درس الهدایة في النحو

درس نمبر 39: مجموع کی بحث

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مجموع کا مطلب اور مجموع کی اقسام

"اَلمَجمُوعُ اِسمٌ اَلمَجمُوعُ اِسمٌ دَلَّ عَلٰی اَحَادٍ مَقصُودَۃٍ بِحُرُوفٍ مُفرَدَۃٍ بِالتَّغَیُّرٍ مَّا اِمَّا لَفظِیٍّ اَو تَقدِیرِیٍّ" 

قسمِ اول اسم کی بحث کے خاتمے میں پانچویں فصل: جمع کے بارے، جیسے ہم نے پیچھے المثنیٰ پڑھا تھا، اب یہ ہے مجموع۔ مجموع مفعولٌ یعنی جس کو جمع کیا گیا ہو۔ 

مجموع وہ اسم ہے جو دلالت کرے ایسی اکائیوں پر جو ان حروفِ مفردہ سے مقصود تھیں لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔ کیا مطلب؟ ایک اسم تھا "مُسلِمٌ"۔ میم سین لام میم، "مُسلِمٌ"۔ ہم نے کہا کہ اس سے مراد ہے ایک مسلمان، ایک شخص۔ "زَیدٌ"، ذال یا دال یعنی "زَیدٌ" ایک زید۔ اب اس زید میں ہم کرتے ہیں کچھ تبدیلیاں۔ ان تبدیلیوں سے جو اسم بنے گا وہ بتائے گا کہ یہاں ایک زید نہیں، کئی اکائیاں ہیں۔ مثلاً ہم کبھی بنا دیتے ہیں "زَیدُونَ"۔ اسی زید کے آخر میں واو اور نون کا اضافہ کرتے ہیں تو جیسے زید کہہ رہا تھا ایک زید، جب ہم تبدیلی کر کے اس کے آخر میں واو اور نون کو لے آئے، یہ بن گیا "زَیدُونَ" تو "زَیدُونَ" کا مطلب ہے یعنی کئی اکائیاں، ایک زید نہیں، کئی زید۔ ٹھیک ہے جی۔ اب یہ جو اس کے حروف میں یا اس کے او جو مفرد ہوتا ہے جو اس کے جس کے ہم جمع بناتے ہیں، ہم اس میں کرتے ہیں کچھ تبدیلیاں۔ فرماتے ہیں یہ تغیر، یہ تبدل، یہ تبدیلی اس کے مفرد میں دو قسم کی ہوتی ہے۔ کبھی وہ تغیر لفظی ہوتا ہے باقاعدہ واضح نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے مفرد میں کس قسم کی تبدیلی کی ہے اور کبھی وہ ہوتا ہے تقدیری یعنی لفظاً نظر نہیں آتا لیکن واقع میں اس کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اس کے آگے ہم مثالیں دیں گے۔

مجموع کی اقسام

پس اس کا مطلب یہ ہوا اب تھوڑے سے روکتے ہیں آگے سمجھو، اس میں سے ایک نقطہ یہ سمجھایا کہ مجموع وہاں بولا جاتا ہے، جمع وہاں بولا جاتا ہے جہاں اس کا کوئی مفرد بھی ہو تاکہ یہ اس مفرد، اس اکائی میں کی کئی اکائیوں پر دلالت کرے۔ لہٰذا اگر کوئی ایک اسم ایسا ہے جو کئی پر دلالت کرتا ہے لیکن اگر اس کا مفرد نہیں ہے تو آپ اس کو جمع نہیں کہہ سکتے۔ اس کو جمع نہیں کہہ سکتے۔  اس کو پھر ہم اسمِ جنس کا نام دیتے ہیں اور بھی ہوتے ہیں جیسے آگے ان شاء اللہ مثال میں بتاؤں گا۔ مثلاً فصل۔ "اَلمَجمُوعُ اِسمٌ" مجموع وہ اسم ہے۔ "دَلَّ عَلٰی اَحَادٍ" جو دلالت کرے "اَحَادٍ" یعنی کئی اکائیوں پر "مَقصُودَۃٍ بِحُرُوفٍ مُفرَدَۃٍ" جو اکائیاں او حروفِ مفردہ کے ساتھ یعنی اس کے اسمائے او جو مفرد تھا، ان سے جو مقصود تھیں "بِتَغَیُّرٍ مَّا" اسی انہی مفردہ میں کوئی نہ کوئی، کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے، کچھ اس میں تغیر کر کے۔ 

