درس الهدایة في النحو

درس نمبر 59: حروف عاطفہ

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل : حروف العطف

"فَصْلٌ حُرُوفُ الْعَطْفِ عَشَرَةٌ"

 قسمِ سوم حرف، ہمارا موضوعِ بحث تھا۔ مختلف حروف کو ہم ذکر کر رہے تھے کہ کونسے حروف کس معنی کے لیے آتے ہیں، کونسا حرف کیا کام کرتا ہے۔ ان حروف میں ہے کچھ حروف ہیں جن کو کہا جاتا ہے حروفِ عطف۔ عطف کا میرے جان لفظی معنی، لغوی معنی ہوتا ہے مائل ہونا۔ چونکہ ان حروف کے بعد والا اسم ان سے پہلے والے اسم کی طرف میلان رکھتا ہے حکم میں یا جو بھی ہوتا ہے، ٹھیک ہے جی۔ بعد والے کو معطوف کہتے ہیں اور ان سے پہلے والے کو معطوف علیہ کہتے ہیں۔ چونکہ معطوف، معطوف علیہ کی طرف میلان رکھتا ہے اس لیے ان کو کہا جاتا ہے ان کی وجہ سے تو ان کو کہا جاتا ہے حروفِ عاطفہ۔ حروفِ عطف دس ہیں۔ ہر ایک کی وضاحت کر رہے ہیں کہ کونسا حرف کس معنی میں استعمال ہوتا ہے، کونسا حرف کیا معنی دیتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ جو حروفِ عطف دس ہیں ان دس کا مطلب یہ نہیں کہ جو جس حرف کو آپ جہاں چاہیں استعمال کر دیں، نہ ایسا نہیں ہے، ہر حرف کا اپنا ایک معنی ہے اور اس کے استعمال کی اپنی ایک خاص جگہ ہے جہاں وہ استعمال ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں: "حُرُوفُ الْعَطْفِ عَشَرَةٌ" حروفِ عطف دس ہیں۔ کونسے؟ واو ایک، فا دو، ثم تین، حتی چار، او پانچ، اما چھ، ام سات، لا آٹھ، بل نو، لكن دس۔ "لَكِنْ"۔ یہ ہو گئے دس "لَكِنْ" ان کو کہتے ہیں حروفِ عاطفہ۔

وَاو، فَاء، ثُمَّ اور حَتَّى

اب ذرا غور کرنا ہے۔ "فَالْأَرْبَعَةُ الْأُوَلُ"۔ جو پہلے چار ہیں، پہلے چار کونسے ہیں؟  وَاو، فَاء، ثُمَّ اور حَتَّى،  یہ آتے ہیں جمع کے لیے۔ یعنی حکم میں معطوف اور معطوف علیہ کو جمع کرتے ہیں کہ جو حکم معطوف کا ہے وہی معطوف جو حکم معطوف علیہ کا ہے وہی حکم معطوف کا ہے۔ یہ دونوں کو اس حکم میں، ایک حکم میں جمع کرتے ہیں۔ لیکن اس جمع میں پھر فرق ہے۔ پھر فرق کیا؟ وہ یہ ہے۔ "فَالْوَاوُ لِلْجَمْعِ مُطْلَقًا"۔ واو آتی ہے مطلق جمع کے لیے، کیا؟ کہ جب بھی معطوف اور معطوف علیہ کا حکم ایک ہو بس، اب وہ اکٹھے آئے ہیں، وہ اکٹھے نہیں ہوئے، اب تھوڑا مثال سمجھ لیں پھر مطلقاً کا معنی واضح ہو جائے گا۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے "جَائَنِي زَيْدٌ وَعَمْرٌو" میرے پاس آیا زید اور امر۔ اب وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ آتے ہیں جمع کے لیے مطلقاً۔ پہلے زید آیا بعد میں امر آیا، پہلے امر آیا بعد میں زید آیا، دونوں اکٹھے آئے یا ان کے درمیان فاصلہ تھا، واو ان چیزوں، واو کہتی ہے کہ میرے پاس یہ دونوں آئے، کون پہلے، کون بعد میں، اس چیز کو اس نے بیان نہیں کرنا، اس کو کہتے ہیں "لِلْجَمْعِ مُطْلَقًا"۔"سَوَاءٌ كَانَ زَيْدٌ مُقَدَّمًا فِي الْمَجِيءِ" چاہے زید آنے میں مقدم تھا یا امر تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس نے یہ بتانا ہے کہ بھئی یہ دو بندے میرے پاس آئے، پہلے کون آیا، بعد میں کون آیا، اس سے کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ ہو گیا اس کو کہتے ہیں "لِلْجَمْعِ"۔ واو یہ بتاتی ہے کہ دونوں میرے پاس آئے تھے، یہ جمع ہو گئی کہ حکمِ مجیء میں یعنی دونوں کو اس واو نے جمع کیا ہے کیا؟ کہ جو حکم معطوف علیہ زید کا ہے وہی امر کا ہے کیا؟ کونسا؟ آنے والا۔ 

