درس الهدایة في النحو

درس نمبر 34: ظروف مبنیہ 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

این،أَنَّى،متی،کیف اور ایان کے بارے میں

«أيْنَ» و «أنّى»

"وَمِنْهَا أَيْنَ وَأَنَّى" موضوع ہمارا چل رہا ہیں وہ اسماء جو مبنی ہیں اور اسماء مبنیہ میں سے ظروف۔ کچھ ظرف زمان اور کچھ ظرف مکان۔ ظرف پہلے کر دی تھی۔ فرماتے ہیں انہی اسمائے ظروف مبنیہ میں سے دو اسم اور ہیں ایک ہے "أَيْنَ" اور ایک ہے "أَنَّى"۔ "أَيْنَ" اور "أَنَّى" یہ بھی اسم ظرف مبنی ہیں البتہ یہ آتے ہیں ظرف مکان کے استفہام کے لیے یعنی کسی جگہ کے بارے میں پتہ کرنا ہو تو وہاں پر "أَيْنَ" اور "أَنَّى" کے ذریعے استفہام کیا جاتا ہے، سوال کیا جاتا ہے۔ 

 قسم ششم: مَتَى

"مَتَى" یہ بھی فرماتے ہیں: انہی ظروف مبنیہ میں سے ہے "مَتَى"۔ یہ ظرف، ظرف زمان یعنی کیا مطلب؟ زمانے کے بارے میں کوئی سوال کرنا ہو تو اس کے لیے اس "مَتَى" کو او جیسے جگہ کے بارے میں سوال کرنا ہو تو "أَيْنَ" یا "أَنَّى" کو استعمال کیا جاتا ہے اگر زمان کے بارے میں سوال کرنا ہو تو وہاں "مَتَى" کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی "أَيْنَ" اور "أَنَّى" بھی استفہام کے لیے "مَتَى" بھی استفہام کے لیے لیکن "أَيْنَ" اور "أَنَّى" مکان کے استفہام کے لیے "مَتَى" زمان کے استفہام کے لیے۔

 قسم ہفتم: كَيْفَ

اور ایک ہے "كَيْفَ" یہ بھی استفہام کے لیے ہے، "كَيْفَ" بھی استفہام کے لیے لیکن یہ زمان و مکان کا استفہام نہیں بلکہ یہ ہے استفہام حال کے لیے۔ کسی کے حال دریافت کرنا ہو وہاں پر ظروف میں سے اسم ظرف مبنی "كَيْفَ" کے ذریعے حالت پوچھی جاتی ہے۔ 

 قسم ہشتم: أَيَّانَ

اسی طرح اور ہیں آگے "أَيَّانَ" یہ بھی ظرف زمان ہے استفہام کا معنی دیتا ہے۔

4

ظروف،مُذْ و مُنْذُ ،"لَدَا" اور "لَدُن" کے بارے میں

ظروف کی وضاحت

فرماتے ہیں "وَمِنْهَا" یعنی انہی اسمائے مبنیہ میں سے کہ جو ظروف ہیں، ظروف میں سے ظرف مبنی میں سے ایک ہے "أَيْنَ" اور ایک ہے "أَنَّى" یعنی "أَيْنَ" اور "أَنَّى" بھی ظروف مبنیہ میں سے ہیں۔ اچھا یہ کس کے لیے آتے ہیں؟ فرماتے ہیں "لِلْمَكَانِ بِمَعْنَى الِاسْتِفْهَامِ" کیا مطلب بمعنی استفہام کا؟ یعنی آپ اس کا ترجمہ یوں کریں گے کہ "أَيْنَ" اور "أَنَّى" کے لیے کسی جگہ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کسی جگہ کا پوچھنا ہے جگہ مکان کے بارے میں تو وہاں استفہام کیا جائے گا "أَيْنَ" اور "أَنَّى" کے ذریعے۔ جیسے ہم آپ کہتے ہیں "أَيْنَ تَمْشِي؟" آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو آپ "أَيْنَ" کے ذریعے جگہ کا سوال کیا جا رہا ہے۔ یا کہتے ہیں "أَنَّى تَقْعُدُ؟" آپ کہاں بیٹھیں گے؟ اب یہ جگہ کے بارے میں سوال ہے۔  یہ ہو گیا سوال کہ یہ "أَيْنَ" اور "أَنَّى" مکان بمعنی استفہام کے ہوتے ہیں مکان کے لیے یعنی کسی جگہ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ "وَبِمَعْنَى الشَّرْطِ" اور یہی "أَيْنَ" اور "أَنَّى" شرط کا معنی بھی دیتے ہیں۔ یعنی ان میں شرط کا معنی بھی ہوتا ہے لیکن وہ بھی مکان کے لحاظ سے مثلاً "أَيْنَ تَجْلِسْ أَجْلِسْ" جس جگہ آپ بیٹھیں گے میں وہیں بیٹھوں گا۔ "أَنَّى تَقُمْ أَقُمْ" جہاں آپ کھڑے ہوں گے میں وہاں کھڑا ہوں گا۔ اب یہ "أَيْنَ" اور "أَنَّى" دونوں یہاں شرط کا معنی دیتے ہیں کہ جس جگہ تم ہو گے آگے جواب بھی شرط دے گا وہاں میں بیٹھوں گا۔ جہاں تو کھڑا ہو گا وہاں میں کھڑا ہوں گا۔ تو اس "أَيْنَ" اور "أَنَّى" نے یہاں شرط کا معنی دیا۔

