درس الهدایة في النحو

درس نمبر 38: اسم کی تعریف اور مختلف اسماءکے ساتھ تثنیہ بنانے کا طریقہ

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم کی تعریف اور مختلف اسماءکے ساتھ تثنیہ بنانے کا طریقہ

فصل : المثنّى 

"اِسمٌ اُلحِقَ بِآخِرِہٖ اَلِفٌ اَو یَاءٌ مَفتُوحٌ مَا قَبلَھَا وَ نُونٌ مَکسُورَۃٌ لِیَدُلَّ عَلٰی اَنَّ مَعَہٗ آخَرَ مِثلَہٗ، نَحوُ "رَجُلَانِ" وَ "رَجُلَینِ"

 فصل اسم کے بارے میں

یہ فصل اسم کے بارے میں ہے کہ اسم جیسے مفرد ہوتے ہیں، یہ فصل ہے کہ اسم کبھی تثنیہ ہوتا ہے اور اگلی فصل ان شاء اللہ آئے گی کہ اسم کبھی جمع ہوتا ہے۔ انہوں نے اس تثنیہ اور جمع کو علیحدہ علیحدہ فصلوں میں بیان فرمایا ہے۔"المثنٰی" یعنی تثنیہ فرماتے ہیں:ایک ہوتا ہے تثنیہ اسمِ صحیح کا، ایک تثنیہ ہوتا ہے اسمِ مقصور کا۔ اور ایک تثنیہ ہوتا ہے اسمِ ممدود کا۔ اسمِ مقصور جس کے آخر میں الف ہو، کئی دفعہ بتایا جیسے حُبلٰی۔ اسمِ ممدود جس کے آخر میں مد ہو جیسے "حَمرَاءُ" اور ایک ہوتا ہے اسمِ صحیح جس کے آخر میں یہ الفِ مقصورہ یا الفِ ممدودہ نہ ہو۔ فرماتے ہیں: اگر کوئی اسم صحیح ہے تو اس اسمِ صحیح کا تثنیہ کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں: پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ تثنیہ کسے کہتے ہیں؟ آپ جواب میں کہیں گے:  تثنیہ وہ اسم ہے جو دلالت کرتا ہے کہ یہاں ایک فرد نہیں بلکہ اسی جیسا ایک اور بھی اس کے ساتھ ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں "رَجُلَانِ" دو مرد، تو یہ بتاتا ہے "رَجُلَانِ" کہ ایک مرد نہیں، اسی مرد جیسا ایک اور مرد بھی اس کے ساتھ ہے۔ تثنیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ بتائے کہ مفرد جو ہوتا ہے وہ ایک نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک اور بھی ہے۔ 

 تثنیہ کیسے بنتا ہے؟

 فرماتے ہیں:  تثنیہ یہ ہوتا ہے کہ ہر وہ اسم جس کے آخر میں الف، نون اور یاء، نون ہو، الف اور یاء  کا ماقبل مفتوح ہو یعنی اس پر زبر ہو اور جو نون ہے آخر میں اس پر کسرہ ہو، یہ ہوتا ہے تثنیہ۔ میں ذرا کتاب کی ترتیب سے ہٹ کر آپ کے لئے آسان کر رہا ہوں۔ یعنی آپ پہلے یوں کہیں گے کہ تثنیہ کیا ہے؟ تثنیہ وہ اسم ہوتا ہے جو یہ دلالت کرتا ہے کہ یہاں ایک فرد نہیں بلکہ اس کے ساتھ اسی جیسا ایک اور بھی ہے۔اب فرماتے ہیں: وہ اسم جس کا تثنیہ ہونا ہے، جس کے دو ہونے ہیں، یا وہ صحیح ہو گا یا مقصور ہو گا یا ممدود ہو گا۔ یہ جو ہم نے ابھی بیان کیا ہے یہ ہے اسمِ صحیح کا تثنیہ۔ اسمِ صحیح کا تثنیہ کیسے ہوتا ہے؟ آپ جواب دیں گے کہ جس کے آخر میں الف نون یا یاء نون ہو لیکن دو خصوصیات اور بھی ہوں، کون سی؟ الف اور یاء کا ماقبل مفتوح ہو اور خود نون پر کسرہ ہو، جیسے ہم کہتے ہیں "رَجُلَانِ"۔ آخر میں الف نون ہے، "رَجُلَانِ" الف کا ماقبل لام مفتوح ہے اور آخر میں جو نون ہے تثنیہ کی اس پر کسرہ ہے "رَجُلَانِ"۔ یا اس کو پڑھتے ہیں بعض صورتوں میں اعرابی حالت میں "رَجُلَینِ"۔ جب "رَجُلَینِ" پڑھیں گے تو آخر میں یاء نون ہے "رَجُلَینِ" یا کا ماقبل لام پر بھی فتح ہے اور اس نون پر بھی کسرہ ہے جو شرائط ہم نے اوپر بیان کی ہیں، یہ ہوتا ہے تثنیہ۔لیکن جیسے میں نے پہلے گزارش کی، یہ تثنیہ ہے صحیح کا۔

