اسم موصول
اگلی فصل وہ بھی مختصر سی ہے، وہ یہ ہے۔ موصول کے بارے میں۔اسم مبنی کی تیسری قسم ہے اسم موصول۔ اسم موصول مبنی ہوتا ہے۔ اسم موصول کسے کہتے ہیں؟ 
 موصول وہ اسم ہے کہ جو جملہ کی جزء تام اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ اس کے بعد اس کا صلہ موجود نہ ہو۔ پھر لکھ لیں۔ سوال: اسم مبنی کی اقسام میں سے تیسری قسم ہے موصول، موصول کسے کہتے ہیں؟ جواب: موصول وہ اسم ہے جو کسی بھی جملہ کے جزء تام    بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے بعد صلہ موجود نہ ہو۔ یعنی صلہ ساتھ ہو گا تو وہ جملے کے لیے جزء تام بنے گا، اگر صلہ نہ ہو گا تو تب تک وہ جزء تام نہیں بن سکتا۔ جو ایسا ہو اس کو موصول کہتے ہیں۔
صلہ کی وضاحت
اگلا سوال: موصول کا صلہ کیا چیز ہوتی ہے؟
 جواب: موصول کا صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے۔ اب ہو سکتا ہے وہ جملہ خبریہ اسمیہ ہو، ہو سکتا ہے جملہ خبریہ فعلیہ ہو۔ پس موصول کا صلہ ایک جملہ خبریہ ہوتا ہے لیکن اس جملہ میں ایک ضمیر ہوتی ہے جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ صلہ جملہ ہوتا ہے، جملہ خبریہ ہوتا ہے یعنی گویا کہ انشائیہ صلہ واقع نہیں ہو سکتا، جملہ خبریہ ہوتا ہے اور اس جملے میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو ضمیر اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ مثال: بہت آسان۔ "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ"۔ "الَّذِي" موصول ہے، "أَبُوهُ قَائِمٌ" جملہ خبریہ اسمیہ۔ یہ "الَّذِي" کا صلہ ہے۔ اب "أَبُوهُ قَائِمٌ" اب دیکھا "أَبُو" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے۔ یا "جَاءَ الَّذِي قَامَ أَبُوهُ"۔ "قَامَ أَبُوهُ" یہ صلہ ہے، جملہ خبریہ فعلیہ ہے اور "أَبُو" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے۔ ٹھیک ہو گیا؟ اب اس کا آسان یوں یاد کر سکتے ہیں۔ موصول وہ اسم ہوتا ہے جو بغیر صلہ کے جملہ کا جزء تام نہیں بن سکتا۔
جواب، اگلا سوال: صلہ کیا ہوگا؟ جواب: صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے، وہ چاہے اسمیہ ہو یا فعلیہ، لیکن اس جملے میں ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ بس یہاں پہ بات ختم ہو گئی۔ آگے پھر وہ اسمائے موصول ہیں کہ وہ موصول کون کون سے اسم ہیں، اب آگے ان کی تفصیل ہے، بالکل آسان سا فصل۔
الموصول کی تعریف اور اقسام
"اَلْمَوْصُولُ" یعنی اسمائے مبنیہ کی تیسری قسم، وہ ہے اسم موصول۔ "اَلْمَوْصُولُ إِسْمٌ" موصول وہ اسم ہے "لَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ جُزْءًا تَامًّا مِنْ جُمْلَةٍ" جس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی جملہ کے جزء تام بن سکے "إِلَّا بِصِلَةٍ بَعْدَهُ" مگر یہ کہ اس کے بعد اس کا صلہ موجود ہو یعنی بغیر اس کے بعد صلہ کے وہ جملہ کی جزء تام نہیں بن سکتا۔
آگے پھر موصول کا صلہ کیا ہوتا ہے؟ جواب: "وَصِلَتُهُ جُمْلَةٌ خَبَرِيَّةٌ" صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے انشائیہ صلہ نہیں بن سکتا۔ اب خبریہ ہوتا ہے اب چاہے وہ اسمیہ ہو تو بھی خبریہ ہے وہ فعلیہ ہو تو بھی، اب اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن اس جملہ خبریہ میں "لَابُدَّ مِنْ عَائِدٍ فِيهَا" اس جملہ خبریہ میں ایک عائد کا یعنی ایک ضمیر کا ہونا ضروری ہے "يَعُودُ إِلَى الْمَوْصُولِ" جو اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہو۔ "مِثَالُهُ" اس کی مثال بڑی آسان ہے۔ جیسے ہمارا جملہ ہے۔ "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ" اب "جَاءَ الَّذِي أَبُوهُ قَائِمٌ" میں "الَّذِي" موصول ہے، "أَبُوهُ قَائِمٌ" جملہ خبریہ اس کا صلہ ہے اور آپ نے دیکھا "أَبُوهُ قَائِمٌ" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف جا رہا ہے۔ میرے پاس آیا وہ، "أَبُوهُ"، کہ جس کا باپ قائم تھا۔ یا "جَاءَ الَّذِي قَامَ أَبُوهُ" یہ "قَامَ أَبُوهُ" جملہ خبریہ فعلیہ ہے جو "الَّذِي" کا صلہ ہے اور "أَبُوهُ" میں "هُ" کی ضمیر ہے جو "الَّذِي" کی طرف پلٹ رہی ہے۔
اسماء موصولہ کی فہرست
خوب۔ اب اگلا سوال۔ اسمائے موصولہ کتنے ہیں؟ جواب: "وَ الَّذِي" ایک ہے "الَّذِي"، یہ آتا ہے مذکر کے لیے۔ "اَللَّذَانِ وَ اللَّذَيْنِ" "اَللَّذَانِ" اور "اَللَّذَيْنِ" یہ آتے ہیں تثنیہ مذکر کے لیے۔ "وَ الَّتِي"، "اَلَّتِي" آتا ہے مؤنث کے لیے، واحد کے لیے۔ "اَللَّتَانِ" اور "اَللَّتَيْنِ" یہ آتے ہیں تثنیہ مؤنث کے    لیے۔ "وَ الَّذِينَ وَ الْأُلَى"، "اَلَّذِينَ" اور "اَلْأُلَى" یہ آتے ہیں جمع مذکر کے لیے۔ "اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي"۔ اب ان کو ذرا یاد رکھنا۔ یہ آتے ہیں جمع مؤنث کے لیے۔ "اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي"۔ یہ ہیں جمع مؤنث کے لیے۔ یہ صیغے ہو گئے۔ اور "وَ مَنْ وَ مَا وَ أَيٌّ وَ أَيَّةٌ"۔ "مَنْ، مَا، أَيٌّ" اور "أَيَّةٌ" یہ بھی موصول ہو گئے۔ اب ذرا ان کو دیکھ لیں آغا، "اَلَّذِي، اَللَّذَانِ، اَللَّذَيْنِ، اَلَّتِي، اَللَّتَانِ، اَللَّتَيْنِ، اَلَّذِينَ، اَلْأُلَى، اَللَّاتِي، اَللَّوَاتِي، اَللَّائِي، اَللَّائِي، مَا، مَنْ، أَيٌّ، أَيَّةٌ" یہ سارے اسمائے موصولہ ہیں۔ یہ سارے اسمائے موصولہ ہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی؟
"ذو" بمعنی "الَّذِي"
آگے فرماتے ہیں ایک جملہ کہ و "ذو" بمعنی "الَّذِي" فی لغة بنی طي۔ قبیلہ بنی طي ان کی لغت میں وہ ذو کو بھی بمعنی الذی کے لیتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ ذو بھی موصول ہے بمعنی "الَّذِي" کے ہے، ایک ان کا شعر بھی ہے۔ "فَاِنَّ الماءَ ماءُ اَبی وَ جَدّی وَ بِئری ذُو حَفَرتُ وَ ذُو طَوَيتُ"۔ وہ کہتے ہیں یہاں ذو بمعنی "الَّذِي" کے ہے کہ یہ پانی میرے باپ اور میرے جد کا ہے اور یہ کنواں "الَّذِي" یعنی "ذُو حَفَرتُ" کا معنی ہے "الَّذِي حَفَرتُ" یہ وہ ہے کہ جس کو میں نے کھودا ہے و "ذُو طَوَيتُ" اور اس کو میں نے ہی درست کیا ہے۔ 
الف لام موصولہ
اسی طرح اسمائے موصولہ میں سے ایک ہے الف لام جو الف لام بمعنی "الَّذِي" کے ہوتا ہے۔ جو اسم موصول الف لام ہو گا یعنی الف لام موصول کا جو بمعنی "الَّذِي" کے آتا ہے، اس کا صلہ اب جملہ نہیں ہو گا بلکہ اس کا صلہ اسم فاعل یا اسم مفعول آتا ہے۔ بہت توجہ۔ یعنی جو اگر موصول الف لام، الف لام کی بہت ساری اقسام ہیں اگر اس میں سے ایک وہ ایک الف لام موصول کا ہوتا ہے جو بمعنی "الَّذِي" کے ہوتا ہے۔ پس جو الف لام موصول کا ہو گا جہاں الف لام موصول والا ہو گا وہاں اس کا صلہ اسم فاعل یا اسم مفعول ہوتا ہے۔ جیسے "جاءَنِی الضارِبُ زَیداً" ٹھیک ہے جی۔ الف لام موصول کا ہے تو الضارب اس کا صلہ ہے۔ اے "الَّذِي یَضرِبُ زَیداً"۔ "جاءَنِی الَّذِي" میرے پاس آیا "الضارِبُ" وہ جو مارنے والا ہے "زَیداً" زید کو یعنی "الَّذِي یَضرِبُ" جو زید کو مارے گا۔ "جاءَنِی المَضرُوبُ غُلامُهُ" میرے پاس وہ آیا کہ جس کے غلام کو مارا گیا یعنی "الَّذِي یُضرَبُ غُلامُهُ"۔
