درس الهدایة في النحو

درس نمبر 55: حروف جارہ 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

لام جر کے بارے میں

"وَاللَّامُ": حروف جر میں سے ایک ہے لام۔ لام کس معنی میں استعمال ہوتی ہے؟ لام کیا معنی دیتی ہے؟ "هِيَ لِلْاِخْتِصَاصِ"۔ لام آتی ہے اختصاص کے لیے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے لیے خاص کرنا مقصود ہو وہاں لام کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "اَلْجُلُّ لِلْفَرَسِ" زین گھوڑے کے ساتھ خاص ہے۔ کہ زین اسی پر ڈالی جاتی ہے۔ "اَلْمَالُ لِزَيْدٍ" یہ مال زید کے ساتھ خاص ہے یعنی کسی اور کا نہیں۔اسی طرح فرماتے ہیں کہ یہ "لَام"، تعلیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یعنی کام کی علت کو بیان کرنا  کہ فاعل نے یہ کام کیوں کیا؟ وجہ بتانا۔ جیسے "ضَرَبْتُهُ لِلتَّأْدِیبِ" میں نے اس کو مارا "لِلتَّأْدِیبِ" ادب سکھانے کے لیے۔ لام بتا رہی ہے کہ اس کے مارنے کی وجہ اور میرے اس پر ضرب کرنے کی علت کیا تھی۔ 

 لام زائدہ

اسی طرح فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ لام زائدہ بھی ہوتی ہے۔ جیسے "رَدِفَ لَكُمْ"۔  یہاں پر جو "لَام" ہے یہ زائدہ  ہے۔ یہ نہ بھی ہو معنی پر فرق نہیں پڑتا۔ اگر "رَدِفَ لَكُمْ" کی بجائے "رَدِفَكُمْ" پڑھ دیں تو بھی معنی ایک ہے۔ "رَدِفَكُمْ" یعنی تمہارے پیچھے۔ 

 لَام بمعنی عَنْ

فرماتے ہیں:  یہی لَام، کبھی بمعنی "عَنْ" کے بھی ہوتی ہے۔ جب اس کو استعمال کیا جائے "قَوْل" کے ساتھ یعنی "قَالَ يَقُولُ" اور اس کے ہم معنی کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ توجہ آغا۔ یعنی "لَام" بمعنی "عَنْ" کے ہوتی ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ فقط اس مقام پر جہاں پر اس کو "مَعَ الْقَوْلِ" یعنی باب "قَوْل" "قَالَ يَقُولُ" یا اس کے ہم معنی کسی فعل کے ساتھ استعمال کیا جائے وہاں یہ "لَام" بمعنی "عَنْ" کے ہو گی۔ جیسے "قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا"۔ "قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا"۔ اب یہاں "لِلَّذِينَ" پر جو "لَام" ہے وہ کہتے ہیں یہ "لَام" بمعنی "عَنْ" کے ہے۔ یعنی اصل میں ہے: "قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنِ الَّذِينَ آمَنُوا"۔  بمعنی "عَنْ" کے ہے۔ کہ کہا ان لوگوں نے جو کافر تھے "أَنِ الَّذِينَ" ان کے بارے میں جو مومن تھے۔ ظاہر ہے مومن تو وہاں موجود نہیں تھے وہ غائب تھے ان کے بارے میں کہا: "لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ"۔ صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں: "وَفِيهِ نَظَرٌ" مجھے اس استشہاد پر اشکال ہے۔ کون سا؟ کہ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ یہاں "لَام" بمعنی "عَنْ" کے ہے، اس پر نظر ہے۔ کیوں؟ آپ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر یہاں "لَام" بمعنی "عَنْ" کے نہ ہو اور "لَام" اپنے معنی میں استعمال ہو تو پھر "مَا سَبَقُونَا" کی بجائے "مَا سَبَقْتُمُونَا" ہونا چاہیے تھا۔ صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں نظر اس استشہاد میں ہے کہ جب بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہاں پر قول بمعنی خطاب کے ہے جب بمعنی خطاب کے ہو گا، یعنی غائب کے لیے نہیں کہ مخاطب تھے تو پھر انہوں نے ان کو کہا ہے "مَا سَبَقْتُمُونَا" یعنی خطاب کے لیے ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر "عَنْ" جو ہے وہ، پھر وہ "لِلَّذِينَ" کی "لَام"، "عَنْ" کے معنی میں نہیں ہے۔ کیوں؟ جب بعض کہہ رہے ہیں کہ یہ خطاب کے لیے ہے تو پھر "إِذَا جَاءَ الِاحْتِمَالُ بَطَلَ الِاسْتِدْلَالُ"۔ بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے ان کے درمیان۔

