درس الهدایة في النحو

درس نمبر 1: علم نحو کی اہمیت اور تعریف

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

علم نحو کی اہمیت

سال  اول کا کورس (الحمدللہ) کہ جس میں شرح امثلہ،صرف میر اور شرح مآۃ عامل تھی، مکمل ہو گیا  مدارس دینیہ میں پڑھائے جانے والے نصاب کے  مطابق  دوسرے سال  کی پہلی کتاب جو علم نحو میں ہے۔ اور دوسری اس کے ساتھ ان شاءاللہ صرف سادہ ہوگی ہم  اس کا آج اغاز کر رہے ہیں، شرح ماۃ عامل کی ابتدا میں بھی میں نے گزارش کی  تھی کہ  دیگر علوم کی طرح علم نحو کی بھی  بہت زیادہ اہمیت ہے۔کیونکہ   ہم  نحو  کو  صحیح طور پر آگاہ  ہوں گے تب ہم قران و حدیث کو صحیح سمجھ پائیں  گے اس لیے کہ قرآن عربی زبان میں ہے احادیث مبارکہ بھی  عربی زبان میں ہیں  تو  جس  زبان میں ہیں اس زبان کی گرائمر اگر ہم صحیح سمجھتے ہوں گے تو ہم قرآن کو صحیح سمجھ پائیں گے اور اگر اس کی گرائمر سے ہم آشنا  نہ ہوئے تو پھر قرآن مجید کا بھی خدا نخواستہ ہم غلط ترجمہ کرتے رہیں گے اور احادیث مبارکہ کے ترجمہ بھی پھر ہم درست طریقے پر نہیں کر پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء میں ایک جملہ معروف ہے "النحو فی الکلام کالملح فی الطعام" کہ عربی کلام میں عربی گفتگو میں نحو کی وہی حیثیت ہے جو  کھانوں میں نمک  کی ہوتی ہے جیسے بغیر نمک کے طعام اور کھانے بے ذائقہ اور بے لذت ہوتے ہیں اگر نحو سے انسان آشنا نہ ہوگا تو اس کی عربی کلام بھی غلط اور بے ذائقہ قسم کی ہوگی۔

 گزارش کی تھی کہ علم نحو کی ابتدا مولائے کائنات امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوئی، ابو الاسود دوئلی کو امام نے  چند کلمات ذکر فرمائے  کہ یہ لکھو اور اس کے بعد وہ لکھنا شروع ہوا جو  آج تک چل رہا۔

 نحو کے بہت سارے معانی ذکر ہوئے ہیں نحو کامعنی قصد بھی ہوتا ہے نحو کا معنی مثال بھی ہوتا ہے  آٹھ نو کے قریب اس کے معانی ذکر ہوئے ہیں، لیکن بہرحال ہماری یہاں مراد علم نحو ہے۔

 علم نحو کسے کہتے ہیں؟ ان شاءاللہ ہم اس کی تعریف آگے بیان کریں گے ۔

یہ کتاب جو ہم شروع کر رہے ہیں اس کتاب کا نام ہے ہدایۃ النحو کہی پر فقط الہدایہ لکھا ہوتا ہے کہیں ہدایہ فی النحو لکھا ہوتا ہے۔آپ کو بازار میں جتنی کتابیں پرنٹ شدہ ملیں گی جیسے آپ دیکھتے ہیں کہ ہر کتاب کا اوپر نام ہوتا ہے نیچے بہت سارے القابات کے ساتھ مثلا ہماری دنیا میں ہوتا ہے،حجۃ الاسلام والمسلین ،صدر المحققین پتہ نہیں فلاں فلاں فلاں آگے اس کا نام ہوتا ہے، ہدایۃ النحو ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کا فرنٹ پیج ہو یا آخری پیج ہو کہیں بھی اس کے مصنف کا نام نہیں ملتا اور ہمیں یاد ہے کہ جب ہم مدارس میں  پڑھتے تھے تو اس وقت یہ بات مشہور ہوتی تھی ہاں بھئی بتا  ہدایت النحو کا مصنف کون ہے ؟ہدایہ  النحو کس کی تالیف ہے؟ کس نے لکھی تھی؟