 فَاء

"وَالْفَاءُ"۔ فا بھی جمع کرتی ہے معطوف، معطوف کے درمیان، لیکن "وَالْفَاءُ لِلتَّرْتِيبِ" فا صرف جمع نہیں کرتی کہ جو حکم معطوف علیہ کا ہے وہی معطوف کا ہے بلکہ یہ فا کے ساتھ اگر معطوف علیہ کو بیان کیا جائے گا تو یہ وہاں ہو گا جہاں ترتیب ہو گی کہ پہلے کون، بعد میں کون اور وہ بھی "بِلَا مُهْلَةٍ" یعنی ان کے درمیان فاصلہ بھی نہ ہو۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "قَامَ زَيْدٌ فَعَمْرٌو"۔ بہت توجہ واو نہیں بلکہ یہاں فا، "فَعَمْرٌو" تو فرماتے ہیں یہ اس وقت فا کا استعمال درست ہو گا توجہ، "إِذَا كَانَ زَيْدٌ مُقَدَّمًا" کہ جب زید پہلے اور "عَمْرٌو مُتَأَخِّرًا" اور امر ہو گا بعد میں وہ بھی "بِلَا مُهْلَةٍ" اور ان کے درمیان فاصلہ بھی نہ ہو گا وہاں فا کا استعمال درست ہے۔ اب ہم کہتے ہیں "قَامَ زَيْدٌ"، کھڑا ہوا زید "فَعَمْرٌو"۔ اب اس کا ترجمہ کیا ہو گا؟ کہ اس کے بعد امر کھڑا ہوا بلا فاصلہ۔ پہلے وہ جب کھڑا ہو گیا تو اس کا مطلب ہے کہ زید پہلے کھڑا ہوا امر بعد میں اور یہ بھی اس میں موجود ہے کہ امر کا زید کے بعد کھڑا ہونا بلا مہلہ بغیر فاصلہ ذاب جب وہ کھڑا ہوا ساتھ یہ بھی کھڑا ہو گیا۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ تو فا بھی جمع کا معنی دیتی ہے لیکن فا میں ترتیب کہ پہلے کون، بعد میں کون، البتہ درمیان میں جہاں فاصلہ نہ ہو۔

ثُمَّ

"ثُمَّ" فرماتے ہیں یہ "ثُمَّ" بھی جمع کا معنی دیتا ہے، ترتیب کے لیے بھی آتا ہے لیکن یہ وہاں آتا ہے "بِمُهْلَةٍ" جب معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان کچھ فاصلہ ہو، کچھ مہلت ہو جیسے ہم کہتے ہیں "دَخَلَ زَيْدٌ ثُمَّ عَمْرٌو" پھر امر۔ اب ثم کا استعمال کہاں کریں گے؟ یہ وہاں کریں گے کہ جب یہ ہو کہ زید پہلے آیا ہو اور امر بعد میں، یہ ہو گئی ترتیب اور زید کے بعد امر کے آنے میں تھوڑا فاصلہ بھی ہو، مہلت بھی ہو۔ اب گویا فا اور ثم میں یہ فرق ہو گیا کہ فا وہاں بھی ترتیب کے لیے، ثم بھی ترتیب کے لیے لیکن فا میں ترتیب ہے "بِلَا مُهْلَةٍ" اور ثم میں ترتیب ہے "بِمُهْلَةٍ" کہ درمیان میں فاصلہ ہو تو اس کے کوئی دیر بعد مثلاً امر آ گیا۔ "إِذَا كَانَ زَيْدٌ مُقَدَّمًا" کہ اگر زید پہلے آیا ہو "وَبَيْنَهُمَا مُهْلَةٌ" اور ان کے درمیان تھوڑا فاصلہ بھی ہو۔

