درس الهدایة في النحو

درس نمبر 30: اسماء إشارة اور اسماء موصول كی بحث

 
1

خطبه

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسماء إشارة كی بحث

 اسماء الإشارة

فصلٌ "أَسْمَاءُ الْإِشَارَةِ". اسم مبنی کی یا اسمائے مبنیہ کی پہلی قسم تھی مضمرات اور دوسری قسم ہے اسماء الاشارہ۔ یعنی وہ اسماء جو "مُشَارٌ إِلَيْهِ" پر دلالت کے لیے وضع کیے    گئے ہیں۔ "مُشَارٌ إِلَيْهِ" جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور یہ ہوتے ہیں اسم اشارہ جن کے ذریعے، جب ہم کہتے ہیں "هَذَا زَيْدٌ" تو "هَذَا" کے ذریعے اس بندے کی طرف اشارہ کہتے ہیں "هَذَا" یعنی یہ جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں "زَيْدٌ" زید ہے مثلاً۔

 پانچ الفاظ ہیں۔ چھ معانی کے لیے۔ ان میں سے بہت سارے تو زیادہ استعمال میں نہیں آتے۔ کم ہیں جو استعمال میں آتے ہیں، زیادہ تر استعمال میں نہیں آتے۔ اسی لیے ہم اس کو اسی حد تک پڑھتے ہیں کہ جتنی ضرورت ہے۔ خوب۔ 

وہ پانچ حرف کون سے ہیں؟ ذا، ایک۔ ذانِ اور ذَینِ، دو۔ تا، تِهِ، ذِهِ، فلاں یہ ہے، تین۔ تانِ اور تَینِ، چار۔ أُولَاءِ، پانچ۔ یہ پانچ ہیں، آگے ان شاءاللہ تفصیل کے ساتھ بتائیں گے۔ اب کبھی ان سے پہلے  ہای تنبیہ آجاتی ہے جیسے ذا کو ھذا کہتے ہیں، أولاء کو ھؤلاء کہہ دیتے ہیں اور آخر میں کبھی ان کے کافِ خطاب لگ جاتی ہے جیسے ذا کو ذاکَ کہتے ہیں اور ذاکما، ذاکم الی آخرہ۔ بالکل آسان سی چیزیں ہیں اس میں کوئی دقیق بحث اصلا انہوں نے ذکر ہی نہیں کی۔

فصل اسماء الإشارة کی وضاحت

فصلٌ "أَسْمَاءُ الْإِشَارَةِ" یعنی وہ اسماء جو کسی چیز کی طرف اشارہ کے لیے وضع کیے گئے ہوں۔ انہوں نے خود بھی یہی تعریف کی ہے "مَا وُضِعَ لِيَدُلَّ عَلَى مُشَارٍ إِلَيْهِ" یعنی وہ اسماء جن کو وضع کیا گیا ہے تاکہ وہ ایک "مُشَارٍ إِلَيْهِ" پر دلالت کریں۔ "مُشَارٍ إِلَيْهِ" یعنی جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہوتا ہے وہ "مُشَارٌ إِلَيْهِ" ہوگا اور جس اسم کے ذریعے اشارہ کیا جاتا ہے اس کو اسم اشارہ کہتے ہیں۔ "وَ هِيَ خَمْسَةُ أَلْفَاظٍ" یہ پانچ الفاظ ہیں چھ معانی کے لیے اور وہ یہ ہیں، کون سے؟ "ذَا لِلْمُذَكَّرِ" ذا مذکر کے لیے، "ذَانِ" اور "ذَيْنِ" تثنیہ کے لیے، "تَا، تِي، ذِي، تِهِ، ذِهِ، تِهِي، ذِهِي" یہ آتے ہیں مؤنث کی طرف اشارہ کے لیے، "تَانِ" اور "تَيْنِ" تثنیہ کے لیے، "أُولَاءِ بِالْمَدِّ وَ أُلَاءِ بِالْقَصْرِ" یعنی "أُولَاءِ" اوپر مد کے ساتھ یا قصر کے ساتھ جیسے "أُلَا" یہ آتے ہیں "لِجَمْعِهِمَا" مذکر کی جمع ہو تب بھی "أُولَاءِ" آئے گا اور مؤنث کے لیے ہوں تو بھی جمع آئے گا۔ ٹھیک ہے جی؟ اب ترتیب ذرا بنا لیں کہ تا مذکر واحد کے لیے، ذا مذکر واحد کے لیے، "ذَانِ" اور "ذَيْنِ" تثنیہ مذکر کے لیے۔ "تَا، تِي، ذِي، تِهِ، ذِهِ، تِهِي، ذِهِي" مؤنث واحد کے     لیے جبکہ "تَانِ" اور "تَيْنِ" تثنیہ مؤنث کے لیے اور "أُلَا" چاہے مد کے ساتھ ہو یا قصر کے ساتھ "أُلَا" یا "أُولَاءِ" یہ "لِجَمْعِهِمَا" یہ مذکر کی جمع کے   لیے بھی یہی آئے گا اور مؤنث کی جمع کے لیے بھی یہی آئے گا۔ اگر بہت سارے مردوں کی طرف اشارہ کرنا ہو تو بھی "أُولَاءِ" آئے گا اور اگر عورتوں کی طرف اشارہ کرنا ہو مؤنث کی طرف کرنا ہو تو بھی "أُولَاءِ" آئے گا۔

