درس الهدایة في النحو

درس نمبر 41: مصدر

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مَصْدر

"فَصْلٌ: المَصْدَرُ": "اِسْمٌ يدلّ على الحدث فقط"

اسم کی بحث میں دو باب معرب اور مبنی کو مکمل کرنے کے بعد خاتمہ ہمارا موضوع بحث تھا کہ اس قسم کے اور احکام بھی ہوتے ہیں تو ان میں سے غالباً یہ چھٹی فصل بنتی ہے جو  مصدر کے بارے میں ہے۔

مصدر کسے کہتے ہیں؟ جواب مصدر وہ اسم ہے جو حدث پر دلالت کرتا ہے اور اس مصدر سے افعال مشتق ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ایک نظریہ ہے، بعض کہتے ہیں: فعل اصل ہے اور بعض کہتے ہیں: مصدر اصل ہے ، شرح مئۃ عوامل میں یہ بات گزری تھی ۔ مصدر وہ اسم ہے جو حدث پر دلالت کرے، سوال ہوگا حدث کسے کہتے ہیں ؟؛جواب:  حدث اس معنی کو کہتے ہیں جو غیر کے ساتھ قائم ہو یعنی جب تک کوئی اور نا ہو تب تک اس کا وجود نا ہو، پھر وہ دو قسم کا ہوتا ہے کتاب میں اسکی وضاحت نہیں کی،  بسا اوقات جو غیر کے ساتھ قائم ہوتا ہے جب تک وہ نا ہو اسکو وجود نہیں ملتا ، ممکن ہے یہ  اس غیر سے صادر ہو جیسے ہم کہتے ہیں: ضرب ؛ مارنا،  اب یہ مار غیر سے صادر ہوتی ہے وہ باقاعدہ اسکو انجام دیتا ہے ، مشی ؛ چلنا، تو اب  یہ  چلنا قائم بالغیر ہے ،اب حدث کس معنی میں ہے جب تک مارنے والا نا ہو یہ ضرب وجود میں نہیں آ سکتا اور جب تک کوئی چلنے والا نہ ہو مشی کو وجود نہیں مل سکتا اس لیے کھتے ھیں یہ وہ معنی ہے جو قائم بالغیر ہو،  بسا اوقات یہ قائم بالغیر ہے  دوسرے کے ساتھ،  لیکن دوسرے سے صادر نھیں ہوا، اسکی مشہور مثالیں:  جیسے موت؛ مرنا، اب جو انسان مرتا ہے خود وہ اپنی موت کو صادر نھیں کرتا یعنی موت کا فاعل، صادر کرنے والا وہ خود نھیں ہوتا الی آخرہ۔

فرماتے ہیں اس مصدر کے ثلاثی مجرد میں مصدر کس کس وزن پر آتا ہے انھوں نے کہا ہے: یہ محدود نہیں ہے  یہ بھت ہی زیادہ ہیں مثلاً بعض نحویوں نے چالیس  تک اوزان  ذکر کیۓ  ہیں، بعض نے پینتیس اور بعض نے پینسٹھ تک پہنچ گئے ہیں لیکن بات وہی صاحب ھدایہ النحو کی درست ہے کہ ثلاثی مجرد سے مصدر کی بناء کو محدود کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ بھت زیادہ ہیں باقی رہ گیا ثلاثی مجرد کے علاؤہ،  فرماتے ہیں: وہاں پر سماعی نھیں بلکہ قیاسی ہے ، وہاں اصول و ضوابط موجود ہیں اب ہم ان میں سے بتا سکتے ہیں کہ مثلاً  ثلاثی مزید فیہ کے اوزان بالکل درست ہے ہم یہ صرف میر میں پڑھ چکے ہیں یھاں بھی إفْعَال،تَفْعِیْل،مُفَاعَلَه، تَفَعُّل ،اِفِْتعَال، اِنْفِعَال،، تَفَاعُل،اِفْعِلَال، اِسْتِفْعَال، اِفْعِلال.،اِفْعِیْعَال اور اِفْعِوَّال، یہ غالباً بارہ بنتے ہیں ،یہ ہیں ثلاثی مزید فیہ کے اوزان اور رباعی کے وہ تو تقریبا چار ہیں جیسے،فَعْلَلَة، تَفَعْلُل، إفْعِنْلال، إفْعِلّال، یہ چار ہیں۔