 لَامِ قَسَم

فرماتے ہیں: "وَبِمَعْنَى الْوَاوِ فِي الْقَسَمِ"۔ یہی "لَام" بمعنی "وَاو" کے بھی استعمال ہوتی ہے۔ کہاں پر؟ قسم میں۔ یہ "وَاو" یعنی یہ "لَام" بمعنی "وَاو" کے آتی ہے کہ جب آپ کسی تعجب کے مقام پر قسم اٹھاتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ تعجب کا مقام ہو اور وہاں قسم اٹھانا ہو۔ جیسے یہ شعر ہے "لِلّٰهِ" اب یہاں "لَام" "وَاو" کے معنی میں ہے۔ "لِلّٰهِ" اصل میں گویا کیا ہے؟ "وَاللهِ"۔ "لِلّٰهِ" یعنی "وَاللهِ"۔ اللہ کی قسم! آگے شعر کیا ہے پورا؟ "لِلّٰهِ يَبْقَى عَلَى الْأَيَّامِ ذُو حِيَدٍ بِمُشْمَخِرٍّ بِهِ الظَّيَّانُ وَالْآسُ" آیت مجیدہ بھی ہے "لِلّٰهِ لَا يُؤَخِّرُ الْأَجَلُ"۔ یہاں بھی "لِلّٰهِ" یہاں "لَام" بمعنی "وَاو" کے ہے اللہ کی قسم۔ لیکن انہوں نے جو شعر لکھا ہے وہ شعر یہ ہے۔ "لِلّٰهِ" اللہ کی قسم "يَبْقَى عَلَى الْأَيَّامِ ذُو حِيَدٍ بِمُشْمَخِرٍّ بِهِ الظَّيَّانُ وَالْآسُ"۔ کیا ترجمہ اس کا؟ یعنی اللہ کی قسم، "لِلّٰهِ" باقی نہیں رہے گا ایام پر کوئی بھی یعنی اس دنیا پر کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ "ذُو حِيَدٍ" صاحبِ گوشہ۔ "بِمُشْمَخِرٍّ بِهِ" جو بلند و پہاڑ پر ہے۔ "الظَّيَّانُ" کہ جس پر ہرن بھی ہیں اور آس کا بسیرا بھی ہے ایک پرندہ ہوتا ہے آس کا۔  ہمیں اس سے غرض نہیں کہ یہ ہذلی نے کس مقام کے لیے کہا ہے۔ "ظَيَّان" یعنی ہرن ہو گئے۔ "آس" یہ کوئی پرندہ ہوتا ہے جس کا وہ بسیرا ہوتا ہے۔ "بِمُشْمَخِرٍّ" یعنی بلند و بالا پہاڑ۔ "ذُو حِيَدٍ" صاحبِ گوشہ۔  ہمارا محلِ شاہد فقط پہلا لفظ ہے "لِلّٰهِ" یعنی یہاں لام، واو قسم کے معنی میں ہے یعنی یہ واو کیا ہے کہ واو "لِلّٰهِ" یعنی "وَاللهِ" اللہ کی قسم۔ اور یہ اس وقت کہ جب یہ تعجب کے لیے استعمال ہو رہا ہو۔

