درس الهدایة في النحو

درس نمبر 40: جمع مذکر و مونث کی بحث

 
1

خطبه

2

ابتدائی عبارتیں

3

جمع مذکر سالم کی شرائط

جمع مذکر سالم کی شرائط

 "وَ یَجِبُ اَن لَّا یَکُونَ اَفعَلُ مُؤَنَّثُہُ فَعْلَاءَ اِلَی آخِرِہ" یہاں سے اب شروع فرما رہے ہیں کہ یہ جو ہم نے جمع مذکر سالم کا بتایا ہے کہ جمع مذکر سالم جو "واو نون" اور "یا نون" کے ساتھ آتی ہے اب اس کی کچھ شرائط کو بیان کیا جا رہا ہے۔ 

 جمع مذکر سالم کی پہلی شرط:  جمع مذکر سالم جو کہ "واو نون" کے ساتھ آتی ہے  اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ایسا "اَفعَل" کا وزن نہ ہو جس کی مؤنث "فَعلَاء" کے وزن پر آتی ہے۔ کہ وہ "اَفعَل" کے وزن پر موجود اسم کہ جس کی مؤنث "فَعلَاء" آتی ہے اس کی جمع مذکر واواور نون کے ساتھ نہیں آتی، جیسے "اَحمَر" کی مؤنث "حَمرَاء" آتی ہے اب اس کی جمع واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی۔ آپ اس طرح لکھ لیں پھر ترجمہ بعد میں کرتے ہیں کتاب کے مطابق۔

نمبر دو: وہ اسم جو خود "فَعلَان" کے وزن پر ہو اور اس کی مؤنث "فَعلَی" کے وزن پر آتی ہے اس کی جمع بھی  واو اور  نون  کے ساتھ نہیں آئے گی کہ جو اسم "فَعلَان" کے وزن پر ہو لیکن اس کی جمع "فَعلَی" مؤنث "فَعلَی" کے وزن پر ہو اس کی جمع بھی جمع مذکر سالم  واو اور نون" کے ساتھ نہیں آئے گی۔

نمبر تین: وہ اسم "فَعِیلٌ" کے وزن پر نہ ہو کہ جو جمع اور جو مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہو یعنی بعض صفات ایسی ہیں جو "فَعِیلٌ" کے وزن پر آتی ہیں وہ مذکر ہو تو بھی "فَعِیلٌ" وہ مؤنث کہو تو بھی "فَعِیلٌ"۔ فرماتے ہیں اس کی جمع بھی "واو" اور "نون" کے ساتھ نہیں آتی۔

نمبر چار: وہ اسم "فَعُولٌ" کے وزن پر نہ ہو کہ جو "فَعُول" مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے آتا ہے۔ یعنی وہ ایسا صیغہ جو "فَعُولٌ" کے وزن پر ہو وہ مذکر کی صفت بنے تو بھی "فَعُول" کے وزن پر وہ مؤنث کی صفت بنے تو بھی "فَعُولٌ" کے وزن پر، جو ایسا اسم ہو گا اس کی جمع بھی واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی۔ اب ذرا توجہ رکھنا ہے،

