درس الهدایة في النحو

درس نمبر 32: اسماء کنایات

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم کنایہ کی تعریف

فصل: "اَلْکِنَایَاتُ"

 "ھِیَ اَسْمَاءٌ تَدُلُّ عَلٰی عَدَدٍ مُبْھَمٍ اَوْ حَدِیْثٍ مُبْھَمٍ" 

اسماء مبنیہ کی اقسام میں سے ساتویں قسم ہے کنایات کی۔ کنایات جمع ہے کنایہ کا۔ کنایہ کہتے ہیں اشارہ کرنا یعنی بات صراحت کے ساتھ نہیں کرنی۔ جیسے ہم کہتے ہیں،  ہم اردو میں بھی اس کو استعمال کرتے ہیں ہم کہتے ہیں : میں نے فلاں بندے سے بس ایسے کنایتاً کچھ بات کی تھی یعنی کیا یعنی اشارتاً کی تھی۔ صراحت اس کے ساتھ میں نے نہیں کی تھی تو کنایہ کی جمع ہے کنایات۔ فرماتے ہیں کنایات وہ اسماء ہیں کہ جو عدد مبہم یا قول مبہم پر دلالت کرتے ہیں۔ کیا مطلب؟ یعنی اس اسم کے ذریعے کسی چیز کی تعداد کو صراحت کے ساتھ بیان نہ کرنا۔ بس اشارہ کر دینا یا کسی قول یعنی کسی حدیث کسی بات کو صراحت کے ساتھ بیان نہ کرنا بس ایسے ہی اشارہ کر کے گزر جانا۔ جو اسماء کسی عدد مبہم یا قول مبہم یعنی ایسی بات کہ جو مبہم ہو جس میں وضاحت نہ ہو جو بھی اس پر دلالت کریں گے اس کو اسم کنایہ کہتے ہیں۔ یعنی اپ نے ایک لفظ بولا اگلے بندے کو اتنی سمجھ آئی کہ ہے تو بات تعداد کی لیکن وہ تعداد کتنی ہے، پانچ ہے، چار ہے، تین ہے اس کی۔ جیسے میں کہتا ہوں مثلاً میں نے کچھ موبائل خریدے۔ اب اگلا بندہ سمجھ جائے گا کچھ کی دلالت عدد مبہم پر ہے یعنی دو لیے ہیں، تین لیے ہیں، چار لیے ہیں، کیا لیے ہیں۔ یا ہم اردو میں کہتے ہیں میں نے فلاں سے کوئی کچھ بات کی ہے یا کوئی بات کی ہے تو جب یہ بات کرتے ہیں سمجھ آتا ہے کہ مطلب یہ کوئی قول مبہم ہے حدیث ہے۔ صراحت کے ساتھ نہیں کہ کیا بات کی ہے لیکن کوئی کی ضرور ہے۔ یہ ہوتے ہیں کنایات۔ آگے اس کی بحث ہے۔ فرماتے ہیں "کَمْ" اور "کَذَا" یہ دو اسم ہیں جو عدد مبہم پر دلالت کرتے ہیں۔ جبکہ "کَیْتَ" اور "ذَیْتَ" یہ دو اسم ہیں جو قول مبہم پر دلالت کرتے ہیں، حدیث مبہم پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ تو اسان ہے آگے "کَمْ" اور "کَذَا" کی کچھ مزید بحثیں بھی ا رہی ہیں کہ ایک "کَمْ" ہوتا ہے "کَمْ استفہامیہ" ایک "کَمْ" یہی یعنی "کَمْ" جو ہوتا ہے جہاں یہ اسم کنایہ ہوتا ہے یہی "کَمْ" کبھی استفہامیہ بھی ہوتا ہے یہی "کَمْ" کبھی خبریہ بھی ہوتا ہے۔ اس کی اور بھی پھر اس کے اعراب کی بھی وجوہات ہیں وہ آگے پڑھتے ہیں۔ "فَصْلٌ اَلْکِنَایَاتِ ھِیَ اَسْمَاءٌ" کنایات وہ اسماء ہیں "تَدُلُّ" جو دلالت کرتے ہیں "عَلٰی عَدَدٍ مُبْھَمٍ" عدد مبہم پر یعنی وہ عدد کہ جس کی تعداد معلوم نہ ہو واضح نہ ہو "وَھِیَ" اس کے لیے دو اسم ہیں وہ ہیں "کَمْ وَکَذَا" "کَمْ" اور "کَذَا"۔ یہ دلالت کرتے ہیں عدد مبہم پر "اَوْ حَدِیْثٍ مُبْھَمٍ" یا وہ اسماء جو کسی قول مبہم حدیث معنی بات قول مبہم پر دلالت کرتے ہوں اس کے لیے بھی دو اسم ہیں وہ ہیں "کَیْتَ" اور "ذَیْتَ"۔ کنایہ ہر وہ اسم جو عدد مبہم پر دلالت کرے یا کسی بات مبہم پر دلالت کرے اس کو کنایہ کہتے ہیں جمع  کنایات ہو گئی۔

