درس الهدایة في النحو

درس نمبر 42: اسم فاعل اور مفعول کی وضاحت

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم فاعل کی تعریف،مجرد اور مزید فیہ سے بنانے کا طریقہ

اسم فاعل کی تعریف

"اِسْمُ الْفَاعِلِ اِسْمٌ مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ لِيَدُلَّ عَلَى مَنْ قَامَ بِهِ الْفِعْلُ بِمَعْنَى الْحُدُوثِ"  ساتویں فصل:  یہ  اسم فاعل کے بارے میں ہے۔ فرماتے ہیں: اسم فاعل وہ اسم ہے جو فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ کیوں؟ تاکہ وہ دلالت کرے اس پر جس کے ساتھ فعل قائم ہے اور وہ قیام بمعنی "حُدُوْث" کے ہے، کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت آغا جان یہ ہے کہ اسم فاعل فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ خوب! فعل سے مشتق ہوتا ہے ٹھیک ہو گیا۔ کیوں اس کو بنایا جاتا ہے؟ فعل سے اس کا "اِشْتِقَاق" کیوں کیا جاتا ہے؟ تاکہ یہ بتایا جائے کہ وہ جو فعل ہے وہ اسی فاعل کے ساتھ، اسی اسم کے ساتھ قائم ہے۔ لیکن اس کا قیام بمعنی "حُدُوْث" کے ہے۔ کیوں؟ بسا اوقات قیام بمعنی "حُدُوْث" کے نہیں "ثُبُوْت" کے ہوتا ہے وہ ہوتی ہے صفت مشبہ جہاں استمرار ہوتا ہے انشاءاللہ اس کی جب بحث آئے گی پھر دوبارہ اسم فاعل اور صفت مشبہ کے اس فرق کو بھی واضح کریں گے۔ وہاں بہت سارے  فرق ہیں۔ مثلا ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ شَرِيفٌ" اور ایک دفعہ ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ ضَارِبٌ" ان دو میں فرق ہے۔ "ضَارِبٌ" اسم فاعل ہے، "شَرِيفٌ" صفت مشبہ ہے، "ضَارِبٌ" کا مطلب ہے کہ وہ ضرب زید سے "حادِث" ہوئی ہے اس نے اس کو انجام دیا ہے لیکن اس کا مطلب نہیں کہ 24 گھنٹے بس وہ  مار رہا ہے ایسا نہیں ہے۔ لیکن "شَرِيفٌ" کا مطلب یہ نہیں ہوتا اس میں دوام اور استمرار ہوتا ہے کہ یہ نہیں کہ گھنٹہ شریف ہے گھنٹہ بدمعاش ہے گھنٹہ شریف ایسا نہیں ہوتا۔ انشاءاللہ وہاں اس کی وضاحت کریں گے۔

 ثلاثی مجرد میں اسم فاعل کا صیغہ

اسم فاعل "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" میں سے تو آتا ہے "فَاعِلٌ" کے وزن پر۔ "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" جسے کہتے ہیں "ضَارِبٌ" "عَالِمٌ" "نَاصِرٌ" "حَاسِبٌ" خوب! اس میں سے آتا ہے۔

 ثلاثی مجرد کے علاوہ اسم فاعل کا صیغہ

جو "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" کے علاوہ دوسرے ہیں مثلا "ثُلَاثِيٌّ مَزِيدٌ فِيهِ" ہو گیا "رباعی" ہو گیا وغیرہ ان میں سے ان میں سے اسی مضارع والے صیغے کو لیتے ہیں لیکن وہاں حرف مضارع کو ہٹا کر ابتدا میں ایک میم "مَضْمُوم" لگا دیتے ہیں اور ما قبل آخر کو کسرہ دیتے ہیں۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے۔

 باب افعال سے اسم فاعل

"بَابُ إِفْعَالٍ" "أَكْرَمَ يُكْرِمُ" تو فرماتے ہیں اب اس کو فاعل کیسے بنانا ہے؟ "يُكْرِمُ" یا حرف مضارع ہے اس کو  ہٹا لیا اس کی جگہ ایک میم "مَضْمُوم" رکھ دو۔ میم "مَضْمُوم" لگایا تو "يُكْرِمُ" سے کیا بن جائے گا؟ "مُكْرِمٌ" چونکہ ما قبل آخر اس کا پہلے سے ہی مقصور ہے نئے کسرے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ بن جائے گا "مُكْرِمٌ"۔