ہائے تنبیہ اور حرف خطاب کا اضافہ

بالکل آسان سی بات ہے فرماتے ہیں "وَ قَدْ يَلْحَقُ بِأَوَائِلِهَا" بسا اوقات ان کی ابتدا میں "هَاءُ التَّنْبِيْهِ" ملحق ہو جاتی ہے یعنی ابتدا میں ہا لگ جاتی ہے جیسے انہوں نے کہا تھا  ذا مذکر کے لیے تو وہ بن جائے گا ھذا۔ اگر تا ہے مؤنث کے لیے تو وہ بن جائے گا ھاتا۔ "وَ قَدْ يَلْحَقُ بِأَوَائِلِهَا" بسا اوقات ان حروف کے ان الفاظ کے اول میں آ جاتی ہے "هَاءُ التَّنْبِيْهِ" جیسے ھذا، ھذانِ یا أولاء کا بن جائے گا ھؤلاء۔ "وَ يَتَّصِلُ بِأَوَاخِرِهَا حَرْفُ الْخِطَابِ" اور ان کے آخر میں متصل ہو جاتی ہے کبھی حرف خطاب یعنی خطاب کی ضمیر ک، کم، کے، کما، کنا۔ "وَ هُوَ أَيْضًا خَمْسَةُ أَلْفَاظٍ" ظاہر ہے وہ بھی پھر چھ ہیں، او پانچ الفاظ ہیں چھ معانی کے لیے جیسے ک، کما، کم، کِ، کنا۔ چونکہ کما تو وہ دونوں کے لیے وہی آتا ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ ک، کما، کم، کِ، کنا۔ پانچ لفظ ہو گئے لیکن معنی چھ ہیں کیوں؟ چونکہ کما مذکر مخاطب تثنیہ ہو اس کے لیے بھی کُما آئے گا اور مؤنث مخاطب تثنیہ ہو اس کے لیے بھی کما آئے گا۔ "فَذَلِكَ خَمْسَةٌ وَ عِشْرُونَ" تو ٹوٹل بن جائیں گے پچیس۔ ہمیں پتا ہے بڑے آسانی سے پچیس بن جائیں گے۔ کیونکہ ہر پانچ کے ساتھ جب  ضرب دیں تو پچیس بن جائیں گے۔ جیسے، اچھا جی۔ کدھر گیا؟ "الْحَاصِلُ مِنْ ضَرْبِ خَمْسَةٍ فِي خَمْسَةٍ"۔ کیسے؟ جیسے ذاکَ، ذاکما، ذاکم، ذاکِ، ذاکما، ذاکنا۔ ٹھیک ہے جی۔ ذانکَ، ذانکما، ذانکم، ذانکِ، ذانکما، ذانکنا۔ اسی طرح پھر آپ تا کو لے لیں تاکَ، تاکما الی آخرہ "وَ كَذَلِكَ الْبَوَاقِي"۔

اشارے کا فاصلے کے لحاظ سے استعمال

آخر میں ایک چھوٹا سا اشارہ کر رہے ہیں وہ بالکل آسان سا ہے۔ فرماتے ہیں البتہ ان میں یہ یاد رکھ لینا کہ یہ جو اسماء اشارہ ہیں ان میں سے ذا قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے اگر مشار الیہ نزدیک کھڑا ہو تو وہاں ذا کہا جاتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں ھذا۔ ذالک بعید کے    لیے استعمال ہوتا ہے جب مشار الیہ کہیں بہت دور ہو جبکہ ذاکَ متوسط کے لیے۔ یہ لفظ ذرا یاد کر لینا کہ ذا مشار الیہ قریب کے لیے، ذالک مشار الیہ بعید کے لیے جبکہ ذاکَ مشار الیہ متوسط کے لیے کہ جو بہت زیادہ دور نہ ہو۔