 اسم مقصور کا تثنیہ

لیکن اگر کوئی اسم، اسمِ مقصور ہو جس کے آخر میں الفِ مقصورہ آتی ہے، تو الفِ مقصورہ کے بارے میں اس کے تثنیہ کا طریقہ کار کیا ہو گا؟  فرماتے ہیں یہ جو الفِ مقصورہ ہے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ الفِ مقصورہ اس کی اپنی اصلی الف ہے یا کسی اور حرف سے تبدیل ہو کر یہ الف بنی ہوئی ہے۔ بہت ترتیب سے چلنا ہے اس کو آرام سے لکھنا ہے پھر بات سمجھ آئے گی۔ کہ اگر اسمِ مقصور ہو اور اس میں اسمِ مقصور جیسے مفرد ہوتا ہے ظاہر ہے اس کا تثنیہ بھی ہوتا ہے، اس کا جمع بھی ہوتا ہے۔ اسمِ مقصور جس کے آخر میں الف ہو، تو اب پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ الف اس کی اپنی ہے یا کسی اور سے تبدیل ہو کر یہ الف بنی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا۔ اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ ثلاثی میں سے ہے یا حروفِ اصلی اس کے تین ہیں یعنی ثلاثی ہے یا اس سے زائد ہے۔ کیوں؟ ہر ایک کا حکم مختلف ہے۔  اب آپ اس کو اگر یوں کریں، اگر کوئی اسم، اسمِ مقصور ہو اور اس کی الف واو سے تبدیل شدہ ہو یعنی اصلی اس کی الف نہ ہو بلکہ کسی اور حرف یعنی واو سے تبدیل ہو کر وہ الف بنی ہو اور ہو بھی وہ ثلاثی میں سے یعنی اس کے حروفِ اصلی بھی تین ہوں، پھر تثنیہ میں وہ اپنے اصل کی طرف پلٹ جائے گی۔ کیا؟ وہ اس کی واو بھی واپس آ جائے گی اور آخر میں الف نون آ جائے گی جیسے لفظ ہے "عَصَا"، اصل میں "عَصَوَ" تھا، واو سے یہ الف بنی ہے تو اس کا مطلب ہے الف اس کی واو سے تبدیل شدہ ہے اصلی نہیں ہے اور پھر "عَصَوَ" ہے بھی ثلاثی کا یعنی اس کے اصل حرف تین ہیں تو جب اس کا تثنیہ بنائیں گے تو اس کی اصل حروف واپس آ جائیں گے تو "عَصَا" کے تثنیہ میں ہم کہیں گے "عَصَوَانِ"۔ وہ واو جو اس کی اصلی تھی جو بعد میں الف بن گئی تھی وہ بھی واپس آ گئی، ہم نے اس کے بعد الف اور نون کو لے آئے، یہ بن جائے گا اس کا تثنیہ۔ اگر وہ واو الف سے تبدیل ہوئی تھی۔ 

