درس الهدایة في النحو

درس نمبر 2: علم نحو کا فائدہ اور موضوع

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مقدمہ

گزشتہ درس میں گزارش کی تھی کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنی اس کتاب کی جو ترتیب ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کچھ ابحاث بطور مقدمہ ذکر کروںگا پھر اس کے بعد تین اقسام بناؤں گا پھر آخر میں خاتمہ مقدمہ میں مقدمہ کیا ہوتا ہے؟

یہ درحقیقت مقدمہ یہ مشتق ہے یہ لیا گیا ہے "مقدمۃ الجیش" جیش کہتے ہیں لشکر آج کل کے زمانے میں ہوتا ہے زمانہ قدیم میں ہوتا تھا  جب لشکر جنگ کے لیے روانہ ہوتے تھے تو کچھ لوگوں کو آگے پہلے روانہ کرتے تھے تاکہجو مخالف  ہے ان کے لشکر کی تعداد کے بارے میں وہ معلومات کرتے تھے اور یہ معلومات کرتے کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں ان کا طریقہ کار کیا ہوگا  تو وہ  ابتدا میں جا کے، اپنے مین لشکر  جس نے جنگ لڑنی ہوتی  تو ان کو معلومات فراہم کرتے تھ  اس کو کہا جاتا تھا "مقدمۃ الجیش" یہاں مناسبت یہ ہے چونکہ یہاں بھی اس مقدمے میں درحقیقت کچھ اہم باتیں ذکر کی جاتی ہیں کچھ اشارے دیے جاتے ہیں۔ کہ جس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس علم میں کن  چیزوں کی بات ہوگی یا  یعنی اگر مقدمۃ الکتاب کہیں گے تو یعنی ان مقدمہ العلم کے کچھ مطالب کو بطور اختصار ابتدا میں ذکر کیا جائے گا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اس علم میں بحث کس چیز کی ہوتی ہے ۔تو مقدمہ کی نسبت فرماتے ہیں ہم اس مقدمہ میں تین فصلوں کو ذکر کریں گے۔

فصل اول

میں علمائے کرام یہ فرماتے ہیں: کہ جب آپ کوئی کتاب شروع کرنا چاہتے ہیں یا کسی علم کو شروع کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کچھ چیزوں کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔

 نمبر ایک: اس علم کی تعریف کیا ہے۔

 نمبر دو: اس علم کی غرض و غایت اور فائدہ کیا ہے۔

 نمبر تین: اس علم کا موضوع کیا ہے، تو ان تین چیزوں کو بزرگان ہمیشہ ابتدا میں ذکر کرتے ہیں صاحب ہدایۃالنحو نے بھی فصل اول یعنی مقدمہ کی جو تین فصلیں ہیں مقدمہ کی فصل اول میں علم نحو کی تعریف کو ذکر کیا علم نحو کی غرض و غایت اور فائدہ کو بیان کیا اور علم نحو کے موضوع کو بیان کیا، اور آگے دو فصلوں میں ایک فصل میں کلمہ اور دوسرے فصل میں کلام کی بحث کو بیان کیا ہے۔

4

علم نحو کی تعریف

 پہلی فصل

اس میں تین نکات ہیں  جو روش  بزرگان کی ہے :

 جب آپ کوئی علم شروع کرنا چاہیں گے تو پہلا سوال یہ ہے کہ آپ جو علم شروع کرنا چاہ رہے ہیں اس علم کی تعریف کیا ہے؟ مثلا ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم نحو کو شروع کر رہے ہیں ہم علم نحو پڑھنا چاہتے ہیں تو پہلا سوال یہ ہوگا جناب ہمیں بتائیں علم نحو کسے کہتے ہیں؟علم نحو کی تعریف کیا ہے ؟ پھر دوسرا سوال ہوگااس کو پڑھنے کا فائدہ کیا ہوگا؟اس کی غرض اور غایت کیا ہے؟پھر تیسرا سوال اس کا موضوع کیا ہے؟

