درس الهدایة في النحو

درس نمبر 61: حروف تنبیہ،نداء اور ایجاب

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف التنبيه

"فَصْلٌ حُرُوفُ التَّنْبِيهِ ثَلَاثَةٌ أَلَا وَأَمَا وَهَا" 

 تنبیہ یعنی کسی کو متنبہ کرنا، اردو میں بھی چلتا ہے میں نے اس کو بڑی تنبیہ کی ہے، متوجہ کیا ہے، متنبہ کیا ہے۔ یعنی تنبیہ کی جاتی ہے تاکہ اگلے بندے سے کسی قسم کی غفلت نہ ہو، اس کو غفلت سے بچانے کے لیے تاکہ جو بات جب ہم کسی سامنے والے کو متوجہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ تاکہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ ساری اس بندے کو سمجھ آ جائے کوئی بات اس سے رہ نہ جائے۔ اس لیے ان کو کہا جاتا ہے۔ تو اس کے لیے عرب میں تین حروف استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے ہم اردو میں نہیں کہتے او بھائی جان میری بات سنیں ٹھیک ہے جی۔ بھائی جان او،  اس قسم کے الفاظ۔ عرب والے "أَلَا"، "أَمَا" اور "هَا" ان تین حروف کے ذریعے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں اس لیے کہ متکلم تاکہ جو بات کر رہا ہے وہ بات اس سے زائد نہ ہو جائے، وہ بات اس تک پوری پہنچ جائے۔ بالکل آسان سی بحث ہے کوئی اس میں لمبی چوڑی بحث ہے ہی نہیں۔ فرماتے ہیں : حروفِ تنبیہ تین ہیں، اب سمجھ آ گئی کہ ان حروفِ تنبیہ کو تنبیہ کیوں کہا جاتا ہے؟ یعنی یہ وہ حروف ہیں جن کے ذریعے مخاطب کو متنبہ کیا جاتا ہے، متوجہ کیا جاتا ہے، خبردار کیا جاتا ہے کہ مخاطب متکلم کی بات کو سنے تاکہ متکلم جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سارا اس تک پہنچے، کوئی بات زائد اس کی نہ ہو جائے۔ اس کے لیے عربی زبان میں تین حروف وضع کیے گئے ہیں اگلے کو یعنی مخاطب کو متوجہ کرنے کے لیے۔ "حُرُوفُ التَّنْبِيهِ ثَلَاثَةٌ" تین ہیں "أَلَا"، "أَمَا" اور "هَا"۔ "وُضِعَتْ" ان کو وضع کیا گیا ہے، ان کو واضع نے وضع کیا ہے "لِتَنْبِيهِ الْمُخَاطَبِ" مخاطب کو متوجہ کرنے کے لیے، متنبہ کرنے کے لیے، خبردار کرنے کے لیے تاکہ وہ غفلت میں نہ رہے کیوں؟ "لِئَلَّا يَفُوتَهُ شَيْءٌ مِنَ الْكَلَامِ" تاکہ متکلم جو کلام کر رہا ہے اس کی اس کلام میں سے، اس بات میں سے کوئی شے مخاطب سے رہ نہ جائے، فوت نہ ہو جائے یعنی اس سے رہ نہ جائے۔  یہ تو تھی ان کے حروف کی وجہِ علت کہ ان کو کس لیے بنایا گیا ہے۔