4

کم کی اقسام اور اس کے اعراب کی تفصیل

اب فرماتے ہیں کہ "کَمْ" ہم نے کہا ہے کہ عدد مبہم کے لیے آتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے۔ فرماتے ہیں "کَمْ" کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

۱۔کَم استفہامیہ" ہوتا ہے، ہوتا عدد کے لیے ہے لیکن ہوتا استفہامیہ ہے۔ 

۲۔کَم خبریہ" ہوتا ہے۔

 تو جناب ہمیں کیسے پہچان ہو گی کہ یہ "کَمْ" "کَم خبریہ" ہے یا یہ "کَمْ" "کَم استفہامیہ" ہے؟ فرماتے ہیں:  جس "کَمْ" کے بعد اسم مفرد ہو اور منصوب ہو بنا بر تمیز کے وہ "کَمْ" استفہامیہ کہلائے گا اور جس "کَمْ" کے بعد اسم مفرد ہو اور مجرور ہو وہ "کَمْ"، "کَم خبریہ" کہلاتا ہے۔ "کَمْ" جو عدد کے لیے آتا ہے وہ کبھی استفہامیہ ہوتا ہے اور کبھی خبریہ۔ میں نے آپ کو آسان کر کے سمجھایا کہ اگر سوال ہو کہ جناب ہم "کَمْ استفہامیہ" اور "کَم خبریہ" کو کیسے پہچانیں گے؟ فرماتے ہیں:  "کَم استفہامیہ" وہاں ہوتا ہے جہاں اس کے اسم کے بعد ایک اسم مفرد تمیز ہونے کی بنیاد پر منصوب ہو وہ "کَمْ" ہو گا استفہامیہ۔ اور جس "کَمْ" کے بعد اسم مفرد مجرور ہو یا جمع مجرور ہو وہ "کَمْ"، "کَم خبریہ" کہلاتا ہے۔ فرماتے ہیں:  "وَاعْلَمْ اَنَّ کَمْ عَلٰی قِسْمَیْنِ" کہ "کَمْ" دو قسموں پر ہے ۔

"کَمْ" کی دو قسمیں ہیں:

۱۔  "کَم استفہامیہ"  ۲۔ "کَم خبریہ"۔ "کَم استفہامیہ"

کہاں ہوتا ہے؟ کیسے پتہ  چلے  گا کہ یہاں "کَم استفہامیہ" ہے؟ فرماتے ہیں "مَا بَعْدَھَا مَنْصُوْبٌ مُفْرَدٌ عَلَی التَّمْیِیْزِ" یعنی وہ "کَمْ" جس کے بعد اسم مفرد ہو یعنی تثنیہ جمع نہیں اسم مفرد ہو اور منصوب ہو بنا بر تمیز کے وہ "کَمْ" استفہامیہ کہلاتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "کَمْ رَجُلاً عِنْدَکَ" "رَجُلاً" مفرد ہے۔ منصوب ہے اور ہے بھی منصوب کس کے لیے؟ وہ "کَمْ" کی تمیز بن کے آیا ہے اس ابہام کو رفع کرنے کے لیے آیا ہے۔ "کَمْ رَجُلاً عِنْدَکَ" تیرے پاس کتنے لوگ ہیں؟ اب ظاہر ہے "کَمْ" جو ہے وہ عدد پر دلالت کر رہا ہے مبہم پر لیکن یہ "رَجُلاً" اس کی تمیز ہے مفرد ہے منصوب ہے یہاں "کَمْ"، "کَم استفہامیہ" ہے۔