4

رب اور اس کے معانی

اس کے بعد فرماتے ہیں: حروفِ جارہ میں سے ایک اور حرف وہ ہے "رُبَّ"۔ شاید یہ ساتویں نمبر پر ہے غالباً ساتواں بنے گا۔ "رُبَّ" آتا ہے "تَقْلِیل" کے لیے۔ "تَقْلِیل" یعنی کسی کم چیز کو بیان کرنا۔ جیسا کہ "كَمْ خَبَرِيَّة" "تَكْثِير" کے لیے بھی آتا ہے یعنی کثرت کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ "رُبَّ" تقلیل یعنی کسی چیز کی کم مقدار کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ "رُبَّ لِلتَّقْلِیلِ" "رُبَّ" آتا ہے تقلیل کے لیے یعنی تھوڑی مقدار کو بیان کرنے کے لیے۔ "كَمَا أَنَّ كَمَّ الْخَبَرِيَّةَ" جیسا کہ "كَمْ خَبَرِيَّة"، وہ ایک "كَمْ اِسْتِفْهَامِيَّة" ہوتا ہے، ایک "خَبَرِيَّة" ہوتا ہے۔ انشاءاللہ اس کی بحث آئے گی۔ یہ "كَمِّ خَبَرِيَّة" جیسا کہ "كَمِّ خَبَرِيَّة" "تَكْثِير" یعنی زیادہ کو، کثرت کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔  "تَكْثِير" کے مقابل میں ہو گیا "تَقْلِیل"۔ زیادتی کے بیان کرنے کے مقابل میں یعنی کم۔ آگے فرماتے ہیں کہ یہ "تَسْتَحِقُّ صَدْرَ الْكَلَامِ"۔ "رُبَّ" "صَدْرِ كَلَام" کا مستحق ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی "رُبَّ" ہمیشہ کلام کی ابتداء میں آتا ہے۔ یہ آخر میں یا وسط میں "رُبَّ" نہیں آتا۔ "صَدْرِ كَلَام" کا مطلب ہوتا ہے یعنی کلام کی ابتداء میں واقع ہونا، جملے کی ابتداء میں آنا۔ "رُبَّ" ہمیشہ صدارتِ کلام چاہتا ہے۔ کہ سب سے پہلے جب بات شروع کرنی ہے میرے ساتھ تو پہلے میں آؤں گا بعد میں کوئی اور۔  یہ اس کا ایک حکم ہے۔ دوسرا حکم:"لَا تَدْخُلُ إِلَّا عَلَى نَكِرَةٍ مَوْصُوفَة"۔ "رُبَّ" ہمیشہ اسم نکرہ موصوفہ پر داخل ہوتا ہے۔ یعنی "رُبَّ" کا مدخول اسم نکرہ ہوتا ہے ایسا اسم نکرہ جس کی کوئی بعد میں صفت بھی موجود ہوتی ہے، نکرہ فقط اسی پر داخل ہوتا ہے۔ جیسے "رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ"۔ اب "رُبَّ" داخل ہوا ہے "رَجُلٍ" پر۔ "رَجُلٍ" نکرہ ہے اور "كَرِيمٍ" آگے اس کی صفت موجود ہے۔ کہ کم ایسے مرد ہیں جن سے میں نے ملاقات کی یعنی وہ کریم۔ 

