ہے تو انہوں نے پھر اس ہر حالت یا قسم کو مسئلہ کہہ دیا اور کہا کہ اس کے مسائل 18 ہیں درحقیقت یعنی اس کی 18 حالتیں ہیں قسمیں۔ 18 کیسے بنتی ہیں؟ فرماتے ہیں میں نے جو آپ کو آسان لکھوایا ہے وہ سب سے بیسٹ ہوگا۔ فرماتے ہیں "لِأَنَّ الصِّفَةَ" چونکہ یہ جو صفت مشبہ ہے۔ "إِمَّا بِاللَّامِ" یا یہ الف لام کے یا "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہوگی "أَوْ مُجَرَّدَةً عَنْهَا" یا یہ الف لام سے خالی ہوگی۔ یعنی خود صفت مشبہ پر یا الف لام ہوگا یا الف لام نہیں ہوگا۔ دو ہو گئیں۔ اچھا خود صفت مشبہ کی اپنی دو صورتیں ہیں یا اس پر الف لام ہوگا یا نہ ہوگا۔ "وَمَعْمُولُ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا" اب چاہے صفت مشبہ الف لام والی ہو یا بغیر الف لام کے ہو ہر ایک کا معمول یا "مُضَافٌ" ہو کے استعمال ہو رہا ہوگا "إِمَّا مُضَافٌ" "أَوْ بِاللَّامِ" یا اس پر الف لام ہوگا "أَوْ مُجَرَّدٌ عَنْهُمَا" یا نہ اس میں اضافت ہوگی نہ ہی الف لام ہوگا۔ تو معمول کی بن جائیں گی تین صورتیں دو ہو گئی اس کی تو دو اور تین کو ضرب دیں گے کتنی ہوگی؟ "فَهَذِهِ سِتَّةٌ" یہ بن گئی چھ۔ اب اس کا جو معمول ہے چھ صورتیں جو بنی ہیں ہر مقام پر جن کا معمول ہوگا یا "مَرْفُوعٌ" ہوگا "أَوْ مَنْصُوبٌ" یا "مَنْصُوبٌ" ہوگا یا "مَجْرُورٌ" ہوگا۔ "فَذَلِكَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ" تو یہ بن جاتی ہیں اس کی ٹوٹل 18 قسمیں، 18 حالتیں، 18 مسائل۔

18 حالتوں کی تفصیلی وضاحت

اب انہوں نے جو مثال دی ہے وہ یہ ہے۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ" میرے پاس آیا زید اب صفت مشبہ زید کی بنانی ہے نا۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهُهُ، وَجْهَهُ، وَجْهِهِ" "ثَلَاثَةُ أَوْجُهٍ" تین وجوہات۔ ذرا غور کریں آغا "ثَلَاثَة" کیسے بنیں گے یعنی "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهُهُ" ایک، "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهَهُ" دو، "زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهِهِ" تین۔ تین ہو گئیں۔ اسی طرح فرماتے ہیں یہاں یہ تھا کہ معمول "مُضَافٌ" ہو کر استعمال ہو رہا تھا۔ اگر معمول پر بھی الف لام ہو تو پھر پڑھیں گے "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ الْوَجْهُ" ایک، "زَيْدٌ الْحَسَنُ الْوَجْهَ" دو، "زَيْدٌ الْحَسَنُ الْوَجْهِ" تین۔ یہ کتنی ہو گئیں؟ چھ۔ یا یوں پڑھیں گے چھ ہو گئیں۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهٌ" "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهًا" "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهٍ" کہ جہاں پر معمول الف لام کے بغیر تھا۔ ٹھیک ہو گیا یہ کتنی ہو گئیں؟ نو۔

 صفت مشبہ کی بغیر الف لام کی مثالیں

خوب! آگے فرماتے ہیں۔ یا یوں ہوگا "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهُهُ" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهَهُ" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهِهِ" یہ ہو گئیں تین۔ یا ہوگا "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ الْوَجْهُ" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ الْوَجْهَ" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ الْوَجْهِ" تین یہ ہو گئیں۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهٌ" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهًا" "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهٍ" 15 اور تین 18۔