اسم مقصور کے تثنیہ کی دوسری صورت

 اگر اسم، اسمِ مقصور ہو اور اس کی جو الف ہے وہ ہو واو یا یاء سے تبدیل ہوئی ہو، اس کی وہ الف واو یا یاء سے تبدیل ہوئی ہو، ایک، اور ہو بھی ثلاثی سے زائد یعنی اس کے تین حرف اصلی جو اس کے اصلی حروف ہیں وہ تین حرف نہ ہوں، مثلاً رباعی کا ہو یا ثلاثی مزید فیہ ہو یا جو بھی ہے، بس اگر کوئی اسمِ مقصور ہے جو ثلاثی سے زائد ہے، اس کی الف یا یا واو سے تبدیل ہوئی ہے، ایک۔ یا اس کی الف کسی چیز سے تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اپنی ہے تو اس الف کو بھی یا میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس کو یا میں تبدیل کر دیا جائے گا جیسے "رَحٰی"، اب "رَحٰی" کو ہم کیا پڑھتے ہیں؟ "رَحٰی" کا ہم تثنیہ پڑھتے ہیں "رَحَیَانِ"، "مَلھٰی"، تو اب اس کے حروف جو ہیں تین سے زائد ہیں حروف، اس کو پڑھیں گے "مَلھَیَانِ"، "حُبَارٰی"، اس کو پڑھیں گے "حُبَارَیَانِ" چونکہ اس کی یا اپنی اصلی ہے۔

 اسم ممدود کا تثنیہ

اور اگر وہ اسم مقصور نہ ہو بلکہ ممدود ہو، اس کے آخر میں الفِ ممدودہ ہو جیسے "حَمرَاءُ" ہوتا ہے، تو اب پھر دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ اس کی الفِ ممدود یعنی اس کا جو ہمزہ ہے وہ اصلی ہے یا یہ آیا ہے تانیث کے لئے۔ اگر وہ ہو گا اصلی تو تثنیہ میں بھی اس کو باقی رہیں گے جیسے "قُرَّاءٌ"، اس کا تثنیہ آئے گا "قُرَّاءَانِ"۔ لیکن اگر اس کا ہمزہ وہ اسمِ ممدود کا ہمزہ تانیث کے لئے ہو گا تو پھر وہ واو میں تبدیل ہو جائے گا، ہے اصلی لیکن ہے تانیث کے لئے، جیسے "حَمرَاءُ"، تو اس کا ہم جب تثنیہ بنائیں گے تو کرائیں گے "حَمرَاوَانِ" یعنی وہ الفِ ممدودہ واو میں تبدیل ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ ہمزہ اصلِ وا ویا یاء کا بدل ہو یعنی وہ واو یا یاء سے تبدیل ہو کر آیا ہے اصلیہ نہیں ہے، پھر آپ کی مرضی چاہیں تو اس ہمزے کو باقی رکھیں، چاہیں تو اس کی اصل حرف جو تھا اس کو واپس لے آئیں، لہٰذا "کِسَاءٌ" کی جمع میں آپ تثنیہ "کِسَاءَانِ" بھی پڑھ سکتے ہیں اور "کِسَاوَاتِ" جو اصل واو تھی اس کو بھی واپس لا سکتے ہیں، یہ جائز ہے۔

4

تثنیہ کے دوسرے احکام اور تطبیق

 تطبیق

"فَصلٌ": یہ چوتھی فصل ہے خاتمہ کی یعنی اسم کے مختلف احکام کے بارے میں چوتھی فصل ہے وہ ہے تثنیہ کے بارے۔ "اَلمُثَنّٰی" تثنیہ، مثنٰی وہ اسم ہے "اُلحِقَ بِآخِرِہٖ اَلِفٌ اَو یَاءٌ" جس کے آخر میں الف یا یاء ملحق کی گئی ہو، "مَفتُوحٌ مَا قَبلَھَا" جس کا ماقبل مفتوح ہو "وَ نُونٌ مَکسُورَۃٌ" اور ایک نونِ مکسورہ ہو، یہ لفظی ترجمہ ہو گیا۔ المثنٰی یعنی تثنیہ کیا ہے، آپ کہیں گے تثنیہ وہ اسم ہے جس کے آخر میں الف نون یا یاء اورنون ہو لیکن الف اور یاء  کا ماقبل مفتوح ہو اور نون پر کسرہ ہو۔ یہ اسم، الف نون یا یاء اور نون کے ساتھ یہ تثنیہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسم کے آخر میں یہ کیوں لگایا جاتا ہے؟ اصل اسم تو ہے "رَجُلٌ"، ہم اس کے آخر میں الف نون یا یاء نون کیوں لگاتے ہیں؟ "لِیَدُلَّ" تاکہ یہ اسمِ مثنٰی دلالت کرے "عَلٰی اَنَّ مَعَہٗ آخَر" کہ اس کے ساتھ اسی جیسا ایک اور بھی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "رَجُلَانِ"۔ ایک دفعہ ہوتا ہے "رَجُلٌ" ایک مرد، لیکن جب کہتے ہیں "رَجُلَانِ"، یہ دلالت کرتا ہے کہ مرد ایک نہیں، ایک مرد کے ساتھ اسی جیسا ایک اور مرد بھی ہے۔ یہ ہو گئی الف نون کی مثال اور "رَجُلَینِ" یہ ہو گئی یا اور نون کی مثال، شرائط پوری ہیں کہ الف اور یا سے پہلے لام مفتوح بھی ہے اور دونوں میں "رَجُلَانِ" و "رَجُلَینِ" نون مکسورہ بھی ہے۔ یہ اعرابی حالت ہم پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ "رَجُلَانِ" تثنیہ کی صورت ہے اور "رَجُلَینِ" جو ہے وہ نصب اور جر کی صورت ہے۔ 