"کم" خبریہ

اور دوسری "کَمْ" کی قسم ہوتی ہے "کَم خبریہ"۔ "کَم خبریہ" اس کی پہچان کیا ہو گی؟ بالکل اسان۔ "مَا بَعْدَھَا مَجْرُوْرٌ مُفْرَدٌ" جس "کَمْ" کے بعد اسم مفرد مجرور ہو وہ "کَمْ" خبریہ ہو گا جیسے "کَمْ مَالٍ اَنْفَقْتُہٗ" کتنا مال ہے "اَنْفَقْتُہٗ" جسے میں نے خرچ کیا ہے۔ اب یہاں "کَمْ" عدد کے لیے ہے یہ خبر دے رہا ہے کہ بہت سارا مال ہے جو میں نے خرچ کیا ہے۔ "اَوْ مَجْمُوْعٍ" یا جس "کَمْ" کے بعد مفرد مجرور نہ بلکہ جمع مجرور ہو وہاں پر بھی "کَمْ"، "کَم خبریہ" ہوتا ہے۔ جیسے "کَمْ رِجَالٍ لَقِیْتُھُمْ" یعنی کتنے مرد ہیں جن کا اگر "لَقِیْتَ" پڑھیں گے تو نے ملاقات کی یا "لَقِیْتُ" میں نے ملاقات کی ہے "وَمَعْنَاهُ اَلتَّكْثِيرُ" یہاں اس کا معنی ہوتا ہے کثرت کا یعنی بہت سارے ایسے ہیں کہ جن سے میں نے ملاقات کی ہے۔ 

دخول "مِنْ" بر تمییز "کم"

فرماتے ہیں آگے ایک تنبیہ اس کو سمجھانے کے لیے استعمال کرنے کے لیے فرماتے ہیں یہ جو ہم نے کم کی دو قسمیں کی ہیں ایک ہو گیا "کم استفہامیہ" اور ایک ہو گیا "کم خبریہ"۔ آگے ایک جملہ فرماتے ہیں اور یہ اس سے احکام سے مربوط ہے۔  "وَ تَدْخُلُ مِنْ فِیْھِمَا" "فِیْھِمَا" سے مراد کیا ہے؟ چاہے "کم خبریہ" ہو چاہے "کم استفہامیہ" ہو ان دونوں کی تمییز پر "مِنْ" بھی داخل ہو جاتی ہے۔ پہلے تھا "کَمْ رَجُلاً لَقِیْتُہٗ" اب ہم اس کو پڑھ سکتے ہیں "کَمْ مِنْ رَجُلٍ لَقِیْتُہٗ"۔ پہلے تھا "کَمْ مَالٍ اَنْفَقْتُہٗ" اب یہ پڑھ سکتا ہے "کَمْ مِنْ مَالٍ اَنْفَقْتُہٗ" اگر مخاطب ہو "اَنْفَقْتَ" پڑھیں گے متکلم ہو گا تو "لَقِیْتُ" اور "اَنْفَقْتُ" پڑھیں گے۔کہ "کم" چاہے استفہامیہ ہو یا خبریہ ان کی تمییز پر کبھی "مِنْ" بھی داخل ہوتی ہے "کَمْ رَجُلٍ لَقِیْتُہٗ"، "کَمْ مِنْ رَجُلٍ"۔

جواز حذف تمییز "کم"