أَلَا اور أَمَا کا استعمال

اب ان کے نام سے ہی واضح حروفِ تنبیہ یعنی متوجہ کرنا، خبردار۔ ان تین میں سے فرماتے ہیں جو ہیں "أَلَا" اور "أَمَا" یہ "أَلَا" اور "أَمَا" فقط جملے پر داخل ہوتے ہیں، اب وہ جملہ چاہے جملہ اسمیہ ہو چاہے جملہ، جملہ فعلیہ ہو۔ دوبارہ لکھ لیں۔ حروفِ تنبیہ میں سے "أَلَا" اور "أَمَا" فقط جملے پر داخل ہوتے ہیں۔ اچھا۔ پھر جملہ پر داخل ہوتے ہیں، اب وہ جملہ اسمیہ ہو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، جملہ فعلیہ ہو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ داخل یہ جملے پر ہوں گے۔ "أَلَا" اور "أَمَا" "لَا يَدْخُلَانِ إِلَّا عَلَى الْجُمْلَةِ"۔ یہ جملے کے علاوہ یعنی مفرد پر داخل نہیں ہوتے، یہ داخل نہیں ہوتے مگر جملہ پر، مراد کیا؟ یعنی یہ فقط جملے پر داخل ہوتے ہیں۔ اب وہ جملہ "اسْمِيَّةً كَانَتْ" چاہے وہ جملہ، جملہ اسمیہ ہو جیسے مثال آگے آ رہی ہے اور اسی سطر میں آ رہا ہے "أَوْ فِعْلِيَّةً" یہ چاہے فعلیہ ہو اس سے فرق نہیں پڑتا، ہونا جملہ چاہیے۔ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں کیسے؟ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی آیت ہے: "أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ"۔ اب "إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ" یہ جملہ، جملہ اسمیہ ہے اور اس پر "أَلَا" داخل ہوا ہے۔ اسی طرح شاعر کا یہ شعر، بڑا پیارا شعر ہے اگر ہم اس کو ویسے بھی دل میں جگہ دے دیں تو بڑا پیارا شعر ہے۔ کونسا؟ فرماتے ہیں: "أَمَا وَالَّذِي أَبْكَى وَأَضْحَكَ وَالَّذِي أَمَاتَ وَأَحْيَا وَالَّذِي أَمْرُهُ الْأَمْرُ"۔ یہ بھی جملہ ہے۔ فرماتے ہیں: "أَمَا" اب یہاں پر "أَمَا" داخل ہوا ہے کس پر؟ جملہ اسمیہ پر۔ "وَالَّذِي أَبْكَى وَأَضْحَكَ وَالَّذِي أَمَاتَ"۔ "أَمَا" خبردار "وَالَّذِي" یعنی اس ذات کی قسم "أَبْكَى" جس نے رلایا "وَأَضْحَكَ" جس نے ہنسایا "وَالَّذِي أَمَاتَ" واو پھر قسمیہ بنا لیں، اس ذات کی قسم کہ جو مارتی ہے، جو مارے گا، "وَأَحْيَا" جس نے زندہ کیا اور اس ذات کی قسم "أَمْرُهُ الْأَمْرُ" کہ جس کا حکم ہی اسی کا حکم ہوتا ہے کہ بس اسی کا حکم ہی اصل حکم ہے۔ اب یہاں پر "أَمَا" دیکھو کہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوا ہے بلکہ جملاتِ اسمیہ پر داخل ہوا ہے۔ "أَوْ فِعْلِيَّةً" یا اگر وہ جملہ، جملہ فعلیہ ہو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ "أَلَا" وہ بھی جملہ پر داخل ہوا، "أَمَا" وہ بھی جملہ، دونوں جملے اسمیہ تھے۔ اب اگر جملہ فعلیہ ہو تو بھی فرماتے ہیں یہ داخل ہوتے ہیں جیسے "أَمَا لَا تَفْعَلُ" یوں بھی کہہ سکتے ہیں۔ "أَلَا تَضْرِبُ" اب "أَمَا" یہ "لَا تَفْعَلُ" پہ داخل ہو سکتا ہے جملہ فعلیہ پر اور "أَلَا تَضْرِبُ" اب یہاں پر بھی جملہ فعلیہ ہے، اس پر بھی داخل ہو سکتا ہے "أَلَا"۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