حَتَّى

چوتھا حرف جو جمع کے لیے آتا ہے وہ ہے "حَتَّى"۔ "حَتَّى" بھی جمع کے لیے آتا ہے۔ فرماتے ہیں "حَتَّى كَثُمَّ" حتی مثل ثم کے ہے۔ حتی میں ترتیب بھی ہے، حتی میں مہلت بھی ہے، فاصلہ بھی ہے لیکن پھر فرق کیا ہے؟ فرق اور ہے۔ کہ "أَنَّ مُهْلَتَهَا أَقَلُّ مِنْ مُهْلَةِ ثُمَّ" کہ جتنا فاصلہ ثم کے معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان ہوتا ہے اس حتی کے معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان وہ مہلت کم ہوتی ہے، وہ وقفہ کم ہوتا ہے۔ مثال تھوڑی جو ہے نا کہ مثلاً اگر ثم میں وقفہ گھنٹے کا ہے تو حتی میں وقفہ آدھے گھنٹے کا ہو گا۔ یعنی وقفہ ہے لیکن اس کی نسبت کم۔

حَتَّى کی شرط

آگے فرماتے ہیں:  "وَيُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ مَعْطُوفُهَا دَاخِلًا فِي الْمَعْطُوفِ عَلَيْهِ"۔ حتی میں شرط یہ ہے، حتی کے ذریعے آپ عطف تب کر سکتے ہیں کہ معطوف، معطوف علیہ میں داخل ہو۔ حتی کے ذریعے عطف کرنے کا، کے لیے شرط کیا ہے؟ حتی کے ذریعے عطف کرنے کی شرط یہ ہے کہ اس کا معطوف، معطوف علیہ میں داخل ہو۔ پھر یہاں سوالِ مقدر آ جائے گا جناب اگر معطوف، معطوف علیہ میں داخل ہے پہلے سے تو پھر حتی کے ذریعے اس کو معطوف بنانے کا فائدہ؟ جواب، فرماتے ہیں فائدہ ہے۔ کبھی یہ قوت کا فائدہ دیتا ہے اور کبھی یہ ضعف کا فائدہ دیتا ہے۔ بڑی پیاری مثال دی ہے۔ فرماتے ہیں کیسے؟ کہ پہلے تو یہ کہا نا کہ "يُشْتَرَطُ" کہ حتی کے ذریعے عطف کرنے میں شرط کیا ہے؟ کہ "أَنْ يَكُونَ مَعْطُوفُهَا" کہ حتی کا معطوف معطوف علیہ میں داخل ہو۔ پھر سوال ہو گا جناب اگر اس کا معطوف معطوف علیہ میں پہلے سے داخل ہے تو عطف کی ضرورت کیا ہے؟ جواب یہاں سے ہو گا۔ فرماتے ہیں "هِيَ تُفِيدُ" حتی کے ذریعے اگر ہم عطف کریں گے یعنی معطوف علیہ میں داخل ایک چیز کو حتی کے ذریعے معطوف بنا کر اگر ہم بعد میں اس کو ذکر کریں گے تو اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ فرماتے ہیں: اس کا فائدہ ہے "هِيَ تُفِيدُ قُوَّةً فِي الْمَعْطُوفِ" اس سے معطوف میں طاقت آ جاتی ہے۔ "تُفِيدُ قُوَّةً"  اس سے قوت آ جاتی ہے جیسے "مَاتَ النَّاسُ" مر گئے لوگ، آگے ہے "حَتَّى الْأَنْبِيَاءُ"۔ حالانکہ انبیاء ناس میں شامل تھے، انبیاء میں شامل تھے لیکن حتی کے ذریعے عطف کر کے اس کو طاقت دی گئی ہے کہ جب انبیاء نہ رہے تو پھر کون، جب احمدِ مرسل نہ رہے پھر کون رہے گا۔ یا فرماتے ہیں یہ چونکہ اس میں انبیاء معطوف ہیں، یہ "يُفِيدُ قُوَّةً" ہے، اس کے آنے سے طاقت ہو گئی۔ یا یہ مفید ہو گا اور ضعفاً جیسے "قَدِمَ الْحَاجُّ" حاجی واپس آ گئے "حَتَّى الْمُشَاةُ" حتی کہ پیدل چلنے والے۔ اب ظاہر ہے مشات یہ بیچارے ضعیف ہیں، یہ کمزور ہوتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے جب  پیدل چلنے والے ہی پہنچ گئے ہیں تو پھر باقی پیچھے کون رہا ہو گا؟  یہ فائدہ ہے۔

