درس الهدایة في النحو

درس نمبر 31: اسماء افعال،اصوات اور مرکبات

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

أسماء افعال کی تعریف اور وزن فَعَالِ کی وضاحت

"أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ"

"وَهُوَ كُلُّ اسْمٍ بِمَعْنَى الْأَمْرِ وَالْمَاضِي" ہمارا موضوعِ بحث اسمائے مبنی چل رہے تھے۔ ان اسمائے مبنی میں سے چھٹی قسم وہ ہے "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" کی۔ "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" سے مراد کیا ہے؟ فرماتے ہیں "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" کا مطلب ہے ہر وہ اسم جو بمعنی "امر" یا "ماضی" کے ہو۔ اسی لیے تو ان کو "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" کہتے ہیں، ورنہ اسم اور چیز ہے، اور فعل اور چیز ہے، لیکن ہم ان کو کیوں کہتے ہیں "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ"؟ افعال کے اسماء۔ اس لیے کہ ہیں اسم، فعل نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ معنی فعل والا دیتے ہیں، کوئی فعل ماضی کا معنی دیتا ہے تو کوئی فعل امر کا معنی دیتا ہے، اس لیے ہم ان کو کہتے ہیں کہ یہ ہیں "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ"۔

مثالیں انہوں نے دی ہیں۔ "رويد" بمعنی "امھل" کے۔ "هيهات" بمعنی "بعد" کے۔ یعنی "رويد" فعل امر کا معنی دیتا ہے۔ "هيهات" "بعُد" کا معنی دیتا ہے۔ یعنی یہ فعل ماضی والا معنی دیتا ہے، اب "رُويد" بھی اسم ہے، "هيهات" بھی اسم ہے، لیکن یہ جو معنی دے رہے ہیں وہ معنی ماضی اور امر والے ہیں۔

فعال کے وزن پر آنے والے اسماء الافعال

اسی طرح فرماتے ہیں۔ "فَعَالِ" کے وزن پر اگر کوئی اسم ہو، کس اسم پر؟ "فَعَالِ" کے وزن پر۔ "فَعَالِ" تو فرماتے ہیں ثلاثی سے تو وہ قیاسی ہے، یعنی اس کا کوئی ہمارے پاس قانون نہیں ہے، بلکہ جہاں دیکھیں گے عرب والے اس کو شمار کرتے ہیں، ہم بھی اسی میں شمار کریں گے جیسے عربی "نزال" بمعنی "انزل" کے لیتے ہیں اور "تراک" بمعنی "اترك" کے لیتے ہیں، تو ہم بھی اس کو اسی معنی میں لیں گے۔ 

فعال کے وزن کا مصدر معرفہ، صفت اور علم کے طور پر استعمال

آگے فرماتے ہیں۔ کہ یہی "نزال" کبھی مصدر معرفہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی "فَعَالِ" یعنی "فَعَالِ" کا وزن مصدر معرفہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے "فجار" بمعنی "الفجور" کے ہے، یعنی کسی فعل کے معنی میں نہیں ہے، مصدر اور وہ بھی معرفہ "الفجور"۔ یہی "فَعَالِ" کا وزن مؤنث کی صفت بن کے بھی آتا ہے، جیسے "فساق" بمعنی "فاسقہ"۔ "فساق" بمعنی "فاسقہ"۔ ذرا غور کرنا ہے ۔ اور یہی "فَعَالِ" کا وزن کسی مؤنث کی عیان مؤنثہ کے علم کے لیے بھی آتا ہے۔ اب تھوڑی سی بات کو ذرا سمجھ لیں، پھر ترجمہ اس کا مسئلہ نہیں ہے، بات کو سمجھنا ہے۔ یعنی آپ پہلی بات تو یہ ہو گئی کہ بعض ایسے ہیں جو ہیں اسماء لیکن وہ معنی دیتے ہیں اسم فعل ماضی یا فعل امر کا، اس لیے ان کو کہا جاتا ہے "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ"۔ آگے فرماتے ہیں کہ "فَعَالِ" کا وزن ثلاثی میں ہمیشہ بمعنی امر کے آتا ہے، قانون قانون کوئی نہیں ہے، ہے قیاسی۔ یعنی ہاں قیاسی ہے۔ یعنی سمائی نہیں ہے، بلکہ ثلاثی میں جب بھی "فَعَالِ" استعمال ہوگا، تو وہ قیاسی ہے، سمائی ہوتا ہے، جیسے عرب والے سنیں گے، قیاسی کا مطلب ہے کہ نہیں قاعدہ قانون ہے، قاعدہ قانون کیا ہے؟ کہ ثلاثی میں سے جب بھی کوئی اسم "فَعَالِ" کے وزن پر ہوگا، وہ اسم فعل بمعنی فعل امر کے ہوگا۔ جیسے "نزال" بمعنی "انزل" اور "تراک" بمعنی "اترك" کے۔