هَا کا استعمال

باقی رہ گیا ایک، کونسا؟ وہ ہے "هَا"۔ تو فرماتے ہیں یہ "هَا" یہ فقط جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے۔ "هَا" فقط جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے کدھر گیا "هَا تَدْخُلُ عَلَى الْجُمْلَةِ الْاِسْمِيَّةِ" یعنی یہ فعلیہ پر داخل نہیں ہوتا۔ "هَا" جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے جیسے آپ کہیں "هَا" اس کے ذریعے متوجہ کریں "هَا زَيْدٌ قَائِمٌ" "وَالْمُفْرَدِ" اور البتہ "هَا" مفرد پر بھی یعنی اسم مفرد پر بھی داخل ہوتا ہے وہ چاہے جملہ نہ بھی ہو جیسے "هَذَا"۔ "هَا" علیحدہ ہے، "ذَا" علیحدہ ہے۔ "هَؤُلَاءِ" میں "هَا" علیحدہ ہے "أُولَاءِ" علیحدہ ہے۔ یہاں پر دیکھو کہ "هَا" مفرد پر داخل ہوا ہے۔ بس فرق یہ ہے اس کے اور ان کے درمیان کہ جو "أَمَا" اور "أَلَا" تھے وہ مفرد پر داخل نہیں ہوتے، "هَا" داخل ہوتا ہے۔ "أَمَا" اور "أَلَا" جملہ اسمیہ اور فعلیہ دونوں پر داخل ہوتے ہیں جبکہ "هَا" فقط اسمیہ پر داخل ہوتا ہے، فعلیہ پر داخل نہیں ہوتا۔ 

4

حروف النداء

اگلی فصل حروفِ نداء کے بارے میں، نداء یعنی کسی کو بلانا، کسی کو آواز دینا۔ فرماتے ہیں جب بلایا جاتا ہے تو اس کے لیے بھی کچھ الفاظ کا، کچھ حروف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں پانچ حرف ایسے ہیں جو نداء کے لیے، جو بلانے کے لیے، جو آواز دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ کہ اگر کسی کو بلانا ہو تو ان پانچ حروف کے ساتھ اس کو بلاتے ہیں۔ کونسے؟ "يَا" ایک، "أَيَا" دو، "هَيَا" تین، "أَيْ" چار "وَالْهَمْزَةُ الْمَفْتُوحَةُ" یعنی "أَ" فقط "أَ" یہ ہو گۓ چھ۔

نِدَاء کی اقسام

اب فرماتے ہیں "وَالْهَمْزَةُ" ہمزہ "لِلْقَرِيبِ"۔ یعنی جو منادی جس کو آپ نے آواز دینی ہے اگر کوئی قریب کھڑا ہے تو وہاں اس کو بلاتے ہیں "أَ" کے ساتھ، "أَ" کے ساتھ۔ اگر منادی بہت بعید ہے، ڈاڈا دور کھڑا ہے تو اس کو آواز دیتے ہیں "أَيَا" اور "هَيَا"۔ "أَيَا" و "هَيَا لِلْبَعِيدِ" یعنی اگر منادی بعید ہو جس کو بلانا ہے وہ دور کھڑا ہو تو وہاں "أَ" کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ "أَيَا" اور "هَيَا" کا استعمال ہوتا ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ "وَيَا لَهُمَا"۔ "يَا" بعید کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور قریب کے لیے بھی۔ یعنی "يَا" وہ حرفِ ندا ہے کہ منادی بعید ہو تو بھی استعمال کر سکتے ہیں اور بعید ہو تو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ "وَلِلْمُتَوَسِّطِ" کدھر گیا؟ "لَهُمَا" یعنی "لِلْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ" منادی قریب ہو تو بھی یا کا استعمال ہو سکتا ہے، منادی بعید ہو تو بھی یا کا استعمال ہو سکتا ہے۔ اور آگے کیا ہے؟ آگے فرماتے ہیں کہ "وَلِلْمُتَوَسِّطِ" اور اگر منادی نہ زیادہ دور بعید کے یعنی زمرے میں آتا ہو نہ قریب کے، وہاں پر بھی یا استعمال ہو سکتا ہے۔ "وَ قَدْ قُرِّرَ أَحْكَامُ الْمُنَادَى" بہرحال یہ ساری باتیں منادی کا اعراب کیا ہو گا، فلاں کیا ہو گا، یہ سارے ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں۔ 

