درس الهدایة في النحو

درس نمبر 33: ظروف مبنیہ

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

ظروف مبنیہ کی تعریف اور اقسام

الظروف المبنيّة

اسماء مبنیہ ہمارا موضوع بحث چل رہا ہے۔ اور ان اسماء مبنیہ میں سے آٹھویں قسم آٹھویں نوع ہے ظروف کی کہ ظروف بھی مبنی ہوتے ہیں۔ ظروف جمع ہے ظرف کی۔ ظرف کبھی ظرف زمان ہوتا ہے اور کبھی ظرف مکان ہوتا ہے یعنی ظرف کی دو قسمیں ہیں ظرف زمان، ظرف مکان۔ ظرف کا اردو میں ترجمہ تو ہوتا ہے برتن تو یہاں کونسا برتن ہے فرماتے ہیں بھئی معنی چونکہ جو بھی فعل ہوگا وہ کسی زمانے میں یا کسی جگہ میں وجود میں آتا ہے تو اس لحاظ سے اس کو ظرف کہتے ہیں اور جو فعل ہوگا یا جو بھی ہوگا اس کو مظروف کہتے ہیں ۔

 مبنی ظروف کی اقسام

فرماتے ہیں:  یہ ظرف ظروف میں سے جو مبنی ہوتے ہیں وہ مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ہوتے ہیں جو "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہوتے ہیں یعنی ان کا مضاف الیہ ان کے ساتھ ذکر نہیں ہوتا۔ ان کو کہتے ہیں "مَقْطُوعُ الْإِضَافَةِ"۔ اور بعض ظروف مبنیہ ایسے ہیں ان شاء اللہ جی ہم پڑھیں گے کہ جن کا مضاف الیہ ان کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ پھر وہ مضاف الیہ کبھی مفرد ہوتا ہے کبھی جملہ ہوتا ہے۔ 

 "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ"  کی وضاحت

 فرماتے ہیں "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" کا مطلب یہ ہے  کہ جن کا مضاف الیہ "لَفْظًا مَحْذُوفٌ" ہو لیکن متکلم کی نیت میں ہو۔ اس کو کہتے ہیں محذوف منوی کہ لفظاً حذف ہے لیکن نیت میں موجود ہے۔ اگر کوئی ایسا ظرف ہو جو آگے بتا رہے ہیں کہ جس کا مضاف الیہ لفظاً ذکر نہیں ہوتا محذوف ہوتا ہے لیکن نیت متکلم میں ہوتا ہے اس کو ہم کہتے ہیں کہ جس کا مضاف الیہ محذوف معنوی ہو، وہ مبنی ہوتے ہیں۔ کون کونسے ہیں؟ فرماتے ہیں: جیسے "قَبْلُ"، "بَعْدُ"، "فَوْقُ" اور "تَحْتُ"۔ قرآن کی آیت بھی ہے "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ" "مِنْ" آیا ہے لیکن "قَبْلُ" پڑھ رہے ہیں "مِنْ قَبْلٍ" نہیں پڑھ رہے۔ "وَمِن بَعْدُ" "مِنْ بَعْدٍ" نہیں پڑھ رہے یعنی "مِنْ" عمل نہیں کر رہا، کیوں؟ چونکہ یہاں "قَبْلُ" ظرف ہے، ظرف زمان ہے اور "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہے اور  اس کا مضاف الیہ محذوف ہے لیکن "مَحْذُوفِ مَعْنَوِی" نیت متکلم میں ہے۔  لیکن اگر انہی کے مضاف الیہ کو ہم محذوف تو قرار دیں لیکن ہم اس کو یہ کہیں کہ اصلاً یہ نیت متکلم میں بھی نہیں ہے "نَسْيًا مَّنسِيًّا" ہے تو پھر یہ معرب ہوتے ہیں پھر یہ ظروف مبنی نہیں ہوتے۔ لہذا اگر ہم "قَبْلُ" کا مضاف الیہ "كُلِّ شَيْءٍ" محذوف معنوی قرار دیں گے تو پھر یہ "قَبْلُ" ظرف مبنی شمار ہوگا۔ لیکن اگر ہم کہتے ہیں کہ "قَبْلُ" کا کوئی مضاف الیہ یہاں نیت میں بھی نہیں ہے اصلاً "نَسْيًا مَّنسِيًّا" ہے پھر یہ معرب ہوں گے پھر "مِنْ قَبْلٍ" پڑھیں گے "مِنْ قَبْلُ" نہیں پڑھیں گے۔