4

اسماء موصول

اسم موصول

اگلی فصل وہ بھی مختصر سی ہے، وہ یہ ہے۔ موصول کے بارے میں۔اسم مبنی کی تیسری قسم ہے اسم موصول۔ اسم موصول مبنی ہوتا ہے۔ اسم موصول کسے کہتے ہیں؟ 

 موصول وہ اسم ہے کہ جو جملہ کی جزء تام اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ اس کے بعد اس کا صلہ موجود نہ ہو۔ پھر لکھ لیں۔ سوال: اسم مبنی کی اقسام میں سے تیسری قسم ہے موصول، موصول کسے کہتے ہیں؟ جواب: موصول وہ اسم ہے جو کسی بھی جملہ کے جزء تام    بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے بعد صلہ موجود نہ ہو۔ یعنی صلہ ساتھ ہو گا تو وہ جملے کے لیے جزء تام بنے گا، اگر صلہ نہ ہو گا تو تب تک وہ جزء تام نہیں بن سکتا۔ جو ایسا ہو اس کو موصول کہتے ہیں۔

صلہ کی وضاحت

اگلا سوال: موصول کا صلہ کیا چیز ہوتی ہے؟

 جواب: موصول کا صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے۔ اب ہو سکتا ہے وہ جملہ خبریہ اسمیہ ہو، ہو سکتا ہے جملہ خبریہ فعلیہ ہو۔ پس موصول کا صلہ ایک جملہ خبریہ ہوتا ہے لیکن اس جملہ میں ایک ضمیر ہوتی ہے جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ صلہ جملہ ہوتا ہے، جملہ خبریہ ہوتا ہے یعنی گویا کہ انشائیہ صلہ واقع نہیں ہو سکتا، جملہ خبریہ ہوتا ہے اور اس جملے میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو ضمیر اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ مثال: بہت آسان۔ "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ"۔ "الَّذِي" موصول ہے، "أَبُوهُ قَائِمٌ" جملہ خبریہ اسمیہ۔ یہ "الَّذِي" کا صلہ ہے۔ اب "أَبُوهُ قَائِمٌ" اب دیکھا "أَبُو" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے۔ یا "جَاءَ الَّذِي قَامَ أَبُوهُ"۔ "قَامَ أَبُوهُ" یہ صلہ ہے، جملہ خبریہ فعلیہ ہے اور "أَبُو" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے۔ ٹھیک ہو گیا؟ اب اس کا آسان یوں یاد کر سکتے ہیں۔ موصول وہ اسم ہوتا ہے جو بغیر صلہ کے جملہ کا جزء تام نہیں بن سکتا۔

جواب، اگلا سوال: صلہ کیا ہوگا؟ جواب: صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے، وہ چاہے اسمیہ ہو یا فعلیہ، لیکن اس جملے میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ بس یہاں پہ بات ختم ہو گئی۔ آگے پھر وہ اسمائے موصول ہیں کہ وہ موصول کون کون سے اسم ہیں، اب آگے ان کی تفصیل ہے، بالکل آسان سا فصل۔

الموصول کی تعریف اور اقسام

"اَلْمَوْصُولُ" یعنی اسمائے مبنیہ کی تیسری قسم، وہ ہے اسم موصول۔ "اَلْمَوْصُولُ إِسْمٌ" موصول وہ اسم ہے "لَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ جُزْءًا تَامًّا مِنْ جُمْلَةٍ" جس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی جملہ کے جزء تام بن سکے "إِلَّا بِصِلَةٍ بَعْدَهُ" مگر یہ کہ اس کے بعد اس کا صلہ موجود ہو یعنی بغیر اس کے بعد صلہ کے وہ جملہ کی جزء تام نہیں بن سکتا۔