5

حُرُوفُ الْإِيجَابِ

حُرُوفُ الْإِيجَابِ

اگلی فصل وہ کس بارے میں ہے؟ فرماتے ہیں: یہ ہیں حروفِ ایجاب، ان حروفِ ایجاب کو حروفِ ایجاب کیوں کہا جاتا ہے؟ فرماتے ہیں: اس لیے، ایک تو ان کو ایجاب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ جواب کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک سوال ہو تو اس کا جواب دینا یا اس کی تصدیق کرنا یہ اس کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دوسرا اب جواب کبھی مثبت ہوتا ہے، کبھی منفی ہوتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر مثبت ہوتا ہے اس لیے ان کو ایجاب یعنی ہم اس کو کہہ سکتے ہیں یہ ان کا اسم، اسم تغلیبی ہے چونکہ غالباً جواب مثبت ہوتا ہے اس بنیاد پر۔ اب اس میں بھی کوئی لمبی چوڑی بحثیں نہیں ہیں، بالکل آسان اور سیدھی سیدھی بات ہے۔ فرماتے ہیں "حُرُوفُ الْإِيجَابِ"۔ اب یہ تو سمجھ آ گیا کہ اگر کوئی پوچھے بھائی یہ حروفِ ایجاب کیا ہیں؟ آپ جواب دیں گے حروفِ ایجاب یعنی وہ جو جواب دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ایک بندے نے بات کی ہے کوئی، وہ ہو سکتا ہے مثبت بات ہو، ہو سکتا ہے منفی بات ہو، آپ نے اس کا جواب دینا ہے تو جو جواب دینا ہے اس کے لیے بھی کچھ حروف ہیں، ان حروف کو حروفِ ایجاب کہا جاتا ہے۔ حروفِ ایجاب چھ ہیں۔ کتنے؟ چھ۔ کون کونسے؟  نَعَم ایک ، بَلَی دو، اَجَل تین، جَیرِ چار، اِنَّ پانچ، اِی چھ۔ یہ چھ ان کو کہا جاتا ہے حروفِ ایجاب۔ نعم، بلی، اجل، جیر، اور آخری ہے ای۔ 

 حروف ایجاب کا استعمال

فرماتے ہیں: "نَعَمْ لِتَقْرِيرِ كَلَامٍ سَابِقٍ مُثْبَتًا كَانَ أَوْ مَنْفِيًّا"۔ ایک کلام پہلے گزری آپ اسی کلام کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہاں یہ بات ایسی ہے۔ اب پہلے وہ کلام جس نے کی ہے وہ مثبت ہے تو یہ اسی اثبات کو ثابت کریں گے، اگر وہ منفی ہے تو یہ اس کے اس نفی کو ثابت کریں گے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے "أَجَاءَ زَيْدٌ؟" کیا زید آیا؟ "قُلْتَ" آپ جواب میں کہیں گے "نَعَمْ" یعنی اثبات کر رہے ہیں اسی کو اس کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہاں زید آیا۔ یا وہ کہتا ہے "أَمَا جَاءَ زَيْدٌ؟" کیا زید نہیں آیا؟ آپ جواب میں کہیں گے "قُلْتَ نَعَمْ" آپ کہیں گے ہاں، اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی یہاں نفی کا، یعنی جو کلامِ سابق میں کہا گیا آپ نے نام کا استعمال کرنا ہے اس کی اسی بات کی گویا کہ تصدیق کر دینی ہے، تثبیت کر دینی ہے کہ بالکل بات ایسی ہے جو آپ نے کہی ہے۔ اب وہ مثبت تھی تو مثبت، منفی تھی تو منفی۔  فرماتے ہیں:  "بَلَی: تَخْتَصُّ بِإِيجَابِ مَا نُفِيَ اسْتِفْهَامًا"۔ بلی کہاں استعمال ہونا ہے؟ فرماتے ہیں :استفہام کی کیفیت میں، یعنی استفہام میں جس چیز کی نفی کی گئی تھی آپ بلی کے ذریعے اس کا ایجاب کرتے ہیں۔اب اس مثال کو سمجھیں گے نا ساری بات کھل جائے گی۔ مثال، استفہام میں نفی کیا؟ خداوندِ متعال نے فرمایا "أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ یعنی استفہام میں ربوبیت کی نفی کی گئی، جواب آیا بلی۔ بلی کا مطلب کیا ہے؟ کہ جس کی نفی کی گئی تھی آپ نے بلی کے ذریعے اس کا ایجاب کیا ہے۔ کیا؟ بلی کا معنی یہ نہیں کہ ہاں تو رب نہیں ہے بلکہ بلی کا معنی یہ ہے کہ تو رب ہے۔ یعنی استفہام میں جس کی نفی تھی آپ نے بلی کے ذریعے اس کا ایجاب کیا، اس کو ثابت کیا۔  "أَوْ خَبَرًا" "كَمَا إِذَا قِيلَ لَمْ يَقُمْ زَيْدٌ قُلْتَ بَلَى"۔ یا یہ ہے کہ یہ بلی خبر کا معنی دیتا ہے۔ مثلاً اگر کہتا ہے کوئی یہ کہا جائے کہ "لَمْ يَقُمْ زَيْدٌ" زید کھڑا نہیں ہوا آپ جواب میں کہیں گے بلی۔ بلی کا مطلب کیا ہو گا؟ آپ خبر دے رہے ہیں "قَدْ قَامَ" کہ نہیں وہ کھڑا ہے۔ یہاں پر یہ خبر بن رہا ہے۔