آگے فرماتے ہیں۔ "قَدْ یُحْذَفُ التَّمِیْزُ لِقِیَامِ قَرِیْنَۃٍ" ہر سطر علیحدہ چیز ہے اس کو غور سے کرنا ہے۔ "کم" کی جب تقسیم ہو گئی کہ "کم" کبھی استفہامیہ بھی ہوتا ہے اس خبریہ بھی ہوتا ہے ایک پہلا حکم وہ سطر علیحدہ تھی۔ کیا؟ کہ "کم" چاہے استفہامیہ ہو چاہے خبریہ ان کی تمییز پر "مِنْ" بھی داخل ہوتی ہے۔ "تَدْخُلُ مِنْ فِیْھِمَا" یعنی دونوں پر داخل ہوتی ہے۔ "کَمْ رَجُلاً" کی وجہ اپ "کَمْ مِنْ رَجُلٍ" بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اگلی بات کیا ہے؟ "وَ قَدْ یُحْذَفُ التَّمِیْزُ لِقِیَامِ قَرِیْنَۃٍ" ہم نے کہا ہے کہ او "کم" کے بعد "کم" کے بعد یا اسم مفرد منصوب ہو گا یا مجرور ہو گا۔ منصوب ہو گا تو استفہامیہ، مجرور ہو گا تو خبریہ، لیکن اس کے بعد ایک اسم ہوتا ہے جو تمییز  کی بنا پر منصوب ہوتا ہے ۔ اب فرماتے ہیں: اگر کوئی قرینہ موجود ہو، اگر کوئی قرینہ موجود ہو جو اس تمییز کو بیان کر رہا ہو جس سے پتہ چل رہا ہو کہ اس کی تمییز کیا ہے تو اس "کم" کی تمییز کو حذف بھی کیا جا سکتا ہے۔ کہ "کم" کے بعد جو تمییز  آنی ہے اس کو حذف کیا جا سکتا ہے اگر کوئی قرینہ موجود ہو تو۔ مثلاً ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے "کَمْ مَالُکَ"، "کَمْ مَالُکَ"۔ اب یہاں اصل میں جو تمییز تھی وہ محذوف ہے۔ اور یہ "کم"، "کم استفہامیہ" ہے۔ کیا؟ یعنی اصل میں تھا "کَمْ دِیْنَاراً مَالُکَ"۔ اصل میں یہ تھا۔ "کَمْ دِیْنَاراً مَالُکَ"۔ یہاں دینار تمییز تھی جو کہ محذوف ہے۔ اسی طرح ایک شخص کہتا ہے "کَمْ ضَرَبْتَ" یعنی اصل میں کہہ رہا ہے "کَمْ ضَرْبَۃً ضَرَبْتَ"۔ یہاں بھی "ضَرْبَۃً" جو ہے وہ محذوف ہے۔

 محل اعراب "کم"

