أمّا المقدّمة
 یعنی ابتدائی باتوں کے بارے میں ۔مبادی کیا ہوتے ہیں؟ مبادی وہ ہوتے ہیں یعنی کسی بھی کتاب یا علم کے ابتدا میں چند ایسی ابتدائی باتیں ذکر کرنا جو یہ بتا رہی ہوں کہ بعد میں اس کتاب یا اس علم میں کیا کیا بحث ہوگی فرماتے:
"أمّا المقدّمة : ففي المبادئ التي يجب تقديمها ، لتوقّف المسائل عليها ففيها ثلاثة فصول" ان ابتدائی باتوں کے بارے میں ہےکہ جن کو مقدم کرنا واجب ہے یعنی جن کو ابتدا میں ذکر کرنا لازم اور ضروری ہے کہ وہ اہم نکات ابتدا میں بتا دیے گئے ہیں کیوں بعد میں جو مسائل ہوں گے ان کے احکام بیان    کیے جائیں گے۔وہ سارے اسی پر موقوف ہیں یعنی ہمیں مثال سمجھانے کے لیے ہمیں کلمہ کا پتہ ہوگا تو آگے اس کے احکام کو صحیح سمجھیں گے ہمیں کلام کے بارے میں علم ہوگا تو اس کے صحیح احکام کو ہم سمجھ سکیں گے تو اس لیے یہ ضروری ہے ہم اس مقدمہ میں تین فصلیں ذکر کرتے ہیں تین فصلوں میں  پہلی فصل میں علم نحو کی تعریف غرض و غایت اور موضوع کو بیان کریں گے ۔
دوسری فصل میں کلمہ کی بحث کریں گے۔ تیسری فصل میں کلام کو سمجھائیں گے تو پس ان تین فصلوں میں یعنی جو مقدمہ ہے وہ سمجھ  آجائے گا ہمیں یہ  پتہ چل جائے گا کہ اس پوری کتاب میں یہ پورے علم نحو میں جو اصل بحث ہے وہ اسی کلمہ اور کلام  کی ہونی ہے تو اس کے احکام کو سمجھنے سے پہلے خود کلمہ اور کلام کو سمجھنا ضروری ہے کلمہ کسے کہتے ہیں کلام کسے کہتے ہیں ان کی قسمیں کیا ہوتی ہیں؟ فصل اول میں تین چیزیں بیان کر رہے ہیں علم نحو کی تعریف علم نحو کی غرض و غایت اور علم نحو کا موضوع۔
النحو
"علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض. والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب"۔
 فرماتے ہیں نحو  کا علم   ایسے قواعد و قوانیں کا مجموعہ ہے جن قواعدکے ذریعے   سے پہچانا جاتا ہے کلمہ ثلاث یعنی اسم، فعل اور حرف کے اواخر کے حالات کو یعنی ان قواعد کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسم ،فعل اورحرف کا اخر اعراب اور بنا کی حثیت سے کہ وہ معرب ہے یامبنی اگر معرب ہے تو اعراب کیا پڑھنا ہے اور اگر مبنی ہے تو کس حرکت پر؟ یعنی  مبنی کس حرکت پر ہے تو اسی پر ہمیشہ رہے گا یا نہیں یہ بھی یہی قواعد بتاتے ہیں اور دوسری بات ان قواعد کے ذریعے سے  پتہ چلتا ہے
"وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض" ایک کلمے کو دوسرے کلمے کے ساتھ ملایا کیسے جاتا ہے یعنی کیفیت ترکیب یہ بھی ہمیں اپنی مرضی سے نہیں کہ جیسے جس کو چاہو کسی کے ساتھ ملا دو بلکہ ایسا نہیں ہوتا ۔
"والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب" دوسری فصل میں کیا بیان کیا جا رہا ہے۔
