درس الهدایة في النحو

درس نمبر 36: اعداد کی مکمل بحث

 
1

خطبه

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسماء عدد کی تعریف اور ان کے استعمال کا طریقہ

"فَصْلٌ أَسْمَاءُ الْعَدَدِ مَا وُضِعَ لِيَدُلَّ عَلَىٰ كَمِّيَّةِ آحَادِ الْأَشْيَاءِ وَأُصُولُ الْعَدَدِ اثْنَتَا عَشْرَةَ كَلِمَةً"  پہلی فصل تھی کہ اسم یا معرفہ ہوگا یا نکرہ ہوگا۔ فصل ثانی ہے کہ کچھ اسماء ایسے ہیں جو عدد کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ ان کو کہا جاتا ہے "أَسْمَاءُ الْأَعْدَادِ"۔ یعنی اس کا کام ہوتا ہے تعداد کو بیان کرنا۔ مثلاً انہوں نے جو تعریف کی ہے: "مَا وُضِعَ لِيَدُلَّ عَلَىٰ كَمِّيَّةِ آحَادِ الْأَشْيَاءِ" یعنی اسماء عدد وہ ہوتے ہیں جن کو وضع کیا گیا ہے، جن کو بنانے والے نے بنایا ہے تاکہ وہ چیزوں کی اکائیوں کی تعداد پر دلالت کریں۔

تعریف اسم عدد

 ہم اردو میں کہتے ہیں: میرے پاس پانچ کتابیں ہیں۔ یہ جو لفظ پانچ ہے، یہ لفظ پانچ بتا رہا ہے کہ تعداد کی پانچ یعنی کتاب کی پانچ اکائیاں ہیں۔ پانچ کتابیں کا مطلب کیا ہے؟ یعنی ایک کتاب، دوسری، تیسری، چوتھی۔ بجائے اس کے کہ ایک ایک کر کے ان کو بیان کیا جاتا اور بتایا کہ پانچ کتاب، یعنی ایک طریقہ یہ تھا، ایک کتاب ہے میرے پاس، ایک ہے، پانچ دفعہ کہتا تو پھر پانچ۔ لیکن واضع نے اس کے لیے لفظ پانچ کو وضع کر دیا ہے۔ یہ پانچ بتاتا ہے کہ ان کتاب کی اکائیاں کتنی ہیں؟ یعنی پانچ ہیں۔ دس یعنی دس اکائیاں۔ تین یعنی تین اکائیاں۔ آٹھ یعنی آٹھ اکائیاں۔ یہ ہو گیا اردو میں۔ اسی طرح فرماتے ہیں: عربی میں جب کہا جاتا ہے کہ "أَرْبَعٌ" تو اس کا مطلب ہوتا ہے فلاں شئ کی چار اکائیاں ہیں۔ تو بجائے ایک ہی چیز کو چار دفعہ ایک ایک کر کے ذکر کرے، لفظ "أَرْبَعٌ" یعنی اسم "أَرْبَعٌ" کو جب کہتا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ اس کا مطلب ہے اس چیز کی جو تعداد ہے، اکائیوں کی تعداد ہے، کمیت ہے، وہ چار ہے۔  پس اسم عدد، یعنی اسماء جمع اسم کی ہوئی۔ اسم عدد کیا ہوتا ہے؟ یعنی اسم عدد چیز کی اکائیوں کی تعداد پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تو ہو گئی اس کی تعریف۔

اصول عدد

اسماء عدد کتنے ہیں؟  آپ جواب میں کہیں گے، اسماء عدد کے اصول، جو بنیاد ہیں، وہ تو ہیں بارہ۔ باقی پھر جتنے بھی ہوتے ہیں وہ انہی سے نکلتے ہیں یعنی انہی کو مرکب کرتے ہیں تو ایک اور عدد بن جاتا ہے۔ ان کی اصل بنیاد یہی بارہ ہے۔  "وَاحِدٌ، اِثْنَانِ، ثَلَاثَةٌ، أَرْبَعَةٌ، خَمْسَةٌ، سِتَّةٌ، سَبْعَةٌ، ثَمَانِيَةٌ، تِسْعَةٌ" اور "عَشَرَةٌ"۔ دس یہ ہو گئے، "مِائَةٌ" یعنی سو اور "أَلْفٌ" یعنی ہزار۔ دو یہ ہو گئے، بارہ۔ تو بس ان اسماء عدد کے جو بنیاد ہے، جو اصول ہے، وہ تو ہیں یہ بارہ اسم۔ "وَاحِدٌ، اِثْنَانِ، ثَلَاثَةٌ، أَرْبَعَةٌ، خَمْسَةٌ، سِتَّةٌ، سَبْعَةٌ، ثَمَانِيَةٌ، تِسْعَةٌ، عَشَرَةٌ"۔ یہ ہو گئے دس۔ "مِائَةٌ" یعنی سو اور "أَلْفٌ" یعنی ہزار۔ یہ ہو گئے بارہ، باقی اب جتنے بھی عدد ہوں گے وہ سارے انہی سے نکلیں گے، ان سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ عشر، پھر آگے بیس کے لیے عشرون آجائے گا، تیس کے لیے ثلاثون آجائے گا، چالیس کے لیے اربعون آجائے گا، پچاس کے لیے خمسون آجائے گا، ساٹھ کے لیے ستون، ستر کے لیے سبعون، اسی کے لیے ثمانون، نوے کے لیے تسعون۔ سو تو ویسے ہی علیحدہ وہ تو اصول میں شامل ہے۔ان عشرون، ثلاثون، اربعون، ستون ان کو عقود بھی کہتے ہیں، کیا کہتے ہیں؟ عقود۔