4

ظروف اور اس کی اقسام

ظروف

وہ ظروف یعنی وہ اسماء جو ظرف کے لیے آتے ہیں ظرف زمان، ظرف مکان کے لیے جو "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہوتے ہیں یعنی جن کا مضاف الیہ محذوف ہوتا ہے لیکن محذوف منوی ہوتا ہے انہی کو غایات بھی کہتے ہیں۔  جناب غایات ان کا نام کیوں رکھا جاتا ہے؟ تو آپ جواب میں کہیں گے اب یہ کتاب میں نہیں ہے لیکن کاپی پہ آپ لکھ لیں گے۔ اس لیے ان کو ہم غایات کہتے ہیں چونکہ اصل میں   کلام کی انتہاء  ہونی تھی مضاف الیہ پر۔ اب جب مضاف الیہ ہوگیا حذف تو کلام کی انتہاء  ہوگئی اسی ظرف پر تو یہاں کلام انتہاء کو پہنچ گئی یعنی ختم ہوگئی تو اس لیے خود انہی ظروف کو غایات کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر مضاف الیہ ذکر ہوتا تو کیسے ہوتا؟ "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلِ كُلِّ شَيْءٍ" اب "كُلِّ شَيْءٍ" پہ بات ختم ہونی تھی لیکن اب چونکہ مضاف الیہ حذف ہے "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ" "قَبْلُ" پر  کلام کی انتہاء ہوگئی تو اس لیے ان کو کہا جاتا ہے غایات اور اسی لیے یہ مبنی ہیں۔ "فَصْلٌ" "الظُّرُوفُ الْمَبْنِيَّةُ عَلَى أَقْسَامٍ" ظروف مبنی کئی قسم کے ہیں۔   پھر خود  ظرف کی دو قسمیں ہوتے ہیں ایک ظرف مکان ہوتا ہے ایک ظرف زمان ہوتا ہے۔ یہ ظروف دونوں کو شامل ہیں  چاہے ظرف زمان ہو چاہے ظرف مکان ہو، ظروف مبنی ہوتے ہیں لیکن مختلف ان کی قسمیں ہیں جن میں سے پہلی شروع کر رہے ہیں نمبر ایک۔ "مَا قُطِعَ عَنِ الْإِضَافَةِ" وہ اسماء  ظروف جو "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہوتے ہیں، وہ "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے "بِأَنْ حُذِفَ الْمُضَافُ إِلَيْهِ" کہ جن کا مضاف الیہ محذوف ہوتا ہے جیسے "قَبْلُ"، "بَعْدُ"، "فَوْقُ" اور "تَحْتُ"۔ قرآن مجید میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ" جن کا مضاف الیہ "قَبْلُ" اور "بَعْدُ" کا کیا تھا؟ یعنی "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلِ كُلِّ شَيْءٍ وَمِنْ بَعْدِ كُلِّ شَيْءٍ"۔ تو یہ ظرف جو "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہوتے ہیں یہ مبنی ہوتے ہیں "إِذَا كَانَ الْمَحْذُوفُ مَنْوِيًّا لِلْمُتَكَلِّمِ" یہ اس صورت میں مبنی ہوتے ہیں کہ اگر مضاف الیہ متکلم کی نیت میں ہو اس کو کہا جاتا ہے "مَحْذُوفِ مَعْنَوِی" یعنی لفظاً حذف کیا گیا ہے لیکن نیت متکلم میں موجود ہے تب تو یہ ہوں گے مبنی "وَإِلَّا" یعنی اگر ان کا مضاف الیہ ذکر ہو یا ان کا مضاف الیہ محذوف ہو لیکن "مَحْذُوفِ مَعْنَوِی" نہ ہو نیت میں ہی نہ ہو بلکہ اصلاً "نَسْيًا مَّنسِيًّا" یعنی ذہن کے کسی کھاتے میں بھی نہیں ہے "لَكَانَتْ مُعْرَبَةً" تو اس وقت یہ ظروف پھر مبنی نہیں ہوں گے بلکہ معرب ہوں گے۔ "وَعَلَى هَذَا" اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اس آیت کو پڑھتے ہیں "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلٍ وَمِنْ بَعْدٍ" کیوں؟ وہ کہتے ہیں محذوف ان کا جو مضاف الیہ ہے وہ "نَسْيًا مَّنسِيًّا" ہے وہ اصلاً متکلم   کی نیت میں ہی نہیں ہے۔ "وَعَلَى هَذَا قُرِئَ" اور اسی بنیاد پر،  مراد کیا؟ یعنی جو کہتے ہیں کہ ان کا مضاف الیہ نیت میں نہیں ہے بلکہ "نَسْيًا مَّنسِيًّا" ہے وہ آیت کو پڑھتے ہیں "لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلٍ وَمِنْ بَعْدٍ" یعنی معرب پڑھتے ہیں۔ "وَتُسَمَّى الْغَايَاتِ" یعنی وہ ظروف جو "مَقْطُوعٌ عَنِ الْإِضَافَةِ" ہوتے ہیں اور ان کا مضاف الیہ "مَحْذُوفِ مَعْنَوِی" ہوتا ہے انہی ظروف کو غایات نام دیا گیا ہے  یا دوسرا نام ان کا غایات ہے۔ غایات جمع ہے غایت کی وہ میں نے بیان کر دیا کہ ان کو غایات کیوں کہا جاتا ہے، اس کا جواب بھی ہو گیا۔

