درس الهدایة في النحو

درس نمبر 60: حروف عاطفہ 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

بحث «إمّا» اور «أمْ»

"وَإِمَّا إِنَّمَا تَكُونُ حَرْفَ الْعَطْفِ إِذَا تَقَدَّمَتْهَا إِمَّا أُخْرَى"۔ ہم بحث کر رہے تھے ان تین حروف کی: "أَوْ"، "إِمَّا" اور "أَمْ" کے بارے میں۔ فرماتے ہیں کہ یہ جو "إِمَّا" ہے یہ حرفِ عطف اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس سے پہلے ایک اور "إِمَّا" موجود ہو یا یہ پہلے ہو اور اس کے بعد ایک "أَوْ" موجود ہو، "إِمَّا" اس وقت حرفِ عطف ہوتا ہے جب اس "إِمَّا" سے پہلے ایک اور "إِمَّا" بھی موجود ہو ایک۔ یا یہ "إِمَّا" پہلے ہو اور اس کے بعد ایک "أَوْ" آ جائے، یہ بھی جائز ہے۔  "إِمَّا" یہ جو "إِمَّا" ہے۔ "إِنَّمَا تَكُونُ حَرْفَ الْعَطْفِ" یہ "إِمَّا" اس صورت میں حرفِ عطف ہوتا ہے "إِذَا تَقَدَّمَتْهَا إِمَّا أُخْرَى" کہ جب اس پر مقدم ہو، اس پر مقدم ہو ایک اور "إِمَّا" جیسے ہم کہتے ہیں "اَلْعَدَدُ إِمَّا زَوْجٌ وَإِمَّا فَرْدٌ"۔ اب یہ جو دوسرا "إِمَّا" عطف ہے اس لیے کہ اس سے پہلے ایک "إِمَّا" اور موجود ہے۔ "وَيَجُوزُ أَنْ يَتَقَدَّمَ إِمَّا عَلَى أَوْ" اور یہ بھی جائز ہے کہ پہلے "إِمَّا" ہو اور اس کے بعد حرفِ عطف "أَوْ" آ جائے پھر بھی جائز ہے یہ بھی ہو سکتا ہے پھر بھی اس کو "إِمَّا" پڑھ سکتے ہیں جیسے ہم کہیں "زَيْدٌ إِمَّا كَاتِبٌ أَوْ أُمِّيٌّ" کہ زید یا کاتب ہے یا امّی ہے یعنی ان پڑھ ہے۔ 

 أَمْ

اس کے بعد انہی حروف میں "أَوْ"، "إِمَّا" اور "أَمْ"۔ حروفِ عاطفہ میں ایک ہے "أَمْ"۔ فرماتے ہیں "أَمْ" دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ہوتا ہے "أَمِ مُتَّصِلَة" ایک ہوتا ہے "أَمِ مُنْفَصِلَة"۔ اب بہت توجہ کے ساتھ آغا۔ "أَمِ مُتَّصِلَة" اور "أَمِ مُنْقَطِعَة"۔ یہ دو "أَمْ" کی دو قسمیں ہیں: "أَمِّ مُتَّصِلَة"، "أَمِّ مُنْقَطِعَة"۔ دونوں کے مطالب علیحدہ علیحدہ ہیں۔

أَم مُتَّصِلَة

"أَمِ مُتَّصِلَة" کب ہوتا ہے؟ یعنی کب کہیں گے کہ یہ "أَمْ"، "أَمِ مُتَّصِلَة" ہے؟  فرماتے ہیں: اگر ایک سائل ایک حکم کے بارے میں جانتا ہے کہ یہ حکم یا اس کے لیے ہے یا اس کے لیے ہے۔ اور وہ ان میں سے کسی ایک کی تعیین کرنے کے لیے سوال کرتا ہے تو وہاں وہ "أَمْ" کا استعمال کرتا ہے۔ توجہ فرما لیجیے؟ "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو" اس کو پتہ ہے کہ ایک اس کے پاس موجود ہے۔ یہ پتہ نہیں کہ وہ زید ہے یا امر ہے۔ اب وہ تعیین کروانا چاہتا ہے مخاطب سے کہ وہ یہ بتائے کہ ان میں سے کون ہے۔ ایسے مقام پر "أَمْ" کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی اصلِ حکم کے ثبوت کے بارے میں جانتا ہے کہ ان دو میں سے کسی ایک کے لیے یہ حکم ہے لیکن یہ نہیں پتہ کہ وہ کس کے لیے ہے تو اس کی تعیین کے لیے جو سوال کرتا ہے وہ "أَمِ مُتَّصِلَة" سے کیا جاتا ہے۔ 