 باب دخل سے اسم الفاعل

"ادَخَلَ يدْخلُ" میں یا حرف مضارع ہے اس کو ہٹا کے اس کی جگہ ایک میم "مَضْمُوم" رکھو تو یہ بن جائے گا "مُدْخَلٌ" اور لام کا ما قبل "فاء" کو کسرہ دے دیں تو یہ بن جائے گا "مُدْخِلٌ" یہی اس کا اسم فاعل ہوگا۔ یہ اسم فاعل کا وزن ہے "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" کے علاوہ دیگر ابواب میں۔ 

4

اسم فاعل کی تفصیل

 اسم فاعل اپنے فعل والا عمل کرتا ہے

اگلی بحث جس کے لیے ہم نے اس کو علیحدہ کیا وہ یہ ہے۔ فرماتے ہیں۔ کہ یہ اسم فاعل اپنے فعل والا عمل کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط ہیں۔ کیا؟ پہلی شرط اس میں یہ ہے کہ یہ اس صورت میں اپنے فعل والا عمل کرے گا جب یہ بمعنی "حَال" یا "اِسْتِقْبَال" کے ہوگا۔ یعنی یہ "حَال" کا معنی  یا "اِسْتِقْبَال" کے معنی دے رہا ہوگا تو یہ اپنے فعل والا عمل کرے گا۔ یہ پہلی شرط ہو گئی۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ یہ اس وقت عمل کرے گا جب یہ پانچ چیزوں پر اعتماد کرتا ہو کیا مطلب؟ یعنی اس اسم فاعل کے عمل کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ پانچ چیزیں ہوں گی تو یہ عمل کرے گا۔ کون کون سی؟ نمبر ایک: یہ مبتدا ہو اور یہ فاعل اس کی خبر بن رہا ہو، نمبر دو: یا اس سے پہلے "ذُو الْحَالِ" ہو اور اسم فاعل اس کا "حَال" بن رہا ہو، نمبر تین: یا اس سے پہلے موصول ہو اور اسم فاعل اس کا صلہ بن رہا ہو، یا اس نمبر چار: اس سے پہلے موصوف ہو اور یہ اسم فاعل اس کی صفت بن رہا ہو، نمبر پانچ یا اس سے پہلے ہمزہ استفہام ہو یا حرف نفی ہو۔ تو یہ اس کے بعد واقع ہو۔ پھر یہ عمل کرے گا۔ 

 دوبارہ اسم الفاعل کی تعریف

"فَصْلٌ اِسْمُ الْفَاعِلِ" اسم فاعل کے بارے میں۔ ساتویں فصل:اسم فاعل "اِسْمٌ" اسم فاعل وہ اسم ہے "مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ" جو فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے "لِيَدُلَّ" تاکہ یہ اسم فاعل دلالت کرے "عَلَى مَنْ" اس پر "قَامَ بِهِ الْفِعْلُ" کہ جس کے ساتھ فعل قائم ہے کہ جس کی وجہ سے فعل وجود میں آیا جس کی وجہ سے فعل قائم ہوا۔ اور وہ بھی "بِمَعْنَى الْحُدُوثِ" "بِمَعْنَى الْحُدُوثِ" سے مراد یہ ہے کہ یہ بتانے کے لیے کہ یہ فعل اس سے صادر ہوا ہے۔ اس سے "حادِث" ہوا ہے یعنی اسی نے اس فعل کو انجام دیا ہے اور وہ آیا ہے۔ 