فصل اول میں صاحب ہدایۃ النحو نے ان تینوں سوالات کے جواب دیے ہیں۔

علم نحو کسے کہتے ہیں؟علم نحو کی تعریف کیا ہے؟فرماتے ہیں:

ـ" النحو علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض"

نحو ایسے قواعد اور قوانین کا علم ہے اصول  اصل کی  جمع ہے ، اصل بمعنی بنیاد بھی ہوتا ہے اور اصل بمعنی قانون اور قاعدہ یعنی نحو کا علم   ایسے قواعد اور ضوابط کامجموعہ ہے جس کے ذریعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ  یہ  تین کلمیں ہیں  ان شاءاللہ آگے پڑھیں گے اسم فعل اور حرف۔ آیاان کا آخرمعرب ہےیا مبنی؟

 معرب وہ ہوتا ہے کہ جس کی حرکت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔

مبنی وہ ہوتا ہے کہ جس کےآخر کی حرکت ایک ہی رہتی ہے وہ تبدیل نہیں ہوتی تو علم نحو  ایسے قواعد اور قوانین کا مجموعہ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ اسم، فعل اور حرف کا آخر معرب ہے یا مبنی اور معرب ہو گا تو پھر یہ بتائے گا کہ یہاں زبر پڑھنی ہے زیر پڑھنی ہے  یا پیش پڑھنی ہےیعنی ضمہ فتح کسرہ کیا پڑھنا ہے اور یہی نحو اور یہی علم نحو ہمیں بتاتا ہے کیا کہ اگر ہم ایک اسم کو ایک  کلمے کو دوسرے کلمے کے ساتھ جوڑنا چاہیں تو اس کے جوڑنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس کے لیے بہت آسان مثال: 

جو ہر بندے کو سمجھ آ جائے ہم کیا پڑھتے ہیں:" بسم اللہ الرحمن الرحیم" یہ جو ہم پڑھ رہے ہیں ۔بسم اللہ الرحمن، اسم کی میم پر بھی زیر پڑھتے ہیں بتاتے ہیں، لفظ اللہ کی ہاء پر بھی زیر پڑھتے ہیں  یہ ہمیں کس نے بتایا ہے، میم پر اور لفظ اللہ کی ، ہاء پر بھی زیر پڑھنا ہے۔ ہم بسمُ اللہ ، یا بسمّ اللہ کیوں نہیں پڑھتے؟ یہ علم نحو نے ہمیں بتایا کہ اس میں کچھ ایسے قواعد ہیں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں  وہ قاعدہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اسم سے پہلے حرف جار ہے  ہیں جب کسی اسم پر حرف جار آتا ہے تو اس کے آخر میں کسرہ پڑھا جاتا ہے اس لیے ہم نے بسم اللہ پڑھا۔ اس علم نحو نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ مضاف الیہ پر کسرہ پڑھا جاتا ہے مجرور ہوتا ہے چونکہ اسم اللہ کی طرف مضاف تھا اس لیے ہم نے اس" بسم اللہ" یہ ترکیب کیسے کرنی ہےاور یہ طریقہ کہ ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کے ساتھ کیسےجوڑیں یہ قواعداور ضوابط جو  سمجھاتے ہیں ان قوانین اور ضوابط کے علم کو ،علم نحو کہتے ہیں جناب اس کا فائدہ؟ اس علم کو اگر ہم پڑھیں گے تو ہمیں ملے گا۔

"والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب" علم نحو انسان  کے ذہن  کو خطائے لفظی سے  محفوظ رکھتا ہے یعنی اگر انسان عالم علم نحو ہو گا تو جو عربی الفاظ اس کی زبان سے جاری ہوں گے اس میں غلطیاں نہیں ہوں گی۔ خطائے فکری سے ہمیں منطق بچاتی ہے خطائیں معنوی سے ہمیں معنی بیان بچاتا ہے کیونکہ اس کا تعلق کلام سے ہے یعنی ان الفاظ کے ساتھ نحو ہمیں خطائے لفظی سے بچاتا ہے کہ جو الفاظ ہماری زبان سے جاری ہوں وہ غلط  نہ ہوں وہ قواعد یعنی عربی زبان کے حساب سے گرائمر کے لحاظ سے ان میں کوئی خطا نہیں ہونی چاہیے  یہ  اس کی غرض اور فائدہ ہے۔