إِيْ کا استعمال

"إِيْ" یہ کس کے لیے آتا ہے؟ فرماتے ہیں یہ آتا ہے "لِلْإِثْبَاتِ بَعْدَ الِاسْتِفْهَامِ"۔ ایک سوال ہوا، استفہام ہوا، اس استفہام کے بعد یہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے آتا ہے لیکن "يَلْزَمُهَا الْقَسَمُ" لیکن اس کو قسم لازم ہے۔ "كَمَا إِذَا قِيلَ" جیسا کہ کہا جائے "هَلْ قَامَ كَذَا؟" کیا یہ کام ایسے تھا؟ آپ جواب میں کہیں گے "قُلْتَ" آپ جواب میں کہیں گے "إِيْ وَاللهِ" یعنی یہاں آپ اثبات کریں گے لیکن اس کے بعد قسم کا لگانا ضروری ہے۔ یعنی ای علیحدہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ "إِيْ وَاللهِ" یعنی ای کے بعد قسم کا آنا ضروری ہے۔ 

أَجَلْ، جَيْرِ اور إِنَّ کا استعمال

اور باقی رہ گئے "أَجَلْ"، "جَيْرِ" اور "إِنَّ" فرماتے ہیں یہ تینوں "لِتَصْدِيقِ الْخَبَرِ" خبر کی تصدیق کے لیے آتے ہیں کہ اگر کوئی آ کر کہتا ہے "جَاءَ زَيْدٌ" زید آیا ہے "قُلْتَ" آپ بھی جواب میں کہیں گے اجل یا جیر یا انا۔ کیا مطلب؟ یعنی آپ اس کی بات کی تصدیق کریں گے یعنی کیا؟ "يَعْنِي أُصَدِّقُكَ فِي هَذَا الْخَبَرِ" کہ اس خبر میں تیری تصدیق کرتا ہوں۔ 

 حروف ایجاب کی مزید وضاحتیں

اب ایک دو چیزیں ہیں وہ ویسے آپ یاد کر لیں کہ ان حروفِ ایجاب کو حروفِ تصدیق بھی کہا جاتا ہے۔ ایک۔ دوسری بات، یہ جو انہی حروف میں ایک حرف ہے نام اس نام کے بارے میں مشہور ہے بعض پڑھتے ہیں نعم، بعض پڑھتے ہیں نعم، بعض پڑھتے ہیں ناعم اور بعض پڑھتے ہیں نعم لیکن نام سب سے زیادہ مشہور بہرحال وہی ہے۔

 وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ

فصل : حروف التنبيه

ثلاثة : «ألا ، وأما وها» ، وضعت لتنبيه المخاطب لئلّا يفوته شيء من الحكم.