متٰی

"وَمِنْهَا مَتَى" اسی طرح فرماتے ہیں ظروف مبنیہ میں سے ایک اور اسم ظرف مبنی ہے "مَتَى"۔ "مَتَى" آتا ہے "لِلزَّمَانِ" زمان کے لیے او جیسے اوپر کہا تھا کہ "أَيْنَ" اور "أَنَّى" آتا ہے مکان کے لیے "بِمَعْنَى الِاسْتِفْهَامِ" بھی آتا ہے اور "بِمَعْنَى الشَّرْطِ" بھی آتا ہے۔ یہ "مَتَى" آتا ہے زمان کے لیے یعنی زمانے کے بارے میں سوال کرنا ہو یا زمان کے لحاظ سے کوئی قید کوئی شرط لگانی ہو تو وہاں پر یہ "مَتَى" آئے گا جیسے "مَتَى لِلزَّمَانِ" یہ آتا ہے زمان کے لیے "شَرْطًا" یعنی شرط بن کے آئے تو یا زمان کے بارے میں "اسْتِفْهَامًا" کرنا ہو سوال کرنا ہو تو بھی بتایا جیسے ہم کہتے ہیں "مَتَى تَصُمْ أَصُمْ" اب یہ "مَتَى" یہاں پر زمانے کے بارے میں ہے ، جب آپ روزہ رکھیں گے میں روزہ رکھوں گا۔ "مَتَى تُسَافِرْ أُسَافِرْ" جب آپ سفر کریں گے میں بھی سفر کروں گا اور اگر آگے خالی اتنا ہو "مَتَى تَصُمْ" آپ کب روزہ رکھیں گے؟ یہ استفہامیہ ہوگا۔ "مَتَى تُسَافِرْ" آپ کب سفر پر جائیں گے؟ یہ فقط استفہامیہ ہوگا۔ لیکن اگر ساتھ اس طرح ہو "مَتَى تَصُمْ أَصُمْ" تو یہ "مَتَى" یہاں شرط کا معنی دے گا، جب آپ روزہ رکھیں گے میں روزہ رکھوں گا اب یہ زمانے سے متعلق ہے، جب آپ سفر کریں گے میں سفر کروں گا، اب یہ جہاں کی بات نہیں ہے جب کی بات یعنی زمانے کی بات ہے۔

 "كَيْفَ"

"وَمِنْهَا" اسی طرح فرماتے ہیں:  ظروف مبنیہ میں سے ایک اور ہے وہ ہے "كَيْفَ"۔ یہ "كَيْفَ" بھی ظروف مبنیہ میں سے ہے اس میں بھی استفہام کا معنی ہوتا ہے لیکن یہ استفہام مکان یا زمان کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے "لِلِاسْتِفْهَامِ حَالًا" یعنی کسی کا حال دریافت کرنے کے بارے میں حال احوال جس کو ہم کہتے ہیں پوچھنے کے لیے وہاں یہ استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں "كَيْفَ أَنْتَ؟" آپ کیسے ہیں؟ تو اصل میں گویا کہ ہم اس سے پوچھ رہے ہیں "فِي أَيِّ حَالٍ أَنْتَ؟" آپ کس حال میں ہیں؟ چونکہ "كَيْفَ" کے ذریعے درحقیقت حال کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہوتا ہے۔

 أَيَّانَ

"وَمِنْهَا" اسی طرح فرماتے ہیں ظروف مبنیہ میں سے ایک اور ہے "أَيَّانَ"۔ "أَيَّانَ" کس کے لیے آتا ہے؟ "أَيَّانَ" آتا ہے "لِلزَّمَانِ اسْتِفْهَامًا" یعنی کسی وقت کے بارے میں، زمان کے بارے میں اگر سوال کرنا ہو تو وہاں "أَيَّانَ" آئے گا۔ یعنی "أَيَّانَ" کے ذریعے آپ مکان کے بارے میں استفہام اور سوال نہیں کر سکتے بلکہ زمان کے بارے میں سوال کر سکتے ہیں جیسے آیت بھی ہے "أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ" "أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ" یعنی کب ہوگا قیامت کا دن۔ 