4

مصدر سے مشتق ہونے والی چیزیں

اب اس مصدر کا حکم کیا ہے؟ عمل کیا کرتا ہے؟

فصل : "اَلْمَصْدَرُ اِسْمٌ"، مصدر وہ اسم ہے کہ جو  "يَدُلُّ علَى االْحدَثِ فَقَط" جو فقط حدث پر دلالت کرتا ہے، حدث کا معنی میں نے  بیان کر دیا ہے،حدث اس معنی کو کہتے ہیں جو غیر کے ساتھ قائم ہو،پھر آگے دو قسمیں ہیں، ممکن ہے وہ غیر سے صادر ہو جیسے ضَرْبٌ ؛مارنا، غیر سے صادر ہوتا ہے اور ممکن ہے غیر سے صادر نہ ہو لیکن قائم ہو جیسے موت، اب ظاہر ہے موت چاہے ضَرْب ہو جب تک غیر نہ ہوگا اس کے معنی کو وجود نہیں مل سکتا اس لیے کہتے ہیں قائم بالغیر۔

"ويُشْتَقُّ مِنْهُ الْأَفْعَالُ" اس مصدر سے افعال مشتق ہوتے ہیں، شرح مئۃ عامل میں یہ بات گزری تھی بصریون اور کوفیوں کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں: مصدر اصل ہے اوربعض کہتے ہیں: فعل اصل ہے،  انکے نظریہ کے مطابق مصدر اصل ہے افعال اس سے مشتق ہوتے ہیں یعنی اسی مصدر سے فعل ماضی بنتا ہے پھر اس سے مضارع بنتا ہے پھر اس سے فعل امر بنتا ہے۔

جیسے "كالضَرْبِ" ضَرْب، مارنا "والنَصْرِ" مدد کرنا الی آخرہ مثلاً "وأَبْنِيَتُهُ مِنَ الثُّلَاثِي المُجَرَّدِ غَيْرُ مَضْبُوطٌ" ثلاثی مجرد میں سے مصدر کے بناء یعنی مصدر کے اوزان کہ مصدر کس کس وزن پر آتا ہے غير مضبوط،یہ معین نہیں ہے ۔

"تُعْرَفُ بِالسِّماعِ" بلکہ یہ عرب والوں سے سننے پڑیں گے، میں نے گزارش کی ہے اگرچہ بعض نے چالیس، بعض نے پینتیس اور کچھ نے تو پینسٹھ تک کہا ہے لیکن قول حق یہ ہے کہ اس کا تعلق سماع کے ساتھ ہے کہ جیسے عرب والے پڑھیں گے ہم بھی ویسے ہی پڑھیں گے، انکو معین کرنا مشکل ہے۔

"ومِنْ غَيرِ الثُّلاثِي قِيَاسِيّةٌ"،لیکن ثلاثی مجرد کے علاؤہ دیگر میں سے جیسے ثلاثی مزید فیہ ہو گیا، رباعی ہو گیا وہاں پر قیاسی ہیں یعنی وہاں پر قواعد و ضوابط کے تحت ہیں "کالإْفعالِ والاْنفِعالِ والاسْتِفْعال" مثلاً.جیسے باب افعال، انفعال، اور استفعال، یہ انھوں نے صرف چند لکھے ہیں  میں نے آپکو آسان کر کے سارے بتا دیے ہیں وہ کونسے مثلاً ثلاثی مزید فیہ سے آئیں گے یے اوزان،إفْعَال،تَفْعِیْل،مُفَاعَلَه، تَفَعُّل،اِفِْتعَال، اِنْفِعَال، تَفَاعُل،اِفْعِلَال،اِسْتِفْعَال،اِفْعِلال.،اِفْعِیْعَال اور اِفْعِوَّال، یہ ہو گئے ثلاثی مزید فیہ کے اور رباعی کے اوزان ہونگے،فَعْلَلَة، تَفَعْلُل، إفْعِنْلال، إفْعِلّال. یہ قیاسی ہیں یعنی ثلاثی مزید فیہ کے بھی قیاسی ہیں، کسی ضابطہ کی تحت ہیں اور رباعی کے بھی ضابطہ کے تحت ہیں لیکن جو ثلاثی مجرد کے اوزان ہیں ان کا تعلق سماع کے ساتھ ہے ۔

