درس الهدایة في النحو

درس نمبر 37: اسم مذکر اور مونث کی بحث

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم مونث اور اس کی اقسام

فَصْلٌ

"أَلْإِسْمُ إِمَّا مُذَكَّرٌ وَ إِمَّا مُؤَنَّثٌ" اسم کی بحث کے خاتمہ میں فصول میں سے تقریباً تیسری فصل ہے کہ اسم یا مذکر ہو گا یا مؤنث۔ کیسے تشخیص دیں گے کہ کون سا اسم مذکر ہے اور کون سا اسم مؤنث ہے؟ بالکل انہوں نے آسان سی ایک چیز سمجھا دی۔ فرماتے ہیں:  جس اسم میں علاماتِ تانیث پائی جائیں، وہ مؤنث ہو گا اور جس میں ان میں سے کوئی علامت نہ ہو، اس کو اسمِ مذکر کہتے ہیں۔ 

 علاماتِ تانیث کی اقسام

جناب علاماتِ تانیث کون کون سی ہیں؟ فرماتے ہیں، تین علاماتِ تانیث لفظی ہیں کہ جو باقاعدہ لفظ میں، تحریر میں موجود ہوتی ہیں اور ایک علامت اس کی مقدرہ ہے۔جو تین علاماتِ تانیث لفظی ہیں وہ تو بڑی واضح۔ یا اسم کے آخر میں تاءِ تانیث موجود ہو گی، ایک:  یا الفِ مقصورہ موجود ہو گی، دو:  یا الفِ ممدودہ موجود ہو گی، تین:  یہ تین تو ہو گئیں لفظی کہ باقاعدہ اس اسم کے آخر میں ان تین میں سے کوئی ایک لفظاً موجود ہوتی ہے۔ پس ان میں سے اگر کوئی ایک ہو گی تو بھی وہ اسم مؤنث کہلائے گا۔

علامتِ مقدرہ کی وضاحت

اور ایک علامت جو  ترتیب میں بن جائے گی چوتھی، وہ ہوتی ہے علامتِ مقدرہ۔ وہ کیسے؟ کہ آپ اس اسم کی تصغیر نکالیں۔ جیسے ہم "رَجُلٌ" کی نکالتے ہیں "رُجَیْلٌ"۔ تو جب تصغیر نکالتے ہیں تو وہ کوئی بھی اسم ہو اس کے جتنے بھی اصلی حروف ہوتے ہیں وہ اس میں واپس آ جاتے ہیں۔ جب اس کو "فُعَیْلٌ" کے وزن پر کرتے ہیں تو تمام اصلی حروف اس کے واپس آ جاتے ہیں۔ اب فرماتے ہیں:  یہاں بھی یہی ہے کہ اگر کسی اسم کی تصغیر نکالتے ہیں اور اس کی تصغیر میں تا واپس آ جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے یہ تا اس کی اصلی تھی لہذا یہ اسم مؤنث ہے۔ پس ان چار یعنی تین علاماتِ لفظی اور ایک علامت ہو گئی ہے وہی تا لیکن وہ لفظی نہیں بلکہ تاءِ مقدرہ۔ ان کے علاوہ، یعنی جن میں یہ علامات ہوں گی وہ اسم مؤنث کہلائے گا اور جس جس اسم میں ان علامات میں سے کوئی موجود نہ ہو گی وہ مذکر کہلاتا ہے۔ یہ ہو گیا اسم کی تقسیم بلحاظ مذکر اور مؤنث۔ 

 مؤنث کی اقسام: حقیقی اور لفظی

اگلا پیرا علیحدہ ہے۔ وہ کیا ہے؟ کہ یہ جو مؤنث ہوتا ہے، اس مؤنث کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک ہوتا ہے مؤنثِ حقیقی، ایک ہوتا ہے مؤنثِ غیر حقیقی یعنی مؤنثِ لفظی۔ مؤنثِ حقیقی وہ ہوتا ہے جس کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر ہو۔ جیسے "اِمْرَأَةٌ" کے مقابل میں "رَجُلٌ" ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے "اِمْرَأَةٌ" مؤنث، مقابل میں "رَجُلٌ" حیوانِ مذکر ہے تو یہ ہو جائے گا مؤنثِ حقیقی۔ اور دوسرا ہوتا ہے مؤنثِ لفظی، مؤنثِ غیر حقیقی کہ جو فقط لفظوں کی حد تک اس میں چونکہ علامتِ تانیث موجود ہوتی ہے تو لہذا وہ لفظاً مؤنث ہوتا ہے حقیقتاً نہیں ہوتا۔ جیسے "ظُلْمَةٌ"۔