 دوسری قسم: حَیْثُ

"وَمِنْهَا" ظروف مبنیہ کی ایک اور قسم، ایک اور ظرف، ایک اور اسم جو مبنی ہوتا ہے ظروف میں سے وہ ہے "حَيْثُ"۔ وہ کیا ہے؟ "حَيْثُ" کیوں مبنی ہے؟ فرماتے ہیں: "حَيْثُ" کے مبنی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جیسے غایات  "قَبْلُ"، "بَعْدُ" وغیرہ "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" تھے۔ یہ "حَيْثُ" بھی "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" ہے۔ جیسے وہاں مضاف الیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ محتاج ہوتا ہے مضاف الیہ کا تو یہ "حَيْثُ" بھی چونکہ اسی طرح "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" ہے بغیر اضافہ کے استعمال نہیں ہوتا تو فرماتے ہیں اس لیے اب چونکہ احتیاج میں ان کے ساتھ مشابہ رکھتا ہے اس لیے یہ بھی مبنی ہے چونکہ یہ مشابہ غایات ہے اس لیے کہ اس کو مضاف الیہ چاہیے ہوتا ہے۔ اب مضاف الیہ کبھی جملہ ہوتا ہے اور کبھی مضاف الیہ اسم مفرد ہوتا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا، "وَمِنْهَا" یعنی ظروف مبنیہ میں سے ایک ظرف ہے "حَيْثُ"، "بُنِيَتْ" یعنی "حَيْثُ" کو مبنی قرار دیا گیا ہے، کیوں؟ اس کی وضع مبنی نہیں ہے بلکہ "تَشْبِيهًا لَهَا بِالْغَايَاتِ" چونکہ یہ مشابہ غایات ہے۔ کس بات میں؟ "لِمُلَازَمَتِهَا الْإِضَافَةَ" جیسے غایات "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" ہیں ان کا بھی او "قَبْلُ"، "بَعْدُ"، "فَوْقُ"، "تَحْتُ" کا کوئی نہ کوئی مضاف الیہ لازم ہوتا ہے، اب وہ محذوف ہ،ذکور ہو ، وہ علیحدہ ہے لیکن ہیں تو لازم الإضافة تو وہ بھی بغیر مضاف الیہ کے نہ   تھے یہ بھی انہی کی طرح "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" ہے، اس کا مضاف الیہ ضروری ہوتا ہے۔ تو اب چونکہ یہ اس "لَازِمُ الْإِضَافَةِ" ہونے میں غایات کے مشابہ ہے اس شباہت کی بنیاد پر اس کو بھی "بُنِيَتْ" یعنی مبنی قرار دیا گیا ہے کہ یہ بھی مبنی ہے۔ اب اگلا سوال یہ ہوگا کہ پھر "حَيْثُ" کا مضاف الیہ کیا ہوتا ہے؟ جواب ساتھ ہی دیا ہے فرماتے ہیں: "لِمُلَازَمَتِهَا الْإِضَافَةَ إِلَى الْجُمْلَةِ فِي الْأَكْثَرِ" جواب یہاں سے ہے کہ عام طور پر اکثر طور پر تو اس "حَيْثُ" کا مضاف الیہ جملہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا مضاف الیہ جملہ ہے جیسے "سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ" کہ ہم ان کو آہستہ آہستہ وہ ہلاکت میں ڈالیں گے جہاں سے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو پتہ ہی نہیں ہوگا۔ اب "مِنْ حَيْثُ" ہم نے پڑھا ہے کہ "حَيْثُ" یہاں مبنی ہے اور اس کا مضاف الیہ جملہ ہے "لَا يَعْلَمُونَ"۔اکثر یعنی آپ لکھیں گے یوں کہ اکثر یعنی عام طور پر تو "حَيْثُ" کا مضاف الیہ جملہ ہوتا ہے "وَقَدْ يُضَافُ إِلَى الْمُفْرَدِ" اور کبھی کبھی یہ مفرد کی طرف مضاف بھی ہوتا ہے یعنی کبھی کبھار اسی "حَيْثُ" کا مضاف الیہ اسم مفرد بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسے کہ شاعر کا یہ شعر ہے "أَمَا تَرَى حَيْثُ سُهَيْلٍ طَالِعًا" سہیل ایک ستارے کا نام ہے۔ یعنی "أَمَا تَرَى" تو نے نہیں دیکھا "حَيْثُ سُهَيْلٍ" یعنی سہیل کا وہ مکان، وہ جگہ جہاں سے وہ طلوع کرتا ہے۔ پس "حَيْثُ هَذَا بِمَعْنَى مَكَانٍ" یہاں پر "حَيْثُ" مکانیہ ہے یعنی مقصد کیا ہے؟ یعنی سہیل کے طلوع کی جگہ، سہیل کے طلوع کا مکان۔

 شرط "حَيْثُ"

خوب آگے فرماتے ہیں "وَشَرْطُهُ أَنْ يُضَافَ إِلَى الْجُمْلَةِ" البتہ فرماتے ہیں کہ اس "حَيْثُ" کی شرط یہ ہے اس کے لیے شرط کیا ہے؟ فرماتے ہیں اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا مضاف الیہ کیا ہو؟ جملہ ہو۔ یعنی مقصد کیا؟ کہ "حَيْثُ" کے مبنی ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا مضاف الیہ جملہ ہو  یعنی یہ جو لفظ ہے ؛ "شَرْطُهُ" یعنی آپ جواب دیں گے کہ اس کا مطلب ہے کہ "حَيْثُ" کے مبنی ہونے کے لیے شرط یہ ہے "أَنْ يُضَافَ إِلَى الْجُمْلَةِ" کہ وہ مضاف ہو جملہ کی طرف نحو "اِجْلِسْ حَيْثُ يَجْلِسُ زَيْدٌ" 