آگے فرماتے ہیں کہ یہ "فَعَالِ" کا وزن جیسے میں نے پہلے بتایا تھا صرف آپ کو لکھنے میں آسانی ہو جائے۔ کہ یہی "فَعَالِ" کا وزن کبھی بمعنی مصدر معرفہ کے یعنی مصدر معرفہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی مؤنث کی صفت میں استعمال ہوتا ہے، کبھی کسی عین مؤنثہ کے علم بن کے آتا ہے، تو یہ تین بھی اگرچہ "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" نہیں ہیں، لیکن ان کا حکم اعرابی وہی "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" والا ہوگا، یعنی ہم ان کو پڑھتے اسی طرح ہیں جیسا کہ ہم وہ "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" میں "فَعَالِ" کو پڑھتے تھے۔ حالانکہ یہ "أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" میں سے کیوں؟ اگر وہ کسی کی صفت ہے تو ظاہر ہے وہ کسی فعل کا معنی نہیں دے رہا۔ اگر وہ کسی کا علم ہے یا وہ مصدر ہے تو فعل کا معنی تو نہیں دے رہا، لیکن چونکہ وہ وزن انہی کا ہے تو اسی وجہ سے ہم نے یہاں ذکر کر دیا ہے۔ آسان ہو گیا۔ اس میں کوئی اور خاص چیز نہیں ہے۔ یہی ایک دو نقطہ تھا۔

فرماتے ہیں "فصل أَسْمَاءُ الْأَفْعَالِ" اسمائے افعال کے بارے میں اسم مبنی کی چوتھی قسم ہے اسمائے افعال۔ "هُوَ كُلُّ اسْمٍ" اسم فعل ہر وہ اسم ہوتا ہے "بِمَعْنَى الْأَمْرِ وَالْمَاضِي" جو بمعنی فعل امر یا فعل ماضی کے ہو۔ جیسے "رويد زيدًا" میں "رُويد" اسم ہے، لیکن یہ معنی دیتا ہے "امھل" کا یعنی "امھل زيدًا" "امھل" فعل امر ہے۔ "هيهات زيد" "هيهات" اسم ہے، لیکن یہ معنی دیتا ہے "بعُد" کا یعنی "بعُد زيدٌ" "بعد" فعل ماضی ہے۔