آگے پھر موصول کا صلہ کیا ہوتا ہے؟ جواب: "وَصِلَتُهُ جُمْلَةٌ خَبَرِيَّةٌ" صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے انشائیہ صلہ نہیں بن سکتا۔ اب خبریہ ہوتا ہے اب چاہے وہ اسمیہ ہو تو بھی خبریہ ہے وہ فعلیہ ہو تو بھی، اب اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن اس جملہ خبریہ میں "لَابُدَّ مِنْ عَائِدٍ فِيهَا" اس جملہ خبریہ میں ایک عائد کا یعنی ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے "يَعُودُ إِلَى الْمَوْصُولِ" جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ "مِثَالُهُ" اس کی مثال بڑی آسان ہے۔ جیسے ہمارا جملہ ہے۔ "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ" اب "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ" میں "الَّذِي" موصول ہے، "أَبُوهُ قَائِمٌ" جملہ خبریہ اس کا صلہ ہے اور آپ نے دیکھا "أَبُوهُ قَائِمٌ" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہا ہے۔ میرے پاس آیا وہ، "أَبُوهُ"، کہ جس کا باپ قائم تھا۔ یا "جَاءَ الَّذِي قَامَ أَبُوهُ" یہ "قَامَ أَبُوهُ" جملہ خبریہ فعلیہ ہے جو "الَّذِي" کا صلہ ہے اور "أَبُوهُ" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف پلٹ رہی ہے۔

اسماء موصولہ کی فہرست

خوب۔ اب اگلا سوال۔ اسمائے موصولہ کتنے ہیں؟ جواب: "وَ الَّذِي" ایک ہے "الَّذِي"، یہ آتا ہے مذکر کے لیے۔ "اَللَّذَانِ وَ اللَّذَيْنِ" "اَللَّذَانِ" اور "اَللَّذَيْنِ" یہ آتے ہیں تثنیہ مذکر کے لیے۔ "وَ الَّتِي"، "اَلَّتِي" آتا ہے مؤنث کے لیے، واحد کے لیے۔ "اَللَّتَانِ" اور "اَللَّتَيْنِ" یہ آتے ہیں تثنیہ مؤنث کے    لیے۔ "وَ الَّذِينَ وَ الْأُلَى"، "اَلَّذِينَ" اور "اَلْأُلَى" یہ آتے ہیں جمع مذکر کے لیے۔ "اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي"۔ اب ان کو ذرا یاد رکھنا۔ یہ آتے ہیں جمع مؤنث کے لیے۔ "اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي"۔ یہ ہیں جمع مؤنث کے لیے۔ یہ صیغے ہو گئے۔ اور "وَ مَنْ وَ مَا وَ أَيٌّ وَ أَيَّةٌ"۔ "مَنْ، مَا، أَيٌّ" اور "أَيَّةٌ" یہ بھی موصول ہو گئے۔ اب ذرا ان کو دیکھ لیں آغا، "اَلَّذِي، اَللَّذَانِ، اَللَّذَيْنِ، اَلَّتِي، اَللَّتَانِ، اَللَّتَيْنِ، اَلَّذِينَ، اَلْأُلَى، اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي، مَا، مَنْ، أَيٌّ، أَيَّةٌ" یہ سارے اسمائے موصولہ ہیں۔ یہ سارے اسمائے موصولہ ہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی؟

"ذو" بمعنی "الَّذِي"

آگے فرماتے ہیں ایک جملہ کہ و "ذو" بمعنی "الَّذِي" فی لغة بنی طي۔ قبیلہ بنی طي ان کی لغت میں وہ ذو کو بھی بمعنی الذی کے لیتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ ذو بھی موصول ہے بمعنی "الَّذِي" کے ہے، ایک ان کا شعر بھی ہے۔ "فَاِنَّ الماءَ ماءُ اَبی وَ جَدّی وَ بِئری ذُو حَفَرتُ وَ ذُو طَوَيتُ"۔ وہ کہتے ہیں یہاں ذو بمعنی "الَّذِي" کے ہے کہ یہ پانی میرے باپ اور میرے جد کا ہے اور یہ کنواں "الَّذِي" یعنی "ذُو حَفَرتُ" کا معنی ہے "الَّذِي حَفَرتُ" یہ وہ ہے کہ جس کو میں نے کھودا ہے و "ذُو طَوَيتُ" اور اس کو میں نے ہی درست کیا ہے۔ 