مُذْ و مُنْذُ

"وَمِنْهَا" انہی ظروف مبنیہ میں سے کچھ اور بھی ہیں، فرماتے ہیں، ظروف مبنیہ میں سے ایک ہے "مُذْ" اور ایک ہے "مُنْذُ"۔ یہ "مُذْ" اور "مُنْذُ" مدت کو بیان کرتے ہیں یعنی یہ ابتداء مدت بتاتے ہیں کہ کون سے کام کی ابتداء کب ہوئی؟ اور یہی "مُذْ" اور "مُنْذُ" پوری مدت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کام کی کل مدت کتنی ہے؟ لیکن فرق کیسے معلوم ہوگا؟ یعنی ابتداء مدت کب بیان کر رہے ہوں گے؟ اور تمام مدت کب بیان کر رہے ہوں گے؟  فرماتے ہیں: جب "مُذْ" اور "مُنْذُ" "مَتَى" کے ذریعے ہونے والے سوال کے جواب میں واقع ہوں اس وقت یہ "مُذْ" اور "مُنْذُ" کسی بھی کام کی مدت کی ابتداء کو بیان کر رہے ہوں گے اور اگر یہ "مُذْ" اور "مُنْذُ" "كَمْ" کے ذریعے ہونے والے کسی سوال کے جواب میں آئیں گے تو اس وقت یہ پوری مدت کے معنی کے لیے آئیں گے پھر فقط ابتداء اول مدت کے لیے نہیں آئیں گے۔ بس اس کو یاد کرنا ہے کہ "مُذْ" اور "مُنْذُ" کبھی اول مدت کے لیۓ کہ یعنی فلاں چیز کی ابتداء  کب سے ہوئی مثلاً اس فعل کی ابتدا کب سے ہے اور کبھی ہوتا ہے کہ نہیں اس کا پورا عرصہ کتنا ہے؟ اب پہچان کا طریقہ یہ ہوگا کہ جب یہ "مَتَى" کے جواب میں ہوں گے تو اول مدت کو بیان کریں گے، جب یہ "كَمْ" کے جواب میں ہوں گے تو تمام مدت کو بیان کریں گے۔

تطبیق

"وَمِنْهَا" یعنی انہی ظروف مبنیہ میں سے ہے "مُذْ" اور "مُنْذُ" "مُذْ" یہ بھی اسم ہے ظرف ہے مبنی ہے، "مُنْذُ" بھی اسم ظرف مبنی ہے۔ "مُذْ" اور "مُنْذُ" "بِمَعْنَى أَوَّلِ الْمُدَّةِ" یہ اول مدت کو بیان کرتے ہیں یعنی یہ بتاتے ہیں کہ یہ کام کب سے شروع ہوا لیکن اول مدت کو بیان کب کس وقت کرتے ہیں؟ "إِنْ صَلَحَا جَوَابًا لِمَتَى" اگر یہ "مَتَى" کے ذریعے ہونے والے سوال کے جواب بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے "مَتَى مَا رَأَيْتَ زَيْدًا؟" تو نے کب سے زید کو نہیں دیکھا؟ "مَتَى" کے ذریعے اس نے کیا سوال کہ تیرے زید کو نہ دیکھنے کی مدت کب سے ہے؟ یہ کہتا ہے "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" میں نے اس کو نہیں دیکھا جمعہ کے دن سے یعنی یہ بتا رہا ہے کہ میرے اس کو نہ دیکھنے کی ابتداء جمعہ والا دن ہے کہ جمعہ والے دن سے میرا نہ دیکھنا شروع ہوا تھا۔ "إِنْ صَلَحَ جَوَابًا لِمَتَى" اگر یہ "مَتَى" کا جواب واقع ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ فرماتے ہیں: جیسے ایک شخص کہتا ہے "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" یا "مَا رَأَيْتُهُ مُنْذُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" یہ کون کہتا ہے؟ "فِي جَوَابِ مَنْ قَالَ" یعنی اس کے جواب میں جس نے اس سے یہ سوال کیا تھا "مَتَى مَا رَأَيْتَ زَيْدًا؟" یعنی کب سے تو نے زید کو نہیں دیکھا؟ یہ جواب میں کہتا ہے "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" یا کہتا ہے "مَا رَأَيْتُهُ مُنْذُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" کہ میں نے اس کو نہیں دیکھا جمعہ والے دن سے تو گویا یہ "مُذْ" اور "مُنْذُ" کے ذریعے بتا رہا ہے "أَوَّلُ مُدَّةِ انْقِطَاعِ رُؤْيَتِي إِيَّاهُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ" یعنی وہ میرے زید کو نہ دیکھنے کی انقطاع یعنی اس کو نہ دیکھنے کی مدت کی ابتدا یعنی کس وقت سے میں اس کو نہیں دیکھ رہا؟ اول مدت نہ دیکھنے کی کب ہے؟ آغاز نہ دیکھنے کا کب سے ہوا؟ وہ ہے "يَوْمُ الْجُمُعَةِ" یوم جمعہ۔ ٹھیک؟ تو پس "مُنْذُ" اور "مُذْ" بمعنی اول مدت کے ہیں۔