اسماء عدد کے استعمال کا طریقہ

اب باقی اس کو استعمال کا طریقہ آگے یہ سارا جو صفحہ دو صفحے ہیں یہ درحقیقت طریقے ہیں۔ طریقے آغا جان یہ ہیں میں آپ کو سمجھا دوں۔ کہ یا آپ مذکر کی تعداد بتانا چاہتے ہیں یا آپ مؤنث کی تعداد بتانا چاہتے ہیں۔ جس کے بارے میں بتانا ہوگا یا وہ مؤنث ہوگا یا مذکر ہوگا۔ اب ظاہر ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز تو نہیں ہے۔ اب ان کو مذکر بتانا ہو تو عدد کو کس طرح عربی میں لکھنا ہے، لے آنا ہے یا بیان کرنا ہے اور اگر کسی مؤنث کی تعداد بیان کرنی ہو تو اس کے لیے عدد کو کس طرح بیان کیا جائے گا۔ کیوں؟ فرماتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ جس کے بارے میں بیان کرنا چاہتے ہیں وہ ایک شے ہے، وہ دو ہیں، وہ تین ہیں یا کیا ہیں؟ یا وہ گیارہ بارہ ہے یا وہ سو ہے یا وہ ہزار ہے، وہ مذکر ہے، وہ مؤنث ہے۔ اگلے پورے دو صفحے جو ہیں وہ سارے درحقیقت اس چیز کو بیان کرنے میں لکھے ہیں کہ اگر آپ کسی مذکر کی تعداد بیان کرنی ہے تو عدد اس طرح ہوگا اور اگر مؤنث کی تعداد بیان کرنی ہے تو عدد اس طرح ہوگا۔ کیوں؟ چونکہ یہ عدد تین سے لے کر آخر تک یہ عدد تعداد مبہم ہے۔ میں کہتا ہوں: میرے پاس تین ہیں، میرے پاس چار ہیں۔ تو اب یہ مبہم ہے، یہ تین ہے یا چار ہے؟ تو اب اس ابہام کو رفع کرنے کے لیے ہمیں ایک تمیز درکار ہے جو بتائے کہ اس تین سے مراد کیا تھی؟ اس چار سے مراد کیا تھی؟ تو اس کو کہتے ہیں ممیز یعنی جو بھی عدد ہوگا۔ جو بعد میں آئے گی وہ ہوگا، وہ ہوگی تمیز۔ یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہو جائے گا عدد، جس کو بیان کرنا ہے وہ ہو جائے گا معدود۔ وہ معدود یا تمیز مذکر بھی ہوتی ہے اور مؤنث بھی ہوتی ہے۔ اب کون سے عدد کا معدود کس طرح سے بیان کرنا ہے؟ کون سے ممیز کی تمیز کس طرح سے بیان کرنی ہے؟ یہ اگلے دو صفحے سارے اس کے استعمال کے بارے میں ہیں۔ ہم اس کو ترجمے میں ایک ایک کر کے آرام آرام سے پڑھتے ہیں اور اس میں کوئی یعنی بحثیں نہیں ہیں فقط سمجھا رہے ہیں کہ ان کو استعمال کس طرح کرنا ہے، لکھنا یا بیان کس طرح کرنا ہے۔

فصل: اسماء عدد کا استعمال

یہ خاتمہ کی دوسری فصل ہے، اسماء عدد کے بارے میں۔ اسماء عدد کیا مطلب اس کا؟ عدد کے اسماء، اسماء جمع اسم کی یعنی اسم عدد کیا ہے؟ "مَا وُضِعَ لِيَدُلَّ" یعنی جن کو وضع کیا گیا ہو، بنانے والے نے بنایا ہو تاکہ یہ دلالت کریں۔ "عَلَى كَمِّيَّةِ أَحَادِ الْأَشْيَاءِ"۔ یعنی چیزوں کی اکائیوں کی کمیت پر دلالت کریں، چیزوں کی اکائیوں کی تعداد کو بیان کریں۔ مثلاً یہ اسم ہے اربع یا اردو میں اسم ہے چار۔ یہ چار بتاتا ہے کہ اس شئ کی کتنی اکائیاں ہیں؟  "وَأُصُولُ الْعَدَدِ اثْنَتَا عَشْرَةَ كَلِمَةً"۔ اصول عدد، جو بنیادی اسمائے عدد ہیں، وہ ہیں بارہ۔ اس کے علاوہ باقی جتنے بھی ہیں وہ انہی سے نکلتے ہیں، انہی سے مل کر بنتے ہیں۔ اصل جو بنیادی ہیں وہ یہی بارہ ہیں۔ کون کون سے؟ "وَاحِدَةٌ إِلَى عَشَرَةٍ"۔ کیا مطلب؟ یعنی واحد، ایک، اثنان، دو، ثلاث، تین، اربع، چار، خمسہ، پانچ، ستہ، چھ، سبعہ، سات، ثمانیہ، آٹھ، تسعہ، نو، عشرہ، دس۔ دس اسم تو ہو گئے یہ۔ اور گیارہواں ہے "مِائَةٌ" یعنی سو، اور بارہواں ہے "أَلْفٌ" یعنی ہزار۔ تو پس ان کو کہا جاتا ہے اصول عدد، بنیاد یہی ہے باقی گویا سارے فروع ہیں وہ انہی سے ہی نکلتے ہیں۔ یعنی گویا گیارہ سے لے کر ننانوے تک وہ بھی انہی سے نکلتے ہیں۔ اصول یہی ہیں، اسی واحد اور عشر تک جو ہیں پہلے دس میں۔

اعداد ۱ اور ۲ کا استعمال

اب جیسے میں نے گزارش کی آگے سارے ان کے استعمال کے طریقے ہیں۔ اب "اسْتِعْمَالُهُ مِنْ وَاحِدٍ إِلَى اثْنَيْنِ عَلَى الْقِيَاسِ"۔ واحد اور اثنین۔ اس کا استعمال تو ہوتا ہے قانون کے مطابق۔ کیا مطلب قیاس کے مطابق؟ یعنی اگر مذکر کو بیان کرنا ہے تو واحد اثنین کو بغیر تاء  تانیث کے استعمال کریں گے۔ اور اگر مؤنث کی تعداد کو بیان کرنا ہے تو ان کے ساتھ تاء  تانیث کو لگا کر بیان کریں گے۔ مثلاً، "تَقُولُ فِي رَجُلٍ" اگر ایک مرد ہے تو آپ کہیں گے "رَجُلٌ وَاحِدٌ"۔ اب واحد کے ساتھ "تَا" نہیں لگانی۔ لیکن دو ہیں تو آپ کہیں گے "رَجُلَيْنِ اثْنَانِ"۔ یعنی ایک کے لیے آپ "وَاحِدٌ" کہیں گے اگر مذکر کی تعداد بیان کرنی ہے۔ دو کے لیے "اثْنَانِ" کہیں گے اگر وہ دونوں مذکر ہیں۔ "وَفِي امْرَأَةٍ" اگر عورت ہے یعنی مؤنث ہے تو آپ کہیں گے "وَاحِدَةٌ" اور دو ہیں تو آپ کہیں گے "اثْنَتَانِ"۔ یعنی "رَجُلٌ وَاحِدٌ"، "رَجُلَانِ اثْنَانِ" یا "امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ"۔ یعنی "وَاحِدَةٌ" کہیں گے چونکہ عورت ایک ہے یا کہیں گے "اثْنَتَانِ" "تَا" کے ساتھ یا "ثِنْتَانِ" اس سے فرق نہیں پڑتا یہ دونوں تثنیہ کے لیے آتی ہیں لیکن یہ "تَاء" کے ساتھ آتی ہیں کہ جب آپ کسی مؤنث کی تعداد کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔  یعنی اگر ایک اور دو، واحد اور اثنین، اگر مذکر کی تعداد کو بیان کرنا ہے تو بغیر تائے تانیث کے اور اگر مؤنث کی تعداد کو بیان کرنا ہے تو تاء  تانیث کے ساتھ ذکر کریں گے۔