تطبیق

اب کتاب کے مطابق یہاں سے ترجمہ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: "وَ یَجِبُ" یہ حکم ہے، یعنی یہ جو ہم نے کہا ہے کہ جمع مذکر سالم کہ جس کے آخر میں واو اور نون ہوتی ہے، "یَجِبُ" اس میں واجب ہے یعنی جمع مذکر سالم "واو" اور "نون" کے ساتھ اس صورت میں آئے گا کہ اس میں یہ چیزیں نہ ہوں، ان کو کہتے ہیں شرائط یعنی منفی شرائط کہ ان چیزوں کا نہ ہونا شرط ہے، وہ اس قسم کا نہ ہو گا تو یہ ایسا ہو گا۔ نمبر ایک: "اَن لَّا یَکُونَ اَفعَلُ مُؤَنَّثُہُ فَعلَاء" کہ وہ اسم جو "اَفعَل" کے وزن پر ہو لیکن اس کی مؤنث "فَعلَاء" آتی ہے اس کی جمع بھی واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی، جیسے "اَحمَر" اب چونکہ "اَحمَر" کی مؤنث "حَمرَاء" ہے لہذا "اَحمَر" کی جمع واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی۔  نمبر دو: اسی طرح "وَلَا فَعلَانُ مُؤَنَّثُہُ فَعلَی" یعنی وہ اسم کہ جو "فَعلَان" کے وزن پر ہے لیکن اس "فَعلَان" کا مؤنث "فَعلَی" کے وزن پر آتا ہے ، اس "فَعلَان" کی جمع بھی واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی۔ جیسے "سَکرَان" "سَکرَان" کی جمع "واو نون" کے ساتھ نہیں آئے گی کیوں؟ اس لیے کہ اس کی مؤنث "سَکرَی" "فَعلَی" کے وزن پر آتی ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں: "وَلَا فَعِیلٌ بِمَعنَی مَفعُولٍ" ایسا اسم جو "فَعِیل" کے وزن پر ہو، "فَعِیل" بمعنی "مَفعُول" کے جیسے "جَرِیحٌ" بمعنی "مَجرُوحٌ" ہوتا ہے  چونکہ یہ "فَعِیل" مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے ایک جیسا استعمال ہوتا ہے یعنی "فَعِیلٌ" ہی استعمال ہوتا ہے "جَرِیحٌ" تو جس کی "فَعِیل" اس "جَرِیح" کی جمع بھی واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی۔ نمبر چار: "وَلَا فَعُولٌ" "کَجَرِیحٍ بِمَعنَی مَجرُوحٍ" زخمی۔ "وَلَا فَعُولٌ بِمَعنَی فَاعِلٍ" اور وہ اسم "فَعُولٌ" کے وزن پر بھی نہ ہو۔ یہ "فَعُولٌ" جو بمعنی "فَاعِل" کے ہوتا ہے۔ یہ "فَعُولٌ" چونکہ یہ بھی مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے اگر کوئی اسم "فَعُولٌ" کے وزن پر ہو گا اور وہ "فَعُول" بمعنی "فَاعِل" کے ہو تو اس کی جمع بھی واو اور نون کے ساتھ نہیں آئے گی جیسے "صَبُورٌ" بمعنی "صَابِرٌ" کے تو اب "صَبُورٌ" کی جمع "واو" اور "نون" کے ساتھ نہیں آئے گی۔ 

 

4

اضافت کا حکم اور جمع مؤنث سالم کی شرائط

اضافت کا حکم

اب فرماتے ہیں :آخر میں اس کا ایک اور حکم ہے اور وہ حکم اس کا یہ ہے کہ "یَجِبُ حَذفُ نُونِہِ بِالْاِضَافَةِ"۔ آپ جب بھی کسی جمع مذکر سالم کو جب بھی کسی جمع مذکر سالم کو کسی اور اسم کی طرف مضاف کریں گے تو اس کی نون گر جائے گی۔ جیسے ہم کہتے ہیں "جَاءَنِي مُسلِمُو مِصرَ"۔ اب "مُسلِمُونَ" تھا۔ نون اضافت کی وجہ سے گر گئی اور جیسے تثنیہ کی نون اضافت کی وجہ سے گر جاتی تھی یہ جمع مذکر سالم کی نون بھی اضافت کی وجہ سے حذف ہو جاتی ہے، لہٰذا ہم پڑھیں گے "مُسلِمُو مِصرَ"۔ "مُسلِمُونَ مِصرَ" نہیں پڑھیں گے۔  الحمداللہ یہ بحث یہاں پر مکمل ہوئی۔

جمع مؤنث سالم

 اب فرماتے ہیں: اس جمع صحیح یا جمع سالم کی دوسری قسم  جمع مؤنث سالم یا جمع صحیح مؤنث ہے لیکن عام مشہور یہی ہوتا ہے کہ جمع مؤنث سالم۔ مصحح سے مراد وہی سالم ہے۔ جمع مؤنث سالم کونسی ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں: جس کے آخر میں "الف" اور "تاء" ہو اس کو کہتے ہیں جمع مؤنث سالم۔ جیسے "مُسلِمَةٌ" کی جمع "مُسلِمَاتٌ"۔ "مُسلِمَاتٌ"۔ اب فرماتے ہیں : لیکن اس جمع مؤنث سالم کے لیے بھی شرائط ہیں، وہ شرط کیا ہے؟