فعال کے وزن پر اسم فعل امر اور اس سے ملحق اسماء

"وَكَانَ عَلَى وَزْنِ فَعَالِ بِمَعْنَى الْأَمْرِ" جو اسم فعل "فَعَالِ" کے وزن پر آئے گا وہ بمعنی امر کے ہوگا۔ "وَهُوَ مِنَ الثُّلَاثِيِّ قِيَاسٌ" ثلاثی میں تو قیاس یہی ہے یعنی قانون ہی یہ ہے کہ ثلاثی میں "فَعَالِ" کا وزن بمعنی امر کے آتا ہے۔ جیسے "نزال" بمعنی "انزل" کے اور "تراک" بمعنی "اترك" کے۔ یہ بات یہاں ختم ہو گئی۔ اگلی رہی دا چیزیں فرماتے ہیں۔ "وَيَلْحَقُ بِهِ" اسی "نزال" کے ساتھ یعنی یہ "نزال" جو اسم فعل ہوتا ہے ثلاثی میں۔ لیکن اسی کے ساتھ ملحق ہے وہ "فَعَالِ" اس "فَعَالِ" کے ساتھ جو ثلاثی میں سے بمعنی فعل امر کے آتا ہے، اسی کے ساتھ حکم میں ملحق ہے وہ "فَعَالِ" کہ جو بمعنی مصدر معرفہ کے ہوتا ہے۔ جیسے "فجار" بمعنی "الفجور"۔ "فجور" نہ "الفجور" یعنی مصدر معرفہ۔ اسی طرح اسی کے ساتھ یعنی حکم میں اسی کے ساتھ ملحق ہوگا وہ "فَعَالِ" کا وزن "أَوْ صِفَةً لِلْمُؤَنَّثِ" جو کسی مؤنث کی صفت بن کے آتا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں "فساق" "فساق" بمعنی "فاسقہ" کے خاتوں کے لیے۔ یا کہتے ہیں "لقاع" بمعنی "لاقعه"۔ "لاقعه" کہتے ہیں دھوکہ دینے والی۔ دو ہو گئے۔ یعنی "فَعَالِ" کا وزن جو مصدر معرفہ کے معنی میں آتا ہے، "فَعَالِ" کا وزن جو مؤنث کی صفت بن کے لیے آتا ہے "أَوْ عَلَمًا لِلْآعيَانِ الْمُؤَنَّثَةِ" یا "فَعَالِ" کا وہ وزن جو عیان مؤنثہ کا علم بن کے آتا ہے۔ یعنی وہ عین جو مؤنث ہو اور اس کا علم بن کے آتا ہے، اس کا علم۔  جو کسی عین مؤنث کے لیے ہو یعنی مذکر کے لیے نہ جو عین مؤنث کا علم بن کے آتا ہے۔ جیسے "قطام" بمعنی "قاطمه"، "غلاب" بمعنی "غالبه"، اور "حضار" بمعنی "حاضرہ"۔ جب کہ مؤنث کے یہ علم بن کے آئیں گے تو فرماتے ہیں "يَلْحَقُ بِهِ" یعنی وہ اس "فَعَالِ" کے ساتھ ملحق ہوں گے جو "فَعَالِ" ثلاثی میں سے اسم فعل کے لیے آتا ہے۔

4

بعض اسمائے افعال کا حکم مبنی ہونا

فرماتے ہیں "وَ هَذِهِ الثَّلَاثَةُ" اگرچہ یہ تین، کون سے تین؟ کہ جو "فَعَالِ" مصدر معرفہ کا معنی دیتا ہو، جو "فَعَالِ" مؤنث کی صفت بن کے آتا ہو، جو "فَعَالِ" عیان مؤنثہ کے علم کے لیے آتا ہو۔ "لَيْسَتْ مِنْ أَسْمَاءِ الْأَفْعَالِ" یہ اسمائے افعال میں سے نہیں ہیں، "إِنَّمَا ذُكِرَتْ هَا هُنَا لِلْمُنَاسَبَةِ" لیکن ان کو ہم نے ذکر کیوں کیا ہے؟ فرماتے ہیں ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ وزن میں "فَعَالِ" کے ساتھ شریک ہیں، مناسبت یہ ہے۔ پس جیسے وہ "فَعَالِ" وہ ثلاثی مجرد والا وہ مبنی تھا یہ بھی مبنی ہوں گے اگرچہ یہ اسمائے افعال میں شمار نہیں ہوتے۔ 

5

اسمائے اصوات کی تعریف اور وضاحت

اسمائے مبینہ کی اقسام میں سے پانچویں قسم ہے "الْأَصْوَاتِ"، "صَوْت"۔ اس سے مراد کیا ہے؟ یعنی ہر وہ لفظ جس کے لیے کسی چیز کی آواز کی حکایت کی جائے۔ اس کو کہتے ہیں اسمائے الاصوات۔ کہ ہر وہ لفظ جس کے ذریعے کسی بھی چیز کی آواز کو حکایت کیا جائے کہ فلاں چیز اس طرح آواز نکالتی ہے تو اس کے لیے جو لفظ استعمال کیے جائیں گے اس کو کہا جائے گا "اسْمُ الصَّوْت" کہ یہ فلاں شے کی آواز کا نام ہے۔ اسمائے الاصوات۔ بہت آسان سا ہے، مثلاً۔ فصل اسمائے الاصوات "كُلُّ لَفْظٍ" ہر وہ لفظ "حُكِيَ بِهِ صَوْتٌ" کہ جس کے ذریعے کسی بھی چیز کی آواز کو حکایت کیا جائے حکایت یوں کیا جائے کہ کہا جائے فلاں چیز یوں آواز نکالتی ہے، فلاں چیز یوں آواز نکالتی ہے، تو بس اس کی آواز کو جن لفظ کے ذریعے حکایت کیا جائے گا اسی کو "اسْمُ الصَّوْت" کہتے ہیں اور یہ کہلائیں گے اسمائے الاصوات اور یہ سارے مبنی ہوتے ہیں۔ جیسے "غَاقِ لِصَوْتِ الْغُرَاب" "غراب" کہتے ہیں کوے کو۔ اب فرماتے ہیں کوے کی آواز کو حکایت کرنا ہو کہ کوا آواز کیسے نکالتا ہے تو کہیں گے کوا کرتا ہے "غَاقِ غَاقِ" اب یہ جو "غَاقِ" ہے یہ اسم الصوت ہے اور یہ مبنی ہے۔