اب فرماتے ہیں یہ جو تغیر ہو گا، یہ جو تبدیلی ہو گی "اِمَّا لَفظِیٌّ" یا یہ تغیر، تغیرِ لفظی ہو گا، واضح طور پر نظر آ رہا ہو گا۔ کہ اس کے لفظ میں یعنی اس میں مفرد میں کیا تبدیلی کی گئی ہے جیسے "کَرِجَالٍ فِی رَجُلٍ"۔ "رَجُلٌ" ایک مرد مفرد تھا۔ ہم نے اس کی جمع بنائی "رِجَالٌ"، کیسے؟ اسی "رَجُلٌ" میں تبدیلی کی ہے کہ "رَجُلٌ" کی جیم کے بعد ایک الف لے آئے تو "رَجُلٌ" سے بن گیا "رِجَالٌ"۔ اب یہ جو جیم کے بعد الف لائے ہیں یہ تغیرِ لفظی ہے، واضح نظر آ رہا ہے کہ اس میں تبدیلی ہوئی ہے۔ "وَ تَقدِیرِیٌّ" اور کبھی کبھی تغیر ہوتا ہے لیکن وہ لفظی نہیں ہوتا، نظر آنے والا نہیں ہوتا۔ اچھا کیوں؟ فرماتے ہیں مثال، مثالیں اس کی یہ ہیں جیسے "فُلْكٌ" جب اُسْدٌ کے وزن پر ہو گا تو یہ جمع ہو گا۔ "فُلْكٌ" لیکن اس "فُلْكٌ" میں کوئی تغیرِ لفظی نہیں ہے، وجہ؟ "فَاِنَّ مُفرَدَہُ اَیضًا فُلْكٌ" اس "فُلْكٌ" کا مفرد بھی "فُلْكٌ" ہے اور جمع بھی "فُلْكٌ" ہے۔ لہٰذا مفرد اور جمع میں لفظی لحاظ سے ہمیں کوئی تغیر نظر نہیں آ رہا لیکن تغیرِ تقدیری ہے، کیوں؟ کہ یہ "فُلْكٌ" اگر اُسْدٌ کے وزن پر ہو گا تو جمع ہو گا اور اگر قُفْلٌ کے وزن پر ہو گا تو مفرد ہو گا۔

مزید امثال

آگے فرماتے ہیں: "فَقَومٌ وَ رَهْطٌ وَ نَحوُہُ وَ اِن دَلَّ عَلٰی اَحَادٍ" یعنی کئی لفظ ایسے بھی ہمارے پاس موجود ہیں، کئی اسم ایسے بھی موجود ہیں جو متعدد اکائیوں پر دلالت کرتے ہیں یعنی جو ایک نہیں، متعدد لوگوں پر دلالت کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جمع نہیں کہلاتے، وجہ؟ اس لئے کہ ان کا کوئی مفرد نہیں ہوتا۔ جمع وقت وہیں ہو گی جس کا مفرد بھی ہو۔ پس "فَقَومٌ" یہ جو اسم ہے لفظِ قوم یا لفظِ رہط، یا اس قسم کے اور بہت سارے ہیں۔ "وَ اِن دَلَّ عَلٰی اَحَادٍ" اگرچہ یہ بھی متعدد اکائیوں پر دلالت کرتے ہیں، "لَکِنَّہُ لَیسَ بِجَمعٍ" لیکن ہم ان کو جمع نہیں کہتے، کیوں؟ اس لئے کہ ان کا کوئی "اِذَا" مفرد ہے "لَا" اس لئے کہ ان کا کوئی مفرد نہیں ہے۔

4

اسم جنس اور باقی اسماء کے ساتھ جمع

اسمِ جنس

اب فرماتے ہیں: اس طرح اور بھی بہت ہیں۔ جیسے لفظِ غنم، بقر، ابل، اب یہ جو ہیں فرماتے ہیں یہ بھی اسی طرح ہے۔ ان کو ہم جمع نہیں کہتے، کیوں؟ جب ہم کہتے ہیں: غنم، تو ایک بھیڑ بکری مراد نہیں ہوتی، متعدد۔ بقر، ایک گائے مراد نہیں ہوتی، بہت۔ ابل، ایک اونٹ نہیں، متعدد۔ تو اکائیوں پر دلالت کر دیے لیکن پھر بھی ہم ان کو جمع نہیں کہتے۔ کیوں؟ چونکہ ان کا کوئی اسمِ مفرد نہیں ہے۔ لہٰذا ہم ان کو کہتے ہیں اسمِ جنس۔ اسی طرح قوم اور رھط بھی اسی طرح ہیں چونکہ ان کا کوئی مفرد نہیں ہے، لہٰذا ہم ان کو جمع نہیں کہتے۔ کیوں؟ جمع تو وہ ہوتا ہے کہ جس کے مفرد میں تبدیلی کی جائے، جس کا کوئی مفرد ہو ہی نا، تو پھر اس میں کیا تبدیلی کریں گے؟ لہٰذا ہم ان کو جمع نہیں کہتے۔ 