تیسرا سوال:علم نحو کا موضوع کیا ہے؟

اس کا موضوع کلمہ اور کلام ہے، پھر سوال ہوگا کلمہ کسے کہتے ہیں اور کلام کسے کہتے ہیں؟ 

ایک کلمہ کی کتنی قسمیں ہیں؟

  پھر اس کے بعد انہوں نے ذکر فرمایا کہ کلام کسے کہتےہیں؟ پھر آگے  اس   کلام کی بھی پوری بحث ہے ان شاءاللہ جو ہم اگلے درسوں میں پڑھیں گے۔علم نحو کی تعریف ہو گئی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ تا کہ ہمیں پتہ ہوگا ہم جس علم کو حاصل کرنا جا رہے ہیں ہم جس کتاب کو جس چیز  کے لیے  پڑھنا چاہ رہے ہیں ہمیں پتہ ہونا  چاہے کہ ہم کس علم کو پڑھنا چاہ رہے ہیں پھر  ایسا نہ ہو کہ  جس چیز کے بارے میں کوئی علم نہ ہو  اس کو پڑھ رہے ہیں۔ اس کا موضوع بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے غرض و  غایت بھی معلوم ہونا چاہیے۔

5

الفصل الثاني : الكلمة

اب آگے فرماتے ہیں توجہ کے ساتھ بڑا اچھا انداز ہے ان کا مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔

 فصل اول میں انہوں نے فقط تین  کون سے نکات سمجھائے؟

 ۱۔ علم نحو کی تعریف کیا ہے؟

۲۔علم نحو پڑھنے کی غرض و غایت کیا ہے؟۔

۳۔ اس علم نحو کا موضوع کیا ہے؟

 اگلی فصل میں فرماتے ہیں: اچھا آپ نے جو کہا ہے اس کا موضوع  کلمہ اور کلام ہے ۔

 پھر سوال ہوگا کلمہ کسے کہتے ہیں؟ اور کلمہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ 

آپ نے کہا علم نحو کا موضوع  کلمہ اور کلام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کلمہ کسے کہتے ہیں؟

 جواب: " الكلمة لفظ وضع لمعنى مفرد" کلمہ وہ لفظ ہے جو ایک  مفرد معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو۔ یعنی کلمہ ایک لفظ ہے جو ایک معنی کو سمجھانے کے لیے وضع کیا جاتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس سے مراد  یہ ہے۔  کلمہ کی تین قسمیں ہیں تین قسموں میں اس کا حصر ہے  کیا مطلب؟ یاد رکھیں ہمیشہ جب بھی کوئی صاحب کتاب کسی چیز کے بارے میں کہےایک چیز اتنی قسموں میں منحصر ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی چوتھی قسم یا پانچویں قسم یا مزید کوئی قسم ہو ہی نہیں سکتی حصر کا مطلب ہے بس جتنی ہم بیان کر رہے ہیں اس سے ہٹ کر اور کوئی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کلمہ تین قسموں میں  منحصر ہے  یعنی اس کی تیسری سے کوئی چوتھی قسم نہیں ہے ۔

اچھا کون سی تین قسمیں ہیں؟ اسم ،فعل اور حرف 

 آپ یہ حصر کہاں سے لیا ہے؟  توجہ بہت مزیدار بات فرماتے ہیں جو بھی لفظ ہوگا جو کلمہ ہوگا سب سے پہلے تو یہ دیکھیں گے کہ آیا وہ مستقل کسی معنی کو بیان کررہا ہے یا کسی معنا کو بیان کرنے میں کسی غیر کا محتاج ہے۔ اگر وہ کلمہ  اپنا معنی کو بیان کرنے میں مستقل نہ ہو بلکہ محتاج ہو جب تک کسی اور کے ساتھ نہ ملاہو تب تک وہ معنی سمجھانے میں غیر کا محتاج ہو گا تو یہ حرف ہوگا۔