4

3 سے 10 اور 11 سے 19کا استعمال

تین سے دس تک ان اعداد کو استعمال کا طریقہ

اب اگر آپ بیان کرنا چاہتے ہیں مذکر یا مؤنث کی تعداد لیکن وہ تعداد ہے تین سے لے کر دس تک۔ تو اب طریقہ کیا ہوگا؟ اگر وہ مذکر ہے معدود، وہ جس کی تعداد بیان کرنی ہے، تو عدد کو مؤنث لائیں گے یعنی "تَاء" کے ساتھ لائیں گے۔ اور اگر معدود مؤنث ہے تو عدد کو مذکر لائیں گے۔ یعنی تین سے دس تک ان اعداد کو استعمال کا طریقہ کیا ہے؟ کہ اگر ان کا معدود مذکر ہوگا تو عدد "تَاء" کے ساتھ ہوگا یعنی عدد مؤنث ہوگا۔ اور اگر ان کا معدود مؤنث ہوگا تو عدد کو مذکر لائیں گے بغیر "تَاء" کے۔ فرماتے ہیں "وَمِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَى عَشَرَةٍ" تین سے لے کر دس تک ان کے استعمال کا طریقہ کیا ہے؟ وہ ہے "عَلَى خِلَافِ الْقِيَاسِ"۔ یعنی قاعدے کے خلاف۔ کیا مطلب خلاف قیاس؟ خلاف قیاس کا مطلب ہے یعنی "أَعْنِي لِلْمُذَكَّرِ بِالتَّاءِ" یعنی اگر معدود مذکر ہوگا تو عدد کو "تَاء" کے ساتھ یعنی عدد کو مؤنث ذکر کریں گے جیسے "ثَلَاثَةُ رِجَالٍ"۔ اب دیکھو رجال یہ مذکر ہے تو عدد ثلاثہ "تَاء" کے ساتھ ہے۔ "ثَلَاثَةُ رِجَالٍ"، "أَرْبَعَةُ رِجَالٍ"، "خَمْسَةُ رِجَالٍ"، "سِتَّةُ رِجَالٍ"، "سَبْعَةُ رِجَالٍ"، "ثَمَانِيَةُ رِجَالٍ"، "تِسْعَةُ رِجَالٍ"، "عَشَرَةُ رِجَالٍ"۔ اب یوں پڑھیں گے۔ "وَلِلْمُؤَنَّثِ" لیکن اگر معدود مؤنث ہے تو پھر عدد کو "بِدُونِهَا" بغیر "تَاء" کے یعنی پھر عدد کو مذکر لائیں گے۔ یعنی آپ کہیں گے "ثَلَاثُ نِسْوَةٍ" تین عورتیں۔ "ثَلَاثُ نِسْوَةٍ"، "أَرْبَعُ نِسْوَةٍ"، "خَمْسُ نِسْوَةٍ"، "سِتُّ نِسْوَةٍ"، "سَبْعُ نِسْوَةٍ" اور "ثَمَانُ نِسْوَةٍ"، "تِسْعُ نِسْوَةٍ" سے لے کر "عَشْرُ نِسْوَةٍ" یعنی دس عورتیں۔    یعنی اگر ایک اور دو ہے تو مذکر معدود کے لیے عدد مذکر، معدود مؤنث کے لیے عدد مؤنث اور تین سے لے کر دس تک استعمال کا طریقہ کیا ہے؟ اگر معدود مذکر ہوگا تو عدد کو "تَاء" کے ساتھ مؤنث لائیں گے۔ اگر معدود مؤنث ہوگا تو عدد کو "تَاء" کے ساتھ مذکر لائیں گے۔ یہ ہوگیا ان کا طریقہ۔  یہ تو ہوگیا کہاں تک؟ دس تک۔

 اعداد ۱۱ سے ۱۹ کا استعمال

اب فرماتے ہیں: "وَبَعْدَ الْعَشَرَةِ" اگر گیارہ اور بارہ کی تعداد بتانی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟  اب گیارہ کے لیے ظاہر ہے عدد کی دو جزیں ہیں۔ ایک ہوگا "أَحَدٌ" یعنی ایک اور ایک ہوگا "عَشَرَ" یعنی دس۔ دس اور ایک ملائیں گے تو گیارہ ہوں گے۔ تو عدد کی دو جزیں ہیں ایک یعنی پہلی جز اور ایک دوسری جز۔ اب یہاں پھر سمجھنا ہے۔ اگر گیارہ اور بارہ ہے۔ تو اس کا طریقہ کار یہ ہوگا۔ "عَشَرَةٌ" کے بعد۔ "أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا"۔ اگر معدود مذکر ہے تو آپ عدد کے دونوں جزوں کو مذکر لائیں گے یعنی "أَحَدَ عَشَرَ" بغیر "تَا" کے، نہ "أَحَدٌ" کے ساتھ "تَاء" لگانی ہے اور نہ ہی "عَشَرَ" کے ساتھ۔ اسی طرح اگر معدود مذکر ہے تو بارہ کا حکم بھی یہی ہوگا یعنی "اِثْنَا عَشَرَ رَجُلًا" بارہ مرد۔ اب "اِثْنَا" بھی بغیر "تَا" کے ہے اور "عَشَرَ" بھی بغیر "تَا" کے۔ یہ ہوگیا گیارہ اور بارہ۔ لیکن جوں ہی تیرہ پر جائیں گے پھر ترتیب بدل جائے گی۔ تیرہ سے لے کر ننانوے تک، تیرہ سے لے کر ننانوے تک کیا ہوگا؟ کہ تیرہ سے ننانوے تک اگر معدود مذکر ہوگا تو عدد کے پہلی جز مؤنث ہوگی۔ جیسے "ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا"۔ اب "رَجُلٌ" چونکہ مذکر ہے تو عدد ہے "ثَلَاثَةَ عَشَرَ" تیرہ۔ اب عدد کی پہلی جز "ثَلَاثَةَ" کو "تَا" کے ساتھ مؤنث ذکر کیا ہے جبکہ "عَشَرَ" کو مذکر۔ اب تیرہ سے لے کر "إِلَى تِسْعَةَ عَشَرَ" انیس تک یہی حکم ہوگا۔ "تِسْعَةَ" ننانوے نہیں، "تِسْعَةَ عَشَرَ" سے مراد کیا ہے یعنی انیس۔ "ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا"، "أَرْبَعَةَ عَشَرَ رَجُلًا"، "خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلًا"، "سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلًا"، "سَبْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا"، "ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا" اور "تِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا"۔ تیرہ سے لے کر انیس تک عدد کی پہلی جز مؤنث ہے اور دوسری مذکر ہے۔ خوب یہ کہاں تھا؟ کہ جہاں معدود مذکر تھا۔ اب آگے آئیں۔ اگر معدود مؤنث ہو تو فرماتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر گیارہ ہے تو عدد کے دونوں جز مؤنث لائیں گے "اِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً" بارہ عورتیں۔ "اِثْنَتَا عَشَرَةَ امْرَأَةً" بارہ عورتیں۔ یہاں عدد کے دونوں جز مؤنث ذکر کر دیے۔ لیکن جب ہم پہنچیں گے تیرہ پر پھر تیرہ سے لے کر انیس تک، وہ پچھلی قسم کا الٹ ہوجائے گا۔ جب معدود مذکر تھا تو عدد کی پہلی جز کو مؤنث لائے تھے اور دوسری کو مذکر۔ لیکن جب معدود یا تمییز مؤنث ہوگی اس کا الٹ ہوگا کہ یہاں عدد کی پہلی جز کو مذکر لائیں گے اور دوسری جز کو مؤنث۔ پس ہم کہیں گے "ثَلَاثَ عَشَرَةَ امْرَأَةً" گیارہ، تیرہ عورتیں۔ "أَرْبَعَ عَشَرَةَ"، "خَمْسَ عَشَرَةَ"، "سِتَّ عَشَرَةَ"، "سَبْعَ عَشَرَةَ"، "ثَمَانِيَ عَشَرَةَ" الی آخر لے کر "تِسْعَ عَشَرَةَ امْرَأَةً" انیس عورتوں تک۔ یعنی ایک دو کس طرح استعمال کرنا ہے، تین سے دس تک کس طرح لے آنا ہے۔ بہت غور رکھنا ہے کہ ان کو جو ان کا معدود ہے اس لحاظ سے انہوں نے جو تبدیلیاں آنی ہیں وہ آنی ہیں کہ معدود مذکر ہے یا مؤنث۔ اب گیارہ سے لے کر انیس تک کی بات ہوگئی کلیئر۔