 أَم مُتَّصِلَة کی شرائط

 اگلی بات یہ ہے "أَم مُتَّصِلَة" کا استعمال مشروط ہے تین شرائط کے ساتھ۔ "أَمِ مُتَّصِلَة" کے لیے تین شرائط ہیں۔  کہ اس کے استعمال میں تین شرائط ہیں۔ نمبر ایک، پہلی شرط کہ اس "أَمْ" سے پہلے ایک ہمزہ ہونا چاہیے یعنی ہمزہ استفہام پہلے ہو تو جا کر "أَمِ مُتَّصِلَة" کا استعمال صحیح ہو گا۔ ایک۔ نمبر دو، اس "أَمْ" کے بعد بھی ویسا لفظ ہو جیسا ہمزہ کے بعد ہے یعنی اگر ہمزہ کے بعد اسم ہے تو اس کے بعد بھی اسم ہو، ہمزہ کے بعد اگر فعل ہے تو اس "أَمْ" کے بعد بھی فعل ہو۔ دو شرطیں ہو گئیں۔ نمبر تین، تیسری یہ ہے کہ جن دو چیزوں کے بارے میں وہ سوال کر رہا ہے وہ محقق ہونے میں، یقینی ہونے میں برابر ہوں، فقط اس بات کا اس کو کنفرم ہو کہ یہ یا اس کے لیے ہے یا اس کے لیے۔ کنفرمیشن میں دونوں برابر ہیں لیکن تعیین نہیں ہو رہی کہ وہ آیا یہ حکم اس کے لیے ہے یا اس کے لیے، پھر یہاں استفہام تعیین کے لیے ہوتا ہے۔ تو فرماتے ہیں یہ شرائط ہیں تب جا کر "أَمِ مُتَّصِلَة" کا استعمال صحیح ہوتا ہے۔ پھر آگے انشاءاللہ منقطع کو پڑھتے ہیں۔ فرماتے ہیں "وَأَمْ عَلَى قِسْمَيْنِ"۔ "أَمْ" کی دو قسمیں ہیں: "أَمِ مُتَّصِلَة" اور "أَمِ مُنْفَصِلَة" یا "مُنْقَطِعَة"۔ "أَمِ مُتَّصِلَة" یہ کونسا ہے؟ "هِيَ" یعنی "أَمِ مُتَّصِلَة" وہ حرفِ عطف ہوتا ہے "مَا يُسْأَلُ بِهَا" جس کے ذریعے سوال کیا جاتا ہے "عَنْ تَعْيِينِ أَحَدِ الْأَمْرَيْنِ"۔ دو چیزوں میں سے ایک کو معین کرنے کے لیے کہ ان دو میں سے کونسی ایک معین ہے، ایک کو معین کرنے کے لیے سوال کیا جاتا ہے۔ جبکہ "وَالسَّائِلُ بِهَا" جو سوال کر رہا ہے اس "أَمِ مُتَّصِلَة" کے ذریعے وہ سائل "يَعْلَمُ ثُبُوتَ أَحَدِهِمَا" جانتا ہے کہ یہ حکم ان میں سے کسی ایک کے لیے ثابت تو ہے البتہ "مُبْهَمًا" وہ مبہم ہے یہ نہیں پتہ کہ وہ اس کے لیے ہے یا اس کے لیے "بِخِلَافِ أَوْ" جبکہ "أَوْ" کے ذریعے جب سوال کرتا ہے تو وہ اس بات کو نہیں جانتا ہوتا کہ ایک کے لیے ثابت ہے۔ لہٰذا اس میں اور اس میں فرق ہے۔  "بِخِلَافِ أَوْ" "وَ إِمَّا"۔ "أَوْ" اور "إِمَّا" کے برخلاف، کیوں؟ "فَإِنَّ السَّائِلَ بِهِمَا" چونکہ جب سائل "أَوْ" اور "إِمَّا" کے ذریعے اگر سوال کرتا ہے "لَا يَعْلَمُ ثُبُوتَ أَحَدِهِمَا أَصْلًا" وہ اصلاً اس بات کو نہیں جانتا کہ یہ حکم کسی ایک کے لیے ثابت ہے۔ یعنی "أَمْ" کے ذریعے وہ سوال تب کرتا ہے جب اس کو کنفرم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کے لیے حکم ہے۔ "أَوْ" اور "إِمَّا" کے ذریعے جب سوال کرتا ہے تو اس کو یہ کنفرمیشن نہیں ہوتی کسی ایک کے لیے ثابت ہے۔ 