4

«أوْ» و «إمّا» و «أمْ»

أَوْ، إِمَّا اور أَمْ

اس کے بعد ا   گلے حروف وہ کو نسے ہیں؟ وہ ہیں۔ "أَوْ" "وَ إِمَّا" "وَ أَمْ"۔ تین: "أَوْ"، "إِمَّا" و "أَمْ"۔ یہ تین ہو گئے۔ فرماتے ہیں یہ تین حروف، واو، اما اور ام یہ تینوں کے تینوں کس کے لیے آتے ہیں؟ واو، اما، ام۔ "ثَلَاثَتُهَا" یہ تینوں آتے ہیں کس کے لیے؟ "لِثُبُوتِ الْحُكْمِ لِأَحَدِ الْأَمْرَيْنِ مُبْهَمًا لَا بِعَيْنِهِ"۔ یہ تین کیا کرتے ہیں؟ ان کا عمل کیا ہے؟ بہت توجہ کے ساتھ۔ فرماتے ہیں : یہ آتے ہیں کہ دو امر تھے مبہم، ان میں سے ایک کے لیے حکم کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ حکم یا اس کے لیے ہے یا اس کے لیے ہے۔ "لَا بِعَيْنِهِ" یعنی کسی ایک کے  لیۓ معین  نہیں ہوتا۔ حکم مبہم ہوتا ہے لیکن معین نہیں ہوتا۔ مثال بڑی پیاری مثلاً "مَرَرْتُ بِرَجُلٍ" میں گزرا ایک مرد یا ایک عورت سے۔ اب گزرنے کا حکم تو ہے یا مرد یا عورت لیکن کسی ایک معین کے ساتھ کہ میں فقط عورت سے یا فقط مرد سے کے پاس سے گزرا، نہ ایسا نہیں ہے۔ پھر آگے ان کی تھوڑی وضاحت بھی ہے وہ بھی گزارش کرتا ہوں۔ مثلاً وہ فرماتے ہیں واو ، اما ،ام واو، اما اور ام یہ تینوں آتے ہیں "لِثُبُوتِ الْحُكْمِ" تاکہ حکم کو ثابت کریں "لِأَحَدِ الْأَمْرَيْنِ" دو میں سے کسی ایک کے لیے وہ بھی مبہم "لَا بِعَيْنِهِ" مشخص معین نہ کہ یہ فقط اس کے لیے یا فقط اس کے لیے جیسے شخص کہتا ہے "مَرَرْتُ بِرَجُلٍ" میں گزرا مرد کے قریب سے "أَوِ امْرَأَةٍ"۔ اب حکم تو ہے گزرنے کا لیکن ہے ایک کے ساتھ یا رجل یا مرأۃ لیکن ہے مبہم ان میں سے کون تھا "لَا بِعَيْنِهِ" کسی ایک کے ساتھ معین نہیں تھا۔

وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ 

وشذّ الجرّ بها نحو : لَعَلَّ زَيْدٍ قائِمٌ ، وفي لَعَلَّ لغات : عَلَّ ، وَعنَّ ، وأنَّ ، ولَأنَّ ، ولَعَنَّ. وعند المبرّد اصله عَلَّ زيد فيه اللام والبواقي فروع.

فصل : حروف العطف

وهي عشرة : «الواو ، والفاء ، وثُمَّ ، وحَتّى ، وأوْ ، وإمّا ، وأمْ ، ولا ، وبَلْ ، ولكِن». فالأربعة الأُول للجمع.

فالواو : للجمع مطلقاً نحو : جاءَ زَيْدٌ وَعَمْروٌ ، سواء كان زيدٌ مقدّماً في المجيء أم عمرو.