 جمع کی دو اقسام: مکسر اور مصحح

اس کے بعد فرماتے ہیں جمع دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کا نام رکھا جاتا ہے جمع انہوں نے رکھا ہے جمع مصحح یعنی جمع صحیح اور ایک ہوتی ہے جمع مکسر۔ ایک کو کہتے ہیں جمع صحیح یا جمع سالم یا جمع مصحح جو بھی اس کو کہیں، مصحح صحیح سالم۔ اور ایک اس کے مقابل میں ہو گئی مکسر، مصحح یعنی صحیح وہ ہوتی ہے کہ جس کے واحد میں کوئی تبدیلی نہ ہو یعنی جو واحد جیسا تھا ویسے کا ویسا رہے، اس کے ساتھ کوئی اضافہ ہو جائے لیکن اس کے اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اور مکسر وہ ہوتا ہے کہ جس کے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تبدیلی کی جائے۔ مثال بڑی آسان سی ہم پیچھے پڑھ رہے ہیں۔ "رَجُلٌ" سے ہم نے "رِجَالٌ" بنایا تھا، ہم نے جیم کے بعد الف لایا تو اس کا مطلب ہے خود مفرد میں ہم نے کوئی تبدیلی کی ہے، لہٰذا "رَجُلٌ" اپنی اس کیفیت پر باقی نہ رہا۔ لیکن اگر ہم "مُسلِمٌ" کی جمع بناتے ہیں "مُسلِمُونَ" تو ہم دیکھیں "مُسلِمٌ" جو واحد تھا وہ اسی طرح رہا اس کو ہم نے نہیں چھیڑا، فقط اس کے بعد ہم نے تھوڑا سا اضافہ کیا ہے۔ تو یہ بن جائے گا جمع صحیح یا جمع سالم۔ 

یہ جو جمع صحیح ہوتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، بہت توجہ کے ساتھ۔ جمع صحیح یا سالم کہیں، مصحح کہیں جو بھی ہے تینوں ایک ہی بات ہے۔ اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔ یا یہ جمع صحیح مذکر ہو گا یا یہ جمع صحیح مؤنث، یا آپ کہیں کہ جمع مذکر سالم ہو گا یا جمع مؤنث سالم ہو گا یعنی جمع صحیح سالم یا جمع صحیح مذکر یا مؤنث، ان دونوں میں فرق ہے۔

 جمع مذکر سالم

جمع صحیح مذکر یا جمع مذکر سالم ہم جس کو کہتے ہیں۔ اس کی کیا علامت ہے؟ فرماتے ہیں: اسمِ جمع، وہ جمع کہ جس کے آخر میں واو اور نون ہو، واو ہو تو ماقبل مضموم اور نون مفتوحہ یا یاء ہو تو اس کا ماقبل مقصور اور نون مفتوحہ ہو تو اس کو جمع صحیح مذکر کہتے ہیں یا جمع سالم مذکر کہتے ہیں یعنی جمع مصحح مذکر کہتے ہیں۔ جمع کی تعریف آ گئی، پھر جمع کی دو قسمیں آ گئیں ایک جمع سالم ایک جمع مکسر، پھر جمع سالم کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک جمع مذکر سالم اور ایک جمع مؤنث سالم۔ فرماتے ہیں: "ثُمَّ الجَمعُ عَلٰی قِسمَینِ" جمع کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے "مُصَحَّحٌ" یعنی صحیح جس کو ہم سالم کہتے ہیں۔ "وَ هُوَ مَا لَم یَتَغَیَّر بِناءُ وَاحِدِہٖ" جس میں واحد کی بنا میں کوئی تبدیلی نہ آئے یعنی اس جمع کا جو مفرد تھا، اس مفرد کے حروف جیسے تھے ویسے کے ویسے پڑے ہیں ان میں ہم نے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کو کہتے ہیں: جمع سالم یا جمع صحیح۔ "وَ مُکَسَّرٌ" اور دوسری قسم ہے جمع مکسر۔ جمع مکسر کیا ہے؟ "هُوَ مَا یَتَغَیَّر فِیہِ بِناءُ وَاحِدِہٖ" جس میں واحد کی بنا میں تغیر آ جائے، واحد کی بنا سلامت رہے یعنی مفرد میں اس کے حروف جس ترتیب سے تھے جمع میں وہ حروف اس ترتیب سے باقی نہ رہیں۔ اس کو کہتے ہیں جمع مکسر۔ سب کی مثالیں بہت تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ یہ بیان فرمائیں گے۔ فرماتے ہیں "وَالمُصَحَّحُ عَلٰی قِسمَینِ" اب یہ جمع کی دو قسمیں ہو گئیں اب آپ نے لکھنے میں یہ یوں لکھنا ہے کہ جمع کی دو قسمیں ہیں جمع صحیح سالم اور جمع مکسر۔ ختم ہو گیا۔ تعریف لکھ دیں صحیح کسے کہتے ہیں اور مکسر کسے کہتے ہیں۔ آگے "وَالمُصَحَّحُ عَلٰی قِسمَینِ" جمع مصحح یعنی جمع صحیح یا جمع سالم کی پھر دو قسمیں ہیں۔