"ھٰذَا فِی الصَّحِیحِ" یہ تو تھا اسمِ صحیح کا تثنیہ جیسے میں نے ابتداء میں کہا، اب اس کو یاد رکھیں گے تو یہاں پھر آسان ہو جائے گا۔ "وَاَمَّا المَقصُورُ" لیکن اگر ہم ایک اسم کے تثنیہ، ایک اسم کا تثنیہ کرتے ہیں یہ ایک ایسا مثنٰی ہے کہ جو مقصور ہے جس کے آخر میں الفِ مقصورہ ہے۔ اب الفِ مقصورہ ہے تو پہلے خود اس الف کے بارے میں دیکھیں گے، کیا؟ "فَاِن کَانَت اَلِفُہٗ مُنقَلِبَۃً عَن وَاوٍ" اگر وہ الف کسی واو سے تبدیل شدہ ہے یعنی اس کی واو یعنی اس کی الف اصلی نہیں ہے بلکہ وہ واو سے تبدیل شدہ ہے، ایک۔ "وَ کَانَ ثُلَاثِیًّا" اور وہ ہے بھی اصل میں ثلاثی یعنی تین حرفی، یہ دو شرائط ہوں، الفِ، جو اسم مقصور ہو، اگر اس کی الف واو سے تبدیل شدہ ہو، ایک اور ہو بھی ثلاثی میں سے، دو۔ "رُدَّ اِلٰی اَصلِہٖ" تثنیہ میں اس کو اس کی اصل کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے یعنی اس کی واو تثنیہ میں واپس آ جاتی ہے جیسے "عَصَا" کا تثنیہ آتا ہے "عَصَوَانِ" اس لئے کہ "عَصَا" کے آخر میں جو الف ہے یہ "عَصَوَ" تھا اصل میں، واو سے تبدیل شدہ ہے۔ 

"وَ اِن کَانَت عَن یَاءٍ اَو وَاوٍ" ہے تو الفِ مقصورہ لیکن وہ الفِ مقصورہ وا یا یا سے تبدیل شدہ ہے اور وہ ہے بھی ثلاثی سے زیادہ یعنی اس کے حروفِ اصلی تین نہیں ہیں بلکہ تین سے زائد ہیں، ایک۔ "اَو لَیسَت مُنقَلِبَۃً عَن شَیئٍ" یا نہیں اس کی وہ الف، الفِ اصلی ہے کسی شے سے تبدیل شدہ نہیں ہے، الفِ مقصورہ اس کی اپنی ہے تو فرماتے ہیں "تُقلَبُ یَاءً" جب اس کا تثنیہ بنائیں گے تو یہ الف یاء میں تبدیل ہو جائے گی، یہ الف یا میں تبدیل ہو جائے گی،  جیسے رَحٰی سے "رَحَیَینِ"، مَلحٰی سے "مَلحَیَانِ"، حُبَارٰی سے "حُبَارَیَانِ"، حُبلٰی سے "حُبلَیَانِ"۔  اب رَحٰی یہ کسی سے تبدیل شدہ نہیں ہے، یہ ہے تو ثلاثی لیکن اس کی جو الف ہے وہ اس کی اپنی ہے، رَحٰی سے اس کو ہم پڑھیں گے تثنیہ میں "رَحَیَانِ"، "رَحَیَینِ"۔