5

اذا کی بحث

اذا

"وَمِنْهَا" اسی طرح فرماتے ہیں کہ ظروف مبنیہ میں سے ایک اور ظرف، وہ کونسا ہے؟ وہ ہے "إِذَا"۔ فرماتے ہیں "إِذَا" ظروف مبنیہ میں سے ہے اور یہ مستقبل کے لیے آتا ہے۔ حتی کہ اگر یہ "إِذَا" ماضی پر داخل ہو تو بھی وہ مستقبل کا معنی دیتا ہے۔ یعنی اگر "إِذَا" فعل ماضی پر داخل ہو تو بھی فرماتے ہیں کہ وہ  مستقبل کے معنی میں ہوگا۔ بڑی  پیاری آیت مثال دی ہے "إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ" یہاں "إِذَا" ظرفیہ ہے، زمان کے لیے ہے لیکن یہ "إِذَا" "جَاءَ" اگرچہ فعل ماضی پر داخل ہوا ہے لیکن یہاں ہے مستقبل کے لیے کہ جب اللہ کی مدد آتی ہے یا آئے گی یا آئی تھی والا ترجمہ نہیں کرنا۔ "إِذَا" اسم ظرف ہے، مستقبل کے لیے آتا ہے اور اس "إِذَا" میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے۔ اور جب اللہ کی نصرت آئے گی یا آتی ہے جو بھی اس کا ترجمہ آپ کریں۔ بس "إِذَا" جو ظرف زمان کے لیے ہے یہ آتا ہے مستقبل کے لیے اور اس میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے۔

اب فرماتے ہیں یہ بھی جائز ہے کہ اس "إِذَا" کے بعد کوئی جملہ، جملہ اسمیہ ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ اس "إِذَا" کے بعد جملہ، جملہ فعلیہ ہو۔ لیکن کبھی کبھی ہوتا تو  یہی "إِذَا" ہے لیکن وہاں یہ شرط کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ آتا ہے مفاجات کے لیے اس کو کہتے ہیں "إِذَا" مفاجئہ، اردو میں مفاجات یعنی اچانک  پس جہاں "إِذَا" مفاجئہ ہوگا تو اس کے بعد پھر مبتدا ہوگی۔ 

خلاصہ بحث إذا

"وَمِنْهَا" یعنی انہی ظروف مبنیہ میں سے یعنی وہ اسماء جو ظرف ہوتے ہیں اور مبنی ہوتے ہیں ان میں سے ایک ہے "إِذَا"۔ فرماتے ہیں "هِيَ لِلْمُسْتَقْبَلِ" "إِذَا" آتا ہے مستقبل کے لیے۔ "وَإِذَا دَخَلَتْ" یعنی "إِذَا" معنی دیتا ہے استقبال کا آنے والے زمانے کا۔ "وَإِذَا دَخَلَتْ عَلَى الْمَاضِي" اگر یہی "إِذَا" کبھی کسی فعل ماضی پر بھی داخل ہو جائے "صَيَّرَهُ مُسْتَقْبَلًا" وہ اس کو بھی مستقبل میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یعنی جب یہ ماضی پر آتا ہے تو اسے بھی مستقبل کے معنی میں کر دیتا ہے۔ وہ ماضی بھی مستقبل بن جاتا ہے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے "إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ" "جَاءَ" فعل ماضی ہے اس پر "إِذَا" آیا ہے اب اس کا یہ ترجمہ نہیں کریں کہ جب اللہ کی مدد آئی تھی بلکہ یہ بن جائے گا مستقبل "إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ" یعنی جب اللہ کی مدد آئے گی۔ مستقبل کا معنی کرنا ہے۔ "وَفِيهَا مَعْنَى الشَّرْطِ" اور اس "إِذَا" میں شرطیت کا معنی پایا جاتا ہے گویا کہ یہ شرط ہوتا ہے۔