5

عقود(20 30 40...)اور 21 سے 99 کا استعمال

عقود کی بحث

اب اگر تعداد بیس ہو فرماتے ہیں پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ چاہے معدود مذکر ہو چاہے معدود مؤنث ہو آپ نے ایک ہی طریقے پر استعمال کرنا ہے مثلاً "عِشْرُونَ رَجُلًا" یا بیس مرد یا "عِشْرُونَ امْرَأَةً" بیس عورتیں۔ اب فقط "عِشْرُونَ" میں نہیں بلکہ ان کو کہتے ہیں "عُقُود"۔ "ثَلَاثُونَ" میں بھی یہی ہوگا یعنی "عِشْرُونَ رَجُلًا"، "عِشْرُونَ امْرَأَةً"، "ثَلَاثُونَ رَجُلًا"، "ثَلَاثُونَ امْرَأَةً"، "أَرْبَعُونَ رَجُلًا"، "أَرْبَعُونَ امْرَأَةً" یعنی چالیس۔ "خَمْسُونَ رَجُلًا"، "خَمْسُونَ امْرَأَةً"، "خَمْسُونَ" یعنی پچاس۔ "سِتُّونَ" یعنی ساٹھ، "سِتُّونَ رَجُلًا"، "سِتُّونَ امْرَأَةً" الی آخرہ "إِلَى تِسْعِينَ رَجُلًا وَامْرَأَةً"۔ یعنی وہ "تِسْعُونَ رَجُلًا"، "تِسْعُونَ امْرَأَةً"۔ "بِلَا فَرْقٍ بَيْنَ الْمُؤَنَّثِ وَالْمُذَكَّرِ" مؤنث مذکر کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی بیس، تیس، چالیس، پچاس، ساٹھ، ستر، اسی، نوے تک جب جائیں گے کوئی فرق نہیں ہوگا، یہ سارے ایک جیسے ہوں گے۔ اب چاہے معدود مذکر ہے، چاہے مؤنث ہے آپ نے وہی لکھنا ہے مذکر "عِشْرُونَ"، "سَبْعُ..."، "ثَلَاثُونَ"، "أَرْبَعُونَ"، "خَمْسُونَ" وغیرہ۔ ٹھیک ہوگیا۔ یہ یہاں ختم ہوگیا۔

اعداد ۲۱ سے ۹۹ کا استعمال

اب آگے۔ اب جب ہم پہنچے اکیس پر اب کیا کرنا ہے؟ فرماتے ہیں کوئی مشکل نہیں۔ اکیس پر پہنچیں گے پھر پچھلی باتیں ہیں۔ اگر اکیس ہوگا تو ہم کہیں گے "أَحَدٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا"۔ "عِشْرُونَ" نے تو "عِشْرُونَ" رہنا ہے اس میں تو کوئی تبدیلی آنی نہیں ہے، چاہے بعد والا معدود مذکر ہو چاہے مؤنث ہو۔ تبدیلی آنی ہے پہلے میں۔ اگر اکیس ہے تو "أَحَدٌ" یعنی عدد کی پہلی جز کو مذکر کے لیے مذکر لائیں گے "أَحَدٌ وَعِشْرُونَ"۔ اور اگر مؤنث ہے تو "عِشْرُونَ" سے پہلے عدد کی پہلی جز کو مؤنث لائیں گے یعنی "اِحْدَى وَعِشْرُونَ امْرَأَةً"۔ یہ اکیس ہوگیا۔ بائیس کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر معدود مذکر ہے تو ہم کہیں گے "اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ رَجُلًا"۔ "عِشْرُونَ" میں تبدیلی نہیں آنی۔ "اِثْنَانِ" بھی بغیر "تَا" کے ہوگا۔ اور اگر معدود مؤنث ہے تو ہم کہیں گے "اِثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ" وہاں معدود پر آجائے گی۔ ٹھیک۔ لیکن جب ہم بائیس کو کراس کریں گے، ہم پہنچیں گے تئیس پر۔ اب تئیس سے لے کر ننانوے تک، ابھی سو کو ہاتھ نہیں لگانا۔ تئیس سے لے کر ننانوے تک اب جو ہیں "عِشْرُونَ"، "ثَلَاثُونَ" وغیرہ ان میں تو تبدیلی کوئی نہیں آنی۔ تو اب تبدیلی آنی ہے عدد کے پہلے جز میں۔ پس تئیس سے لے کر ننانوے تک اگر معدود مذکر ہوگا تو عدد کی پہلی جز کو "تَا" کے ساتھ مؤنث لائیں گے اور اگر معدود مؤنث ہوگا تو عدد کی پہلی جز کو مذکر یعنی بغیر "تَا" کے لائیں گے۔ مثال بہت آسان جیسے "ثَلَاثَةٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا" تئیس مرد۔ اب "رَجُلٌ" چونکہ معدود مذکر تھا، "عِشْرُونَ" میں تو تبدیلی آنی نہیں تھی، تو ہم نے "ثَلَاثَةٌ" جو پہلی جز تھی اس کو "تَا" کے ساتھ ذکر کیا یعنی "ثَلَاثَةٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا" تئیس مرد۔ "أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ"، آگے آپ "خَمْسَةٌ وَعِشْرُونَ" الی آخرہ آگے۔ آپ تینتیس پر پہنچیں وہ بھی اسی طرح ہوگا۔ اور اگر مؤنث ہوگی تو آپ کہیں گے "ثَلَاثٌ وَعِشْرُونَ امْرَأَةً" تئیس عورتیں۔ اب ہم نے "ثَلَاثَةٌ" نہیں بلکہ چونکہ بعد میں معدود مؤنث ہے یہاں "ثَلَاثٌ" عدد کو مذکر ذکر کیا ہے پہلے حصے کو۔ "إِلَى تِسْعٍ وَتِسْعِينَ رَجُلًا" او یعنی ننانوے تک "تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ" ننانوے مرد، "تِسْعٌ وَتِسْعُونَ امْرَأَةً" ننانوے عورتیں۔ اب جہاں معدود "رَجُلٌ" تھا ہم نے "تِسْعَةٌ" پڑھا اور جہاں معدود "امْرَأَةٌ" مؤنث تھی وہاں ہم نے "تِسْعٌ وَتِسْعِينَ" پڑھا۔ ٹھیک ہوگیا۔