«فألا وأما» لا تدخلان إلّا على الجملة ، اسميّة كانت نحو قوله تعالى : «أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ» (١) ، وكقوله :

أما وَالَّذي أبْكىٰ وَأضْحَكَ وَالَّذي

أماتَ وأَحيىٰ وَالَّذي أمْرُهُ الْأمْرُ (٢)

أو فعليّة نحو : ألا لا تَفْعَلْ ، وأما لا تَضْربْ.

الثالث : ها ، تدخل على الجملة نحو : ها زَيْدٌ قائِمٌ ، والمفرد نحو : هذا وَهؤُلاءِ.

فصل : حروف النداء

حروف النداء خمسة : «يا ، وأيا ، وهَيا ، وأي ، والْهَمْزَةُ المفتوحة للقريب» ، وأيا وهَيا للبعيد ، ويا لهما وللمتوسّط ، وقد مرّ احكامها.

فصل : حروف الإيجاب

ستّة : «نَعَمْ ، وبَلْ ، وإيْ ، وأجَلْ ، وجَيْرِ ، وإنَّ».

____________________________

(١) البقرة : ١٢.

(٢) يعنى : آگاه باش قسم به آنچنان كسى كه گريانيده است و خندانيده است خلايق را و قسم به آنچنان كسى كه ميرانيده و زنده گردانيده است خلايق را و قسم به آنچنان كسى كه حكم او ثابت و محقق است و لا محاله جارى خواهد شد. شاهد در اما استفتاحيّه است كه بمعنى الا است و از براى تنبيه است و واقع شده است پيش از واو قسم و داخل شده است بر جمله اسميّة. (جامع الشواهد).

أمّا «نعم» : فلتقرير كلام سابق مثبتاً كان أو منفيّاً.

و «بلى» : تختصّ بإيجاب نفي بعد الاستفهام كقوله تعالى : «أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ» (١) ، وخبراً كما يقال : لَمْ يَقُمْ زَيْدٌ ، قلت : بَلىٰ ، أي قد قام.

و «إيْ» : للإثبات بعد الاستفهام ويلزمها «هل» كما اذا قيل لك : هَلْ كانَ كَذا ؟ قلت : إيْ وَاللهِ.

و «أجَلْ ، وجيْر وإنَّ» : لتصديق الخبر فإذا قيل : جاءَ زَيْدٌ ، قلت : أجَلْ وجَيْر وإنَّ ، أي اُصدِّقُكَ في هذا الخبر.

فصل : حروف الزيادة

سبعة : «إنْ ، وأنْ ، وما ، ولا ، ومِنْ ، والباء ، واللام».

«فإنْ» : تزاد مع ما النافية نحو : ما إنْ زيدٌ قائِمٌ ، ومع ما المصدريّة نحو : انتظِرْ ما إنْ يَجْلِس الْأميرُ ، ومع لَمّا نحو : لَمّا إنْ جَلَسْتَ جَلَسْتُ.

و «أنْ» : تزاد مع لمّا نحو قوله تعالى : «فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ» (٢) ، وبين واو القسم ولو نحو : وَاللهِ أنْ لَوْ قُمْتَ قُمْتُ.

و «ما» : تزاد مع إذْ ، ومَتىٰ ، وأنّى ، وأيْنَ ، وإنْ الشرطيّة كما تقول : إذْ ما صُمْتَ صُمْتُ ، وكذلك البواقي ، وبعد بعض حروف الجرّ نحو قوله تعالى : «فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ» (٣).

و «لا» : قليل وتزاد مع الواو بعد النفي نحو : ما جاءَ زَيْدٌ ولا عَمْروٌ ، وبعد أنْ المصدريّة نحو قوله تعالى : «مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ» (٤).

____________________________

(١) الأعراف : ١٧٢.

(٣) آل عمران : ١٥٩.

(٢) يوسف : ٩٦.

(٤) الأعراف : ١٢.