درس الهدایة في النحو

درس نمبر 35: اسم کے کچھ اور احکام اور ملحقات

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم کے کچھ اور احکام اور ملحقات(اسمِ معرفہ کی تعریف اور اقسام)

"الْخَاتِمَةُ فِي سَائِرِ أَحْكَامِ الْاِسْمِ وَلَوَاحِقِهِ غَيْرِ الْإِعْرَابِ وَالْبِنَاءِ وَفِيْهِ فُصُوْلٌ"

آپ کو یاد ہوگا کتاب کی ابتدا کو مرحوم مصنف نے یوں تقسیم کیا تھا کہ اس میں ایک مقدمہ ہوگا، تین قسمیں ہوں گی اور اس کے بعد ایک خاتمہ ہوگا۔ قسم اول اسم کے بارے میں، قسم ثانی فعل کے بارے میں، قسم ثالث حرف کے بارے میں اور خاتمے میں پھر مشترکات۔

قسم اول جو اسم کے بارے میں تھی، اس کو تقسیم یوں کیا تھا کہ ایک مقدمہ تھا، پھر باب اول اسم معرب کے بارے میں، باب ثانی اسم مبنی کے بارے میں۔

 ہم نے جو گزشتہ دو باب تحریر کیے وہ تو تھے کہ اسم کب معرب ہوتا ہے، کب مبنی ہوتا ہے، معرب کا مطلب کیا ہے یعنی اس کی اعراب آنے نہ آنے میں، آخر مختلف ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، اس لحاظ سے۔ اب اسم کے کچھ اور احکام اور لواحقات بھی ہیں کہ ان کو علیحدہ علیحدہ مختلف فصول میں ذکر فرمائیں گے۔

فصلِ اول: اسم کی معرفہ اور نکرہ میں تقسیم

 فصل اول اس بارے میں ہے کہ اسم کبھی معرفہ ہوتا ہے اور کبھی نکرہ۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس فصل میں اسم کو تقسیم کر رہے ہیں عموم اور خصوص کے حوالے سے کہ کبھی اس میں عموم ہوتا ہے تو وہ نکرہ ہوتا ہے اور اس میں خاص ہوتا ہے تو وہ معرفہ۔ پس اسم، یہ اس فصل میں ہے، اسم کی تقسیم۔ اسم کبھی معرفہ ہوگا اور کبھی نکرہ۔

آج اس فصل میں اسم معرفہ کسے کہتے ہیں؟ اسم معرفہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ وہ بیان کریں گے، بالکل آسان سی چیز ہے۔ اور دوسرا اس فصل میں کہ اسم نکرہ کسے کہتے ہیں۔

اسمِ معرفہ کی تعریف

 اسم کی دو قسمیں، اسم یا معرفہ ہوگا یا نکرہ۔ سوال، اسم معرفہ کسے کہتے ہیں؟ جواب، وہ اسم جو کسی معین شے کے لیے بنایا گیا ہو کہ جب وہ اس پر بولا جائے تو اس کا غیر اس میں شامل نہ ہو، بس معین، جو مشہور ہے معین شئ کے لیے ہو، اس کو کیا کہتے ہیں؟ معرفہ کہتے ہیں۔

اسمِ معرفہ کی اقسام

معرفہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب، چھ۔ مضمرات یعنی ضمیریں، ایک: اَعلام، دو: مبہمات جس میں اسماء اشارہ اور موصولات آتے ہیں، تین: معرف باللام، چار: جو معرف باللام یا معرفہ یا علم کی طرف مضاف ہو، پانچ: اور معرف بالنداء جس کو حرف نداء کے ذریعے معرف کیا گیا ہو۔