6

عدد 100 اور 1000 اور اس سے زیاده کا استعمال

اب بہت ترتیب سے چلنا ہے۔ گویا ایک سے لے کر ننانوے تک معدود مذکر یا معدود مؤنث ہے تو عدد کو کس طرح لے آنا ہے یہ بحث الحمدللہ یہاں پر مکمل ہوگئی۔ اب اس کے بعد آئیں گے ہم سو پر۔ فرماتے ہیں، سو، اگر تعداد بتانی ہو، فرماتے ہیں کوئی مشکل نہیں۔ چاہے معدود مذکر ہو تو بھی "مِائَةٌ" آئے گا، چاہے معدود مؤنث ہو تو بھی "مِائَةٌ" آئے گا۔ اسی طرح "أَلْفٌ" کا حکم، ہزار کا حکم بھی یہی ہے کہ چاہے معدود مذکر ہو تو بھی "أَلْفٌ" آئے گا، چاہے معدود مؤنث ہو تو بھی "أَلْفٌ" آئے گا۔ پس "ثُمَّ تَقُولُ" پھر آپ یوں بیان کریں گے اس کو آگے کیسے؟ یعنی آپ اگر سو کے ساتھ بیان کرنا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ آپ کہیں گے۔ "مِائَةُ رَجُلٍ" سو مرد۔ یا آپ کہیں گے "مِائَةُ امْرَأَةٍ" سو عورتیں۔ یعنی پہلے میں "رَجُلٌ" معدود مذکر ہے، دوسرے میں معدود مؤنث ہے، لیکن "مِائَةٌ" پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ چاہے معدود مذکر ہو تو بھی "مِائَةٌ"، چاہے معدود مؤنث ہو تو بھی "مِائَةٌ" یعنی "مِائَةُ رَجُلٍ"، "مِائَةُ امْرَأَةٍ"۔ اسی طرح فرماتے ہیں "أَلْفٌ"، ہزار، اس کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر معدود مذکر ہو تو بھی "أَلْفٌ" آئے گا، اگر معدود مؤنث ہو تو بھی "أَلْفٌ"۔ لہذا ہم کہیں گے "أَلْفُ رَجُلٍ" ہزار مرد، "أَلْفُ امْرَأَةٍ" یعنی ہزار عورتیں۔ یہ ہوگیا کس میں؟ جب سو یا ہزار ہو۔ اگر دو سو ہو تو ہم کیا کہیں گے؟ "مِائَتَا رَجُلٍ" دو سو مرد۔ "مِائَتَا امْرَأَةٍ" دو سو عورتیں، وہاں بھی ایک جیسا ہے۔ اسی طرح اگر دو ہزار ہوں تو ہم کہیں گے "أَلْفَا رَجُلٍ" دو ہزار مرد، "أَلْفَا امْرَأَةٍ" دو ہزار عورتیں۔ "بِلَا فَرْقٍ بَيْنَ الْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ" یعنی سو، دو سو، ہزار، دو ہزار ان کی اگر تعداد بیان کرنی ہو تو چاہے معدود مذکر ہو چاہے مؤنث ہو عدد میں کوئی فرق نہیں آئے گا، دونوں کے لیے عدد ایک جیسا ہی بیان ہوگا۔ سو میں بھی، دو سو میں بھی، ہزار میں بھی اور دو سو، ہزار، دو ہزار میں بھی۔ خوب اب آگے۔