أَمِ مُتَّصِلَة کا استعمال

فرماتے ہیں: "وَتُسْتَعْمَلُ " استعمال کیا جائے گا "بِثَلَاثَةِ شَرَائِطَ" تین شرائط کے ساتھ یعنی "أَمِ مُتَّصِلَة" کے استعمال میں تین امور شرط ہیں۔ نمبر ایک: "أَنْ يَقَعَ قَبْلَهَا هَمْزَةٌ" کہ اس سے پہلے ہمزہ استفہام ضرور ہو تب "أَمْ" متصلہ صحیح ہے جیسے "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو"۔ یہاں امر متصل کا ہے، اس سے پہلے "اَ" یعنی ہمزہ کا ہونا ضروری ہے، ایک۔ نمبر دو، دوسرا چیز جو شرط ہے اس کے استعمال میں وہ یہ ہے "أَنْ يَلِيَهَا لَفْظٌ" کہ "أَمِ مُتَّصِلَة" کے بعد بھی ویسا لفظ ہو "مِثْلُ مَا يَلِيهِ الْهَمْزَةُ" جیسا لفظ ہمزہ کے بعد تھا۔ یعنی جیسا لفظ ہمزہ کے بعد تھا "أَمِ مُتَّصِلَة" کے بعد بھی ویسا ہی لفظ ہو۔ کیا مطلب؟ فرماتے ہیں مطلب میرا یہ ہے "أَعْنِي" یہ ہے کہ "إِنْ كَانَ بَعْدَ الْهَمْزَةِ اسْمٌ" کہ اگر ہمزہ کے بعد اسم تھا "فَكَذَلِكَ بَعْدَ أَمْ" تو پھر "أَمْ" کے بعد بھی اسم ہونا چاہیے۔ "وَإِنْ كَانَ بَعْدَهَا فِعْلٌ" اور اگر ہمزہ کے بعد فعل تھا تو پھر "أَمْ" کے بعد بھی فعل ہونا چاہیے۔ لہٰذا "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو" چونکہ ہمزہ کے بعد زید اسم تھا ام کے بعد امر بھی اسم آ گیا۔ اور اگر فعل آ جائے پھر ام کے بعد بھی فعل ہو گا لہٰذا اگر یوں ہو "أَقَامَ زَيْدٌ" کہ ہمزہ کے بعد اگر فعل آ گیا قام تو ام کے بعد بھی پھر فعل آنا چاہیے جیسے ہم کہیں گے "أَقَامَ زَيْدٌ أَمْ قَعَدَ"۔ پس "فَلَا يُقَالُ" "أَ رَأَيْتَ زَيْدًا أَمْ عَمْرٌو؟" "أَ رَأَيْتَ زَيْدًا أَمْ عَمْرًا؟" کہنا درست نہیں کیوں؟ اس لیے کہ وہاں پہلے ہمزے کے بعد "رَأَيْتَ" فعل ہے جبکہ "أَمْ" کے بعد "عَمْرٌو" ہے تو اس کا مطلب یہ اسم ہے۔ پس جبکہ یہاں بھی فعل ہونا چاہیے تو یہ "أَمْ"، "أَمْ" متصلہ کہلائے گا۔