جمع مؤنث سالم کی شرائط

 فرماتے ہیں: اس کی شرط یہ ہے کہ اگر یہ صفت ہو اور اس کا مذکر ہو اور مذکر کی جمع واو اور نون کے ساتھ آتی ہو تو یہ والی جمع آئے گی۔  ہم نے کہا :جمع مؤنث سالم جس کے آخر میں الف اور تاء ہوتی ہے تو اس میں شرط کیا ہے؟ کہ اگر یہ اسم ہے،  صفت ہے تو اس صفت کا ایک مذکر ہو اور اس مذکر کی جمع واواور  نون کے ساتھ آتی ہو تو جمع سالم اس کی الف  اور تاء کے ساتھ آئے گی۔ لیکن اگر ایک ایسا اسم ہے مفرد کہ جس کا مذکر نہیں ہے اور ہم اس کی بنانا چاہتے ہیں جمع سالم تو پھر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ تَاءِ تَانِیث سے خالی نہ ہو۔ لیکن اگر تَاءِ تَانِیث سے خالی ہو گا تو پھر اس کی جمع مؤنث نہیں آئے گی یعنی الف اورتاء والی نہیں ہو گی۔ جیسے "حَائِضٌ" اور "حَامِلٌ"۔ اب ان کو تھوڑا سا آپ کو وضاحت کر دوں اس لفظ "حَیض" کی تاکہ آپ کو بعد میں پریشانی نہ ہو۔ ایک لفظ ہوتا ہے "حَائِضٌ" اور ایک لفظ ہے "حَائِضَةٌ"۔ "حَائِضٌ" کی جمع "حَائِضَاتٌ" نہیں آتی لیکن "حَائِضَةٌ" کی جمع "حَائِضَاتٌ" آتی ہے۔ ختم۔ فرق ہو گا جناب "حَائِضٌ" اور "حَائِضَةٌ" میں فرق کیا ہے؟ ہیں تو دونوں یہ خاتون کی صفات۔ آپ جواب میں کہیں گے: "حَائِضٌ" اس عورت کو کہتے ہیں کہ جس میں وہ حیض آنے کی صلاحیت ہو۔ ابھی اس کو آ رہا ہے یا نہیں آ رہا اس سے کوئی فرق، یہ نہیں ہے اس میں اگر صلاحیت ہے یعنی اس عمر میں ہے کہ اس کو حیض آنا چاہیے تو اس کو کہتے ہیں "حَائِضٌ"۔ جبکہ "حَائِضَةٌ" اس کو کہتے ہیں کہ جس کو ابھی حیض آ رہا ہو یعنی وہ ایام حیض میں مبتلا ہو۔ تو پس یہ فرق ہے پس اس لیے "حَائِضٌ" کی جمع "حُیَّضٌ" ہوتی ہے جبکہ "حَائِضَةٌ" کی جمع "حَائِضَاتٌ" ہوتی ہے۔ اب یہ تھوڑا فرق ہے جو کتاب میں نہیں تھا آپ کو گزارش کر دی۔ اسی طرح "حَامِلٌ" کی جمع "حَوَامِلُ" ہو گی لیکن "حَامِلَةٌ" کی جمع "حَامِلَاتٌ" آئے گی۔  "حَامِلَاتٌ" "حَامِلَةٌ" کی جمع ہے چونکہ اس میں تاء تانیث موجود ہے لیکن "حَامِلٌ" ہو گا تو اس کی جمع "حَامِلَاتٌ" نہیں آئے گی  چونکہ اس کے مجرد میں تاء تانیث نہیں۔ فرماتے ہیں:  "وَ اِن کَانَ اِسمًا" لیکن اگر اس کا مفرد اسم ہے اور وہ ایسا اسم ہے کہ جو صفت بھی نہیں ہے اس کو ہم الف اور تاء کے ساتھ جمع کر سکتے ہیں یعنی اس کی جمع مؤنث سالم آ سکتی ہے ان شرائط کے بغیر۔ جیسے "ھِندٌ" کی جمع "ھِندَاتٌ" آ سکتی ہے  چونکہ "ھِندٌ"  صفت نہیں ہے بلکہ یہ اسم ہے اور علم ہے لہٰذا اگر صفت ہوتی تو پھر ہم دیکھتے کہ کیا اس کے مقابلے میں کوئی مذکر ہے یا نہیں ہے اور اگر نہیں ہے تو کیا اس کے ساتھ تاء ہے یا نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ اسم ہے، چونکہ صفت نہیں ہے لہٰذا ھِندٌ  کی جمع مؤنث سالم ھِندَاتٌ آ سکتی ہے اس لیے کہ یہ صفت نہیں ہے۔