"وَبِمَعْنَى جَمِيعِ الْمُدَّةِ" اور یہی "مُذْ" اور "مُنْذُ" کبھی جمیع مدت کا معنی بھی دیتے ہیں "إِنْ صَلَحَ جَوَابًا لِكَمْ" اگر یہ "كَمْ" کا جواب بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یعنی مقصد کیا ہے؟ کہ اگر ایک شخص کہتا ہے "كَمْ مُدَّةً مَا رَأَيْتَ زَيْدًا؟" کتنا عرصہ ہو گیا ہے آپ نے زید کو نہیں دیکھا؟ آپ جواب میں کہتے ہیں: "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمَانِ" میں نے اس کو دو دن سے نہیں دیکھا تو گویا آپ "مُذْ" کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ میرے اس کو نہ دیکھنے کا ٹوٹل عرصہ دو دن ہے یہاں پر آپ یہ بیان کر رہے ہیں۔ تو پس اب یہ دو سطریں یاد رکھنی ہیں کیا؟ کہ یہی "مُذْ" اور "مُنْذُ" اگر "مَتَى" کا جواب قرار پائیں گے تو اول مدت کا معنی دیں گے اور اگر یہ "كَمْ" کا جواب میں واقع ہوں گے تو یہ تمام مدت کا معنی دیں گے۔ جیسے کوئی شخص کہے "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمَانِ" یا "مَا رَأَيْتُهُ مُنْذُ يَوْمَانِ" کس کو کہے؟ "فِي جَوَابِ مَنْ قَالَ" اس شخص کے جواب میں جس نے ان سے سوال کیا تھا "كَمْ مُدَّةً مَا رَأَيْتَ زَيْدًا؟" کہ کتنا عرصہ ہوا ہے تو نے نہیں دیکھا؟ آپ کہتے ہیں "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ يَوْمَانِ" اس کا مطلب ہے "جَمِيعُ مُدَّةٍ مَا رَأَيْتُهُ" کہ میرا ٹوٹل عرصہ کہ جو میں نے اس کو نہیں دیکھا وہ ہیں دو دن تو یہاں "مُذْ" نے جمیع مدت کا معنی دیا ہے نہ کہ اول مدت کا۔

"لَدَا" اور "لَدُن"