"وَاَمَّا المَمدُودُ" لیکن اگر وہ اسم ممدود ہو یعنی اس کے آخر میں الفِ ممدودہ ہو وہ جس کو ہم الف مدّا کہتے ہیں۔ "فَاِن کَانَت ھَمزَتُہٗ اَصلِیَّۃً" اگر تو اس کا ہمزہ جس پر مد ہے اگر وہ اصلی ہے "تُثبَتُ" اس کو باقی رکھیں گے اس کو تبدیل نہیں کریں گے تثنیہ میں باقی رہے گا کا "قُرَّاءَانِ فِی قُرَّاءٍ" یعنی "قُرَّاءٌ" کا تثنیہ آئے گا "قُرَّاءَانِ" اس لئے کہ ہمزہ اس کا اپنا ہے۔ "وَ اِن کَانَت لِلتَّانِیثِ" اور اگر وہ ہمزہ آیا ہے تانیث کے لئے "قُلِبَت وَاوًا" تو اس ہمزہ کو واو کے ساتھ تبدیل کر دیں گے جیسے "حَمرَاءُ"، تو یہاں آخر میں جو ہمزہ یہ تانیث کے لئے ہے تو ہم اس کو تثنیہ میں کہیں گے "حَمرَاوَانِ"، "حَمرَاوَینِ"۔ "وَ اِن کَانَت بَدَلًا مِن اَصلٍ" لیکن اگر وہ ہمزہ اصلِ وا یا یا سے تبدیل شدہ ہو یعنی اصلی نہیں ہے بلکہ کسی وا یا یا سے تبدیل ہو کر آیا ہے "جَازَ فِیہِ الوَجہَانِ" اس میں دونوں وجہیں جائز ہیں، دونوں وجہ جائز کا مطلب کیا ہے؟ یعنی دونوں وجہ جائز کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کو اصل کی طرف پلٹا دیں آپ کی مرضی، اس کو باقی رکھیں آپ کی مرضی، جیسے "کِسَاءٌ" کے تثنیہ میں آپ "کِسَاءَانِ" کہیں تو بھی جائز ہے اور "کِسَاوَانِ" کہیں تو بھی جائز ہے۔ آخر میں اگر کوئی پوچھے کہ جناب "کِسَاءٌ" اصل میں کیا تھا، بتا دینا "کِسَاءٌ" اصل میں "کِسَاوٌ" تھا تو اسی لئے اس کے تثنیہ میں "کِسَاءَانِ" پڑھنا بھی جائز ہے اور "کِسَاوَانِ" پڑھنا بھی جائز ہے۔ "کِسَاءٌ" سے "کِسَاوٌ" سے "کِسَاءٌ" کیسے بنا، یہ صرفی باتیں ہیں ان شاء اللہ میر میں بتا چکے ہیں اور آگے اس میں صرفِ سادہ میں بھی یہ یہ تعلیلیں ہوتی ہیں یہ ان شاء اللہ بتائیں گے کہ ایک حرف دوسرے حرف سے کیسے تبدیل ہوتا ہے۔