آگے فرماتے ہیں "وَيَجُوزُ أَنْ تَقَعَ بَعْدَهَا الْجُمْلَةُ الِاسْمِيَّةُ" یہ بھی جائز ہے کہ اس "إِذَا" کے بعد یعنی یہ جو "إِذَا" شرط کا معنی دیتا ہے تو جب شرط کا معنی دے گا "وَيَجُوزُ" پھر جائز ہے "أَنْ تَقَعَ بَعْدَهَا" کہ اس کے بعد ایک جملہ اسمیہ واقع ہو جیسے "آتِيكَ إِذَا الشَّمْسُ طَالِعَةٌ" میں تیرے پاس آؤں گا جب "الشَّمْسُ طَالِعَةٌ" "الشَّمْسُ طَالِعَةٌ" یعنی یہ جملہ اسمیہ ہے اب دیکھو اس میں کوئی فعل نہیں۔ "وَالْمُخْتَارُ الْفِعْلِيَّةُ" لیکن مختار یہ ہے کہ نہیں اس کے بعد جملہ جائز ہے کہ جملہ اسمیہ آ سکتا ہے لیکن جو قول مختار ہے جو ہمارے نزدیک بہتر ہے وہ یہ ہے کہ نہیں اس "إِذَا" کے بعد جملہ فعلیہ ہونا چاہیے۔ یعنی "آتِيكَ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ" کہ میں تیرے پاس آؤں گا "إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ" جب سورج طلوع کرے گا تاکہ مستقبل کا بھی ہو اور اس کے بعد فعلیہ ہونا چاہیے۔

إذا مفاجہ

"وَقَدْ تَكُونُ لِلْمُفَاجَاةِ" کبھی کبھی یہ "إِذَا" اس میں شرط کا معنی نہیں ہوتا بلکہ یہ "إِذَا" مفاجات یعنی اس کو کہتے ہیں إذاء  مفاجات آسان اردو میں کہتے ہیں یعنی ایسے کام کو کہ جو اچانک ہو جائے۔ پس جہاں "إِذَا" شرط کے معنی میں نہ ہوگا بلکہ مفاجات جو کام ویسے اچانک سا ہو جائے اس کے لیے ہو "فَيُخْتَارُ بَعْدَهَا الْمُبْتَدَأُ" تو وہاں قول مختار یہ ہے کہ اس کے بعد او جیسے شرط کے معنی میں ہوگا تو قول مختار یہ تھا کہ اس کے بعد جملہ فعلیہ ہو لیکن جب یہ مفاجات کے لیے آئے گا تو پھر قول مختار یہ ہے کہ اس کے بعد مبتدا ہو یعنی اسمیہ ہو جیسے "خَرَجْتُ فَإِذَا السَّبُعُ وَاقِفٌ" تو اچانک وہاں پر درندہ کھڑا تھا۔ تو "فَإِذَا" کے بعد "السَّبُعُ" جو کہ مبتدا ہے اور اسم ہے وہ یہاں پر ذکر ہے۔ پس نتیجہ کیا ہوا؟ کہ جب "إِذَا" بمعنی شرط کے ہوتا ہے تو اس کے بعد جملہ اسمیہ بھی آ سکتا ہے لیکن ہمارے نزدیک جملہ فعلیہ یہ قول مختار ہے کہ فعلیہ ہو۔ لیکن اگر "إِذَا" مفاجات کے معنی اچانک معنی ہوگا تو پھر اس کے بعد جملہ اسمیہ ہوتا ہے۔

ظرفاً نحو : كَمْ رَجُلاً أخُوك ؟ أو كَمْ رَجُلٍ ضَرَبْتُهُ. وخبراً إن كان ظرفاً نحو : كَمْ يَوْماً سَفَرُكَ ؟ وكَمْ شَهْرٍ صَومي.

النوع الثامن : الظروف المبنيّة

على أقسام : منها ما قطع عن الإضافة بأن حذف المضاف إليه ك‍ : «قَبْلُ» ، «وبَعْد» ، «وفَوْق» ، «وتَحْت» ، قال الله تعالى : «لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ» (١) ، أي من قبل كلّ شيء ومن بعده ، ويسمّى الغايات. هذا إذا كان المحذوف منويّاً للمتكلّم. وإلّا كانت معربة. وعلى هذا قرئ : «لله الأمر من قبلِ ومن بعدِ».