اِنھیں ظروف میں سے دو اور ہیں۔ ایک ہے "لَدَا" اور ایک ہے "لَدُن"۔ یعنی "اسْمَاءَ ظُرُوفِ مَبْنِیَہ" میں سے ہے "لَدَا" اور "لَدُن"۔ "لَدَا" اور "لَدُن" بمعنى "عِنْدَ" کے ہوتے ہیں۔ "عِنْدَ" کا معنیٰ اردو میں ہوتا ہے پاس۔ "عِنْدِي" میرے پاس، "عِنْدَکَ" تیرے پاس، "عِنْدَہُ" اس کے پاس۔ لیکن "عِنْدَ" اور "لَدَا" میں فرق ہوتا ہے،  فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شئ میرے پاس ابھی اور اِسی وقت یہاں موجود نہ بھی ہو، اس کے لیے بھی میں "عِنْدَ" استعمال کر سکتا ہوں۔ مثلاً، مثال دیتا ہوں۔ پیسے میرے پاس بینک میں پڑے ہیں۔ اور میں کہتا ہوں: میرے پاس یعنی "عِنْدِيْ مَالٌ" میرے پاس مال ہے۔ میرے پاس لاکھ روپیہ ہے، پانچ لاکھ روپیہ ہے۔ "عِنْدِي" اگر کہوں کوئی حرج نہیں۔ حالانکہ اِس وقت میرے پاس نہیں وہ تو بینک میں ہے۔ جاؤں گا، چیک کاٹوں گا، منظور ہوگا پھر ملیں گے۔ پہلا فرق یہ ہے کہ "عِنْدَ" اور "لَدَا" میں اگرچہ "لَدَا" اور "لَدُن" بمعنیٰ "عِنْدَ" کے ہیں لیکن فرق کیا ہے؟ کہ "لَدَا" وہاں استعمال ہوگا جب اسمیں حضور شرط ہے۔ حضور سے مراد کیا؟ یعنی جس چیز کے بارے میں آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ میرے پاس ہے، اگر وہ موقع پر آپ کے پاس ہوگی تو وہاں آپ "لَدَا" استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال، اگر آپ کہتے ہیں "لَدَیَّ مَالٌ" میرے پاس مال ہے یا "اَلْمَالُ لَدَیَّ" مال میرے پاس ہے۔ یہ "لَدَیَّ" اس صورت میں کہیں گے کہ اگر مال وہاں موقع  پر موجود ہو اور آپ کے پاس ہو گا بھی سہی تو۔ لیکن اگر وہ موقع پر نہیں ہے تو وہاں آپ "لَدَا" کا استعمال نہیں کر سکتے۔ لیکن "عِنْدَ" چاہے وہ مال موقع پر موجود ہو تو بھی "عِنْدَ" کا استعمال ہو سکتا ہے، موقعے پر موجود نہ ہو تو بھی "عِنْدَ" کا استعمال ہو سکتا ہے۔ اس میں فرق یہ ہے۔ایک اور فرق بھی ہے کہ "لَدَا" اور "لَدُن" یہ ہمیشہ "لَازِمُ الْاِضَافَہ" ہیں۔ یہ بغیر "مُضَاف اِلَیْہ" اضافت کے استعمال نہیں ہوتے۔ لیکن "عِنْدَ" وہ اضافت کے ساتھ بھی استعمال ہو سکتا ہے اور بغیر اضافت کے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ "وَمِنْهَا" اِنھیں ظروفِ مبنیہ میں سے ایک اور اسمِ ظرفِ مبنی ہے "لَدَا" اور "لَدُن"۔ "لَدَا" اور "لَدُن" بمعنىٰ "عِنْدَ" کے ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "اَلْمَالُ لَدَیْکَ" مال تیرے پاس ہے، جیسے ہم کہتے ہیں "اَلْمَالُ عِنْدَکَ" مال تیرے پاس ہے۔ جناب اگر یہ بمعنىٰ "عِنْدَ" کے ہیں تو پھر "عِنْدَ" اور "لَدَا" میں کوئی فرق ہے؟ فرماتے ہیں ہاں فرق ہے۔ فرق کیا ہے؟ "وَالْفَرْقُ بَیْنَهُمَا" "ھُمَا" سے مراد یہ ہے یعنی "عِنْدَ" اور "لَدَا" اور "لَدُن" میں۔ یعنی "ھُمَا" میں جو ضمیر ہے تثنیہ کی، ایک طرف اس کے ہے "عِنْدَ" اور دوسری طرف "لَدَا" اور "لَدُن"۔ "لَدَا"، "لَدُن" اور "عِنْدَ" کے درمیان فرق کیا ہے؟ "اَنَّ عِنْدَ لَا يُشْتَرَطُ فِيهِ الْحُضُورُ" کہ "عِنْدَ" کے لیے حضور شرط نہیں ہے لیکن "يُشْتَرَطُ ذٰلِکَ فِی لَدَا" لیکن "لَدَا" اور "لَدُن" میں حضور شرط ہے۔ اب جو میں نے آپ کو پہلے مثال دی ہے اب اس کا ترجمہ یہاں آپ نے فٹ کرنا ہے۔ حضور سے مراد کیا ہے؟ یعنی یہاں پر ہے کہ آپ جس چیز کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں کہ وہ شئ میرے پاس ہے، "عِنْدَ" کے لیے یہ شرط نہیں کہ حتماً وہ موقع پر حاضر بھی ہو تو آپ کہیں کہ "عِنْدِي"۔ نہ۔ لیکن "لَدَا" اور "لَدُن" کے یہ شرط ہے کہ اگر وہ موقع پر چیز موجود ہوگی، حاضر ہوگی تو وہاں آپ پس "اَلْمَالُ عِنْدَکَ" توجہ کے ساتھ، آپ دوسرے بندے کو کہہ سکتے ہیں۔ "اَلْمَالُ عِنْدَکَ" مال تیرے پاس ہے اگرچہ موقع پر اس کے پاس مال نہ بھی ہو، بینک میں پڑا ہو، کسی اور شہر میں ہو تو بھی آپ "عِنْدَکَ" کہہ سکتے ہیں۔ لیکن "اَلْمَالُ لَدَیْکَ" اس صورت میں کہیں گے کہ جب وہ مال حاضر ہو اس وقت اس کے پاس موجود ہو۔ اس "لَدَا" اور "لَدُن" کو اور طریقوں سے پڑھا گیا ہے مثلاً اِسی "لَدَا" کو بعض لوگوں نے پڑھا ہے "لَدَنْ" بعض نے پڑھا ہے "لَدُنْ" بعض نے پڑھا ہے "لُدُنْ" بعض نے پڑھنا ہے "لَدّ" بعض نے "لُدّ" بعض نے "لَدّ" یعنی مقصد کیا ہے کہ اس میں مختلف لغات ہیں "لَدُن" میں، "لَدَا" اور "لَدُن" میں یعنی "لَدُنْ"، "لَدَنْ"، "لَدِنْ"، "لَدّ"، "لُدّ"، "لِدّ"۔ بلکہ آپ اس کو یوں پڑھ لیں کہ چھ لغات ہیں "لَدَنْ"، "لَدُنْ"، "لَدِنْ"، "لَدّ"، "لُدّ"، "لِدّ" یہ بھی اس کو پڑھا گیا ہے۔