الف لام موصولہ

اسی طرح اسمائے موصولہ میں سے ایک ہے الف لام جو الف لام بمعنی "الَّذِي" کے ہوتا ہے۔ جو اسم موصول الف لام ہو گا یعنی الف لام موصول کا جو بمعنی "الَّذِي" کے آتا ہے، اس کا صلہ اب جملہ نہیں ہو گا بلکہ اس کا صلہ اسم فاعل یا اسم مفعول آتا ہے۔ بہت توجہ۔ یعنی جو اگر موصول الف لام، الف لام کی بہت ساری اقسام ہیں اگر اس میں سے ایک وہ ایک الف لام موصول کا ہوتا ہے جو بمعنی "الَّذِي" کے ہوتا ہے۔ پس جو الف لام موصول کا ہو گا جہاں الف لام موصول والا ہو گا وہاں اس کا صلہ اسم فاعل یا اسم مفعول ہوتا ہے۔ جیسے "جاءَنِی الضارِبُ زَیداً" ٹھیک ہے جی۔ الف لام موصول کا ہے تو الضارب اس کا صلہ ہے۔ اے "الَّذِي یَضرِبُ زَیداً"۔ "جاءَنِی الَّذِي" میرے پاس آیا "الضارِبُ" وہ جو مارنے والا ہے "زَیداً" زید کو یعنی "الَّذِي یَضرِبُ" جو زید کو مارے گا۔ "جاءَنِی المَضرُوبُ غُلامُهُ" میرے پاس وہ آیا کہ جس کے غلام کو مارا گیا یعنی "الَّذِي یُضرَبُ غُلامُهُ"۔

"مَن" اور "مَا" کا استعمال

مَن اور مَا اس کو تھوڑا سا کہ مَن بھی موصول ہوتا ہے مَا بھی موصول ہوتا ہے لیکن اس کو بھی تھوڑا سا یاد کر لیں۔ کہ مَن موصول ہے مَن موصول ہے لیکن مَن ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے جبکہ مَا غیر ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے۔ غیر ذوی العقول کے لیے۔ اس کو آگے یاد رکھ لینا پھر بھول نہ جائے۔ کہ مَن ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے اور مَا غیر ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی۔

عائد کا حذف

آگے فرماتے ہیں غالباً ہاں آخری جملہ وہ یہ ہے کہ "یَجُوزُ حَذفُ العائِدِ مِنَ اللَّفظِ اِن کانَ مَفعُولاً"۔ ہم نے کہا ہے موصول کا صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے اس جملہ میں ایک ضمیر ہوتی ہے جو ضمیر اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہوتی ہے۔ آخر میں ایک جملہ فرما رہے ہیں علیحدہ کہ اگر وہ ضمیر مفعول کی ہو تو پھر اس ضمیر کا حذف کرنا بھی جائز ہے۔ یعنی اس جملہ صلہ میں اگر اس مفعول کی ضمیر کو ذکر نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ مفعول فضلہ ہوتا ہے اور فضلہ کا حذف جائز ہوتا ہے۔ "وَ یَجُوزُ حَذفُ العائِدِ" جائز ہے عائد کا حذف کرنا۔ عائد سے مراد کیا ہے؟ یعنی او وہ ضمیر جو مفعول کی طرف پلٹ رہی تھی لفظ سے اس کا حذف کرنا جائز ہے۔ "اِن کانَ مَفعُولاً" اگر وہ عائد یعنی وہ ضمیر مفعول کی ہو۔ جیسے "قامَ الَّذِي ضَرَبتُ" تو اصل میں کہنا تھا "قامَ الَّذِي ضَرَبتُهُ" اب "هُ" کی ضمیر چونکہ "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے اور جب کہ وہ ہے مفعول کی تو اس     لیے فرماتے ہیں یہاں اگر "ضَرَبتُهُ" کی بجائے خالی "ضَرَبتُ" پڑھ دیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