 ثلاثی مجرد اور دیگر ابواب میں اسم الفاعل کا صیغہ

"وَصِيغَتُهُ" اسم فاعل کا صیغہ "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" میں سے "عَلَى وَزْنِ فَاعِلٍ" وہ تو آتا ہے ہمیشہ "فَاعِلٌ" کے وزن پر جیسے "کضَارِب وَنَاصِر" اور ظاہر ہے بن تو پڑھ رہے ہیں  کاف کی وجہ سے اگر کاف جار نہ ہوتی تو ویسے کہتے "ضَارِبٌ ضَارِبَانِ ضَارِبُونَ نَاصِرٌ نَاصِرَانِ نَاصِرُونَ عَالِمٌ عَالِمَانِ عَالِمُونَ" وغیرہ۔ "وَمِنْ غَيْرِهِ" لیکن "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" کے علاوہ دیگر ابواب میں اسم فاعل کا وزن کیا ہے؟ فرماتے ہیں "عَلَى صِيغَةِ الْمُضَارِعِ مِنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ" اسی فعل کے صیغہ "مُضَارِع" کے وزن پر ہے دو تبدیلیاں کر کے۔ دو تبدیلیاں کیا کریں گے؟ "بِمِيمٍ مَضْمُومٍ مَكَانَ حَرْفِ الْمُضَارَعَةِ" کہ اس فعل مضارع میں جو بھی حرف مضارع ہے اس کی جگہ ایک میم "مَضْمُوم" لگا دو اور ما قبل آخر کو کسرہ دے دو یہ اسم فاعل بن جائے گا۔ "كَمُدْخِلٍ وَمُسْتَخْرِجٍ" یعنی اصل میں کیا تھا "مُدْخِلٍ" "دَخَلَ يَدْخُلُ" اصل میں تھا "يَدْخُلُ" یا حرف مضارع کو ہٹا کر وہاں میم "مَضْمُوم" رکھی اور لام کے ما قبل خا کو کسرہ دیا تو یہ بن گیا "مُدْخِلٌ"۔ "اسْتَخْرَجَ يَسْتَخْرِجُ" "يَسْتَخْرِجُ" میں بھی یا کو ہٹا کر میم "مَضْمُوم" لگی تو یہ بن گیا "مُسْتَخْرِجٌ" تو یہ اسم فاعل بن گیا۔

 اسم فاعل کا عمل

"هُوَ يَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهِ الْمَعْرُوفِ" فرماتے ہیں:  اسم فاعل اپنے فعل معروف والا یعنی اپنے فعل معلوم والا عمل کرتا ہے دو شرائط کے ساتھ۔ نمبر ایک: اس وقت یہ فعل معلوم والا عمل کرے گا پہلی شرط "اِنْ كَانَ بِمَعْنَى الْحَالِ أَوِ الْاِسْتِقْبَالِ" اگر یہ بمعنی "حَال" یا "اِسْتِقْبَال" کے ہوگا تو۔ پس اسم فاعل کے عمل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمعنی "حَال" یا "اِسْتِقْبَال" کے ہو۔ کہ وہ یہ کام کر رہا ہے یا کرے گا ہو ماضی کے معنی میں نہ ہو ایک۔ اور دوسری شرط "وَمُعْتَمِدًا" پانچ چیزوں پر اس کا اعتماد ہو،کون سی؟ فرماتے ہیں: وہ یہ ہیں، نمبر ایک: "مُعْتَمِدًا عَلَى الْمُبْتَدَأِ" اس کا اعتماد ہو مبتدا پر۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہو گیا۔ آپ لکھیں اس طرح کہ دوسری شرط یہ ہے کہ ان پانچ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز اس سے پہلے ہو۔ کیسے؟ کہ یا اس سے پہلے مبتدا ہو اور اسم فاعل اس کی خبر بن رہا ہو جیسے "زَيْدٌ قَائِمٌ أَبُوهُ" اب "زَيْدٌ" مبتدا ہے "قَائِمٌ أَبُوهُ" یہ اس کے لیے خبر بن رہا ہے۔ "أَوْ ذِي الْحَالِ" یا اس سے پہلے کوئی "ذُو الْحَالِ" ہو اور اسم فاعل اس کے لیے "حَال" واقع ہو رہا ہو۔ جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ ضَارِبًا أَبُوهُ عَمْرًا" اب یہاں "ضَارِبًا" "حَال" ہے درآنحالیکہ اس کا باپ عمر کو مارنے والا ہے۔ ٹھیک۔ "أَوْ مَوْصُولٍ" یا اس سے پہلے کوئی موصول ہو اور اسم فاعل اس کا صلہ واقع ہو رہا ہو جیسے "مَرَرْتُ بِالضَّارِبِ أَبُوهُ عَمْرًا" "بِالضَّارِبِ" یعنی الف لام موصول کا ہے اور یہ "ضَارِبٌ أَبُوهُ عَمْرًا" اس کا صلہ بن رہا ہے۔ "أَوْ مَوْصُوفٍ" یا اس سے پہلے موصوف ہو۔ اب عبارت کو ذرا ٹھیک کر لیں اوپر تھا نا "مُعْتَمِدًا عَلَى الْمُبْتَدَأِ أَوْ ذِي الْحَالِ أَوْ مَوْصُولٍ أَوْ مَوْصُوفٍ" یا اس سے پہلے کوئی موصوف ہو اور یہ اسم فاعل اس کے لیے صفت واقع ہو رہا ہو۔ جیسے "رَجُلٌ ضَارِبٌ أَبُوهُ عَمْرًا" اب "ضَارِبٌ" یہاں "رَجُلٌ" کے لیے صفت بن رہا ہے۔ "أَوْ هَمْزَةِ الْاِسْتِفْهَامِ" یا اس سے پہلے ہمزہ استفہام ہو جیسے "أَقَائِمٌ زَيْدٌ" یا اس سے پہلے حرف نفی ہو جیسے "مَا قَائِمٌ زَيْدٌ"۔ ٹھیک ہے جی۔ تو یہ شرائط تھیں۔ کہ یہ اسم فاعل اپنے فعل معلوم والا عمل کرتا ہے ان شرائط کے ساتھ۔ نمبر ایک: جب وہ بمعنی "حَال" و "اِسْتِقْبَال" کے ہوگا، نمبر دو: جب ان پانچ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو۔ اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پہلے ہو یا مبتدا پہلے ہو یا موصوف پہلے ہو یا "ذُو الْحَالِ" پہلے ہو یا موصول پہلے ہو یا ہمزہ استفہام پہلے ہو یا حرف نفی پہلے ہو۔ اب اگلی بات علیحدہ ہے۔