 "قَطُّ" اور اس کے استعمالات

"وَمِنْهَا" اِنھیں ظروفِ مبنیہ میں سے ایک اور اسمِ ظرفِ مبنی ہے "قَطُّ"۔ "قَطُّ" ہمیشہ "قَطُّ" ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ آتا ہے ماضی منفی کے لیے۔ یعنی اگر ایک کام زمانۂ گزشتہ میں نہیں ہوا تو اس ماضی منفی کے لیے آتا ہے "قَطُّ"۔ یعنی "مَا رَأَیْتُهُ" میں نے زمانۂ گزشتہ میں اس کو نہیں دیکھا "قَطُّ" یعنی یہ اِسی ماضی منفی کے ہے۔ "قَطُّ" یعنی مضارع کے اگر نہ دیکھنا ہو، کام نہ کرنا ہو تو وہاں "قَطُّ" استعمال نہیں ہوتا۔ "قَطُّ" وہاں استعمال ہوگا جہاں ماضی منفی ہو۔ یعنی میں نے اس کو نہیں دیکھا زمانۂ گزشتہ میں کسی بھی وقت نہیں دیکھا۔

  "عَوْضُ" اور اس کے استعمالات

 ایک اور اسمِ ظرفِ مبنی وہ ہے "عَوْضُ"۔ "عَوْضُ" آتا ہے "لِلْمُسْتَقْبَلِ الْمَنْفِيْ" یعنی مستقبل منفی کے لیے کہ جو کام زمانۂ آئندہ میں نہیں کرنا اس کے لیے ظرف بن کے آتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں "لَا اَضْرِبُهُ" یا "لَا اَضْرِبُ" "لَا اَضْرِبُهُ" میں اس کو نہیں ماروں گا "عَوْضُ" زمانۂ مستقبل میں یعنی کبھی بھی۔ 

"قَطُّ" یعنی ماضی منفی کی تاکید کرتا ہے اور "عَوْضُ" مستقبل منفی کی تاکید کرتا ہے۔ "مَا رَأَیْتُهُ" میں نے اس کو نہیں دیکھا "قَطُّ" یعنی بالکل، تاکید ہو گئی۔ یا "لَا اَضْرِبُهُ" میں اس کو نہیں ماروں گا "عَوْضُ" یعنی ہرگز نہیں، کبھی بھی۔

5

قط،عوض اور باقی اسماء ظروف کے احکام

"قَطُّ" اور اس کے استعمالات

"وَمِنْهَا" اِنھیں ظروفِ مبنیہ میں سے ایک اور اسمِ ظرفِ مبنی ہے "قَطُّ"۔ "قَطُّ" ہمیشہ "قَطُّ" ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ آتا ہے ماضی منفی کے لیے۔ یعنی اگر ایک کام زمانۂ گزشتہ میں نہیں ہوا تو اس ماضی منفی کے لیے آتا ہے "قَطُّ"۔ یعنی "مَا رَأَیْتُهُ" میں نے زمانۂ گزشتہ میں اس کو نہیں دیکھا "قَطُّ" یعنی یہ اِسی ماضی منفی کے ہے۔ "قَطُّ" یعنی مضارع کے اگر نہ دیکھنا ہو، کام نہ کرنا ہو تو وہاں "قَطُّ" استعمال نہیں ہوتا۔ "قَطُّ" وہاں استعمال ہوگا جہاں ماضی منفی ہو۔ یعنی میں نے اس کو نہیں دیکھا زمانۂ گزشتہ میں کسی بھی وقت نہیں دیکھا۔

"عَوْضُ" اور اس کے استعمالات

 ایک اور اسمِ ظرفِ مبنی وہ ہے "عَوْضُ"۔ "عَوْضُ" آتا ہے "لِلْمُسْتَقْبَلِ الْمَنْفِيْ" یعنی مستقبل منفی کے لیے کہ جو کام زمانۂ آئندہ میں نہیں کرنا اس کے لیے ظرف بن کے آتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں "لَا اَضْرِبُهُ" یا "لَا اَضْرِبُ" "لَا اَضْرِبُهُ" میں اس کو نہیں ماروں گا "عَوْضُ" زمانۂ مستقبل میں یعنی کبھی بھی۔ 

"قَطُّ" یعنی ماضی منفی کی تاکید کرتا ہے اور "عَوْضُ" مستقبل منفی کی تاکید کرتا ہے۔ "مَا رَأَیْتُهُ" میں نے اس کو نہیں دیکھا "قَطُّ" یعنی بالکل، تاکید ہو گئی۔ یا "لَا اَضْرِبُهُ" میں اس کو نہیں ماروں گا "عَوْضُ" یعنی ہرگز نہیں، کبھی بھی۔

اسماء ظروف کے احکام

اب اس کے بعد یہ سارے اسماء گزر گئے کہ ان سب کو کہا جاتا ہے کہ یہ وہ اسماء ہیں جو اسماءِ ظروف ہیں اور یہ مبنی ہیں۔