 18 حالتوں کی 5 اقسام

فرماتے ہیں "وَهِيَ عَلَى خَمْسَةِ أَقْسَامٍ" یہ جو 18 قسمیں ہیں یہ جو 18 مسائل ہیں ان کے آگے پھر پانچ قسمیں ہیں پانچ قسمیں کیسے؟ ان میں سے بعض "أَحْسَنُ" ہیں بعض "حَسَنٌ" ہیں بعض "قَبِيحٌ" ہیں بعض "مُمْتَنِعٌ" ہیں اور بعض میں اختلاف ہے نوحات کا۔ فرماتے ہیں "مِنْهَا مُمْتَنِعٌ" ان میں سے جو "مُمْتَنِعٌ" ہے وہ ہیں دو صورتیں "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهَهُ" اور "جَاءَنِي زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهَهُ" یہ "مُمْتَنِعٌ" ہے یعنی یوں پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس کو اس طرح نہیں استعمال کرنا ختم۔

اختلافی قسم (1 حالت)

ایک صورت میں اختلاف ہے کون سی؟ وہ ہے "جَاءَنِي زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهَهُ" یہ ہو گئی اختلافی صورت۔ باقی کیا رہ گئیں؟ فرماتے ہیں باقی یہ ہیں۔

احسن و حسن اقسام (11 حالتیں)

"وَالْبَوَاقِي أَحْسَنُ إِنْ كَانَ فِيهِ ضَمِيرٌ وَاحِدٌ" جو باقی ہیں اگر ان میں ضمیر موجود ہو ایک تو وہ "أَحْسَنُ" شمار ہوں گے اور اگر اس میں دو ضمیریں ہوں گی تو وہ "حَسَنٌ" شمار ہوں گی۔ یہ میں نے آپ کو مثالیں بہت آسان کر دی جیسے "زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهُهُ" اب یہاں فرماتے ہیں ایک ضمیر ہے لہذا یہ "أَحْسَنُ" ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ جبکہ "الْحَسَنُ وَجْهَهُ" یہاں فرماتے ہیں دو ضمیریں ہوتی ہیں لہذا یہ "حَسَنٌ" ہے "أَحْسَنُ" نہیں ہے۔ آگے فرماتے ہیں۔ اگر اس میں ایک ضمیر ہوگی تو "أَحْسَنُ" "وَحَسَنٌ إِنْ كَانَ فِيهِ ضَمِيرَانِ" اگر اس میں دو ضمیریں ہوں گی تو وہ کہلائے گا "حَسَنٌ"۔ "وَقَبِيحٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ ضَمِيرٌ" اور اگر اس میں کوئی ضمیر نہ ہو تو سرے سے اس کا استعمال "قَبِيحٌ" ہوگا۔ سرے سے اس کا استعمال "قَبِيحٌ" ہوگا۔ آگے فرماتے ہیں ہم آپ کو قاعدہ کلیہ بتاتے ہیں آپ اس قاعدہ کلیے کے تحت چلیں "وَالضَّابِطَةُ" قاعدہ کلیہ یہ ہے "مَتَى رَفَعْتَ بِهَا مَعْمُولَهَا" جب بھی آپ اس صفت مشبہ کے ذریعے اس کے معمول کو رفع دیں گے "فَلَا ضَمِيرَ فِي الصِّفَةِ" اس وقت صفت میں کوئی ضمیر نہیں ہوگی۔ وہ جو پیچھے سوال اٹھا تھا کہ جہاں ایک ضمیر ہوگی صفت میں وہ "أَحْسَنُ" ہے جہاں دو ہوں گی وہ "حَسَنٌ" ہے اور جس میں کوئی ضمیر نہ ہو "قَبِيحٌ" ہے تو اب سوال یہ اٹھا تھا کہ جناب ہمیں کیا پتہ کہ یہاں ضمیر ہے یا ضمیر نہیں یا اگر ضمیر ہے تو وہ ایک ہے یا دو ہمیں پہچان کیسی ہوگی؟ "وَالضَّابِطَةُ" فرماتے ہیں اس کے پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ آیا اس صفت مشبہ میں ضمیر ہے یا نہیں یا اگر ہے تو ایک ہے یا دو ہے فرماتے ہیں پہچاننا اس انداز میں ہے کیا؟ "مَتَى رَفَعْتَ بِهَا مَعْمُولَهَا" اگر آپ صفت مشبہ کے ذریعے صفت مشبہ کے معمول کو رفع دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے "فَلَا ضَمِيرَ فِي الصِّفَةِ" اس صفت میں کوئی ضمیر نہیں ہے۔ "وَمَتَى نَصَبْتَ" اور اگر آپ صفت مشبہ کے ذریعے اس کے معمول کو نصب دے رہے ہیں "أَوْ جَرَرْتَ" یا اس کو جر دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے "فَفِيهَا ضَمِيرُ الْمَوْصُوفِ" اس میں یقیناً موصوف کی ضمیر موجود ہے جیسا "زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْهَهُ"۔

صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

فصل : الصفة المشبّهة : اسم مشتقّ من فعل لازم ليدلّ على من قام به الفعل بمعنى الثبوت. وصيغتها على خلاف صيغة اسم الفاعل والمفعول ، وإنّما يعرف بالسماع ك‍ : حَسَنٍ وصَعْبٍ وشُجاعٍ وشَريفٍ وذَلُولٍ.

وهي تعمل عمل فعلها مطلقاً بشرط الاعتماد المذكور ، ومثالها ثَمانِيَةَ عَشَرَ ، لأنّ الصفة إمّا باللام أو مجرّدة عنها ومعمولها إمّا مضاف أو باللام أو مجرّد عنهما ، فهذه ستّة ، ومعمول كلّ واحد منهما إمّا مرفوع أو منصوب أو مجرور فلذلك كانت ثمانية عشر.

وتفصيلها نحو : جاءني زَيْدٌ الْحَسَنُ وَجْهَـِـُهِ ثلاثة ، كذلك الْحَسَنُ الْوَجْهَُِ ، والْحَسَنُ وَجْهًٌ ، وحَسَنٌ وَجْهَـِـُه ثلاثة وكذلك ، حَسَنُ الْوَجْهَُِ ، وَحَسَنٌ وَجْهًٌ وهي خمسة أقسام : الأوّل ممتنع الْحَسَنُ وَجْهِهِ ، والْحَسَنُ وَجْهٍ ، ومختلف فيه حَسَنٌ وَجْهِهِ ، والبواقي أحسن إن كان فيه ضمير واحد ، وحسن إن كان فيه ضميران ، وقبيح إن لم يكن فيه ضمير.

ومتى رفعت بها معمولها فلا ضمير في الصفة ومتى نصبتَ أو جررتَ ففيها ضمير الموصوف.

فصل : اسم التفضيل : اسم اشتقّ من فعل ليدلّ على الموصوف بزيادة على غيره ، وصيغته أفْعَلُ غالباً ، ولا يبنى إلّا من ثلاثيّ مجرّد ليس بلون ولا عيب نحو : زَيْدٌ أفْضَلُ الناسِ ، فإن كان زائداً على الثلاثة ، أو كان لوناً أو عيباً يجب أن يبنى من الثلاثي المجرّد ما يدلّ على المبالغة أو الشدّة أو الكثرة ثمّ تذكر بعده مصدر ذلك الفعل منصوباً على التمييز كما تقول : هُوَ أشَّدُ اسْتِخْراجاً ، وأقْوىٰ حُمْرَةً ، وأقْبَحُ عَرَجاً ، وأكْثَرُ اضْطِراباً مِنْ زَيْدٍ.

وقياسه أن يكون للفاعل كما مرّ ، وقد جاء للمفعول نحو : أنْدَر وأشْغَل وأشْهَر. واستعماله على ثلاثة أوجه :