تثنیہ کے دوسرے احکام

آخر میں ایک چھوٹا سا پیرا اس سے مربوط ہے وہ یہ ہے بلکہ دو چھوٹے چھوٹے پیرے ہیں ظاہراً۔ ایک یہ ہے کہ جب بھی ہم اس تثنیہ کو کسی دوسرے اسم کی طرف مضاف کریں گے یا یوں کہیں کہ اس کا حکم یہ ہے کہ جب بھی ہم کسی تثنیہ کو دوسرے اسم کی طرف مضاف کرتے ہیں اس وقت اس کی نونِ تثنیہ گر جاتی ہے، اس کی نونِ تثنیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ "یَجِبُ حَذفُ نُونِہٖ" یعنی تثنیہ کی نون کو حذف کرنا واجب ہوتا ہے کب؟ "عِندَ الاِضَافَۃِ" اضافت کے وقت، کیا؟ یعنی جب بھی آپ کسی اسمِ مثنٰی کو کسی اور اسم کی طرف مضاف کرتے ہیں وہاں اس کی نونِ تثنیہ چاہے وہ الف نون ہو یا یا نون ہو نونِ تثنیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ہم کہیں گے "جَاءَنِی غُلَامَا زَیدٍ"، اصل میں "غُلَامَانِ" تھا کہ میرے پاس آئے زید کے دو غلام، اب یہاں نونِ تثنیہ گر گئی۔ یا "جَاءَنِی مُسلِمَا مِصرٍ"، اصل میں تھا "مُسلِمَانِ" لیکن نونِ تثنیہ گر گئی "مُسلِمَا مِصرٍ"۔  اسی طرح ایک اور حکم، فرماتے ہیں اگر کسی اسم میں تاءِ تانیث موجود ہو، تاءِ تانیث تو جب اس اسم کا ہم تثنیہ بنائیں گے تو تثنیہ میں وہ تاءِ تانیث حذف ہو جاتی ہے، یعنی اگر ایک اسم ہے آگے مثالیں آ رہی ہیں، اس اسم کے اصل میں ایک تاءِ تانیث موجود ہے لیکن جب اسی اسم کا تثنیہ بنائیں گے یعنی مفرد میں تاءِ تانیث موجود ہے لیکن جب تثنیہ بنائیں گے اس وقت اس کی وہ تاءِ تانیث حذف کر دی جاتی ہے۔ جیسے "خُصیَۃٌ"، اس میں تاءِ تانیث ہے لیکن جب اس کا تثنیہ بنائیں گے یہاں تاءِ تانیث حذف ہو جائے گی اور یہ بن جائے گا "خُصیَیَانِ"۔ اس طرح "اَلیَۃٌ" کا بن جائے گا "اَلَیَانِ" یعنی "خُصیَتَانِ" یا "اَلَیَتَانِ" نہیں کہنا بلکہ یہاں پر وہ جو تا تھی تاءِ تانیث والی وہ گر جائے گی۔ کیوں؟ "لِاَنَّھُمَا مُتَلَازِمَانِ فَکَاَنَّھُمَا شَیءٌ وَّاحِدٌ"۔ اچھا جی۔ کیوں؟ فرماتے ہیں اس لئے چونکہ یہ جو تا ہے یہ ہر فرد چونکہ اس کے ہر فرد میں یہ یا یوں کہیں کہ یہ اس کو تانیث اس کو لازم ہے، متلازم ہیں بمعنیٰ ایک عضوِ واحد۔ چونکہ خُصیہ اکیلا نہیں ہوتا ہمیشہ خُصیتان، خُصیان ہوتا ہے یا الیان جو ہے یہ الیۃ اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ یہ دونوں ایک دوسرے کو متلازم ہیں، متلازم بمعنیٰ کہ  گویا کہ یہ ایک اسم ہیں۔ بس جب شئ واحد ہیں، ایک واحد کے تثنیہ میں جیسے صحیح میں ہم الف نون یا نون لاتے ہیں تو پھر ان کے تثنیہ میں بھی الف نون اور یا نون لائیں گے لہٰذا خُصیان اور الیان پڑھیں گے خُصیتان یا الیتان کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  چونکہ اگر ہم خُصیتان یا الیتان پڑھیں گے ایک اور بات یہ کتاب میں نہیں ہے اس کو لکھ لیں، تو اس کا مطلب ہو گا کہ یہ دو چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ حالانکہ یہ دو ایک دوسرے کے ساتھ اس انداز میں ایک دوسرے کو متلازم اور اکٹھی ہوتی ہیں کہ بمنزلِ شے واحد کے ہیں اور ہم بھی ان کو یہی بتانا چاہتے ہیں۔