اگر وہ کلمہ اپنے معنی پر دلالت کرنے میں مستقل ہو باقاعدہ ایک معنی کو سمجھا رہا ہو  اور کسی کا محتاج نہیں ہے  پھر اس کی دو قسمیں ہیں۔

آیا فقط ایک معنی کو بیان کر رہا ہے یا اس معنی کے ساتھ ساتھ اس کے زمانہ ماضی ،حال یا استقبال کو بھی ساتھ بیان کر رہا ہو تو اس کو فعل کہتے ہیں۔ اگر فقط ایک معنی کو بیان کر رہا ہو تو اس کو اسم کہتے ہیں ۔

6

علم نحو اور کلمہ کی تطبیق

أمّا المقدّمة

 یعنی ابتدائی باتوں کے بارے میں ۔مبادی کیا ہوتے ہیں؟ مبادی وہ ہوتے ہیں یعنی کسی بھی کتاب یا علم کے ابتدا میں چند ایسی ابتدائی باتیں ذکر کرنا جو یہ بتا رہی ہوں کہ بعد میں اس کتاب یا اس علم میں کیا کیا بحث ہوگی فرماتے:

"أمّا المقدّمة : ففي المبادئ التي يجب تقديمها ، لتوقّف المسائل عليها ففيها ثلاثة فصول" ان ابتدائی باتوں کے بارے میں ہےکہ جن کو مقدم کرنا واجب ہے یعنی جن کو ابتدا میں ذکر کرنا لازم اور ضروری ہے کہ وہ اہم نکات ابتدا میں بتا دیے گئے ہیں کیوں بعد میں جو مسائل ہوں گے ان کے احکام بیان    کیے جائیں گے۔وہ سارے اسی پر موقوف ہیں یعنی ہمیں مثال سمجھانے کے لیے ہمیں کلمہ کا پتہ ہوگا تو آگے اس کے احکام کو صحیح سمجھیں گے ہمیں کلام کے بارے میں علم ہوگا تو اس کے صحیح احکام کو ہم سمجھ سکیں گے تو اس لیے یہ ضروری ہے ہم اس مقدمہ میں تین فصلیں ذکر کرتے ہیں تین فصلوں میں  پہلی فصل میں علم نحو کی تعریف غرض و غایت اور موضوع کو بیان کریں گے ۔

دوسری فصل میں کلمہ کی بحث کریں گے۔ تیسری فصل میں کلام کو سمجھائیں گے تو پس ان تین فصلوں میں یعنی جو مقدمہ ہے وہ سمجھ  آجائے گا ہمیں یہ  پتہ چل جائے گا کہ اس پوری کتاب میں یہ پورے علم نحو میں جو اصل بحث ہے وہ اسی کلمہ اور کلام  کی ہونی ہے تو اس کے احکام کو سمجھنے سے پہلے خود کلمہ اور کلام کو سمجھنا ضروری ہے کلمہ کسے کہتے ہیں کلام کسے کہتے ہیں ان کی قسمیں کیا ہوتی ہیں؟ فصل اول میں تین چیزیں بیان کر رہے ہیں علم نحو کی تعریف علم نحو کی غرض و غایت اور علم نحو کا موضوع۔

النحو
"علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض. والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب

 فرماتے ہیں نحو  کا علم   ایسے قواعد و قوانیں کا مجموعہ ہے جن قواعدکے ذریعے   سے پہچانا جاتا ہے کلمہ ثلاث یعنی اسم، فعل اور حرف کے اواخر کے حالات کو یعنی ان قواعد کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسم ،فعل اورحرف کا اخر اعراب اور بنا کی حثیت سے کہ وہ معرب ہے یامبنی اگر معرب ہے تو اعراب کیا پڑھنا ہے اور اگر مبنی ہے تو کس حرکت پر؟ یعنی  مبنی کس حرکت پر ہے تو اسی پر ہمیشہ رہے گا یا نہیں یہ بھی یہی قواعد بتاتے ہیں اور دوسری بات ان قواعد کے ذریعے سے  پتہ چلتا ہے

"وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض" ایک کلمے کو دوسرے کلمے کے ساتھ ملایا کیسے جاتا ہے یعنی کیفیت ترکیب یہ بھی ہمیں اپنی مرضی سے نہیں کہ جیسے جس کو چاہو کسی کے ساتھ ملا دو بلکہ ایسا نہیں ہوتا ۔

"والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب" دوسری فصل میں کیا بیان کیا جا رہا ہے۔

 علم نحو کی غرض،غایت اور اس کا فائدہ کیا ہے  فرماتے ہیں اس کی غرض و غایت ہے عربی کلام میں زبان کو خطائے لفظی سے بچانا اور بعض کتابوں میں صیانت الذہن عن الخطئی الفظی فی کلام العرب کہا گیا ہے۔ کہ ذہن کو کلام عرب میں خطائے لفظی سے بچانا دونوں میں فرق نہیں ہے کیوں ذہن عبارت بناتا ہے زبان اس کو ادا کرتی ہے تو جہاں ذہن میں غلطی ہوگئی تو عبارت بھی غلط ہو گی۔ اور دوسرے کہتے ہیں کہ نہیں زبان کو خطائے لفظی سے بچانا اس لیے کہ جو لفظ بولتا ہے وہ زبان پر جاری ہوتا ہے اور اگر ہم علم نحو سےصحیح واقف ہوں گے تو ہماری زبان غلط عربی کے الفاظ کو ادا نہیں کرے گی اور تیسری چیز جو اس فصل اول میں بیان کی گئی ہے وہ ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے؟ اس کا موضوع ہے کلمہ اور کلام ہے ۔

اگلی فصل سمجھ آگئی کہ علم نحو کی تعریف کیا ہے علم نحو کی غرض و غایت کیا ہے۔ اب آپ نے آخر میں کہا ہے کہ علم نحو کا موضوع ہے کلمہ اور کلام اب ہمیں ذرا یہ سمجھائیں کلمہ کسے کہتے ہیں کلام کسے کہتے ہیں؟

 اگلی دو فصلوں میں ایک فصل میں فقط کلمہ کی بحث کریں گے کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ کی اقسام کیا ہیں ؟پھر ہر قسم کی تھوڑی وضاحت کریں گے اور دوسری فصل میں کلام کی بات کریں گے کلام کسے کہتے ہیں ؟اور اس کے احکام کیاہوں گے؟۔

اس فصل میں  کلمہ کسے کہتے ہیں اور اس کی اقسام کتنے ہیں فرماتے ہیں کلمہ کی تعریف: "الکلمۃ لفظلفظ وضع لمعنى مفرد" کلمہ وہ لفظ ہے جس کو وضع کیا گیا ہے معنی مفرد کے لیے اب تھوڑی سی ذرا توجہ کریں۔

 اگر آپ کے پاس کتاب ہوگی تو مفرد کی دال پر تین اعراب لکھے ہوں گے یعنی اگر ہم اس کو پڑھنا چاہتے ہیں" الکلمۃ لفظ وضع لمعنى مفردِِ" تو بھی صحیح ہے "الکلمۃ لفظ وضع لمعنى مفردََا تو بھی صحیح ہے"الکلمۃلفظ وضع لمعنى مفردُُ" تو بھی صحیح ہے یعنی مفرد پر تینوں اعراب پڑھنا صحیح ہے کیوں؟ اگر ہم پڑھیں گے(مفردِِ)  تو یہ لفظ معنی کی صفت ہوگا اگر اس کو پڑھیں گے(مفردََا) تو یہ وضع فعل کے لیے حال واقع ہوگا یعنی در حالانکہ وہ مفرد ہو اور اگر اس کو (مفردُُ)پڑھیں گے  یہ لفظ کی صفت ہوگا کہ کلمہ ایک لفظ مفرد ہے جو  معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔

 آگے فرماتے ہیں"وهي منحصرة في ثلاثة أقسام "  کہ کلمہ  تین قسموں میں منحصر ہے ( اسم ، وفعل ، وحرف)اسم، فعل و حرف  اب تھوڑی سی توجہ کریں اس ( اسم ، فعل  وحرف) کو بھی دو طرح سے پڑھنا جائز ہے ( اسمِِ وفعلِِ وحرفِِ) پڑھیں تو بھی جائز ہے اگر آپ اس طرح پڑھیں گے تو یہ "ثلاثۃ اقسام"کا بدل ہوگا چونکہ بدل اور مبدل منہ کا اعراب ایک ہوتا ہے ان شاءاللہ آگے ہم پڑھیں گے اور اگر( اسمٌ وفعلٌ وحرفُُ)  پڑھیں تو بھی جائز ہے کیوں ان کے لیے پھر مبتدا محذوف کریں گے مثلا" احدھااسم و ثانیھا فعل و ثالثھا حرف "یہ پڑھیں تو بھی صحیح ہے ۔

 فرماتے ہیں آپ نے کہا ہے کہ کلمہ تین قسموں میں  منحصر   ہے سوال اس انحصار کی وجہ کیا ہے؟ چونکہ جہاں حصر آجاتا ہے کوئی چوتھی قسم بن ہی نہیں سکتی تو آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ کلمہ کی فقط تین قسمیں ہیں کوئی چوتھی نہیں ہے؟

 جواب یہاں سے شروع ہو رہا ہے  "لأنّها"لام لام تعلیل ہے اب یہ "لأنّها"یہ لام بتا رہی ہے کہ کیوں اس کی تین قسمیں ہیں اور چوتھی قسم نہیں ہے فرماتے ہیں"إمّا أن لا تدلّ على معنى في نفسها وهو الحرف" چونکہ جو بھی کلمہ جو بھی لفظ ہوگا یا تو کسی بھی معنی پر بذاتہ دلالت نہیں کرے گا بلکہ وہ معنی پر دلالت کرنے پر غیر کا محتاج ہوگا اگر ایسا ہے تو وہ حرف ہوگا "أو تدلّ على معنى في نفسها واقترن معناها بأحد الأزمنة الثلاثة وهو الفعل" یا وہ اپنے معنی پر دلالت کرنے میں مستقل ہوگا یعنی اپنے کسی معنی کو سمجھانے میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہوگا  ساتھ ساتھ اس کا معنی ازمنہ ثلاثہ وہ کون سے تین زمانے یعنی ماضی حال اور استقبال اس کا وہ معنی کسی ایک زمانے کے ساتھ ملا ہوا ہوگا کیا مطلب یعنی وہ یہ بھی بتا رہا ہوگا یہ کام کس زمانے میں ہوا ماضی میں ہوا یا حال میں یا مستقبل میں ہوگا اگر ایسا ہےتو یہ فعل کہلاتا ہے یا"أو على معنى في نفسها ولم يقترن معناها بأحد الأزمنة وهو الاسم"یہ  کہ ایک معنی مستقل پر دلالت تو کرتا ہے ایک معنی مستقل کو تو سمجھاتا ہے لیکن اس کا معنی ساتھ کسی زمانے سے ملا ہو یہ تو بتاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے لیکن کس زمانے میں ؟ زمانے کو بیان نہیں کرتا  اس کو اسم کہتے ہیں۔ تو پس نتیجہ کیا ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ وہ لفظ ہے جو وضع کیا گیا معنی مفرد کے لیے کلمہ کی تین قسمیں اسم ،فعل اور حرف۔

 نتیجہ یہ ہوا کہ کلمہ کسے کہتے ہیں؟ کلمہ وہ لفظ ہے جو وضع کیا گیا ہو ،معنی مفرد کے لیے کلمہ کی تین قسمیں ہیں اسم فعل اور حرف۔اب سوال حرف کسے کہتے ہیں؟ جواب جو کسی معنی مستقل پر فی نفسہ دلالت نہیں کرتا ہو بلکہ محتاج ہو کسی اور کا ۔ فعل کسے کہتے ہیں جو کسی زمانے پر دلالت بھی کرتا ہو اور معنی مستقل پر بھی دلالت کررہا ہو۔ اسم کسے کہتے ہیں؟  جو کسی معنی پر دلالت کر رہا ہوں لیکن ساتھ  کسی زمانے پر دلالت نہ  کررہا ہو۔ 

كتاب الهداية في النحو

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله ربّ العالمين ، والعاقبة المتّقين ، والصلاة والسلام على خير خلقه سيّدنا محمّد وآله أجمعين.