 جمع مصحح کی دو قسمیں

مذکر ہو گی یا جمع سالم مؤنث۔ "فَالمُذَکَّرُ" جمع مذکر سالم کونسی ہے؟ فرماتے ہیں "هُوَ مَا اُلحِقَ بِآخِرِہٖ وَاوٌ مَضمُومٌ مَّا قَبلَهَا وَ نُونٌ مَفتُوحَۃٌ"۔ جمع مذکر سالم، جمع مذکر صحیح کسے کہتے ہیں؟ آپ کا جواب، جس کے آخر میں واو اور نون ہو، نون مفتوحہ ہو اس پر زبر ہو جبکہ واو کا ماقبل مضموم ہو۔ جیسے "مُسلِمٌ" کی جمع "مُسلِمُونَ"۔ اب آپ نے دیکھا ہے "مُسلِمُونَ"، مفرد "مُسلِمٌ" تھا، ہم نے ان تین حروف کو، چار حروف کو بالکل نہیں چھیڑا بلکہ آخر میں واو ہے، واو کے ماقبل میم پر ضمہ ہے اور نون، نونِ مفتوحہ ہے "مُسلِمُونَ"۔ یہ ہے جمع مذکر سالم۔ اسی طرح "اَو یَاءٌ" یا اس کے آخر میں یا ہو تو پھر یا کا ماقبل مقصور ہو، "نُونُهُ کَذَالِکَ" نون اسی طرح مفتوحہ ہو، نون پر زبر ہو، ٹھیک ہے جی، جیسے "مُسلِمِینَ"، آخر میں یا نون ہے لیکن یا کا ماقبل مقصور ہے اور نون پر فتح ہے، "مُسلِمِینَ"۔

 جمع مذکر سالم کا کام

"لِیَدُلَّ" یہ جمع کام کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں یہ دلالت کرتی ہے "عَلٰی" کس بات پر؟ "عَلٰی اَنَّ مَعَهُ اَکثَرَ مِنهُ" کہ اس میں اس ایک کے ساتھ فقط ایک نہیں بلکہ اس جیسے کئی اور بھی ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں "مُسلِمُونَ" یا "مُسلِمِینَ" تو اس کا مطلب ہے ایک مسلمان نہیں، اس مسلمان جیسے اور بھی بہت سارے یہاں موجود ہیں۔