آگے فرماتے ہیں: ایک اور حکم، وہ حکم یہ ہے تثنیہ کا کہ اگر آپ ایک اسمِ مثنٰی کو دوسرے اسمِ مثنٰی کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ اگر ہم ایک اسمِ مثنٰی کو یعنی ایک تثنیہ کو دوسرے اسمِ مثنٰی، دوسرے تثنیہ کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں تو طریقہ کار کیا ہو گا؟ فرماتے ہیں: اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پھر پہلے تثنیہ کو پہلے اسمِ مثنٰی کو جمع کے لفظ کے ساتھ تعبیر کریں، ہے اگرچہ تثنیہ لیکن اس کے لئے لفظِ جمع اس کے ساتھ لے آئیں، کیوں؟ اس لئے تاکہ دو تثنیوں کا اجتماع ناپسند ہے، یہ درست نہیں ہے جبکہ ان کے درمیان اتصال ہونا چاہئے لفظاً بھی اور معناً بھی۔ مثلاً تھوڑی اس کی وضاحت کرتا ہوں مثال دیں گے تو پھر آپ کو واضح سمجھ آ جائے گی۔ مثلاً "وَاعلَم اَنَّہٗ اِذَا اُرِیدَ اِضَافَۃُ مُثَنًّی اِلٰی مُثَنًّی" کہ اگر ایک اسمِ مثنٰی کو دوسرے اسمِ مثنٰی کی طرف، ایک تثنیہ کو دوسرے تثنیہ کی طرف اگر اضافت کا ارادہ کیا جائے کہ ہم اس کو اس کی طرف مضاف کریں، یعنی مضاف بھی تثنیہ اور مضاف الیہ بھی تثنیہ تو اس کا حکم یہ ہے "یُعَبَّرُ عَنِ الاَوَّلِ" جو پہلا اسمِ مثنٰی ہو گا، جو پہلا تثنیہ ہو گا اس کو تعبیر کیا جائے گا "بِلَفظِ الجَمعِ" لفظِ جمع کے ساتھ یعنی اس کا وہ جو اسم تثنیہ والا ہے مثنٰی اس کے لئے صیغہ تثنیہ کا نہیں بلکہ اس کے لئے صیغہ جمع کا لایا جائے گا۔ جیسے قرآن مجید کی آیت ہے "فَقَد صَغَت قُلُوبُکُمَا" تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے، اب قلوب، واقع میں تو ان کا قلبان تھا یا قلبین جو بھی اس کو پڑھیں گے، دو دل تھے اور آگے جس کی طرف مضاف کرنا تھا وہ بھی کما ہے، وہ بھی تثنیہ ہے تو اب اس وجہ سے پہلے تثنیے کو یعنی قلبان یا قلبین کو قلوب میں بلکہ قلبان ہونا چاہئے، میں قلوب جو جمع کا لفظ ہے اس طرح تعبیر کیا گیا اور کہا گیا "فَقَد صَغَت قُلُوبُکُمَا" بجائے اس کے کہ کہیں "قَلبَاکُمَا"۔ اسی طرح "فَاقطَعُوا اَیدِیَھُمَا" تم کاٹو ان دونوں کے دونوں ہاتھوں کو، ہاتھ دو سے زیادہ تو ہوتے نہیں لیکن "فَاقطَعُوا" ید کا یدان آتا ہے تثنیہ لیکن یہاں تثنیہ نہیں بلکہ اس کے لئے لفظِ جمع استعمال ہوا ہے، ید کی جمع آتی ہے اَیدٍ تو یہاں پہلا جمع ہے اور دوسرا جو مضاف الیہ ہے وہ ھما رکھا گیا ہے، "فَاقطَعُوا اَیدِیَھُمَا"۔ کیوں کہ ایک تثنیے کو جب دوسرے کی طرف مضاف کرتے ہیں تو پہلے کو جمع کے لفظ کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں، وجہ؟ "لِکَرَاہَۃِ اجتِمَاعِ تَثنِیَتَینِ" اس لئے کہ دو تثنیوں کا جمع ہونا ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے، کہاں پر؟ "فِیمَا تُؤَکَّدُ الاِتِّصَالُ بَینَھُمَا" یعنی اس مقام پر کہ جہاں پر ان دونوں کے درمیان اتصال کی تاکید کی گئی ہے لفظاً بھی اور معناً بھی کہ ان کے درمیان اتصال لفظی بھی ہو اور معناً بھی ہو، پس اگر ایسے ہو تو یہاں پر فرماتے ہیں مکروہ ہے ایسے دو تثنیوں کا اکٹھے لانا لہٰذا اس لئے ناپسندیدہ ہے لہٰذا ایک تثنیہ کو لفظِ جمع کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔

  وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ

فصل : الاسم إمّا مذكّر وإمّا مؤنّث ، والمؤنّث ما فيه علامة التأنيث لفظاً أو تقديراً والمذكّر هو ما بخلافه.

وعلامة التأنيث ثلاثة : التاء كطَلْحَة ، والألف المقصورة كحُبلىٰ ، والممدودة كحَمْراء وصَفْراء. والمقدّر إنّما هو التاء فقط كأرْض ودار ، بدليل ارَيْضَة ودُوَيْرَة ، ثمّ المؤنّث على قسمين :

[اقسام المونث‏]

حقيقيّ : وهو ما بازائه حيوان مذكّر كامرأة وناقة.