"وَالثَّالِثُ"۔ اور "أَمِّ مُتَّصِلَة" کے استعمال کی تیسری شرط یہ ہے "أَنْ يَكُونَ أَحَدُ الْأَمْرَيْنِ الْمُتَسَاوِيَيْنِ مُحَقَّقًا" کہ وہ جو دو امر جن کی تعیین کے بارے یہ سوال کرنا چاہتا ہے وہ محقق ہونے میں دونوں برابر ہوں۔ یعنی ایسا نہیں کہ کسی کو، یعنی اس کے لیے برابر ہوں کہ یہ حکم یا اس کے لیے ہے یا اس کے لیے دونوں تساوی ہے ان کے تحقق میں۔ "إِنَّمَا يَكُونُ الِاسْتِفْهَامُ عَنِ التَّعْيِينِ" اور استفہام کرے فقط تعیین کے لیے کہ آیا وہ اس امر کے لیے ہے یا اس کا ہے۔ پس آپ دیکھتے نہیں "فَلِذَلِكَ" چونکہ وہ محقق ہونے میں دونوں برابر ہوتے ہیں اور جب سوال کیا جاتا ہے تو واجب ہے مجیب کے لیے "أَنْ يَكُونَ جَوَابُ أَمْ" کہ ہمیشہ جوابِ "أَمْ" تعیین کے ذریعے ہو کہ جو مجیب ہے وہ ان دو میں سے ایک کو باقاعدہ معین کرے "نَعَمْ" اور "لَا" کے ذریعے جواب دینا درست نہیں ہے۔ "أَمْ" میں متصلہ جہاں استعمال ہوتا ہے وہاں جو جواب دینے والا ہوتا ہے وہ دو امر میں سے ایک کی تعیین کرتا ہے، فقط نعم یا لا کہنا یہ درست نہیں۔ لہٰذا اگر سوال ہوتا ہے "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو؟" تو جو جواب دینا ہے دینے والا ہے وہ فقط نعم یا لا نہیں کہہ سکتا بلکہ وہ جواب دے گا یا کہے گا زید یا کہے گا امر "بِتَعْيِينِ أَحَدِهِمَا" ایک کو باقاعدہ معین کر کے، یہ ضروری ہے۔ ہاں "أَمَّا إِذَا فُعِلَ بِأَوْ" ہاں البتہ او یا اما سے سوال کرے تو وہاں نعم یا لا کے ذریعے جواب دیا جا سکتا ہے لیکن "أَمِّ مُتَّصِلَة" کے جواب میں نعم یا لا نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان میں سے ایک کو معین کرنا ضروری ہے۔ 