 فعل کا فاعل مؤنث کے ساتھ استعمال

اب اس مؤنث کو جب کسی فعل کی طرف اسناد کیا جاتا ہے او یعنی ہم نے پیچھے پڑھا ہے کہ اگر مؤنث کہ اگر فاعل مؤنث حقیقی ہو تو فعل کو کیسے لایا جاتا ہے؟ مؤنث غیر حقیقی ہو، لفظی ہو تو فعل کو کیسے ذکر کیا جاتا ہے؟ یہ فرماتے ہیں چونکہ ہم بتا چکے ہیں ہم اعادہ نہیں کرتے۔ ہم آپ کو زبانی ویسے بتا دیتے ہیں کہ اگر فاعل مؤنثِ حقیقی ہو، فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ بھی نہ ہو، وہاں فعل کو مؤنث ذکر کرنا واجب ہے۔ جیسے "جَاءَتِ الْمَرْأَةُ"۔ اس لیے کہ "اِمْرَأَةٌ" یہ حیوان، یہ مؤنثِ حقیقی ہے۔ لہذا اس کے لیے فعل بھی "جَاءَتْ" کا لانا واجب ہے۔ اگر فاعل مؤنثِ حقیقی نہ ہو تو وہاں آپ کو اجازت ہے، کیا اجازت ہے؟ چاہیں تو فعل کو مؤنث لائیں، چاہیں تو فعل کو مذکر لائیں۔ اس کی بڑی مشہور مثال دیتے رہتے ہیں کہ "طَلَعَ الشَّمْسُ" کہیں تو بھی جائز ہے "طَلَعَتِ الشَّمْسُ" کہو تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح اگر فاعل مؤنثِ حقیقی ہے لیکن اس فاعل اور اس کے فعل کے درمیان کوئی فاصلہ آ گیا ہے، پھر بھی فعل کو مؤنث بھی لا سکتے ہیں اور مذکر بھی لا سکتے ہیں۔ اس کی مشہور مثال وہی دیتے ہیں کہ "ضَرَبَتِ الْیَوْمَ هِنْدٌ" کہیں تو بھی جائز ہے چونکہ "هِنْدٌ" فاعل مؤنثِ حقیقی اور "ضَرَبَتْ" کے درمیان "اَلْیَوْمَ" کا فاصلہ ہے۔ اور "ضَرَبَ الْیَوْمَ هِنْدٌ" کہیں تو بھی جائز ہے چونکہ "اَلْیَوْمَ" فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ ہے۔