اعداد بالاتر از ۱۰۰ و ۱۰۰۰ کا استعمال

کدھر گیا؟ آگے فرماتے ہیں کدھر گیا؟ "فَإِنْ زَادَ عَلَى الْمِائَةِ"، کدھر گیا؟ عبارت کدھر گم ہوگئی؟ "فَإِنْ زَادَ عَلَى الْمِائَةِ وَالْأَلْفِ يُسْتَعْمَلُ عَلَى قِيَاسِ مَا عَرَفَ" یا "مَا عُرِفَ"، "مَا عَرَفْتَ"۔ "مَا عَرَفْتَ" ہونا چاہیے بر قاعدہ۔ اگر تعداد سو اور ہزار سے بڑھ جائے تو پھر طریقہ کار کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر بڑھ گئی ہے اس کا طریقہ وہی ہوگا جو پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ جہاں اکائی ہوگی یعنی وہ ایک یا دو، گیارہ اور بارہ یہاں تک تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ کیا؟ الف تو الف رہنا ہے، مئہ مئہ رہنا ہے، لیکن آگے کیا ہوگا؟ اکائی میں اور اس میں فرماتے ہیں اگر معدود مذکر ہوگا تو عدد کو مذکر ذکر کریں گے اور اگر معدود مؤنث ہوگا تو عدد کو مؤنث ذکر کریں گے لیکن اگر آگے ہوگا طریقہ کار وہی، وہ عدد کو دیکھیں گے کہ اگر نہیں سوری، معدود کو دیکھیں گے کہ جب ہم نکلیں گے آگے یعنی وہ ایک اور دو سے آگے مثلاً تئیس پہ جاتے ہیں تو اس سے آگے وہاں پھر یہ ہوگا کہ جہاں معدود مذکر ہوگا وہاں عدد کی پہلی جز مؤنث لائیں گے جہاں معدود مؤنث ہوگا اس کو پہلے لیکن یہ یاد رکھنا ہے کہ ہمیشہ الف اگر اب یہ ایک نیا قانون بتا رہے ہیں، آسان ہے۔ کہ اگر آپ نے کسی چیز کی بیان تعداد بیان کرنی ہے جو ہزار میں ہے، جس طرح آپ کہتے ہیں اتنے ہزار اتنے سو اتنے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں جناب ایک ہزار ایک سو اتنے مرد ہیں یا عورتیں ہیں۔ اس کو طریقہ کار کیا ہوگا؟ تو سب سے پہلے آپ الف یعنی ہزار کو لائیں گے جیسے ہم اپنی اردو میں اسی طرح کرتے ہیں، ہم کیا کہتے ہیں؟ ایک ہزار دو سو پچانوے تو ہزار کو پہلے، سو کو بعد میں اور جو چھوٹا عدد ہے سو سے کم والا اس کو بعد میں۔ عربی میں بھی فرماتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ کہ اگر ہزار سے بڑھ گئے ہیں تو اب آپ طریقہ کار کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں "يُقَدَّمُ الْأَلْفُ عَلَى الْمِائَةِ"۔ الف مقدم پر، یعنی مئہ پر مقدم ہوگا یعنی پہلے الف کو ذکر کریں گے بعد میں مئہ کو۔ "وَالْمِائَةُ عَلَى الْآحَادِ" اور جو سو ہے یہ مقدم ہوگا اکائیوں پر اور اکائیاں، آحاد، وہ مقدم ہوں گی عشرات پر۔ کیسے؟ پہلے ہزار یعنی آپ نے الف کو ذکر کریں گے پھر مئہ کو، پھر ایک سے لے کر نو تک کا جو عدد ہوگا اس کو، پھر اس کے آگے عشرون یا عشر یا عشرون یا آگے جو ہے ثلاثون اربعون جو بھی ہوگا اس کو بعد میں۔ مثال ایک سمجھا رہا ہے مثلاً آپ یوں کہیں گے۔ "أَلْفٌ وَمِائَةٌ وَأَحَدٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا"۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟ "عِنْدِي" میرے پاس ہیں ایک ہزار ایک سو اکیس مرد۔ اب آپ نے دیکھا الف بھی الف رہا، مِائَةٌ بھی مِائَةٌ رہا، "أَحَدٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا"۔ عشرون میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی لیکن چونکہ معدود رجل تھا تو ہم نے کہا ہے "أَحَدٌ" یعنی عدد کا پہلا حصہ وہ بھی اکائی کو بھی مذکر لائے۔ "عِنْدِي أَلْفَانِ"۔ یا آگے ہے۔ "أَلْفَانِ"، "عِنْدِي أَلْفَانِ وَمِائَتَانِ وَاثْنَانِ وَعِشْرُونَ رَجُلًا"۔ میرے پاس ہیں دو ہزار دو سو بائیس مرد۔ اب "اثْنَانِ وَعِشْرُونَ" اسی طرح ہم نے استعمال کیا چونکہ رجل مذکر تھا تو ہم نے "اثْنَانِ" کو بھی بغیر تاءِ کے استعمال کیا۔ اسی طرح فرماتے ہیں "عِنْدِي أَرْبَعَةُ آلَافٍ"۔ وہ الف کی جمع آلاف آجاتی ہے۔ میرے پاس ہیں "أَرْبَعَةُ آلَافٍ" چار ہزار "تِسْعُ مِائَةٍ" نو سو "خَمْسٌ وَأَرْبَعُونَ" پینتالیس "امْرَأَةً" عورتیں۔ وہ "امْرَأَةً" چونکہ مؤنث تھی معدود تو ہم نے "خَمْسٌ وَأَرْبَعُونَ" اربعون کو تو تبدیلی نہیں کرتا لہذا ہم نے "خَمْسٌ" کو مذکر ذکر کیا ہو جیسے پیچھے ہم  پینتالیس میں یہی بیان کر چکے ہیں۔ "وَعَلَيْكَ بِالْقِيَاسِ" اب آگے جتنی بھی تعداد ہے یونہی یعنی مراد یہی ہے کہ طریقہ کار آگے سب کا یہی چلتا جائے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ٹھیک ہوگیا جی۔ یہ قصہ ہوگیا ختم۔ اب یہاں تک گویا کہ ایک بحث ہماری مکمل ہوئی وہ بحث کون سی تھی؟ کہ ہم نے ایک سے لے کر سو تک، ہزار تک یا اس سے بڑھ جائے تو اس عدد کو بیان کس طرح کرنا ہے۔ تو آپ نے دیکھا کہ مختلف مقامات پر معدود کہیں مذکر مؤنث تھا تو کہیں عدد میں تبدیلی آئی کہیں نہ آئی الی آخرہ۔

7

تمییز کا مکمل بیان

 تمییز کا بیان

اگلی بحث وہی ہے جو پیچھے پڑھی ہے لیکن اس کو اور انداز میں بیان فرما رہے ہیں۔ فرماتے ہیں "وَاعْلَمْ أَنَّ الْوَاحِدَ وَالْاثْنَيْنِ" یہ جو ایک اور دو ہے "لَا مُمَيِّزَ لَهُمْ" ان کے لیے کوئی تمییز نہیں ہوگی۔ چونکہ میں نے ابتدا میں آپ کو گزارش کی ہے کہ یہ عدد ہوتا ہے یہ ثلاثہ کہ میرے پاس چار ہیں تو اس کو اس میں ابہام ہوتا ہے۔ اس کو ایک تمییز چاہیے جو ثلاثہ کے ابہام کو رفع کرے کہ بھئی وہ ثلاثہ تین جو ہیں وہ تین کیا ہیں؟ ٹھیک ہے جی۔ ان کو ایک تمییز کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں جہاں تک ہے عربی میں واحد اور اثنین، ایک اور دو، واحد اور اثنین کو تو کسی ضرورت یعنی کسی تمییز کی ضرورت ہوتی ہی نہیں ہے۔ کیوں؟ "لِأَنَّ اللَّفْظَ الْمُمَيَّزَ" چونکہ وہی جو لفظ ممیز ہوتا ہے وہ عدد کو ذکر کرنے سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ یعنی کیا؟ وہی ہم لفظ ذکر کرتے ہیں تو اس کے لیے عدد کو بیان نہیں کرنا ہوتا۔ تھوڑی سی مثال دوں گا مثلاً آپ کہتے ہیں "عِنْدِي رَجُلٌ"۔ اب جب آپ نے "رَجُلٌ" کہہ دیا تو "وَاحِدٌ" کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں؟ چونکہ "رَجُلٌ" کی اپنی دلالت اس پر ہے کہ وہ کہہ رہا ہے میرے پاس ایک مرد ہے۔ یعنی بس رجل جب آگیا یہی ممیز یعنی تمییز جب آگئی عدد کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یا مثلاً ہم کہتے ہیں "عِنْدِي رَجُلَانِ"۔ تو جب میں تثنیہ کہوں گا خود بخود پتہ چل جائے گا کہ رجلان یعنی دو مرد ہیں۔ یعنی اثنان کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رجل کے ساتھ واحد کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصلاً اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ہاں جو تین اور تین سے آگے ہیں وہاں ہمیں ایک ممیز کی تمییز کی ضرورت پڑتی ہے۔ وجہ، وجہ یہ ہے کہ ان میں ابہام ہوتا ہے اور ابہام کو رفع کرنا ہوتا ہے۔ پس "وَأَمَّا سَائِرُ الْأَعْدَادِ" واحد اور اثنین کے علاوہ جو باقی عدد ہیں "فَلَا بُدَّ لَهَا مِنْ مُمَيِّزٍ" ان کے لیے ایک ممیز کا، ایک تمییز کا آنا ضروری ہے۔ "فَتَقُولُ" پس آپ یوں کہیں گے "صَلَا..."، "فَتَقُولُ" "مُمَيِّزُ الثَّلَاثَةِ إِلَى الْعَشَرَةِ مَخْفُوضٌ مَجْمُوعٌ"۔ بہت توجہ آغا کاپی پر آپ یوں لکھیں گے۔