5

جمع مکسر

 جمع مکسر

آگے فرماتے ہیں: کہ ہم نے ابتداء میں کہا تھا کہ جمع دو قسم کی ہوتی ہے ایک ہو گا جمع سالم اور ایک ہو گی جمع مکسر پھر جمع سالم کی دو قسمیں کیں تھیں،  ایک تھا جمع مذکر سالم اور ایک تھی جمع مؤنث سالم۔ فرماتے ہیں جمع سالم کے مقابل میں ایک اور جمع ہوتی ہے وہ ہوتی ہے جمع مکسر۔ جمع مکسر کی تعریف پہلے گزارش کی جا چکی ہے کہ جمع مکسر اس کو کہتے ہیں جس میں واحد کی بناء سلامت نہ رہے یعنی واحد میں اس کے حروف جس ترتیب سے تھے،  جب اس کی جمع کرتے ہیں تو وہ حروف اس ترتیب میں نہ رہیں۔ جیسے ہم نے کہا تھا رجل کی جمع رجال ۔اب چونکہ رجل واحد تھا راء، جیم اور لام لیکن جب جمع بنا رجال تو یہاں جیم کے بعد الف آ گئی اس کا مطلب ہے جو واحد والی صورت حال تھی وہ باقی نہ رہی تھی۔ فرماتے ہیں: "وَ الْمُکَسَّرُ" جہاں تک بات ہے جمع مکسر کی "صِیغَتُہُ فِی الثُّلَاثِیِّ کَثِیرَةٌ" ثلاثی میں تو اس کے صیغے بہت سارے ہیں یعنی ہمارے لکھنے کے نہیں ہیں کہ ہم ایک دو چار کر کے لکھ دیں بلکہ "تُعرَفُ بِالسَّمَاعِ"جیسے عرب والے پڑھیں گے  ثلاثی میں، تو ہم بھی ویسے پڑھتے جائیں گے۔ جیسے رجل کی رجال، فرس کی افراس، فلس کی فلوس وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ثلاثی کی جمع مکسر کے صیغے بہت ہیں ان کے لیے ہمارے پاس کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے "تُعرَفُ بِالسَّمَاعِ" یہ پہچانے جاتے ہیں سماع سے جیسے جیسے عرب پڑھتے جائیں گے ہم بھی ویسے پڑھتے جائیں گے۔ لیکن جہاں تک ہے غیر ثلاثی تو غیر ثلاثی میں سے جمع مذکر کے صیغے معین ہیں وہ کونسے ہیں؟ وہ ہے "فَعَالِلُ" اور "فَعَالِیلُ"۔ "فَعَالِلُ" اور "فَعَالِیلُ"۔ "فَعَالِلُ" جیسے "دَرَاہِمُ" درہم کی جمع دراہم۔ "فَعَالِیلُ" دینار کی جمع "دَنَانِیرُ"۔ لہٰذا غیر ثلاثی میں، آپ یوں یاد کر لیں کہ غیر ثلاثی میں تو جمع مذکر ہمیشہ "فَعَالِلُ" یا "فَعَالِیلُ" کے وزن پر آئے گا جیسے دراہم اور دنانیر لیکن ثلاثی میں اس کے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے یہ بہت سارے ہیں اس کا تعلق سماع سے ہے کہ جیسے عرب والے پڑھتے ہیں گے جیسے ہم نے کہا رجل سے رجال، فلس سے فلوس الی آخرہ۔ اس کے بعد ایک چھوٹی سی بحث ہے اس کا تعلق بھی جمع کے ساتھ ہے وہ یہ ہے: فرماتے ہیں یہ جو جمع ہوتی ہے مصداق کے اعتبار سے بھی اس کی قسمیں ہیں۔ ایک جمع تو وہ ہو گئی کہ جس نے تین یا تین سے زائد پر جس میں اکائیاں آ جائیں گی دلالت کر دی وہ جمع تو ہو گیا لیکن فرماتے ہیں اس میں ایک اور تقسیم ہوتی ہے کیا؟ کہ اگر اس کے جو جمع کے افراد ہیں اگر وہ تین سے لے کر دس تک ہیں تو اس کا نام رکھا جاتا ہے جمع قلت اور اگر اس سے زائد پر ہیں تو اس کو کہتے ہیں جمع کثرت۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں تین سے لے کر نو تک یعنی دس شامل نہیں ہے یہ جمع قلت ہے دس سے لے کر آخر تک وہ پھر جمع کثرت ہوتی ہے۔ اور جمع قلت کے لیے انہوں نے چار وزن بتائے ہیں جو جمع "اَفْعُلٌ"، "اَفْعَالٌ"، "اَفْعِلَةٌ" اور "فِعْلَةٌ"۔ "اَفْعُلٌ"، "اَفْعَالٌ"، "اَفْعِلَةٌ"، "فِعْلَةٌ"۔ جو بھی جمع کا صیغہ ان چار کے وزن پر آئے گا وہ جمع قلت کہلاتا ہے اور ان سے ہٹ کر جو اوزان ہیں وہ سارے جمع کثرت کے کہلاتے ہیں۔صرف تعریف یاد کرنی ہے کہ جمع قلت اور کثرت میں فرق کیا ہے اور پھر دوسرا لفظ یہ ہے کہ جمع قلت کے اوزان کتنے ہیں بھائی اس سے ہٹ کر کوئی اور نہیں ہے۔ ہے دونوں جمع لیکن فرق فقط مصداق کا ہے کہ اس میں کتنے ہیں اور اس میں افراد  کتنے ہیں۔