"أَوْ صُوِّتَ بِهِ الْبَهَائِمِ" یعنی ذرا دو باتوں کو غور سے سمجھنا ہے۔ ایک ہے کہ "حُكِيَ بِهِ صَوْتٌ" وہ اور ہے کہ اس کے ذریعے آواز کو حکایت کیا جائے، جیسے میں نے بتایا کیا بتادیں کوے کی آواز کیسے نکالتا ہے کوا کرتا ہے "غَاقِ غَاقِ غَاقِ" یہ مبنی ہوگا اس پر۔ اگلا جملہ ہے وہ ہے "صُوِّتَ بِهِ الْبَهَائِمِ" یا ہر وہ لفظ کہ جس کے ذریعے جانوروں کو آواز لگائی جائے ۔ کہ جب وہ لفظ بولتے ہیں تو اس کو جانور پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ مثال جیسے عربی کہتے ہیں "نَخْ إِْنَاخَةُ الْبَعِيرِ" "إناخہ" کہتے ہیں اونٹ کے بٹھانے کو "بعير" اونٹ ہو گیا۔ "لِإِنَاخَةِ الْبَعِيرِ" یعنی اونٹوں کو بٹھانے کے لیے جب وہ شتر بان کہتا ہے "نَخْ نَخْ" تو اس کے بعد وہ اونٹ بیٹھتا ہے۔ یہ "نَخْ" بھی یہ اسم صوت ہے اور یہ مبنی ہے۔ چونکہ یہ "صُوِّتَ بِهِ" اس لیے کہ اس کے ذریعے جانوروں کو آواز لگائی جاتی ہے۔

6

مركبات اور ان کی اقسام

اسی طرح فرماتے ہیں۔ اسمائے مبنیہ کی اقسام میں سے چھٹی قسم ہے "الْمُرَكَّبَات"۔ یہاں مرکب سے مراد کیا ہے؟ بالکل آسان سی بات ہے۔ فرماتے ہیں کوئی مشکل نہیں۔ ایک اسم ہے جو دو کلموں سے مرکب ہے یعنی واقع میں دو کلمے ہیں۔ ان دو کلموں کو ملا کر ایک اسم بنایا گیا ہے۔ لیکن ان دو کلموں کے درمیان نہ نسبت اضافت کی ہے نہ نسبت صفت و موصوف کی ہے۔ یعنی ان کو ایک کو دوسرے کی طرف نسبت نہیں دی گئی، بلکہ ایک کلمہ یہاں سے لیا، ایک کلمہ یہاں سے لیا، اور دونوں کو جوڑ کر اس سے ایک اسم بنا دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک شے کو دوسری شے کی طرف نسبت دی جا رہی ہو۔ او جیسے ہم کہتے ہیں "عَبْدُ اللَّهِ" تو عبد کو اللہ کی طرف نسبت دے رہے ہوتے ہیں اضافت کی، نہ ایسا نہ ہو۔ جہاں ایسا نہ ہوگا اس کو ہم کہتے ہیں "مرکب"۔ ٹھیک ہو گیا۔ یہ ہو گیا مراد ہماری جس مرکب کی بات ہم کر رہے ہیں۔