تطبیق

"الْخَاتِمَةُ فِي سَائِرِ أَحْكَامِ الْاِسْمِ" گزارش کی تھی کہ باب اول فقط معرب کے بارے میں تھا، باب ثانی مبنی کے بارے میں تھا۔ جب اسم کی معرب اور مبنی کے حوالے سے تقسیم ختم ہوگئی اب فرماتے ہیں:  خاتمہ یعنی اب بات ہم یہ نہیں کہ کونسا اسم معرب اور کونسا مبنی، بلکہ اس سے ہٹ کر فرماتے ہیں "فِي سَائِرِ أَحْكَامِ الْاِسْمِ"، اسم کے کچھ اور احکام اور لواحق بھی ہیں "غَيْرِ الْإِعْرَابِ وَالْبِنَاءِ" معرب اور مبنی ہونے سے علاوہ، اعراب اور بناء کے علاوہ دیگر احکام کو ہم اس خاتمہ میں بیان کریں گے۔ اور اس کو بھی پھر مختلف فصلوں میں، یاد ہوگا آپ کو، وہ مقدمے میں انہوں نے کہا تھا کہ میں نے اس کو کافیہ کی ترکیب پر لکھا ہے، "مُبَوَّبًا وَمُفَصَّلًا" باب باب کرکے اور فصل فصل کرکے۔

 خاتمہ کی پہلی فصل، خاتمہ یعنی اسم کی بحث میں جو آخر میں خاتمہ ہے جہاں مطلق اسم کی بات ہو رہی ہے، اس کی پہلی فصل یہ ہے۔ "اِعْلَمْ أَنَّ الْاِسْمَ عَلَى قِسْمَيْنِ"، اسم کی دو قسمیں ہیں۔ "مَعْرِفَةٌ وَنَكِرَةٌ"۔ اسم معرفہ بھی ہوتا ہے اور اسم نکرہ بھی ہوتا ہے۔ جو بھی اسم ہوگا یا معرفہ ہوگا یا نکرہ۔ یعنی تعریف اور تنکیر کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں۔پہلا ہے "الْمَعْرِفَة"، معرفہ کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں: "فَالْمَعْرِفَةُ اِسْمٌ وُضِعَ لِشَيْءٍ مُعَيَّنٍ"، معرفہ وہ اسم ہے جس کو ایک معین چیز کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ یعنی بنانے والے نے اس کو ایک معین خاص چیز کے لیے بنایا ہے کہ جو اس کے علاوہ کوئی اور اس میں شامل نہیں ہے۔ ابھی تفصیلات آئیں گی۔ 

آگے فرماتے ہیں: "وَهِيَ سِتَّةُ أَقْسَامٍ"، اسم معرفہ کی چھ قسمیں ہیں۔ "وَهِيَ سِتَّةُ أَقْسَامٍ"۔ اسم معرفہ کی چھ قسمیں ہیں۔ نمبر ایک: "الْمُضْمَرَاتُ" یعنی ضمیریں۔ وہ جو 70 ضمیریں میں نے تقریباً ساری کی ساری آپ کو یہاں سنائی تھیں۔ نمبر دو: "وَالْأَعْلَامُ"، علم کی جمع ہے  مثلا  زید، حسن، علی، حسین، باقر، یہ  اعلام ے ہیں۔

تیسرا معرفہ کی اقسام میں سے "الْمُبْهَمَاتُ"۔ مبہمات کیا ہیں؟ یعنی یہ جو اسماء اشارہ تھے، وہ "هَذَا"، "ذَلِكَ"، "ذَا"، "ذَيْنِ" وغیرہ، موصولات وہ بھی ہم نے پڑھے ہیں "الَّذِيْ"، "اللَّذَانِ"، "الَّتِيْ"، "اللَّتَانِ"، "اللَّاتِيْ"، "اللَّوَاتِيْ" جو بھی تھے، ان کو مبہمات کہتے ہیں لیکن یہ بھی معرفہ ہیں۔ "وَالْمُعَرَّفُ بِاللَّامِ" یا جو الف لام، جس پر الف لامِ تعریف کا آ گیا ہو، الف لام کے ساتھ جس کو معرفہ کیا گیا ہو۔