 اسم فاعل جب ماضی کے معنی میں ہو

"فَاِنْ كَانَ بِمَعْنَى الْمَاضِي" لیکن اگر یہی فعل مضارع بمعنی "حَال" و "اِسْتِقْبَال" کے نہ ہو بلکہ بمعنی "مَاضِي" کے ہو "وَجَبَتْ الْاِضَافَةُ مَعْنًى" تو پھر یہاں پر اضافت معنوی واجب ہے کہ یہاں پر اس کو "مُضَاف" کر کے استعمال کیا جائے جیسے "زَيْدٌ ضَارِبُ عَمْرٍو أَمْسِ" یہ "اَمْسِ" بتا رہا ہے کہ "ضَارِب" یہاں ماضی کے معنی میں ہے جب ماضی کے معنی میں ہے تو ہم "ضَارِب" کو "مُضَاف" کریں گے "عَمْرٍو" کی طرف کہ "زَيْدٌ ضَارِبُ عَمْرٍو"۔

 اسم فاعل کا نکرہ ہونا

"هَذَا إِذَا كَانَ مُنَكَّرًا" یہ تو اس صورت میں تھی کہ اگر اسم فاعل "نَكِرَة" ہو۔  کہ یہ اسم فاعل بمعنی "حَال" و "اِسْتِقْبَال" کے ہو وغیرہ یہ جو شرائط تھیں یہ اس صورت میں تھیں کہ جب وہ "نَكِرَة" تھا۔

 اسم فاعل کا معرف باللام ہونا

"أَمَّا إِذَا كَانَ مُعَرَّفًا بِاللَّامِ" لیکن اگر یہی معرفہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہو یعنی اس سوری کہ اگر اسی اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آ جائے "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" جس کو کہتے ہیں فرماتے ہیں پھر "يَسْتَوِي فِيهِ جَمِيعُ الْأَزْمِنَةِ" پھر اس میں بمعنی "حَال" یا "اِسْتِقْبَال" کے ہونا شرط نہیں ہوگا۔ پھر بمعنی "حَال" کے ہو بمعنی "اِسْتِقْبَال" کے ہو بمعنی "مَاضِي" کے ہو کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اپنے فعل والا عمل ہی کرتا ہے جیسے "زَيْدٌ الضَّارِبُ أَبُوهُ عَمْرًا الْآنَ أَوْ غَدًا أَوْ أَمْسِ" "الْآنَ" ہوگا تو "حَال" کے معنی میں، "غَدًا" ہوگا تو "اِسْتِقْبَال" کے معنی میں، "اَمْسِ" ہوگا تو ماضی کے معنی میں۔ چونکہ یہاں پر یہ "مُعَرَّفٌ بِاللَّامِ" ہے لہذا فرماتے ہیں اس لیے اب اس میں وہ شرط نہیں ہے کہ حتماً بمعنی "حَال"یا "اِسْتِقْبَال" کے ہو۔