 علم نحو کی غرض،غایت اور اس کا فائدہ کیا ہے  فرماتے ہیں اس کی غرض و غایت ہے عربی کلام میں زبان کو خطائے لفظی سے بچانا اور بعض کتابوں میں صیانت الذہن عن الخطئی الفظی فی کلام العرب کہا گیا ہے۔ کہ ذہن کو کلام عرب میں خطائے لفظی سے بچانا دونوں میں فرق نہیں ہے کیوں ذہن عبارت بناتا ہے زبان اس کو ادا کرتی ہے تو جہاں ذہن میں غلطی ہوگئی تو عبارت بھی غلط ہو گی۔ اور دوسرے کہتے ہیں کہ نہیں زبان کو خطائے لفظی سے بچانا اس لیے کہ جو لفظ بولتا ہے وہ زبان پر جاری ہوتا ہے اور اگر ہم علم نحو سےصحیح واقف ہوں گے تو ہماری زبان غلط عربی کے الفاظ کو ادا نہیں کرے گی اور تیسری چیز جو اس فصل اول میں بیان کی گئی ہے وہ ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے؟ اس کا موضوع ہے کلمہ اور کلام ہے ۔
اگلی فصل سمجھ آگئی کہ علم نحو کی تعریف کیا ہے علم نحو کی غرض و غایت کیا ہے۔ اب آپ نے آخر میں کہا ہے کہ علم نحو کا موضوع ہے کلمہ اور کلام اب ہمیں ذرا یہ سمجھائیں کلمہ کسے کہتے ہیں کلام کسے کہتے ہیں؟
 اگلی دو فصلوں میں ایک فصل میں فقط کلمہ کی بحث کریں گے کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ کی اقسام کیا ہیں ؟پھر ہر قسم کی تھوڑی وضاحت کریں گے اور دوسری فصل میں کلام کی بات کریں گے کلام کسے کہتے ہیں ؟اور اس کے احکام کیاہوں گے؟۔
اس فصل میں  کلمہ کسے کہتے ہیں اور اس کی اقسام کتنے ہیں فرماتے ہیں کلمہ کی تعریف: "الکلمۃ لفظلفظ وضع لمعنى مفرد" کلمہ وہ لفظ ہے جس کو وضع کیا گیا ہے معنی مفرد کے لیے اب تھوڑی سی ذرا توجہ کریں۔
 اگر آپ کے پاس کتاب ہوگی تو مفرد کی دال پر تین اعراب لکھے ہوں گے یعنی اگر ہم اس کو پڑھنا چاہتے ہیں" الکلمۃ لفظ وضع لمعنى مفردِِ" تو بھی صحیح ہے "الکلمۃ لفظ وضع لمعنى مفردََا"ـ تو بھی صحیح ہے"الکلمۃلفظ وضع لمعنى مفردُُ" تو بھی صحیح ہے یعنی مفرد پر تینوں اعراب پڑھنا صحیح ہے کیوں؟ اگر ہم پڑھیں گے(مفردِِ)  تو یہ لفظ معنی کی صفت ہوگا اگر اس کو پڑھیں گے(مفردََا) تو یہ وضع فعل کے لیے حال واقع ہوگا یعنی در حالانکہ وہ مفرد ہو اور اگر اس کو (مفردُُ)پڑھیں گے  یہ لفظ کی صفت ہوگا کہ کلمہ ایک لفظ مفرد ہے جو  معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
 آگے فرماتے ہیں"وهي منحصرة في ثلاثة أقسام "  کہ کلمہ  تین قسموں میں منحصر ہے ( اسم ، وفعل ، وحرف)اسم، فعل و حرف  اب تھوڑی سی توجہ کریں اس ( اسم ، فعل  وحرف) کو بھی دو طرح سے پڑھنا جائز ہے ( اسمِِ وفعلِِ وحرفِِ) پڑھیں تو بھی جائز ہے اگر آپ اس طرح پڑھیں گے تو یہ "ثلاثۃ اقسام"کا بدل ہوگا چونکہ بدل اور مبدل منہ کا اعراب ایک ہوتا ہے ان شاءاللہ آگے ہم پڑھیں گے اور اگر( اسمٌ وفعلٌ وحرفُُ)  پڑھیں تو بھی جائز ہے کیوں ان کے لیے پھر مبتدا محذوف کریں گے مثلا" احدھااسم و ثانیھا فعل و ثالثھا حرف "یہ پڑھیں تو بھی صحیح ہے ۔