فرماتے ہیں: اس "کم" کے بارے میں کہ یہ "کم" جو ہم نے اسماء مبنیہ میں جس کو شمار کیا ہے اور پھر اس کی قسمیں بھی بتائی ہیں یہ "کم" ویسے تو مبنی ہے۔ "کم" نے "کم" رہنا ہے اس نے "کَمّاً" یا "کَم" یا "کَم" نہیں بننا چونکہ یہ اسم مبنی ہے لیکن بلحاظ اعراب کے اس کی کچھ اقسام ہیں۔ یعنی اس کی حالت اعرابی کہ "کم" اعراب کے لحاظ سے کیا واقع ہوتا ہے۔ اس کا محل اعراب کیا ہے؟۔ اب ظاہری طور پر تو جیسے میں نے کہا "کم" چونکہ اسماء مبنیہ میں سے ہے ظاہراً تو اس نے مبنی علی السکون رہنا ہے "کم" کو "کم" ہی پڑھنا ہے۔ لفظاً تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں لیکن مسئلہ ہے کہ محلاً اس کا اعراب کیا ہو گا؟ محلاً اس کا اعراب کیا ہو گا؟  فرماتے ہیں:   اب اس کو یوں  بیان کر رہے ہیں بلکہ میں اس کو تھوڑا اور آسان کر کے دوں۔ فرماتے ہیں یہ دیکھو۔ اگر "کم" کے بعد کوئی فعل ہو جو فعل  اس کی ضمیر میں عمل کرنے کی وجہ سے "مَا لَمْ یُضْمَرْ فِیْہِ عَامِلٌ" وہ اعراض والی تفسیر والی بات پیچھے گزری تھی کہ جو اس کی ضمیر میں عمل کرنے کی وجہ سے اس سے  اعراض بھی نہ کر رہا ہو تو ایسے مقام پر یہ "کم" محلاً منصوب ہو گا۔ "اَنَّ کَمْ فِی الْوَجْھَیْنِ" "کم" دونوں وجہوں میں، کیا مطلب؟ یعنی دونوں صورتوں میں "کم" "یَقَعُ مَنْصُوْباً" منصوب واقع ہو گا۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہے ، لیکن آپ نے جب لکھنا ہے تو اس کو اس انداز میں کہ "کم" لفظاً تو ہمیشہ "کم" پڑھا جائے گا چونکہ یہ مبنی علی السکون ہے اس کی میم پر یہی سکون ہی رہے گا اس پر کوئی حرکت نہیں آئے گی لیکن اس "کم" کا محلاً اعراب کیا ہوتا ہے۔ "کم" کا محلاً اعراب کیا ہوتا ہے؟  کیا یہ منصوب ہوتا ہے؟ کیا یہ مجرور ہوتا ہے؟ کیا یہ مرفوع ہوتا ہے؟  جواب میں کہتے ہیں یہ "کم"  بعض صورتوں میں محلاً منصوب بھی ہو سکتا ہے،  بعض صورتوں میں محلاً مجرور بھی ہو سکتا ہے، بعض صورتوں میں محلاً مرفوع بھی ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ لفظاً اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کا محل اعراب جو ہو گا  یا منصوب کی جگہ یا مرفوع کی جگہ یا یعنی ہم کہیں گے کہ یہ محلاً منصوب ہے یا محلاً مجرور ہے یا محلاً مرفوع ہے۔ ۔ فرماتے ہیں:  "یَقَعُ مَنْصُوْباً" یہ "کم" محلاً منصوب واقع ہو گا یعنی محل اعراب اس کا نصب والا ہو گا۔ کب محلاً منصوب ہو گا؟ "اِذَا کَانَ بَعْدَہٗ فِعْلٌ" اگر اس کے بعد  ایک فعل موجود ہو اس کی تمییز کے بعد۔ "غَیْرُ مُشْتَغِلٍ عَنْہُ" وہ فعل اس "کم" سے مشتغل عنہ ہو یعنی اعراض کرنے والا نہ ہو "بِضَمِیْرِہٖ" بہ سبب اس کی ضمیر کے یعنی اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ضمیر بھی نہ ہو ایسا نہ ہو کہ وہ اس کی ضمیر میں عمل کر رہا ہو یہاں پر یہ "کم" محلاً منصوب ہو گا۔ "کم استفہامیہ" کی مثال "کَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ" اب آپ دیکھیں "ضَرَبْتَ" اس کے بعد واقع ہوا ہے۔ "ضَرَبْتَ" کے بعد کوئی ایسی ضمیر بھی نہیں ہے جو "کم" کی طرف پلٹ رہی ہو اور "ضَرَبْتَ" اس میں عمل کر رہا ہو تو لہذا "کَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ" میں "کَمْ رَجُلاً" یہ محلاً منصوب ہو گا اور "ضَرَبْتَ" کے مفعول ہونے کی بنیاد پر۔  اور "کم خبریہ" کی مثال "کَمْ غُلَامٍ مَلَکْتُ" اب یہاں پر بھی دیکھو "مَلَکْتُ" فعل ہے "کم" کے بعد ہے وہ کسی ضمیر  میں عمل نہیں کر رہا جو "کم" کی طرف پلٹ رہی ہو لہذا یہاں "کَمْ غُلَامٍ" یہ محلاً منصوب ہے، کیوں منصوب ہے؟ "یَقَعُ مَنْصُوْباً مَفْعُوْلاً" بنا بر مفعولیت کے کہ اصل میں یہ اس فعل کا مفعول واقع ہو رہا تھا اس لیے یہ منصوب ہوتا ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں "وَ نَحْوُ کَمْ ضَرْبَۃً ضَرَبْتَ" یا "کَمْ ضَرْبَۃٍ ضَرَبْتُ مَصْدَراً" اور کبھی کبھی یہی "کم" منصوب واقع ہوتا ہے مفعولیت کی بنیاد پر ،نہیں، بلکہ مصدر ہونے کی بنیاد پر جیسے "کَمْ ضَرْبَۃً ضَرَبْتَ" یہ ہو گئی "کم استفہامیہ" کی مثال "کَمْ ضَرْبَۃٍ ضَرَبْتُ" یہ ہو گئی "کم خبریہ" کی مثال یہاں پر منصوب ہے محلاً لیکن "مَصْدَراً" مفعول ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مصدریت کی بنیاد پر۔ "کَمْ یَوْماً سِرْتَ" و "کَمْ یَوْماً صُمْتَ" اب یہاں "کَمْ یَوْماً سِرْتَ" اور "کَمْ یَوْماً صُمْتَ" میں بھی "کم" محلاً منصوب ہے لیکن یہ مفعول ہے "سِرْتَ" یا "صُمْتَ" کے "مَفْعُوْلٌ فِیْہِ" ہونے کی بنیاد پر۔ اب ذرا توجہ رکھنی ہے کہ یہ "کم" منصوب ہوتا ہے محلاً کبھی مفعولیت کی بنیاد پر، کبھی مصدر ہونے کی بنیاد پر اور کبھی مفعول فیہ ہونے کی بنیاد پر۔ محلاً منصوب ہوتا ہے اگرچہ لفظاً اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہو گیا اس کی پہلی قسم کہ یہ منصوب بھی ہوتا ہے۔