 مرکب کی پہلی قسم:  متضمن حرف

اب فرماتے ہیں یہ جو دو کلموں سے ملا کر ایک اسم بنایا گیا ہے، حقیقت میں تو تھے دو کلمے ہم نے ان کو ملا کر بنایا ہے ایک اسم۔ اب فرماتے ہیں یہاں پر ایک چھوٹی سی نقطہ اور ہے۔ آیا ان میں جو دو کلموں سے ملا کر ہم نے ایک اسم بنایا ہے، آیا یہ دوسرا کلمہ کسی حرف کو متضمن ہے یا متضمن نہیں ہے؟ کیا مطلب؟ متضمن حرف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کیا اس دوسرے کلمہ سے پہلے کوئی حرف واقع میں ہے؟ وہ چاہتا ہے کہ کوئی حرف ہو لیکن ہے نہیں اگرچہ، لیکن تقدیر میں اصل میں ہونا چاہیے، آیا اس کو متضمن ہے یا نہیں ہے؟ یا یہ ہے کہ نہیں اس قسم کا کسی حرف کو وہ متضمن نہیں ہے؟ فرماتے ہیں اگر متضمن حرف ہوگا تو اس کا حکم اور ہے، اور اگر متضمن حرف نہ ہوگا تو اس کا حکم اور ہے، مثال میں دونوں باتیں بالکل آسان ہو جائیں گی۔

 فصل یعنی آپ کہیں گے اسمائے مبنیہ کی اقسام میں سے چھٹی قسم ہے "الْمُرَكَّبَات"۔ مرکب کسے کہتے ہیں؟ آپ کہیں گے مرکب یہ ہے۔ "كُلُّ اسْمٍ" ہر وہ اسم "رُكِّبَ مِنْ كَلِمَتَيْنِ" کہ جس کو دو کلموں سے جوڑا گیا ہو، دو کلموں سے ملا کر بنایا گیا ہو، جو دو کلموں سے مرکب ہو۔ "لَيْسَ بَيْنَهُمَا نِسْبَةٌ" اور ان دو کلموں کے درمیان نسبت نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم نے ایک کو دوسرے کی طرف مضاف کیا ہو، یا ایک دو ان کی درمیان نسبت وہ صفت اور موصوف والی ہو، مسند مسند الیہ والی ہو، فرماتے ہیں نہ نسبت ان کے درمیان کوئی نہ ہو۔ جس کو آپ ترجمے میں لکھیں گے یوں کہ ان کے درمیان کوئی نسبت نہ ہو، نہ نسبت اضافی، نہ نسبت اسنادی، نہ نسبت توصیفی۔ یہ تین جملے لکھیں گے پھر آسان ہو جائے گا۔ ہیں واقع میں دو، ہم نے دو کو جوڑ کر ایک بنایا ہے۔ مثال، مثال اگے آ رہی ہے۔ اب فرماتے ہیں یہ جو دو کلموں کو ملا کر ہم ایک بنائیں گے، اب یہاں پر یہ جو دو ہیں، یہ پھر اس کی دو قسمیں ہیں۔ کیسے؟ "فَإِنْ تَضَمَّنَ الثَّانِي حَرْفًا" اگر دوسرا اسم متضمن حرف ہو یعنی دوسرا اسم اپنے ضمن میں کسی حرف کو بھی لیے ہوئے ہو کہ ضمناً کوئی حرف بھی ہو "يَجِبُ بِنَاؤُهُمَا عَلَى الْفَتْحِ" واجب ہے کہ ان دونوں کلمے کلموں کو مبنی علی الفتح پڑھا جائے یہ ترجمہ ہو گیا۔ لکھیں گے تو اب یوں لکھیں گے: اگر کوئی دو کلمے ہوں، دو کلموں کو ملا کر ایک کلمہ، ایک اسم بنایا گیا ہو، اور دوسرا کلمہ کسی حرف کو بھی متضمن نہ ہو تو وہاں دونوں کلمے مبنی علی الفتح ہوں گے۔ یعنی پہلے پر بھی فتح پڑھیں گے اور دوسرے پر بھی فتح پڑھیں گے، جیسے "أَحَدَ عَشَرَ" اب یہ "أَحَدَ عَشَرَ" میں "عَشَرَ" متضمن حرف ہے، کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ "عَشَرَ" کے ضمن میں پہلے ایک "واو" ہے یعنی اصل ہے "أَحَدٌ وَعَشَرٌ" ایک اور دس۔ لیکن ہم نے "واو" کو ختم کر کے بنایا "أَحَدَ عَشَرَ" یعنی گیارہ۔ ایک اسم بنا دیا واقع میں یہ دو کلمے ہیں، "أَحَد" علیحدہ کلمہ ہے، "عَشَرَ" علیحدہ کلمہ ہے، اور "عَشَرَ" اپنے ضمن میں "واو" کو لیا ہوا ہے۔ اب اس لیے ہم اس کو ہمیشہ پڑھیں گے "أَحَدَ عَشَرَ، ثَلَاثَةَ عَشَرَ، أَرْبَعَةَ عَشَرَ، خَمْسَةَ عَشَرَ، سِتَّةَ عَشَرَ، سَبْعَةَ عَشَرَ، ثَمَانِيَةَ عَشَرَ، تِسْعَةَ عَشَرَ"۔ لیکن درمیان میں ایک ہے "اِثْنَا عَشَرَ" او بارہ والا۔ فرماتے ہیں "اِثْنَا عَشَرَ" "فَإِنَّهَا مُعْرَبَةٌ" یہ مبنی نہیں ہے، بلکہ "اِثْنَا عَشَرَ" یہ معرب ہے مثل تثنیہ کے۔ وجہ، وجہ یہ ہے۔ کہ جیسے تثنیہ کو ہم مضاف کرتے ہیں تو اضافت کی صورت میں اس کی ایک نون تثنیہ والی گر جاتی ہے۔ تو "اِثْنَانِ" میں بھی جب ہم اس کو "اِثْنَا عَشَرَ" بناتے ہیں  یہاں نون گر جاتی ہے، تو یہ نون گر جانا یہ معرب کی علامت میں سے ہے مبنی کی علامت میں سے۔ "إِلَّا اِثْنَا عَشَرَ" مگر فقط "اِثْنَا عَشَرَ" جس بارہ "فَإِنَّهُمَا" یہاں اس کے دونوں کلمے "مُعْرَبَةٌ" یہ معرب ہیں "كَا الْمُثَنَّى" مثل تثنیہ کے۔ 