 فرماتے ہیں آپ نے کہا ہے کہ کلمہ تین قسموں میں  منحصر   ہے سوال اس انحصار کی وجہ کیا ہے؟ چونکہ جہاں حصر آجاتا ہے کوئی چوتھی قسم بن ہی نہیں سکتی تو آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ کلمہ کی فقط تین قسمیں ہیں کوئی چوتھی نہیں ہے؟
 جواب یہاں سے شروع ہو رہا ہے  "لأنّها"لام لام تعلیل ہے اب یہ "لأنّها"یہ لام بتا رہی ہے کہ کیوں اس کی تین قسمیں ہیں اور چوتھی قسم نہیں ہے فرماتے ہیں"إمّا أن لا تدلّ على معنى في نفسها وهو الحرف" چونکہ جو بھی کلمہ جو بھی لفظ ہوگا یا تو کسی بھی معنی پر بذاتہ دلالت نہیں کرے گا بلکہ وہ معنی پر دلالت کرنے پر غیر کا محتاج ہوگا اگر ایسا ہے تو وہ حرف ہوگا "أو تدلّ على معنى في نفسها واقترن معناها بأحد الأزمنة الثلاثة وهو الفعل" یا وہ اپنے معنی پر دلالت کرنے میں مستقل ہوگا یعنی اپنے کسی معنی کو سمجھانے میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہوگا  ساتھ ساتھ اس کا معنی ازمنہ ثلاثہ وہ کون سے تین زمانے یعنی ماضی حال اور استقبال اس کا وہ معنی کسی ایک زمانے کے ساتھ ملا ہوا ہوگا کیا مطلب یعنی وہ یہ بھی بتا رہا ہوگا یہ کام کس زمانے میں ہوا ماضی میں ہوا یا حال میں یا مستقبل میں ہوگا اگر ایسا ہےتو یہ فعل کہلاتا ہے یا"أو على معنى في نفسها ولم يقترن معناها بأحد الأزمنة وهو الاسم"یہ  کہ ایک معنی مستقل پر دلالت تو کرتا ہے ایک معنی مستقل کو تو سمجھاتا ہے لیکن اس کا معنی ساتھ کسی زمانے سے ملا ہو یہ تو بتاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے لیکن کس زمانے میں ؟ زمانے کو بیان نہیں کرتا  اس کو اسم کہتے ہیں۔ تو پس نتیجہ کیا ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ وہ لفظ ہے جو وضع کیا گیا معنی مفرد کے لیے کلمہ کی تین قسمیں اسم ،فعل اور حرف۔
 نتیجہ یہ ہوا کہ کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ وہ لفظ ہے جو وضع کیا گیا ہو ،معنی مفرد کے لیے کلمہ کی تین قسمیں ہیں اسم فعل اور حرف۔اب سوال حرف کسے کہتے ہیں؟ جواب جو کسی معنی مستقل پر فی نفسہ دلالت نہیں کرتا ہو بلکہ محتاج ہو کسی اور کا ۔ فعل کسے کہتے ہیں جو کسی زمانے پر دلالت بھی کرتا ہو اور معنی مستقل پر بھی دلالت کررہا ہو۔ اسم کسے کہتے ہیں؟  جو کسی معنی پر دلالت کر رہا ہوں لیکن ساتھ  کسی زمانے پر دلالت نہ  کررہا ہو۔