اعداد ۳ سے ۱۰ کی تمییز

تین سے لے کر دس تک ان کی تمییز جمع مجرور ہوتی ہے۔ تین سے لے کر دس تک ان کی تمییز جمع مجرور ہوتی ہے۔ یعنی آپ کہیں گے "ثَلَاثَةُ رِجَالٍ"، "أَرْبَعَةُ رِجَالٍ"، "خَمْسَةُ رِجَالٍ"۔ یہ رجال جمع بھی ہے اور مجرور بھی ہے۔ یا "ثَلَاثُ نِسْوَةٍ"۔ اب نسوہ جمع بھی ہے اور مجرور بھی ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اب آپ کو بتا رہے ہیں اب یہاں یہ نہیں بتا رہے کہ چونکہ یہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ اگر رجال چونکہ تمییز مذکر ہے عدد کو ہم نے مؤنث ذکر کیا ہے یہ بات پیچھے ختم ہوگئی۔ اب فقط بتانا ہے کہ ان کی تمییز کیا آئے گی۔ فرماتے ہیں تین سے لے کر دس تک، ثلاثہ، اربعہ، خمسہ، ستہ، سبعہ، ثمانیہ، تسعہ، عشرہ، ان کی تمییز مخفوضٌ یعنی مجرور ہوتی ہے، مجموعٌ اور جمع ہوتی ہے۔ یعنی آپ اگر اس کو لکھیں گے آسان تو ہم یوں لکھیں گے کہ واحد اور اثنین کو تمییز کی ضرورت ہی نہیں۔ ختم۔ تین سے لے کر دس تک، ثلاثہ سے لے کر عشرہ تک ان کی تمییز جمع مجرور ہوتی ہے۔ لہذا آپ کہیں گے ثلاثہ رجال، اربعہ رجال، خمسہ رجال۔ یا اگر نسوہ ہوں گی، اب رجال جمع بھی ہے مجرور بھی ہے۔ نسوہ یہ جمع بھی ہے مجرور بھی ہے۔ ثلاثہ نسوہ، اربعہ نسوہ، خمسہ نسوہ الی آخرہ۔ ختم ہوگئی بات۔

لفظ "مائۃ" کی تمییز کا قاعدہ

"إِلَّا إِذَا كَانَ الْمُمَيَّزُ لَفْظَ الْمِائَةِ" لیکن اگر ممیز لفظ مئہ ہو یعنی اگر آپ مئتٌ، سو، مئہ کی تمییز بیان کرنا چاہتے ہیں "فَحِينَئِذٍ يَكُونُ مَخْفُوضًا مُفْرَدًا"۔ نہیں سوری، سوری، بلکہ یوں ہے کہ اگر ممیز یعنی اگر کسی عدد کی تمییز یعنی تین سے لے کر دس تک اس کی تمییز لفظ مئہ ہو، لفظ مئہ، لفظ مئہ اگر تمییز واقع ہو رہا ہو تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس کی تو پھر "يَكُونُ" وہ لفظ مئہ مخفوضًا مجرور ہوگا، مفردًا اور مفرد ہوگا۔ یعنی کیا مطلب؟ اگر تین سے لے کر دس تک کی تمییز لفظ مئہ ہو تو وہ لفظ مئہ مفرد مجرور ہوگا۔ آپ کہیں گے "ثَلَاثُ مِائَةٍ"۔ ٹھیک ہے جی۔ جبکہ "وَالْقِيَاسُ ثَلَاثُ مِئَاتٍ" جبکہ اس کو مئہ کی جمع مئات آتی ہے۔ فرماتے مئات نہیں بلکہ "ثَلَاثُ مِائَةٍ" ہی کہیں گے۔ ٹھیک ہے جی۔ خوب۔

اعداد ۱۱ سے ۹۹ کی تمییز

آگے جی۔ "وَمُمَيِّزُ أَحَدَ عَشَرَ إِلَى تِسْعَةٍ وَتِسْعِينَ"۔ گیارہ سے لے کر، گیارہ سے لے کر ننانوے تک، گیارہ سے لے کر ننانوے تک ان کا ممیز یعنی ان کی تمییز کیا آئے گی؟ منصوبٌ مفردٌ۔ مفرد منصوب ہوگی یعنی جمع بھی نہیں ہوگی، مفرد ہوگا صیغہ مفرد کا ہوگا البتہ منصوب ہوگا ۔ ٹھیک ہے جی۔ چاہے مذکر ہو چاہے مؤنث اس سے فرق نہیں پڑتا۔ پس آپ کہیں گے "أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا"، "إِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً"۔ او اس سے آگے جتنا بھی چلتے جائیں گے حکم یہی ہوگا حتی کہ "تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ رَجُلًا"، "تِسْعٌ وَتِسْعُونَ امْرَأَةً"۔ اب آپ نے دیکھا ہے گیارہ سے ننانوے تک رجل مفرد ہے، منصوب ہے، امراۃ مفرد بھی ہے اور منصوب ہے۔