ومنها : «حيْثُ» وإنّما بنيت تشبيهاً بالغايات لملازمتها الإضافة ، وشرطها أن تضاف إلى الجملة ك‍ : اجْلِسْ حَيْثُ زَيْدٌ جالِسٌ ، قال الله تعالى : «سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ» (٢) وقد تضاف إلى المفرد كقول الشاعر :

أما تَرىٰ حَيْثُ سُهَيْلٍ طالِعاً

نَجْمٌ يُضيءُ كَالشِهابِ ساطِعاً

أي مكان سهيل. «فحيث» بمعنى «مكان» هنا.

ومنها : «إذا» وهي للمستقبل ، وإذا دخلت على الماضي صار مستقبلاً نحو قوله تعالى : «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» (٣) وفيها معنى الشرط غالباً. ويجوز أن يقع بعدها الجملة الاسميّة نحو : أتَيْتُكَ إذا الشَّمْسُ طالِعَةٌ ، والمختار الفعليّة نحو : أتَيْتُكَ إذا طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وقد يكون للمفاجأة فيختار بعدها المبتدأ نحو : خَرَجْتُ فَإذا السَّبُعُ واقِفٌ.

____________________________

(١) الروم : ٤.

(٢) الاعراف : ١٨٢ والقلم : ٤٤.

(٣) النصر : ١.

ومنها : «اِذْ» وهي للماضي نحو : جِئْتُكَ إذْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وإذ الشَّمْسُ طالِعَةٌ.

ومنها : «أيْنَ» و «أنّى» للمكان بمعنى الاستفهام نحو : أيْنَ تَمْشي ؟ وأنّى تَقْعُدُ ؟ وبمعنى الشرط نحو : أيْنَ تَجْلِسْ أجْلِسْ ، وأنّى تَقُمْ أقُمْ.

ومنها : «مَتىٰ» للزمان شرطاً واستفهاماً نحو : مَتىٰ تُسافِرْ اُسافِرْ ، ومَتىٰ   تَقْعُدْ أقْعُدْ ؟

ومنها : «كَيْفَ» للاستفهام حالاً نحو : كَيْفَ أنْتَ ؟ أي في أيّ حال.

ومنها : «أيّانَ» للزمان استفهاماً نحو : «أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ» (١).

ومنها : «مُذْ» و «مُنْذُ» بمعنى أوّل المدّة جواباً لمَتىٰ نحو : ما رَأيْتُ زَيْداً مُذْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ، في جواب من قال : مَتىٰ ما رَأيْتَ ؟ ، أي أوّل مدّة انقطع رؤيتي إيّاه يوم الجمعة. وبمعنى جميع المدّة إن صلح جواباً لِكمْ نحو : ما رَأيْتُهُ مُذْ يَوْمانِ ، في جواب من قال كَمْ مُدَّة ما رَأيْتَ زَيْداً ؟ أي جميع مدّة ما رأيته فيها يومان.

ومنها : «لَدىٰ» و «لَدُنْ» بمعنى «عند» نحو : الَمالُ لَدَيْكَ ، والفرق بينهما أنّ «عِنْد» للمكان ولا يشترط فيه الحضور ، ويشترط ذلك في لَدىٰ ولَدُنْ ، وجاء فيه لغات : لَدَنْ ، لَدُنْ ، لَدِنْ ، لَدْ ، لُدْ ، لِدْ.

ومنها : «قَطُّ» للماضي المنفيّ نحو : ما رَأيْتُهُ قَطُّ.

ومنها : «عَوْضُ» للمستقبل المنفيّ نحو : لا أضْرِبُهُ عَوْضُ.

واعلم أنّه إذا اضيف الظروف إلى جملة ، جاز بناؤها على الفتح نحو قوله تعالى : «يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ» (٢) ويَوْمَئِذٍ وحينَئِذٍ. وكذلك مِثْل ، وغَيْر ، مع ما ، وأنْ وأنَّ تقول : ضَرَبْتُ مِثْلَ ما ضَرَبَ زَيْدٌ ،

____________________________

(١) الذاريات : ١٢.

(٢) المائدة : ١١٩.