أَمِ مُنْقَطِعَة

"أَمْ" کی دوسری قسم وہ ہے "أَمِ مُنْقَطِعَة"۔ یہ "أَمِ مُنْقَطِعَة" کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں بہت آسان۔ وہ یہ ہے۔ کہ "أَمِ مُنْقَطِعَة" یہ "أَمِ مُنْقَطِعَة" سے مراد یعنی وہ حرف ہے، وہ حرفِ عطف ہے "أَمِ مُنْقَطِعَة" جو بل کے معنی میں آتا ہے "بَلْ مَعَ الْهَمْزَةِ"۔ مثلاً ایک شخص پہلے دور سے دیکھتا ہے کہتا ہے "إِنَّهَا لَإِبِلٌ" یا "إِنَّهَا لَإِبِلٌ" کہ یہ اونٹ آ رہے ہیں کنفرم کرتا ہے۔ پھر اس کو شک ہوتا ہے کہ نہیں یار یہ تو کوئی اور چیز ہے، پھر کہتا ہے "أَمْ هِيَ شَاةٌ؟"۔ یہاں "أَمْ" بمعنی کس کے ہے؟ بل کے ہے کہ نہیں، یہ بکری ہے۔ تو یہاں "أَمْ" ایسے مقام پر جب استعمال ہوتا ہے تو اس "أَمْ" کو "أَمِ مُنْقَطِعَة" کہتے ہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ "مُنْقَطِعَةٌ" "هِيَ مَا تَكُونُ بِمَعْنَى بَلْ"۔ یہ "أَمْ" وہ ہوتا ہے جو بمعنی "بَلْ مَعَ الْهَمْزَةِ" ہمزہ کے ساتھ اس کا ہو "كَمَا رَأَيْتَ شَبَحًا مِنْ بَعِيدٍ"۔ مثلاً آپ دور سے ایک شبح دیکھتے ہیں، ایک شباہت کوئی جسمانی جیسی چیز نظر آتی ہے، کوئی جسم دیکھتے ہیں۔ دور سے آپ کھلتا ہے آپ کہتے ہیں "أَنَّهَا لَإِبِلٌ" کہ یہ اونٹ ہیں "عَلَى سَبِيلِ الْقَطْعِ" اور وہ بھی یقینی طور پر۔ "ثُمَّ حَصَلَ لَكَ شَكٌّ" پھر آپ کو شک ہو جاتا ہے "أَنَّهَا شَاةٌ" کہ وہ بکری ہے "فَقُلْتَ" پھر آپ کہتے ہیں "أَمْ هِيَ شَاةٌ؟"۔ اب جب آپ کہہ رہے ہیں "أَمْ هِيَ شَاةٌ؟" یہاں یا نہیں بلکہ بمعنی بل کے ہے کیوں؟ "تَقْصِدُ الْإِعْرَاضَ عَنِ الْإِخْبَارِ الْأَوَّلِ"۔ آپ اپنی پہلی خبر سے وہ جو آپ نے کہا تھا کہ یہ یقیناً اونٹ ہیں اب آپ اس اپنی پہلی اخبار یعنی خبر دینے سے اعراض کر رہے ہیں۔  "وَالِاسْتِئْنَافَ بِسُؤَالٍ آخَرَ"۔ بلکہ آپ ایک اور سوالیہ انداز میں کہہ رہے ہیں اور آپ کا کہنے کا معنی کیا ہو گا؟ یعنی "أَمْ هِيَ شَاةٌ؟" کا معنی ہے آپ گویا کہ یوں کہہ دیں "بَلْ هِيَ شَاةٌ"۔ آگے ایک جملہ فرماتے ہیں کہ "أَنَّ أَمَ الْمُنْقَطِعَة" کہ یہ جو "أَمِ مُنْقَطِعَة" ہوتا ہے "لَا تُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي الْخَبَرِ" یا یہ خبر میں استعمال ہوتا ہے جیسے ابھی ہم نے کہا کہ اس نے کہا کہ او، یہ خبر دے رہا ہے نا کہ "أَمْ هِيَ شَاةٌ؟" یعنی "أَمْ" بمعنی "بَلْ" کے ہے۔  اور  استفهام میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں "أَعِنْدَكَ زَيْدٌ أَمْ عَمْرٌو؟" "سَأَلْتَ أَوَّلًا عَنْ حُصُولِ أَحَدٍ" پہلے آپ نے اس سے سوال کیا ہے زید کے بارے میں، کہ تیرے پاس زید ہے؟ "ثُمَّ أَضْرَبْتَ" پھر آپ اپنے اس سوالِ اول سے ہٹ گئے اور نیا سوال کر دیا کہ جب آپ نے کہا "أَمْ عَمْرٌو؟" گویا پھر آپ پوچھنا چاہتے ہیں کیا تیرے پاس امر ہے؟ تو بہرحال یہ "أَمِ مُنْقَطِعَة" ایک تو خبر میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا استفہام میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ تو ہو گیا یہاں پر۔

4

لَا، بَلْ اور لَكِنْ کی بحث

 لَا، بَلْ اور لَكِنْ

اب آگے تھوڑے سے رہ   گئے دو تین وہ کونسے ہیں؟ وہ ہیں غالباً "لَا"، "بَلْ" اور "لَكِنْ"۔ یہ تین، یہ بھی حروفِ عاطفہ میں شمار ہوتے ہیں "لَا"، "بَلْ" اور "لَكِنْ"،   "جَمِيعُهَا لِثُبُوتِ الْحُكْمِ لِأَحَدِ الْأَمْرَيْنِ مُعَيَّنًا"۔ لا کے ذریعے، بل کے ذریعے اور لکن ان تینوں کے ذریعے حکم کو دو میں سے کسی ایک معین کے لیے ثابت کیا جاتا ہے۔ یعنی بل کے ذریعے دو میں سے جو ایک ہو گا اس کے لیے اس حکم کو ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ حکم فقط اسی کے لیے ہے۔ یا یوں کہوں کہ لا، بل اور لکن کے ذریعے حکم کو معطوف کے لیے معین کر دیا جاتا ہے کہ یہ حکم بس اسی معطوف کے لیے ہے معطوف علیہ کے لیے نہیں، یوں بھی کہہ سکتے ہیں۔ "لِثُبُوتِ الْحُكْمِ لِأَحَدِ الْأَمْرَيْنِ" امر دو تھے نا ایک معطوف تھا ایک معطوف علیہ تو لا، بل اور لکن کے ذریعے حکم کو ایک کے لیے معین کیا جاتا ہے۔