"أَوْ مُضْمَرٍ مُبْهَمٍ مُفْرَدٍ مُذَكَّرٍ أَبَدًا مُمَيَّزًا بِنَكِرَةٍ مَنْصُوبَةٍ" یا یہ "رُبَّ" داخل ہوتا ہے ایک ضمیر پر، ضمیر مبہم پر، یعنی غائب کی ضمیر پر، اور وہ ضمیر مفرد مذکر ہوتی ہے،جس کی تمییز ایک اسم نکرہ منصوب ہوتا ہے  یعنی یہ ہے "رُبَّ" "أَوْ مُضْمَرٍ" یہ "رُبَّ"، ضمیر مبہم پر داخل ہوتا ہے۔ ضمیر مبہم غائب پر داخل ہوتا ہے۔ وہ ضمیر ہمیشہ مفرد مذکر ہوتی ہے، مفرد مذکر ہوتی ہے۔جس کی تمییز نکرہ منصوب یعنی وہ  اسم نکرہ ہوتا ہے جو تمییز  بن کے آتا ہے اور وہ ہوتا بھی منصوب ہے۔ جیسے "رُبَّهُ رَجُلًا" یہاں "رُبَّ"، "هُ" ضمیر مفرد مذکر مبہم پر داخل ہوا جس کی تمییز ہے "رَجُلًا"۔ "رُبَّهُ رَجُلَيْنِ"  لفظ آیا تھا  "أَبَدًا"، اب اگرچہ تمییز "رَجُلَيْنِ" تثنیہ ہے لیکن "رُبَّ" جس ضمیر پر داخل ہوا وہ مفرد مذکر ہے "رُبَّهُ رَجُلَيْنِ"۔ اسی طرح اگر تمییز جمع بھی ہو تو بھی جس ضمیر پر "رُبَّ" نے داخل ہونا ہے وہ مفرد مذکر ہو گا جیسے "رُبَّهُ رِجَالًا"۔ اسی طرح "رُبَّهُ امْرَأَةً" اب امراۃ دیکھو مونث ہے لیکن اس کے باوجود بھی "رُبَّ" جس ضمیر پر داخل ہوا ہے وہ مفرد مذکر ہے۔ "رُبَّهُ امْرَأَتَيْنِ" یا "رُبَّهُ" جو بھی اس کا ہے۔ "وَ عِنْدَ الْكُوفِيِّينَ" کوفی کہتے ہیں کہ نہیں بھائی نہیں۔ مطابقت واجب ہے۔ یعنی اگر تمییز تثنیہ ہو گی تو ضمیر بھی تثنیہ۔ تمییز جمع تو یہ بھی جمع۔ تمییز مونث تو ضمیر بھی مونث۔ لہذا ان کے نزدیک یوں ہو گا،  وہ کہتے ہیں "رُبَّهُ رَجُلًا" "رُبَّهُمَا رَجُلَيْنِ" "رُبَّهُمْ رِجَالًا"۔ اسی طرح "رُبَّهَا امْرَأَةً" "رُبَّهُمَا امْرَأَتَيْنِ" الی آخرہ۔  یعنی وہ کہتے ہیں مطابقت واجب ہے تذکیر و تانیث میں بھی اور تثنیہ اور جمع میں بھی۔اگلا حکم علیحدہ ہے۔ وہ حکم یہ ہے: "وَ قَدْ تَلْحَقُهَا الْمَا الْكَافَّةُ"۔ کافہ ہے کَف سے۔ کَف کہتے ہیں روکنا۔ کبھی کبھی اس "رُبَّ" پر "مَا كَافَّة" داخل ہو جاتی ہے۔ کافہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اس "مَا رُبَّ" کو عمل کرنے سے روک دیتی ہے۔ کافہ یعنی روکنے والی۔ "وَ قَدْ تَلْحَقُهَا" کبھی کبھی اس "رُبَّ" کو ملحق ہوتی ہے یعنی اس کے آخر میں جاتی ہے، آتی ہے ایک "مَا" جسے "مَا كَافَّة" کافہ کے معنی ہوتے ہیں روکنے والی چونکہ وہ اس کو عمل سے روک دیتی ہے تو اس لیے اسے کہا جاتا ہے "مَا كَافَّة"۔ تو یہ کہاں آئے گی؟ فرماتے ہیں: "فَتَدْخُلُ عَلَى الْجُمْلَتَيْنِ"۔ یہ "مَا كَافَّة" جو "رُبَّ" پر لاحق ہوتی ہے آ جاتی ہے یہ جملہ فعلیہ ہو تو بھی، جملہ اسمیہ ہو تو بھی جیسے "رُبَّمَا قَامَ زَيْدٌ" یہ جملہ فعلیہ کی مثال۔ "رُبَّمَا زَيْدٌ قَائِمٌ" جملہ اسمیہ کی مثال۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ ان دونوں میں اس "رُبَّ" نے اپنا کوئی عمل کہیں نہیں کیا کیوں؟ چونکہ "رُبَّ" کے بعد "مَا" آ گئی تھی۔ اس کو کہتے ہیں: "مَا كَافَّة" یعنی روکنے والی جس نے "رُبَّ" کو عمل سے روک دیا۔ فرماتے ہیں البتہ "رُبَّ" "وَ لَا بُدَّ لَهَا مِنْ فِعْلٍ مَاضٍ" اگر جملہ فعلیہ ہو گا تو وہاں فعل فعل ماضی ہونا چاہیے۔ وہاں جس فعل کا استعمال ہو گا وہ ماضی ہو یعنی مضارع اور امر نہ۔ اگر "رُبَّمَا" کے بعد جملہ فعلیہ ہے تو وہاں فعل ماضی ہونا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ "رُبَّ" "لِلتَّقْلِيلِ الْمُحَقَّقِ"۔ "رُبَّ" آتا ہے تقلیل کے لیے وہ تقلیل جو محقق ہو، کنفرم ہو، یقینی ہو "وَ لَا يَتَحَقَّقُ إِلَّا بِهِ" اور محقق یعنی یقینی، کنفرم وہی ہوتا ہے جو ماضی ہو، جو ہو چکا ہو۔ جس نے ہونا ہے اس کو آپ محقق اور کنفرم نہیں کہہ سکتے۔ 