4

اسم مذکر اور مونث کی بحث

 متن کا ترجمہ اور وضاحت

 اس کا ترجمہ کر لیں پھر آگے تثنیہ شروع کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، "فَصْلٌ" "أَلْإِسْمُ إِمَّا مُذَكَّرٌ وَ إِمَّا مُؤَنَّثٌ" اسم کے خاتمے میں جو اسم کی بحث تھی اس میں اسم کی ایک اور تقسیم ہے۔ وہ تقسیم یہ ہے کہ کوئی بھی اسم ہو یا وہ مذکر ہو گا یا وہ مؤنث ہو گا۔  پہچان کیا ہے؟ فرماتے ہیں: ان کی پہچان یہ ہے، "وَالْمُؤَنَّثُ مَا فِیْهِ عَلَامَاتُ التَّأْنِیْثِ" مؤنث وہ ہوتا ہے جس میں کوئی علامتِ تانیث پائی جائے چاہے وہ علامتِ تانیث لفظاً موجود ہو چاہے وہ تقدیراً ہو۔ میں نے آپ کو آسان گزارش کی تھی کہ یہ جو علاماتِ تانیث ہیں، یہ تین ہیں، ان میں سے کبھی یہ لفظاً موجود ہوتی ہیں تحریر میں اور کبھی یہ مقدرہ ہوتی ہیں۔ خوب یہ تو ہو گئی مؤنث کے لیے۔ "وَالْمُذَكَّرُ بِخِلَافِهِ" لیکن جس اسم میں ان علاماتِ تانیث میں سے کوئی علامت موجود نہ ہو گی وہ مذکر کہلائے گا۔سوال: جناب وہ علاماتِ تانیث کونسی ہیں تا کہ ہم اس اسم میں تلاش کریں کہ کیا یہ اسم مذکر ہے یا مؤنث؟ فرماتے ہیں، "عَلَامَةُ التَّأْنِيْثِ ثَلَاثَةٌ" علاماتِ تانیث تین ہیں۔ تانیث کی علامتیں تین۔ کونسی؟ پہلی ہے "اَلتَّاءُ" تاء، جیسے کہتے ہیں "طَلْحَةٌ" اب یہاں پر دیکھو نا آخر میں تا ہے۔ "اِمْرَأَةٌ" آخر میں تا ہے۔ "ظُلْمَةٌ" آخر میں تا ہے۔ دوسری ہے "وَالْأَلِفُ الْمَقْصُوْرَةُ" یا اس کے آخر میں علامت یہ ہے کہ اس میں الفِ مقصورہ ہو اور جس کو ہم اردو میں کھڑی زبر کہتے ہیں۔ جیسے "حُبْلَىٰ" اب اس کے آخر میں الفِ مقصورہ ہے۔ اور تیسری علامت ہے "وَالْأَلِفُ الْمَمْدُوْدَةُ" جس میں الف ہو مد والی۔ اور الف مدا جس کو ہم کہتے ہیں۔ جیسے "حَمْرَاءُ" یعنی اس کے آخر میں الف کھڑی زبر نہیں ہے بلکہ اس کے آخر میں مد ہے، "حَمْرَاءُ"۔  یہ تو ہو گئی تین علاماتِ تانیث لفظی۔ "وَالْمُقَدَّرَةُ" تو علامتِ تانیث تقدیری کونسی ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں "إِنَّمَا هُوَ التَّاءُ" وہ بھی تا ہوتی ہے۔ تو پس آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان تین علامات میں سے جو تاء ہے، کبھی یہ لفظاً موجود ہوتی ہے اور کبھی یہ تقدیراً ہوتی ہے، واقع میں ہوتی ہے لیکن لفظاً میں موجود نہیں آتی۔ تو گویا اس لحاظ سے اگر پڑھیں گے تو علامتیں فقط تین بن جائیں گی۔ اس کی کوئی مثال؟ فرماتے ہیں جیسے "كَأَرْضٍ" جیسے لفظِ "أَرْضٍ" ہے۔ اب ہم ظاہری طور پر لفظِ "أَرْضٍ" میں نہ کوئی تا ہے، نہ کوئی الفِ مقصورہ ہے، نہ کوئی الفِ ممدودہ ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں: ہم پھر بھی اس کو کہتے ہیں یہ مؤنث ہے۔ اس طرح لفظِ دار، "دَارٌ" یہ "دَارٌ" ظاہری طور پر تو اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کو مؤنث بنا رہی ہو لیکن یہ مؤنث ہیں کیوں؟ اس لیے "بِدَلِيْلِ أُرَيْضَةٍ وَ دُوَيْرَةٍ" کہ جب ہم نے اسی "أَرْضٍ" اور "دَارٌ" کے تصغیر نکالی ہے، قانون یہ ہے کہ تصغیر میں ہمیشہ اصلی حروف واپس آ جاتے ہیں۔ جب "أَرْضٍ" کی تصغیر نکالتے ہیں تو وہ بنتی ہے "أُرَيْضَةٍ" اور "دَارٌ" کی نکالتے ہیں تو وہ بنتی ہے "دُوَيْرَةٍ"۔ تو پس یہاں سے پتہ چلا کہ تا اصل میں تھی اب تھی تو پس یہ "أَرْضٍ" بھی مؤنث ہے اور "دَارٌ" بھی مؤنث ہے۔ "ثُمَّ الْمُؤَنَّثُ عَلَىٰ قِسْمَيْنِ" مؤنث کی دو قسمیں ہیں۔ "حَقِيْقِيٍّ وَ لَفْظِيٍّ" ایک مؤنثِ حقیقی ہوتا ہے اور ایک مؤنثِ لفظی ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں مؤنثِ حقیقی کونسا ہوتا ہے؟ "هُوَ مَا بِإِزَائِهِ ذَكَرٌ مِنَ الْحَيَوَانِ" مؤنثِ حقیقی وہ ہے کہ جس کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر ہو۔ یعنی کوئی جاندار مذکر ہو۔ جیسے "اِمْرَأَةٌ"، اس کے مقابل میں آ گیا "رَجُلٌ"۔ "نَاقَةٌ" اس کے مقابل میں آ جائے گا "جَمَلٌ"۔ خوب۔ مؤنثِ غیر حقیقی وہ ہوتا ہے کہ جس کے مقابل میں "وَاللَّفْظِيٍّ" مؤنثِ لفظی، "هُوَ مَا بِخِلَافِهِ" مؤنثِ لفظی وہ ہوتا ہے کہ جس کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر نہ ہو۔ "كَظُلْمَةٍ وَ عَيْنٍ"۔ "ظُلْمَةٌ" کہتے ہیں اندھیرے کو۔ اب "ظُلْمَةٌ" کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر نہیں ہے۔ شمسٌ کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر نہیں ہے۔ "عَيْنٌ" کے مقابل میں کوئی حیوانِ مذکر نہیں ہے۔ آگے فرماتے ہیں : "وَقَدْ عَرَفْتَ أَحْكَامَ الْفِعْلِ إِذَا أُسْنِدَ إِلَى الْمُؤَنَّثِ" جب فعل کو کسی مؤنث کی طرف اسناد کیا جاتا ہے، یعنی جب فعل کا فاعل کوئی مؤنث ہو تو فعل کو کیسا لایا جاتا ہے؟ یہ احکام پیچھے بیان کر چکے ہیں ہم دوبارہ نہیں بتاتے۔ میں نے آپ کو یہ بھی گزارش کر دی ہے کہ جب فاعل مؤنثِ حقیقی ہوگا، فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ نہ ہو گا تو فعل کو مؤنث ذکر کرنا واجب ہے۔  "ضَرَبَتْ هِنْدٌ" کہیں گے، "ضَرَبَ هِنْدٌ" نہیں۔ لیکن اگر فاعل مؤنثِ غیر حقیقی ہو، فعل کو مؤنث بھی لا سکتے ہیں اور مذکر بھی۔ جیسے "طَلَعَ الشَّمْسُ" کہیں تو بھی ٹھیک ہے "طَلَعَتِ الشَّمْسُ" کہیں تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح بے شک فعل کا فاعل مؤنثِ حقیقی ہو لیکن اگر فاعل اور فعل کے درمیان کوئی فاصلہ آ جائے پھر بھی جائز ہے کہ آپ فعل کو مذکر ذکر کریں یا فعل کو مؤنث ذکر کریں۔ جیسے "ضَرَبَتِ الْیَوْمَ هِنْدٌ" کہیں تو بھی درست ہے اور "ضَرَبَ الْیَوْمَ هِنْدٌ" کہیں تو بھی درست ہے اس     لیے کہ درمیان میں "اَلْیَوْمَ" کا فاصلہ آ گیا ہے۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِيْنَ

فصل : الاسم إمّا مذكّر وإمّا مؤنّث ، والمؤنّث ما فيه علامة التأنيث لفظاً أو تقديراً والمذكّر هو ما بخلافه.

وعلامة التأنيث ثلاثة : التاء كطَلْحَة ، والألف المقصورة كحُبلىٰ ، والممدودة كحَمْراء وصَفْراء. والمقدّر إنّما هو التاء فقط كأرْض ودار ، بدليل ارَيْضَة ودُوَيْرَة ، ثمّ المؤنّث على قسمين :

[اقسام المونث‏]

حقيقيّ : وهو ما بازائه حيوان مذكّر كامرأة وناقة.

ولفظيّ : وهو مجازيّ بخلافه كظلْمَة وعَيْن. وقد عرفت أحكام الفعل إذا اُسند إلى المؤنّث فلا نعيدها.

فصل : المثنّى : اسم ما اُلحق بآخره ألفٌ أو ياءٌ مفتوح ما قبلها ونون مكسورة ليدلّ على أنّ معه آخر مثله نحو : رَجُلانِ رفعاً ، ورَجُلَيْنِ نصباً وجرّاً ، هذا في الصحيح.

أمّا في المقصور : فإن كان الألف منقلبة عن الواو وكان ثلاثيّاً ردّ إلى أصله ك‍ : عَصَوان في عَصا.

وإن كانت عن ياء ، أو عن واو ، وكانت أكثر من الثلاثي ، أو ليس منقلبة عن شيء تقلب ياء ك‍ : رَحَيانِ ومَلْهَيانِ وحُبارَيان.

وأمّا الممدودة : فإن كانت همزته أصليّة كقُرّاء تثبت ك‍ : قُرّاءان ، وإن كانت للتأنيث تقلب واواً كحَمْراوان ، وإن كانت بدلاً من واو أو ياء من الأصل جاز فيه الوجهان ك‍ : كساوانِ وكَساءان ، ورَداوان ورداءان.

ويجب حذف نونه عند الإضافة تقول : جاءَ غُلاما زَيْدٍ.

ويحذف تاء التأنيث في الخصية والإلية خاصّة تقول : خُصْيانِ وإلْيانِ لأنّهما متلازمان فكأنّهما تثنية شيءٍ واحد لا زوج.

واعلم أنّه إذا اُريد إضافة المثنّى إلى المثنّى يعبّر عن الأوّل بلفظ الجمع