لَا

یہ جو لا ہے "لِنَفْيِ مَا وَجَبَ لِلْأَوَّلِ" یہ جو لا ہے، یہ لا کس لیے آتا ہے؟ فرماتے ہیں لا یہ آتا ہے جو حکم معطوف علیہ کے لیے ثابت ہوتا ہے اس کی معطوف سے نفی کے لیے آتا ہے۔  یعنی معطوف سے اس حکم کی نفی ہو گئی تو وہ معطوف علیہ کے لیے خود بخود ثابت ہو جاتا ہے۔ بہت توجہ۔ "لِنَفْيِ مَا وَجَبَ" یعنی جو حکم اول، اول سے مراد ہوتا ہے معطوف علیہ، کہ جو حکم معطوف علیہ کے لیے ثابت تھا یہ معطوف سے اس کی نفی کرتا ہے "وَالْإِثْبَاتُ" اثبات کیا؟ کہ جب معطوف سے نفی ہو جائے گی تو خود بخود وہ حکم معطوف علیہ کے لیے ثابت ہو جائے گا۔ جیسے "جَائَنِي زَيْدٌ لَا عَمْرٌو"۔ یہ لا امر کہہ کے کہہ رہا ہے کہ وہ جو آنے والا حکم تھا وہ امر کے لیے نہیں، نہیں تو اس کا مطلب ہے زید کے لیے ہے کہ میرے پاس آیا زید نہ کہ امر۔ یعنی امر سے نفی ہو گئی اس کی کہ جو حکم زید کے لیے، معطوف علیہ کے لیے تھا، معطوف سے ہو گئی اور معطوف علیہ کے لیے خود جب معطوف سے حکم کی نفی ہو گئی، معطوف علیہ کے لیے وہ ثابت ہو گیا۔ 

بَلْ

"بَلْ لِلْإِضْرَابِ عَنِ الْأَوَّلِ وَالْإِثْبَاتِ لِلثَّانِي"۔ بل کے ذریعے کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں: بل ہوتا ہے پہلے معنی سے اضراب یعنی وہ یہ کہتا ہے کہ یہ حکم معطوف علیہ کے لیے نہیں بلکہ معطوف کے لیے ہے۔ اول سے مراد ہو گا معطوف علیہ اور ثانی سے مراد ہے معطوف۔ یعنی بل کے ذریعے انسان اضراب کرتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی وہ اعراض کرتا ہے کہ یہ حکم اس کے لیے نہیں بلکہ دوسرے کے لیے ہے جیسے بندہ کہے "جَائَنِي زَيْدٌ" پھر کہتا ہے "بَلْ عَمْرٌو" تو بل کے ذریعے درحقیقت کہہ رہا ہے کہ "جَائَنِي" یعنی آنے والا حکم امر کے لیے ہے زید کے لیے نہیں۔ زید سے اس پہلے اس نے کہا ہے "جَائَنِي" میرے پاس زید آیا پھر بل کے ذریعے اعراض کرتا ہے کیا؟ نہیں نہیں زید نہیں بلکہ امر آیا۔ "نَحْوُ جَائَنِي زَيْدٌ بَلْ عَمْرٌو" یعنی معنی کیا ہے؟ یعنی "جَائَنِي عَمْرٌو"۔ "مَا جَاءَنِي بَكْرٌ بَلْ خَالِدٌ"۔ میرے پاس نہیں آیا بکر پھر کہتا ہے بلکہ خالد کیا مطلب؟ یعنی خالد نہیں آیا مراد کیا ہے کہ وہی حکم دوسرے کے لیے ثابت کرتا ہے۔