فرماتے ہیں اس کے بعد  فعل ماضی ہونا چاہیے۔ "وَ يُحْذَفُ ذَلِكَ الْفِعْلُ غَالِبًا"۔ اور عام طور پر جو فعل آتا ہے بسا اوقات وہ حذف بھی کر دیا جاتا ہے۔ غالب طور پر محذوف ہوتا ہے۔ مثلاً "رُبَّ رَجُلٍ أَكْرَمَنِي" "فِي جَوَابِ مَنْ قَالَ هَلْ لَقِيتَ مَنْ أَكْرَمَكَ"؟ یعنی ایک شخص کہتا ہے "هَلْ لَقِيتَ" کیا تو نے ملاقات کی ہے "مَنْ أَكْرَمَكَ" جس کی طرح احترام کیا؟ اب آپ کہتے ہیں "رُبَّ رَجُلٍ أَكْرَمَنِي" تھوڑے ایسے لوگ ہیں جن کو میں نے او جنہوں نے میرا احترام کیا ہو۔ اب اصل میں کیا تھا؟ "رُبَّ رَجُلٍ أَكْرَمَنِي لَقِيتُهُ"۔ پس یہ "أَكْرَمَنِي" درحقیقت، او "رَجُلٍ أَكْرَمَنِي" "أَكْرَمَنِي" جملہ فعلیہ یہ اس "الرَّجُلِ" کی صفت تھا اور "لَقِيتُهُ" یہ اس کا فعل تھا اور یہ وہاں محذوف ہے۔ لہذا "رُبَّ رَجُلٍ أَكْرَمَنِي" میں اصل عبارت بنے گی "رُبَّ رَجُلٍ أَكْرَمَنِي لَقِيتُهُ"۔ یہاں "لَقِيتُهُ" فعل محذوف ہے اور غالباً یہ محذوف ہی ہوتا ہے۔ 