 

5

مصدر کا عمل

اب اگلا صفحہ اس بارے میں ہے کہ آیا مصدر کوئی عمل بھی کرتا ہے یا نہیں کرتا، بالکل آسان سی بات ہے۔

فرماتے ہیں: بالکل عمل کرتا ہے کیسے؟ اگر مصدر مفعول مطلق واقع نہ ہو رہا ہو   تو وہ اپنے عامل یعنی فعل والا عمل کرے گا، کیا مطلب ؟  اگر وہ لازم ہوگا تو اپنے فاعل کو رفع دے گا اور اگر وہ متعدی ہوگا تو مفعول کو نصب بھی دے  گا، یہ ایک نمبر،

 نمبر دو فرماتے ہیں: مصدر کے معمول کو مصدر پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے، اور مصدر کو اپنے فاعل کی طرف مضاف کرنا جائز ہے، ختم ہو گئی بات۔

اب فرماتے ہیں :یہ تو تھا مصدر ،مفعول مطلق واقع نا ہو رہا ہو اور اگر مصدر مفعول مطلق واقع ہو رہا ہو یعنی اگر مصدر مفعول مطلق واقع ہو رہا ہو تو پھر کیا ہوگا، فرماتے ہیں: "فَاْلعَمَلُ لِلْفِعْلِ"  تو پھر مصدر عامل نہیں ہوگا جو فعل اس مصدر (مفعول مطلق) سے پہلے ہوگا عامل در حقیقت وہی فعل ہوگا جو اس عامل نے کرنا ہے وہی ہوگا بالکل آسان۔

فرماتے ہیں فالمَصْدرُ اب آپ یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ مصدر جہاں واقع ہؤا ہے یا تو وہ مفعول مطلق واقع ہو رہا ہوگا یا مفعول مطلق واقع نھیں ہو رہا ہو گا ۔

اب پہلی صورت، "وَالْمَصْدَرُ إِنْ لَمْ يَكَنْ مَفْعَوْلاً مُطْلَقاً" اگر مصدر کسی فعل کا مفعول مطلق واقع نہیں ہو رہا تو پھر "يَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِه" یہ مصدر خود عمل کرتا ہے اور عمل بھی اپنے فعل والا یعنی جو عمل اس مصدر سے نکلنے والے فعل والا انجام دینا ہوتا ہے،  یہ مصدر بھی وہی عمل کرتا ہے کیسے ؟ "أعنى"  یعنی مراد کیا ہے، مراد یہ ہے: "يرفع فاعلاً" یہ فاعل کو رفع دے گا "إن كان لازماً " اگر وہ لازم ہوگا جیسے : "أعْجَبَني قِيامُ زَيْدٍ" چونکہ قیام کا فعل ہے قام اور قام ہے لازم اور وہ فقط فاعل کو رفع دیتا ہے، "ويَنْصِبُ مَفعولاً بِه أَيْضَاً إنْ كَانَ مَتَعَدّياً" اور اگر مصدر سے نکلنے والا فعل متعدی ہوگا تویہ مصدر بھی،کیونکہ مصدر بھی اپنے فعل والا عمل کرتا ہے  مفعول کو نصب بھی دے گا ،" نحو : أعْجَبَني ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْراً"۔