"أيٌّ" اور "أيَّةٌ" کا اعراب

اگلی بات کہ ہم نے کہا ہے کہ ایٌّ اور ایٌّہ یہ دونوں موصول ہیں اسم مبنی کی میں ہیں۔ یعنی اسمائے مبنیہ موصول کی اقسام میں موصول اسم مبنی ہے۔ اب اگلا جملہ یہ ہے کہ کبھی ایٌّ اور ایٌّہ یعنی ایٌّ اور ایٌّہ معرب بھی ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ کب؟ "اِذَا حُذِفَ صَدرُ صِلَتِهَا"۔ اگر ان کے صلہ کا صدر یعنی ابتدائے صلہ یعنی جو جملہ صلہ بن رہا ہے اگر اس کی ابتداء کو حذف کر دیا جائے۔ بہت توجہ آغا کہ "اَنَّ اَیاً وَ اَیَّةً مُعرَبَةٌ" کہ ایٌّ اور ایٌّہ معرب ہوتے ہیں "اِلَّا اِذَا حُذِفَ صَدرُ صِلَتِهَا" مگر اس صورت میں کہ جب ان کے صدر صلہ کو حذف کر دیا جائے۔ یعنی اگر صدر صلہ موجود ہو گا تو وہ معرب ہوں گے، صدر صلہ سے مراد کیا ہے؟ یعنی وہ جملہ جو صلہ ہو رہا واقع ہو رہا ہے اگر اس کی ابتداء یعنی جہاں سے آغاز ہو رہا ہے اگر وہ موجود ہو گا تو پھر یہ معرب کیا ہے؟ ہوں گے۔ لیکن اگر وہ محذوف ہو گا تو پھر یہ مبنی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت ہے "ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن کُلِّ شِیعَةٍ اَیُّهُم اَشَدُّ عَلَی الرَّحمٰنِ عِتِیاً"۔ ٹھیک ہے جی۔ اب اشد سے پہلے صدر صلہ کیا تھا؟ وہ تھا "هُوَ"۔ اصل میں تھا "هُوَ اَشَدُّ"۔ اب جملے کو دوبارہ سمجھ لیں کہ ایٌّ اور ایٌّۃ معرب ہوتے ہیں الا فقط اس صورت میں یہ مبنی ہوں گے جب ان کے جملہ صلہ کے صدر کو، ابتداء کو حذف کر دیا جائے گا۔ جیسے یہ قرآن میں اشد کے پیچھے اصل میں ہے "هُوَ اَشَدُّ"

و صلی اللہ علی محمد و آله

ضَرَبَكَ إلّا أنا.

واعلم أنّ لهم ضميراً غائباً يقع قبل جملة يفسّره الجملة المذكورة بعده ويسمّى ضمير الشأن في المذكّر وضمير القصّة في المؤنّث نحو : «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» (١) ، وهي هندٌ مليحةٌ ، وإنّها زَيْنَبُ قائِمَةٌ.

وقد يدخل بين المبتدأ والخبر ضمير مرفوع منفصل مطابق للمبتدأ إذا كان الخبر معرفة ، أو أفْعَل مِنْ كَذا ، ويسمّى فصلاً لأنّه يفصل بين المبتدأ والخبر نحو : زَيْدٌ هُوَ الْقائِمُ ، وكانَ زَيْدٌ هُوَ الْقائِمَ ، وزَيْدٌ هُوَ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ ، وقال الله تعالى : «كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ» (٢).

النوع الثاني : أسماء الإشارات

ما وضع ليدلّ على مشار إليه وهي خمسة ألفاظ لستّة معانٍ : «ذا» للمذكّر ، ولمثنّاه «ذانِ» و «ذَيْنِ» ، وللمؤنّث : «تا وتي وذي وتِه وذه وتِهي وذِهي» ، ولمثنّاها «تانِ» و «تيْنِ» ولجمعهما «اُولاء» بالمدّ والقصر. وقد تدخل بأوائلها هاء التنبيه ، «كهذا» و «هؤُلاءِ».

ويتّصل بأواخرها حرف الخطاب ، وهي خمسة ألفاظ : كَ‍ ، كُما ، كُمْ كِ‍ ، كُما ، كُنَّ. فذلك خمسة وعشرون ، الحاصل من ضرب خمسة في خمسة ، وهي ذاك إلى ذاكُنَّ ، وذانِكَ إلى ذانِكُنَّ ، وكذا البواقي.

واعلم أنّ «ذا» للقريب ، و «ذلك» للبعيد ، و «ذاكَ» للمتوسّط.

النوع الثالث : الموصولات

الموصول : اسم لا يصلح أن يكون جزءً تامّاً من جملة إلّا بصلة بعده

____________________________

(١) سورة الاخلاص : ١.

(٢) المائدة : ١١٧.