 وَاوُ رُبَّ

آگے فرماتے ہیں حروفِ جارہ میں سے اگلا حرف غالباً آٹھواں حرف ہو گا۔ وہ انہوں نے ذکر فرمایا ہے۔ وہ ہے "وَاوِ رُبَّ"۔ "وَاوِ رُبَّ" کیا ہے؟ فرماتے ہیں یہ وہ "وَاو" ہے کہ جو ابتداء میں آتی ہے اور اسی کے ذریعے کلام کی ابتداء کی جاتی ہے۔ "وَاوِ رُبَّ" کیوں کہتے ہیں؟ چونکہ "رُبَّ" بھی صدارتِ کلام چاہتا تھا میں نے گزارش کی تھی کہ "رُبَّ" کہتا ہے مجھے کلام کی ابتداء میں لاؤ۔ جب آپ کوئی کلام کرنا چاہتے ہیں، کچھ بولنا چاہتے ہیں تو میں اس کی ابتداء، شروعات میرے سے ہونی چاہیے۔ یہی کہتے تھے۔ یہ "وَاوِ رُبَّ" اس لیے ہے کہ یہ بھی کلام کی ابتداء میں آتی ہے۔ جب کلام شروع کی جاتی ہے تو اسی "وَاو" کے ساتھ۔ اسی لیے اس کو کہا جاتا ہے "وَاوِ رُبَّ"۔ "وَاوِ رُبَّ" یہ آٹھواں حرف ہے غالباً۔ "هِيَ الْوَاوُ الَّتِي يُبْدَأُ بِهَا"۔ یہ وہ "وَاو" ہے کہ جس کے ذریعے اول کلام میں ابتداء کی جاتی ہے یعنی جس سے کلام کو، جس سے شروع کیا جاتا ہے۔ اس کو کہا جاتا ہے "وَاوِ رُبَّ"۔ جیسے شاعر کا یہ شعر ہے: "وَ بَلْدَةٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ إِلَّا الْيَعَافِيرُ وَ إِلَّا الْعِيسُ"۔ اب فرماتے ہیں کہ "وَ بَلْدَةٍ"۔ ہمارا محلِ شاہد یہ "وَاو" ہے کہ یہ "وَاو" جس سے کلام کی ابتداء کی گئی ہے۔ "وَ بَلْدَةٍ" کتنے ایسے شہر ہیں "لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ" جس میں کوئی انس کرنے والا، محبت کرنے والا نہیں ہے۔ "إِلَّا الْيَعَافِيرُ" "إِلَّا الْ" سوائے "يَعَافِيرُ"۔ "يَعَافِيرُ" جمع ہے "يَعْفُور" کی۔ "يَعْفُور" کہتے ہیں ہرن کا بچہ۔ اور "عِيس" واحد ہے "أَعْيَس"۔ "عِيس" یعنی اس کی جمع ہے "أَعْيَس" سفید اونٹ۔ یعنی کیا مطلب؟ اب اس کا مطلب ذرا غور کرو کہ "وَ بَلْدَةٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ" کتنے ایسے شہر ہیں، ہمارا محلِ شاہد وہ "وَاو" تھی کہ جو پہلی "وَاو" ہے یہ "وَاوِ رُبَّ" ہے جس سے کلام کا آغاز ہوا کہ جہاں پر کوئی انس کرنے والا نہیں "إِلَّا الْيَعَافِيرُ" مگر ہرن کے بچے "وَ الْعِيسُ" اور اونٹوں کے بچے۔ غالباً یہی مراد ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ سفید اونٹ۔

5

واو قسم

آگے فرماتے ہیں :"وَ وَاوُ الْقَسَمِ" یہ تقریباً نواں حرف بنے گا۔ واو قسم "هِيَ تَخْتَصُّ بِالظَّاهِرِ"۔ یہ مختص ہے ظاہر کے ساتھ۔ کیا؟ کہ واو قسم ہمیشہ اسم ظاہر پر داخل ہوتی ہے یہ ضمیر پر داخل نہیں ہوتی۔ لہذا ہم کہتے ہیں "وَاللهِ" اللہ کی قسم۔ "وَالرَّحْمَنِ" یا رحمن کی قسم "لَأَضْرِبَنَّ"۔ لہذا "وَكَ" یا "وَهُ" یہ یعنی واو کو کسی، واو قسم کسی ضمیر پر داخل نہیں ہوتی۔ بس ایک ہی نکتہ ہے کہ "وَاو" جو قسم کے لیے آتی ہے وہ ہمیشہ اسم ظاہر پر داخل ہوتی ہے، ضمیر پر داخل نہیں ہوتی۔ یہ یہاں پر ختم ہو گیا۔ وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ۔

وحتّىٰ : وهي مثل «إلىٰ» نحو : نُمْتُ الْبارحَةَ حَتّىٰ الصباحِ. وبمعنى «مع» كثيراً نحو : قَدِمَ الْحَاجُّ حَتَّىٰ الْمُشاةِ. ولا تدخل على غير الظاهر فلا يقال : حَتّاهُ ، خلافاً للمبرّد. وأمّا قول الشاعر :

فلا واللهِ لا يبقىٰ اُناس

فتىً حَتّاكَ يابْنَ أبي زيادٍ (١)

فشاذّ.