6

جمع قلت و جمع کثرت

 جمع قلت و جمع کثرت

"وَ اعلَم اَنَّ الْجَمعُ اَیضًا عَلَی قِسمَینِ" اس جمع کی پھر دو قسمیں ہیں یعنی جمع کی مصداق کے اعتبار سے  دو قسمیں ہیں ہے یہ بھی  ہے یہ جمع لیکن اس کی جمع، اس کا مصداق یعنی اس جمع میں کتنے افراد آتے ہیں،  اس لحاظ سے دو قسمیں ہیں ایک کا نام ہوتا ہے جمع قلت اور ایک کا نام ہوتا ہے جمع کثرت۔ "جَمعُ قِلَّةٍ" جمع قلت کسے کہتے ہیں؟ "مَا یُطلَقُ عَلَی الْعَشَرَةِ فَمَا دُونَہَا" جو دس یا دس سے کم پر بولی جائے یعنی جس کے افراد دس یا دس سے کم ہوں گے اس کو کہتے ہیں جمع قلت۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ "وَ اَبنِیَتُہُ" اور اس جمع قلت کی بناء یعنی اس کے اوزان فقط چار ہیں فقط چار۔ "اَفْعُلٌ"، "اَفْعَالٌ"، "اَفْعِلَةٌ" اور "فِعْلَةٌ"۔  یہ ہو گئے جو جمع ان کے وزن پر آئے گی وہ جمع قلت کہلائے گی۔ اسی طرح فرماتے ہیں: "وَ جَمعُ الصَّحِیحِ بِدُونِ اللَّامِ" ذرا توجہ کے ساتھ۔ کیا مطلب اس کا؟ "جَمعُ الصَّحِیحِ بِدُونِ اللَّامِ"۔ یعنی وہ جمع سالم جو جمع سالم مذکر ہو یا جمع سالم مؤنث ہو۔ اگر وہ الف لام کے بغیر ہو گی تو وہ بھی جمع قلت پر دلالت کرتی ہے۔ دیکھو:  "زَیدُونَ" یہ مثال ہے جمع مذکر سالم کی، "مُسلِمَاتٍ" یہ مثال ہے جمع مؤنث سالم کی۔ اگر ان پر الف لام نہیں ہو گا تو یہ جمع قلت شمار ہوں گے لیکن اگر ان پر الف لام آ جائے گا تو پھر یہ جمع کثرت میں۔ فقط "زَیدُونَ" یا "مُسلِمَاتٌ" ہوں گے تو یہ جمع قلت کے کھاتے میں آ جائیں گے۔ "اَلزَّیدُونَ" یا "اَلْمُسلِمَاتُ" ہو گا تو پھر جمع کثرت۔

 جمع کثرت

اور دوسری جمع ہے جمع کثرت، جمع کثرت کیا ہے؟ "مَا یُطلَقُ عَلَی مَا فَوقَ الْعَشَرَةِ" جو دس سے زائد پر بولی جاتی ہے۔ "وَ اَبنِیَتُه" اس کی کونسی بنائیں ہیں یعنی اس کے اوزان کیا ہیں؟ آپ کہیں گے "مَا عَدَا هذِہِ الْاَبنِیَةِ"۔ یہ جو ہم نے بیان کیے ہیں، چار تو یہ ہو گئے ، "اَفْعُلٌ"، "اَفْعَالٌ"، "اَفْعِلَةٌ" اور "فِعْلَةٌ" اور دو ہو گئے جمع مذکر سالم اور جمع مؤنث سالم جو بغیر الف لام کے ہوں۔ان کے علاوہ باقی جتنے بھی ہیں وہ جمع کثرت کے اوزان ہوتے ہیں۔

و صلی اللہ علی محمد و آل محمد

كقوله تعالى : «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» (١). وذلك لكراهيّة اجتماع التثنيتين فيما يكون اتّصالهما لفظاً ومعنىً.