"مَن" اور "مَا" کا استعمال
مَن اور مَا اس کو تھوڑا سا کہ مَن بھی موصول ہوتا ہے مَا بھی موصول ہوتا ہے لیکن اس کو بھی تھوڑا سا یاد کر لیں۔ کہ مَن موصول ہے مَن موصول ہے لیکن مَن ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے جبکہ مَا غیر ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے۔ غیر ذوی العقول کے لیے۔ اس کو آگے یاد رکھ لینا پھر بھول نہ جائے۔ کہ مَن ذوی العقول کے لیے موصول ہوتا ہے اور مَا غیر ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی۔
عائد کا حذف
آگے فرماتے ہیں غالباً ہاں آخری جملہ وہ یہ ہے کہ "یَجُوزُ حَذفُ العائِدِ مِنَ اللَّفظِ اِن کانَ مَفعُولاً"۔ ہم نے کہا ہے موصول کا صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے اس جملہ میں ایک ضمیر ہوتی ہے جو ضمیر اس موصول کی طرف پلٹ رہی ہوتی ہے۔ آخر میں ایک جملہ فرما رہے ہیں علیحدہ کہ اگر وہ ضمیر مفعول کی ہو تو پھر اس ضمیر کا حذف کرنا بھی جائز ہے۔ یعنی اس جملہ صلہ میں اگر اس مفعول کی ضمیر کو ذکر نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ مفعول فضلہ ہوتا ہے اور فضلہ کا حذف جائز ہوتا ہے۔ "وَ یَجُوزُ حَذفُ العائِدِ" جائز ہے عائد کا حذف کرنا۔ عائد سے مراد کیا ہے؟ یعنی او وہ ضمیر جو مفعول کی طرف پلٹ رہی تھی لفظ سے اس کا حذف کرنا جائز ہے۔ "اِن کانَ مَفعُولاً" اگر وہ عائد یعنی وہ ضمیر مفعول کی ہو۔ جیسے "قامَ الَّذِي ضَرَبتُ" تو اصل میں کہنا تھا "قامَ الَّذِي ضَرَبتُهُ" اب "هُ" کی ضمیر چونکہ "الَّذِي" کی طرف جا رہی ہے اور جب کہ وہ ہے مفعول کی تو اس     لیے فرماتے ہیں یہاں اگر "ضَرَبتُهُ" کی بجائے خالی "ضَرَبتُ" پڑھ دیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
"أيٌّ" اور "أيَّةٌ" کا اعراب
اگلی بات کہ ہم نے کہا ہے کہ ایٌّ اور ایٌّہ یہ دونوں موصول ہیں اسم مبنی کی میں ہیں۔ یعنی اسمائے مبنیہ موصول کی اقسام میں موصول اسم مبنی ہے۔ اب اگلا جملہ یہ ہے کہ کبھی ایٌّ اور ایٌّہ یعنی ایٌّ اور ایٌّہ معرب بھی ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ کب؟ "اِذَا حُذِفَ صَدرُ صِلَتِهَا"۔ اگر ان کے صلہ کا صدر یعنی ابتدائے صلہ یعنی جو جملہ صلہ بن رہا ہے اگر اس کی ابتداء کو حذف کر دیا جائے۔ بہت توجہ آغا کہ "اَنَّ اَیاً وَ اَیَّةً مُعرَبَةٌ" کہ ایٌّ اور ایٌّہ معرب ہوتے ہیں "اِلَّا اِذَا حُذِفَ صَدرُ صِلَتِهَا" مگر اس صورت میں کہ جب ان کے صدر صلہ کو حذف کر دیا جائے۔ یعنی اگر صدر صلہ موجود ہو گا تو وہ معرب ہوں گے، صدر صلہ سے مراد کیا ہے؟ یعنی وہ جملہ جو صلہ ہو رہا واقع ہو رہا ہے اگر اس کی ابتداء یعنی جہاں سے آغاز ہو رہا ہے اگر وہ موجود ہو گا تو پھر یہ معرب کیا ہے؟ ہوں گے۔ لیکن اگر وہ محذوف ہو گا تو پھر یہ مبنی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت ہے "ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن کُلِّ شِیعَةٍ اَیُّهُم اَشَدُّ عَلَی الرَّحمٰنِ عِتِیاً"۔ ٹھیک ہے جی۔ اب اشد سے پہلے صدر صلہ کیا تھا؟ وہ تھا "هُوَ"۔ اصل میں تھا "هُوَ اَشَدُّ"۔ اب جملے کو دوبارہ سمجھ لیں کہ ایٌّ اور ایٌّۃ معرب ہوتے ہیں الا فقط اس صورت میں یہ مبنی ہوں گے جب ان کے جملہ صلہ کے صدر کو، ابتداء کو حذف کر دیا جائے گا۔ جیسے یہ قرآن میں اشد کے پیچھے اصل میں ہے "هُوَ اَشَدُّ"
و صلی اللہ علی محمد و آله