6

مصدر کا اپنے معمول پر مقدم ہونا

"ولَا يَجَوزُ تَقْدِيمُ مَعْمَولِ الْمَصْدَرِ عَلَيه"  مصدر کے معمول کو مصدر پرمقدم کرنا جائز نہیں ہے "فلا يقال" لحاظہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے : أعْجَبَني زَيْداً ضَرْبٌ.کیونکہ زید اس ضَرْبٌ کا معمول تھا تو زید نے ضَرْبٌ کے بعد آنا ہے اس سے پہلے نھیں آ سکتا اس طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے " أعْجَبَني عَمْراً زید" اس لیے یے بھی اسکا معمول ہے "أعْجَبَني عَمْراً" عمرا کا عامل بھی وہی مصدر ہے۔

"یَجوْزُ اِضَافَتُ الْفَاعِلِ" البتہ اگر آپ مصدر کو فاعل کی طرف مضاف کرنا چاہتے تو فرماتے ہیں: اضافت میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی مصدر ، یا یوں کہیں کہ مصدر کو اپنے ہی  فاعل کی طرف مضاف کرنا جائز ہے جیسے میں نے پیچھے کہا تھا أعْجَبَني قِيامُ زَيْدٍ  کَرَھْتُ ضربَ زَیدٍ عَمْراً حالانکہ یہاں ضَرْبْ مصدر ہے زید  اور اس کا فاعل ہے لیکن اس کے باوجود ہم ضرب کو زید کی طرف مضاف کر رہے ہیں اور یہ جائز ہے

اِلَی مَفْعُولِ بہ اسی طرح فرماتے ہیں اسی طرح  مصدر کو اپنے مفعول بہ کی طرف بھی مضاف کرنا جائز ہے مضاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے ضرب عمرا زید۔

اب اگر یہ مصدر مفعول مطلق واقع ہو رہا ہو تو پھر حکم کیا ہوگا فرماتے ہیں: "اَمَّا اِذَا کانَ مَفْعُولًا مُطْلَقاً"

"وإنْ كَانَ مَفْعُولاً مُطْلقاً"  اگر مصدر مفعول مطلق واقع ہو رہا ہو  فَالْعَمَلُ لِلْفِعلِ الَّذِي قَبْلَهُ تو عمل اس فعل کا ہوگا جو اس سے پہلے ہوگا ،کیا مطلب ؟ یعنی جس فعل کا مصدر مفعول مطلق واقع ہورہا ہے در حقیقت عامل وہی فعل ہوگا جیسے نحو: ضَرَبْتُ ضَرْباً عَمْراً، اب یہاں ضَرْباً عامل نھیں بلکہ "ضَرَبْتُ فِعْلُ عَمْراً" کا عامل ہے فعمراً مَنْصُوبٌ بضَرَبْتُ لا بِضَرْباً.پس عَمْراً منصوب ہے اس ضَرَبْتُ کی وجہ سے نہ کہ ضَرْباً کی وجہ سے۔

اگلی فصل وہ ہے اسم فاعل کے بارے میں اس میں تھوڑی سی چیزیں یاد کرنے والی ہیں کہ اسکے عمل کرنے کے لیے کوئی سات آٹھ شرائط ہیں اسم فاعل اسم مفعول کو اگلے درس میں بیان کریں گے تاکہ یاد کرنے میں بھی آسانی ہو۔

و صلی الله علی محمّد و آل‌ محمد

مذكّر فأنْ يكون مذكّره قد جمع بالواو والنون كمُسْلِمات ، وإن لم يكن له مذكّر فشرطه أن لا يكون مؤنّثاً مجرّداً من التاء ـ كالحائِضِ والحامِلِ ـ وإن كان اسماً يجمع بالألف والتاء بلا شرط كهِنْدات.

والمكسّر : صيغته في الثلاثي كثيرة غير مضبوطة تعرف بالسماع ك‍ : أرْجُل وأضْراس وقُلُوب.