لَكِنْ

تیسرا "وَلَكِنْ لِلِاسْتِدْرَاكِ"۔ "لَكِنْ" یہ آتا ہے لکن استدراک کے لیے۔ استدراک کیا؟ کہ بندہ پہلے ایک بات کرتا ہے، اس کو اس میں اشتباہ ہو جاتا ہے، ابہام ہوتا ہے پھر اس کو دور کرنے کے لیے لکن کا استعمال کرتا ہے۔  لیکن فرماتے ہیں یہ لکن استدراک کے لیے وہاں آئے گا کہ اس سے پہلے حرفِ نفی موجود ہو کہ پہلے نفی کی گئی ہو پھر لکن کے ذریعے کسی چیز کا اثبات کیا گیا ہو تو لکن وہاں استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں "لَكِنْ لِلِاسْتِدْرَاكِ" استدراک یعنی تدارک کرنا، سابقہ اشتباہ کا یا ابہام کا تدارک کرنا۔ "يَلْزَمُهَا النَّفْيُ" لیکن اس کے استعمال میں ضروری ہے "يَلْزَمُهَا النَّفْيُ قَبْلَهَا" کہ اس سے پہلے حرفِ نفی کا استعمال کیا گیا ہو، لکن وہاں آئے گا۔ جیسے ہم کہتے ہیں "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ" ما نافیہ کا استعمال ہے۔ میرے پاس نہیں آیا زید، پھر آپ بعد میں کیا کہتے ہیں؟ پھر کہتے ہیں "لَكِنْ عَمْرٌو جَاءَ"۔ لیکن امر آیا ہے۔ جب آپ نے کہا "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ" میرے پاس زید نہیں آیا تو اس سے ایک شبہ پیدا ہو جاتا ہے، ایک استباہ ابہام ہوتا ہے کہ شاید کوئی بھی نہیں آیا تو آپ اس کا تدارک کرتے ہیں کیا؟ کہتے ہیں کہ "لَكِنْ عَمْرٌو جَاءَ" لیکن امر آیا ہے۔"أَوْ بَعْدَهَا" یا اگر حرفِ نفی پہلے نہیں تو پھر اگر حرفِ نفی لکن کے بعد آ جائے پھر بھی فرماتے ہیں کوئی حرج نہیں جیسے اگر کہیں "قَامَ بَكْرٌ" پھر آپ کہتے ہیں "لَكِنْ خَالِدٌ لَمْ يَقُمْ"۔ اب یہ لم نافیہ او حرفِ نفی لم آ گیا ہے لکن کے بعد۔ تو پس لکن جو حروفِ عاطفہ میں سے ہے یہ استدراک کے لیے آتا ہے لیکن لازم ہے کہ اس سے پہلے حرفِ نفی ہو یا اس کے بعد حرفِ نفی ہو۔

  وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ

وشذّ الجرّ بها نحو : لَعَلَّ زَيْدٍ قائِمٌ ، وفي لَعَلَّ لغات : عَلَّ ، وَعنَّ ، وأنَّ ، ولَأنَّ ، ولَعَنَّ. وعند المبرّد اصله عَلَّ زيد فيه اللام والبواقي فروع.

فصل : حروف العطف

وهي عشرة : «الواو ، والفاء ، وثُمَّ ، وحَتّى ، وأوْ ، وإمّا ، وأمْ ، ولا ، وبَلْ ، ولكِن». فالأربعة الأُول للجمع.

فالواو : للجمع مطلقاً نحو : جاءَ زَيْدٌ وَعَمْروٌ ، سواء كان زيدٌ مقدّماً في المجيء أم عمرو.

والفاء : للترتيب بلا مهلة نحو : قامَ زَيْدٌ فَعَمْروٌ ، إذا كان زيدٌ مقدّماً بلا مهلة.

وثُمَّ : للترتيب بمهلة نحو : دَخَلَ زَيْدٌ ثُمَّ خالِدٌ ، إذا كان زيدٌ مقدّماً بالدخول وبينهما مهلة.

وحَتّى : كثُمَّ في الترتيب والمهلة إلّا أنّ مهلتها أقلّ من مهلة ثُمَّ ، ويشترط أن يكون معطوفها داخلاً في المعطوف عليه ، وهي تفيد قوّة نحو : ماتَ الناسُ حَتَّى الْأنْبياءُ ، أو ضعفاً فيه نحو : قَدِمَ الْحاجُّ حَتَّى المُشاةِ.

و «أوْ» و «إمّا» و «أمْ» ، هذه الثلاثة لثبوت الحكم لأحد الأمرين لا بعينه نحو : مَرَرْتُ بِرَجُلٍ أوْ امرأةٍ.

و «إمّا» : إنّما يكون حرف العطف إذا كان تقدّم عليها «إمّا» اُخرى نحو : الْعَدَدُ إمّا زَوْجُ وَإمّا فَرْدٌ. ويجوز أن يتقدّم إمّا على أوْ نحو : زَيْدٌ إمّا كاتِبٌ أو لَيْسَ بِكاتِب.

____________________________

خداوند روزى كند مرا صلاح را. شاهد در لعلّ است كه از براى ترجّى است و نصب داده است الله را بنابر اينكه اسم باشد از براى او و جمله يرزقنى صلاحاً در محلّ رفع است وخبر است از براى او. (جامع الشواهد).