جب ظروف جملہ یا ’اذ‘ کی طرف مضاف ہوں

اب آخر میں ایک چیز بیان فرما رہے ہیں اور اس کے بعد جو ہے الحمدللہ اسمِ معرب اور مبنی کی بحث، وہ جو  دو باب تھے، بابِ اول اسمِ معرب میں، بابِ ثانی اسمِ مبنی میں مکمل ہو جائے گا اور اس کے بعد آئے گا خاتمہ کہ جو دونوں کے مشترکات جس میں بیان ہوں گے۔  فرماتے ہیں:اگر یہ ظروف جملہ کی طرف مضاف ہوں تو وہاں جائز ہے۔ کیا جائز ہے؟ کہ ان کو "مبنی علی الفتح" پڑھا جائے۔ یعنی آگے بتا رہے ہیں کہ بلکہ یوں بیان کروں تو اور آسان ہوگا۔ فرماتے ہیں کہ "وَاعْلَمْ اِذَا اُضِیفَ الظُّرُوفُ اِلَی الْجُمْلَةِ وَاِلٰی اِذْ" کہ جب بھی کوئی ظرف جملہ کی طرف یا "اِذْ" کی طرف مضاف ہوگا۔ "جَازَ بِنَاؤُھَا عَلَی الْفَتْحِ" اس کو "مبنی علی الفتح" پڑھنا جائز ہے۔ ذرا غور فرمانا ہے۔ کہ جب بھی یہ ظروف جملہ کی طرف یا "اِذْ" کی طرف مضاف ہوں گے، اس کو "مبنی علی الفتح" پڑھنا جائز ہے۔ جیسے آیتِ مجیدہ ہے۔ "هٰذَا یَوْمَ یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُھُمْ" "یَوْمَ" ظرف تھا آگے مضاف ہو رہا تھا "یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ" کی طرف لہٰذا "یَوْمُ" کی بجائے پڑھا گیا ہے "یَوْمَ یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ"۔ اسی طرح "یَوْمَئِذٍ" چونکہ "یَوْمَ" "اِذْ" کی طرف مضاف تھا، "حِیْنَئِذٍ" "حِیْنَ" "اِذْ" کی طرف مضاف تھا تو اس لیے "یَوْمَ" پڑھا ہے "حِیْنَ" پڑھا ہے۔

مثل اور غیر جب ’ما‘، ’ان‘ یا ’انّ‘ کے ساتھ ہوں

اسی طرح فرماتے ہیں اگر لفظِ "مِثْلُ" اور "غَیْرُ"  اگر وہ "مَا" "اَنْ" اور "اَنَّ" کے ساتھ ہیں تو "مِثْلُ" اور "غَیْرُ" کو بھی "مبنی علی الفتح" پڑھ سکتے ہیں۔   "مِثْلُ" اور "غَیْرُ" اگر ان کے بعد "مَا" آ جائے، "اَنْ" آ جائے اور "اَنَّ" آ جائے "اِنَّ" نہیں ہے "اَنَّ" آگے آیتِ مجیدہ بتاتا ہوں آپ کو۔  تو اس "مِثْلُ" اور "غَیْرُ" کو بھی "مبنی علی الفتح" پڑھیں گے۔  "وَکَذٰلِکَ مِثْلُ وَغَیْرُ مَا مَا وَاَنْ وَاَنَّ" اگر "مِثْلُ" اور "غَیْرُ" "مَا" "اَنْ" اور "اَنَّ" کے ساتھ ہیں۔ مثلاً آپ کہیں "ضَرَبْتُهُ مِثْلَ مَا ضَرَبَ زَیْدٌ" اب "مِثْلَ" کے بعد "مَا ضَرَبَ" ہے۔ یا "ضَرَبْتُهُ غَیْرَ اَنْ ضَرَبَ زَیْدٌ"۔ تو فرماتے ہیں : اس "مِثْلُ" اور "غَیْرُ" پر کیا کر سکتے ہیں ہم؟ ان کو "مبنی علی الفتح" پڑھیں گے۔ مزید مثالیں "ضَرَبْتُ مِثْلَ مَا ضَرَبَ زَیْدٌ" "ضَرَبْتُ غَیْرَ اَنْ ضَرَبَ زَیْدٌ" یا "مِثْلَ اَنَّکَ تَقُوْمُ" "مِثْلَ اَنَّکَ تَقُوْمُ" اب یہاں بھی آپ "مِثْلَ" پڑھ سکتے ہیں یعنی "مبنی علی الفتح" پڑھ سکتے ہیں۔

اَمْسِ  اور لغتِ حجاز

آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ "اَمْسِ" بھی "لغتِ حجاز" میں سب کے نزدیک نہیں بلکہ "لغتِ حجاز" والے اس کو "مبنی" میں سے پڑھتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی "مبنی" ہے اور یہ "ظرف" ہے اور "مبنی علی الکسر" ہے یعنی "ظروفِ مبنیہ" میں سے "اَمْسِ" کو وہ "ظرف" قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ "مبنی علی الکسر" ہے، ہمیشہ اس کو کیا کریں گے؟ "اَمْسِ" ہی پڑھیں گے۔

وَ صَلَّى اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ

ومنها : «اِذْ» وهي للماضي نحو : جِئْتُكَ إذْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وإذ الشَّمْسُ طالِعَةٌ.