حالت جر "کم"

دوسری قسم "مَجْرُوْراً" یہی "کم" چاہے استفہامیہ ہو چاہے خبریہ یہی "کم" مجرور بھی ہوتا ہے۔ وہ کب ہوتا ہے؟ "اِذَا کَانَ قَبْلَہٗ حَرْفُ جَرٍّ" اگر اس سے پہلے کوئی حرف جر ہو یا کوئی مضاف یعنی اسم مضاف ہو تو یہ محلاً مجرور واقع ہو گا۔ اگرچہ لفظاً اس پر کوئی فرق نہیں پڑنا۔ جیسے ہم کہتے ہیں "بِکَمْ رَجُلاً مَرَرْتَ" تو یہاں "رَجُلاً" ہے لہذا یہاں "کم" جو ہے یہ محلاً مجرور ہے یا "عَلٰی کَمْ رَجُلٍ حَکَمْتَ" یہ "کم خبریہ" کی مثال ہے کہ یہاں پر "عَلٰی" آ گیا ہے اور یہ "کم" محلاً مجرور ہے۔ اسی طرح "غُلَامُ کَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ" و "غُلَامُ کَمْ رَجُلٍ سَلَبْتُ"۔اب یہاں پر مجرور ہے محلاً مجرور ہے "کم" کیوں؟ چونکہ "غُلَامُ" "کم" کی طرف مضاف ہو رہا ہے "غُلَامُ" یعنی "غُلَامُ کَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ" "غُلَامُ کَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ" میں "غُلَامُ" "کم" کی طرف مضاف ہو رہا ہے اور دوسری "کم خبریہ" میں "مَالُ کَمْ رَجُلٍ سَلَبْتُ" اب "سَلَبْتُ" یا فرماتے ہیں:  "مَالُ کَمْ صَاحِبٍ سَلَبْتُ" یہاں مال اس "کم" کی طرف مضاف ہو رہا ہے لہذا یہ محلاً مجرور ہو گا۔ پس اس کا مطلب ہے "کم خبریہ" ہو یا استفہامیہ منصوب بھی ہوتے ہیں مختلف صورتوں میں، کبھی حرف جر کے ذریعے اور کبھی مضاف کے ذریعے مجرور بھی ہوتے  ہیں۔

حالت رفع "کم"