اسم صحیح، منقوص و مقصور کی جمع

آگے فرماتے ہیں: ایک لفظ، "هٰذَا فِی الصَّحِیحِ"۔ توجہ کے ساتھ آغا۔ یہ جو ہم نے آپ کو جمع سالم مذکر کا طریقہ بتایا ہے یہ تو وہاں تھا کہ جو اسم صحیح تھا، او جس کے آخر میں حروفِ علت میں سے کوئی نہیں تھا یہ اس کی بات تھی۔ لیکن اگر کوئی ایسا اسم ہو جو اسم کیا ہو؟ منقوص ہو۔ کیا مطلب؟ یعنی جس کے آخر میں واو یا یا ہو اور اس کا ماقبل کیا ہو؟ جس کے آخر میں یا ہو اور اس کا ماقبل مقصور ہو۔ منقوص یہی ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں: اس کا طریقہ کیا ہو گا؟ یعنی اگر کوئی اسم، اسمِ منقوص ہے جیسے "قَاضِیٌ"۔ اسمِ منقوص ہے یعنی آخر میں یا ہے اور اس کا ماقبل مقصور ہے۔ اب ہم اگر اس کا جمع بنانا چاہتے ہیں۔ تو یہ جمع کیسے بنے گا؟ اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ چونکہ یہ صحیح تو نہیں، یہ تو منقوص ہے، اس کے آخر میں کیا ہے؟ یاء ہے اور یاء  کا ماقبل مقصور ہے۔ ماقبل مقصور ہے۔ فرماتے ہیں اس کا طریقہ کار ہم آپ کو بتاتے ہیں ،  وہ یہ ہے: "اَمَّا المَنقُوصُ" باقی رہا اسمِ منقوص، اگر آپ نے اس کا جمع بنانا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہو گا؟ "فَتُحذَفُ یَاؤُہُ" اس کی آخری یاء  کو جمع میں حذف کر دیا جائے گا۔ یا کو حذف کر دیا جائے گا، جیسے "قَاضِیٌ"، قاضی کی جمع آئے گی "قَاضُونَ" یعنی اصل میں تو قاضیون ہونا تھا نا لیکن قاضیون کی بجائے کیا بن گیا؟ قاضون، یاء  کی حرکت نقل کر کے ماقبل ضاد کو دی، یا بھی ساکن واو بھی ساکن، یاء ہو جائے گی اور  التقاءِ ساکنین کی وجہ سے گر جائے گی تو یہ بن جائے گا قاضون۔  قاضی مفرد تھا، اس کی جمع ہم نے بنانی ہے قاضون، یہ کیوں؟ آپ کہیں گے چونکہ اس کی یاء گر جائے گی جمع میں، اصل میں تھا "قَاضِیُونَ"، یاء کا ضمہ نقل کر کے دیں گے ماقبل ضاد کو اس کی اپنی حرکت ختم کرنے کے بعد، یہ صرفی قانون ہے۔ پھر یا بھی ساکن واو بھی ساکن، یاء کو گرائیں گے تو یہ بن جائے گا قاضون۔ اسی طرح "دَاعُونَ" اصل میں "دَاعِوُونَ" تھا، وہاں پر بھی پہلی واو کی حرکت نقل کر کے عین کو دیں گے اس کی اپنی حرکت گرانے کے بعد، پھر اس کے بعد دو واو اکٹھی ہو گئیں ایک پہلی واو گر جائے گی یہ بن جائے گا "دَاعُونَ"۔ اچھا۔ آگے فرماتے ہیں "وَالمَقصُورُ" اگر کوئی اسم، اسمِ مقصور ہے یعنی جس کے آخر میں الفِ مقصورہ ہے اور ہم اگر اس کا جمع بنانا چاہیں تو طریقہ کار کیا ہو گا؟  "یُحذَفُ اَلِفُهُ" اسمِ مقصور کی جو الف ہے، وہ جو آخری الف ہے، اس کو حذف کر دیں گے "وَ یَبقٰی مَا قَبلَهَا مَفتُوحًا" اور اس کا جو ماقبل ہو گا اس کو مفتوح باقی رکھیں گے۔ کیوں؟ "لِیَدُلَّ عَلٰی اَلِفٍ مَحذُوفَۃٍ" یعنی اس کے پہلے والے فتح کو نہیں چھیڑیں گے، اس فتح کا باقی رہنا بتائے گا کہ یہاں سے الف کو حذف کیا گیا ہے جیسے "مُصطَفٰی" اس کے آخر میں الفِ مقصورہ تھی، ہم اگر اس کا جمع بنانا چاہیں گے تو ہم بنائیں گے "مُصطَفَونَ" یعنی فا کے فتح کو برقرار رکھیں گے، یہ بتانے کے لئے کہ اس کے بعد اصل میں الف تھی اور الف یہاں ساکن ہو جائے گی، "مُصطَفٰی" سے بن جائے گا "مُصطَفَونَ"۔ آگے ایک جملہ ہے، واو نون کے ساتھ جمع مذکر سالم بنانا فقط ذوی العقول کے ساتھ خاص ہے، "یَختَصُّ بِاُولِی العِلمِ" کیا مطلب؟ یعنی یہ جو ہم جمع مذکر بناتے ہیں واو اور نون کے ساتھ، یہ ہے فقط اور فقط یعنی جمع واو اور نون کے ساتھ جمع مذکر، جمع مذکر سالم بنانا "بِاُولِی العِلمِ، ذَوِی العِلمِ" یعنی "ذَوِی العُقُولِ" کے ساتھ خاص ہے، یہ فقط ذوی العقول کی جمع اس طرح آتی ہے۔ کسی اور کی نہیں آتی۔ آپ اشکال کریں گے کہ جناب ہم آپ کو دکھاتے ہیں جو ذوی العقول نہیں ہیں لیکن ان کی جمع بھی الف نون کے ساتھ آئی ہے جیسے "سَنَۃٌ" کی جمع "سِنُونَ"، "اَرضٌ" کی "اَرضُونَ"، یا "ثُبُونَ" یا "قُلُونَ"، فرماتے ہیں "فَشَاذٌ"، یہ خلافِ قاعدہ ہیں، یہ شاذ ہیں، یعنی یہ کسی قاعدہ قانون کی وجہ سے نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ "اَرضٌ" کی "اَرضُونَ"، زمین۔ "سَنَۃٌ"، سال۔ "ثُبُونَ"، "ثُبَۃٌ" کہتے ہیں جماعت کو۔ اسی طرح "قُلُونَ"، "قُلَّۃٌ"، یہ نہیں ہوتے؟ گلی ڈنڈے اس کو کہتے ہیں۔ بہرحال فرماتے ہیں اگرچہ ان کی جمع الف نون کے ساتھ ہے لیکن یہ خلافِ قاعدہ ہے، یہ شاذ ہے چونکہ یہ ذوی العقول نہیں ہیں۔ ٹھیک۔ خوب۔ یہاں تک بات ہو گئی کہ جمع مذکر سالم کیسے بنتا ہے۔ اب اس کے آگے اس کی بہت ساری شرائط ہیں کس کی؟ اسی جمع مذکر سالم کی کچھ شرائط ہیں۔ وہ شرائط بہت ساری ہیں میرا دل ہے کہ ان کو علیحدہ درس میں بیان کروں تو وہ بہتر ہو گا۔