ومنها : «أيْنَ» و «أنّى» للمكان بمعنى الاستفهام نحو : أيْنَ تَمْشي ؟ وأنّى تَقْعُدُ ؟ وبمعنى الشرط نحو : أيْنَ تَجْلِسْ أجْلِسْ ، وأنّى تَقُمْ أقُمْ.

ومنها : «مَتىٰ» للزمان شرطاً واستفهاماً نحو : مَتىٰ تُسافِرْ اُسافِرْ ، ومَتىٰ   تَقْعُدْ أقْعُدْ ؟

ومنها : «كَيْفَ» للاستفهام حالاً نحو : كَيْفَ أنْتَ ؟ أي في أيّ حال.

ومنها : «أيّانَ» للزمان استفهاماً نحو : «أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ» (١).

ومنها : «مُذْ» و «مُنْذُ» بمعنى أوّل المدّة جواباً لمَتىٰ نحو : ما رَأيْتُ زَيْداً مُذْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ، في جواب من قال : مَتىٰ ما رَأيْتَ ؟ ، أي أوّل مدّة انقطع رؤيتي إيّاه يوم الجمعة. وبمعنى جميع المدّة إن صلح جواباً لِكمْ نحو : ما رَأيْتُهُ مُذْ يَوْمانِ ، في جواب من قال كَمْ مُدَّة ما رَأيْتَ زَيْداً ؟ أي جميع مدّة ما رأيته فيها يومان.

ومنها : «لَدىٰ» و «لَدُنْ» بمعنى «عند» نحو : الَمالُ لَدَيْكَ ، والفرق بينهما أنّ «عِنْد» للمكان ولا يشترط فيه الحضور ، ويشترط ذلك في لَدىٰ ولَدُنْ ، وجاء فيه لغات : لَدَنْ ، لَدُنْ ، لَدِنْ ، لَدْ ، لُدْ ، لِدْ.

ومنها : «قَطُّ» للماضي المنفيّ نحو : ما رَأيْتُهُ قَطُّ.

ومنها : «عَوْضُ» للمستقبل المنفيّ نحو : لا أضْرِبُهُ عَوْضُ.

واعلم أنّه إذا اضيف الظروف إلى جملة ، جاز بناؤها على الفتح نحو قوله تعالى : «يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ» (٢) ويَوْمَئِذٍ وحينَئِذٍ. وكذلك مِثْل ، وغَيْر ، مع ما ، وأنْ وأنَّ تقول : ضَرَبْتُ مِثْلَ ما ضَرَبَ زَيْدٌ ،

____________________________

(١) الذاريات : ١٢.

(٢) المائدة : ١١٩.

وضَرَبْتُهُ غَيْرَ أنْ ضَرَبَ زَيْدٌ ، وقيامي مِثْلَ أنَّكَ تَقُومُ.

الخاتمة

في سائر أحكام الاسم ولواحقه غير الإعراب والبناء

وفيه فصول :

فصل : اعلم أنّ الاسم على قسمين : معرفة ، ونكرة.

المعرفة اسم وضع لشيء معيّن ، فهي ستّة أقسام :

المضمرات ، والأعلام ، والمبهمات ـ أعنى أسماء الإشارات والموصولات ـ والمعرّف باللام ، والمضاف إلى أحدها إضافة معنويّة ، والمعرّف بالنداء.

فصل : العَلَم ، ما وضع لشيء معيّن بحيث لا يتناول غيره بوضع واحد. وأعرف المعارف المضمر المتكلّم نحو : أنَا ونَحْنُ ، ثمّ المخاطب نحو : أنْتَ ، ثمّ الغائب نحو : هُوَ ، ثمّ العَلَم نحو : زَيْد ، ثمّ المبهمات ، ثمّ المعرّف باللام ، ثمّ المعرّف بالنداء ، ثمّ المضاف إلى أحدها ، والمضاف في قوّة المضاف إليه.

والنكرة ما وضع لشيء غير معيّن ك‍ : رَجُل ، وفَرَس.

فصل : أسماء الأعداد ، ما وضع ليدلّ على كمّيّة آحاد الأشياء واُصول العدد اثنتا عشرة كلمة ، واحد إلى عَشَر ، ومائة ، وألف. واستعماله من واحِد واثْنَيْن على القياس ، أعني يكون المذكّر بدون التاء ، والمؤنّث بالتاء تقول في رجل : واحِد ، وفي رجلين : اثْنَيْنِ ، وفي امرأة : واحِدَة ، وفي امرأتين : اثْنَتَيْن. ومن ثَلاثَة إلى عَشَرَة على خلاف القياس ، أعني للمذكّر بالتّاء تقول : ثَلاثةُ رجال إلى عَشَرةِ رجال ، وللمؤنّث بدونها تقول : ثَلاثُ نِسْوَةٍ إلى عَشَرَ نِسْوَةٍ. وبعد العشر تقول : أحَدَ عَشَرَ رَجُلاً ، واثنا عَشَرَ