"وَالْمُضَافُ إِلَى أَحَدِهِمَا إِضَافَةً مَعْنَوِيَّةً"۔ یا جو ان کی طرف، یعنی جس کو ان کی طرف، یعنی وہ جن کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہو، مضاف ہو۔ آگے "وَالْمُضَافُ إِلَى أَحَدِهَا" ان میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو اور اضافت اضافتِ معنویہ ہو۔ ہم نے اضافت کی قسمیں پیچھے پڑھی ہیں، ایک اضافت معنویہ ہوتی ہے، ایک اضافت اضافتِ لفظیہ ہوتی ہے، آپ کو یاد ہوگا۔ "وَالْمُعَرَّفُ بِالنِّدَاءِ"۔ اسی طرح فرماتے ہیں وہ جس کو حرفِ نداء کے ذریعے معرف کیا گیا ہو یعنی ویسے تو وہ نکرہ ہو لیکن اس پر حرفِ نداء جب آ گیا تو اس کے ذریعے اس کو معرفہ کیا گیا۔

4

علم کی تعریف اور  معارف کا درجہ بندی

علم کی تعریف اور وضع

"اَلْعَلَمُ مَا وُضِعَ لِشَيْءٍ مُعَيَّنٍ"۔ علم کی تعریف، آسان۔ علم جس کو ایک معین شے کے لیے وضع کیا گیا ہو "لَا يَتَنَاوَلُ غَيْرَهُ" اس وضع کے مطابق وہ اپنے غیر کو شامل نہ ہو، "لَا يَتَنَاوَلُ غَيْرَهُ" کہ وہ اس معین کے غیر کو شامل نہ ہو "بِوَضْعٍ وَاحِدٍ" ایک ہی وضع سے، بہت توجہ۔ ہم جب جس وقت ایک بچے کا نام رکھ رہے ہوتے ہیں علی، تو اس وضع میں وہ علی فقط اسی بچے پر شامل ہوتا ہے، اسی پر صادق آتا ہے، کسی اور پر نہیں ،ممکن ہے، لاکھوں انسان یہاں موجود ہیں، امکان نہیں بلکہ واقع ہے کہ لاکھوں لوگ ہیں جن کا نام علی ہے، لاکھوں ہیں جن کا نام حسن ہے، لاکھوں ہیں جن کا نام حسین ہے، لیکن یاد رکھنا ہے کہ ہر وہ بندہ جس کا نام علی یا حسن یا حسین ہے وہ ایک ہی وضع میں فقط اسی پر صادق آتا ہے۔ ایسا کیسے؟ تھوڑی اس کو واضح کر دوں، وضع واحد سے مراد سمجھا دوں، وہ یہ ہے۔

ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو جب ہم اس بچے کا نام رکھتے ہیں علی، تو اس وقت یہ علم یہ علی فقط اسی بچے کے لیے ہے، اس کے غیر کے لیے نہیں، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نام رکھیں اس بچے کا، علم اس کا رکھیں علی اور وہ شامل ہو پورے گاؤں کے، پورے شہر کے بچوں کو کہ جتنے بھی ہیں سب علی، نہ ایسا نہیں ہوتا۔ یعنی جس وقت جس کے لیے وہ علم وہ نام اس کو دیا جا رہا ہے، اس وقت وہ کسی اور کو شامل نہیں ہوتا۔ بس اگر گاؤں میں دس بچے ہیں اور دس کے نام علی ہیں تو وہ علم ہے، کیوں؟ اس لیے کہ جب اس کا نام علی رکھا جا رہا تھا، اس وقت وہ کسی غیر کو شامل نہیں تھا، بلکہ دس ہیں تو گویا دس مرتبہ لفظ اسمِ علی کو اس معنی کے لیے یعنی اس بچے کے لیے وضع کیا گیا ہے، ایک ہی وضع میں وہ دس بچوں پر صادق نہیں آتا۔ واضح ہوا یہ سے مراد یہ ہے۔