5

اسم مفعول کی وضاحت

 اسم مفعول

آٹھویں فصل: اسم مفعول بھی اسم فاعل کی طرح وہ اسم ہے جو فعل سے مشتق ہوتا ہے لیکن اس کے اور اس کے درمیان فرق کیا ہے؟ فرماتے ہیں فرق یہ ہے کہاسم مفعول  دلالت کرتا ہے اس پر کہ جس پر فعل واقع ہوتا ہے۔ اب دو باتوں کو ذرا سمجھنا کہ اسم فاعل اور مفعول میں فرق کیا ہے؟ وہاں یہ تھا کہ وہ دلالت کرتا کہ جس کے ساتھ فعل قائم تھا۔ جبکہ یہ دلالت کرتا ہے اس پر کہ جس پر فعل واقع ہوا۔ یعنی اسم فاعل بتا رہا تھا کہ میری وجہ سے یہ فعل وجود میں آیا اور اسم مفعول بتاتا ہے کہ وہ فعل میرے اوپر انجام دیا گیا۔"اِسْمُ الْمَفْعُولِ اِسْمٌ" اسم مفعول وہ اسم ہے "مُشْتَقٌّ مِنْ فِعْلٍ" کہ یہ بھی اسم فاعل کی طرح فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ کیوں؟ "لِيَدُلَّ" تاکہ یہ دلالت کرے "عَلَى مَنْ" کس پر دلالت کرے؟ اس پر کہ "وَقَعَ عَلَيْهِ الْفِعْلُ" جس پر وہ فعل واقع ہوا ہوتا ہے۔ 

 ثلاثی مجرد اور دیگر ابواب میں اسم مفعول کا صیغہ

"وَصِيغَتُهُ مِنْ ثُلَاثِيٍّ" "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" میں سے اس کا صیغہ آتا ہے "مَفْعُولٌ" کے وزن پر جیسے "مَضْرُوبٌ" 

 "مَضْرُوبٌ مَفْعُولٌ"۔ یہ ہو گیا لفظاً یعنی بالکل مفعول ان کے ساتھ "مَضْرُوبٌ" لفظی طور پر بالکل اسی طرح ہے۔ "أَوْ تَقْدِيرًا" یا تقدیراً مفعول ان کے وزن پر ہوگا لیکن لفظاً تھوڑا سا ہوگا جیسے کہ جیسے "مَقُولٌ" اب "مَقُولٌ" اصل میں "مَقْوُولٌ" تھا مفعول ان کے وزن پہ "تَعْلِيل" ہو گئی تو پھر یہ بن گیا "مَقُولٌ" اسی طرح "مَرْمِيٌّ" بھی اصل میں تھا "مَرْمُويٌ" تو یہ اس سے "مَرْمِيٌّ" تو یہ "مَرْمِيٌّ" بھی لفظاً لیکن تقدیراً مفعول ان کے وزن پر ہے۔ یہ تو ہو گیا آسان۔ "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" کے علاوہ باقیوں کا کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں یہ "ثُلَاثِيٌّ مُجَرَّد" کے علاوہ دیگر ابواب میں اسم مفعول مثل اسم فاعل کے ہوتا ہے فقط ایک تبدیلی کے ساتھ کہ وہاں اسم فاعل میں ما قبل آخر مقصور ہوتا تھا لیکن اسم مفعول میں ما قبل آخر مفتوح ہوگا۔ وہاں اسم فاعل پڑھتے "مُدْخِلٌ" اسم مفعول پڑھیں گے "مُدْخَلٌ" وہاں پڑھتے تھے اسم فاعل "مُسْتَخْرِجٌ" اسم مفعول بن جائے گا "مُسْتَخْرَجٌ" وہاں پڑھتے تھے اسم فاعل "مُكْرِمٌ" اس کو پڑھیں گے "مُكْرَمٌ"۔ 