وفي : للظرفيّة نحو : زَيْدٌ في الدارِ ، والْماءُ في الْكُوزِ. وبمعنى «عَلىٰ» قليلاً كقوله تعالى : «وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ» (٢).

والباء : وهي للإلصاق حقيقة نحو : بِهِ داءٌ ، أو مجازاً نحو : مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، أي التصق مروري بمكان يقرب منه زيد.

وللاستعانة نحو : كَتَبْتُ بِالْقَلَمِ.

وللتعدية ك‍ : ذَهَبَ بِزَيْدٍ.

وللظرفية ك‍ : جَلَسْتُ بِالْمَسْجِدِ.

وللمصاحبة نحو : اشْتَرَيْتُ الْفَرَسَ بِسَرْجِهِ.

وللمقابلة نحو : بِعْتُ هذا بِهذا.

وزائدة قياساً في الخبر المنفيّ نحو : ما زَيْدٌ بِقائِمٍ ، وفي الاستفهام نحو : هَلْ زَيْدٌ بقائِمٍ ؟ وسماعاً في المرفوع نحو : بِحَسْبِكَ دِرهمٌ ، «وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا» (٣). وفي المنصوب نحو : ألْقىٰ بِيَدِهِ.

واللّام : للاختصاص نحو : الْجُلُّ لِلْفَرَسِ ، والْمالُ لِزَيْدٍ ، وللتعليل

____________________________

(١) يعنى : پس قسم بخدا كه باقى نمى ماند مردمان جوان حتى تو اى پسر ابى زياد. يا آنكه يافت نمى شوند مردمان صاحب سخاوت سواى تو اى پسر ابى زياد. شاهد در دخول حتّى است بر ضمير مخاطب شذوذاً و مجرور بودن آن ضمير به حتى. جامع الشواهد.

(٢) طه : ٧١.

(٣) النساء : ٧٩.

كضَرَبْتُهُ لِلتَأْديبِ ، وزائدة كقوله تعالى : «رَدِفَ لَكُم» (١) أي ردفكم. وبمعنى عَنْ إذا استعمل مع القول ، كقوله تعالى : «قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ» (٢) وفيه نظر. وبمعنى الواو في القسم للتعجّب نحو : لِلّٰهِ لا يُؤَخَّرُ الْأجَلُ.

ورُبَّ : للتقليل كما أنّ كَمْ الخبريّة للتكثير ، ويستحقّ صدر الكلام ، ولا تدخل إلّا على النكرة نحو : رُبَّ رَجُلٍ لَقيتُهُ ، أو مضمر مبهم مفرد مذكّر مميّز بنكرة منصوبة نحو : رُبَّهُ رَجُلاً ، ورُبَّهُ رَجُلَيْنِ ، ورُبَّهُ امرأةً ورُبَّهُ امرأتين ، وعند الكوفيّين يجب المطابقة نحو : رُبَّهُما رَجُلَيْن ، ورُبَّهُما امْرَأَتَيْنِ ، وقد يلحقها ما الكافّة فتدخل على الجملة نحو : رُبَّما قامَ زَيْدٌ ، ورُبَّما زَيْدٌ قائِمٌ. ولا بدّ لها من فعل ماضٍ لأنّ التقليل يتحقّق فيه. ويحذف ذلك الفعل غالباً كقوله : رُبَّ رَجُلٍ أكْرَمَني ، في جواب من قال : هَلْ رَأَيْتَ مَنْ أكْرَمَك ؟ أي رُبَّ رجلٍ أكرمني لقيتُهُ ، فأكرَمَني صفة لرجل ، ولقيتُ فعلها وهو محذوف.