 مرکب کی دوسری قسم: غیر متضمن حرف

"وَإِنْ لَمْ يَتَضَمَّنْ ذَلِكَ" لیکن اگر یہ دو کلمے متضمن حرف نہ ہوں۔ یعنی ان میں سے دو جو دو کلموں سے ملا کر ایک اسم بنایا ہے، اگر دوسرا کلمہ کسی حرف کو متضمن نہیں ہے، اس سے پہلے کوئی حرف نہیں ہے، "فَفِيهَا لُغَاتٌ" تو اس میں اہل عرب کی مختلف لغات ہیں، مختلف قبائل کے اپنے نظریے ہیں۔ مثلاً "أَفْصَحُهَا" ان میں سے جو سب سے فصیح اور بہترین لغت ہے وہ تو یہ ہے۔ "بِنَاءُ الْأَوَّلِ عَلَى الْفَتْحِ" کہ پہلے کلمے کو ہمیشہ مبنی علی الفتح پڑھا جائے، "وَإِعْرَابُ الثَّانِي" اور دوسرے پر اعراب پڑھا جائے اعراب غیر منصرف والا۔ غیر منصرف کا اعراب کیا ہوتا ہے؟ پیچھے گزارش کر چکا ہوں کہ رفعی حالت میں اس پر ضمہ ہوتا ہے، نصبی اور جری حالت میں اس پر فتح ہوتا ہے۔ پس مثال "بَعْلَبَكّ" "بَعْل" یہ علیحدہ کلمہ ہے، "بَكّ" علیحدہ کلمہ ہے۔ اب ان دو کو ملا کر ایک اسم بنایا گیا ہے۔ "بَكّ" کسی حرف کو متضمن بھی نہیں ہے، او جیسے وہاں "أَحَدٌ وَعَشَر" تھا یہاں کوئی "واو" بھی نہیں ہے، تو فصیح ترین لغت یہ ہے کہ اس کو پڑھا جائے "جَاءَنِي بَعْلَبَكُّ، رَأَيْتُ بَعْلَبَكَّ، وَمَرَرْتُ بِبَعْلَبَكَّ"۔ یعنی فصیح ترین لغت یہ ہے کہ اس کو اس انداز میں پڑھا جائے۔ 

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

ويجوز حذف العائد من اللفظ إن كان مفعولاً نحو : قام الّذي ضربتُ ، أي الّذي ضَرَبْتُهُ.