ولفظيّ : وهو مجازيّ بخلافه كظلْمَة وعَيْن. وقد عرفت أحكام الفعل إذا اُسند إلى المؤنّث فلا نعيدها.

فصل : المثنّى : اسم ما اُلحق بآخره ألفٌ أو ياءٌ مفتوح ما قبلها ونون مكسورة ليدلّ على أنّ معه آخر مثله نحو : رَجُلانِ رفعاً ، ورَجُلَيْنِ نصباً وجرّاً ، هذا في الصحيح.

أمّا في المقصور : فإن كان الألف منقلبة عن الواو وكان ثلاثيّاً ردّ إلى أصله ك‍ : عَصَوان في عَصا.

وإن كانت عن ياء ، أو عن واو ، وكانت أكثر من الثلاثي ، أو ليس منقلبة عن شيء تقلب ياء ك‍ : رَحَيانِ ومَلْهَيانِ وحُبارَيان.

وأمّا الممدودة : فإن كانت همزته أصليّة كقُرّاء تثبت ك‍ : قُرّاءان ، وإن كانت للتأنيث تقلب واواً كحَمْراوان ، وإن كانت بدلاً من واو أو ياء من الأصل جاز فيه الوجهان ك‍ : كساوانِ وكَساءان ، ورَداوان ورداءان.

ويجب حذف نونه عند الإضافة تقول : جاءَ غُلاما زَيْدٍ.

ويحذف تاء التأنيث في الخصية والإلية خاصّة تقول : خُصْيانِ وإلْيانِ لأنّهما متلازمان فكأنّهما تثنية شيءٍ واحد لا زوج.

واعلم أنّه إذا اُريد إضافة المثنّى إلى المثنّى يعبّر عن الأوّل بلفظ الجمع

كقوله تعالى : «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» (١). وذلك لكراهيّة اجتماع التثنيتين فيما يكون اتّصالهما لفظاً ومعنىً.

فصل : المجموع : اسم ما دلّ على آحاد ، وتلك الآحاد مقصودة بحروف مفردة بتغييرٍ مّا ، لفظيّ كرجال ، جمع رجل ، أو تقديريّ كفُلْك على وزن اُسْد ، فإنّ مفرده أيضاً فُلْك لكنّه على وزن قُفْل.

فالقوم ونحوه وإن دلّ على آحاد ليس بجمع إذ لا مفرد له [ من لفظه ]. ثمّ الجمع على قسمين : مصحّح : وهو ما لم يتغيّر بناء مفرده كمُسْلِمُونَ ، ومكسّر : وهو ما يتغيّر بناء واحده وذلك نحو : رجال.

والمصحّح على قسمين : مذكّر : وهو ما لحق آخره واو مضموم ما قبلها ونون مفتوحة ك‍ : مُسْلِمُونَ ، أو ياء مكسور ما قبلها ونون كذلك ، ليدلّ على أنّ معه أكثر منه نحو : مُسْلِمينَ. هذا في الصحيح ، أمّا المنقوص فتحذف ياؤه نحو : قاضُونَ وداعُونَ ، والمقصورة يحذف ألفه ويبقى ما قبلها مفتوحاً ليدلّ على الألف المحذوف مثل مُصْطَفَونَ ، وشرطه إن كان اسماً أن يكون مذكّراً علماً لا يعقل ويختصّ باُولي العلم.

وأمّا قولهم سِنُونَ وأرَضُونَ وثُبُونَ وقُلُونَ بالواو والنون فشاذّ.

ويجب أن لا يكون أفْعَلَ مؤنّثه فَعْلاء كأحْمَر مؤنّثه حَمْراء ، ولا فَعْلان مؤنّثه فَعْلىٰ كسَكْران مؤنّثه سَكْرىٰ ، ولا فَعيل بمعنى مَفْعُول كَجريح بمعنى مَجْرُوح ، ولا فَعُول بمعنى فاعِل كصَبُور بمعنى صَابِر. ويجب حذف نون بالإضافة نحو : مُسْلِمُو مِصْر.

ومؤنّث : وهو ما اُلحق بآخره ألف وتاء. وشرطه إن كان صفة وله

____________________________

(١) المائدة : ٣٨.