و «أمْ» على قسمين : متّصلة وهي ما يسأل بها عن تعيين أحد الأمرين والسائل عالم بثبوت أحدهما مبهماً ، بخلاف أوْ وإمّا فإنّ السائل بهما لا يعلم بثبوت أحدهما أصلاً. ويستعمل بثلاثة شرائط :

الأوّل أن يقع قبلها همزة نحو : أزَيْدٌ عِنْدَكَ أمْ عَمْروٌ ؟

والثاني : أن يليها لفظ مثل ما يلي الهمزة. أعني إن كان بعد الهمزة اسم فكذلك بعد أمْ كما مرّ ، وإن كان فعل فكذلك نحو : أقامَ زَيْدٌ أمْ قَعَدَ عَمْروٌ ، فلا يقال : أرَأَيْتَ زَيْداً أمْ عَمْراً ؟

الثالث : أن يكون ثبوت أحد الأمرين المتقاربين محقّقاً ، وإنّما يكون الاستفهام عن التعيين فلذلك وجب أن يكون جواب أمْ بتعيين دون نَعَمْ أو لا ، فإذا قيل أزَيْدٌ عِنْدَك أمْ عَمْروٌ ؟ فجوابه بتعيين أحدهما. أمّا إذا سئل بأوْ وإمّا فجوابه نَعَمْ أو لا.

ومنقطعة : وهي ما يكون بمعنى «بَلْ» مع الهمزة كما لو رأيتَ شبحاً من بعيد وقلت إنّها لَإبِلٌ على سبيل القطع ، ثمّ حصل الشكّ إنّها شاة فقلت أم هي شاة ، وتقصد الإعراض عن الإخبار الأوّل واستئناف سؤال آخر معناه بل أهي شاة.

واعلم أنّ «أمْ» المنقطعة لا تستعمل إلّا في الخبر كما مرّ وفي الاستفهام نحو : أعِنْدَك زَيْدٌ أمْ عندك عَمْروٌ ؟

و «لا» و «بَلْ» و «لكِنْ» جميعاً لثبوت الحكم لأحد الأمرين معيّناً.

أمّا «لا» فتنفي ما وجب للأوّل عن الثاني نحو : جاءني زَيْدٌ لا عَمْروٌ.

و «بل» للإضراب عن الأوّل نحو : جاءني زَيْدٌ بَلْ عَمْروٌ ، ومعناه بل جاء عمروٌ. و «لكنْ» للاستدراك نحو : قامَ بَكْرٌ لكِنْ خالِدٌ لَمْ يَقُمْ.

* * *

فصل : حروف التنبيه

ثلاثة : «ألا ، وأما وها» ، وضعت لتنبيه المخاطب لئلّا يفوته شيء من الحكم.

«فألا وأما» لا تدخلان إلّا على الجملة ، اسميّة كانت نحو قوله تعالى : «أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ» (١) ، وكقوله :

أما وَالَّذي أبْكىٰ وَأضْحَكَ وَالَّذي

أماتَ وأَحيىٰ وَالَّذي أمْرُهُ الْأمْرُ (٢)

أو فعليّة نحو : ألا لا تَفْعَلْ ، وأما لا تَضْربْ.

الثالث : ها ، تدخل على الجملة نحو : ها زَيْدٌ قائِمٌ ، والمفرد نحو : هذا وَهؤُلاءِ.

فصل : حروف النداء

حروف النداء خمسة : «يا ، وأيا ، وهَيا ، وأي ، والْهَمْزَةُ المفتوحة للقريب» ، وأيا وهَيا للبعيد ، ويا لهما وللمتوسّط ، وقد مرّ احكامها.

فصل : حروف الإيجاب

ستّة : «نَعَمْ ، وبَلْ ، وإيْ ، وأجَلْ ، وجَيْرِ ، وإنَّ».

____________________________

(١) البقرة : ١٢.

(٢) يعنى : آگاه باش قسم به آنچنان كسى كه گريانيده است و خندانيده است خلايق را و قسم به آنچنان كسى كه ميرانيده و زنده گردانيده است خلايق را و قسم به آنچنان كسى كه حكم او ثابت و محقق است و لا محاله جارى خواهد شد. شاهد در اما استفتاحيّه است كه بمعنى الا است و از براى تنبيه است و واقع شده است پيش از واو قسم و داخل شده است بر جمله اسميّة. (جامع الشواهد).