فصل : المجموع : اسم ما دلّ على آحاد ، وتلك الآحاد مقصودة بحروف مفردة بتغييرٍ مّا ، لفظيّ كرجال ، جمع رجل ، أو تقديريّ كفُلْك على وزن اُسْد ، فإنّ مفرده أيضاً فُلْك لكنّه على وزن قُفْل.

فالقوم ونحوه وإن دلّ على آحاد ليس بجمع إذ لا مفرد له [ من لفظه ]. ثمّ الجمع على قسمين : مصحّح : وهو ما لم يتغيّر بناء مفرده كمُسْلِمُونَ ، ومكسّر : وهو ما يتغيّر بناء واحده وذلك نحو : رجال.

والمصحّح على قسمين : مذكّر : وهو ما لحق آخره واو مضموم ما قبلها ونون مفتوحة ك‍ : مُسْلِمُونَ ، أو ياء مكسور ما قبلها ونون كذلك ، ليدلّ على أنّ معه أكثر منه نحو : مُسْلِمينَ. هذا في الصحيح ، أمّا المنقوص فتحذف ياؤه نحو : قاضُونَ وداعُونَ ، والمقصورة يحذف ألفه ويبقى ما قبلها مفتوحاً ليدلّ على الألف المحذوف مثل مُصْطَفَونَ ، وشرطه إن كان اسماً أن يكون مذكّراً علماً لا يعقل ويختصّ باُولي العلم.

وأمّا قولهم سِنُونَ وأرَضُونَ وثُبُونَ وقُلُونَ بالواو والنون فشاذّ.

ويجب أن لا يكون أفْعَلَ مؤنّثه فَعْلاء كأحْمَر مؤنّثه حَمْراء ، ولا فَعْلان مؤنّثه فَعْلىٰ كسَكْران مؤنّثه سَكْرىٰ ، ولا فَعيل بمعنى مَفْعُول كَجريح بمعنى مَجْرُوح ، ولا فَعُول بمعنى فاعِل كصَبُور بمعنى صَابِر. ويجب حذف نون بالإضافة نحو : مُسْلِمُو مِصْر.

ومؤنّث : وهو ما اُلحق بآخره ألف وتاء. وشرطه إن كان صفة وله

____________________________

(١) المائدة : ٣٨.

مذكّر فأنْ يكون مذكّره قد جمع بالواو والنون كمُسْلِمات ، وإن لم يكن له مذكّر فشرطه أن لا يكون مؤنّثاً مجرّداً من التاء ـ كالحائِضِ والحامِلِ ـ وإن كان اسماً يجمع بالألف والتاء بلا شرط كهِنْدات.

والمكسّر : صيغته في الثلاثي كثيرة غير مضبوطة تعرف بالسماع ك‍ : أرْجُل وأضْراس وقُلُوب.

وفي غير الثلاثي على وزن فَعالِلْ كجَعافِر وجَداول ، جمع جَعْفَر ، وجَدْوَل قياساً كما عرفت في التصريف.

واعلم أنّ الجمع أيضاً على قسمين :

جمع قلّة : وهو ما يطلق على العشرة فما دونها ، وأبنية جمع القلّة : أفْعُل وأفْعال وفِعْلَة وأفْعِلَة.

وجمع كثرة : وهو ما يطلق على ما فوق العشرة وأبنيته ما عدا [ هذه الأربعة ].

ويستعمل كلّ منهما في موضع الآخر على سبيل الاستعارة نحو قوله تعالى : «ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ» (١) مع وجود أقراء.

فصل : المصدر : اسم يدلّ على الحدث فقط. ويشتقّ منه الأفعال كالضَرْب والنَصْر مثلاً ، وأبنيته من الثلاثي المجرّد غير مضبوط تعرف بالسماع ، ومن غير الثلاثي قياسيّة ك‍ : الإْفعالِ والاْنفِعالِ والاسْتِفْعال مثلاً.

والمصدر إن لم يكن مفعولاً مطلقاً يعمل عمل فعله أعنى : يرفع فاعلاً إن كان لازماً ك‍ : أعْجَبَني قِيامُ زَيْدٍ ، وينصب مفعولاً به أيضاً إن كان متعدّياً نحو : ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْراً.

____________________________

(١) البقرة : ٢٢٨.