وَ صَلَّی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ 

كقوله تعالى : «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» (١). وذلك لكراهيّة اجتماع التثنيتين فيما يكون اتّصالهما لفظاً ومعنىً.

فصل : المجموع : اسم ما دلّ على آحاد ، وتلك الآحاد مقصودة بحروف مفردة بتغييرٍ مّا ، لفظيّ كرجال ، جمع رجل ، أو تقديريّ كفُلْك على وزن اُسْد ، فإنّ مفرده أيضاً فُلْك لكنّه على وزن قُفْل.

فالقوم ونحوه وإن دلّ على آحاد ليس بجمع إذ لا مفرد له [ من لفظه ]. ثمّ الجمع على قسمين : مصحّح : وهو ما لم يتغيّر بناء مفرده كمُسْلِمُونَ ، ومكسّر : وهو ما يتغيّر بناء واحده وذلك نحو : رجال.

والمصحّح على قسمين : مذكّر : وهو ما لحق آخره واو مضموم ما قبلها ونون مفتوحة ك‍ : مُسْلِمُونَ ، أو ياء مكسور ما قبلها ونون كذلك ، ليدلّ على أنّ معه أكثر منه نحو : مُسْلِمينَ. هذا في الصحيح ، أمّا المنقوص فتحذف ياؤه نحو : قاضُونَ وداعُونَ ، والمقصورة يحذف ألفه ويبقى ما قبلها مفتوحاً ليدلّ على الألف المحذوف مثل مُصْطَفَونَ ، وشرطه إن كان اسماً أن يكون مذكّراً علماً لا يعقل ويختصّ باُولي العلم.

وأمّا قولهم سِنُونَ وأرَضُونَ وثُبُونَ وقُلُونَ بالواو والنون فشاذّ.

ويجب أن لا يكون أفْعَلَ مؤنّثه فَعْلاء كأحْمَر مؤنّثه حَمْراء ، ولا فَعْلان مؤنّثه فَعْلىٰ كسَكْران مؤنّثه سَكْرىٰ ، ولا فَعيل بمعنى مَفْعُول كَجريح بمعنى مَجْرُوح ، ولا فَعُول بمعنى فاعِل كصَبُور بمعنى صَابِر. ويجب حذف نون بالإضافة نحو : مُسْلِمُو مِصْر.

ومؤنّث : وهو ما اُلحق بآخره ألف وتاء. وشرطه إن كان صفة وله

____________________________

(١) المائدة : ٣٨.