اعداد ۱۰۰ اور ۱۰۰۰ اور ان کے تثنیہ و جمع کی تمییز

"مُمَيِّزُ مِائَةٍ وَأَلْفٍ"۔ مئہ کی تمییز اور الف کی تمییز۔ مئہ ایک سو کی تمییز، الف ایک ہزار کی تمییز۔ "وَتَثْنِيَتِهِمَا" اور ان دونوں کی تثنیہ یعنی دو سو یا دو ہزار۔ "وَجَمْعِ الْأَلْفِ" یا الف کی جمع آتی ہے آلاف۔ ٹھیک ہے جی۔ اس کی جمع کی ان کی تمییز اگر کوئی پوچھے کہ "مِائَةٌ" اس کی تمییز کیا ہو؟ یا "أَلْفٌ" کی تمییز کیا ہو؟ ایک سو کی، ایک ہزار کی، دو سو کی، دو ہزار کی یا کئی ہزار کی؟ تو جواب ہوگا ان کی تمییز "مَخْفُوضٌ مُفْرَدٌ"۔ مفرد مجرور ہوتی ہے۔ مفرد مجرور۔ آپ کہیں گے "مِائَةُ رَجُلٍ" سو مرد۔ "مِائَةُ امْرَأَةٍ" سو عورتیں۔ "أَلْفُ رَجُلٍ" اب دیکھو رجل ہر جگہ مفرد بھی ہے مجرور بھی ہے۔ ہزار مرد۔ "أَلْفُ امْرَأَةٍ" ہزار عورتیں۔ "مِائَتَا رَجُلٍ" دو سو مرد۔ "مِائَتَا امْرَأَةٍ" دو سو عورتیں۔ "أَلْفَا رَجُلٍ" دو ہزار مرد۔ "أَلْفَا امْرَأَةٍ" دو ہزار عورتیں۔ "ثَلَاثَةُ آلَافِ رَجُلٍ" تین ہزار مرد۔ "ثَلَاثَةُ آلَافِ امْرَأَةٍ" تین ہزار عورتیں۔ الی آخرہ یعنی جتنا بھی آپ آگے چلتے جائیں گے ان کی تمییز مفرد مجرور ہوگی۔ دوبارہ سن لیں مِائَةُ یعنی سو کی تمییز، الف ہزار کی تمییز، دو سو کی تمییز یعنی  مِائَتَان۔

وضَرَبْتُهُ غَيْرَ أنْ ضَرَبَ زَيْدٌ ، وقيامي مِثْلَ أنَّكَ تَقُومُ.

الخاتمة

في سائر أحكام الاسم ولواحقه غير الإعراب والبناء

وفيه فصول :

فصل : اعلم أنّ الاسم على قسمين : معرفة ، ونكرة.

المعرفة اسم وضع لشيء معيّن ، فهي ستّة أقسام :

المضمرات ، والأعلام ، والمبهمات ـ أعنى أسماء الإشارات والموصولات ـ والمعرّف باللام ، والمضاف إلى أحدها إضافة معنويّة ، والمعرّف بالنداء.

فصل : العَلَم ، ما وضع لشيء معيّن بحيث لا يتناول غيره بوضع واحد. وأعرف المعارف المضمر المتكلّم نحو : أنَا ونَحْنُ ، ثمّ المخاطب نحو : أنْتَ ، ثمّ الغائب نحو : هُوَ ، ثمّ العَلَم نحو : زَيْد ، ثمّ المبهمات ، ثمّ المعرّف باللام ، ثمّ المعرّف بالنداء ، ثمّ المضاف إلى أحدها ، والمضاف في قوّة المضاف إليه.

والنكرة ما وضع لشيء غير معيّن ك‍ : رَجُل ، وفَرَس.

فصل : أسماء الأعداد ، ما وضع ليدلّ على كمّيّة آحاد الأشياء واُصول العدد اثنتا عشرة كلمة ، واحد إلى عَشَر ، ومائة ، وألف. واستعماله من واحِد واثْنَيْن على القياس ، أعني يكون المذكّر بدون التاء ، والمؤنّث بالتاء تقول في رجل : واحِد ، وفي رجلين : اثْنَيْنِ ، وفي امرأة : واحِدَة ، وفي امرأتين : اثْنَتَيْن. ومن ثَلاثَة إلى عَشَرَة على خلاف القياس ، أعني للمذكّر بالتّاء تقول : ثَلاثةُ رجال إلى عَشَرةِ رجال ، وللمؤنّث بدونها تقول : ثَلاثُ نِسْوَةٍ إلى عَشَرَ نِسْوَةٍ. وبعد العشر تقول : أحَدَ عَشَرَ رَجُلاً ، واثنا عَشَرَ

رَجُلاً ، وإحْدىٰ عَشَرَة امرأة ، واثنتا عَشَرَة امرأة ، وثَلاثَة عَشَرَ رَجُلاً ، وثَلاثَ عَشَرَة امرأة ، إلى تسعة عشر رجلاً ، وإلى تسع عشرة امرأة. وبعد ذلك تقول : عِشْرُونَ رَجُلاً وعِشْرُونَ امرأة بلا فرق إلى تِسْعينَ رَجُلاً وامرأة ، وأحَدَ وَعِشْرُونَ رَجُلاً وإحْدىٰ وَعِشْرُونَ امرأةً إلى تِسْعَة وَتِسْعينَ رَجُلاً والى تِسْع وتِسْعينَ امرأة. ثمّ تقول : مائةُ رَجُلٍ ومائةُ امرأة ، وألْفُ رَجُلٍ وألْف امرأة ، ومائتا رَجلٍ ، ومائتا امرأة ، وألْفا رَجُلٍ ، وألْفا امرأة بلا فرق بين المذكّر والمؤنّث. فإذا زاد على الألف والمائة يستعمل على قياس ما عرفت ، وتقدّم الألف على المائة والآحاد على العشرات تقول : عِنْدي ألْفٌ ومائة وأحَد وعِشْرُونَ رَجُلاً ، وألْفانِ وَثَلاثمائةٍ واثْنانِ وَعِشْرُونَ رَجُلاً ، وأربعة آلاف وسبعمائة وخمسة وَأرْبَعُونَ رَجُلاً ، وعلى ذلك القياس.

واعلم أنّ الواحد والاثنين لا مميّز لهما ، لأنّ لفظ المميّز مستغن عن ذكر العدد فيهما كما تقول : عِنْدي رَجُلٌ وَرَجُلانِ.

وأمّا سائر الأعداد فلا بدّ لها من مميّز فتقول في مميّز الثلاثة إلى عشرة مخفوضاً ومجموعاً تقول : ثَلاثَة رجالٍ وثَلاثُ نِسْوَةٍ ، إلّا إذا كان المميّز لفظ المائة فحينئذ يكون مخفوضاً مفرداً تقول : ثلاثمائة ، والقياس ثلاث مئات أو مِئين.

ومميّز أحَدَ عَشَرَ إلى تِسْعٍ وتِسْعينَ منصوب مفرد تقول : أحَدَ عَشَرَ رَجُلاً ، وإحْدىٰ عَشَرَة امرأة ، وتِسْعَةٌ وتِسْعُونَ رَجُلاً ، وتِسْعٌ وتِسْعُونَ امرأةً. ومميّز مائة وألْف وتثنيتهما وجمع الألف مخفوض مفرد تقول : مائة رَجُلٍ ، ومائتا رَجُلٍ ، ومائة امرأة ، ومائتا امرأةٍ ، وَالْفُ رَجُلٍ ، وألْفا رَجُلٍ ، وألْفُ امرأةٍ ، وألْفا امرأةٍ ، وثَلاثُ آلافِ رَجُلٍ ، وثَلاثُ آلافِ امرأةٍ ، وقس على هذا.