واعلم أنّ «أيّا وأيَّة» معربة إلّا إذا حذف صدر صلتها كقوله تعالى : «ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَـٰنِ عِتِيًّا» (١) ، أي هو أشدُّ.

النوع الرابع : أسماء الأفعال

كلّ اسم بمعنى الأمر والماضي ك‍ : رُوَيْدَ زيداً ، أي أمْهِلْهُ ، وهَيْهاتَ زَيْدٌ ، أي بَعُد ، وإن كان على وزن فَعالِ بمعنى الأمر ، وهو من الثلاثي فهو قياسيّ كنزال بمعنى انزل وتَراكِ بمعنى اترك. وقد يلحق به فَعال مصدراً معرفة ، كفَجار بمعنى الفجور ، أو صفة للمؤنّث نحو : يا فَساقِ بمعنى فاسقة ، ويالكاع بمعنى لاكعة ، أو عَلَماً للأعيان المؤنّثة كَقطامِ وغَلابِ وحَضارِ. وهذه الثلاثة الأخيرة ليست من أسماء الأفعال وإنّما ذكرت هاهنا للمناسبة.

النوع الخامس : الأصوات

وهو كلّ اسم حُكِي به صوت ، ك‍ : قاق لصوت الغراب ، أو لصوت يصوّت به للبهائم ك‍ : نِخْ لإناخة البعير ، وطاقْ حكاية الضرب ، وطَقْ حكاية وَقْع الحجارة بعضها ببعض.

النوع السادس : المركّبات

وهو كلّ اسم ركّب من الكلمتين ليس بينهما نسبة ، أي ليس بينهما

____________________________

(١) مريم : ٦٩.

نسبة إضافيّة وإسناديّة ، فإن تضمّن الثاني حرفاً فيجب بناؤهما على الفتح كأحَدَ عَشَرَ ، إلى تِسْعَةَ عَشَرَ ، إلّا اثْنا عَشَرَ فإنّها معربة كالمثنّى. وإن لم يتضمّن الثاني حرفاً ففيها ثلاث لغات أفصحها بناء الأوّل على الفتح وإعراب الثاني إعراب غير المنصرف ك‍ : بَعْلَبَكَّ ومَعْدي كَرَبَ.

النوع السابع : الكنايات

وهي أسماء وضعت لتدلّ على عدد مبهم وهي : كَمْ وكَذا ، أو حديث مبهم وهو : كَيْتَ وذَيْتَ.

واعلم أنّ كم على قسمين : استفهاميّة وهي ما بعدها مفرد منصوب على التمييز نحو : كَمْ رَجُلاً عِنْدَك ؟

وخبريّة وهي ما بعدها مجرور ومفرد نحو : كَمْ مالٍ أنْفَقْتُهُ ، أو مجموع نحو : كَمْ رِجالٍ لَقِيتُهُمْ ؛ ومعناه التكثير.

وقد تدخل «مِنْ» فيهما تقول : كَمْ مِنْ رَجُلٍ لقيتُهُ ؟ وكَمْ مِنْ مالٍ أنْفَقْتُهُ ؟ وقد يحذف مميّزها لقيام قرينة ، نحو : كَمْ مالُك ؟ أي كم ديناراً مالك ؟ وكَمْ ضَرَبْتَ ؟ أي كم رجلاً ضربتَ ؟

واعلم أنّ كم في الوجهين يقع منصوباً إذا كان بعده فعل غير مشتغل عنه بضميره نحو : كَمْ رَجُلاً ضَرَبْتَ ؟ وكَمْ غُلامٍ مَلَكْتَ ، كان مفعولاً به ، أو مصدراً نحو : كَمْ ضَرْبَةً ضَرَبْتَ ؟ أو مفعولاً فيه نحو : كَمْ يَوْماً سِرْتَ ؟ وكَمْ يَوْماً صُمْتَ ؟

ويقع مجروراً إذا كان ما قبلها حرف جرّ أو مضافاً نحو : بِكَمْ رَجُلٍ مَرَرْتَ ؟ وعَلى كَمْ رَجُلٍ حَكَمْتَ ؟ وغُلامُ كَمْ رَجُلٍ ضَرَبْتَ ؟ ومالُ كَمْ رَجُلٍ سَلَبْتَ ؟

ومرفوعاً إذا لم يكن شيء من الأمرين ، مبتدأ إذا لم يكن تمييزه