أمّا بعد : فهذا مختصر مضبوط في علم النحو جمعت فيه مهمّات النحو على ترتيب الكافية ، مبوّباً ومفصّلاً بعبارة واضحة مع إيراد الأمثلة في جميع مسائلها من غير تعرّض للأدلّة والعِلَل ، لئلّا يشوّش ذهن المبتدئ عن فهم المسائل. وسمّيته بالهداية رجاء إلى أن يهدي الله تعالى به الطالبين ، ورتّبته على مقدّمة وثلاث مقالات وخاتمة بتوفيق الملك العزيز العلّام.

أمّا المقدّمة : ففي المبادئ التي يجب تقديمها ، لتوقّف المسائل عليها ففيها ثلاثة فصول.

[المقدمة]

الفصل الأوّل : النحو

علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض. والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب. وموضوعه الكلمة والكلام.

الفصل الثاني : الكلمة

لفظ وضع لمعنى مفرد وهي منحصرة في ثلاثة أقسام : اسم ، وفعل ، وحرف ، لأنّها إمّا أن لا تدلّ على معنى في نفسها وهو الحرف ، أو تدلّ على معنى في نفسها واقترن معناها بأحد الأزمنة الثلاثة وهو الفعل ، أو على معنى في نفسها ولم يقترن معناها بأحد الأزمنة وهو الاسم.

ثم حدّ الاسم : إنّه كلمة تدلّ على معنى في نفسه غير مقترنة بأحد الأزمنة الثلاثة ، أعني الماضي والحال والاستقبال ، ك‍ : رَجُلٌ ، وعِلْمٌ. وعلامته أن يصحّ الإخبار عنه وبه ك : زَيْدٌ قائِمٌ ، والإضافة ك‍ : غُلامُ زَيْدٍ ، ودخول لام التعريف ك : الرَّجُل ، والجرّ والتنوين والتثنية والجمع والنعت والتصغير والنداء. فإنّ كلّ هذه من خواصّ الاسم. ومعنى الإخبار عنه أن يكون محكوماً عليه ، فاعلاً أو مفعولاً ، أو مبتدأً. ويُسمّى اسماً لِسُمُوِّهِ على قَسِيمَيْه ، لا لكونه وَسْماً على المعنى.

وحدّ الفعل : إنّه كلمة تدلّ على معنى في نفسه ، ومقترنة بأحد الأزمنة الثلاثة ك‍ : ضَرَبَ ، يَضْرِبُ ، اضْرِبْ. وعلامته أن يصحّ الإخبار به لا عنه ، ودخول : «قد» و «السين» و «سَوْفَ» ، و «الجزم» نحو : قَدْ ضَرَبَ وسَيَضْرِبُ ، وسَوْفَ يَضْرِبُ ، ولَمْ يَضْرِبْ ، والتّصريف إلى الماضي والمضارع ، وكونه أمراً ونهياً ، واتصال الضمائر البارزة المرفوعة نحو : ضَرَبْتُ ، وتاء التأنيث الساكنة نحو : ضَرَبَتْ ، ونون التّأكيد نحو : اضْرِبَنَّ. فإنّ كلّ هذا من خواص الفعل. ومعنى الإخبار به أن يكون محكوماً به كالخبر. ويسمّى فعلاً باسم أصله وهو المصدر ، لأنّ المصدر هو فعل للفاعل حقيقة.

وحدّ الحرف : إنّه كلمة لا تدلّ على معنى في نفسها بل في غيرها نحو :