والفاء : للترتيب بلا مهلة نحو : قامَ زَيْدٌ فَعَمْروٌ ، إذا كان زيدٌ مقدّماً بلا مهلة.

وثُمَّ : للترتيب بمهلة نحو : دَخَلَ زَيْدٌ ثُمَّ خالِدٌ ، إذا كان زيدٌ مقدّماً بالدخول وبينهما مهلة.

وحَتّى : كثُمَّ في الترتيب والمهلة إلّا أنّ مهلتها أقلّ من مهلة ثُمَّ ، ويشترط أن يكون معطوفها داخلاً في المعطوف عليه ، وهي تفيد قوّة نحو : ماتَ الناسُ حَتَّى الْأنْبياءُ ، أو ضعفاً فيه نحو : قَدِمَ الْحاجُّ حَتَّى المُشاةِ.

و «أوْ» و «إمّا» و «أمْ» ، هذه الثلاثة لثبوت الحكم لأحد الأمرين لا بعينه نحو : مَرَرْتُ بِرَجُلٍ أوْ امرأةٍ.

و «إمّا» : إنّما يكون حرف العطف إذا كان تقدّم عليها «إمّا» اُخرى نحو : الْعَدَدُ إمّا زَوْجُ وَإمّا فَرْدٌ. ويجوز أن يتقدّم إمّا على أوْ نحو : زَيْدٌ إمّا كاتِبٌ أو لَيْسَ بِكاتِب.

____________________________

خداوند روزى كند مرا صلاح را. شاهد در لعلّ است كه از براى ترجّى است و نصب داده است الله را بنابر اينكه اسم باشد از براى او و جمله يرزقنى صلاحاً در محلّ رفع است وخبر است از براى او. (جامع الشواهد).

و «أمْ» على قسمين : متّصلة وهي ما يسأل بها عن تعيين أحد الأمرين والسائل عالم بثبوت أحدهما مبهماً ، بخلاف أوْ وإمّا فإنّ السائل بهما لا يعلم بثبوت أحدهما أصلاً. ويستعمل بثلاثة شرائط :

الأوّل أن يقع قبلها همزة نحو : أزَيْدٌ عِنْدَكَ أمْ عَمْروٌ ؟

والثاني : أن يليها لفظ مثل ما يلي الهمزة. أعني إن كان بعد الهمزة اسم فكذلك بعد أمْ كما مرّ ، وإن كان فعل فكذلك نحو : أقامَ زَيْدٌ أمْ قَعَدَ عَمْروٌ ، فلا يقال : أرَأَيْتَ زَيْداً أمْ عَمْراً ؟

الثالث : أن يكون ثبوت أحد الأمرين المتقاربين محقّقاً ، وإنّما يكون الاستفهام عن التعيين فلذلك وجب أن يكون جواب أمْ بتعيين دون نَعَمْ أو لا ، فإذا قيل أزَيْدٌ عِنْدَك أمْ عَمْروٌ ؟ فجوابه بتعيين أحدهما. أمّا إذا سئل بأوْ وإمّا فجوابه نَعَمْ أو لا.

ومنقطعة : وهي ما يكون بمعنى «بَلْ» مع الهمزة كما لو رأيتَ شبحاً من بعيد وقلت إنّها لَإبِلٌ على سبيل القطع ، ثمّ حصل الشكّ إنّها شاة فقلت أم هي شاة ، وتقصد الإعراض عن الإخبار الأوّل واستئناف سؤال آخر معناه بل أهي شاة.

واعلم أنّ «أمْ» المنقطعة لا تستعمل إلّا في الخبر كما مرّ وفي الاستفهام نحو : أعِنْدَك زَيْدٌ أمْ عندك عَمْروٌ ؟

و «لا» و «بَلْ» و «لكِنْ» جميعاً لثبوت الحكم لأحد الأمرين معيّناً.

أمّا «لا» فتنفي ما وجب للأوّل عن الثاني نحو : جاءني زَيْدٌ لا عَمْروٌ.

و «بل» للإضراب عن الأوّل نحو : جاءني زَيْدٌ بَلْ عَمْروٌ ، ومعناه بل جاء عمروٌ. و «لكنْ» للاستدراك نحو : قامَ بَكْرٌ لكِنْ خالِدٌ لَمْ يَقُمْ.

* * *