 معارف کا درجہ بندی (أعرف المعارف)

فرماتے ہیں: ضمیروں میں سے، کیا یہ جو چھ قسمیں آپ نے بتائی ہیں معرفہ کی، کیا یہ سب کا درجہ برابر ہے؟ فرماتے ہیں نہ۔ "أَعْرَفُ الْمَعَارِفِ" ان چھ اقسام میں سے سب سے جو بڑا أعرف المعارف ہے یعنی ان معرفہ کی چھ اقسام میں پہلی پوزیشن ہے ضمیر کی۔ پھر ان ضمیروں میں سے بھی نمبر ون پہ ضمیرِ متکلم یعنی "أَنَا" اور "نَحْنُ"۔ اور دوسرے نمبر پر ضمیروں میں سے ہے مخاطب کی، "أَنْتَ"، "أَنْتُمَا"، "أَنْتُمْ"، "أَنْتِ"، "أَنْتُمَا"، "أَنْتُنَّ"۔ اور تیسرے نمبر پر ہے غائب کی ضمیریں، "هُوَ"، "هُمَا"، "هُمْ"، "هِيَ"، "هُمَا"، "هُنَّ"۔

معرفہ کی اقسام کی درجہ بندی

یعنی یہ معرفہ کی جو ہم نے چھ قسمیں بیان کی ہیں، یہ ساری درجے میں برابر نہیں ہیں۔ بلکہ جس درجے پر فرض کرو ضمیر أعرف وأعرف المعارف ہے، اس کا مقابلہ کسی اور سے ہو ہی نہیں سکتا۔ اور پھر ان میں سے ضمیروں میں بھی پھر فرق ہے، پہلے نمبر پر ضمیرِ متکلم، دوسرے پر ضمیرِ مخاطب، تیسرے پر ضمیرِ غائب۔ ضمیروں کے بعد، علم کی باری آتی ہے۔ معرفہ میں نمبر ون پہ ہیں ضمائر، مضمرات۔ نمبر ٹو پہ ہیں اعلام، علم، یہ جو ہمارے نام ہوتے ہیں۔ اور تیسرے نمبر پہ ہیں مبہمات یعنی موصولات اور اسماء اشارہ۔ چوتھے نمبر پر ہے معرف باللام اور پانچویں نمبر پر ہے معرف بالنداء۔

تطبیق

 آگے فرماتے ہیں: "وَالْمُضَافُ فِي قُوَّةِ الْمُضَافِ إِلَيْهِ" ہم نے کہا تھا کہ ان میں سے جو ان میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو۔ مضاف، مضاف الیہ کی قوت میں ہوگا۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہے نا، مراد مقصد کیا ہے؟ مضاف، مضاف الیہ کی قوت میں ہوگا، اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ جو اسم معرفہ کی طرف مضاف ہوگا، وہاں اضافت تعریف کا فائدہ دے گی، جہاں کوئی اسم کسی نکرہ کی طرف مضاف ہوگا، وہاں اضافت تعریف نہیں بلکہ تخصیص کا فائدہ دے گی، کیوں؟ چونکہ اس کے مضاف الیہ کے حوالے سے ہم نے دیکھا ہے کہ جس کی طرف وہ مضاف ہو رہا ہے، کیا وہ معرفہ ہے یا نکرہ۔