 اسم مفعول کا عمل

"يَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهِ الْمَجْهُولِ بِالشَّرَائِطِ الْمَذْكُورَةِ فِي اسْمِ الْفَاعِلِ" اسم فاعل اپنے عمل اپنے فعل معلوم والا عمل کرتا تھا لیکن یہ اسم مفعول اپنے فعل "مَجْهُولٌ" والا عمل کرے گا۔ فعل "مَجْهُولٌ" والا چونکہ ظاہر ہے یہ مفعول ہے تو وہ یہ یہاں نائب فاعل ہو کے استعمال ہوگا۔ فرماتے ہیں البتہ انہی شرائط کے ساتھ، کون سی؟ کہ یہ مفعول بمعنی "حَال" و "اِسْتِقْبَال" کے ہو اور دوسرا وہ پانچ چھ چیزیں جن پر اسم فاعل اعتماد کرتا تھا کہ اس سے پہلے کوئی مبتدا ہو یا موصوف ہو یا موصول یہاں پر بھی وہ ساری شرائط موجود ہونی چاہیے۔ "يَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهِ الْمَجْهُولِ" یہ اسم مفعول اپنے فعل مجہول والا عمل کرتا ہے "بِالشَّرَائِطِ الْمَذْكُورَةِ" انہی شرائط کے ساتھ جو اسم فاعل میں ذکر ہوئی کون سی؟ کہ بمعنی "حَال" و "اِسْتِقْبَال" کے ہو اور دوسرا وہ اعتماد کرتا ہو مبتدا پر یا "ذُو الْحَالِ" پر یا موصوف پر یا موصول پر یا اس سے پہلے ہمزہ استفہام ہو یا حرف نفی۔ جیسے "وَيَدٌ مَضْرُوبٌ غُلَامُهُ الْآنَ أَوْ غَدًا أَوْ أَمْسِ" یعنی "اَمْسِ" کا مطلب کیا تھا؟ وہاں ہم نے یہی کہا تھا کہ اگر وہ بمعنی ماضی کے ہوگا تو پھر اس میں وہ نہیں ہوگا۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

ولا يجوز تقديم معمول المصدر عليه فلا يقال : أعْجَبَني زَيْداً ضَرْبٌ.

وإن كان مفعولاً مطلقاً فالعمل للفعل الّذي قبله نحو : ضَرَبْتُ ضَرْباً عَمْراً ، فعمراً منصوب بضَرَبْتُ لا بضَرْباً.

فصل : اسم الفاعل : اسم يشتقّ من يَفْعَلُ ليدلّ على ما قام به الفعل بمعنى الحدوث وصيغته من مجرّد الثلاثي على وزن : الفاعِل ، كضارِب وناصِر ، ومن غيره على وزن صيغة المضارع من ذلك الفعل بميم مضمومة مكان حرف المضارعة وكسر ما قبل الآخر ك‍ : مُدْخِل ومُسْتَخْرِج.

ويعمل عمل الفعل المعروف إن كان فيه معنى الحال والاستقبال ومعتمداً على المبتدأ. نحو : زَيْدٌ قائِمٌ أبُوهُ ، أو ذي الحال نحو : جاءني زَيْدٌ ضارباً أبُوهُ عَمْراً ، أو همزة الاستفهام نحو : أقائِمٌ زَيْدٌ ؟ أو حرف النفي نحو : ما قائِمٌ زَيْدٌ الآنَ أوْ غَداً ، أو موصوف نحو : عِنْدي رَجُلٌ ضاربٌ أبُوهُ عَمْراً.

فإن كان فيه معنى الماضي وجبت الإضافة نحو : زَيْدٌ ضاربُ عَمْروٍ أمْسِ. هذا إذا كان منكّراً ، أمّا إذا كان معرّفاً باللام يستوي فيه جميع الأزمنة نحو : زَيْدٌ الضاربُ أبُوهُ عَمْراً الآن أو غداً أو أمْسِ.

فصل : اسم المفعول : مشتق من يُفْعَلُ بالمجهول متعدّياً ليدلّ على من وقع عليه الفعل وصيغته من الثلاثي المجرّد على المَفْعُول لفظاً كمَضْرُوب ، أو تقديراً كمَقُول ومَرْمِيَّ ، ومن غيره كاسم الفاعل منه بفتح ما قبل الآخر كمُدْخَل ومُسْتَخْرَج ويعمل عمل فعله المجهول بالشرائط المذكورة في اسم الفاعل نحو : زَيْدٌ مَضْرُوبٌ غُلامُهُ الآن أوْ غَداً.