وواو رُبَّ ، وهي الواو الّتي يبتدأ بها في أوّل الكلام كقول الشاعر :

وَبَلْدَةٍ لَيْسَ لَها أنيسٌ

إلّا الْيَعافيرُ وَإلّا الْعيسُ (٣)

____________________________

(١) النمل : ٧٢.

(٢) الاحقاف : ١١.

(٣) قوله وبلدة ليس لها انيس «الخ» الواو بمعنى ربّ وبلدة مجرور به والجملة صفة له. والباء في بها بمعنى في ، أي فيها ، والانيس بالنون والسين المهملة فعيل بمعنى الفاعل من الانس وهو كقفل خلاف الوحشة. واليعافير جمع يعفور وهو بالياء والعين والراء المهملتين بينهما فاء و واو كمنصور ولد البقر الوحشية. والعيس بالكسر جمع عيساء وهي بالعين والسين المهملتين بينهما ياء كحمراء الابل البيض يخلط بياضها شقرة.

يعنى : بسا شهرى كه اين صفت دارد كه نيست در آن شهر ، انس گيرنده مگر گوساله گاو وحشى و مگر شتران سفيد مايل به سرخى. شاهد در مجرور بودن بلده است به واو ربّ يا بودن او نكره موصوف به جمله كه «ليس لها انيس» بوده باشد. جامع الشواهد.

واو القسم : وهي مختصّة بالظاهر فلا يقال : وَكَ.

وتاء القسم : وهي مختصّة بالله وحده ، فلا يقال : تا الرَّحْمٰنِ ، وقولهم تَرَبّ الْكَعْبَةِ ، شاذّ.

وباؤه : وهي تدخل على الظاهر والمضمر نحو : بِاللهِ وبِالرَّحْمٰنِ وبِكَ. ولا بدّ للقسم من جواب أو جزاء ، وهي جملة تسمّى مقسماً عليها ، فإن كانت موجبة يجب دخول اللام في الاسميّة والفعليّة نحو : وَاللهِ لَزَيْدٌ قائِمٌ ، ووَاللهِ لَأفْعَلَنَّ كَذا ، ويلزم كونها مع اللام في الاسميّة نحو : وَاللهِ إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ ، وإن كانت منفيّة يجب دخول «ما» أو «لا» نحو : وَاللهِ ما زَيْدٌ قائِمٌ ، و وَاللهِ لا يَقُومُ. وقد يحذف حرف النفي لوجود القرينة كقوله تعالى : «تَاللَّـهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ» (١) ، أي لا تفتؤ.

واعلم أنّه قد يحذف جواب القسم إن تقدّم ما يدلّ عليه نحو : زيدٌ قائمٌ واللهِ ، أو توسّط بينه نحو : زيدٌ واللهِ قائمٌ.

وعَنْ : للمجاوزة كـ : رَمَيْتُ السهمَ عن القوسِ.

وعلىٰ : للاستعلاء نحو : زيدٌ على السطح ، وقد يكون عَنْ وعلىٰ اسمين إذا دخل عليهما «مِنْ» فيكون عن بمعنى الجانب. تقول : جلَستُ مِنْ عَنْ يمينه. ويكون على بمعنى فوق نحو : نزلتُ مِنْ عَلَى الفرسِ.

والكاف : للتشبيه نحو : زيدٌ كعمروٍ ، وزائدة كقوله تعالى : «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ» (٢) وقد يكون اسماً كقول الشاعر :

يَضْحَكْنَ عَنْ كَالبَرِدِ المُنْهَمِّ

تَحْتَ غَرَاضيفِ الاُنوف الشمِّ (٣)

ومُذْ ومُنْذُ : لابتداء الزمان في الماضي كما تقول في شعبان : ما رَأَيْتُهُ مُذْ رَجَبٍ. وللظرفيّة في الحاضر نحو : ما رَأَيْتُهُ مُذْ شَهْرِنا ، ومُنْذُ يَوْمِنا ، أي في

____________________________

(١) يوسف : ٨٥.

(٢) الشورى : ١١.

(٣) اوّله : بيضٌ ثلاث.