"وَالْمُضَافُ فِي قُوَّةِ الْمُضَافِ إِلَيْهِ"۔ اس کا مطلب سمجھ آگیا کہ مضاف، مضاف الیہ کی قوت میں ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی جیسا مضاف الیہ ہوگا، مضاف کا حکم وہی ہوگا۔ یعنی اگر مضاف معرفہ ہوگا تو فائدہ تعریف کا ہوگا، اگر مضاف الیہ نکرہ ہوگا تو وہاں تخصیص ہوگی، تعریف نہیں ہوگی۔ اور آخر میں فرماتے ہیں: ایک جملہ، وہ یہ ہے کہ پھر معرفہ کی دوسری قسم تھی نکرہ، یعنی ایک اسم کی قسم تھی معرفہ اور دوسری نکرہ۔ نکرہ کیا ہے؟ "مَا وُضِعَ لِشَيْءٍ"، جس کو بنانے والے نے بنایا ہو کسی غیر معین کے لیے کہ جو اس پر بھی صادق آتا ہے، اس پر بھی۔ جیسے لفظ ہے "رَجُلٌ"۔ "رَجُلٌ" کہتے ہیں مرد کو، کائنات کا جو مرد بھی سامنے آئے، ہم کہہ سکتے ہیں یہ "رَجُلٌ رَجُلٌ" وغیرہ۔ "فَرَسٌ"، گھوڑے کو کہتے ہیں، جو بھی گھوڑا ہو اس کو ہم فرس کہہ سکتے ہیں۔ تو یہ فصل اول تھی اسم کی تقسیم بلحاظِ معرفہ اور نکرہ۔ فصل ثانی ہے اسماء عدد کے بارے میں، اس کی بات ذرا لمبی ہے تو پھر ہم اس کو علیحدہ درس میں کوشش کرتے ہیں کہ ساری ایک ہی دفعہ ہو جائے تو وہ بہتر ہے۔

وَصَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ

وضَرَبْتُهُ غَيْرَ أنْ ضَرَبَ زَيْدٌ ، وقيامي مِثْلَ أنَّكَ تَقُومُ.

الخاتمة

في سائر أحكام الاسم ولواحقه غير الإعراب والبناء

وفيه فصول :

فصل : اعلم أنّ الاسم على قسمين : معرفة ، ونكرة.

المعرفة اسم وضع لشيء معيّن ، فهي ستّة أقسام :

المضمرات ، والأعلام ، والمبهمات ـ أعنى أسماء الإشارات والموصولات ـ والمعرّف باللام ، والمضاف إلى أحدها إضافة معنويّة ، والمعرّف بالنداء.

فصل : العَلَم ، ما وضع لشيء معيّن بحيث لا يتناول غيره بوضع واحد. وأعرف المعارف المضمر المتكلّم نحو : أنَا ونَحْنُ ، ثمّ المخاطب نحو : أنْتَ ، ثمّ الغائب نحو : هُوَ ، ثمّ العَلَم نحو : زَيْد ، ثمّ المبهمات ، ثمّ المعرّف باللام ، ثمّ المعرّف بالنداء ، ثمّ المضاف إلى أحدها ، والمضاف في قوّة المضاف إليه.

والنكرة ما وضع لشيء غير معيّن ك‍ : رَجُل ، وفَرَس.

فصل : أسماء الأعداد ، ما وضع ليدلّ على كمّيّة آحاد الأشياء واُصول العدد اثنتا عشرة كلمة ، واحد إلى عَشَر ، ومائة ، وألف. واستعماله من واحِد واثْنَيْن على القياس ، أعني يكون المذكّر بدون التاء ، والمؤنّث بالتاء تقول في رجل : واحِد ، وفي رجلين : اثْنَيْنِ ، وفي امرأة : واحِدَة ، وفي امرأتين : اثْنَتَيْن. ومن ثَلاثَة إلى عَشَرَة على خلاف القياس ، أعني للمذكّر بالتّاء تقول : ثَلاثةُ رجال إلى عَشَرةِ رجال ، وللمؤنّث بدونها تقول : ثَلاثُ نِسْوَةٍ إلى عَشَرَ نِسْوَةٍ. وبعد العشر تقول : أحَدَ عَشَرَ رَجُلاً ، واثنا عَشَرَ