وفي غير الثلاثي على وزن فَعالِلْ كجَعافِر وجَداول ، جمع جَعْفَر ، وجَدْوَل قياساً كما عرفت في التصريف.

واعلم أنّ الجمع أيضاً على قسمين :

جمع قلّة : وهو ما يطلق على العشرة فما دونها ، وأبنية جمع القلّة : أفْعُل وأفْعال وفِعْلَة وأفْعِلَة.

وجمع كثرة : وهو ما يطلق على ما فوق العشرة وأبنيته ما عدا [ هذه الأربعة ].

ويستعمل كلّ منهما في موضع الآخر على سبيل الاستعارة نحو قوله تعالى : «ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ» (١) مع وجود أقراء.

فصل : المصدر : اسم يدلّ على الحدث فقط. ويشتقّ منه الأفعال كالضَرْب والنَصْر مثلاً ، وأبنيته من الثلاثي المجرّد غير مضبوط تعرف بالسماع ، ومن غير الثلاثي قياسيّة ك‍ : الإْفعالِ والاْنفِعالِ والاسْتِفْعال مثلاً.

والمصدر إن لم يكن مفعولاً مطلقاً يعمل عمل فعله أعنى : يرفع فاعلاً إن كان لازماً ك‍ : أعْجَبَني قِيامُ زَيْدٍ ، وينصب مفعولاً به أيضاً إن كان متعدّياً نحو : ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْراً.

____________________________

(١) البقرة : ٢٢٨.

ولا يجوز تقديم معمول المصدر عليه فلا يقال : أعْجَبَني زَيْداً ضَرْبٌ.

وإن كان مفعولاً مطلقاً فالعمل للفعل الّذي قبله نحو : ضَرَبْتُ ضَرْباً عَمْراً ، فعمراً منصوب بضَرَبْتُ لا بضَرْباً.

فصل : اسم الفاعل : اسم يشتقّ من يَفْعَلُ ليدلّ على ما قام به الفعل بمعنى الحدوث وصيغته من مجرّد الثلاثي على وزن : الفاعِل ، كضارِب وناصِر ، ومن غيره على وزن صيغة المضارع من ذلك الفعل بميم مضمومة مكان حرف المضارعة وكسر ما قبل الآخر ك‍ : مُدْخِل ومُسْتَخْرِج.

ويعمل عمل الفعل المعروف إن كان فيه معنى الحال والاستقبال ومعتمداً على المبتدأ. نحو : زَيْدٌ قائِمٌ أبُوهُ ، أو ذي الحال نحو : جاءني زَيْدٌ ضارباً أبُوهُ عَمْراً ، أو همزة الاستفهام نحو : أقائِمٌ زَيْدٌ ؟ أو حرف النفي نحو : ما قائِمٌ زَيْدٌ الآنَ أوْ غَداً ، أو موصوف نحو : عِنْدي رَجُلٌ ضاربٌ أبُوهُ عَمْراً.

فإن كان فيه معنى الماضي وجبت الإضافة نحو : زَيْدٌ ضاربُ عَمْروٍ أمْسِ. هذا إذا كان منكّراً ، أمّا إذا كان معرّفاً باللام يستوي فيه جميع الأزمنة نحو : زَيْدٌ الضاربُ أبُوهُ عَمْراً الآن أو غداً أو أمْسِ.

فصل : اسم المفعول : مشتق من يُفْعَلُ بالمجهول متعدّياً ليدلّ على من وقع عليه الفعل وصيغته من الثلاثي المجرّد على المَفْعُول لفظاً كمَضْرُوب ، أو تقديراً كمَقُول ومَرْمِيَّ ، ومن غيره كاسم الفاعل منه بفتح ما قبل الآخر كمُدْخَل ومُسْتَخْرَج ويعمل عمل فعله المجهول بالشرائط المذكورة في اسم الفاعل نحو : زَيْدٌ مَضْرُوبٌ غُلامُهُ الآن أوْ غَداً.