 بہرحال جو ہمارے پاکستان میں یا ہم نے ایران میں بھی دیکھے ہیں جو پرنٹ موجود ہیں ان میں مصنف  کا نام موجود نہیں ہوتا، لیکن بعض محققین نے یہ فرمایا ہے کہ  یہ ہدایۃ النحو ابو حیان  محمد بن یوسف اندلسی ،یہ اس کی کتاب ہے،یہ اندلس  غرناطہ میں پیدا ہوئے ،بعد میں مصر میں آگئے ، انکی   تاریخ ولادت  654 ہجری  ہے اور 745 ہجری   میں انکی وفات ہے ،مصر قاہرہ میں یہ مدفون ہیں ،بہت ساری ان کی کتابیں ہیں تقریبا نوے سال کے قریب  انکی عمر ہے ،بہت معروف ہیں ،  ویکیپیڈیا پر بھی انکا ذکر ہے  کچھ نے ان پر مقالے بھی لکھے ہیں لیکن ایک چیز بہرحال میں اپنی کم علمی کا جو اقرار کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے ویکیپیڈیا پر بھی ان کے حالات دیکھے ہیں کچھ مقالہ جات بھی دیکھے ہیں  تو ان میں جن کتابوں کا ذکر ہے ان میں ہدایۃالنحو  نامی کتاب نہیں ہے ،ہو سکتا ہے وہاں کسی اور نام سے ہو اور ہمارے علاقوں میں یہ ہدایۃ النحو ہو لیکن کتاب کا نام  یہی ہے چونکہ آگے ان شاءاللہ ہم خود پڑھیں گے کہ انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ میں نے اس کا نام ہدایہ رکھا ہے، لیکن علماء بزرگان نحو  پڑھانے والے وہ سارے یہی کہتے ہیں کہ نہیں یہ ہدایۃ النحو ابوحیان  محمد بن یوسف اندلسی کی  ہی کتاب ہے،انہوں نے خود لکھا ہے  کہ میں نے اپنی کتاب  کو   ابن حاجب کی کتاب کافیہ کی طرز پر لکھا ہے کہ جو طرز تحریر اس کا تھا وہی طرز تحریر میں نے بھی اپنایا ہے اور  اسی انداز میں اسی ترتیب  سے  اس کو ذکر کیا ہے ، کافیہ ابن حاجب  کی کتاب ہے ہم جب کوٹلہ جام پڑھتے تھے تو ہمیں پڑھائی گئی تھی اب چونکہ آپ  سارے لوگ شارٹ کٹ والے اور فیس بک والے آگئے   اب آپ کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ بڑی بڑی اور بڑے دقیق نکات پر مشتمل کتب کو پڑھیں اب وہ بیچارے   ابن حاجب کی کتاب پاکستان میں بھی متروک ہو گئی اور دیگر حوزہ ہائے  علمیہ میں بھی متروک ہے ،اب بہت سارے لوگ اس کا نام تک بھی  نہیں جانتے جبکہ کافیہ علم نحو  کی  ایک بہت بڑی اور واضح کتاب تھی اور ہمارے استاد مرحوم علامہ ملک ملازم حسین رحمت اللہ علیہ نے ہمیں پڑھائی تھی  اللہ تعالی ان کی قبر کو منور فرمائے۔