"وَ مَرْفُوْعاً" اور یہی "کم" محلاً مرفوع بھی واقع ہوتا ہے۔ وہ کب ہوتا ہے؟ "اِذَا لَمْ یَکُنْ شَیْءٌ مِّنَ الْاَمْرَیْنِ" بہت توجہ یعنی جب یہ مفعول واقع بھی نہ ہو رہا ہو، او مفعول فیہ بھی واقع نہ ہو رہا ہو اور یہ مصدر واقع بھی نہ ہو رہا ہو، اس سے پہلے کوئی جار بھی نہ ہو یعنی جو چیزیں او اس کو محلاً منصوب یا مجرور کر رہی تھیں جب ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو اس وقت یہ مرفوع ہوتا ہے۔ یعنی یہ مرفوع ہو گا "مُبْتَدَأً" مبتدا ہونے کی بنیاد پر "اِنْ لَّمْ یَکُنْ ظَرْفاً" اگر یہ ظرف نہ ہو گا تو یعنی ظرف نہ ہو گا تو مبتدا ہونے کی بنیاد پر اور اگر ظرف ہو گا تو پھر خبر ہونے کی بنیاد پر یہ محلاً مرفوع ہو گا۔  "کَمْ رَجُلاً اَخُوْکَ" اب "کَمْ رَجُلاً اَخُوْکَ" میں وہ دونوں چیزیں جو اس کو مجرور کرنے والی تھیں محلاً وہ بھی موجود نہیں ہیں اور یہ کسی کا مفعول یا مصدر وغیرہ بھی نہیں ہے لہذا یہاں "رَجُلاً" جو ہے یہ محلاً مبتدا ہو گا۔ یہ ہو گیا "کم استفہامیہ" کی مثال۔ "کَمْ رَجُلٍ ضَرَبْتُہٗ" یہ مثال ہو گئی "کم خبریہ" کی کہ یہاں بھی "رَجُلاً" محلاً منصوب ہے۔ مبتدا ہے اور مرفوع ہے۔ "وَ خَبَراً اِنْ کَانَ ظَرْفاً" لیکن اگر وہ ظرف ہو تو پھر فرماتے ہیں وہ ہو گا محلاً مرفوع لیکن مبتدا نہیں ہو گا بلکہ اس وقت وہ خبر ہو گا۔ جیسے "کَمْ یَوْماً سَفَرُکَ" چونکہ یہاں اب یہ ظرفیت کے لیے آیا ہے تو فرماتے ہیں اب یہاں پر یہ خبر ہونے کی بنیاد پر محلاً مرفوع ہے ۔ "کَمْ یَوْماً" یہ "کم استفہامیہ" کی مثال "وَ کَمْ شَھْرٍ صَوْمِیْ" چونکہ یہاں بھی بات ظرف کی ہے، ظرف زمان کی ہے۔ پہلی ظرف مکان تھی۔ تو فرماتے ہیں یہاں پر بھی یہ محلاً مرفوع ہے لیکن خبر ہونے کی بنیاد پر۔ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ "کم" کا محل اعراب نصب بھی ہو سکتا ہے، رفع بھی ہو سکتا ہے اور جر بھی ہو سکتا ہے۔ ہر ایک کی صورتیں مختلف ہیں۔

  وَ صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ

نسبة إضافيّة وإسناديّة ، فإن تضمّن الثاني حرفاً فيجب بناؤهما على الفتح كأحَدَ عَشَرَ ، إلى تِسْعَةَ عَشَرَ ، إلّا اثْنا عَشَرَ فإنّها معربة كالمثنّى. وإن لم يتضمّن الثاني حرفاً ففيها ثلاث لغات أفصحها بناء الأوّل على الفتح وإعراب الثاني إعراب غير المنصرف ك‍ : بَعْلَبَكَّ ومَعْدي كَرَبَ.

النوع السابع : الكنايات

وهي أسماء وضعت لتدلّ على عدد مبهم وهي : كَمْ وكَذا ، أو حديث مبهم وهو : كَيْتَ وذَيْتَ.