وهي جملة خبريّة ولا بُدّ له من عائد فيها يعود إلى الموصول ، مثاله «الّذي» في قولنا : جاءني الَّذي أبُوهُ فاضِلٌ ، أو قامَ أبُوهُ. «الَّذي» للمذكّر و «الَّتي» للمؤنّث ، و «اللَّذانِ ، واللَّذَيْنِ واللَّتانِ واللَّتَيْنِ» لمثنّاهما ، بالألف في حالة الرفع وبالياء في حالتي النصب والجرّ ، «والأُلي والَّذينَ» لجمع المذكّر ، «واللّاتي واللّواتي واللّائي واللّوائي» لجمع المؤنّث و «ما» و «مَنْ» و «أيّ» و «أيّة» و «ذُو» بمعنى الّذي في لغة بني طيّ كقوله :

فَإنَّ الْماءَ ماءَ أبي وَجَدّي

وَبِئْري ذُو حَفَرْتُ وذُو طَوَيْتُ (١)

أي الّذي حفرت والّذي طويت.

«والألف واللّام» بمعنى الّذي وصلته اسم الفاعل أو المفعول نحو : الضارِبُ زيدٌ ، أي الّذي ضَرَبَ زيدٌ ، والمضروبُ عمروٌ ، أي الّذي ضُرِبَ عمروٌ.

____________________________

(١) هو من ابيات لسنام بن الفحل وهو أحد من بنى اُمّ الكهف من طيّ وقد نازع قومه في ماء لبني اُمّ الكهف وأكثر النزاع ورادم في الدماء فقالوا له : أمجنون أنت أم سكران فانشد الابيات وقبله :

وقالوا قد جننت فقلت كلّا

وربىّ لا جننت ولا انتشبت

ولكني ظلمت فكنت أبكي

من الظلم المبين أو بكيتُ

الفاء في فإنّ للتعليل واللام في الماء للعهد ، أي الماء الذي فيه النزاع ، ماء أبي وجدّي أي : ورثتها إيّاه. وقوله : وبئري أي : البئر المتنازع فيها بئري التي حفرتها وطويتها. يقال حفرت الشيء أي نقبته كما تحفر الأرض بالحديدة ، وطويت البئر بالطاء المهملة والواو والياء إذا بنيتها بالحجارة. يعنى پس به علت آنكه بدرستيكه آن آبى كه در آن نزاع است آب پدر من است كه به ميراث به من رسيده است ، وآن چاهى كه در آن نزاع است چاه من است آنچنان چاهى كه كندم آنرا وآنچنان چاهى كه سنگ چيدم دور آنرا.

شاهد در وقوع لفظ (ذو) است در دو موضع بمعنى (التى) بنابر لغت طىّ باعتبار بودن او صفت از براى مؤنث كه بئر بوده باشد. وحفرت وطويت صله آن (ذو) است وعايد آن محذوف است اى التى حفرتها والتى طويتها. (جامع الشواهد).

ويجوز حذف العائد من اللفظ إن كان مفعولاً نحو : قام الّذي ضربتُ ، أي الّذي ضَرَبْتُهُ.

واعلم أنّ «أيّا وأيَّة» معربة إلّا إذا حذف صدر صلتها كقوله تعالى : «ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَـٰنِ عِتِيًّا» (١) ، أي هو أشدُّ.

النوع الرابع : أسماء الأفعال

كلّ اسم بمعنى الأمر والماضي ك‍ : رُوَيْدَ زيداً ، أي أمْهِلْهُ ، وهَيْهاتَ زَيْدٌ ، أي بَعُد ، وإن كان على وزن فَعالِ بمعنى الأمر ، وهو من الثلاثي فهو قياسيّ كنزال بمعنى انزل وتَراكِ بمعنى اترك. وقد يلحق به فَعال مصدراً معرفة ، كفَجار بمعنى الفجور ، أو صفة للمؤنّث نحو : يا فَساقِ بمعنى فاسقة ، ويالكاع بمعنى لاكعة ، أو عَلَماً للأعيان المؤنّثة كَقطامِ وغَلابِ وحَضارِ. وهذه الثلاثة الأخيرة ليست من أسماء الأفعال وإنّما ذكرت هاهنا للمناسبة.

النوع الخامس : الأصوات

وهو كلّ اسم حُكِي به صوت ، ك‍ : قاق لصوت الغراب ، أو لصوت يصوّت به للبهائم ك‍ : نِخْ لإناخة البعير ، وطاقْ حكاية الضرب ، وطَقْ حكاية وَقْع الحجارة بعضها ببعض.

النوع السادس : المركّبات

وهو كلّ اسم ركّب من الكلمتين ليس بينهما نسبة ، أي ليس بينهما

____________________________

(١) مريم : ٦٩.