اب وہ کتاب متروک ہوچکی ہے کیونکہ اس کے لیے جو محنت درکار ہے اب نہ استادوں کے پاس ٹائم ہے محنت کرنے کا اور نہ شاگردوں کے پاس۔ چونکہ فیس بک اور نیٹ پر اتنے مصروف ہیں کہ اب مطالعہ کون کرے لیکن یہ کتاب جس کا ہم آج آغاز کر رہے ہیں ہدایۃ النحو یہ پاکستان کے تمام دینی مدارس میں نہ فقط شیعہ کے اہل سنت کے اہل حدیث کے جتنے بھی مدارس ہیں ہر وہ جو دینی مدرسہ ہے وہاں پر یہ پڑھائی جاتی ہے، ایران اور عراق کے مدارس اور حوزات میں بھی یہ باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے اور الحمدللہ اس کا مقام ابھی تک اسی طرح باقی ہے اس کی  جگہ فی الحال کوئی اور کتاب نہیں لے سکی، ان شاءاللہ ،اللہ ہمیں توفیق دے گا ہم اس کو مکمل کریں گے اس کی ترتیب بہت احسن ہے اور اس میں وہ  کوئی زیادہ پیچیدگیوں میں نہیں گئے ان کی یہ خوبی ہے ،اس انداز میں اس کو لکھا ہے ، کہ جو طالب علم   پہلے سال  شرح ماۃ عامل پڑھ لیتا ہے،اس کو کچھ نہ کچھ نحو کے بارے میں تھوڑی بہت  سوجھ بوجھ آجاتی  ہے ،پھر جب یہاں پہنچتا ہے تو انہوں نے وہ دلیلوں میں اتنا دقیق نہیں ہوئے کہ اگلے بندے کو بات سمجھ ہی نہ آئے  بڑے آسان طریقے سے اور بڑے پیارے طریقے سے انہوں نے اس کو تحریر کیا ہے ،تاکہ طالب علم کا ذہن بھی اس کے ساتھ چلتاہے اور اس کو پڑھتا ہے،ہمارے بعض بزرگان اساتذہ کرام یہ بھی فرماتے تھے یہ بھی سمجھاتے تھے کہ اگر کوئی شخص بڑی توجہ طلب بات ہے کہ اگر کوئی شخص اس ہدایہ النحو کو صحیح  طریقے سے سمجھ کے پڑھے مباحثہ کرے ،دوستوں کے ساتھ اس کو بار بار دیکھے پھر اس کی ریہرسل کرے ،جیسے کہتے ہیں عربی عبارتوں کو تطبیق کرے اس کی تمرینیں کرے اگر کوئی شخص صحیح طریقے سے اسی کتاب، ہدایہ النحو کو پڑھ لے اس کی عربی عبارت ٹھیک ہوجائے گی ۔ گرچہ نحو کی بہت ساری اور بھی کتابیں ہیں، ہم بھی پڑھیں گے، بہر حال یہ بنیادی کتاب ہے ،اور اسکی بڑی اہمیت ہے ،اور میں تمام طلبہ یا طالبات یا جو بھی اس کتاب سے استفادہ کرٰیں گے،ان سے یہی گزارش کروں گا کہ ایک دفعہ پڑھنے سے بات نہیں بنے گی ایک دفعہ پڑھیں پھر دوبارہ پڑھیں پھر دوبارہ پڑھیں ،کسی کے ساتھ اسکا مباحثہ کریں ،تو یہ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں بہت ہی معاون کتاب ہوگی،اس لئے یہ نحو اور صرف  یہ سب کچھ ہم اسی لئے پڑھتے ہیں تاکہ ہم صحیح طریقے پر قرآن و حدیث کو سمجھ سکیں ۔ان کو کہاجاتا ہے علوم آلی یعنی یہ آلہ اور ذریعہ ہیں در حقیت قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے ۔

4

بسم اللہ سے شروع کرنے کی وجہ

آج کے درس میں ہم تھوڑی سی ابتدائی بات پڑھتے ہیں اس کے بعد ہم باقاعدہ اس کو شروع کریں گے

بسم اللہ سے شروع کرنے کی وجہ

،مصنف نے شروع یہاں سے کیا "بسم الله الرحمن الرحيم"ممکن ہے کوئی سوال کرے جناب آپ  علم نحو  کی کتاب لکھ رہے  ہیں آپ کو چایئے تھا کسی نحوی مسئلے سے ڈائریکٹ شروع کرتے بسم الله الرحمن الرحيم سے شروع کرنےکی ضرورت کیوں پیش آئی؟

تو ممکن ہے ان کی طرف سے یہ جواب آئے چونکہ ایک حدیث نبوی  ہے کہ(کل امر ذی بال لم یبدا ببسم اللہ فھو ابتر) کہ ہر وہ کام جو بہترین ، شاندار اور  با عظمت  ہو اگر اسے بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ نامکمل  اور  بے برکت رہ جاتاہے۔ ممکن ہے یہ جواب ہو اور  یہ بھی ممکن ہے کہا جائے کہ   قران مجید کی ابتدا  بھی تو بسم اللہ سے ہوئی ہے ۔

5

تمہیدی گفتگو

خطبہ

"بسم الله الرحمن الرحیم  الحمد لله ربّ العالمين ، والعاقبة للمتّقين ، والصلاة والسلام على خير خلقه سيّدنا محمّد وآله أجمعين" یہ خطبہ ہو گیا۔

"أمّا بعد : فهذا مختصر مضبوط في علم النحو" یہ میری ایک مختصر کتاب ہے ،ان شاءاللہ، اللہ آپ کو توفیق دیگا کہ مغنی اللبیب  اورکافیہ کی  جو شرح ہے ملا جامی کی اور شرح ملاجامی کے نام سے مشہور ہے شرح ابن عقیل ہے بہت بڑی بڑی کتب علم نحو میں موجود ہیں آپ ان مفصل کتابوں سے استفادہ کریں گے،  