واعلم أنّ كم على قسمين : استفهاميّة وهي ما بعدها مفرد منصوب على التمييز نحو : كَمْ رَجُلاً عِنْدَك ؟

وخبريّة وهي ما بعدها مجرور ومفرد نحو : كَمْ مالٍ أنْفَقْتُهُ ، أو مجموع نحو : كَمْ رِجالٍ لَقِيتُهُمْ ؛ ومعناه التكثير.

وقد تدخل «مِنْ» فيهما تقول : كَمْ مِنْ رَجُلٍ لقيتُهُ ؟ وكَمْ مِنْ مالٍ أنْفَقْتُهُ ؟ وقد يحذف مميّزها لقيام قرينة ، نحو : كَمْ مالُك ؟ أي كم ديناراً مالك ؟ وكَمْ ضَرَبْتَ ؟ أي كم رجلاً ضربتَ ؟

واعلم أنّ كم في الوجهين يقع منصوباً إذا كان بعده فعل غير مشتغل عنه بضميره نحو : كَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ ؟ وكَمْ غُلامٍ مَلَكْتَ ، كان مفعولاً به ، أو مصدراً نحو : كَمْ ضَرْبَةً ضَرَبْتَ ؟ أو مفعولاً فيه نحو : كَمْ يَوْماً سِرْتَ ؟ وكَمْ يَوْماً صُمْتَ ؟

ويقع مجروراً إذا كان ما قبلها حرف جرّ أو مضافاً نحو : بِكَمْ رَجُلٍ مَرَرْتَ ؟ وعَلى كَمْ رَجُلٍ حَكَمْتَ ؟ وغُلامُ كَمْ رَجُلٍ ضَرَبْتَ ؟ ومالُ كَمْ رَجُلٍ سَلَبْتَ ؟

ومرفوعاً إذا لم يكن شيء من الأمرين ، مبتدأ إذا لم يكن تمييزه

ظرفاً نحو : كَمْ رَجُلاً أخُوك ؟ أو كَمْ رَجُلٍ ضَرَبْتُهُ. وخبراً إن كان ظرفاً نحو : كَمْ يَوْماً سَفَرُكَ ؟ وكَمْ شَهْرٍ صَومي.

النوع الثامن : الظروف المبنيّة

على أقسام : منها ما قطع عن الإضافة بأن حذف المضاف إليه ك‍ : «قَبْلُ» ، «وبَعْد» ، «وفَوْق» ، «وتَحْت» ، قال الله تعالى : «لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ» (١) ، أي من قبل كلّ شيء ومن بعده ، ويسمّى الغايات. هذا إذا كان المحذوف منويّاً للمتكلّم. وإلّا كانت معربة. وعلى هذا قرئ : «لله الأمر من قبلِ ومن بعدِ».

ومنها : «حيْثُ» وإنّما بنيت تشبيهاً بالغايات لملازمتها الإضافة ، وشرطها أن تضاف إلى الجملة ك‍ : اجْلِسْ حَيْثُ زَيْدٌ جالِسٌ ، قال الله تعالى : «سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ» (٢) وقد تضاف إلى المفرد كقول الشاعر :

أما تَرىٰ حَيْثُ سُهَيْلٍ طالِعاً

نَجْمٌ يُضيءُ كَالشِهابِ ساطِعاً

أي مكان سهيل. «فحيث» بمعنى «مكان» هنا.

ومنها : «إذا» وهي للمستقبل ، وإذا دخلت على الماضي صار مستقبلاً نحو قوله تعالى : «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» (٣) وفيها معنى الشرط غالباً. ويجوز أن يقع بعدها الجملة الاسميّة نحو : أتَيْتُكَ إذا الشَّمْسُ طالِعَةٌ ، والمختار الفعليّة نحو : أتَيْتُكَ إذا طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وقد يكون للمفاجأة فيختار بعدها المبتدأ نحو : خَرَجْتُ فَإذا السَّبُعُ واقِفٌ.

____________________________

(١) الروم : ٤.

(٢) الاعراف : ١٨٢ والقلم : ٤٤.

(٣) النصر : ١.