"فهذا مختصر "میری یہ کتاب مختصر ہے یعنی اس میں تو بہت زیادہ تفصیلات میں نے ذکر نہیں کیں "مضبوط" اور علم نحو میں ایک مضبوط ضبط شدہ اورقوی یعنی اگر عبارت کے لحاظ سے تحریر کے لحاظ سے یہ مختصر ہے لیکن قواعد کے لحاظ سے یہ قوی اور مضبوط کتاب ہے

" جمعت فيه" میں نے اس میں جمع کیے ہیں ،

"مهمّات النحو" نحوکے اہم ترین مقاصد جو مہم تھے یعنی جو موٹی موٹی باتیں ہیں جن کے بغیر چارہ نہیں تھا وہ میں نے اس میں جمع کیے ہیں 

"على ترتيب الكافية" ابن حاجب کی کتاب کافیہ کی ترتیب پر یعنی جس انداز اور جس ترتیب سے انہوں نے کافیہ کو لکھا میں نے اسی انداز میں  اس کو لکھا ہے،

"مبوّباً ومفصّلاً" ان شاءاللہ آگے بتائیں گے ابواب آگے بتائیں گے کہ فلاں بحث میں اتنے ابواب ہیں فلاں میں اتنے ابواب ہیں باب باب کر کے اور پھر ان میں فصلیں ہیں چھوٹی چھوٹی ایک فصل شروع کی وہ مطلب جب ختم ہو گیا پھر آگے لکھ دیا فصل پھر دوسرا مطلب لکھ دیا اور آگے لکھ دیا فصل، فصل کا ویسے لغوی معنی بھی ہوتا ہے جدائی لیکن کیا مطلب یعنی ہر مطلب وہ دوسرے مطلب سے علیحدہ علیحدہ کر کے لکھا ہے تاکہ جو بندہ پڑھنے والا ہے اس کی سمجھ میں آجائے کہ یہاں ایک  بات مکمل ہو گئی ہے ۔جہاں فصل آئے گی اس کا مطلب ہے یہاں سے ایک نئی بات اور نیا مطلب بیان کر رہے ہیں میں نے اس انداز میں لکھا ہے۔

"بعبارة واضحة" میری اس کتاب کی  عبارت  میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے بلکہ  واضح اور سمجھ آنے والی عبارت ہے۔

" مع إيراد الأمثلة " امثلہ جمع ہے مثال کی اور ساتھ ساتھ اس کی مثالیں بھی دی ہیں یعنی جو حکم بیان کیا ہے ساتھ ایک چھوٹی سی مثال بھی سمجھانے کے لیے دی ہے مثلا  ایک حکم ہے  کہ ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے اب یہ حکم ہو گیا یہ مسئلہ ہو گیا تو ساتھ آگے مثال ہوگی ۔جیسے قام زید مثلا کہ زید پر رفع ہے چونکہ یہ فاعل ہے یعنی اس قسم کی میں نے اس کے ساتھ مثالیں بھی دی ہیں۔

" في جميع مسائلها" تمام مسائل میں یعنی جتنے بھی میں نے آگے مسائل نحو یعنی قواعد و ضوابط ذکر کیے ہیں ہر ایک کے ساتھ مثال بھی دی ہے ۔

"من غير تعرّض للأدلّة والعِلَل" ادلہ جمع ہے دلیل کی اور علل جمع ہے علت کی کہ میں نے ایک مسئلہ بیان کیا اس مسئلے کے ساتھ مثال بھی بیان کی لیکن اس کی دلیل اور علت کے درپے نہ ہوا۔ کہ یہ اگر ایسا ہے تو اس پر دلیل کیا ہے یہ اس کی علت کیا ہے فی الحال میں ان دلیلوں اور علتوں کے درپے نہیں ہوا جیسا کہ بڑی کتب میں سب کی دلیلیں اور علتیں ذکر ہیں کیوں؟

"لئلّا يشوّش ذهن المبتدئ"  تاکہ جو بندہ ابھی نحو کی ابتدا کر رہا ہے ہم بھی ابھی مبتدی شمار ہوتے ہیں  مبتدی کون ہوتا ہے؟ کسی بھی کام کا آغاز کرنے والا ابھی تو ہم نے علم نحو کی ایک چھوٹی سی جو کتاب ہے مثلا شرح مآۃ عامل یا نحو میر پڑھی ہے۔ تو ابھی تو ہم ابتدا  علم میں ہیں  تاکہ مبتدی  کا ذہن مشوش نہ ہو جائے منتشر نہ ہو جائے۔

عن فهم المسائل۔ اس علم نحو کے مسائل ،احکام۔ اور قوانین کو سمجھنے سے چونکہ ابتدا میں ہی ہم اگر دلیلیں اور علتیں پیش کرنا شروع کر دیں  تو طالب علم کو سمجھنے میں بہت ساری مشکلات پیش آئیں گی ، آگے فرماتے ہیں:

"وسمّيته بالهداية فی النحو " ہدایۃ النحو میں نے اس کا نام رکھا ہے۔

ہدایہ النحو کا مصنف 

 میں نے ابتدا میں آپ سے گزارش کی تھی کہ علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ہدایۃ النحو ابو حیان محمد بن یوسف کی کتاب ہے لیکن جب ہم ادھر نیٹ پر تحقیق کرتے ہیں ان کے حالات زندگی میں تو وہاں پر اس کتاب کا نام نہیں ملتا بہرحال رہ گیا ہوگا یا وہاں معروف نہیں ہوگی۔

 بہرحال وہ فرماتے ہیں: کہ میں نے اس کا نام رکھا ہے ہدایۃ النحو ممکن ہے کوئی اعتراض کرے جناب ہدایت کرنا تو اللہ کا کام ہے بندے کا کام تو نہیں ہے؟ آپ جواب دیں گے جناب اللہ بھی جب ہدایت کرتا  ہے تو کسی سبب سے کرتا ہے  تو ہم نے یہ کتاب بھی جو کہ علم نحو کی طرف راہنمائی کا سبب بنتی ہے تو ہم نے مسبب والا نام سبب کو دیاتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بہرحال میں نے اس کا نام رکھا ہے۔

ہدایۃ النحو نام رکھنے کی وجہ

ہدایۃ النحو کیوں ؟"رجاءامید کرتے ہوئے کس کی ؟ "أن يهدي الله تعالى" کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے ہدایت فرمائے گا "الطالبين "جو طالبان علم نحو ہونگے، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ پاک میری اس کتاب کو ان کے لیے سبب قرار دے گا جو نحو سمجھنا چاہتے ہیں کہ ان کو علم نحو  کی  سمجھ آجائے ، فرماتے ہیں:

   "ورتّبته" اس کی ترتیب اس کتاب کا میرا انداز کیا ہوگا ترتیب اس کی یہ ہے۔"على مقدّمة" ایک مقدمہ ہوگا پہلا پہلا انشاءاللہ ہم شروع کریں گے مقدمہ،"وثلاثہ اقسام"  پھر اس کے بعد اس میں اول تین قسمیں ہوں گی یعنی قسم اول قسم ثانی قسم ثالث پھر ان کے درمیان ہوں گے ابواب پھر ان ابواب کے درمیان ہوں گی فصلیں" وخاتمة " اور آخر میں ایک بحث ہے بطور خاتمہ اس کو میں نے خاتمہ کا نام دیا ہے۔ تو پس گویا پوری کتاب ہدایۃ النحو کو میں نے پہلی تقسیم میں  تین حصوں پر تقسیم کیا : ایک مقدمہ اور اس کے بعد تین اقسام قسم اول قسم ثانی قسم ثالث، اور ایک خاتمہ

" بتوفيق الملك العزيز العلّام" اس کے بعد آگے شروع فرما رہے ہیں۔ مقدمہ وہ ان شاءاللہ ہم ترتیب سے اگلے درس سے اس کا آغاز کریں گے ۔وصلی اللہ علی محمد و آل محمد۔

كتاب الهداية في النحو

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله ربّ العالمين ، والعاقبة المتّقين ، والصلاة والسلام على خير خلقه سيّدنا محمّد وآله أجمعين.

أمّا بعد : فهذا مختصر مضبوط في علم النحو جمعت فيه مهمّات النحو على ترتيب الكافية ، مبوّباً ومفصّلاً بعبارة واضحة مع إيراد الأمثلة في جميع مسائلها من غير تعرّض للأدلّة والعِلَل ، لئلّا يشوّش ذهن المبتدئ عن فهم المسائل. وسمّيته بالهداية رجاء إلى أن يهدي الله تعالى به الطالبين ، ورتّبته على مقدّمة وثلاث مقالات وخاتمة بتوفيق الملك العزيز العلّام.

أمّا المقدّمة : ففي المبادئ التي يجب تقديمها ، لتوقّف المسائل عليها ففيها ثلاثة فصول.

[المقدمة]

الفصل الأوّل : النحو

علم باُصول تعرف بها أحوال أواخر الكلم الثلاث من حيث الإعراب والبناء ، وكيفيّة تركيب بعضها مع بعض. والغرض منه صيانة اللسان عن الخطأ اللفظي في كلام العرب. وموضوعه الكلمة والكلام.